آئی ایم ایف مشن کا دورہ پاکستان، عدالتی سالمیت اور آزادی کے لیے 19 ریاستی اداروں سے ملاقات متوقع

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( ایم آئی ایف ) نے جامع گورننس اور بدعنوانی کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان میں ایک مشن بھیجا ہے، توقع کی جا رہی ہے کہ یہ وفد 19 ریاستی اداروں کے ساتھ ملاقات کرے گا، جس میں ججوں کی تقرری کے عمل، عدالتی سالمیت اور اس کی آزادی کا جائزہ بھی شامل ہے۔ نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس نیوز کے مطابق آئی ایم ایف کی طرف سے بھیجا گیا یہ مشن پاکستان میں 14 فروری تک قیام کرے گا، جو 19 حکومتی وزارتوں، محکموں اور ریاستی اداروں کے نمائندوں سے ملاقات کرے گا، جس میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کی طرف سے بھیجے گئے اس مشن کا فوکس قانون کی حکمرانی، انسداد بدعنوانی، مالیاتی نگرانی، ریاست کے نظم و نسق کے ڈھانچے میں اچھے مفادات کو ختم کرنا اور منی لانڈرنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔ واضح رہے کہ اس مشن کی منصوبہ بندی گزشتہ سال ستمبر میں کی گئی تھی، لیکن یہ مشن پاکستان میں ایسے وقت میں آیا ہے، جب اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججوں نے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے عمل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم ججوں کی تقرری کے عمل میں بنیادی تبدیلیاں لائی ہے، جس سے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کے وقت نا انصافی ہو سکتی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق مشن اگلے ہفتے جوڈیشل کمیشن کے ساتھ میٹنگ کرے گا اور ججز کی تقرری کے طریقہ کار پر بات کرے گا، یہ عدالتی سالمیت اور آزادی کے بارے میں جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے ملاقات کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ مشن اپنے جائزے کو حتمی شکل دے گا اور اس کی رپورٹ جولائی 2025 تک شائع کی جائے گی۔ 7 بلین ڈالر کے معاہدے کے تحت پاکستان جولائی تک گورننس اور کرپشن کی تشخیص کی مکمل رپورٹ شائع کرنے کا پابند ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ یہ بھی عہد کیا ہے کہ عالمی قرض دہندہ کی صلاحیت کی ترقی کی حمایت کے ساتھ، وہ “انتظامی نظم و نسق اور بدعنوانی کے خطرات کا تجزیہ کرنے اور آگے بڑھنے والی ترجیحی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی نشاندہی کرنے کے لیے گورننس اور بدعنوانی کی تشخیص کا جائزہ لے گا”۔ آئی ایم ایف قومی احتساب بیورو کے ساتھ مل کر انسداد بدعنوانی کی قومی حکمت عملی، بدعنوانی کی نوعیت اور شدت، انسداد بدعنوانی کے قانون کے نفاذ سمیت منی لانڈرنگ کی تحقیقات اور پراسیکیوشن پر بھی تبادلہ خیال کرے گا۔ وزارت اقتصادی امور کے ساتھ ایک میٹنگ کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے، جس میں بیرونی قرضوں، وزارت خزانہ کے ساتھ قرض کے انتظام کے تعاون بشمول قرضوں کے ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اشاعت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
مجھے نیند نہیں آتی! میرا بس چلے تو ابھی 15 فیصد ٹیکس اور شرح سود کم کردوں، وزیراعظم شہباز شریف

وزیراعظم شہباز شریف نے یوم تعمیر و ترقی کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے ایک سال کی کامیابیوں اور چیلنجز کو تفصیل سے بیان کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے ایک سال میں اندھیروں سے اجالوں کی طرف سفر طے کیا اور اس عمل میں قوم کی دعائیں اور اجتماعی کوششیں شامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب میں واضح کیا کہ ملک کو اقتصادی بحران اور مہنگائی کی دلدل سے نکالنے کے لیے سخت فیصلے کیے گئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ “ہم سب نے مل کر ملک کو اندھیروں سے نکالا ہے، یہ ترقی کا سفر اجتماعی کاوشوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔” انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کے مطابق حکومتی اقدامات کے باعث مہنگائی کی شرح کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ انہوں نے ملک میں موجودہ معاشی چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 2023 میں آئی ایم ایف پروگرام خدشات کا شکار تھا تاہم حکومت نے فوری اقدامات کر کے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ “پاکستان دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا ہوچکا ہے، اور ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا پروگرام طے ہوچکا ہے۔” انکا کہنا تھا کہ ملک میں کاروباری طبقے نے 300 ارب روپے کا ٹیکس دیا، جس سے ملک کی اقتصادی حالت میں بہتری آئی۔ وزیراعظم نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ملک میں مہنگائی 40 فیصد تک پہنچ چکی تھی اور مشکلات کا سامنا تھا، لیکن انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ان کے فیصلوں کی وجہ سے ملکی معیشت اب مضبوط ہو چکی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: “حکومت عوام کی مشکلات سے باخبر ہے” خواجہ آصف شہباز شریف نے مزید کہا کہ “میں نہیں چاہتا کہ پچھلی حکومت پر الزام تراشی کی جائے، ہم اپنے کام پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ “ڈیفالٹ کا سوچ کر نیند نہیں آتی تھی، لیکن قوم کی دعاؤں اور ہماری ٹیم ورک کی وجہ سے ہم اس مشکل دور سے باہر نکلے ہیں۔” انہوں نے حکومت کے کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل درآمد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “حکومت کفایت شعاری کی پالیسی پر سختی سے گامزن ہے، اور ہم اپنے وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔” وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کاروباری طبقے کی مشاورت سے پالیسیوں کو تشکیل دیں گے تاکہ ملک کی برآمدات کو بڑھایا جا سکے اور صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہو سکے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کے مسئلے پر بھی بات کی اور سوال اٹھایا کہ “یہ دہشت گردی واپس کیوں آئی؟” انہوں نے کہا کہ “80 ہزار پاکستانیوں کی قربانیوں کے بعد دہشت گردی کا خاتمہ ہوا تھا، لیکن یہ واپس کیوں آئی؟ ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا۔” انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی ختم نہیں ہوگی تو سرمایہ کاری واپس نہیں آئے گی اور ملکی استحکام کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ “ہمارے جوان روز دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، اور افواج پاکستان دن رات قربانیاں دے رہی ہیں۔” اس کے علاوہ وزیراعظم نے دہشت گردی کے خاتمے اور ملک میں امن و استحکام کی ضرورت پر زور دیا تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ “مجھے مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے لیکن ان سب کا مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ میں ہمیشہ ملک کی خدمت میں مصروف ہوں، اور قوم کی ترقی کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کروں گا۔” وزیراعظم شہباز شریف کا یہ خطاب ایک پرعزم اور متحرک حکومت کی عکاسی کرتا ہے، جو پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکال کر ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مزید پڑھیں: جو لوگ فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں ان کی خود 190 ملین پاؤنڈز کی چوری نکل آئی، عطا اللہ تارڑ
پاکستان میں غذائی قلت: ”یہ بھوک نہیں، نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے”

پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران ہے جو آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت ملک کی ایک بڑی آبادی بنیادی غذائی اجزا سے محروم ہے، جس کے نتیجے میں بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ نیوٹریشن انٹرنیشنل کی ایک حالیہ ورکشاپ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار انتہائی تشویش ناک ہیں۔ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہے اور اگر صورت ِحال یہی رہی تو آنے والے سالوں میں اس کے اثرات ناقابلِ واپسی ہو سکتے ہیں۔ “میرے بچے کی ہڈیاں نکل آئی ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں اچھی خوراک دو، پر کہاں سے لاؤں؟” پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں رہنے والی شبانہ بی بی کا چھوٹا بیٹا کمزور ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔ “ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بچے کو دودھ، گوشت اور پھل دیں، مگر ہم تو دن میں ایک بار دال روٹی پوری کر لیں تو بڑی بات ہے۔” یہ کہانی صرف شبانہ بی بی کی نہیں، بلکہ ملک کے لاکھوں والدین کی ہے جو اپنے بچوں کو متوازن خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں غذائی قلت کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق 34 فیصد بچے (پانچ سال سے کم عمر) پست قد کا شکار ہیں۔ 22% نومولود بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ 53% بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ 41% حاملہ خواتین آئرن کی کمی میں مبتلا ہیں، جس سے ان کے بچوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ نیوٹریشن انٹرنیشنل، یونیسف، ورلڈ بینک، پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق غذائی قلت کے باعث پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ صرف خوراک کی کمی نہیں بلکہ غیر متوازن خوراک بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ملک میں زیادہ تر لوگ سادہ کاربوہائیڈریٹس (چاول، آٹا، چینی) پر گزارا کرتے ہیں، جب کہ پروٹین، وٹامنز اور منرلز کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ غذائیت ڈاکٹر زین نے کہا کہ یہ لوگ بھوکے نہیں، بلکہ غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر زین نے کہا ہے کہ ‘پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے اس لیے کمزور پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں کو دورانِ حمل مناسب خوراک نہیں ملتی۔ آئرن، کیلشیم اور وٹامن ڈی کی شدید کمی کے باعث مائیں بیمار پڑ جاتی ہیں اور بچے بہتر نشوونما نہیں کر پاتے۔” جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی بتول بی بی نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ حمل کے دوران انہیں کبھی گوشت، دودھ یا پھل کھانے کو نہیں ملے۔ گھر میں جو کھانے کو ہوتا، وہی انھیں کھانا پڑتا تھا۔ اب ان کا بیٹا کمزور پیدا ہوا ہے، وہ بیمار بھی بہت رہتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 41 فیصد حاملہ خواتین آئرن کی کمی کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں کم وزن بچوں کی پیدائش عام ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف غذائی قلت کا معاملہ نہیں، یہ پورے معاشرتی نظام کی ناکامی ہے۔ بچوں کو اسکولوں میں صحت مند کھانے کا نظام دینا ہوگا، حاملہ خواتین کے لیے سپلیمنٹس کو سستا اور آسانی سے دستیاب بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم آنے والی نسلوں کو بچا نہیں سکتے۔ مزید یہ کہ غذائی قلت پاکستان کی معیشت کو بھی نگل رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان غذائی قلت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق غذائی قلت کے شکار بچے بڑے ہو کر جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور رہتے ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ ایک پیداواری شہری کے طور پر معیشت میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر پاتے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں ہر سال لاکھوں ٹن گندم، چاول، دالیں اور دیگر غذائی اجناس پیدا ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت کا شکار کیوں ہے؟ ماہرین نے اس کی تین بڑی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی کے سبب معیاری اور متوازن خوراک عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا چکی ہے۔ غلط ترجیحات کی وجہ سے خوراک کی تقسیم اور غذائی اجزاء کی شمولیت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ مزید یہ کہ پاکستان میں 70 فیصد سے زائد پانی آلودہ ہے، جس کی وجہ سے بچوں میں اسہال اور دیگر بیماریاں عام ہو رہی ہیں، جو غذائی قلت کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران بن چکا ہے جو صرف غربت یا مہنگائی کی وجہ سے نہیں، بلکہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ بھی ہے۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی بڑی آبادی غذائی کمی کا شکار کیوں ہے؟ پاکستان میں ہر حکومت غذائی قلت پر بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ‘احساس نشوونما پروگرام’، ‘فوڈ سیکیورٹی پالیسی’ اور مختلف فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا گیا، لیکن یہ پروگرام یا تو بیوروکریسی کی نذر ہو گئے یا ناکافی ثابت ہوئے۔ ماہر خوراک ڈاکٹر زین کا کہنا ہے کہ حکومت غذائی قلت کے اعداد و شمار تو جمع کرتی ہے، لیکن ان پر عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بچوں کو متوازن خوراک دینے کے بجائے حکومتی سطح پر سبسڈی کم کی جا رہی ہے، جس سے صحت مند خوراک مزید مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسی تباہی لا سکتی ہے جس کا اثر دہائیوں تک محسوس کیا جائے گا۔ یہ بحران پانی کی کمی، غربت اور مہنگائی سے جڑا ہوا ہے۔ اگر حکومت نے صحت مند خوراک کو سستا اور آسانی سے دستیاب نہ کیا، تو پاکستان میں آنے والی نسلیں مزید کمزور ہوں گی اور ہم ایک صحت مند قوم بنانے کے خواب کو کھو دیں گے۔” پاکستان کو بھوک کے خلاف نہیں، بلکہ غذائی کمی
جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کا احتجاج، دفعہ 144 نافذ ، آج کے دن کیا ہوا تھا؟

جماعت اسلامی پاکستان اور پاکستان تحریکِ انصاف نے آج ملک بھر میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب اور بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے اور ہر قسم کے سیاسی احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیوں اور دھرنوں پرپابندی عائد کر دی گئی ہے۔ پنجاب حکومت نے لاہور سمیت پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، آج کسی بھی جماعت یا گروہ کو جلسہ، جلوس اور ریلی نکالنے کی اجازت نہیں۔ پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجہ نے اسلام آباد میں عدالتی سماعت کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ پارٹی کی ریلی صوابی تک محدود رہے گی، تشدد کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے زور دے کر کہا کہ احتجاج یونین کونسل اور تحصیل کی سطح پر ہو گا، حامیوں کو دعوت دی جائے گی کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس تحریک میں شامل ہوں، جس کا کوئی انتشار یا تصادم کا ارادہ نہیں ہے،ہمیں کوئی پریشانی پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں ہے،ہمارا احتجاج پرامن ہے اور ہم حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے مزید اس یقین کا بھی اعادہ کیا کہ مولانا فضل الرحمان اس جلسہ میں شرکت کریں گے،عوام اس حکومت کے فاشزم کی مخالفت کرتے ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ ایک تجربہ کار سیاست دان مولانا فضل الرحمان عوام کے ساتھ ہوں گے۔ یاد رہے کہ ایک حالیہ پیشرفت میں پی ٹی آئی نے مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دی تھی، لیکن ڈسٹرکٹ کمشنر (ڈی سی) نے دیگر تقریبات جیسے کہ ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس اور ایک ہی دن ہونے والے کرکٹ میچ کا حوالہ دیتے ہوئے اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ آٹھ فروری کے احتجاج سے قبل پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور کئی افراد کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ بلوچستان میں بھی 15 دن کے لیے دفعہ 144 نافذ بلوچستان بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی اور بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق محکمہ داخلہ بلوچستان نے اس کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ حکومتی ترجمان کے مطابق ‘اسلحے کی نمائش اور استعمال پر مکمل پابندی عائد ہوگی اور دھرنوں، جلوسوں اور 5 سے زائد افراد کے اجتماعات پر 15 دن کے لیے پابندی عائد کردی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ ناگزیر تھا ضرور پڑھیں: انتخابات اور دھاندلی کا کھیل: کیا پاکستانی جمہوریت خطرے میں ہے؟ ادھر وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں بھی ہر قسم کے سیاسی احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیوں اور دھرنوں پرپابندی عائد کر دی گئی ہے۔اسلام آباد میں ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شہر میں ہر قسم کے اجتماع اور سیاسی سرگرمی پر پابندی ہے جس لیے قانون کی خلاف ورزی پر سخت کاروائی کی جائے گی۔ جمعے کو انسپکٹر جنرل آف اسلام آباد پولیس علی ناصر رضوی کی زیر قیادت اعلی سطحی اجلاس میں پی ٹی آئی کی مقامی قیادت اور کارکنان کے خلاف کریک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا۔ آئی جی اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت میں اسلام آباد میں احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آج کے دن ہی احتجاج کیوں جارہا ہے؟ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ‘آٹھ فروری کو یومِ سیاہ کے طور پر منا رہی ہے کیونکہ اس دن ہمارے لیڈر عمران خان کو جو ووٹ پڑا اس کی چوری کی گئی، ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا۔’ ان کا کہنا ہے اب ہر سال یومِ سیاہ منایا جائے گا اور اس سال آٹھ فروری کو صوابی میں ریلی نکالی جائے گی۔ انھوں نے پی ٹی آئی کے حامی و کارکنان کو پاکستان میں اور پاکستان سے باہر ہر شہر میں احتجاج کی کال دی ہے اور کہا ہے ‘جہاں جہاں آپ ہیں وہاں اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔’ پنجاب میں پارٹی کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ ملک کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق شمالی پنجاب کے 10 اضلاع سے کارکنان کی بڑی تعداد صوابی جلسے میں شرکت کرے گی۔ جبکہ باقی علاقوں میں مقامی سطح پر احتجاج کیا جائے گا۔ لاہور میں جماعت اسلامی پاکستان کے حافظ نعیم الرحمان نے ری الیکشن کے مطالبہ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 2024 کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر جو ڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعتِ اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ 8 فروری کا دن ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، اس دن جعلی نمائندوں کو عوام پر مسلط کیا گیااور عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، فارم 12 کی جگہ فارم 13 دیئے گئے۔
نیا چیف الیکشن کمشنر کون؟ حکومت کی اتحادی جماعت نے ’قاضی فائز عیسیٰ‘ کا نام دے دیا

نئے چیف الیکشن کمیشنر کی تقرری کے لیے حکومت غوروفکر کررہی ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ن لیگ کو اتحادی جماعت نے متنازعہ کردار “فائز عیسیٰ” کا نام دیا ہے۔ ن لیگ سابق چیف جسٹسز تصدق حسین جیلانی اور ناصر الملک کے نام پر غور کر رہی ہے۔ تحریکِ انصاف نے سابق بیورو کریٹ اوریا مقبول جان سے رابطہ کیا ہے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی 65 سال 105 دن کے ہیں، ہر لحاظ سے چیف الیکشن کمشنر بننے کے لیے موجودہ نظام میں اہل ہیں۔ ابھی تک حکومت کی طرف سے باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ قاضی فائز عیسی ابھی 68 سال کے نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ان کی تاریخِ پیدائش 26 اکتوبر 1959 ہے، یوں ان کی عمر65 برس اور ساڑھے3 ماہ بنتی ہے۔ اگر ان کی تعیناتی ہو جاتی ہے تو 26ویں آئینی ترمیم کے تحت وہ 2027 میں 68 برس کے ہونے کے باوجود چیف الیکشن کمشنر رہ سکیں گے۔ ضرورپڑھیں: ’ری الیکشن دھوکا، جوڈیشل کمیشن بنایا جائے‘ حافظ نعیم کا 8فروری کو یوم سیاہ منانے کا اعلان 8 فروری 2024 کے الیکشن موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سرپرستی میں ہوئے تھے ۔ اس الیکشن کو اپوزیشن جماعتیں متنازع اور دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے سراپا احتجاج ہیں۔ عام انتخابات کو ایک سال ختم ہونے پر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے کل احتجاج کا اعلان کررکھا ہے۔ سکندر سلطان راجہ کے سُسر سعید مہدی سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ ان کے ایک بھائی فخر وصال سلطان راجہ پولیس سروس میں ہیں اور راولپنڈی میں ریجنل پولیس افسر کے عہدے پر بھی تعینات رہ چکے ہیں جبکہ ان کے ایک برادرِ نبستی عامر علی احمد اس وقت اسلام آباد میں چیف کمشنر کے عہدے پر فائز ہیں۔
پوڈکاسٹ کلچر: نئی نسل کی آواز یا ریٹنگ کا کھیل؟

آمنے سامنے بیٹھیں اور دنیا جہاں کے موضوعات پر بحث کر ڈالیں، ہر ایک موضوع کو کرید کرید کے بیان کریں، چبھتے سوالات کا بہترین جواب ملے تو ویوز کی بھرمار ہوجائے، جی ہاں اب ٹاک شوز کون دیکھتا ہے سبھی تو موبائل فونز پر ’پوڈ کاسٹ‘ دیکھتے ہیں۔ دنیا بھرمیں 30 ستمبرکوپوڈ کاسٹ ڈے منایا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل پوڈ کاسٹ ڈے کا سفر 2013 میں شروع ہوا، جب ڈیو لی نے ریڈیو پر نیشنل سینئرز ڈے کا اعلان سنا اور سوچا کہ پوڈ کاسٹنگ کو منانے کے لیے ایک دن کی بہت ضرورت ہے۔ پوڈکاسٹ ایک ڈیجیٹل ذریعۂ ابلاغ ہے، جو آڈیو فارم میں دستیاب ہوتاہے، جسے کمپیوٹر یا موبائل ڈیوائس کی مدد سے آسانی سے سنا جاسکتا ہے۔ عام طور پر پوڈکاسٹ سلسلہ وار نشر کیا جاتا ہے۔ پوڈکاسٹ دو الفاظ پلے ایبل آن ڈیمانڈ اور براڈکاسٹ سے مل کر بنا ہے۔ آج کے دور میں پوڈکاسٹ دنیا بھر کے نوجوانوں میں خاصا مقبول ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ پوڈ کاسٹنگ افراد کو جلد بازی میں مواد استعمال کرنے کا ایک مددگار اور کھلا راستہ فراہم کرتا ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ ڈیجیٹل دور میں پوڈکاسٹ تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور اسے روایتی میڈیا کا متبادل کہا جارہا ہے۔ پوڈکاسٹ کی مقبولیت کی بڑی وجہ انفارمیشن کا نئے طریقہ کار سے سامنے آنا ہے۔ پوڈکاسٹ سیاست، کامیڈی، ٹیکنالوجی اور لائف اسٹائل سمیت مختلف موضوعات پر بنائی جا رہی ہیں، یہ سامعین کو روایتی ذرائع سے ہٹ کر ایک نیا تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ ماہرین اس کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں، کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ پوڈکاسٹ معلومات کا طاقتور ذریعہ ہیں، جب کہ کچھ اسے تفریحی پلیٹ فارم قرار دیتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی سننے کی شرح اور عالمی سطح پر ان کی مقبولیت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پوڈکاسٹ جدید دور کے میڈیا کا ایک اہم جزو بن چکے ہیں۔ اگر پوڈکاسٹ کے بزنس ماڈل کی بات کی جائے توان کا بزنس ماڈل اسپانسرشپ، ایڈورٹائزنگ اور پیڈ سبسکرپشن ہے، یہ ذرائع اب ذریعہ آمدنی بن چکے ہیں۔ پوڈکاسٹس کے تخلیق کار زیادہ سے زیادہ سامعین حاصل کرنے کے لیے وائرل کنٹینٹ اور ریٹنگز پر زور دیتے ہیں، جس کے باعث مواد کے معیار کے بجائے سنسنی خیزی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اکثر پوڈکاسٹرز متنازعہ بیانات اور غیر معیاری گفتگو کے ذریعے مقبولیت حاصل کررہے ہیں، جس سے میڈیا انڈسٹری میں اخلاقی اور پیشہ ورانہ اصولوں پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ پاکستان میں ابھی پوڈکاسٹ انڈسٹری ابھر رہی ہے، جس کی وجہ سے اسے کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے، جن میں محدود مونیٹائزیشن آپشنز، تکنیکی وسائل کی کمی اور انٹرنیٹ کی بہتر رسائی اہم ہیں۔ یہ پلیٹ فارم نئے ٹیلنٹ کو آگے لانے کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے، اگرچہ کچھ حلقے اسے پہلے سے مشہور شخصیات کی اجارہ داری قرار دیتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے پوڈکاسٹ ایک مفید ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن کامیابی کے حصول کے لیے معیار، مستقل مزاجی اور تخلیقی انداز کی سخت ضرورت ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ حمزہ قریشی نے پوڈکاسٹ کلچر کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوڈکاسٹ کلچر نوجوانوں میں تنقیدی سوچ، آگاہی اور سیکھنے کے مواقع فراہم کر رہا ہے، خاص طور پر وہ پوڈکاسٹ جو سوشل ایشوز، تاریخ اور خود ترقی پر مبنی ہیں۔ لیکن کچھ پوڈکاسٹ صرف تفریح تک محدود ہیں اور نوجوانوں کو سنجیدہ موضوعات کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ حمزہ قریشی نے کہا ہے کہ روایتی میڈیا خبروں اور رپورٹنگ پر توجہ دیتا ہے، جب کہ پوڈکاسٹ زیادہ غیر رسمی، تفصیلی اور ذاتی نوعیت کے مکالمے پر مبنی ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ پوڈکاسٹ زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ تفصیلی گفتگو کا موقع دیتا ہے، لیکن خبروں اور حقائق کی تصدیق کے لیے روایتی میڈیا ابھی بھی زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ پوڈکاسٹ انڈسٹری میں وائرل ہونے کا رجحان معیار کو متاثر کر رہا ہے، کیونکہ زیادہ تر میزبان سنسنی خیز اور متنازعہ موضوعات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، تاکہ زیادہ ناظرین حاصل کیے جا سکیں۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے معیاری اور تحقیقی مواد کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پوڈکاسٹ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے زیادہ اسپانسرشپ، معیاری پروڈکشن، اور تعلیمی و تحقیقی مواد پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ اگر میڈیا ادارے اور برانڈز پوڈکاسٹ کو سپورٹ کریں تو یہ ایک مستحکم انڈسٹری بن سکتی ہے۔ حمزہ قریشی نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر پوڈکاسٹ اظہارِ رائے کا ایک آزاد ذریعہ تھا، لیکن اب بہت سے پوڈکاسٹ اسپانسرشپ اور برانڈنگ کے باعث بزنس ماڈل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ کچھ آزاد پوڈکاسٹ اب بھی موجود ہیں، لیکن زیادہ تر مواد مالی فوائد کو مدنظر رکھ کر بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا ریسرچر عائشہ ندیم نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ پوڈکاسٹ کلچر نے نوجوانوں میں معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، لیکن زیادہ تر مواد صرف تفریحی نوعیت کا ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو تعمیری اور تحقیقی پوڈکاسٹ سننے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی سوچ میں حقیقی مثبت تبدیلی آسکے۔ عائشہ ندیم نےپوڈکاسٹ کلچر کے وائرل ہونے کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ روایتی میڈیا کے برعکس پوڈکاسٹ میں آزادی زیادہ ہے، جو اسے ایک منفرد اور مؤثر پلیٹ فارم بناتی ہے۔ یہ ان موضوعات پر بات چیت کا موقع دیتا ہے جو روایتی میڈیا نہیں دےپاتے، مگر اسے مکمل طور پر روایتی میڈیا کا متبادل سمجھنا غلط ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ وائرل کنٹینٹ کی دوڑ نے کئی پوڈکاسٹ کو صرف تفریح اور مزاح تک محدود کر دیا ہے، جس کی وجہ سے سنجیدہ اور معلوماتی مواد نظرانداز ہو رہا ہے۔ سامعین کو چاہیے کہ وہ معیار پر سمجھوتہ نہ کریں اور تحقیق پر مبنی پوڈکاسٹ کی حوصلہ افزائی کریں۔ میڈیا ریسرچر نے کہا ہے کہ پوڈکاسٹ اب بھی اظہارِ رائے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے، لیکن بزنس ماڈل میں تبدیل ہونے کی وجہ سے بہت سے میزبان مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر مجبور ہیں۔ سامعین کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار
’ کشمیرپاکستان کا حصہ، انڈیا سے 10 بار لڑنا پڑا لڑیں گے‘ آرمی چیف

جنرل عاصم منیر نےکہا ہے کہ کشمیر کی خاطر 3 جنگیں لڑچکے، 10 اور لڑنا پڑیں تو لڑیں گے،کشمیر کل بھی پاکستان کا حصہ تھا آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہےگا۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے مظفر آباد میں کشمیری عمائدین اور ویٹرنز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا فیصلہ کسی غاصب فوج کو نہیں کشمیر کے عوام کو کرنا ہے،کشمیر اور پاکستان کا رشتہ لازم و ملزوم ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کشمیر بنےگا پاکستان، کشمیر کل بھی اور آج بھی پاکستان کا حصہ تھا اور رہےگا، آزادی کی شمع کشمیریوں کی ایک پیڑھی دوسری پیڑھی کے سپرد کرتی چلی آ رہی ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے کشمیر کی سر زمین کو قدرتی حسن اور وسائل سے نوازا ہے، آج،کل یا تھوڑے عرصےتک تو مقبوضہ کشمیرمیں زیادتی کرسکتے ہو مگر ہمیشہ نہیں۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ کشمیر کی خاطر تین جنگیں لڑی ہیں، دس اور لڑنی پڑیں تو ان شاء اللّٰہ لڑیں گے، اگر ہم متحد اور مضبوط رہیں تو ہم ہر مشکل کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر نے پیغام میں کہا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے، شہداء کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور بھارتی ریاستی جبر کے خلاف کشمیریوں کے عزم کو سراہا۔ ضرور پڑھیں: ’’ کشمیریوں کا خون بہانے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا ‘‘ شہباز شریف کی انڈیا کو مذاکرات کی پیشکش جنرل عاصم منیر نے مظفرآباد کا دورہ کیا جہاں انہوں نے کشمیر کے شہداء کی یادگار پر پھول چڑھائے اور ان کی قربانیوں کو سراہا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد میں ان شہداء کا خون رنگ لائے گا اور پاکستان ان کے حق میں ہمیشہ آواز بلند کرتا رہے گا۔ اس کے علاوہ آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے بڑھتی ہوئی تشدد کی کارروائیوں اور ہندوتوا انتہاپسندی کی مذمت کی، جس کے نتیجے میں کشمیری عوام کی آزادی اور حق خود ارادیت کے حق میں جدوجہد مزید مضبوط ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور ان کی جدوجہد میں ہر قدم پر ان کے ساتھ ہے۔ پاکستان کے مسلح افواج کی جنگی تیاریوں کا ذکر کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ فوج کی پیشہ ورانہ مہارت، آپریشنل تیاری اور چوکسی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کوئی بھی دشمنانہ اشتعال انگیزی کامیاب نہ ہو۔ انہوں نے مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت اور افسروں کی حوصلہ افزائی کی، جنہوں نے کشمیر کے حالات میں سخت محنت کی ہے اور ان کے بلند حوصلے کی تعریف کی۔ یہ بھی پڑھیں: وضاحت کی جائے کہ جنرل باجوہ دور میں کشمیر پر کیا ڈیل ہوئی، حافظ نعیم الرحمان آرمی چیف نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی فوج کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لئے ہر قیمت پر سرگرم ہیں اور دشمن کے کسی بھی حربے کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ پاکستانی آرمی کے سربراہ نے کشمیر کے بزرگ رہنماؤں اور اہم شخصیات سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا، چاہے عالمی سطح پر حالات کتنے ہی پیچیدہ ہوں۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ صرف ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے، اور پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ بھارت کے مظالم کا نوٹس لے۔ آرمی چیف کا یہ بیان کشمیریوں کے حق میں پاکستان کے عزم کو مزید مستحکم کرتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج ہر سطح پر کشمیری عوام کے حقوق کے دفاع کے لئے تیار ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ اور فلسطینیوں کو بےدخل کرنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ (اسرائیلی) جنگ سے تباہ حال غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا اور فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک میں بےدخل کرنے کے بعد اسے ترقی دے گا تاکہ دنیا کے لوگ وہاں آباد ہوں۔ ٹرمپ کا یہ اعلان اسرائیل فلسطین تنازع کے حوالے سےدہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کےبرعکس دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل امریکا دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ نے زیادہ تفصیل فراہم کیے بغیر اپنے حیران کن منصوبے کا اعلان اس وقت کیا جب عالمی عدالت انصاف سے جاری ہونے والے وارنٹ گرفتاری کی وجہ سے پریشانی کا شکار اسرائیلی وزیراعظم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا “امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا، اور ہم اس کے ساتھ بھی کام کریں گے۔” اس اعلان سے پہلے ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کے نکال کر مستقل طور پر ہمسایہ ممالک میں بھیجنے کا کہا گیا تو مصر اور اردن نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے باوجود ایک مرتبہ پھر ٹرمپ نے غزہ میں مقیم 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کر کے پڑوسی ممالک بھیجنے کا اعلان کیا۔ غزہ جنگ کے لیے اسرائیل کو سب سے زیادہ اسلحہ اور زمینی حملے کے لیے فوجی قوت فراہم کرنے والے امریکا کے صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ “ہم اس (غزہ) کے مالک ہوں گے اور وہاں پر موجود تمام خطرناک ہتھیاروں اور دیگر کو ختم کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔” ٹرمپ نے مزید کہا کہ “ہم اس ٹکڑے پر قبضہ کرنے جا رہے ہیں، ہم اسے ترقی دینے جا رہے ہیں ہزاروں ملازمتیں پیدا کریں گے اور یہ ایسی چیز ہو گی جس پر پورا مشرق وسطیٰ فخر کر سکتا ہے۔” انہوں نے کہا “میں ایک طویل مدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھ رہا ہوں اور میں اسے مشرق وسطیٰ کے اس حصے میں زبردست استحکام لاتا ہوا دیکھ رہا ہوں” انہوں نے دعوی کیا کہ “علاقائی رہنماؤں سے بات کی ہے اور انہوں نے اس کی حمایت کی ہے۔” جب ان سے پوچھا گیا کہ وہاں کون رہے گا تو ٹرمپ نے فلسطینیوں کے ملک میں انہی کی رہائش کا حق ماننے کے بجائے کہاکہ “وہ دنیا کے لوگوں کا گھر بن سکتا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ آ کر یہاں بس سکتے ہیں”۔ ٹرمپ نے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا کہ امریکہ کس طرح اور کس اختیار کے تحت غزہ پر قبضہ کر سکتا ہے۔ امریکی انتظامیہ بشمول ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں، وہاں امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے گریز کیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ”ٹرمپ اس مسئلے پر غیرروایتی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کی غیرروایتی سوچ نئے خیالات کو جنم دیتی ہے۔” امریکی صدر کی جانب سے غزہ پر قبضے کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیل اور غزہ کی حکمراں جماعت حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے پہلے فیز کے تحت متعدد اسرائیلی اور جواب میں سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کیے گئے ہیں۔ پہلے سے اعلان کردہ ٹائم لائن کے مطابق اب مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے دوسرے فیز کی تفصیلات طے کی جانی تھیں۔ مبصرین کو توقع ہے کہ ٹرمپ مستقبل کے مذاکرات کے لیے پیرامیٹرز طے کرنے کے لیے بعض اوقات عالمی سطح پر انتہائی سخت موقف اختیار کرتے ہیں۔ اپنی پہلی مدت میں، ٹرمپ نے بعض اوقات ایسے بیانات جاری کیے جنہیں خارجہ پالیسی کے بڑے اعلانات کے طور پر دیکھا جاتا تھا، ان میں سے اکثر کو انہوں نے کبھی نافذ نہیں کیا۔
’پڑھنے میں دلچسپی نہیں‘ سکیورٹی ذرائع نے ’خط بھیجنے‘ کا دعویٰ مسترد کردیا

سکیورٹی ذرائع نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے کسی بھی خط سے لاعلمی کا اظہار کردیا، سکیورٹی ذرائع کے مطابق ’آرمی چیف کو لکھا گیا خط اب تک انہیں موصول نہیں ہوا‘۔ نجی ٹی وی ’جیو نیوز‘ کے مطابق سکیورٹی ذرائع کا بتانا ہے کہ عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھا گیا خط موصول نہیں ہوا۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہےکہ میڈیا پر خبر سامنے آئی کہ بانی پی ٹی آئی نے کوئی خط لکھا ہے۔ سکیورٹی ذرائع نے بتایاکہ اگر کسی بھی معاملے پربات کرنی ہے تو سیاستدانوں سےکی جائے، ایسے کسی بھی خط کو پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے گزشتہ روز تصدیق کی تھی کہ بانی پی ٹی آئی نے آرمی چیف کو 6 نکات پر مشتمل خط لکھا ہے جس میں پہلا نقطہ فراڈ الیکشن اور منی لانڈرز کو جتوانے سے متعلق ہے۔ یہ بھی پڑھیں: “فوج بھی میری اور ملک بھی میرا” عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو لکھے گئے خط کا متن بھی سامنے آگیا دوسرا نقطہ 26 ویں آئینی ترمیم، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ متاثرہونے پر ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی نے القادر ٹرسٹ کیس فیصلے کا بھی حوالہ دیا ہے۔ فیصل چوہدری نے کہا تھا کہ خط میں چوتھا نقطہ پی ٹی آئی کے خلاف دہشتگردی کے پرچے، چھاپے اورگولیاں چلانے پر ہے جب کہ پانچواں نقطہ انٹیلی جنس اداروں کے کام سے متعلق ہے۔ فیصل چوہدری نے مزید کہا تھا کہ عمران خان نے خط میں آرمی چیف سے پالیسیاں تبدیل کرنے کی درخواست کی ہے۔ عمران خان کے آرمی چیف کو خط پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ میں نے اب تک بانی پی ٹی آئی کا یہ خط پڑھا یا دیکھا نہیں لیکن اگر ان کی طرف سے خط پر رسپانس آتا ہے تو ہم خیرمقدم کریں گے۔
صدر پاکستان کا دورہ چین، ’امریکی دباؤ بے اثر کرنے کی کوشش‘ ؟

آصف علی زرداری چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر آج سے آٹھ فروری 2025 تک چین کا سرکاری دورہ کریں گے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دورے کے دوران صدر زداری بیجنگ میں صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم لی چیانگ اور دیگر سینیئر چینی رہنماؤں سمیت چینی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں اقتصادی اور تجارتی تعاون پر خصوصی توجہ کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی اور سکیورٹی تعاون، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور مستقبل کے رابطے کے اقدامات کے متعلق پاک چین تعلقات کے مکمل دائرہ کار کا جائزہ لیا جائے گا۔ مزید یہ کہ دونوں فریق عالمی، علاقائی، جغرافیائی، سیاسی منظر نامے اور کثیرالجہتی فورمز پر دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کریں گے۔ صدر آصف علی زرداری چینی حکومت کی خصوصی دعوت پر چین کے صوبے ہیلونگ جیانگ کے شہر ہاربن میں منعقد ہونے والی نویں ایشین ونٹر گیمز کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کریں گے۔ ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق یہ دورہ پاکستان اور چین کے درمیان اعلیٰ سطح کے تبادلوں کی روایت کو اجاگر کرتا ہے، جو دونوں ممالک کے گہرے اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق بنیادی مفادات، سی پیک سمیت اقتصادی اور تجارتی تعاون کو آگے بڑھانے اور علاقائی امن، ترقی اور استحکام کے لیے اپنے مشترکہ عزم کو اجاگر کرنے کے لیے باہمی تعاون کا اعادہ کرتا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کے صدر آصف زداری نے گذشتہ برس نومبر میں چین کا سرکاری دورہ کرنا تھا، لیکن دبئی میں ہوائی اڈے پر ان کے پاؤں میں ہونے والے فریکچر کے باعث یہ دورہ ملتوی کر دیا گیا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں تقریباً 11 برس بعد چین کے کسی وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ چینی وزیراعظم لی چیانگ کے اس دورے کے دوران دونوں ممالک نے سکیورٹی، تعلیم، زراعت، انسانی وسائل کی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کرتے ہوئے طے شدہ 13 مختلف مفاہمتی یادداشتوں اور دستاویزات کا تبادلہ کیا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈین بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ڈاکٹر عمر فاروق زین نے کہا ہے کہ ملک کے صدر آصف علی زرداری کا چین کا دورہ معمول کی سفارت کاری سے بالاتر ہے اور کچھ فوری مسائل کو حل کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں نئی امریکی انتظامیہ کے نمائندوں کا رویہ موجودہ پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو سیاسی راحت فراہم کرنے کے لیے امریکی دباؤ کے پیچھے بنیادی مقصد پاکستان کو چین سے اسٹریٹجک فاصلے یا گوسلو پالیسی کی طرف لے جانا ہے۔ پاکستانی انتظامیہ اس طرح محسوس کرتی ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد چین کے ساتھ سرد جنگ ممکن نہیں ہے، اس لیے چین میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سازگار جواب نہ ملنے کے بعد صدر آصف علی زرداری کو حتمی یقین دہانی کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ایک غیر متعین تجزیہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’اس بات کا واضح امکان ہے کہ امریکی دباؤ کے مقاصد کو بے اثر کرنے کے لیے چین سے مشاورت کے بعد پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کی جائیں‘۔ قومی مفادات کو درپیش خطرات کے پیش نظر چین جیسے اسٹریٹجک پارٹنر کی ضمانت کے طور پر دھڑوں کے سامنے سیاسی اتفاق رائے کا ایک فارمولا پیش کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے موجودہ حالات کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا سیاسی عدم استحکام سی پیک کو متاثر کر رہا ہے، اس لیے کوئی بھی سرمایہ کار زیادہ دیر تک دوستی کا بوجھ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یاد رہے کہ چین نے 2014 میں سی پیک کے تحت پاکستان میں لگ بھگ 60 ارب ڈالر کے توانائی اور انفراسٹرکچر منصوبوں میں چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا اور گزشتہ سال اس منصوبے کے 10 سال مکمل ہو گئے تھے۔ چینی میڈیا کے مطابق سی پیک منصوبے کے پہلے مرحلے میں دونوں ممالک نے مل کر 38 منصوبے مکمل کیے ہیں، جن کی مالیت تقریباً 25.2 ارب انریکی ڈالرز ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں پر ملک کے مختلف صوبوں میں کام جاری ہے، حالیہ برسوں میں ان منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں پر حملے کے بعد ان کی سکیورٹی کے خدشات دونوں ممالک کی توجہ کا محور رہے ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں ہونے والے حملوں کے بعد چینی کمپنیوں اور شہریوں کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے مخصوص فورس بھی تشکیل دے دی ہے۔