وزیراعلیٰ کے لاہورمیں ڈیرے، جنوبی پنجاب مریم نواز کی عدم توجہ کا شکار

پنجاب میں جو بھی حکمران بنا وہ دارالحکومت سے باہر نہیں نکلا، چاہے وہ منتخب ہو یا نگران وزیراعلیٰ۔ دونوں کی توجہ لاہور پر ہی رہی ہے۔ الزام ہے کہ مریم نواز تو ہیں ہی اسی شہر کی اور یہ ہی ان کی توجہ کا محور ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کا راج رہا ہے، مگر پچھلے دو انتخابات میں آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی غیر معمولی سیاسی حمایت دیکھنے میں آئی، جس نے مسلم لیگ ن کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ ن لیگ کا پنجاب کو لے کر یہی بیانیہ رہا کہ پنجاب میں تعمیراتی ترقی ن لیگ کی ہی بدولت ہوئی ہے اور اس وقت بھی ن لیگ تعمیراتی کاموں پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، مگر کیا واقعی ن لیگ نے پورے پنجاب میں مساوی کام کیے ہیں؟ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما صائمہ کنول نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ ہونے کی بڑی وجہ بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ ’حکومتی عہدے داروں کی توجہ صرف لاہور پر ہے، جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ حکومتی کابینہ کی اپنی رہائش بھی لاہور میں ہے، اس کے علاوہ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے ارکان زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر توجہ اور بجٹ لاہور کو دیا جاتا ہے‘۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے لاہور کو خصوصی اہمیت دی ہے اور بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کے منصوبے، سڑکوں کی تعمیر اور ماس ٹرانزٹ سسٹم پر خصوصی توجہ دی ہے جب کہ اس کے برعکس جنوبی پنجاب کے عوام کا سوال ہے کہ کیا ان کے علاقوں کو بھی لاہور جتنی توجہ کبھی حاصل ہو پائے گی؟ شعبہ سیاسیات اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کی بنیادی وجہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، تعلیمی و صنعتی ترقی کی کمی اور حکومتی ترجیحات کا عدم توازن ہے‘۔ انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ’ لاہور کو سیاسی، تجارتی اور ثقافتی مرکز ہونے کے باعث زیادہ توجہ اور فنڈنگ دی جاتی ہے، جبکہ جنوبی پنجاب کو زرعی علاقہ سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ تعلیمی پسماندگی، بےروزگاری، سیاسی بےچینی اور زرعی بحران کی صورت میں نکل رہا ہے‘۔ واضح رہے کہ یہ سوال محض کسی سیاسی نعرے یا تنقید کا حصہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے اس علاقے کی محرومیوں کو کم کرنے کے وعدے کیے، جومحض کھوکھلے دعوے ہی ثابت ہوئے۔ یاد رہے کہ جنوبی پنجاب کا یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں بڑی جماعتوں نے جنوبی پنجاب کی ترقی کو اپنے منشور کا حصہ بنایا تھا۔ 2018 میں تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا اور اس مقصد کے لیے ایک سیکریٹریٹ بھی قائم کیا گیا، لیکن مکمل صوبہ بنانے کے حوالے سے کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے 2013 سے 2018 کے دور میں بھی جنوبی پنجاب کے لیے کچھ ترقیاتی منصوبے ضرور بنائے گئے، لیکن زیادہ تر فنڈز لاہور اور دیگر بڑے شہروں پر خرچ کیے گئے۔ یہی صورت حال موجودہ ن لیگی حکومت میں بھی نظر آ رہی ہے۔ مریم نواز کی حکومت کے ابتدائی بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شامل نہیں کیا گیا، جب کہ لاہور میں ترقیاتی کاموں پر خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے دور حکومت کے آغاز میں لاہور کو جدید ترین شہر بنانے کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے، جن میں جدید ٹریفک مینجمنٹ سسٹم، انڈر پاسز، اور ایلیویٹڈ ایکسپریس وے جیسے منصوبے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور میں صحت، تعلیم، اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی متعدد اصلاحات کی جا رہی ہیں۔ لیکن دوسری جانب جنوبی پنجاب کے شہری ابھی تک ان بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وہاں کے عوام بنیادی انفراسٹرکچر، معیاری صحت اور تعلیم کی عدم دستیابی، اور روزگار کے کم مواقع جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر جنوبی پنجاب اور لاہورکےبجٹ کا جائزہ لیا جائے تو فرق واضح نظر آتا ہے۔ پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں 2023- 24 کے دوران لاہور کے لیے 120 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے، جب کہ جنوبی پنجاب کے تمام اضلاع کے لیے مشترکہ طور پر 200 ارب روپے مختص گئے۔ حیران کن بات یہ ہے جنوبی پنجاب کے لیے مختص کی گئی رقم بھی مکمل طور پر جاری نہیں کی گئی اور بیشتر ترقیاتی منصوبے فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث تعطل کا شکار ہیں۔ مریم نواز کی حکومت نے 2024-25 کے بجٹ میں لاہور کے ماس ٹرانزٹ منصوبوں اور انفراسٹرکچر پر مزید اربوں روپے خرچ کرنے کا اعلان کیا، لیکن جنوبی پنجاب میں کوئی بڑا نیا منصوبہ شامل نہیں کیا گیا۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں کئی تنظیمیں ایسی موجود ہیں جو جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں، تاکہ وہاں کے لوگوں کے لیے علیحدہ صوبائی بجٹ مختص ہو اور وہ ترقیاتی کام کیے جائیں۔ حکومتِ پنجاب کو اس پر خصوصی توجہ دینی ہوگی نہیں تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان جیسے حالات جنوبی پنجاب میں بھی پیدا ہوجائیں اور شدت پسند تحریکیں جنم لے لیں، جس سےکھلے عام انسانیت کا استحصال ہوگا۔ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے صائمہ کنول نے کہا ہے کہ لاہور ڈویژن کا بجٹ جنوبی پنجاب کے بجٹ کے لگ بھگ برابر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت ملکی سطح پر لاہور کو دکھا کر کہتی ہے کہ پنجاب نے ان کے دور میں اتنی ترقی کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے برعکس جنوبی پنجاب پر توجہ نہیں دی جا رہی، جب صوبے کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ایک شہر کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور باقی صوبہ پسماندہ
“فوج بھی میری اور ملک بھی میرا” عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو لکھے گئے خط کا متن بھی سامنے آگیا

سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف آف آرمی سٹاف کو خط لکھ کر ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس خط میں عمران خان نے فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی کچھ بنیادی وجوہات بیان کی ہیں، جنہوں نے پاکستان کے قومی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عمران خان نے سب سے پہلی وجہ 2024 کے انتخابات میں ہونے والی ‘تاریخی دھاندلی’ کو قرار دیا ہے جس نے عوامی مینڈیٹ کی سرعام چوری کی ہے۔ ان کے مطابق 17 نشستوں پر کامیاب ہونے والی ایک سیاسی جماعت کو اقتدار سونپنے کا عمل ملک کی جمہوریت کے لیے سنگین دھچکا ثابت ہوا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایجنسیوں کی مدد سے سیاسی انجینئرنگ کی جس کے نتیجے میں عوام کا اعتماد ٹوٹ گیا۔ دوسری اہم وجہ چھبیسویں آئینی ترمیم کو بتایا جس میں عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے آئین و قانون کی دھجیاں اُڑائی گئیں۔ یہ بھی پڑھیں: 8 فروری لاہور جلسہ کی اجازت، پی ٹی آئی کی درخواست منگل کو سماعت کیلیے مقرر عمران خان نے کہا کہ ‘پاکٹ ججز’ کے ذریعے ان کے مقدمات کو مخصوص ججز کے پاس منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انصاف کے تقاضوں کو نظرانداز کیا جا سکے اور ان کے خلاف فیصلے من پسند ججز سے کروائے جا سکیں۔ اس خط میں تیسری وجہ انہوں نے ‘پیکا’ کے قانون کو قرار دیا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر قدغن لگانے کا عمل جاری ہے۔ عمران خان نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس قانون کی وجہ سے پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے اور نوجوانوں کے کیریئر تباہ ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان نے چوتھی وجہ ملک میں ریاستی دہشتگردی کے مسلسل جاری رہنے کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ان کی جماعت تحریک انصاف کے کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف 100,000 سے زائد چھاپے مارے گئے ہیں اور 20,000 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس دوران تحریک انصاف کے حامیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جس سے عوامی جذبات میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اس خط میں پانچویں اہم وجہ ملک کی معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام کو بتایا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ملک کی معیشت بے قابو ہو چکی ہے اور لوگ اپنے سرمائے سمیت بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق سرمایہ کاری صرف تب آتی ہے جب ملک میں عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت ہو، جس کا فی الحال پاکستان میں کہیں دور دور تک نشان نہیں مل رہا۔ انکا کہنا تھا کہ بحیثیت سابق وزیراعظم میرا مقصد اس قوم کی فلاح کے لیے ان مسائل کی نشاندہی کرنا ہے جن کی وجہ سے فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری پالیسی کا آغاز ہی سے ایک ہی اصول پر مبنی ہے فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا۔ ملکی استحکام اور سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان جو فرق بڑھ رہا ہے، اسے کم کیا جائے۔ اس کے لیے ایک ہی حل ہے کہ فوج کو اپنی آئینی حدود میں واپس جانا ہوگا، سیاست سے خود کو الگ کرنا ہوگا، اور اپنی مخصوص ذمہ داریوں کو مکمل کرنا ہوگا۔ اگر فوج نے خود یہ قدم نہیں اٹھایا تو یہی بڑھتا ہوا فرق قومی سلامتی کے لیے خطرے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: “خیبرپختونخوا کی کارگردگی دیگر صوبوں سے بہتر ہے” علی امین گنڈا پور کی پریس کانفرنس
سعودی عرب نے تجارتی مقاصد کیلئے ’مکہ اور مدینہ‘ الفاظ کے استعمال پر پابندی لگادی

سعودی عرب میں مقدس شہروں کے ناموں پر اپنی مصنوعات کے نام رکھنا، برانڈنگ اور تشہیر سے پہلے مجاز اتھارٹی سے اجازت لینا لازمی ہوگا۔ بصورت دیگر بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے مصنوعات کی مارکیٹنگ کے حوالے سے نئے قوانین متعارف کرائے ہیں،جس کے تحت سعودی عرب، مکہ، مدینہ اور دیگر مقدس شہروں کے ناموں پر پراڈکٹس کے نام نہیں رکھے جا سکیں گے۔ مذہبی، سیاسی یا فوجی ناموں کو استعمال کرنے سے قبل بھی اجازت لینا لازمی ہوگا بصورت دیگر 11 لاکھ 15 ہزار پاکستانی روپے جرمانہ ہوگا۔ پہلے سے رجسٹرڈ نام کو چرا کر اپنی پراڈکٹس کے لیے استعمال کرنے پر بھی ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد جرمانہ عائد ہوگا،اسی طرح کسی سرکاری ادارے سے مماثلت رکھنے والے ناموں کے استعمال پر بھی پابندی ہوگی۔ ان خلاف ورزیوں پر جرم کی نوعیت کے اعتبار سے 76 ہزارپاکستانی روپوں سے پونے چار لاکھ پاکستانی روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت غیر سنگین خلاف ورزیوں پرایک ہزار ریال (76 ہزارپاکستانی روپے) سے 5 ہزار ریال (پونے چار لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) کے درمیان جرمانہ عائد ہوتا ہے۔ ان میں کاروباری دستاویزات، خط و کتابت، یا تشہیری مواد پر تجارتی نام ظاہر کرنے میں ناکامی، اسٹور فرنٹ یا کاروباری احاطے پر تجارتی نام ظاہر کرنے میں ناکامی، پچھلے نام کو حذف کرنے کے بعد قانونی ٹائم فریم کے اندر نیا تجارتی نام رجسٹر کرنے میں ناکامی، اور تجارتی نام کو گمراہ کن یا غیر قانونی طریقے سے استعمال کرنا شامل ہیں۔ وزارت تجارت سعودی عرب نے تجارتی نام سے متعلق خدمات کے لیے فیس مقرر کی ہے، عربی میں تجارتی نام حاصل کرنے کی قیمت 200 سعودی ریال (تقریباً 15 ہزار پاکستانی روپے) ہے، جب کہ انگریزی میں ایک نام مختص کرنے کی قیمت 500 سعودی ریال (38 ہزار روپے سے زائد) ہے۔ ریزرویشن کی مدت میں توسیع یا تجارتی نام کی ملکیت منتقل کرنے کی فیس 100 ریال (7 ہزار 600روپے) ہے۔ ایک جائزہ کمیٹی تجارتی نام کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرے گی، اور جرمانے عائد کرے گی، جس میں جرم کی شدت اور اس میں شامل کاروبار کے سائز کی بنیاد پر جرمانے کو ایڈجسٹ کرنے کا اختیار ہوگا۔
‘فوج اور قوم کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے’ عمران خان نے آرمی چیف کو خط لکھ دیا

سابق وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو ایک خط لکھا ہے جس میں ملک میں جاری دہشت گردی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے حالیہ عام انتخابات، 26 ویں ترمیم، پییکا آرڈیننس، تحریک انصاف کے خلاف ریاستی تشدد، خفیہ اداروں کے کردار اور ملک کی معاشی صورتحال پر تفصیل سے بات کی۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے خط میں لکھا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور قوم کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے، خاص طور پر اس بات پر کہ اسٹیبلشمنٹ اُن افراد کے ساتھ کھڑی ہے جو دو مرتبہ این آر او حاصل کرچکے ہیں جس سے قوم میں نفرت اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری کا یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عمران خان نے اپنے خط میں فوج کے لیے اپنی حمایت اور احترام کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجی روزانہ کی بنیاد پر اپنی جان کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: ’جو انصاف کا ادارہ ہے وہ خود انصاف کی تلاش میں ہے‘ عمران خان نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا فیصل چوہدری کے مطابق، خط میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ پوری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہو۔ اس کے علاوہ، خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں، اور ان فاصلے کے بڑھنے کی چھ وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ چند روز قبل عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی خط لکھا تھا جس میں انہوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی، پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جبری گمشدگیاں، جسمانی تشویشات اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگائے تھے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے عدالت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی حقوق کی پامالیوں اور دھاندلیوں پر مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔ عمران خان نے اپنی غیر قانونی گرفتاری اور ریاستی جبر کا بھی ذکر کیا اور حکومت کے مذاکراتی پیشکش کو مسترد کیا تھا۔ خط میں عدلیہ کی آزادی اور آئینی بحران کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ انہوں نے چیف جسٹس سے فوری کارروائی کی درخواست کی تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہو سکے۔
ایلون مسک نے ‘یو ایس ایڈ کو مجرم ادارہ’ قرار دے دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی غرض سے قائم ‘ڈوج’ کے سربراہ ایلن مسک نے امریکی ادارے ‘یو ایس ایڈ کو مجرم ادارہ’ قرار دے دیا۔ ایلن مسک نے امریکی حکومت کے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے دنیا بھر میں گرانٹس دینے اور مختلف ایکسچینج پروگرامات کے منتظم ادارے کو ایک ایکس پوسٹ میں ‘مجرم ادارہ’ قرار دیا۔ دنیا کے امیر ترین آدمی نے اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ‘اسے مر جانا چاہیے’ کہہ کر اپنے عزائم کا اظہار بھی کیا۔ ایلن مسک کی جانب سے یہ ردعمل اس اطلاع پر دیا گیا کہ ‘یو ایس ایڈ کے سینیئر عہدیداروں نے ڈوج کے نمائندوں کو ایجنسی کے سسٹم تک رسائی سے روکنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔’ ‘ڈوج کے نمائندے ادارے کے سیکیورٹی اور پرسنل ڈیٹا تک رسائی چاہتے تھے تاہم یو ایس ایڈ کے عہدے دار جان وورجیز اور ان کے معاون نے ایسا کرنے سے منع کیا اور زبردستی کرنے پر پولیس بلانے کی تنبیہ کی تھی۔’ ایلن مسک کی پوسٹ پر ردعمل دینے والے متعدد امریکی صارفین نے بھی ان کی طرح ‘ یو ایس ایڈ کو ایک کرپٹ اور بددیانت ادارہ قرار دیا جو امریکیوں کی دولت سے دنیا میں حکومتیں بدلنے اور اپنی مرضی چلانے کا کام کرتا ہے۔’ امریکی اداروں کی خراب کارکردگی اور بیرونی دنیا میں مداخلت کا ذکر چھڑا تو گفتگو میں شامل افراد نے مزید امریکی اداروں کی چھان بین کا مطالبہ بھی کیا۔ ایسے ہی ایک صارف نے لکھا کہ ‘کلنٹن فاؤنڈیشن اور ملینڈا اینڈ گیٹس فاؤنڈیشن کی چھان بین بھی ہونی چاہیے۔’ یہ پہلا موقع نہیں کہ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (ڈوج) کے ذمہ دار کے طور پر ایلن مسک نے امریکا کے کسی سرکاری ادارے پر تنقید کی ہے۔ وہ اس سے قبل بھی متعدد اداروں کی مشکوک یا متنازع کارکردگی کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یو ایس ایڈ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے آپریشنز کو ‘امریکا فرسٹ’ پالیسی سے ہم آہنگ کرے۔ جس کے تحت بیرونی امداد کو روک کر اس کے استعمال کا جائزہ لیا جانا ہے۔ یو ایس ایڈ پر یہ تنقید بھی کی جاتی رہی ہے کہ وہ امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم استعمال کر کے ایسی لابنگ کرتا رہا ہے جس سے مزید فنڈز حاصل کیے جا سکیں۔ ایک الگ پوسٹ میں ایلن مسک نے ‘یو ایس ایڈ کو بائیں بازو کے ان مارکسسٹس کا ٹھکانا قرار دیا تھا جو امریکا سے نفرت کرتے ہیں۔’ ڈوج کی جانب سے چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ ‘یو ایس ایڈ نے غیرملکی امداد کے لیے امریکی ٹیکس دہندگان کے 40 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس میں سے 45 ملین ڈالر برما میں اسکالر شپس، 520 ملین افریقہ اور 1.2 ارب ڈالر نامعلوم افراد/اداروں کو دیے گئے ہیں۔’
‘قوم کا مستقبل محفوظ بنائیں گے’ وزیراعظم نے سال کی پہلی انسداد پولیو مہم کا آغاز کر دیا

وزیراعظم شہباز شریف نے قومی انسداد پولیو مہم کی افتتاحی تقریب کے دوران بچوں کو قطرے پلا کر رواں سال کی پہلی مہم کا افتتاح کردیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ بدقسمتی سےگزشتہ سال یعنی 2024ء میں 77 کیسیز پورے ملک میں سامنے آئے،اس سال جنوری میں ایک کیس آیا ہے کاش یہ ایک کیس بھی سامنے نہ آتا۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ مہم پاکستان کے کروڑوں بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر نہ صرف اس مرض سے محفوظ کریں گے بلکہ پولیو کے خاتمے کے لیے یہ ٹیم شبانہ روز محنت کرتے ہوئے شہر، دیہات، اور پہاڑوں سمیت دور دراز علاقوں میں پہنچ کر بہت بڑی قومی ذمہ داری نبھائیں گے اور پولیو کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ کروڑوں بچوں کو قطرے پلا کر قوم کا مستقبل محفوظ کریں گے ،افغانستان سے باہمی تعاون سے پولیو کا خاتمہ کریں گے، ،ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ ملک بھر میں پولیو کا خاتمہ کیا جا سکے،امید ہے پاکستان سے پولیو کا مکمل خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستان کے 26 اضلاح میں پولیو وائرس کی تصدیق کی گئی ہے،جس سے متعدد کیسز سامنے آنے کا خدشہ ہے۔دنیا بھر میں پولیو کی لہر ختم ہونے کے بعد افغانستان اور پاکستان میں پولیو کے نئے کیسز سامنے آنا دونوں ممالک کے لیے تشویش ناک ہے۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سنٹر (این ای او سی) حکام کے مطابق ملک کے 26 اضلاع میں پولیو وائرس پایا گیا ہے ، بدین، گھوٹکی، حیدرآباد، جیکب آباد، قمبر، کراچی ایسٹ کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ نجی چینل دنیا نیوز کے مطابق کورنگی، ملیر، کراچی ساؤتھ، کیماڑی، میر پور خاص کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہونے کے ساتھ سجاول، باجوڑ، ڈی آئی خان، لکی مروت، پشاور، کوئٹہ، چمن، لورالائی کے ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ این ای او سی حکام کا مزید کہنا ہے کہ پنجاب میں لاہور، ملتان اور راولپنڈی کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
انسانوں کے پھیپھڑے بچانے والے ‘زمین کے گردے‘ عدم توجہ کا شکار

زمین کے ’گردے‘ خراب ہورہے ہیں اور انسان ان کے بچاؤ کی تدابیر سے غافل ہے، فضا کو صاف کرکے انسانوں کے پھیپھڑے بچانے والے ’ویٹ لینڈز‘ عدم توجہ کا شکار ہیں،ماہرین کہتے ہیں کہ ان کو بچانا ہے تو یہاں مچھلی کے شکار پر پابندی لگانی ہوگی ۔ویٹ لینڈز کس علاقے کو کہتے ہیں؟ ‘ ویٹ لینڈز وہ علاقے ہوتے ہیں جہاں زمین مستقل یا زیادہ تر وقت پانی میں ڈوبی رہتی ہے۔ یہ دلدلی علاقے، جھیلوں کے کنارے، دریائی ڈیلٹا، مینگرووز، اور دلدلی جنگلات جیسے قدرتی اور مصنوعی میٹھے یا کھارے پانی والے مقامات ہو سکتے ہیں۔ ویٹ لینڈز ماحول کے لیے نہایت اہم ہیں کیونکہ یہ قدرتی فلٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، پانی کو صاف کرتے ہیں، زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں، ماحولیاتی توازن برقرار رکھتے ہیں اور جنگلی حیات کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔ ویٹ لینڈ کی زمین بہت زرخیز ہوتی ہے جس کی مٹی زراعت میں بہت معاون ہوتی ہے۔ یہ جانوروں اور ہجرتی پرندوں کا مسکن ہوتی ہیں۔ یہاں پر بہت سے درخت ہوتے ہیں ان پر پرندے اور جانور رہتے ہیں ،ان پانی کے ذخیروں میں آبی مخلوق بھی رہتی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جامعہ پنجاب شعبہ اسپیس سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب نےکہا کہ “ویٹ لینڈز کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مچھلی کے غیر قانونی شکار کو بند کیا جائے اور ویٹ لینڈز کے قریب رہنے والے لوگ ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لیں۔” دنیا میں پہلی بار 2 فروری 2007 کو ورلڈ ویٹ لینڈ ڈے منایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے پوری دنیا میں 2 فروری کو یہ دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے تاکہ ان آب ویٹ لینڈز کو سکڑنے سے بچایا جائے۔ ویٹ لینڈ کو ‘زمینی گردے’ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ فطرت کے ایک اہم ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں، جو ہوا میں موجود کاربن کو جذب کر فضاء کو صاف رکھتے ہیں۔ ویٹ لینڈز نہ صرف فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ یہ پانی کی صفائی، سیلاب کی روک تھام اور حیاتیاتی تنوع کی حفاظت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ ماحولیات کے پروفیسر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ “ویٹ لینڈز کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر نقصان دہ گیسوں کو جذب کرکے فضائی آلودگی کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ پانی میں موجود آلودگی کو فلٹر کرکے اسے صاف کرتے ہیں اور شدید بارشوں کے دوران اضافی پانی کو سمو کر سیلاب کی شدت کو کم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مختلف انواع کی جانداروں کو مسکن فراہم کرکے حیاتیاتی تنوع کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔” بین الاقوامی خبرارساں ادارے ‘ٹی آر ٹی’ کے مطابق پاکستان میں اس وقت کل 225 ویٹ لینڈز موجود ہیں، جو 78 ہزار ایکٹر پر پھیلے ہوئی ہیں جو کہ کل رقبے کا 9.7 فیصد حصہ بنتا ہے۔ لیکن ان کا تیزی سے سکڑنا انتہائی تشویشناک امر ہے۔ پاکستان میں دنیا کے اونچے ویٹ لینڈ بھی موجود ہیں جن میں کورمبر جھیل اور شاوشر جھیل شامل ہے۔ اس کے ساتھ دیگر قابل ذکر ویٹ لینڈز میں استولا آئی لینڈ، میانی ہور، جیوانی کوسٹل لائن، اومارہ بیچ ، حب ڈیم ، دریگ لیک، ہالے جی لیک، انڈس ڈیلٹا، کنجھر جھیل، رن آف کچھ، چشمہ بیراج، تونسہ بیراج، ہیڈ ورکس مرالہ، راول لیک، ہیڈ ورکس رسول، جبھو لاگون، نلتر اور لولوسار لاگون، ٹنڈا ڈیم اور کلر کہار نمایاں ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ “بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ویٹ لینڈز ڈی گریڈ ہو رہے ہیں۔ آلودگی اور دیگر قدرتی آفات کے بے جا اضافے سے ویٹ لینڈز کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔” ویٹ لینڈز کو درپیش خطرات میں سے ایک بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور صنعتی ترقی ہے، جس کی وجہ سے زمین خشک ہو رہی ہے، آلودگی کی مقدار بڑھ رہی ہے اورپانی کی صفائی کی قدرتی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ پروفیسر جہانزیب کا ماننا ہے کہ “موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں میں کمی، درجہ حرارت میں اضافے اور قدرتی آفات نے ویٹ لینڈز کو متاثر کردیا ہے۔ دوسری جانب ترقیاتی منصوبے ویٹ لینڈز کی تباہی میں بڑا کردار ادا کر رہے ہیں، بڑی بڑی فیکٹریاں اپنا گندا پانی ندی نالوں میں بہا دیتی ہیں جو کہ نہ صرف آبی حیات اور ویٹ لینڈز کے لیے نقصان کا باعث ہیں، بلکہ اس سے اگنے والی سبزیاں بھی مضرِ صحت ہوتی ہیں۔” عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور موسم میں غیر متوقع تبدیلیاں ویٹ لینڈز کی بقاء کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ بلند درجہ حرارت اور خشک سالی کے باعث پانی کی سطح میں کمی آرہی ہے، جس سے ویٹ لینڈز کا ایکو سسٹم متاثر ہورہا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب کے مطابق “حکومت نے ویٹ لینڈز کے بچاؤ کے لیے کئی منصوبے اور قانون نافذ کیے ہیں، حکومت مختلف انجیوز کے ساتھ مل کر ویٹ لینڈز کی حفاظت کے لیے کام کررہی ہے۔” ویٹ لینڈز کی اہمیت کو نظرانداز کرنا اور ان کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنا بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ لوگوں کی معلومات کی کمی اور قدرتی وسائل کے حوالے سے بے حسی ان کے تحفظ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ پروفیسر اعجاز احمد کے مطابق “ویٹ لینڈز کو نظرانداز کرنا ماحولیاتی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ یہ سیلاب سے بچاؤ اور پانی کی صفائی میں مدد دیتے ہیں۔ حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو مل کر ان کے تحفظ کے لیے پالیسیاں بنانی چاہئیں اور عوام کو ورکشاپس اور سوشل میڈیا کے ذریعے شعور دینا چاہیے۔” پاکستان میں اہم ویٹ لینڈز جیسے انڈس ڈیلٹا، ہالیجی جھیل اور چھنجی ویٹ لینڈز ماحولیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ان قدرتی نظاموں میں آبی حیات کی کمی اور ماحولیاتی توازن کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ پروفیسر اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ “آبی حیات کی کمی اور ماحولیاتی توازن کی بگڑتی ہوئی صورتحال ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ماحولیاتی نظام کے عدم استحکام کا اشارہ ہے۔ آلودگی، غیر مستحکم ماہی گیری اور ویٹ لینڈز کی تباہی اس بحران کی بڑی وجوہات
“یہودی ریاست فلسطین پر غیر قانونی قبضہ کر رہی ہے” 9 ملکی ‘ہیگ گروپ’ کا اجلاس

اکتوبر میں شروع ہونے والی غزہ اسرائیل جنگ میں تقریباً 47 ہزار فلسطینی جان کی بازی ہار گئے، جب کہ لاکھوں زخمی اور بے گھر ہوئے، یہ جنگ 15 ماہ تک جاری رہی اور اس عرصے میں اسرائیل نے انسانی نسل کشی کی انتہا کردی۔ 19 جنوری کو اسرائیل اور حماس کے درمیان مرحلہ وار قیدیوں کے تبادلے پر جنگ بندی معاہدہ کیا گیا،جو کہ ابھی تک جاری ہے۔ اسرائیل کی جاری نسل کشی کی اس جنگ میں دنیا کے تمام ممالک کے عوام کی جانب سے مظاہرے دیکھنے کو ملے، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی اکثریت نے نسل کشی کی اس جنگ کے خلاف آواز اٹھائی، مظاہرین کی جانب سے کئی بڑے مظاہرے کیے گئے۔ گزشتہ روز کولمبیا، جنوبی افریقہ، ملائیشیا، بولیویا، ہونڈوراس، سینیگال، کیوبا، نمیبیا اور بیلیز نے ہیگ گروپ کے قیام کا اعلان کیا، جو کہ پروگریسو انٹرنیشنل کی تنظیم کے ذریعے فروغ دیا گیا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی قانون کے خلاف مشترکہ اقدامات کو مربوط کرنا اورفلسطین پر حملے کے لیے اسرائیل کے خلاف معاشی اور سفارتی پابندیوں کو نافذ کرنا ہے۔ ہیگ گروپ نے اسرائیل کے خلاف ایک نئی قانونی مہم کا آغاز کیا، جس میں کہا گیا کہ یہودی ریاست فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رہی ہے اور عالمی عدالتوں کے فیصلوں کی پابندی نہیں کر رہی۔ ہیگ گروپ نے اجتماعی وعدہ کیا کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ ماضی میں بھی فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ 29 نومبر 2024 سویڈن میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی ایلبٹ سسٹمز کے خلاف بھرپور مظاہرہ کیا، مظاہرین نے کمپنی پر زور دیا کہ وہ ایلبٹ سسٹمز کو دفتر کی جگہ لیز پر دینا بند کر دے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کی اسلحہ ساز کمپنی کو ملک سے نکالا جائے، کیوں کہ اسرائیل نے جارحیت کی انتہا کرتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالی کی ہے اور معصوم فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنا کر ان کا کھلے عام قتل کیا ہے۔ سویڈن کے شہر گوتھن برگ میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا، جس میں شرکاء نے معروف اسلحہ ساز کمپنی ایلبٹ سسٹمز کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مظاہرین نے کمپنی کے خلاف بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر تحریر تھا کہ ایلبٹ سسٹمز منافع کماتی ہے، جب کہ بچے ہسپتال کے بستروں پر جان دے رہے ہیں۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں فیکٹری کے باہر کھڑے مظاہرین نے اعلان کیا کہ ہم اس فیکٹری کے سامنے ہیں جو غزہ میں جاری نسل کشی میں ملوث ہے، اس فیکٹری کو بند کرنے کی ضرورت ہے۔ اس احتجاج کا مقصد سویڈن کی معروف رئیل اسٹیٹ کمپنی والنسٹام پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ ایلبٹ سسٹمز کو اپنے دفاتر کرائے پر دینا بند کردے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ کمپنی اسرائیلی فوج کو اسلحہ فراہم کرتی ہے، جس کا استعمال فلسطینی عوام کے خلاف کیا جاتا ہے۔ ایک کارکن نے کہا کہ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سویڈن میں موجود کمپنیاں فلسطینی عوام کے قتل عام میں بالواسطہ شریک ہوں، ہم والنسٹام پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ایلبٹ سسٹمز کے ساتھ اپنا معاہدہ ختم کرے۔ دوسری طرف کینیڈا کے شہر مونٹریال میں واقع میک گل یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی فلسطینی عوام کے حق میں احتجاج کیا۔ شدید برفباری کے باوجود طلبہ نے یونیورسٹی کے ٹیک فیئر میں شامل اسرائیلی فوج سے وابستہ کمپنیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ طلبہ نے ایک بڑا بینر تھام رکھا تھا، جس پر لکھا تھا کہ تمہاری انٹرن شپ فلسطینیوں کے قتل کا سبب بنتی ہے۔ احتجاجی مظاہرے کا مقصد ائیر بس، ایم ڈی اے اسپیس اور گالوین جیسی کمپنیوں کو یونیورسٹی کے ٹیک فیئر سے ہٹانا تھا۔ طلبہ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ کمپنیاں اسرائیلی فوج کو جدید ترین ٹیکنالوجی اور اسلحہ فراہم کر رہی ہیں، جو فلسطینی عوام کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے علاوہ برطانیہ فرانس اور امریکہ میں بھی فلسطینی عوام کے حق میں مظاہرے دیکھے گئے، جہاں لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے ممالک اسرائیل کی فوجی امداد بند کریں اور ان کمپنیوں کے ساتھ معاہدے منسوخ کریں جو فلسطینیوں پر ظلم میں ملوث ہیں۔ یاد رہے کہ ایلبٹ سسٹمز اسرائیل کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے، جو جدید ترین ڈرونز، اسلحہ اور نگرانی کے آلات تیار کرتی ہے۔ اس کمپنی کا کئی یورپی اور امریکی بینکوں اور مالیاتی اداروں نے پہلے سے ہی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
بلوچستان میں فورسز کی کارروائیوں میں 23 دہشتگرد ہلاک

پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کے مختلف 2 مختلف علاقوں میں آپریشنز کیے گئے۔ ان کارروائیوں کے دوران 23 دہشتگرد ہلاک ہوگئے ہیں۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ہفتہ کو جاری کردہ بیان کے مطابق ان آپریشنز کے دوران دہشتگردوں کے حملے میں پاک فوج کے 18 جوان مارے گئے ہیں۔ 31جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب دہشت گردوں نے بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں روڈ بلاک کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز نے ان کے خلاف کارروائی کی۔ مقابلے کے دوران پاکستانی فورسز کے 18 اہلکار مارے گئے ۔ آئی ایس پی آر کا دعویٰ ہے کہ سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جوابی کارروائی میں آپریشن کرتے ہوئے 12 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 31 جنوری اور یکم فروری کی رات دہشتگردوں نے روڈ بلاک کرنے کی کوشش کی، سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری متحرک ہوئے اور سکیورٹی فورسز نے دہشتگردوں کے مذموم عزائم کو کامیابی سے ناکام بنایا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ گھناؤنے بزدلانہ فعل کے مرتکب اور سہولتکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے، قلات کے علاقے منگوچر میں ہونے والی کارروائی کے تناظر میں ہرنائی میں کلیئرنس آپریشن کیا گیا جس میں مزید 11 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز بلوچستان کا امن سبوتاژ کرنےکی کوششیں ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں، ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ بیان کے مطابق مقامی آبادی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے 12 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، دشمن قوتوں کی ایما پر دہشتگردی کا مقصد بلوچستان کا پُرامن ماحول خراب کرنا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اس حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ قوم دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کے ساتھ ہے۔ صدرمملکت آصف علی زرداری نے بلوچستان واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی فورسز کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
قیدیوں کے تبادلے پر جشن و گرفتاریاں: حماس، اسرائیل میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے تحت دونوں طرف سے قیدیوں کا تبادلہ جاری ہے، جمعرات کے روز 110 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ ان میں سے 32 قیدی وہ تھے جو زندگی بھر کی سزاؤں کی مدت گزار رہے تھے۔ ان قیدیوں کی رہائی کے بعد مغربی کنارے اور غزہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تاہم اسرائیلی پولیس نے جشن کی تقریبات کے دوران 12 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔ غزہ میں جہاں جنگ کی تباہ کاریاں جاری ہیں، اسرائیلی افواج نے 47,460 فلسطینیوں کی جان لے لی ہے اور 111,580 کو زخمی کیا ہے۔ یہ سب کچھ 7 اکتوبر 2023 کے دن کے بعد سے شروع ہوا جب حماس کی قیادت میں اسرائیل پر حملے ہوئے تھے۔ اس دن اسرائیل میں 1,139 افراد مارے گئے تھے اور 200 سے زیادہ اسرائیلیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک شخص جو 24 سال سے اسرائیل کی حراست میں تھا اس شخص نے ’الجزیرہ‘ کے ایک نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی اذیتوں کا ذکر کیا اور کہا کہ “یہ لمحے زندگی بھر یاد رہیں گے لیکن ہم نے اپنے وطن کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں۔” غزہ میں اسرائیلی افواج نے نہ صرف فلسطینیوں کو جسمانی طور پر نقصان پہنچایا، بلکہ اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ فلسطینی گھروں پر کیے گئے ‘گرافیٹی’ نے صورتحال کو اور زیادہ دردناک بنا دیا۔ “بریکنگ دی سائلنس” نامی تنظیم جو اسرائیلی فوج کے سابق فوجیوں پر مشتمل ہے اس تنظیم نے ان فوجیوں کے بیانات کا انکشاف کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی گھروں کے اندر گرافیٹی کرنے کا عمل معمول بن چکا تھا جس میں جنسی تصاویر اور نفرت انگیز پیغامات لکھے جاتے تھے۔ ایک اسرائیلی فوجی نے کہا کہ “یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جاتا تھا۔ ہم جانتے تھے کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں واپس آنا ہوگا لیکن ہمیں ان کے گھروں کو تباہ کرنے کا حکم تھا۔” دوسری طرف مغربی کنارے میں جینین اور طولکرم کے علاقوں میں اسرائیلی افواج کی جارحیت نے ایک اور خونریزی کا منظر پیش کیا۔ جینین کے پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فوج نے تین خواتین کو زخمی کیا جبکہ جینین شہر میں فلسطینی جنگجوؤں نے اسرائیلی افواج کو دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے کئی عمارتوں کو تباہ کر دیا اور درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار کیا۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت 110 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی، جن میں 32 قیدی زندگی بھر کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔یہ ایک اہم قدم تھا، لیکن اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جاری کارروائیاں اور مسلسل کشیدگی نے اس کی کامیابی کو مشکوک بنا دیا۔ دریں اثناء اسرائیل کے لیے ایک اور عالمی تشویش کا معاملہ سامنے آیا جب نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں اسرائیلی فوجیوں سے ان کے فوجی خدمات کے بارے میں سوالات کیے جانے لگے۔ نیوزی لینڈ نے اسرائیلی فوجیوں سے ان کی سروس کے بارے میں تفصیلات طلب کیں اور بعض فوجیوں کو ان کے جوابات کی بنیاد پر ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ یہ ساری صورتحال بتاتی ہے کہ نہ صرف غزہ اور مغربی کنارے میں خونریزی جاری ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس جنگ کے اثرات اور اس سے وابستہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شدید بحث کا باعث بن رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری اس سنگین بحران پر کس طرح ردعمل ظاہر کرتی ہے اور کیا اس خونریزی کو روکنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے گا؟