April 21, 2025 11:56 am

English / Urdu

سپریم کورٹ: پروسیجر اور ججز کمیٹی کے اختیارات کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا گیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کے کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے شوکاز نوٹس سے ڈسچارج کر دیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے اس فیصلے کی تشریح کی۔ عدالت نے کہا کہ نذر عباس نے جان بوجھ کر توہین عدالت نہیں کی اور ان کے خلاف جاری شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا گیا۔ فیصلے میں واضح کیا گیا کہ نذر عباس نے غیر ارادی طور پر ایک دوسرے بنچ اور کمیٹی کو کیس بھیجا، جس سے کسی فریق کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ عدالت نے اس عمل کو غیر دانستہ اور بے ضرر قرار دیتے ہوئے توہین عدالت کا الزام ختم کر دیا۔ تاہم، عدالت نے یہ بھی کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی کی اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ انتظامی کمیٹی کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی جوڈیشل آرڈر کو واپس لے سکے۔ جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی کی صورت میں صرف فل کورٹ ہی اس پر فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ آئینی اور ججز کمیٹیوں کے اقدامات کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کے تحت آئے گا۔ اس فیصلے کے بعد، سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کے شوکاز نوٹس کو واپس لے لیا، اور اس معاملے کو مزید غور و خوض کے لیے چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا۔ اس کے علاوہ، سپریم کورٹ نے دائرہ اختیار سے متعلق مرکزی کیس کے بارے میں فیصلہ کرنے کی تاریخ بھی متعین کی، جو فروری کے پہلے ہفتے میں مقرر کیا جائے گا۔ اس فیصلے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ انتظامی کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، اور اس معاملے میں چیف جسٹس کے پاس فل کورٹ تشکیل دینے کا اختیار ہے۔

ٹرمپ کا عالمی ادارہ صحت میں دوبارہ شمولیت پر غور، نئے ایجنٹس کی برطرفی کا اعلان

عالمی ادارہ صحت (WHO)، جو 1948 میں قائم ہوا، اس ادارے کا مقصد عالمی سطح پر صحت کی بہتری، بیماریوں کا مقابلہ اور وباؤں، بحرانوں اور قدرتی آفات کے دوران ایمرجنسی مدد فراہم کرنا ہے۔ یہ ادارہ 194 رکن ممالک کے ساتھ کام کرتا ہے جبکہ رکن ممالک اور عطیات سے فنڈنگ حاصل کرتا ہے۔ امریکا نے چندروز قبل اس ادارے سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں اس کے وسائل اور عالمی صحت کی کوششوں پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حالیہ انتخابی ریلی میں عالمی ادارہ صحت (WHO) میں دوبارہ شمولیت کے امکان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں تاہم ساتھ ہی انہوں نے عالمی۔ادارہ صحت کی اصلاحات میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا۔ صرف چند دن قبل ٹرمپ نے امریکا کے اس ادارے سے نکلنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے لیکن اب وہ عالمی سطح پر امریکا کے مفادات کے لیے ایک نیا رخ اپنانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی اس ریلی میں کہا کہ “شاید ہم دوبارہ شمولیت پر غور کریں، لیکن انہیں کچھ صفائی کرنی ہوگی۔” انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اس ادارے کو بہت زیادہ رقم فراہم کرتا ہے جو اس کے مقابلے میں دوسرے ممالک خاص طور پر چین، بہت کم حصہ ڈالتے ہیں۔ ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ “1.4 بلین آبادی والاملک ‘ چین’ صرف 39 ملین ڈالر دیتا ہے جبکہ ہم 500 ملین ڈالر دیتے ہیں یہ غیر منصفانہ ہے”۔ اس کے بعد ٹرمپ نے کانگریس کے ساتھ مل کر ایک ٹیکس کٹ بل کے بارے میں بات کی جس کا مقصد نہ صرف ٹیکسوں میں کمی کرنا تھا بلکہ ان کی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے ایک وعدے کو پورا کرنا تھا جس میں ٹپس پر کوئی ٹیکس نہ لینے کی بات کی گئی تھی۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ “اب آپ کی ٹپس آپ کی ہوں گی، یہ کمال کی بات ہو گی، یہ بل امریکی عوام کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہو گا۔” صدر نے مزید بتایا کہ ان کی حکومت امریکی ٹیکس دہندگان پر دباؤ ڈالنے والے نئے 80,000 IRS ایجنٹس کی بھرتی روکنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کر رہی ہے جن کی تنخواہیں 72 ارب ڈالر کے وفاقی بجٹ سے ادا کی جا رہی ہیں، جو انفلیشن ریڈکشن ایکٹ کے تحت مختص کیے گئے تھے۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے 88,000 ایجنٹس کو ہائر کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ آپ کے پیچھے لگ جائیں، اور ہم ایک ایسا منصوبہ تیار کر رہے ہیں جس میں ہم ان سب کو فارغ کریں گے یا شاید انہیں سرحد پر لگا دیں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی قیادت میں امریکا ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں نہ صرف ملک کی داخلی حالت بہتر ہو گی بلکہ عالمی سطح پر بھی امریکا کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا۔ عالمی ادارہ صحت سے امریکا کی ممکنہ دوبارہ شمولیت، ٹیکس کٹ منصوبے اور IRS ایجنٹس کی برطرفی کے فیصلے نے ان کے حامیوں میں نئی امیدیں پیدا کی ہیں، جب کہ مخالفین ان اقدامات کو محض سیاسی کھیل سمجھتے ہیں۔

“پولیس کے خلاف کوئی رپورٹ نہیں ہوئی” آئی جی سندھ کا چینی باشندوں کی عدالتی درخواست پر بیان

IG Sindh Ghulam Nabi Memon

چینی باشندوں کی جانب سے پولیس کے ناروا سلوک کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا مؤقف بھی آ گیا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن نے کہا کہ سندھ میں اب تک چینی شہریوں کی جانب سے پولیس کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں ہوئی، چینی شہریوں کی سیکورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے، سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ہی چینی شہریوں کی آمد و رفت محدود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی شہریوں کی عدالتی چارہ جوئی کے حوالے سے ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔ غیر ملکیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے ایس او پیز پر عملدرآمد پولیس پر لازم ہے، مقامی اسپانسرز کو بھی سکیورٹی کی وجہ سے پہلے جیسا رسپانس نہیں مل رہا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز چینی باشندوں کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں پولیس کے نارواں سلوک کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔ چینی باشندوں کے وکیل پیر محمد ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ کراچی اور سندھ میں چینی باشندوں نے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، ان کے یہاں کاروبار موجود ہیں کراچی ایئرپورٹ پر انہیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور حکام سیکورٹی وسائل نہ ہونا اس کی وجہ بتاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شہر میں ان کی آمد و رفت بھی آسانی سے نہیں ہوتی سیکورٹی خدشات کو وجہ بنا کر اس میں تاخیر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہورہی ہیں۔ پولیس چینی باشندوں کی رہائش گاہ اور کمروں میں آزادانہ داخل ہو جاتی ہے جس سے ان کے نجی معاملات متاثر ہورہے ہیں۔ ایڈوکیٹ پیر محمد نے مزید بتایا کہ چینی باشندوں کے ساتھ انتظامیہ کا ناروا سلوک بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کے سبب ملک کا تاثر بھی خراب ہوا ہے، عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرکے ان سے جواب طلب کرلیا ہے۔ چینی باشندوں کی سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ سندھ پولیس ان کے ساتھ غیر قانونی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ درخواستوں گزاروں نے مؤقف اپنایا کہ ہم قانون کی پاسداری کرنے والے چینی شہری ہیں اور ہم اپنے درج شدہ پتوں پر ہی مقیم ہیں۔ پاکستان اور چین کے تاریخی و مضبوط دوطرفہ تعلقات اور معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ہماری گذارش ہے کہ اس درخواست پر سماعت ان کیمرا کی جائے۔ درخواست گزاروں کا مزید کہنا تھا کہ ہم پاکستانی حکومت کی دعوت اور یقین دہانی پر ہی یہاں آئے ہیں، چیف آف آرمی سٹاف اور سابق وزیراعظم نے مکمل تحفظ اور معاون ماحول مہیا کرنے کے وعدے بھی کیے تھے، وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ دورے کے دوران بھی ان تمام چیزوں کا ذکر کیا تھا۔ ہم نے اور ہزاروں دیگر چینی باشندے ان یقین دہانیوں پر ہی پاکستان آئے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے مختلف منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ غیر قانونی اقدامات کو فوری طور پر روکا جائے، ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی جائے، اور چینی شہریوں کو محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔

“خواتین کی زندگی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی مردوں کی” موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھنے والے کے لیے بھی ہیلمٹ پہننا لازم

Helmet usage for bike riders

لاہور ٹریفک پولیس نے موٹر سائیکل پر سوار تمام افراد کے لیے ہیلمٹ پہننا لازم کر دیا ہے، ایک ہفتہ تک آگاہی دی جائے اس کے بعد چالان کیے جائیں گے۔ سی ٹی او لاھور ڈاکٹر اطہر وحید نے مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بڑا فیصلہ کر لیا، موٹر سائیکل پر اب دوسرا سوار بھی ہیلمٹ پہنے گا اور گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ والا بھی سیٹ بیلٹ لگائے گا۔ سی ٹی او لاھور ڈاکٹر اطہر وحید کا کہنا ہے کہ فیصلہ لوگوں کو ہیڈ انجریز سے محفوظ رکھنے کے لئےکیا گیا، اس کا مقصد انسانی زندگی بچانا ھے۔ ہمارا ہدف یہ ھے کہ سڑک پر ھونے والے حادثات کو بڑھنے سے روکا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کو پہلے ایک ہفتے آگاہی اور وارننگ دی جا رہی ھے اس کے بعد کارروائی کریں گے۔ خواتین کی زندگی بھی اتنی ہی اہم ھے جتنی مردوں کی، ہمیں وقت کے ساتھ چلنا ھوگا۔ ہمیں ایک قدم آگے چلنا ھوگا، آئندہ 5 سال میں ہم لاھور اور پنجاب کو کیسا دیکھنا چاھتے ہیں یہ فیصلہ ہمیں آج کرنا ھوگا۔ سی ٹی او لاھور نے یہ بھی کہا کہ دن کے وقت ہر قسم کی ہیوی ٹریفک کا داخلہ ممنوع ھے، آئل ٹینکرز بھی رات 11 بجے شہر میں داخل ھوں گے۔ میرا اولین مقصد شہریوں کے لئے کلین لاھور دیناھے شہریوں کو واضح تبدلی نظر آئے گی۔ ٹریفک ایجوکیشن یونٹ، فیلڈ افسران اور ٹریفک ایف ایم 6۔88 کے ذریعہ سے اگاہی مہم دے رھے ہیں۔ ٹریفک پولیس حکام کے مطابق لاہور شہر میں رجسٹرڈ 80 لاکھ وہیکلز میں سے 53 فیصد موٹر سائیکل ہیں، ہیلمٹ پہننے سے اموات کی شرح میں 26 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ حادثات میں ہیڈ انجری کے باعث اموات کی شرح میں 50 فیصد کمی لانا ہمارا ہدف ہے جس کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا۔ خیال رہے کہ جولائی 2023 میں لاہور ٹریفک پولیس نے ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانے کی رقم کو بڑھا کر 2000 روپے کر دیا تھا اور ابتدائی 2 ہفتوں میں لاہور ٹریفک پولیس نے 2 لاکھ 23 ہزار سے زائد افراد کے چالان کاٹے تھے۔ شہر بھر کی سڑکوں پر ہیلمٹ نہ پہننے والے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا جو آج تک جاری ہے۔ اب موٹرسائیکل پر سوار دوسرے فرد پر بھی ہیلمٹ پہننا لازم قرار دیا گیا ہے جس کے بعد ٹریفک پولیس کے کریک ڈاؤن میں مزید اضافہ ہو گا، موٹرسائیکل سواروں کے ساتھ ساتھ اب گاڑی میں سوار افراد کو بھی سیٹ بیلٹ نہ لگانے پر جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ موٹر سائیکل سوار خاص طور پر آن لائن بائیک رائیڈرز دوسرا ہیلمٹ خریدنے کو جیب پر بوجھ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اب تمام موٹر سائیکل سوارو کو ہیلمٹ خریدنا پڑے گا نہیں تو بھاری چالان ہوں گے۔

کراچی کے صنعتکاروں نے پالیسی ریٹ سنگل ڈیجٹ میں لانے کا مطالبہ کر دیا

policy rate

سائٹ صنعتی ایریا کراچی کے صنعتکاروں نے پالیسی ریٹ سنگل ڈیجٹ میں لانے کا مطالبہ کر دیا، صدر سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری احمد عظیم علوی کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک افراط زر میں مسلسل کمی کے پیش نظر پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لائے، 13 فیصد کی شرح اب بھی زیادہ ہے جس میں نمایاں کمی کی اب بھی بہت گنجائش ہے۔ سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی کے صدر احمد عظیم علوی نے افراط زر میں کمی کے پیش نظر پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لانے مطالبہ کیا ہے اور بین لاقوامی مارکیٹوں میں قدم جمانے کے لیے صنعتوں کو کم شرح پر قرضوں کی فراہمی کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ملک کے بہتر معاشی مفاد میں ہمارے اس مطالبے پر ضرور غور کرنا چاہیے تاکہ صنعتکار برادری زائد پیداواری لاگت سمیت دیگر اخراجاتی مسائل سے بخوبی نمٹ سکے۔ جمعہ کو جاری ایک بیان میں سائٹ ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک نے پچھلی بار پالیسی ریٹ میں 2 فیصد کمی کی جو کہ ناکافی تھی اور13 فیصد کی شرح اب بھی زیادہ ہے جس میں نمایاں کمی کی اب بھی بہت گنجائش ہے۔ کیونکہ افراط زر میں مسلسل کمی آرہی ہے اس کے باوجود اسٹیٹ بینک کی جانب سے سنگل ڈیجٹ پر پالیسی ریٹ کو نہ لانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ احمد عظیم علوی کا کہنا تھا ہمارا مطالبہ تو پالیسی ریٹ میں 5 فیصد کمی کا ہے کیونکہ بتدریج کہ پالیسی ریٹ نیچے لانے سے ملکی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور بینکوں سے قرضے لینے کے رجحان میں بھی اضافہ ہوگا۔ جبکہ سرمائے کی قلت کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ صنعتی سرگرمیوں کو معمول کے مطابق بحال کرنے میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بزنس کمیونٹی بینکوں سے اسی صورت میں رجوع کرے گی جب انہیں کم شرح پر قرضوں کی سہولت میسر آئے گی۔ کیونکہ بزنس کمیونٹی سنگین معاشی بحران اور پیدواری لاگت میں مسلسل اضافے کے پیش نظر زائد شرح پر قرضوں لینے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو یہ تجویز بھی دی کہ افراط زر میں ماہانہ بنیادوں پر بتدریج کمی آرہی ہے لہٰذا مرکزی بینک ہر 15 دن میں مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس بلائے اور مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح سود کو سنگل ڈیجٹ پر لانے کے اقدامات کرے جس کا تاجر برادری تہہ دل سے خیرمقدم کرے گی۔

بلوچستان کے دہشت گرد کمانڈرز نے ہتھیار ڈال دیے، قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان

بلوچستان کی تاریخ میں ایک نیا باب اس وقت رقم ہوا جب مختلف دہشت گرد تنظیموں کے اہم کمانڈرز نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ یہ وہ کمانڈرز ہیں جنہوں نے ریاست پاکستان کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا، لیکن اب وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے امن کے راستے پر گامزن ہونے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کمانڈرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے دشمن ممالک کے چکر میں آ کر نوجوانوں کو دہشت گردی کی راہ پر ڈالا اور اب وہ اس گمراہی سے نکل چکے ہیں۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران دہشت گرد کمانڈرز نے انکشاف کیا کہ دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کو استعمال کر کے انہیں ریاست پاکستان کے خلاف کھڑا کر رہی ہیں۔اس پریر کانفرنس میں صوبائی وزرا اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان بھی موجود تھے۔ کمانڈ کے مطابق یہ تنظیمیں بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے کے لئے کام کر رہی ہیں تاکہ دشمن ممالک پاکستان کو کمزور کر سکیں۔اس موقعہ پر صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ گھناؤنا کھیل ایک مدت سے جاری ہے جس میں دشمن ممالک نے بلوچستان کے نوجوانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔   ان کا کہنا تھا کہ “ہم ان نوجوانوں کا خیرمقدم کرتے ہیں جو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں واپس آ رہے ہیں۔” صوبائی وزیر نے اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ حکومت بلوچستان میں امن کے قیام کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔ ‘بلوچستان میں آزادی کی تحریکوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا’ اس نیوز کانفرنس میں اہم ترین دہشت گرد کمانڈرز نے اپنے انکشافات سے شرکاء کو چونکا دیا۔کمانڈر نجیب اللہ عرف درویش نے بتایا کہ دہشت گرد تنظیموں کے سرغنہ اپنے بچوں کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم دلوا کر خود عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن بلوچستان کے نوجوانوں کو دہشت گردی کے راستے پر دھکیل دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ “دہشت گرد کمانڈرز اپنے چھوٹے دہشت گردوں کو صرف استعمال کرتے ہیں اور انہیں خونریزی کی راہ پر ڈالتے ہیں جبکہ خود بھی بیرون ملک زندگی گزار رہے ہیں۔”دہشت گرد کمانڈروں نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن ممالک کا مقصد صرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے اور بلوچستان کے امن کو نقصان پہنچانا ہے۔ نجیب اللہ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریکوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا ہے لیکن دراصل یہ سب ایک گینگ وار کی صورت اختیار کر چکا ہے”،لاپتہ افراد کا ڈرامہ سب کے سامنے ہے دراصل یہ افراد پہاڑوں میں روپوش ہیں اور دہشت گرد تنظیمیں اپنے ہی کارکنوں اور کمانڈروں کو قتل کر رہی ہیں۔” اس موقع پر دہشت گرد عبدالرشید عرف خدائیداد نے بھی اپنی کہانی سنائی جس میں انہوں نے کہا کہ کس طرح انہوں نے 2000 میں بلیدہ زعمران سے ہجرت کی اور پھر 2009 میں بی ایل ایف کے کمانڈر عابد زعمرانی سے ملاقات کے بعد دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کی۔ عبدالرشید نے بتایا کہ کیسے انہیں دہشت گردی کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی گئی لیکن اب وہ قومی دھارے میں شامل ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔دہشت گرد جنگیز خان نے بھی اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک لاکھ روپے اور موٹرسائیکل کا لالچ دے کر فوج کے خلاف لڑنے کے لئے کہا گیا تھا۔جنگیز نے بتایا کہ کمانڈر معراج نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ لڑائی کے عوض اسے پیسے اور ہتھیار دئے جائیں گے لیکن اب اسے پچھتاوا ہے کہ وہ غلط راستے پر چل رہا تھا۔ یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جدوجہد میں حکومتی اداروں کا کردار کلیدی ہے اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دہشت گردوں کی بیرون ملک سے فنڈنگ ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان کی کوشش ہے کہ گمراہ شدہ افراد کو قومی دھارے میں واپس لایا جائے تاکہ امن کا قیام ممکن ہو سکے۔ صوبائی مشیر کھیل مینا بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ دشمن ممالک بلوچستان کے نوجوانوں کو گمراہ کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیموں کے جال سے بچ کر اپنے ملک اور قوم کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ “دشمنوں کا ایجنڈا بلوچستان کو نقصان پہنچانا ہے جبکہ نوجوانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے راستے پر چل کر وہ صرف اپنے مستقبل کو تباہ کریں گے۔” بلوچستان میں حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات اور دہشت گرد کمانڈروں کے اعترافات یہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کے دشمنوں کے تمام منصوبے ناکام ہو چکے ہیں، اور بلوچستان میں امن کی ایک نئی امید کی کرن روشن ہو چکی ہے۔

امریکی صدر ’معاف ‘کرنے میں ایک قدم اور بڑھ گئے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 23 ’انسداداسقاط حمل‘ کے مظاہرین کو معافی کے احکامات پر دستخط کر دیے ۔ ان 23 مظاہرین میں وہ لوگ شامل ہیں  جنہوں نے ایک طبی مرکز کے دروازے کو بند کر کے وہاں کی مریضوں اور عملے کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ افراد 2020 میں واشنگٹن کے ایک ری پروڈکٹیو ہیلتھ کلینک کو ختم کرنے اور وہاں کے عملے کو دھمکیاں دینے کی سازش میں ملوث تھے۔ ان میں سے ایک مظاہرہ کرنے والی ‘لارین ہینڈی’ کے گھر سے پانچ جنین بھی برآمد ہوئے تھے جنہیں عدالت نے ان کے مقدمے کے دوران دریافت کیا جبکہ اس خبر نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی تھی۔ صدر ٹرمپ نے ان افراد کی معافی کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ “انہیں کبھی مقدمے کا سامنا نہیں کرنا چاہیے تھا خاص طور پر ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے۔ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔”صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق یہ اقدام ان مظاہرین کے لیے خوشی کا باعث بنے گا جو اپنے عقائد کی حمایت میں لڑتے ہیں۔ یہ معافیاں ایسے وقت پر آئی ہیں جب امریکا بھر سے اینٹی ایبورشن مظاہرین 24 جنوری کو ہونے والی “مارچ فار لائف” میں شرکت کے لیے واشنگٹن پہنچنے والے تھے۔ اس سے ایک دن پہلے اس معافی کا اعلان امریکا کے اسقاط حمل  کے حقوق کے تنازعہ میں مزید تلخی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ اعلان خاص طور پر اُس وقت آیا جب 2022 میں سپریم کورٹ نے رو وی ویڈ کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں اس مسئلے پر دوبارہ بحث شروع ہو گئی۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے  ’ انسداد اسقاط حمل‘ کے مظاہرین کی معافی نے امریکہ میں اسقاط حمل  کے حقوق کے تنازعے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، خاص طور پر سپریم کورٹ کے 2022 کے فیصلے کے بعد۔ یہ اقدام ملک میں اس حساس مسئلے پر نئی بحث کو جنم دے سکتا ہے۔

پاکستان 78 سال بعد بھی تعیلم میں اپنے ہمسایوں سے پیچھے

پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے کم شرح خواندگی رکھنے والا دوسرا ملک ہے جو خطے میں تعلیم پر سب سے کم جی ڈی پی خرچ کر رہا ہے، آزادی کے 78 سال گزرنے کے باوجود شرح خواندگی تشویشناک ہے۔ وزارت برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے مطابق پاکستان کی موجودہ شرح خواندگی 62.3 ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں 60 ملین لوگ ناخواندہ ہیں، تیزی سے ترقی کرتے اس دور میں بھی پاکستان کے بعض شہروں کی شرح خواندگی 50 فیصد سے کم ہے، افغانستان کے بعد پاکستان خطے میں سب سے کم شرح خواندگی رکھنے والا ملک ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق راولپنڈی 82.45 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ ملک بھر میں سرفہرست ہے، وسطی کراچی 82 فیصد شرح کے ساتھ دوسرے اور دارالحکومت اسلام آباد  تیسرے نمبر پر موجود ہے، لاہور، سیالکوٹ، گجرات، جہلم جیسے شہروں میں شرح خواندگی 80 فیصد سے بھی کم ہے، کوہلو، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، واشک، جھل مگسی، نصیر آباد، بارکھان، ڈیرہ بگٹی، اواران اور ٹھٹھہ میں یہ شرح 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستانی ماہر معیشت اور سابق وفاقی وزیر خرانہ ڈاکٹر محبوب الحق کے مطابق پاکستان کی کارکردگی نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ سمیت 150ممالک سے بھی نیچے ہے، تعلیم پائیدار ترقی اور عالمی امن کے حصول میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ غربت اور عدم مساوات کو کم کرنے، اقتصادی ترقی، جدت، ماحولیاتی پائیداری، سماجی ہم آہنگی، رواداری کو فروغ دینے، عالمی شہریت اور انسانی حقوق کو بااختیار بنانے میں تعلیم کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ 24 جنوری 2018 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے تعلیم کا عالمی دن مختص کیا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد تعلیم کو انسانی حق کے طور پر تسلیم کراوانا تھا، جامع، مساوی، اور معیاری تعلیم کا فروغ، تعلیمی چیلنجز کے بارے میں بیداری پیدا کرنا بھی ان مقاصد میں شامل تھے۔ موجودہ دور میں پاکستانی شعبہ تعلیمی بہت سی مشکلات کا شکار ہے، پاکستان میں ناخواندگی کی بڑی وجہ تعلیم تک رسائی نہ ہونا بھی ہے، غریب طبقہ تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں، بچے اب گھر کا چولہا جلانے کی خاطر والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور علم کی روشنی سے محروم رہ جاتے ہیں، ناقص معیار تعلیم اور اساتذہ کی کم تعداد بھی شرح خواندگی میں سست اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دوسری جانب حکومتِ پاکستان شرح خواندگی میں اضافے کے لئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے جن میں آرٹیکل 25 خاصی اہمیت کا حاصل ہے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، شرح خواندگی میں اضافے کے لئے بنیادی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اصلاحاتی پروگرام تشکیل دیا گیا ہے، ہائیر ایجوکیشن کے قیام کا مقصد اعلیٰ تعلیم کی نگرانی کرنا، تحقیق کو فروغ دینا اور اسکالر شپ فراہم کرنا ہے۔ علاوہ ازیں روزگار اور ہنر کے فروغ کے لئے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن جیسے ادارے بھی تشکیل دیے گئے ہیں۔ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج آف سائنس کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی نظام تعلیم پر کھل کر اظہار خیال کیا، پاکستانی نظام تعلیم کی بہتری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں نظام تعلیم کا زیادہ زور صرف کتابیں یاد کرنے پر ہے۔ طلبہ میں تخلیق صلاحیتیں نکھارنے کے حوالے سے زور نہیں دیا جاتا۔ بچے اور والدین صرف زیادہ نمبرز لینے کے چکر میں حرف بہ حرف، سطر بہ سطر معلومات کو رٹنے پر زور دیتے ہیں۔ حاصل کردہ علم کی عملی صورت نظر نہیں آتی۔ موجودہ دور جس میں جدت کی رفتار گزشتہ ادوار سے بہت زیادہ ہے اور ٹیکنالوجی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کا وہ سفر جو دہائیوں میں طے کیا جاتا تھا وہ اب سالوں اور مہینوں میں طے ہو رہا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “پاکستان میں نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی شدید ضرورت ہے اور اس کو رٹے سے نکال کر عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ان ممالک کے نظام تعلیم کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جو ترقی یافتہ ہیں اور اس کے بعد پاکستان کی ضروریات کے مطابق اس میں مناسب تبدیلیوں سے اس کو لاگوکیا جائے تواس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ دوسری ضروری چیز میڈیم آف ایجوکیشن ( ذریعہ تعلیم) اردو زبان کو قرارد یا جائے تو اس کے بہت زیادہ مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں مگر اس میں وہ طبقہ رکاوٹ ہے جو صرف حکمرانی کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ حق عام پاکستان کو دینے کے لئے تیار نہیں”۔ ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ” تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے تیسری چیز اساتذہ کی تربیت ہے۔ اس حوالے سے جدید تقاضوں کے مطابق علم کی ترویج ضروری ہے۔ اساتذہ کی بہتر تعلیم، بہتر تربیت، مسلسل ریفریشر کورس کے ساتھ ساتھ ان کی تنخواہوں پر نظر ثانی بہت ضروری ہے۔ اساتذہ معاشی اور دیگر مسائل سے نکلنے کے بعد ہی بہتر تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے قابل ہو سکتے ہیں”۔ اس حوالے سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر آصف بخاری نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “نظامِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے نصاب میں یکسانیت، اساتذہ کی تربیت، اسکول کی بنیادی سہولیات، اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ضروری ہے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں توازن پیدا کر کے سب کو مساوی تعلیمی مواقع دیے جائیں”۔ شرح خواندگی میں اضافے کے لیے اقدامات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے کہا کہ “تعلیم سب کےلئے ضروری قرار دی جائے۔ تعلیم مفت کی جائے۔ موجودہ حالات میں عام آدمی پرائمری سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک بچوں کو تعلیم دلانے کی صلاحیت کھو رہا ہے جس کی وجہ سے لوگو بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے کسی کام یا ورکشاپ بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “لڑکیوں کی تعلیم کے

مذاکرات کے 3 دور ناکام ، پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟

پاکستان تحریک انصاف  اور حکومت کے درمیان 3 دورمیں مذاکرات ہو چکے ہیں ۔ان مذاکرات میں تیسرا اور آخری دور گزشتہ ہفتے میں ہوا، جس میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے تحریری مطالبے جمع کرائے گئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات   کے تیسرے  دورمیں  پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے 9 مئی اور 26 نومبر والے سانحے پر عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا  تھا۔کمیشن بنانے کے لیے  پی ٹی آئی کی طرف سے  حکومت کو ایک ہفتہ کا وقت دیا گیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین بیرسٹر گوہر  نے بانی پی ٹی آئی سے آڈیالا جیل میں ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات ختم کیے جائے ۔ پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات کمیٹی کو ایک ہفتے کا وقت دیا تھا ، جس پر  حکومت کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آیا ۔ چئیرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ  ہم چاہتے ہیں کہ  ہمارے مذاکرات حکومت کے ساتھ کامیاب ہوں لیکن شاہد  سیاسی اختلافات اتنے زیادہ ہیں کہ برف پگھل ہی نہیں رہی۔ یاد رہے کہ پاکستان  تحریک انصاف  اور حکومت کے درمیان 3 دور میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ پہلا دور 23 دسمبر 2024 کو اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں ہوا،جس میں حکومت کی طرف سے نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے تقریباً تمام اراکین اس اجلاس میں موجود تھے تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کی طرف سے صرف تین اراکین اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس شامل تھے۔ 23 دسمبر کو ہونے والا اجلاس سازگار ماحول میں ہوا اور دونوں اطراف نے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں کمیٹیوں کی طرف سے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پی ٹی آئی اگلے دور میں تحریری طور پر مطالبات حکومت کو جمع کرائے گی۔ 2 جنوری کو پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان  مذاکرات کا دوسرا دور ہو ا، اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تحریک انصاف اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرے گی، جس پر حکومت کی طرف سے چارٹر آف ڈیمانڈ کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔ 16 جنوری کو مذاکرات کا تیسرا دور ہوا ،جس میں تحریک انصاف نے 9 مئی اور 26 نومبر پر عدالتی کمیشن بنانے کے لیے  تحریری مطالبات جمع کرائے تھے اور تحریک انصاف نے ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ تیسرا دور ان دنوں ہوا جب مختلف طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھی  کہ شاید حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ڈیل ہو رہی ہے، ان قیاس آرائیوں کو پیر کے روز اس وقت تقویت ملی جب عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا فیصلہ تیسری بار موخر کر دیا گیا  تھا ۔ تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے پیر کو اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عدالتی فیصلے میں تاخیر سے اگر یہ تاثر لیا جائے کہ کوئی ڈیل ہو رہی ہے اس لیے اس فیصلے کو بار بار موخر کیا جاتا ہے تو یہ بالکل غلط ہے، ہماری حکومت کے ساتھ کوئی بھی ڈیل نہیں ہو رہی۔ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں  بار بار مؤخر ہونے کے باوجود  عمران خان کو 17 جنوری کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ ان قیاس آرائیوں کا نتیجہ نہ نکل سکا اور عمران خان کو سزا  دے دی گئ۔ چئیرمین بیرسٹر گوہر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے آج تک کوئی اعلان نہیں ہوا لہذا عمران خان نے مذاکرات ختم کر دیے ہیں۔ بانی نے کہا ہے کہ اس کے بعد ہمارے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ حکومت نے سات دنوں کے اندر عدالتی کمیشن بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن حکومت  اس میں ناکام رہی۔ چئیرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ اگر عدالتی کمیشن کا اعلان نہ کیا گیا تو مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر تین ججوں پر مشتمل کمیشن بنایا جائے تو مذاکرات ممکن ہیں ورنہ حکومت کے ساتھ ہم مذاکرات نہیں کر سکتے۔ واضح رہے کہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذکرات کوماہرین کی طرف سے خوش آئیند کہا جا رہا تھا کیونکہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کی طرف سے مذاکرات کے لیے کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی اور پی ٹی آئی کی طرف سے واضح کہا جاتا تھا کہ اگر ہم مذاکرات کرے گےتو اسٹیبلشمنٹ  کے ساتھ کریں گے ورنہ ہم کسی کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گے۔

سعودی ولی عہد کی ٹرمپ سے گفتگو: اربوں ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کردی

سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان نے امریکی صدر کو 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس سے دونوں ممالک کے اقتصادی، تجارتی اور دفاعی تعلقات مزید مستحکم ہونے کی توقع ہے۔ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا ہےجب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر رابطہ کر کے نہ صرف امریکا میں سعودی سرمایہ کاری کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کیا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کے مستقبل کی راہیں بھی ہموار کیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی ولی عہد نے امریکی صدر کو بتایا کہ سعودی عرب اگلے چار سالوں میں امریکا میں اپنی سرمایہ کاری اور تجارت کو 600 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جس سے دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی کے امکانات میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی گفتگو میں واضح کیا کہ سعودی عرب امریکا میں اپنے تجارتی اور سرمایہ کاری کے مواقع کو مزید فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا یہ قدم نہ صرف سعودی معیشت کے لیے مفید ہوگا بلکہ امریکی معیشت کو بھی مستحکم کرے گا۔ دوسری جانب سعودی پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد نے امریکی صدر کو حلف اٹھانے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کی قیادت میں امریکی عوام کے لیے خوشحالی کی دعائیں دیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سعودی ولی عہد نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تعاون دہشت گردی کے خلاف مزید مؤثر ثابت ہو سکتا ہے اور دونوں ممالک کے مفادات کو فائدہ پہنچانے کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی کابینہ نے توقع ظاہر کی کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا معاہدہ اسرائیلی جنگ کے وحشیانہ حملوں کا خاتمہ کرے گا اور فلسطینی عوام کو ان کے حقوق حاصل کرنے میں مدد دے گا، جن میں سب سے اہم مشرقی یروشلم کے ساتھ 1967 کی سرحدوں پر ان کی آزاد ریاست کا قیام ہے۔ یہ ساری باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں ایک نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے جس میں سرمایہ کاری، تجارت اور دفاعی تعاون کے مزید مواقع ملیں گے۔ سعودی عرب کا یہ 600 ارب ڈالر کا منصوبہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی حکومت نے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی منظوری دی تھی جس میں 33 اسرائیلیوں کی رہائی اور 95 فلسطینیوں کا تبادلہ شامل ہے جبکہ حماس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ کی بدولت ممکن ہوا تھا۔