April 21, 2025 12:11 am

English / Urdu

’تم کھوکھلے ہو، تمھاری کوئی حیثیت نہیں، صرف ایک دھرنے کی مار ہو‘ حافظ نعیم الرحمان کی حکمرانوں کو للکار

امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ حکمرانوں نے آئی ایم ایف کو اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے، ملک پر غلام ابنِ غلام مسلط ہیں۔ امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے میں کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے لیے حکمرانوں کی معیشیت سے بات نکل کر اب تابعداری تک آ پہنچی ہے، حکومت ملکی خودمختاری کو ٹھوکر مار کرآئی ایم ایف کے آگے لیٹ گئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کا بہانہ بنا کر غریبوں اور کسانوں کا استحصال نہیں کیا جا سکتا، حکومت کسانوں کی تمام فصلوں کو خریدے، یہ ان کا حق ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ ایک فیصد لوگ ہیں جن کے پاس زمین کا 30فیصد رقبہ ہے، یہ بڑے جاگیردار ہیں، لیکن 99فیصد کسانوں میں سے اکثر کے پاس ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم زمین ہے، ان کو سبسڈی ملنی چاہیے، ان کی اجناس کا ریٹ مناسب ہونا چاہیے، حکومت کسانوں سے براہ راست گندم، کپاس، گناخریدے۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ صاف بتا دوں کہ پاکستان میں کسانوں کی منظم آواز اب اٹھ چکی، سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات میں الجھی ہیں، لیکن کسانوں کی کسی کو پروا نہیں۔ امیر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ جماعت اسلامی کی جانب سے ”حق دو عوام“ تحریک شروع کی گئی ہے، یہ مزدوروں، کسانوں، غریبوں کی تحریک ہے۔ آج بہاولنگر سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ یہاں پہنچے ہیں۔ یہ تحریک  اب پھیلے گی، پنجاب کے 41 اضلاع سے کارواں نکلے گا، جو لاہور دھرنے کی تاریخ بدل دے گا۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ جماعتِ اسلامی یہ اعلان کر رہی ہے کہ ‘تمہیں عوام کو حق دینا پڑے گا،’ گزشتہ سال پنجاب حکومت نے کسانوں کو دھوکا دیا، گندم کا ریٹ طے کیا اور پھر اس سے بھی مکر گئی، حکومتی سطح پر اتنا بڑا ھوکا، فراڈ کیا اور ہھر کہا کہ ہم زراعت کو ترقی دینا چاہتے ہیں؟ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ بہاولنگر ایک زرعی ضلع ہے، بڑے پیمانے پر گندم، کپاس اور چاول پیدا کرتا ہے، لیکن وہاں کسانوں کا برا حال ہے۔ اس لیے ہم اس احتجاجی اقدام کی مکمل تائید کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جتنے مطالبات انہوں نے اپنی فہرست میں رکھے ہیں ان کو تسلیم کیا جائے۔ قرضوں میں جکڑے ہوئے یہ کسان آج اپنا حق طلب کر رہے ہیں کہ گندم کا ریٹ بھی فکس کیا جائے اور جو پچھلا ڈیفیسٹ تھا، اسے بھی پورا کیا جائے۔

ٹرمپ کا مودی کو ایف 35، اربوں ڈالرز کا جنگی سازوسامان دینے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کے درمیان واشنگٹن میں ہونے والی ایک اہم ملاقات کے دوران ایک تاریخ ساز دفاعی معاہدے پر بات چیت کی گئی۔ اس معاہدے کے تحت امریکا انڈین کو اربوں ڈالرز مالیت کا جدید اسلحہ فراہم کرے گا جس میں ایف-35 اسٹیلتھ فائٹر جیٹ کی فراہمی بھی شامل ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ “ہم اس سال سے انڈین کو اسلحہ فروخت بڑھا دیں گے، جس میں ایف-35 اسٹیلتھ فائٹر جیٹس بھی شامل ہوں گے۔” ایف-35 جیٹ ایک جدید ترین جنگی طیارہ ہے جو دنیا کے چند منتخب ممالک کو ہی فراہم کیا جاتا ہے جن میں اسرائیل، جاپان، اور نیٹو کے رکن ممالک شامل ہیں۔ انڈیا کے لیے اس طیارے کا حصول ایک بڑی کامیابی ثابت ہو گا کیونکہ یہ اسے عالمی سطح پر اپنے دفاعی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ اس ملاقات میں انڈیا اور امریکا نے اپنے دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اہم اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک “انتہاپسند اسلامک دہشت گردی” کے خلاف مشترکہ طور پر کام کریں گے اور اس کے تدارک کے لیے نئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ یہ معاہدہ صرف فوجی تعلقات کو مستحکم کرنے تک محدود نہیں، بلکہ اس میں توانائی کے شعبے میں بھی تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا ہے۔ انڈیا کے لیے امریکی تیل اور گیس کی درآمدات بڑھانے کی بات کی گئی تاکہ امریکا کا تجارتی خسارہ کم کیا جا سکے۔ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے اس معاہدے کو انڈیا کی فوجی جدید کاری کے ایک اہم قدم کے طور پر سراہا۔ انڈیا کی فوجی جدید کاری کے لیے امریکا سے دفاعی سازوسامان کی خریداری گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے اور 2008 سے لے کر اب تک بھارت نے امریکی دفاعی مصنوعات پر 20 ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے ہیں۔ اس کے علاوہبھارت نے 2024 میں 31 MQ-9B SeaGuardian اور SkyGuardian ڈرونز خریدنے کا معاہدہ بھی کیا ہے جس پر چھ سال سے زائد بات چیت جاری تھی۔ یہ بھی پڑھیں: امید ہے عرب ممالک غزہ پر ٹرمپ کو اچھا منصوبہ پیش کریں گے: امریکا امریکا اور انڈیا کے درمیان یہ دفاعی معاہدہ ایک اہم جغرافیائی سیاسی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ امریکا انڈیا کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ دونوں ممالک ‘کواڈ’ سیکیورٹی معاہدے کے رکن ہیں جس میں جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد چین کے اثرات کو محدود کرنا اور ایشیا کے علاقے میں طاقت کا توازن قائم رکھنا ہے۔ انڈیا اور چین کے درمیان 3,488 کلومیٹر طویل سرحد ہے جہاں دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کے سبب 2020 میں خونریز جھڑپیں ہو چکی ہیں، جن میں 20 سے زائد بھارتی فوجی شہید ہو گئے تھے۔ انڈیا کے لیے جدید ترین اسلحہ کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے طاقتور فوجی صلاحیتیں حاصل کرے۔ ماضی میں انڈیا کا دفاعی سامان کا سب سے بڑا سپلائر روس تھا، مگر یوکرین جنگ اور اس کے نتیجے میں روس پر عائد عالمی پابندیوں نے انڈیا کو امریکا کی طرف مائل کر دیا ہے۔ انڈیا کے لیے امریکی دفاعی سامان کی خریداری ایک نئی حکمت عملی کے تحت کی جا رہی ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر اپنے دفاعی تعلقات کو متوازن اور مستحکم کرنا ہے۔ اس معاہدے کی کامیابی میں ایک اور عنصر دونوں رہنماؤں کی ذاتی دوستی بھی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے مودی کو ‘ایک سخت ترین مذاکرات کار’ قرار دیا اور کہا کہ وہ ان کے ساتھ دفاعی معاہدے پر بات چیت کرنے کے دوران ہمیشہ بہت چیلنجنگ ثابت ہوئے۔ وزیرِ اعظم مودی نے ٹرمپ کو اپنا ‘دوست’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں بھی وہ ‘میک امریکا گریٹ اگین’ کی طرح کا نعرہ لگائیں گے۔ امریکا اور انڈیا کے درمیان اس معاہدے سے دفاعی تعلقات میں ایک نیا باب کھلنے جا رہا ہے۔ ایف-35 جےٹس کا معاہدہ انڈیا کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے جو اسے عالمی سطح پر اپنی دفاعی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا موقع دے گا۔ اس کے علاوہ امریکا کی مدد سے انڈیا اپنی فوجی جدید کاری کے منصوبے کو بھی کامیابی سے عملی جامہ پہنا سکے گا جو اسے چین اور دیگر علاقائی طاقتوں کے مقابلے میں برتری حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔ مزید پڑھیں: امریکا سے 120 تارکین وطن ملک بدر، کتنے پاکستانی شامل ہیں؟

’کسی کا کوئی خط نہیں ملا، یہ سب چالیں ہیں‘ آرمی چیف کا صاف انکار

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا، خط کی تمام باتیں چالیں ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا، اگر کسی کا خط ملا بھی تو نہیں پڑھوں گا، خط کی تمام باتیں چالیں ہیں۔ اگر کوئی خط ملا تو وزیرِاعظم کو بھجوا دوں گا۔ آرمی چیف نے کہا ہے کہ ملک بہت اچھے انداز سے آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان میں ترقی ہو رہی ہے۔ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے اور اسے آگے بڑھنا چاہیے۔ مزید پڑھیں: عمران خان کا آرمی چیف کو تیسرا خط، کیا لکھا؟ واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں اور وکلاء سے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ انھوں نے آرمی چیف کو خط لکھا ہے، جو کہ انھوں نے عوام کی وجہ سے لکھا ہے۔ اب تک بانی پی ٹی آئی کی جانب سے 3 خط لکھے جانے کی اطلاعات آئی ہیں، مگر عاصم منیر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ انھیں کسی قسم کا خط نہیں ملا اور وہ خط پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

’طلبا اپنی تعلیم پر توجہ دیں‘ آرمی چیف کا سٹوڈنٹس کے اجتماع سے خطاب

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے طلبا کے اجتماع سے خطاب  کیا، ملک بھر سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا اجتماع میں شریک تھے،عاصم منیر نے کہا کہ طلبا اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔ آرمی چیف نے کہا ہے کہ طلبا اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں بہترین کارکردگی کے لیے کوشش کریں اور اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔ طلبا اپنے اندر ایسی مہارتیں پیدا کریں، جو انہیں ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنائیں، نواجون ہی پاکستان کے مستقبل کے رہنما ہیں۔ آرمی چیف نے خاص طور پر سرحد پار  سے دہشت گردی کے خطرے پر  خیالات کا اظہار کیا، نوجوانوں کی توانائی، تخلیقی صلاحیت اور اختراعی صلاحیتوں کی تعریف کی۔ پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لئے جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کے کردار کو اجاگر کیا،   دہشت گردی کے خلاف قومی جدوجہد میں پاکستانی عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ عاصم منیر نے  مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ثابت قدمی اور تعاون کی تعریف بھی کی۔

’ منی لانڈرز کو اقتدار میں بٹھایا گیا ہے‘ عمران خان نے آرمی چیف کو تیسرا خط لکھ دیا

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو تیسرا خط لکھ دیا۔ جس میں ’منی لانڈرزکو اقتدار میں بٹھانے‘ کا شکوہ کیا گیا ہے۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھاکہ عمران خان نے آج آرمی چیف کو تیسرا خط لکھا ہے جس میں الیکشن فراڈ کے ذریعے اقلیت کو اکثریت پر ترجیح دینے کا معاملہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ بانی پی ٹی آئی کے تیسرے خط کے مندرجات آج سامنے آئیں گے۔ فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ نو مئی کے واقعے پرآج بھی جوڈیشل کمیشن کے قیام کے مطالبے پرقائم ہیں، آٹھ فروری کے بعد پنجاب میں چھاپوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ عامر ڈوگر کو اپوزیشن کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کا ممبربنایا گیا ہے، سیاسی کمیٹی میں کچھ نئے ممبران کے اضافہ کا فیصلہ کیا گیا ہے، انتظار پنجوتھا کو آج جیل میں نہیں جانے دیا گیا۔  وکلا کو جیل ٹرائل میں نہیں جانے دیا جارہا، ہم جی ایچ کیو کیس میں بھی اوپن ٹرائل کی درخواست دائر کرینگے۔ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھے تھے جن میں پالیسیاں تبدیل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس پر سکیورٹی ذرائع نے کہا تھاکہ آرمی چیف کو عمران خان کا کوئی خط موصول نہیں ہوا، ایسے کسی خط کو پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف آف آرمی سٹاف کو اس سے قبل لکھے گئے خط میں عمران خان نے فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی کچھ بنیادی وجوہات بیان کی ہیں، جنہوں نے پاکستان کے قومی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مزید پڑھیں: عمران خان کی بہنیں بے گناہ، اعظم سواتی گناہگار قرار عمران خان نے سب سے پہلی وجہ 2024 کے انتخابات میں ہونے والی ‘تاریخی دھاندلی’ کو قرار دیا ہے جس نے عوامی مینڈیٹ کی سرعام چوری کی ہے۔ ان کے مطابق 17 نشستوں پر کامیاب ہونے والی ایک سیاسی جماعت کو اقتدار سونپنے کا عمل ملک کی جمہوریت کے لیے سنگین دھچکا ثابت ہوا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایجنسیوں کی مدد سے سیاسی انجینئرنگ کی جس کے نتیجے میں عوام کا اعتماد ٹوٹ گیا۔ دوسری اہم وجہ چھبیسویں آئینی ترمیم کو بتایا جس میں عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے آئین و قانون کی دھجیاں اُڑائی گئیں۔

چین کی امریکا پر شدید تنقید: تائیوان اسٹریٹ میں امریکی نیول پیٹرول نے سیکیورٹی خطرات بڑھا دیے

چین کی فوج نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے تائیوان اسٹریٹ میں اپنی نیول پیٹرولنگ کے ذریعے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔ اس بات کا اعلان چینی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کی جانب سے کیا گیا جس نے دو امریکی جنگی جہازوں کی تائیوان اسٹریٹ میں موجودگی کی سختی سے مذمت کی۔ امریکی نیوی کے مطابق یہ پیٹرول ایک معمولی فوجی مشق تھی تاہم چین کے لیے یہ ایک خطرے کی علامت بن گئی ہے۔ چین کی فوج نے کہا کہ انہوں نے USS رالف جانسن، جو کہ ایک نیول ڈسٹرائر ہے اور USNS باؤڈچ، جو کہ ایک سروے جہاز ہے اس کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی تھی۔ یہ دونوں امریکی جہاز پیر سے بدھ تک تائیوان اسٹریٹ سے گزرے تھے جو کہ بین الاقوامی آبی راستہ ہے۔ چینی فوج کے مشرقی تھیٹر کمانڈ کے ترجمان کرنل ‘لی ژی’ نے کہا “امریکی اقدامات نے غلط پیغام بھیجا ہے اور اس سے سیکیورٹی خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ چینی فوج اس علاقے میں ہمیشہ چوکس رہتی ہے اور اپنے قومی خودمختاری، سیکیورٹی اور علاقائی امن کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اسٹریٹ اس کے زیرِ تسلط ہے اور وہ کسی بھی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔ چین کا موقف ہے کہ یہ علاقہ اس کی ‘مذہبی خودمختاری’ کا حصہ ہے اور وہ اسے کسی بھی صورت میں نہیں چھوڑے گا۔ مزید پڑھیں: “اگر ہفتے تک یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو غزہ میں جنگ بندی ختم ہو جائے گی”:اسرائیلی وزیر اعظم کی دھمکی چین کی تائیوان امور کی دفتر کی ترجمان ژو فنگلیان نے کہا کہ “ہم کسی بھی بیرونی مداخلت کے خلاف مضبوط موقف رکھتے ہیں اور ہمارے پاس اپنے ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرنے کی مکمل صلاحیت اور اعتماد ہے۔” دوسری جانب امریکی نیوی نے اس پیٹرول کو ایک معمولی مشق قرار دیا ہے۔ امریکی فوج کے ترجمان میتھیو کومر نے کہا “یہ پیٹرول تائیوان اسٹریٹ کے اس کوریڈور میں کیا گیا جو کسی بھی ساحلی ریاست کے سمندری حدود سے باہر ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس کوریڈور میں تمام ممالک کو سمندری آزادی کا حق حاصل ہے جس کے تحت وہ آزادانہ نقل و حرکت، پرواز اور سمندری راستوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ امریکا نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ پیٹرولنگ امریکا کی آزادی اور عالمی آبی راستوں کے تحفظ کے لیے ایک معمولی مشق کا حصہ ہے۔ امریکی نیوی کے مطابق اس طرح کی مشقیں اکثر کی جاتی ہیں اور یہ تائیوان اسٹریٹ میں آزادی کی مشقوں کا حصہ ہیں۔ چین کے لیے یہ بات کوئی معمولی نہیں ہے، کیونکہ تائیوان اسٹریٹ میں امریکی نیول پیٹرول کی موجودگی کو وہ اپنے خودمختاری کے لیے ایک دھچکا سمجھتا ہے۔ چینی فوج کے مطابق اس نوعیت کے اقدامات نہ صرف چین کے لیے، بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی بن سکتے ہیں۔ چین کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ “ہم اپنی سرحدوں اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہمیشہ تیار ہیں اور کسی بھی ممکنہ خطرے کا جواب دینے کے لیے پوری طرح سے چوکس ہیں۔” یہ بھی پڑھیں: فلسطینی کسی محفوظ مقام پر جاکر رہیں، ٹرمپ کی اردنی بادشاہ سے ملاقات چین نے تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ قرار دے رکھا ہے اور وہ اس پر مکمل خودمختاری کا دعویٰ کرتا ہے۔ دوسری جانب امریکا تائیوان کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد فراہم کرتا ہے جس سے چین کی فوجی سرگرمیاں اور بڑھ گئی ہیں۔ چین نے تائیوان کے قریب اپنے فضائی اور نیول مشقوں کو بڑھا دیا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔ ان مشقوں میں ‘گرے زون’ حکمت عملی اپنائی گئی ہے، جس کا مقصد تائیوان کو دباؤ میں لانا اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو جانچنا ہے۔ چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ 2047 تک تائیوان کو اپنے قبضے میں لے لے گا چاہے وہ طاقت کا استعمال کرے یا امن سے۔ اس کے باوجود، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تائیوان میں دلچسپی اور دفاعی امداد چین کے لیے ایک مسلسل چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اس وقت صورتحال کشیدہ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تصادم کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ چین نے اپنی فوجی تیاریوں کو مزید تیز کر دیا ہے تاہم امریکا نے بھی اپنی نیول موجودگی کو بڑھانے کی کوشش کی ہے تاکہ عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھ سکے۔ یہ تنازعہ نہ صرف چین اور امریکا کے تعلقات کو متاثر کر رہا ہے بلکہ پورے خطے کی سیکیورٹی صورتحال کو بھی پیچیدہ بنا رہا ہے۔ تائیوان اسٹریٹ میں جاری اس کشیدگی نے عالمی برادری کی نظریں مشرقی ایشیا پر مرکوز کر دی ہیں، جہاں امن اور استحکام کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ لازمی پڑھیں: امریکا کی غزہ کو’جہنم بنانے‘ کی دھمکی، قیدی رہا نہ کیے گئے تو جنگ بندی ختم کرنے کا کہوں گا: ٹرمپ

“مسئلہ فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ممکن  ہے” وزیراعظم

ورلڈ گورنمنٹس سمٹ کا اجلاس دبئی میں منعقد ہوا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مسئلہ فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ممکن ہے، اور پائیدار و منصفانہ امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گورنمنٹس سمٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے خطے میں امن قائم ہو گا وزیراعظم نے کہا کہ غزہ میں نسل کشی کی گئی جس میں 50 ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا گیا،فلسطین میں 50 ہزار سے زیادہ معصوم جانیں ضائع ہوئی اور آزاد فلسطین کا درالحکومت القدس ہے انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ممکن  ہے،پائیدار اور منصفانہ امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ممکن ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم محمد شہبازشریف اور بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کی چیئرپرسن برائے صدارت  کی دبئی، متحدہ عرب امارات میں  ورلڈ گورنمنٹس سمٹ کے موقع پر ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم نے بوسنیا اور ہرزیگووینا کے ساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ دونوں ممالک کے مابین تعاون پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، وزیراعظم نے دوطرفہ تعلقات کو باہمی طور پر مفید تجارتی اور اقتصادی تعلقات پر مبنی ایک مضبوط و وسیع البنیاد شراکت داری میں تبدیل کرنے کی پاکستان کی خواہش اظہار کیا۔ بوسنیا اور ہرزیگوینا کے لیے یورپی یونین کی رکنیت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے، وزیراعظم نے کہا کہ بوسنیا اور ہرزیگوینا کی بطور علاقائی روابط کے مرکز کی بے پناہ صلاحیت اور مستقبل میں یورپی یونین کی رکنیت بوسنیا اور ہرزیگوینا کے راستے پاکستانی اشیاء کے بلقان اور مشرقی یورپی منڈیوں تک رسائی کے مواقع فراہم کرے گی۔ بوسنیا اور ہرزیگوینا کی چیئرپرسن برائے صدارت نے پاکستان کی جانب سے نیک خواہشات پر وزیرِ اعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بوسنیا اور پاکستان کے مابین مختلف شعبوں بالخصوص تجارت و سرمایہ کاری میں فروغ کی خواہش کا اظہار کیا. دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے مزید فروغ کے لیے مل کر کام کرنے روابط کی مضبوطی پر اتفاق کیا

سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی شمولیت کیوں ضروری ہے؟

اس وقت پوری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی جنگ چل رہی ہے، ہر ملک کی خواہش ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنا لوہا منوائے، یہی وجہ ہے کہ امریکا کہ چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی تول بنانے کے محض ایک سال بعد ہی چائنہ نے امریکا کی نسبت کئی گنا سستا اور معیاری ڈیپ سیک بنا کر عالمی دنیا میں اپنی برتری ظاہر کر دی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی  کے بغیر کسی ملک کی ترقی کا تصور ممکن نہیں، جس کی وجہ سے ایک  سوال جنم لیتا  ہے کہ کیا خواتین کو اس شعبے میں مردوں کے مساوی مواقع حاصل ہیں؟ عالمی سطح پر تو خواتین سائنسدانوں نے بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اپنا لوہا منوا چکی ہیں، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ شعبہ اب بھی مردوں کا غلبہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین ہر میدان میں کافی پیچھے ہیں، جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی ہونا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کاکردار ماضی میں بھی رہا ہے، کئی خواتین سائنسدانوں نے کامیابیاں سمیٹیں اور دنیا کو بتا دیا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں،  جن میں ماری کیوری، روزالینڈ فرینکلن اور ایڈا لاولیس سرِفہرست ہیں، مگر کیا آج کے جدید دور میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کے پاس بنیادی حقوق ہیں؟ اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں سائنسی تحقیق میں کام کرنے والے افراد میں صرف 30 فیصد خواتین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں  خواتین کے لیے حالات بہتر ہو رہے ہیں اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں، مگر ترقی پذیر ممالک خاص کر پاکستان جیسے ملک میں خواتین کی بنیادی تعلیم میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ حالیہ کچھ عرصے میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ پاکستان میں خواتین کی بڑی تعداد میڈیکل اور بائیولوجیکل سائنسز میں دلچسپی رکھتی ہے، لیکن انجینئرنگ، فزکس اور دیگر سائنسی شعبوں میں ان کی نمائندگی کم ہے۔ بہت سی نوجوان پاکستانی خواتین سائنسی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں، لیکن انہیں عملی میدان میں کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی زیادہ شمولیت سے نہ صرف معیشت بہتر ہو سکتی ہے، بلکہ صحت، ماحولیات اور دیگر شعبوں میں بھی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آئی ٹی ایکسپرٹ رابعہ وقار نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے لیے آئی ٹی فری لانسنگ، ایس ٹی ای ایم اسکالرشپس، حکومتی و نجی انیشیٹوز، ٹیک ہبز اور انکیوبیٹرز جیسے مواقع موجود ہیں۔ مگر خواتین کی راہ میں سماجی رویے میں تبدیلی، صنفی تعصب، محدود لیڈرشپ مواقع اور فیلڈ ورک میں مشکلات جیسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ آئی ٹی ماہر پروفیسر عائشہ جاوید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہےکہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں خواتین کی شمولیت انتہائی ضروری ہے۔ حکومت نئے ٹیکنالوجی پارکس اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے خواتین کو شامل کر رہی ہے تاکہ وہ ملکی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔ پاکستان میں سائنس کے شعبے میں خواتین کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، بہت سے والدین سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں لڑکیوں کے کیریئر کو غیر روایتی سمجھتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں بچیوں کو سائنسی تعلیم کے کم مواقع ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ مردوں کے مقابلے میں  خواتین کو تحقیق کے مواقع  کم ملتے ہیں۔ رابعہ وقار نے کہا ہے کہ سائنسی میدان میں خواتین کی کم نمائندگی کی وجوہات میں ثقافتی دباؤ، معاشرے میں کم  رول ماڈلز کا ہونا، ایس ٹی ای ایم تعلیم میں کم شمولیت، ورک لائف بیلنس  جیسی مشکلات کا ہونا ہے۔ رابعہ وقار کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی  کے شعبے میں ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اسکول لیول پر ایس ٹی ای ایم کی ترویج کی جائے، خواتین سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی، جینڈر انکلوژن پالیسیز اور فلیکسیبل ورک ماڈلز اپنائے جائیں۔ پروفیسر عائشہ جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تعلیم، صحت اور جدید معیشت میں شرکت کے مواقع بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت بھی اہم ہے، کیونکہ زیادہ تر تعلیمی ادارے نجی شعبے کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ رابعہ وقار نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ حکومت اور نجی ادارے خواتین کو سائنسی تحقیق اور جدت کی طرف راغب کرنے کے لیے کچھ حد تک مناسب اقدامات کر رہے ہیں، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑکیوں کے لیے سائنسی تعلیم کے مواقع کو بڑھایا جائے،  خواتین کے لیے خصوصی تحقیقی پروگرام متعارف کرائے جائیں، خواتین کو سٹارٹ اپس اور انٹرپرینیورشپ میں شامل ہونے کے لیے سپورٹ دی جائے، مزید یہ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کے لیے مزید اسکالرشپس اور خصوصی وظائف متعارف کرائے جائیں تاکہ وہ تحقیق میں آگے بڑھ سکیں۔ باقی دنیا کی طرح پاکستان نے بھی متعدد سائنسدان خواتین پیدا کی ہیں، جنھوں نے عالمی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے، ان میں سب سے پہلا نام فیصل آباد کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی ارفع عبدالکریم رندھاوا کا آتا ہے، جس نے محض 14 برس کی عمر میں سب سے کم عمر مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ دوسرا نام ڈاکٹر نرگس ماولوالا  کا آتا ہے، جنھوں نے طبیعیات کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھا ئی ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر تسنیم زہرا حسین کو پاکستان کی پہلی خاتون تھیوریٹیکل فزسسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پروفیسر عائشہ جاوید نے کہا ہے کہ پاکستان میں 43 آئی ٹی پارکس میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نئے پروگرامز کے ذریعے خواتین کو فری لانسنگ اور سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ میں تربیت دی جا رہی ہے۔ رابعہ وقار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو خواتین سائنسدانوں کے لیے ریسرچ فنڈنگ، لیڈرشپ مواقع  اور عملی تربیت کے پروگرامز متعارف کرانے چاہئیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب خواتین کی مثالیں دکھا کر حوصلہ افزائی کی جا ئے، تاکہ پاکستان بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کا مقابلہ کرے۔ آئی ٹی ایکسپرٹ عائشہ جاوید نے بتایا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں خواتین کی کامیابیوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے، لیکن مزید

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس: سپریم کورٹ کے 6 ججز کی منظوری دے دی گئی

پاکستان کی عدلیہ میں ایک اہم فیصلہ کیا گیا ہے جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کو عارضی جج تعینات کر دیا گیا ہے۔ یہ تعیناتی سپریم کورٹ کی جانب سے کیے گئے ایک جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران عمل میں آئی جس میں عدالت کے چھ نئے ججز کی تقرری کے فیصلے کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس کی صدارت چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کی اور اس میں سپریم کورٹ کے لیے نامزد چھ ججز میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق، سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شفیع صدیقی، بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم شامل ہیں۔ ان میں مزید جسٹس شکیل احمد (پشاور ہائیکورٹ) اور جسٹس صلاح الدین پنور (سندھ ہائیکورٹ) کو بھی سپریم کورٹ کے جج بنانے کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ میں قائم مقام جج کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست : سندھ اور لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا ان کی یہ عارضی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 181 کے تحت کی گئی ہے جس کے مطابق صدر مملکت کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس میاں گل حسن کی تعیناتی خصوصاً ٹیکس مقدمات کی جلد سماعت کے لیے کی گئی ہے کیونکہ چیف جسٹس پاکستان نے ان کی تعیناتی کی تجویز دی تھی۔ لیکن اس اہم ترقی کے ساتھ ہی ایک نیا تنازعہ بھی کھڑا ہوگیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے اس جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، جس کے نتیجے میں اجلاس میں شریک ارکان کی تعداد کم ہو گئی۔ حکومت کے نمائندے حزب اختلاف کے اراکین اور بار کونسل کے نمائندوں نے اس عمل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے باعث ملک بھر میں اس فیصلے کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ وکلا نے سپریم کورٹ بلڈنگ اور اس کے اطراف میں احتجاج شروع کر دیا ہے جس میں ججز کی تقرری اور 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف شدید نعرے بازی کی جا رہی ہے۔ ضرور پڑھیں: لیبیا میں پاکستانی شہریوں کی کشتی الٹ گئی: 65 مسافر سوار احتجاج کے پیش نظر سپریم کورٹ کی سیکیورٹی میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ڈی آئی جی سیکیورٹی علی رضا کی زیر نگرانی سخت حفاظتی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ دوسری جانب جوڈیشل کمیشن نے اجلاس میں سپریم کورٹ کے چھ نئے ججز کی تقرری کی منظوری دی ہے اور اس کے بعد تمام نوٹیفیکیشنز جاری کیے جائیں گے۔ اس اہم فیصلے کے بعد پاکستان کی عدلیہ میں ایک نیا باب شروع ہو گا، تاہم وکلا کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف احتجاج اور جوڈیشل کمیشن کی کارروائی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججز کی نئی تعیناتیاں اور اس سے جڑے قانونی و آئینی معاملات آئندہ دنوں میں مزید بحث و مباحثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلے عدلیہ کی آزادی اور پاکستان کے آئینی نظام پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ مزید پڑھیں: ”امریکا دوبارہ افغانستان میں جنگ شروع کرنے پر غور کر رہا ہے” مولانا فضل الرحمان کا پشتون فاٹا قومی مشاورتی جرگہ میں خطاب

اسلام آباد: 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء کا احتجاج، سرینا چوک پر پولیس سے تصادم

26ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء کی ملک گیر تحریک آج اسلام آباد میں شدت اختیار کر گئی۔ وکلاء نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس پر پولیس سے شدید تصادم ہوا۔ سرینا چوک پر پولیس اور وکلاء میں ہاتھا پائی، دھکم پیل اور نعرے بازی دیکھنے میں آئی، جبکہ پولیس نے ریڈ زون کی سیکیورٹی مزید سخت کر دی۔ وکلاء کے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ریڈ زون مکمل سیل، پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ریڈ زون کے تمام داخلی راستوں پر کنٹینرز لگا کر راستے بند کر دیے گئے۔ علاوہ ازیں وفاقی دارالحکومت میں موبائل سروس معطل کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ سرینا چوک پر وکلاء اور پولیس میں تصادم ہوا ہے جبکہ وکلاء ریڈ زون میں داخلے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوپہر کے وقت وکلاء کی بڑی تعداد نے سرینا چوک کا رخ کیا اور ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ وکلاء کی کوشش تھی کہ وہ شاہراہ دستور تک پہنچ سکیں، جہاں وہ دھرنا دینا چاہتے تھے۔ تاہم، پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا ہے جس پر تصادم ہوا۔ وکلاء نے پولیس بیریئرز ہٹانے کی کوشش کی۔ پولیس نے وکلاء کو پیچھے دھکیلنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ اس موقع پر شدید نعرے بازی ہوئی، وکلاء ‘آئین کی بالادستی’ کے حق میں نعرے لگا رہے۔ پولیس اور وکلاء میں دھکم پیل اور ہاتھا پائی ہوئی۔ وکلاء کے مطالبات ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر 16 رکنی فل کورٹ سماعت کرے اور عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کیا جائے تاکہ شفافیت برقرار رہے۔ وکلاء کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ جب تک 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلہ نہیں آتا، کسی بھی جج کی تقرری نہ کی جائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنایا جائے۔ مزید براں وکلاء کا مطالبہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس منسوخ کیا جائے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا انعقاد عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ علاوہ ازیں وکلاء نے پیکا ایکٹ میں حالیہ ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے آزادی صحافت کی حمایت کی۔ وکلاء کا دعویٰ ہے کہ سیکرٹری سپریم کورٹ بار سلمان منصور کو 26ویں ترمیم کی مخالفت کرنے پر غیر قانونی طور پر معطل کیا گیا۔ وکلاء رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ تحریک صرف 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی کے لیے ہے۔ سینیئر وکیل حامد خان نے کہا کہ “یہ تحریک 26ویں ترمیم کو بہا لے جائے گی۔ ہم آئین کے تحفظ کے لیے کھڑے ہیں اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔” سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار ربیعہ باجوہ نے کہا کہ “وکلاء کا ایک دھڑا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جبکہ دوسرا آئین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم انصاف کے لیے لڑیں گے۔” دوسری جانب پولیس نے واضح کیا ہے کہ کسی کو بھی غیر قانونی طور پر ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے وکلاء کو مذاکرات کی دعوت دی ہے، تاہم وکلاء نے ابھی تک کسی مذاکراتی عمل میں شمولیت کا عندیہ نہیں دیا۔ خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل پر وکلاء برادری نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا تھا۔ وکلاء کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے اور ججوں کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر کیا وکلاء تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟ یہ احتجاج عدلیہ اور حکومت کے درمیان جاری کشمکش کو مزید شدت دے سکتا ہے۔ اگر وکلاء تحریک کو عوامی اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو گئی تو یہ ایک بڑی آئینی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف، اگر حکومت مذاکرات کے ذریعے معاملے کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئی تو یہ بحران جلد حل ہو سکتا ہے۔