سعودی عرب کی پاکستان میں چھ لاکھ افراد کے لیے موسم سرما کی امداد کا اعلان

سعودی عرب نے پاکستان کے لیے ایک نئی امداد کا آغاز کیا ہے جس سے تقریباً چھ لاکھ افراد کی زندگیوں میں روشنی آئے گی۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر نے 2025 کے منصوبے کے تحت پاکستان میں موسم سرما کی مدد کے لیے ایک وسیع اور تفصیلی امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے جو سردی کے موسم میں درپیش مشکلات کا شکار افراد کی مدد کرے گا۔ اسلام آباد میں جمعرات کو منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین، پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی، اور شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر پاکستان کے ڈائریکٹر عبداللہ البقامی نے شرکت کی۔ اس موقع پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں موسم سرما کی امدادی کٹس کی تقسیم کا باقاعدہ آغاز کیا گیا، جس کا مقصد پاکستانی عوام کے لئے اس سخت موسم میں راحت کا سامان فراہم کرنا ہے۔ پہلے مرحلے میں 50 ہزار سرد ترین اور برفباری والے اضلاع کے رہائشیوں کو موسم سرما کی کٹس فراہم کی جائیں گی، جن میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے گرم کپڑے، دو پولیسٹر رضائیاں، اور شالیں شامل ہوں گی۔ اس کے بعد مزید 34 ہزار پانچ سو شیلٹر نان فوڈ آئٹمز قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کے تحت مختص کیے جائیں گے، جو تین اضافی مراحل میں تقسیم کیے جائیں گے۔ یہ امدادی منصوبہ قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور مقامی حکام کے ساتھ مل کر انتہائی شفاف اور مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے گا تاکہ ان کی صحیح ضرورت مندوں تک رسائی یقینی بنائی جا سکے۔ امداد کا یہ پیکیج پاکستان کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے شمالی علاقوں میں تقسیم کیا جائے گا، جہاں سردی سے متاثرہ افراد کی تعداد بے شمار ہے۔ پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ یہ تعاون ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ اس امدادی پیکج سے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی۔” رنگین رضائیاں اور گرم شالوں سے بھرے ہوئے یہ پیکجز سردی کی شدت سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کے لیے ایک نیا سورج بن کر طلوع ہوں گے۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر، سندھ اور پنجاب کے مختلف حصوں میں ان کٹس کی فراہمی سے لاکھوں افراد کو فوری طور پر راحت ملے گی۔ پاکستان کے وزیر برائے فوڈ سکیورٹی رانا تنویر حسین نے اس تقریب میں کہا کہ”یہ امدادی پیکج پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا ایک اور عکاس ہے اور یہ ہمارے دونوں ممالک کے مشترکہ عزم کو ظاہر کرتا ہے۔” یہ منصوبہ سعودی عرب کے پاکستان کے لیے تعاون اور محبت کا روشن نشان ہے جو نہ صرف سرد موسم میں پریشانی کا شکار افراد کی مدد کرے گا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود تاریخی اور مضبوط تعلقات کی بنیاد کو مزید مستحکم کرے گا۔ یہ عمل یقینی طور پر پاکستان کے عوام کی زندگیوں میں خوشی اور سکون لائے گا۔
’جو انصاف کا ادارہ ہے وہ خود انصاف کی تلاش میں ہے‘ عمران خان نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اڈیالہ جیل سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کو ایک خط لکھا ہے، جو 349 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس خط میں پاکستان کے آئینی نظام کی تباہی پر بات کی گئی ہے۔ اس خط میں نہ صرف انسانی حقوق کی پامالیوں بلکہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عمران خان کے خط میں ایک طرف جہاں انتخابات میں دھاندلیوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں وہیں دوسری طرف پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جبری گمشدگیاں، جسمانی تشویشات اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔ عمران خان نے اپنی اس تحریر میں دعویٰ کیا ہے کہ نومبر 2024 کے آخر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسپتالوں کے ریکارڈز کو سیل کرکے بعد میں ان میں تبدیلیاں کی گئیں۔ عمران خان نے اپنی تحریر میں عدالت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “جو ادارہ انصاف فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے وہ خود انصاف کی تلاش میں ہے”۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عدلیہ نے انتخابات میں دھاندلیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف متعدد درخواستوں پر کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی۔ خط میں عمران خان نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف ریاستی جبر کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔ ان کے مطابق یہ کارکنان جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے اور انہیں تشویشات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ موجودہ حکومت نے انتخابی دھاندلی اور تاریخی دھاندلیوں کے ذریعے اقتدار میں آ کر پی ٹی آئی کو جبر کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ جس کا عمران خان نے ذکر کیا، وہ ان کی اپنی گرفتاری تھی۔ انہوں نے 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت سے غیر قانونی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس گرفتاری کو جان بوجھ کر ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نشر کیا گیا تاکہ عوامی غصے کو بھڑکایا جا سکے۔ عمران خان نے کہا کہ جب وہ ریاستی جبر کے خلاف ہائی کورٹ میں پناہ لینے گئے تو ان پر حملہ کیا گیا، اور بعد میں سپریم کورٹ نے اس آپریشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ عمران خان نے مزید الزام عائد کیا کہ ان کے خلاف پرامن احتجاجوں کو ناکام کرنے کے لئے تشدد کو بڑھایا گیا اور ان احتجاجوں میں خفیہ طور پر انارکی پھیلانے والے افراد کو شامل کیا گیا۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر بھی عمران خان نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شبلی فراز نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی کمیٹی بنانا حل نہیں ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت سنجیدہ تھی تو مذاکرات کے لیے کمیٹی پہلے ہی بن چکی ہوتی۔ عمران خان نے اپنے خط میں ایک اور اہم معاملے کی طرف بھی اشارہ کیا، جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی شکایت سے متعلق تھا جس میں انہوں نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے الزامات لگائے تھے۔ عمران خان نے اس معاملے کو ‘انتہائی سنجیدہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے آزادی کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ خط کے اختتام پر عمران خان نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تمام مسائل پر فوری طور پر کارروائی کریں اور پاکستان کے آئین کی پامالی کرنے والوں کو سزا دیں تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہو سکے۔ عمران خان نے کہا کہ “اگر سپریم کورٹ نے ان مسائل پر کارروائی نہ کی تو ملک آئینی بحران کی طرف مزید بڑھ جائے گا اور ہم ایک ایسی صورتحال میں پہنچ جائیں گے جہاں ‘طاقت ہی درست ہے’ کا قانون رائج ہوگا۔“ آخرکار عمران خان نے چیف جسٹس کو یاد دلایا کہ اس وقت قوم ان کی جانب دیکھ رہی ہے کہ آیا وہ پاکستان کے آئین اور عدلیہ کی آزادی کے اصولوں پر عمل کریں گے یا یہ صرف لفظی باتیں ہوں گی۔ یہ خط پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک اہم موڑ کا اشارہ دے رہا ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز اس پر کس طرح ردعمل دیتے ہیں۔ یہ معاملہ اب صرف پی ٹی آئی یا عمران خان کا نہیں، بلکہ پورے ملک کے آئین اور عدلیہ کے مستقبل کا سوال بن چکا ہے۔
امریکا میں مسافر طیارہ فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرا گیا، 64 مسافر سوار ،28 لاشیں نکال لی گئیں

امریکی حکام کے مطابق ایک امریکن ائیر لائنز کا مسافر طیارہ بدھ کی رات ریگن واشنگٹن نیشنل ائیر پورٹ کے قریب یو ایس آرمی کے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر سے ٹکرانے کے بعد دریائے پوٹومیک میں گر گیا۔ خبر رساں ادارے ’واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق ” پانی سے 28 لاشیں نکال لی گئی ہیں”۔ ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز نے سوشل میڈیا پر کہا کہ “ہمیں معلوم ہے کہ ہلاکتیں ہوئی ہیں،” حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے لوگ جاں بحق ہوئے ہیں”۔ امریکن ایئر لائنز کے ایک افسر نے بتایا کہ” 60 مسافروں کے ساتھ دو پائلٹ اور عملے کے دو ارکان پرواز میں شامل تھے۔ ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر میں تین فوجی سوار تھے”۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 28 لاشیں نکال لی گئی ہیں مزید کی تلاش جاری ہے۔ فروری 2009 کے بعد سے امریکی مسافر بردار ہوائی جہاز کا کوئی جان لیوا حادثہ نہیں ہوا، لیکن حالیہ برسوں میں ہونے والے واقعات کی ایک سیریز نے حفاظت کے سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ این بی سی نے اطلاع دی ہے کہ “چار افراد کو دریائے پوٹومیک سے زندہ نکالا گیا ہے”۔ یو ایس فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے کہا کہ “پی ایس اے ایئر لائنز کا علاقائی جیٹ ریگن کے قریب پہنچتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے درمیانی ہوا میں ٹکرا گیا”۔ دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ متعدد ایجنسیاں ہوائی اڈے سے متصل دریائے پوٹومیک میں تلاش اور بچاؤ کے آپریشن میں شامل تھیں۔ ہوائی اڈے کے حکام نے بدھ کے روز کہا کہ “تمام ٹیک آف اور لینڈنگ روک دی گئی ہیں کیونکہ ہنگامی عملے نے ہوائی جہاز کے واقعے پر ردعمل ظاہر کیا”۔ نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ نے کہا کہ” وہ اس واقعے کے بارے میں مزید معلومات اکٹھا کر رہیں”۔ امریکی ائیر لائن کی جانب سے سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ”وہ ان اطلاعات سے آگاہ ہے کہ ای ایس اے 5342 پروازایک حادثے کا شکار ہوئی ہے۔ View this post on Instagram A post shared by NBC4 Washington (@nbcwashington) امریکن ایئر لائنز نے کہا کہ “وہ مزید معلومات فراہم کرے گی جیسے ہی یہ کمپنی کو ملتی ہیں ۔ پچھلے دو سالوں کے دوران، واقعات کی ایک سیریز نے امریکی ایوی ایشن کی حفاظت اور فضائی ٹریفک کنٹرول آپریشنز پر دباؤ کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ ایف اے اے ایڈمنسٹریٹر مائیک وائٹیکر نے 20 جنوری کو استعفیٰ دے دیا تھا اور ٹرمپ انتظامیہ نے کسی متبادل کا نام نہیں لیا ہے – یہ بھی ظاہر نہیں کیا ہے کہ کون عبوری بنیادوں پر ایجنسی چلا رہا ہے۔ امریکہ میں کمرشل ہوائی جہاز کے ساتھ آخری مہلک بڑا حادثہ 2009 میں ہوا تھا، جب کولگن ایئر کی پرواز میں سوار 49 افراد ریاست نیویارک میں گر کر تباہ ہو گئے تھے۔ ایک شخص کی موت بھی ہوئی۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف نے جانی نقصان پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ایکس پر ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’اس مشکل میں ہماری ہمدردیاں اور دعائیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی عوام کے ساتھ ہیں۔‘
“بلاول کے خطاب سے کیا تاجروں کے مسائل حل ہوجائیں گے” امیر جماعتِ اسلامی کراچی

امیر جماعتِ اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز بلاول بھٹو نے کراچی کے تاجروں سے خطاب کیا اور کہا کہ کراچی کے تاجر چغلی نا کریں۔ اب اگر کراچی کے تاجر اپنے جائز حق کے لیے بات کرتے ہیں تو یہ چغلی ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی منعم ظفر خان نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت تھا جب کراچی میں بھتہ خوری کا عروج تھا۔ اب بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ کراچی کے تاجر چغلی نہ کریں۔ 16 سال سے برسر اقتدار حکومت سے میرا سوال ہے کہ کیا کل جو خطاب کیا گیا تھا اس میں صنعتکاروں کو امید ہوگی کہ ان کے مسئلے حل ہوں گے؟ انھوں نے کہا کہ کراچی بھرپور ٹیکس ادا کرتا ہے، یہ وہ شہر ہے جس نے 2500 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں۔دوسری طرف کراچی کے تاجر اگر اپنے جائز حق کے لیے بات کریں تو یہ چغلی ہےاور اگر وہ آرمی چیف کے سامنے بات کریں تو یہ چغلی کھانا ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی کراچی نے سوال کیا کہ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو یہ بتائیں گےکہ ماضی میں کراچی میں جو بھتہ خوری ہوتی رہی ، گینگ سٹر بھتہ خوری عروج پر رہی ، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ بھی بتائیں کہ لیاری امن کمیٹی کے نام پر بھتہ کون لیتا تھا؟آپ نے جس طرح میکنزم بنایا ہے اس کا جواب تو دینا ہوگا۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ اسکیم 33 میں کیا کچھ ہورہا ہے، جہاں غریب لوگوں کی زمینوں پر روز کی بنیاد پر بھتہ لیا جاتا ہے۔دوسری طرف ایس بی سی اے اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے بھتے کا گڑھ ہیں،نئی نمبرز پلیٹس بنائی جارہی ہے جو ایک نیا دھندہ ہے۔سندھ حکومت اورقابض میئر یہ بتائیں کہ میونسپل ٹیکس کہاں جارہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ کوئی بتائے گا کہ کیوں کراچی کا انفرااسٹرکچر تباہ ہورہا ہے؟ یہ لوگ باتیں جمہورہت کی کر رہے ہیں مگر ٹیکس ادا کرتے کرتے کراچی کے لوگوں کی قمر ٹوٹ کررہ گئی ہے۔ دوسری طرف کراچی کے لوگوں کوٹوٹی سڑکیں ، بہتے گٹراوربرائے نام گیس دی جارہی ہے۔ واٹر ٹینکرز میں لوگوں کو پانی فروخت کیا جارہا ہےاور یہ سارا دھندہ پی پی پی کی سربراہی میں صوبائی حکومت کر رہی ہے۔ کراچی کی اس حالت کا ذمہ دار سارا گٹھ جوڑ ہے جو کراچی کو مل کر کھا رہاہے، مگر کراچی کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ کراچی کے علاقے ملیر میں کالا بورڈ کے برساتی نالے میں بزرگ شہری گر کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، لیکن میئر کراچی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہ سارا دھندہ ہے جوجمہوریت کے نام پر کیا جارہا ہے ۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کی مزاحمت جاری ہے اور یہ صرف شہر کے مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔ ہمارے 9 ٹائون میں جتنے کام ہوئے ہیں، وہ کراچی والے دیکھ رہے ہیں۔ پی پی پی کی سربراہی میں پارکوں پر قبضے کیے جارہے ہیں، کلفٹن میں اہل علاقہ سول سوسائٹی کھیلوں کے میدانوں پر قبضے کررہے ہیں، مگر کوئی اس پر توجہ نہیں دے رہا۔ انھوں نے کہاکہ جماعتِ اسلامی اس پورے عمل کی مذمت کرتی ہے، اس کے علاوہ حقوق کراچی کی تحریک آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک جانب بلدیاتی مسائل ہیں تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والوں نے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ فیڈرل بی ایریا میں گھر کےسامنے ایک شخص کو گولی ماردی گئی ۔گزشتہ سال بھی 111 افراد کو اسی ضمن میں مار دیا گیا تھا۔ وزیر داخلہ کی زمہ داری ہے کہ وہ اس بات پر توجہ دے کہ لوگوں کو کیوں مارا جارہا ہے؟ جب کسی کی جان جاتی ہےتو اس کے اہل ِخانہ سے پوچھیں کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی نے پی پی پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 26دنوں میں شہر میں صرف کتے کے کاٹنے کے 2 ہزار کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ پی پی پی کا ویزن ہے کہ نوجوانوں کو تعلیم سے محروم کیا جائے، ہروہ طبقہ جس کا تعلق تعلیم سے ہے اسے محروم کردیا جائے۔ پورےصوبے میں جامعات کی کلاسز کا بائیکاٹ کیا گیا ہے لیکن پی پی پی اپنے جہالت کے ویزن پر ڈٹی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ اس بائیکاٹ کی وجہ سندھ سرکار یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم ہے، جس کے تحت اب کوئی بھی 20 یا 21 گریڈ کا آفیسر یونیورسٹی کا وائس چانسلر بن سکتا ہے۔ سندھ میں یہ فیصلہ ایک بڑا تنازعہ بن چکا ہے۔ یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم کی جانب سے گزشتہ کئی دنوں سے سراپا احتجاج کیا جارہا ہے اور جامعات کی کلاسسز کا مکمل بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی 20 لاکھ ملازمین کو ملازمت چھوڑنے کے لیے مالی مراعات کی پیشکش

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے وفاقی حکومت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ٹرمپ کے اس متنازعہ اقدام میں 20 لاکھ کل وقتی وفاقی سویلین ملازمین کو “ڈیفرڈ ریزیگنیشن پروگرام” کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس اقدام کا مقصد حکومت کے حجم کو کم کرنا اور وفاقی افرادی قوت کی تنظیم نو کرنا ہے۔ اس اقدام کو تنقید اور سوالات کا سامنا ہے، اور یہ نیا فیصلہ وفاقی ملازمین کی زندگیوں میں ایک سنگین موڑ لے سکتا ہے۔ ،جاری کی گئی ای میل میں وفاقی ملازمین کو 6 فروری تک اس پیشکش میں حصہ لینے کا وقت دیا گیا ہے۔ ای میل میں بتایا گیا ہے کہ اگر ملازمین اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں تو انہیں 30 ستمبر تک پے رول پر رہنے کی اجازت ہوگی، مگر اس دوران انہیں ذاتی طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور ان کی ڈیوٹیز یا تو کم کر دی جائیں گی یا مکمل طور پر ختم کر دی جائیں گی۔ دلچسپی رکھنے والے افراد کو اپنے سرکاری ای میل اکاؤنٹ سے جواب دیتے ہوئے لفظ “استعفیٰ” لکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہ پیشکش خاص طور پر امیگریشن، قومی سلامتی اور امریکی پوسٹل سروس کے ملازمین کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس میں بیشتر وفاقی سویلین ملازمین شامل ہیں۔ ان 20 لاکھ ملازمین میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو سابق فوجیوں کی صحت کی دیکھ بھال، زراعت کے معائنے اور حکومت کے بلوں کی ادائیگی جیسے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہ غیر معمولی اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کے ابتدائی دنوں کو اپنی سیاسی ترجیحات کے مطابق امریکی وفاقی حکومت کا حجم کم کرنے، اس کی تشکیل نو کے لیے استعمال کیا ہے۔ ای میل میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کا مقصد ایک “زیادہ ہموار اور لچکدار افرادی قوت” بنانا ہے۔ اگرچہ کچھ ایجنسیوں کو اپنے عملے میں اضافہ کرنے کا کہا جا سکتا ہے، تاہم زیادہ تر ایجنسیوں میں برطرفیوں اور تنظیم نو کے ذریعے کمی کرنے کا ارادہ ہے۔ ای میل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وفاقی ملازمین کو ان کی ملازمتوں کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، اور اگر ان کے عہدے ختم کر دیے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ عزت کے ساتھ برتاؤ کیا جائے گا۔ ڈیموکریٹک سینیٹر ٹم کین نے اس تجویز کو “جعلی پیشکش” قرار دیا اور کہا کہ ٹرمپ کے پاس وفاقی ملازمین کو یہ پیشکش دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے وعدے کے مطابق ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل سکتیں۔ تاہم، ایک سینئر انتظامی عہدیدار نے یہ کہا ہے کہ اگر 5 سے 10 فیصد وفاقی ملازمین اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں تو حکومت کو 100 ارب ڈالر تک کی بچت ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ پیشکش وفاقی حکومت کی ساخت میں ایک نئی شکل لاسکتی ہے، تاہم اس کے نتائج ابھی واضح نہیں ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کتنے ملازمین اس پیشکش کو قبول کرتے ہیں اور اس کا وفاقی خدمات کی سطح پر کیا اثر پڑتا ہے۔
وائیٹ پیپر کیا ہے اور کیوں جاری کیا جاتا ہے؟

وائٹ پیپر ایک ایسی دستاویز ہے جو کسی مخصوص مسئلے، پالیسی یا موضوع پر تفصیلی تجزیہ فراہم کرتی ہے اور اس کے بارے میں حل یا تجاویز پیش کرتی ہے، یہ دستاویز عام طور پر حکومتوں، کاروباری اداروں یا تحقیقی اداروں کی طرف سے جاری کی جاتی ہے۔ وائٹ پپر کو 90 کی دہائی میں متعارف کروایا گیا تھا، لیکن اب یہ مارکیٹنگ ٹول کے طور پر بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ خاص طور پر کاروبار میں انہیں صارفین اور شراکت داروں کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کا آغاز 1920 کی دہائی میں برطانیہ سے ہوا، جہاں یہ حکومت کے محکموں کی طرف سے جاری کی جانے والی پوزیشن پیپرز یا صنعت کی رپورٹس کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ یہ پیپرعام طور پر عوام یا مخصوص گروپوں کو اہم موضوعات سے آگاہ کرتا ہے اور یہ حکومتی یا کاروباری پالیسیوں کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وائیٹ پیپر عوامی فیصلوں کی وضاحت کو بڑھاتا ہے اور اداروں یا حکومتوں کو جوابدہ بنانے میں بھی معاون ہوتا ہے۔ ‘وائٹ پیپر’ کی اصطلاح برطانوی حکومت سے آئی جہاں یہ بلیوبک کا کم تفصیلی ورژن ہے۔ یہ حکومت کی پالیسیوں کو پیش کرنے اور عوامی آراء حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور اس میں غیر متغیر پالیسی وعدے نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں وائٹ پیپر کابینہ کی منظوری کے بعد عوامی سطح پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ دستاویزات حکومت کی پالیسیوں، منصوبوں اور اہم مسائل پر عوام کو آگاہ کرنے اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان معلومات کا تبادلہ کرنے کا اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ سیاسی طور پر وائٹ پیپرز کا مقصد عوامی بحث کو فروغ دینا اور پالیسی سازی میں شفافیت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ان دستاویزات کا استعمال عام طور پر پیچیدہ مسائل پر تفصیل سے تجزیہ پیش کرنے اور مختلف آپشنز کے فوائد و نقصانات کو واضح کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر مشہور وائٹ پیپرز کی مثالوں میں 1939 کا برطانوی وائٹ پیپر شامل ہے جس میں فلسطین میں یہودی مہاجرین کے معاملے پر تفصیل سے بحث کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کا ‘فل ایمپلائمنٹ ان آسٹریلیا’ بھی ایک معروف مثال ہے جس میں ملک میں مکمل روزگار کی پالیسی پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ دوسری جانب کاروباری وائیٹ پیپرز عام طور پر کمپنیوں کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں تاکہ مخصوص مصنوعات، خدمات یا کاروباری حکمت عملی کے بارے میں معلومات فراہم کی جا سکیں۔ یہ سیلز اور مارکیٹنگ ٹول کے طور پر بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ یہ وائیٹ پیپرز تحقیقی ادارے، یونیورسٹیز یا دیگر علمی ادارے بھی جاری کرتے ہیں۔ ان میں تحقیق کے نتائج، نئے علمی نظریات یا تجربات پر مبنی معلومات بھی شامل ہوتی ہیں۔ وائیٹ پیپرز حکومتی اداروں، کاروباری تنظیموں یا دیگر اداروں کے لیے ایک اہم ذریعہ ہیں جو مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ پالیسی سازی کے دوران عوامی رائے حاصل کرنے اور تجاویز جمع کرنے کے لیے جاری کیے جاتے ہیں، ساتھ ہی عوامی آگاہی بڑھانے یا کسی خاص موضوع پر رائے ہموار کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ نئے کاروباری ماڈلز یا ٹیکنالوجیز کی تفصیل پیش کرنے کے لیے بھی وائیٹ پیپرز ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ مزید برآں تحقیقی وائیٹ پیپرز کسی خاص شعبے میں کی جانے والی تحقیق کے نتائج اور تفصیلات شیئر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں تاکہ علم کا تبادلہ ہو سکے۔ وائیٹ پیپر جاری کرنے کی اہم وجوہات میں پالیسی سازی، عوامی رائے کی تشکیل، اور نئے حل کی پیشکش شامل ہے۔ یہ دستاویزات اہم مسائل پر معلومات فراہم کرتی ہیں تاکہ فیصلوں میں بہتری لائی جا سکے اور عوام کی آراء حاصل کی جا سکیں۔ اس کے علاوہ وائٹ پیپر کی وجہ سے عوامی پالیسی کا کاروباری فیصلوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی، ٹیکس پالیسیوں اور ضوابط کاروباری حکمت عملیوں کو متاثر کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں ترقی اور استحکام کی راہیں کھلتی ہیں۔ وائٹ پیپرز کے ساتھ آنے والے کچھ مسائل میں تعصب بھی شامل ہے کیونکہ یہ دوسروں کو نظر انداز کرتے ہوئے یک طرفہ خیالات پیش کر سکتے ہیں۔ اپنی وسیع تر اپیل کو محدود کرتے ہوئے مخصوص گروپوں کے مفادات کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وائیٹ پیپر میں ضرورت سے زیادہ تفصیل اس کو سمجھنا مشکل بنا سکتی ہے۔ اگر مؤثر طریقے سے پھیلایا نہ جائے تو ااس کا اثر کم سے کم ہو سکتا ہے جس سے مجموعی تاثیر کم ہو سکتی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر فیصل کامران نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “وائیٹ پیپر ایک رسمی دستاویز ہے جو کسی خاص موضوع، پالیسی، یا مسئلے پر تفصیلی معلومات فراہم کرتی ہے تاکہ عوام یا متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو قائل کیا جا سکے یا کسی پالیسی کی وضاحت کی جا سکے”۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ عثمان شمیم نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وائٹ پیپر سے متعلق کہا کہ “وائٹ پیپر حکومتی یا ادارتی پالیسیوں پر وضاحت دینے اور عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی اہم مسئلے پر رہنمائی فراہم کرتا ہے اور پالیسی سازی میں مددگار ہوتا ہے”۔ پروفیسر فیصل کامران نے وائٹ پیپر کے استعمال سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “یہ صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ کاروباری ادارے، ٹریڈ یونینز، اور دیگر تنظیمیں بھی اپنی حکمت عملی، پروڈکٹس، یا مسائل کے حل پیش کرنے کے لیے وائیٹ پیپر جاری کرتی ہیں”۔ پروفیسر عثمان شمیم کے مطابق ” وائٹ پیپر کا دائرہ صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ کاروباری ادارے اور ٹریڈ یونینز بھی اپنے مسائل، مصنوعات، یا پالیسی تجاویز کے لیے یہ جاری کرتی ہیں”۔ پروفیسر کامران نے وائٹ پیپر کی تاریخ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پہلا وائیٹ پیپر برطانوی حکومت نے 1922 میں فلسطین کے مسئلے پر جاری کیا تھا جس میں مسئلہ فلسطین پر تفصیل سے بات کی گئی تھی”۔ اس حوالے سے پروفیسر
حکومت کی ’مذاکرات‘ بچانے کی کوشش

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات سے ختم کردیے ہیں جبکہ حکومت کے کچھ لوگ ان کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں، مذاکرات کا مقصد گزشتہ تین سالوں سے ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھائی ہوئی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔ مذاکرات کے تین دور ہوئے مگر عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت پر یہ ذمہ داری ڈالی تھی کہ وہ اپنے چارٹر آف ڈیمانڈز پر غور کرے، جو اس نے 16 جنوری کو آخری مذاکرات کے دوران پیش کیے تھے۔ تاہم، ایک ہفتے بعد جمعرات کو پی ٹی آئی چیئرمین گوہر علی خان نے اعلان کیا کہ پارٹی اگست 2023 سے قید عمران خان کی ہدایات کے بعد مذاکرات سے دستبردار ہو جائے گی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور عمران خان کے دوست سمجھے جانے والے سردار ایاز صادق نے ایک بارپھر’مذاکرات‘ بچانے کی کوشش کی ہے، انہوں نے سابق اسپیکر اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر سے ٹیلی فون پر بات بھی کی ہے۔ اسد قیصر نے بات تو سنی ہے مگر مذاکرات میں واپس آنے کی کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اگرآج میٹنگ کا حصہ نہیں بنتی تو اسپیکر کمیٹی کو تحلیل کردیں گے، پی ٹی آئی والے جو کچھ باہر کریں گے اس کا جواب حکومت دے گی۔ ساری صورتحال میں ایک سوال جنم لے رہا کہ اگر یہ ’مذاکرات‘ کا کھیل دوبارہ شروع نہیں ہوتا اور اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو کیا ہوگا؟ تین سال قبل اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے، پی ٹی آئی نے اکثر احتجاجی مارچوں کا اہتمام کیا ہے، جو اکثر سڑکوں کی بندش اور انٹرنیٹ بلیک آؤٹ سے ملک کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما بخاری نے اشارہ دیا ہے کہ پارٹی سڑکوں پر واپس آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا، “ہمارے حامی عمران کے لیے باہر آنے کو تیار ہیں، یہاں تک کہ ذاتی خطرے کے باوجود بھی ،” انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے موجودہ “گھٹن” کے ماحول کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار شیرازی نے ’الجزیرہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ ایجی ٹیشن کی طرف لوٹے گی۔ آخری بار پی ٹی آئی نے نومبر میں اسلام آباد کو محاصرے میں لیا، حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ اب چیمپیئنز ٹرافی اگلے ماہ شیڈول ہے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی اسے ایک بار پھر افراتفری کے لیے استعمال کرے گی؟ پی ٹی آئی نے گزشتہ سال اکتوبر میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی تاریخوں کے دوران، اسلام آباد میں احتجاج کی کال بھی دی تھی۔ تاہم تقریب سے ایک روز قبل پی ٹی آئی نے اپنی کال واپس لینے کا فیصلہ کیا۔
احتجاج کے شور میں ’متنازع پیکا ایکٹ‘ منظور، صحافیوں کا سینیٹ گیلری سے واک آؤٹ

سینٹ نے متنازعہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کر لیا ہے۔ بل کی منظوری کے وقت صحافی سینیٹ گیلری سے واک آؤٹ کر گئے۔ سینیٹ نے پیکا ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن بل 2025 منظور کیے ہیں۔ ڈپٹی چیئر مین سیدال خان ناصر کی صدارت میں اجلاس شروع ہوا، رانا تنویر حسین نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری کی تحریک پیش کی، جسے ایوان نے کثرتِ رائے سے منظور کیا۔ بل کی منظوری کے وقت اپوزیسن اراکین کا سخت احتجاج دیکھنے میں آیا۔ احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں پھینک دیں۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کہتے ہیں کہ قانون بننے میں وقت لگتا ہے۔ لیکن یہاں وزیر قانون آتے ہیں ، نیا قانون بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بس کوما وغیرہ کی درستی کی ضرورت ہے باقی فوری طور پر منظور کر لیں۔ شبلی فراز نے مزید کہا کہ صحافی آج اپنے پیشہ ورانہ امور کے حوالے سے تحفظات پر احتجاج پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لیا حکومے نے متعلقہ صحافیوں سے اس بارے م،ی ں رابطہ کیا؟ یہ قانون برائے اصلاح نہیں بلکہ قانون برائے سزا ہے اور ہم اس قانون کے بننے کے عمل میں شامل نہیں ہو سکتے۔ پیکا ایکٹ کے تحت غیر قانونی مواد یا فیک نیوز پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔ پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ ایسا مواد جو اسلام مخالف، قومی سلامتی یا ملکی دفاع کے خلاف، توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہو، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی مواد قرار دیا گیا ہے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجنیئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ اب حکومت سوشل میڈیا میں اصلاحات لانے کیلئے پیکا ایکٹ اور ڈیجیٹ نیشن بل لے کر آئی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اِن بلز کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مناسب چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے یا پھر ان بلز کی آڑ میں حکومت آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
مسلسل گرتی شرح سود، معاشی ترقی یا کوئی خطرناک کھیل؟

پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں متواتر اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو وہیں شرح سود مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں مزید ایک فیصد کمی کا اعلان کیا گیا، یہ نئے مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں ہونے والی چھٹی کمی تھی جس کے بعد اب شرح سود 12 فیصد پر آگئی ہے، جون 2024ء سے اب تک مجموعی طور پر شرح سود میں 10 فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔ حکام کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مہنگائی کے سدِباب کے لئے شرح سود میں احتیاط سے کمی کی گئی ہے اور اس کمی سے زرِ مبادلہ ذخائر میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہ سرخی میں افراط زر نیچے کی طرف بڑھ رہا ہے، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ممکنہ توانائی کے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ جیسے خطرات بدستور موجود ہیں، تاہم بنیادی افراط زر بلند رہتا ہے جس کی وجہ سے مرکزی بینک محتاط رویہ اپناتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ استحکام سے پہلے مختصر مدت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مالی سال 25 کے لیے افراط زر اوسطاً 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہے گا، کمزور زرعی کارکردگی کی وجہ سے اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.9 فیصد رہی، جو توقعات سے قدرے کم ہے۔ بہتر مالیاتی نظم و ضبط کے باوجود، بنیادی توازن کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہونے کی امید ہے۔ جمیل احمد نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے نجی شعبے کے قرضوں میں اضافے کے ساتھ آٹوموبائلز، کھادوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ فروخت کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بہتری کو بھی نوٹ کیا، بیرونی محاذ پر پاکستان نے دسمبر 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 600 ملین ڈالر کا سرپلس پوسٹ کیا، جو کہ مضبوط ترسیلات زر اور برآمدی آمدنی، خاص طور پر ہائی ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے باعث ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ بھی کہا کہ مالی سال 25 کی پہلی ششماہی کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس $1.2 بلین تک پہنچ گیا ہے، مرکزی بینک اس سال کے لیے جی ڈی پی کے 0.5 فیصد کے سرپلس اور خسارے کے درمیان کرنٹ اکاؤنٹ کے متوازن رہنے کی پیش گوئی کرتا ہے، تاہم چیلنجز باقی ہیں۔ اس سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس محصولات میں 26 فیصد اضافہ ہوا لیکن حکومت کے ہدف سے کم رہا، جس سے مالیاتی کارکردگی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک پہنچ رہے ہیں. پہلے جس شرح سے مہنگائی بڑھ رہی تھی. روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ جاتی تھیں، جب کہ اب ایسا نہیں ہے، بالخصوص غذائی اشیا کی قیمتیں مستحکم ہیں. تاہم بعض اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کی قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ قیمتوں میں استحکام لایا جائے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے شرح سود میں مسلسل کمی کے فیصلوں کے پیچھے معاشی بحالی ہے یا پھر کوئی خطرناک کھیل ہے؟ آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ شرح سود بھی کم ہو رہی ہے لیکن مہنگائی میں کیسے اضافہ ہوتا جا رہا ہے؟ کیا شرح سود میں کمی ایک جھانسہ تو نہیں؟ معاشی رہنما اور تاجر اس سوال پر اپنا اپنا نظریہ رکھتے ہیں، کچھ نے مثبت تو کچھ نے منفی پہلو اجاگر کیے ہیں، کچھ نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کی گئی کمی ایک خوش آئند فیصلہ ہے جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا، کچھ نے اسے معاشی ترقی کی جانب پہلا قدم قرار دیا ہے تو کچھ نے اسے فقط ایک چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا فائدہ حکومت اور تاجروں کو ہوگا مگر عام عوام کو نہیں ہو گا، مہنگائی میں کوئی کمی نہیں آنی، بجلی اور گیس کے بل کم نہیں ہونے، البتہ شرح سود کی کمی سے منافع ضرور کم ہوا ہے۔ حکومت اپنے فیصلوں سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے میں لگی ہے مگر شاید عوام کو درپیش مسائل دیکھنے سے قاصر ہے۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ معاشیات کے سابق ڈین پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چودھری نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اسٹیٹ بینک جب بھی شرح سود میں کمی کرتا ہے تو معاشیات کی زبان میں اس کا فائدہ یہ ہونا چاہیے کہ سرمایہ کاری بڑھ جائے، جب سرمایہ کاری بڑھتی ہے تو بے روزگاری اور غربت کم ہوتی ہے”۔ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ معاشیات کی پروفیسر ماہین امبر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی جانب سے کی گئی شرح سود میں کمی کے عوامی اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ” شرح سود میں مزید کمی سے قرضوں پر سود کی شرح کم ہوگی جس سے کاروباری افراد اور عام شہریوں کے لیے بینکوں سے قرض لینا آسان ہو گا۔ یہ کمی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے فروغ میں کردار ادا کرے گی۔ یہ کمی روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوگی”۔ ڈاکٹر ممتاز انور نے شرح سود کی کمی کے مستقبل میں معاشی اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “ممکنہ طور پر تو یہ فیصلہ ٹھیک لگتا ہے، اس وقت معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت عوام کی زندگیوں میں آسانی لانے کے لیے سرمایہ کاری کا زیادہ ہونا بہت ضروری ہے تا کہ لوگوں کو روزگار ملے اور معاشی فروغ ملے”۔ اس حوالے سے پروفیسر ماہین امبر نے کہا کہ ” شرح سود میں کمی سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی کیونکہ سرمایہ کاروں کے لیے قرض لینا قدرے آسان ہو گا۔ تاہم اگر اس اقدام کے ساتھ مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو افراط زر بڑھنے کا خدشہ ہو سکتا ہے جو معاشی استحکام کو متاثر کر سکتا ہے”۔ ڈاکٹر ممتاز نے شرح سود میں کمی کے فیصلے پر گفتگو کرتے
شرح سود میں مزید ایک فیصد کمی، اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اعلان

سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے پالیسی ریٹ میں 100 بیس پوائنٹس کی کمی کر کے 12 فیصد کر دی، جو کہ 28 جنوری 2025 سے لاگو ہو گی، مالی سال 25 کے لیے افراط زر اوسطاً 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 100 بیسس پوائنٹس کمی کے بعد شرح سود 12 فیصد ہوگئی ہے. مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں ملک کی معاشی کارکردگی اور مختلف عوامل کا جائزہ لیا اور مہنگائی میں کمی کے بعد 100 بیس پوائنٹس کو کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا کہ شہ سرخی میں افراط زر نیچے کی طرف بڑھ رہا ہے، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ممکنہ توانائی کے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ جیسے خطرات بدستور موجود ہیں، تاہم، بنیادی افراط زر بلند رہتا ہے، جس کی وجہ سے مرکزی بینک محتاط رویہ اپناتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ استحکام سے پہلے مختصر مدت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مالی سال 25 کے لیے افراط زر اوسطاً 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہے گا،کمزور زرعی کارکردگی کی وجہ سے اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.9 فیصد رہی، جو توقعات سے قدرے کم ہے۔ بہتر مالیاتی نظم و ضبط کے باوجود، بنیادی توازن کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہونے کی امید ہے۔ گورنر نے کہاکہ اسٹیٹ بینک نے نجی شعبے کے قرضوں میں اضافے کے ساتھ آٹوموبائلز، کھادوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ فروخت کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بہتری کو بھی نوٹ کیا،بیرونی محاذ پرپاکستان نے دسمبر 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 600 ملین ڈالر کا سرپلس پوسٹ کیا، جو کہ مضبوط ترسیلات زر اور برآمدی آمدنی، خاص طور پر ہائی ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے باعث ہے۔ جمیل احمد نے کہا کہ مالی سال 25 کی پہلی ششماہی کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس $1.2 بلین تک پہنچ گیا ہے، مرکزی بینک اس سال کے لیے جی ڈی پی کے 0.5 فیصد کے سرپلس اور خسارے کے درمیان کرنٹ اکاؤنٹ کے متوازن رہنے کی پیش گوئی کرتا ہے،تاہم چیلنجز باقی ہیں۔ اس سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس محصولات میں 26 فیصد اضافہ ہوا لیکن حکومت کے ہدف سے کم رہا، جس سے مالیاتی کارکردگی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے عالمی غیر یقینی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی، بشمول تیل کی غیر مستحکم قیمتوں اور بڑی معیشتوں کے محتاط مانیٹری موقف، اس کے مثبت حقیقی پالیسی شرح کو برقرار رکھنے کے اس کے فیصلے کو متاثر کرنے والے عوامل۔اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر، جو اس وقت قرضوں کی ادائیگی کے دباؤ میں ہیں، جون 2025 تک 13 بلین ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے۔ سٹیٹ بنک کے گورنرجمیل احمد کا مزید کہنا ہے کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک پہنچ رہے ہیں. پہلے جس شرح سے مہنگائی بڑھ رہی تھی. روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ جاتی تھیں، جب کہ اب ایسا نہیں ہے، بالخصوص غذائی اشیا کی قیمتیں مستحکم ہیں. تاہم بعض آئٹمز ایسے ہوتے ہیں، جن کی قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں. ہماری کوشش ہے کہ قیمتوں کو مستحکم رکھا جائے۔ واضح رہے کہ مرکزی بینک نے اپنے آخری اجلاس میں کلیدی پالیسی کی شرح کو 200 پوائنٹس تک کم کر کے اسے 13 فیصد تک کردیا تھا۔اس کے بعد، کمیٹی نے اندازہ لگایا کہ ’جون 2024 سے پالیسی کی شرح میں مجموعی کمی کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور آئندہ چند سہ ماہیوں میں ظاہر ہوتے رہیں گے۔