ایلون مسک ٹرمپ کے ’مصنوعی ذہانت پروگرام‘ کے خلاف کھڑے ہوگئے،ماجرا کیا ہے؟

جیسے ہی امریکی نو منتحب صدر نےوائٹ ہاوس سے مصنوئی ذہانت کے متعلق ایک بڑا منصوبے کا اعلان کیا، ٹرمپ کے بہترین دوست ایلون مسک نے اسے متنازع بنانے کی کوشش کی۔ ایلون مسک نے اپنےایکس پہ لکھاکہ”اصل میں ان لوگوں کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے۔ سافٹ بینک کے پاس 10 بلین ڈالر محفوظ ہے۔ میرے پاس اس قدر اچھی اتھارٹی ہے۔” ٹرمپ نے کہا کہ “اس سرمایہ کاری سے ایک نئی کمپنی بنے گی جس کا ناام سٹارگیٹ ہوگا۔ اس سے امریکہ میں مصنوئی ذہانت مزید ترقی کرے گی”۔ سافٹ بینک، اوپن اے آئی اور اریکل  کمنیوں کے رہنما اس اعلان کے دوران ٹرمپ کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان سب کی کمپنیز اس منصوبے میں 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ شروع کریں گی۔ جب کہ آنے والے سالوں میں 500 بلین ڈالرز تک سرمایہ کاری کریں گے۔ یہ تبصرے کسی ایسے شخص کی طرف سے وائٹ ہاؤس کے ایک بڑے پروجیکٹ کو ہٹانے کا قابل ذکر ہیں جو ٹرمپ کے انتہائی اندرونی حلقے میں ہے۔ اس بات کی علامت کے طور پر کہ کس طرح ایلون مسک انتظامیہ کے پہلے دنوں میں شامل ہے، مسک نے کہا کہ وہ منگل کو اوول آفس میں تھے جب ٹرمپ نے ڈارک ویب مارکیٹ پلیس سلک روڈ کے بانی راس ولیم البرچٹ کے لیے معافی پر دستخط کیے تھے۔ مسک نے اپنی اسپیس ایکس اور ایکس کمپنیوں کے ایک اعلیٰ عملے کو مدد کے لیے بھیجا تھا۔   لیکن شاید یہ بات حیران کرنے والی نہیں ہے کہ ایلون مسک اوپن اے آئی کو خریدنے جا رہا ہے۔ مسک اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین سے اوپن اے آئی خریدنے کے بارے میں رابطے کر رہا ہے۔ مسک نے کہا ہے کہ وہ آلٹمین  پر اعتماد نہیں کرتا۔ مقدمہ میں دعویٰ کرتا ہے کہ چیٹ گی پی ٹی  نے اپنی کچھ جدید ترین اے آئی ٹیکنالوجی کو نجی صارفین کے لیے محفوظ کر کے اپنا اصل غیر منافع بخش مشن ترک کر دیا ہے۔ جو کمپنیز سٹارگیٹ میں حصہ لے رہی ہیں انہوں نے ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ اس منصوبے میں کس طرح سے سرمایہ کاری کریں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کاروں کے زریعے مزید سرمایہ کاری کروا لیں۔ وائٹ ہاوس کے پریس سیکریٹری کیرولائن لیوٹ نے بدھ کے روز مسک کے الفاظ پر کہا کہ امریکی عوام کو صدر ٹرمپ اور کمپنیز کے سی ای اوزکے بیانات پہ یقین کرنا چاہیے۔ لیوٹ نے مزید کہا کہ “صدر ٹرمپ اے آئی کے میدان میں  اس بنیادی ڈھانچے کے اعلان کے بارے میں بہت پرجوش ہیں، جو ظاہر ہے کہ بڑھ رہا ہے اور جس چیز کا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے مخالفین، جیسا کہ چین، اس میدان میں بہت ترقی یافتہ ہیں۔ لہذا، امریکی عوام کو صدر ٹرمپ اور ان سی ای اوز کے الفاظ کو اس کے لیے لینا چاہیے کیوں کہ یہ سرمایہ کاری ہمارے عظیم ملک میں آ رہی ہے، اور ان کے ساتھ امریکی ملازمتیں بھی آ رہی ہیں۔” مائیکروسافٹ کے سی ای او سٹیا ناڈالا کا کہنا ہے کہ “میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں اپنے 80 بلین ڈالر کے لیےبہترین ہوں۔”

وہ مہرے جو پاکستان کی انتخابی سیاست کا رخ بدلتے ہیں

ماہرین آج تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ پاکستان کی کرکٹ یا سیاست میں کون زیادہ ‘غیریقینی’ نتائج والا کھیل مانا جائے۔ رائے عامہ کے جائزوں اور عام رجحانات کے برعکس انتخابی نتائج کی وجہ بننے والے ‘الیکٹیبلز’ بھی اس ابہام کی اہم وجہ ہیں۔ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ پاکستانی سیاست اب تک الیکٹیبلز کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کچھ ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ‘الیکٹیبلز’ کا جادو قیام پاکستان سے پہلے بھی سر چڑھ کر بولا کرتا تھا۔ ایک ایسا امیدوار جو اپنی ذاتی حیثیت میں الیکشن جیت سکتا ہو، الیکٹیبل کہلاتا ہے۔ ایسے امیدوار اپنے حلقے میں مختلف وجوہات سے اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ برادری، دھڑا، شخصی تاثر، تھانہ کچہری پر رسوخ، معاشی حیثیت، سماجی خدمت، عقیدت یا پھر خوف وہ عناصر ہیں جو ‘الیکٹیبلز’ کی گاڑی کا ایندھن بنتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق الیکٹیبلز کی دو اقسام ہیں کچھ ایسے ہیں جو روایتی طورپر ہی کسی ایک پارٹی سے وابستہ ہیں اور اسی پارٹی سے الیکشن لڑتے ہوئے ہمیشہ جیت جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے اور پھر بھی جیت جاتے ہیں۔ کامیابی ملنے کے بعد وہ ہوا کا رخ یا کوئی مخصوص اشارہ پا کر ‘جیتنے والی’ پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو چھوڑ کر باقی ہر حصے باالخصوص دیہی پاکستان میں الیکٹیبلز موجود رہے ہیں۔ کچھ خاندان تو ایسے ہیں جو بیک وقت مختلف پارٹیز سے جڑے رہتے ہیں۔ کئی گھرانے ایسے بھی ہیں جن کا ایک فرد مسلم لیگ ن میں، دوسرا پیپلز پارٹی اور تیسرا تحریک انصاف میں شامل ہے۔ ‘اینٹی اسٹیٹس کو’ ہونے کی دعویدار تحریک انصاف ہو یا روایتی سیاسی جماعتیں کہلانے والی ن لیگ اور پیپلزپارٹی، تینوں اپنی کامیابی کے لیے الیکٹیبلز پر  انحصار کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ انتخابی میدان میں الیکٹیبلز پر انحصار نہیں کرتیں۔ سیاست میں الیکٹیبلز کا کردار آج سے نہیں بلکہ آج سے 100 برس پہلے بھی موجود تھا۔ 1937 میں جب پنجاب کے الیکشن ہوئے تو جاگیرداروں اور گدی نشینوں نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعدآل انڈیا مسلم لیگ کو شدت سے یہ احساس ہوا کہ اگر ہم نےالیکشن جیتنا ہے تو ہمیں اپنی پارٹی میں جاگیرداروں اور سیاسی رسوخ رکھنے والے امیداروں کو جگہ دینی ہوگی۔ 1946 میں مسلم لیگ نے الیکٹیبلز کو پارٹی میں جگہ دی اور کامیاب ٹھہری۔ ایک روایت میں مانا جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ 1970 کے انتخابات میں نئے لوگ ایوانوں میں آئے۔ بلامقابلہ جیتنے کی خواہش میں ذوالفقار علی بھٹو کو مخالف امیدوار کے اغوا جیسے سنگین الزام کا سامنا رہا، اس کے باوجود یہ پہلا موقع مانا جاتا ہے جب الیکٹیبلز کا مکمل زور قدرے ٹوٹا اور متوسط طبقے کے امیدواروں نے کامیابی سمیٹی۔ پروفیسر محمد صدیق قریشی اپنی کتاب ‘پولیٹیکل کلچر ان پاکستان’ میں لکھتے ہیں کہ “سنہ 1970 کے الیکشن میں پہلی بار 55 سیٹیں متوسط طبقے کے حصہ میں آئیں”۔ تاہم اُس الیکشن میں بھی قومی اسمبلی کی 52 سیٹوں پر جاگیردار طبقے کا قبضہ رہا۔ پانچ سیٹوں پر سرمایه داروں کی اِجارہ داری قائم ہوئی۔ اس کے بعد 1977 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کو الیکٹیبلز پہ انحصار کرنا پڑا۔ دوسری مرتبہ 2013 کے الیکشن میں پاکستان تحریکِ انصاف سے نئے لوگوں کو موقع ملا لیکن پی ٹی آئی الیکشن نہ جیت سکی۔ 2018 میں اپنے دعوے کے برعکس الیکیبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا اور الیکشن جیتا گیا۔ شعبہ سیاست اور عمرانیات کے ماہرین کو توقع ہے کہ نئے لوگوں کے آنے سے نوجوانوں پہ مثبت اثر پڑے گا اور وہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ 2024 میں ہونے والے الیکشن میں مخصوص حالات کی بنیاد پر تحریک انصاف کو اکثر نئے لوگوں پر انحصار کرنا پڑا۔ پارٹی کے مطابق اس الیکشن میں عوام کی طرف سے انہیں زبردست حمایت ملی مگر نتائج تبدیل کر دیے گئے، جس کی وجہ سے وہ حکومت نہ بنا سکے۔ الیکٹیبلز پر ایک تنقید یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ بغیر کسی منشور کے صرف خاندانی پسِ منظر یا جاگیردارانہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر سیاست کر کے عوام کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ ان کے حامی کہتے ہیں کہ ایک ایسا انسان جو بچپن سے سیاست اور عوام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ کسی نئے انسان سے بہتر عوام کے مسائل کو سمجھ کر اسمبلی میں پیش کر سکتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 157 لاہور سے کامیاب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حافظ فرحت عباس نے کہا کہ “الیکٹیبلز پاکستان کی سیاست میں ایک پیچیدہ کردار ہیں۔ ایک طرف، یہ وہ شخصیات ہیں جو اپنی عوامی حمایت اور مقامی سطح پر اثر و رسوخ کی بدولت انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف ان کا انحصار اکثر ذاتی مفادات اور روایتی خاندانی اثر و رسوخ پر ہوتا ہے، جو سیاسی عمل کو غیر جمہوری اور محدود کر دیتا ہے۔ یہ عمل جمہوریت کے اصولوں کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ نظریاتی سیاست کو پس پشت ڈال کر شخصیات پر مبنی سیاست کو فروغ دیتا ہے”۔ الیکٹیبلز کے بغیر سیاسی جماعتوں کی انتخابات میں کامیابی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “الیکٹیبلز کے بغیر کامیابی ممکن تو ہے، لیکن یہ ایک مشکل اور طویل المدتی عمل ہوگا۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو مضبوط تنظیمی ڈھانچہ بنانا ہوگا اور عوام کے مسائل کے حل پر مبنی پالیسیاں پیش کرنی ہوں گی۔ اگر کوئی جماعت نوجوانوں، متوسط طبقے، اور خواتین کو اپنی طرف متوجہ کر سکے، تو الیکٹیبلز پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔ عوامی بیداری اور نظریاتی سیاست اس تبدیلی کے لیے کلیدی کردار ادا کریں گے”۔ “نوجوانوں کو سیاست میں شامل کرنے سے الیکٹیبلز کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ جب نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لیے خود سیاسی عمل کا حصہ بنیں گے، تو وہ روایتی سیاست سے ہٹ کر نظریاتی سیاست کو فروغ دیں گے۔ اس کے لیے

” ایلون مسک عوامی معافی مانگیں” اسٹارلنک کو لائسنس جاری کرنے کی مشروط تجویز

سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس بدھ کومنعقد ہوا، اجلاس میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروسز کے لیے لائسنسنگ کے عمل پر بحث کی گئی، اجلاس  کے دوران سینیٹر پلوشہ خان نے سٹار لنک کے مالک ایلون مسک کی حالیہ سوشل میڈیا  پر پاکستان کے خلاف سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں انڈیا کی شیو سینا (یو بی ٹی) پارٹی سے منسلک راجیہ سبھا کی رکن پرینکا چترویدی نے ایکس ( سابقہ ٹویٹر) پر دعویٰ کیا کہ برطانیہ میں گینگ تیار کرنے کا الزام پورے ایشیا پر نہیں لگایا جانا چاہیے، بلکہ ایک بدمعاش قوم پاکستان پر ڈالنا چاہیے، جس کے جواب میں اسپیس ایکس اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے ایکس پر سچ لکھ کر راجیہ سبھا کی رکن کی حمایت کی۔ اجلاس میں اسٹارلنک کے مالک ایلون مسک کے بیانیے کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو کی گئی، جس میں سینیٹر افنان اللہ خان نے تجویز پیش کی کہ اسٹار لنک کو لائسنس صرف اسی صورت میں دیا جانا چاہیے جب ایلون مسک اپنے ریمارکس پر پاکستانی عوام سے معافی نہ مانگ لیں۔ واضح رہے کہ ایلون مسک کی کمپنی اسٹارلنک نے فروری 2022 کو لائسنس کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کو درخواست جمع کرائی تھی۔ خبر ارساں ادارہ انڈپینڈنٹ اردو  کے مطابق اسٹار لنک کی پاکستان میں موجودگی حالیہ نہیں بلکہ اس کی بنیاد 2021 میں عمران خان کے دور حکومت میں رکھی گئی تھی۔ ایس ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق اسٹار لنک انٹرنیٹ سروسز پاکستان کے نام سے یہ کمپنی جون 2021 میں رجسٹر ہوئی اور اس کا رجسٹریشن نمبر 0176324 ہے۔ ایلون مسک کی یہ کمپنی ٹیکس کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کے پاس 17 فروری 2022 کو رجسٹر ہوئی اور اس کمپنی نے خود کو سیلز ٹیکس کے لیے 23 فروری 2022 کو رجسٹر کروایا۔ ایف بی آر میں یہ کمپنی اس وقت ایکٹو فائلنگ اسٹیٹس کے ساتھ موجود ہے اور اس کا رجسٹریشن نمبر 4491086 ہے۔ کمپنی کی پاکستان میں رجسٹریشن کے چند ہفتوں کے بعد چیئرمین پی ٹی اے کی دو مارچ 2022 کو بارسلونا میں اسٹارلنک کے نائب صدر (کمرشل) اور اسٹار لنک پاکستان کے سی ای او سے ملاقات ہوئی، جس میں اسٹار لنک کی پاکستان میں براڈ بینڈ سروس کی درخواست کے ریگولیٹری، تکنیکی اور کمرشل پہلوؤں پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔ نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق اجلاس کے دوران پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین میجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمٰن  نے بتایا کہ 24 فروری 2022 کو اسٹار لنک نے رجسٹریشن کے لیے درخواست جمع کرائی تھی۔ انھوں نے کہا  کہ یہ معاملہ سیکورٹی کلیئرنس کے لیے وزارت داخلہ کو بھیجا گیا ہے۔ یہ کیس اس وقت نئی قائم کردہ پاکستان اتھارٹی فار اسپیس اینڈ ریگولیٹری باڈیز کے زیر جائزہ ہے، جو لائسنس کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گی۔ اجلاس کے دوران سینیٹر پلوشہ خان نے اسٹار لنک کے مالک ایلون مسک کی حالیہ سوشل میڈیا سرگرمیوں کی روشنی میں ان کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے ایلون مسک پر پاکستان مخالف بیانیہ کے ساتھ ہم آہنگی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے مبینہ پاکستان مخالف بیانیے پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سیکورٹی کلیئرنس کے لیے وزارت داخلہ کو بھیجا گیا تھا۔ یہ کیس اس وقت نئی قائم کردہ پاکستان اتھارٹی فار اسپیس اینڈ ریگولی سینیٹر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایلون مسک نے پاکستان کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کے لیے بھارت کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔ جواب میں سینیٹر لیگی افنان اللہ خان  نے تجویز پیش کی کہ اسٹار لنک کو لائسنس صرف اسی صورت میں دیا جانا چاہیے، جب مسک اپنے ریمارکس پر عوامی معافی مانگے۔ سینیٹر افنان اللہ نے دلیل دی کہ پی ٹی اے کو لائسنس جاری کرنے سے پہلے مسک کی پاکستان کے خلاف مہم پر غور کرنا چاہیے۔ اسے مزید اقدامات کرنے سے پہلے اپنے بیانات پر معافی مانگنی چاہیے۔

‘اسرائیل ناکام ہوا، پورا فلسطین فلسطینیوں کا ہے’ امیر جماعت اسلامی کی قطر میں حماس سربراہ سے ملاقات

جماعت اسلامی پاکستان کے امیرحافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ اسرائیل  جنگی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا،فلسطین کی سرزمین مکمل طور سے فلسطینیوں کا وطن ہے،اہل پاکستان اہل غزہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے دوحہ میں حماس کے سربراہ حسن درویش، سابق سربراہ خالد مشعل، مرکزی رہنما ڈاکٹر خلیل الحیہ، اور دیگر مرکزی قائدین سے ملاقات کی۔جماعت اسلامی کے ڈائریکٹر امور خارجہ آصف لقمان قاضی بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ حافظ نعیم الرحمان نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے اور 15 ماہ تک مکمل ثابت قدمی کے ساتھ مزاحمت کرنے پر اہل غزہ اور حماس کی قیادت کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے لاکھوں کارکنان اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے موجود رہے ہیں۔ انہوں نے مزاحمتی قیادت کو یقین دلایا کہ الخدمت فاونڈیشن کل بھی اہل غزہ کے شانہ بشانہ تھی اور آئندہ بھی رہے گی۔ پاکستان کے عوام غزہ کی تعمیر نو میں اپنا فرض ادا کریں گے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہم اس اہم موڑ پر اہل پاکستان کی جانب سے اظہار یکجہتی کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ ہم اسماعیل ہنیئہ، یحیی سنوار اور غزہ کے 60 ہزار شہدا کو سلام پیش کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سربراہ نے کہا کہ حماس اور اہل غزہ نے طاغوت کی مزاحمت کر کے پوری امت کے لیے ایک قابل تقلید مثال پیش کی ہے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اسرائیل اپنے جنگی اہداف کے حصول میں ناکام رہا ہے۔   انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ فلسطین کی سرزمین مکمل طور پر فلسطینیوں کا وطن ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر صرف ایک ریاست کا جائز وجود ہے اور وہ فلسطین ہے۔ اس سرزمین کے ایک انچ پر بھی اسرائیل کا وجود ناقابل قبول ہے۔ پاکستانی موقف دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین اور القدس کی مکمل آزادی تک اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ حماس کے سربراہ حسن درویش نے اہل فلسطین کی جانب سے جماعت اسلامی پاکستان اور پاکستان کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستان نے ماضی میں بھی امت کے مسائل کے حل کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا ہے، اور آئندہ بھی ہم ان سے کلیدی کردار کی توقع رکھتے ھیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کے عوام لاکھوں کی تعداد میں اپنے تباہ حال گھروں کو واپس لوٹیں گے۔ بحالی اور تعمیر نو کے کام میں ہم پاکستان کی حکومت اور عوام سے تعاون کی امید رکھتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمان نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ہر فورم پر فلسطین کی آزادی کی آواز اٹھا تے رہیں گے۔ بین الاقوامی شہرت رکھنے والی ممتاز شخصیات کا ایک وفد تشکیل دیا جائے گا جو اہم ممالک کا دورہ کرے گا۔ امیر جماعت اسلامی نے بتایا کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر اعظم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی رابطہ کریں گے۔ ملاقات کے فورا بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان نے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کو غزہ کے متاثرین کے لیے فوری طور پر 10 ہزار خیمے بھیجنے کی ہدایت کی۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے ری بلڈ غزہ کے نام سے امدادی مہم کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس مہم میں 15 ارب روپے کی لاگت سے غزہ میں تعمیر نو کے پراجیکٹس پر کام کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے،معاہدے کے بعد جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا جارہا ہے،پوری دنیا میں جنگ بندی کو سراہا جارہا ہے۔

حادثہ نہیں، قتلِ عام ہوا!

سنہرے مستقبل کے لیے غیر قانونی طریقے سے ڈنکی لگانے کا انجام بہت برا ہوتا ہے ۔ایجنٹ مافیا کے جھانسے اپنی مجبوریوں سے ہارے ہوئے لوگ اپنی جان اور اپنا مال بھی داؤ پر لگانے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔سنہرے خوبوں کی تعبیرپانے میں اپنا سب کچھ ہار بیٹھتے ہیں جیسا کہ مراکش کشتی حادثے میں 44 پاکستانی سمیت 50 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اب اِس حادثے کے بعدانکشاف ہوا ہے کہ کشتی کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تھا بلکہ جاں بحق ہونے والوں کا قتل عام کیا گیا، مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی جو واقعے کے چشم دید گواہ بھی ہیں اُن کے بقول ڈوبنے والی کشتی کے مسافروں سے کھلے سمندر میں تاوان مانگا گیا، تاوان دینے والے 21 پاکستانیوں کو چھوڑدیا گیا جبکہ تاوان نہ دینے والوں کو پانی میں دھکیل دیا گیا ۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ کشتی میں سوار زیادہ تر لوگ سخت سردی اور تشدد کے باعث ہلاک ہوئے۔ کشتی میں موجود افراد کو کھانے پینے کی قلت کا بھی سامنا تھا۔ جبکہ خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق زندہ بچ جانے والے مسافروں نے بتایا کہ اسمگلرز کی جانب سے ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور بعض مسافروں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔ مراکش کی بندرگاہ کے قریب کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک متاثرین نے بتایا کہ ہمارا سفر 2 جنوری کو شروع ہوا مگر 5 جنوری کو رات کی تاریکی میں کشتی کو ایسے ویران مقام پر روک دیا گیا تھا جہاں سے کوئی دوسری کشتی نہیں گزر رہی تھی۔  اسمگلروں نے کشتی پر موجود سردی گرمی سے بچانے والا ترپال، ہمارے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، موبائل سب کچھ چھین لیا تھا اور کشتی کو اسی مقام پر بند کر کے خود دوسری کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے، اب اِس خبر کو دیکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کشتی کو بنیادی طور پر یرغمال بنا لیا گیا اور صرف وہ لوگ اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے جنہوں نے تاوان دیا۔ اب بے روزگاری، مہنگائی اور غربت سے ستائے لوگ ہی ایسے مشکل راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بےروزگاری کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کے لیے بیرون ملک کارخ کررہی ہے، اِسی طرح پروٹیکٹر اینڈ امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں پاکستان میں خراب معاشی حالات اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث لاکھوں پاکستانی بیرون ملک چلے گئے، بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی پروفیشنل اور ٹیچرز سمیت پیرا میڈیکل اسٹاف اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ سینکڑوں کی تعداد میں آرٹسٹ پاکستان کو خیر آباد کہہ گئے۔ پروٹیکٹر امیگرینٹس کے ڈیٹا کے مطابق دو سالوں میں 16 لاکھ کے قریب پاکستانی یورپ، امریکہ، کینیڈا ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، کویت، ترکیہ، ملیشیا، آسٹریلیا، سنگاپور، چین اور دیگر ممالک میں چلے گئے۔ پروٹیکٹر کی فیس 7200 سے 9200 روپے تک ہے جو بھی بیرون ملک ملازمت کے لیے جائے گا اسے پروٹیکٹرز کی اسٹیمپ لازمی کروانا پڑے گی، اس کے بغیر وہ پاکستان سے ٹریول نہیں کر سکتے، بیرون ملک جانے والے ان پاکستانیوں میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک گئے جبکہ سیلف ویزا لے کر بھی جانے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، یہ تو وہ تعداد تھی جو جائز طریقے سے گئی۔  ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جو ناجائز طریقے سے ڈنکی لگا کر یورپ، سعودی عرب ، دبئی اور دیگر ممالک میں جانے میں کامیاب ہو گئے، اور کئی تو اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے۔ بہرحال پاکستان سے جانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد سول، الیکٹرک اور مکینیکل انجینیئرز کی ہے جو 8 ہزار 145 ہے، ان کے علاوہ 5700 چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، 3642 ڈاکٹر، 5 ہزار 315 آئی ٹی پروفیشنل، 3 ہزار نرسز اور 432 فنکار جس میں اینیمیشن، گرافک ڈیزائنر اور آرٹسٹ بھی شامل ہیں جو مختلف اسٹیج ڈراموں فلموں میں کام بھی کر چکے تھے، ان کی بھی بڑی تعداد پاکستان کو خیر آباد کہہ کر چلی گئی ہے۔

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے 470 دنوں میں ہونے والے نقصان کی تفصیلات جاری

غزہ کی پٹی کے سرکاری میڈیا آفس کی جانب سے اسرائیلی قبضے کی طرف سے غزہ میں شروع کی گئی نسل کشی کی جنگ کےاعدادو شمار کو شائع کیا گیا ہے، جس میں نسل کشی کی اس جنگ میں فلسطین میں ہوئے جانی اور مالی نقصانات کی تفصیل جاری کی گئی ہیں۔ جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق غزہ پر 470 دنوں تک کھلے عام نسل کشی کرتے ہوئے اسرائیلی قابض فوج نے قتلِ عام کیا ، جس کے نتیجے میں تقریباً 10100 لوگ جان کی بازی ہار گئے، جب کہ 61182 لوگ لاپتہ ہو گئے۔ان لاپتہ افراد میں سے 12222 افراد ہسپتالوں تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ وزارتِ صحت غزہ کے مطابق 46960 افراد جنگ کے دوران ہسپتالوں کو موصول ہوئے۔ اس کے علاوہ 9268 فلسطینی خاندانوں کے خلاف قتلِ عام کیا گیا، جن میں سے 2092 خاندانوں کو قتل کر کے ان کو سول ریکارڈ سے مکمل طور پر مٹا دیا گیا۔ ان خاندانوں کے 5967 افراد کو شہید کیا گیا۔ اس کے علاوہ 4889 فلسطینی خاندان جنگ میں تباہ ہو گئے اور صرف ایک زندہ بچنے میں کامیاب ہوا، مجموعی طور پر ان خاندانوں کے 8980 افراد کو شہید کیا گیا۔ غزہ میں شہید ہونے والے بچوں کی بھی تفصیلات جاری کی گئی ہیں، جن کے مطابق 17861 بچے شہید کیے گئے ہیں۔ وہ نوزائیدہ بچے جو نسل کشی کے دوران پیدا ہوئے اور شہید ہوگئے ان کی تعداد 214 ہے۔ ایک سال سے کم عمر کے تقریباً 808 بچے شہید، جب کہ غذائی قلت اور فاکہ کشی کی وجہ سے 44 بچے جان کی بازی ہار گئے۔ ان کے علاوہ تقریباً 7 بچے بےگھر خیموں میں شدید سردی کے باعث شہید ہوئے۔ بچوں کے علاوہ تقریباً 12316 خواتین ایسی تھیں جو اسرائیلی قبضے کی وجہ سے شہید ہوئیں، جب کہ طبی عملے کے 1155 افراد شہید ہوئے۔ مزید یہ کہ دفاع کرتے ہوئے 94 شہری جان لٹا بیٹھے۔ فلسطین کے تقریباً 205 صحافی ایسے تھے جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنائے گئے۔ اس کے علاوہ امدادی اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے 150 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں 736  افراد خود کو بچانے میں ناکام رہے اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ اسرائیل کی نسل کشی سے ہسپتال بھی محفوظ نہ رہ سکے اور ہسپتالوں کے اندر قائم 7 اجتماعی قبروں سے 520 شہداء برآمد ہوئے، جب کہ 110725 افراد ایسے تھے جو زخمی تھے اور ہسپتالوں کو موصول ہوئے، تقریباً 15000 افراد ایسے ہیں جنھیں طویل مدتی بحالی کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 4500 اعضا کٹنے کے کیس رپورٹ ہوئے جن میں 18 فیصد بچے تھے، اعضا کٹنے سے تقریباً 70 فیصد بچے اور خواتین متاثر ہوئیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 400 صحافی اور میڈیا ورکرز زخمی ہوئے۔ اسرائیل کی جانب سے تقریباً 220 پناہ گاہ اور نقل مکانی کے مراکز کو اسرائیلی قبضے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے ساتھ غزہ کی پٹی کے 10 فیصد علاقے پر اسرائیلی قبضے نے انسانی ہمدردی کے علاقوں کے طور پر دعویٰ کیا تھا۔ وزارتِ صحت کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 38495 بچے غزہ میں ایسے ہیں جن کے ایک یا دونوں والدین اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ اس کے علاوہ 13901 خواتین ایسی ہیں جنھوں نے نسل کشی کے دوران اپنے شوہروں کو کھودیا۔ غذائی قلت اور خوراک کی کمی کی وجہ سے تقریباً 3500 بچوں کی جان کو خطرہ ہے۔ 12700 زخمی ایسے ہیں جن کو بیرون ملک سے اعلاج کروانے کی ضرورت ہے۔ان کے علاوہ 12500 کینسر کے مریض غزہ میں موجود ہیں جن کو علاج کروانے کی ضرورت ہے، مزید 3000 افراد ایسے ہیں جنھیں دیگر بیماریاں ہوئیں اور انھیں علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق نقل مکانی کی وجہ سے متعدد بیماریوں کی وجہ سے 2136026 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ نقل مکانی کی وجہ سے تقریباً 71338 صرف ہیپاٹائٹس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جاری نسل کشی کی وجہ سے60000 خواتین ایسی ہیں جو کہ حاملہ ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔ 350000 مریض ایسے ہیں جن کی جان کو ادویات کے داخلے پر قبضے کی روک تھام کی وجہ سے خطرہ ہے۔ غزہ میں نسل کشی کے آغاز کے بعد سے اب تک قبضے کے ذریعے تقریباً 6600 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے 360 اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 3 ڈاکٹروں کو جیلوں میں پھانسی دے دی گئی۔ اس کے علاوہ ناموں کے ذریعے 48 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ 26 سول ڈیفنس کے اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا، جب کہ 2 بے گھر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا۔ بے گھر ہونے والوں نے خیمے لگائے تو اسرائیلی جارحیت سے تقریباً 110000 خیمے رہنے کے لیے غیر موزوں ہوگئے۔ اسرائیلی قبضے سے 216 سرکاری ہیڈکوارٹرز تباہ ہوگئے۔ تقریباً 137 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو قبضہ کرکے اسرائیل نے مکمل تباہ جب کہ 357 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو جزوی طور پر تباہ کیا۔ دوسری جانب جنگ کے دوران اسرائیلی قبضے سے غزہ میں 12800 طلباء مارے گئے، جب کہ 785000 طلباء اس قبضے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہوگئے۔اس کے علاوہ اساتذہ اور تعلیمی عملہ کے 760 افراد اسرائیلی قبضے سے جان لٹا بیٹھے، جب کہ 150 اسکالرز، ماہرینِ تعلیم اور یونیورسٹی کےپروفیسروں کو اسرائیل نے قبضے کے ذریعے سزائے موت سنادی۔ غزہ میں موجود مذہبی مقامات کو بھی جارحیت کا نشانہ بنایا گیا، تقریباً 823  مساجد کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا جب کہ 158 مساجد ایسی ہیں جنھیں شدید نقصان پہنچا اور بحالی کی ضرورت ہے۔ مساجد کے علاوہ 3 گرجا گھروں کو قبضے کا نشانہ بنا کر تباہ کر دیا گیا۔ غزہ میں موجود 60 قبرستانوں میں سے 19 قبرستان ایسے ہیں جو اسرائیلی نسل کشی کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ قبضے کے ذریعے قبرستانوں سے 2300 لاشیں چرائی گئی ہیں۔ اگر ہاؤسنگ یونٹ کی بات کی جائے تو 161600 کو قبضے کے ذریعے مکمل طور پر تباہ کیا گیا، 82000 مکانات ایسے ہیں جو تباہ ہوئے ہیں اور ناقابلِ رہائش ہیں۔اس کے علاوہ 194000 ہاسنگ یونٹس کو جزوی طور پر تباہ کیا گیا ہے۔

کیا پاکستان میں ’تیرہواں‘ موسم جنم لے رہا ہے؟

جوں جوں وقت گزررہا ہے موسم کے تیور بدل رہے ہیں،سردی ہوتی ہے تو خوب ٹھنڈ لگتی ہے،گرمی ہوتودھوپ میں اتنی تپش ہوتی ہے کہ’جہنم‘کا گماں ہوتا ہے،بارش ہوتومیدانی اور پہاڑی علاقوں میں سیلاب آجاتے ہیں نہ ہونے پر آئے تو خشک سالی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے،سردی اور گرمی کے موسم سکڑ کر ایک سے ڈیڑھ ماہ کے دورانیے پر رک سے گئے ہیں،بات پاکستان کی کی جائے تو یہاں چار ہی موسم ہیں جو سرد،گرم،بہاراورخزاں،کیا کوئی نیا موسم جنم لے رہا ہے؟ سردیاں شروع ہوتے ہی پاکستان کے تاریخی شہرلاہوراوراس کےگردونواح میں دھند چھا جاتی ہے،یہ آنکھوں میں جلن بھی پیدا کرتی ہے اور ’آنسو‘بھی لاتی ہے،گزشتہ 10 سال سے یہی ہورہا ہے مگر2024ء میں تو اس کی شدت میں کچھ زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا،سموگ کا موسم اکتوبر کے آخری ہفتے میں شروع ہوانومبر تک جاری رہا،نومبر کے پہلے ہفتے تو لاہور کی ائیر کوالٹی شدید متاثر ہوئی،لاہور نے کئی بار نمبرون ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ 10 نومبر کو ناسا نے ایک تصویر جاری کی جو پاکستان کیلئے پریشان کن تھی اور لاہوریوں کیلئے تو حیران کن۔اس تصویر میں دیکھا  گیا کہ پاکستان کا صوبہ پنجاب گہرے بادلوں کی لپیٹ میں ہے،اس تصویرکو دنیا کے میڈیا نے دکھایا،دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں کبھی لاہور تو کبھی بھارت کا دارالحکومت دہلی نمبرون رہا،اسی طرح پاکستانی پنجاب کے دیگر شہر فیصل آباد،ملتان اور خیبر پختونخوا کا شہرپشاور بھی اس دوڑ میں شامل رہا ۔ شکاگو یونیورسٹی کے ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ فضائی آلودگی یوں ہی بڑھتی رہی تو بڑے شہرانسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے،ایسی صورتحال میں انسانوں کی اوسط زندگی پونے چارسال تک کم ہوجائے گی ۔ کورونا کی طرح سموگ کے بارے میں عجیب و غریب طرح کے خیالات ہیں مگرماہرین کے مطابق سموگ کا لفظ پہلی بار دنیا میں 1905ءمیں استعمال ہوا،اس وقت برطانیہ کے شہرسموگ سے بہت متاثر ہوئے تھے،1909ء میں صرف گلاسگو اور ایڈنبرا میں ایک ہزار سے زیادہ افرادلقمہ اجل بن گئے تھے،آج جدید دور میں صنعتی ممالک نہیں بلکہ بنگلہ دیشں،پاکستان اور بھارت بالترتیب آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش صنعتی ملک نہیں تو پھر یہاں سموگ کیسے آئی اور کیا ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ داربھی یہی ممالک ہیں یا کوئی اور؟ سابق وزیرموسمیاتی تبدیلی سینیٹرشیری رحمـٰن نے کہا تھا کہ ’موسمیاتی تبدیلی صرف پاکستان کا نہیں عالمی مسئلہ ہے‘۔یقیناً یہ عالمی مسئلہ ہے پاکستان کا نہیں ہے،ذمہ دار بھی وہی ہیں جوفضا کو برباد کررہے ہیں،اسی طرح سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کوپ 27عالمی کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی کوعالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کمزور ممالک کی مدد کرنے کی تجویزدی تھی ۔ موسمیاتی تبدیلیوں پرتحقیق کرنے والے ادارے گلوبل چینج امپیکٹ سینٹر(جی سی آئی ایس سی)کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی نبدیلیوں سے پتا چلتا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں پاکستان کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے کی نسبت زیادہ تیزی سے رونما ہوگی۔ پاکستان کے موسم پر برسوں سے نظررکھنے والے عالمی تھنک ٹینک’جرمن واچ‘نے پاکستان کوان 10 ممالک میں شامل کررکھاہے جو شدید متاثر ہیں،اس ادارے کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پراعشاریہ 52 فیصد نقصان موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہورہا ہے۔   اینڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول بتاتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کے پہاڑی علاقے گلگت بلتستان اور چترال میں برف باری کے اوقات تبدیل ہوئے جوبرفباری دسمبر اور جنوری میں ہوتی تھی اب فروری اور مارچ میں ہورہی ہے،اسی طرح سندھ اور بلوچستان بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی کا شکار رہے ہیں،اب چونکہ زیادہ بارشیں ہورہی ہیں تو ان علاقوں میں سیلاب آرہے ہیں۔ موسم تو پاکستان میں چارہی ہیں مگردعویٰ تو یہ بھی ہے کہ موسم12 ہیں،موسم چار ہوں یا 12 مگرتبدیل ہوتی صورتحال تشویشناک ہے،پاکستان کی وفاقی اورپنجاب کی حکومت اپنے تئیں کوششیں بھی کررہی ہیں اور دعوے بھی مگر نتائج خاطر خواہ برآمد ہوتے نظر نہیں آتے۔یہ مسئلہ تب تک مسئلہ رہ سکتا ہے جب تو عالمی سطح پر کوششیں تیز نہیں کی جاتیں۔      

‘امریکا سب سے پہلے ہو گا’ وائٹ ہاؤس پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے

ڈونلڈ ٹرمپ پیر کو لیے گئے حلف کے بعد مجموعی طور پر امریکا کے 47ویں صدر بنے ہیں۔ وہ دوسرے ایسے صدر ہیں جو پہلی مدت کے بعد صدارتی انتخابات ہار گئے مگر پھرجیت کروائٹ ہاؤس واپس آئے ہیں۔ حلف برداری کے بعد اپنی گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ہر فیصلہ کے وقت امریکا کو پہلے رکھیں گے۔ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں فار گرانٹڈ لے۔ آج ہم مختلف مسائل کی وجہ سے بحران کا شکار ہیں، گھر پر مسائل کا شکار اور باہر بھی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ ہم نے غیرمعمولی فنڈز بیرونی بارڈرز کے لیے دیے مگر اپنی سرحدوں اور لوگوں ک دفاع نہیں کر سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ طوفانوں اور آگ کا شکار امریکی ریاستیں پریشانی کا شکار ہیں۔ آج بہت سے مالدار لوگوں گھروں تک سے محروم ہیں۔ ہم ایسے نظام تعلیم میں رہ رہے ہیں جو ہمارے بچوں کو خود پر شرمندہ ہونا سکھا رہا ہے لیکن یہ آج سے ہی تبدیل ہونا شروع ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ میرے انتخابی نتائج نے ایک دھوکے کو ختم کرکے لوگوں کو ان کی آزادیاں واپس لوٹائی ہیں۔ اس لمحے سے امریکا کی تنزلی کا سفر ختم ہو گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اب امریکا کے عروج کو کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ میں گزشتہ آٹھ برسوں میں جتنا آزمایا گیا اتنا امریکی جمہوریت کے 250 برسوں میں کوئی نہیں آزمایا گیا۔ شدید سردی اور برفباری کے باعث صدارتی حلف برداری کی تقریب کیپیٹل ہل کے روٹنڈا ہال میں منعقد کی گئی جب کہ کیپیٹل ون ایرینا کے باہر ٹرمپ کے حامی بڑی تعداد میں موجود رہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جاہن رابرٹس نے ڈونلڈ ٹرمپ سے حلف لیا۔ امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں سابق صدر باراک اوباما، بل کلنٹن، ان کی اہلیہ ہیلری کلنٹن، سابق صدر جارج بش اور اہلیہ لارا بش سمیت ماضی کی متعدد حکومتی شخصیات موجود رہیں۔ البتہ باراک اوباما کی اہلیہ مشال اوباما تقریب میں شریک نہیں ہوئیں۔ سوشل پلیٹ فارم ایکس اور سیٹلائٹ کمپنی اسٹارلنک کے مالک ایلن مسک، ارب پتی جیف بیزوس، گوگل کے چیف ایگزیکٹو افسر، ایپل کے چیف ایگزیکٹو افسر سمیت کارپوریٹ امریکا کی نمائندگی کرنے والے متعدد افراد سمیت سینیٹرز، قانون سازوں سمیت تقریبا 700 افراد تقریب میں شریک رہے۔ حلف برداری سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی رخصت ہونے والے صدر جوبائیڈن سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد انہوں نے ایک دعائیہ تقریب میں بھی شرکت کی۔ آج سے ٹھیک چار برس قبل جب ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت جوبائیڈن کی انتخابی جیت کی وجہ سے ختم ہوئی تو ٹرمپ نے روایت کے برخلاف اس وقت منتخب ہونے والے بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی تھی۔

حماس کا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ: اسرائیلی خواتین کو رہائی کے وقت تحائف سے نوازا

غزہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے،جنگ بندی معاہدے کےپہلے مرحلے میں قیدیوں کی رہائی اور ان کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے مطابق حماس انتظامیہ کی جانب سےتین اسرائیلی خواتین قیدیوں کو باعزت طریقے سے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیاگیا ہے۔ حماس کی جانب سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی خواتین قیدیوں کو تحائف دیے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرتے وقت حماس کی جانب سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا گیا۔ حماس کی جانب سے رہا کی گئی خواتین قیدیوں کو تحائف  دئیے گئے،جنھیں اسرائیلی خواتین نے مسکراتے ہوئے قبول کر لیے۔تحائف میں گریجویشن کی سند، عربی زبان کا سرٹیفیکیٹ، فلسطین کا نقشہ، قید کےدوران کی تصاویر شامل ہیں۔ حماس کی قید میں موجود تین خواتین میں سے دو اسرائیلی شہریت رکھتی تھیں، جب کہ ایک دوہری شہریت رکھنے والی برطانوی واسرائیلی شہری تھی۔ حماس کی قید میں 23 سالہ رقاصہ رومی جونین، 30 سالہ دورون شطنبرخر اور 28 سالہ برطانوی نژاد ایمیلی دماری تھیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کوان کی مکمل جسمانی اور نفسیاتی حالت میں دکھایا گیا ہے، جب کہ فلسطینی قیدیوں پر تھکن کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ مزاحمت کی اقدار اور اخلاقیات اور قبضے کی بربریت اور فاشزم کے درمیان گہرے تضاد کو واضح طور پر اجاگر کرتا ہے۔ حماس کی قید میں رہنے والی 23 سالہ اسرائیلی قیدی رقاصہ رومی جونین کو تنظیم نے نووا میوزک فیسٹیول پر حملے کے دوران حراست میں لیا تھا۔حملے کے بعد وہ کئی گھنٹے تک چھپی رہی تھیں جبکہ کئی اسرائیلی اس کے سامنے ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کے دوران اپنے خاندان والوں سے فون پربات کرتے ہوئے رومی جونین کا کہنا  تھا کہ وہ آج ماری جائے گی۔  آخری بات جو اس کے اہلِ خانہ نے سنی  وہ عربی زبان میں حملہ آوروں کی تھی جو کہہ رہے تھے کہ لڑکی زندہ ہےاور اسے  ساتھ لے جانا چاہیے۔ کچھ دن بعد میں اس کا فون غزہ میں ایک جگہ سے ملاتھا۔ حماس کی قید میں رہنے والی دوسری اسرائیلی قیدی 30  سالہ دورون شطنبرخر تھی ، جوجانوروں کے صحت کے شعبے میں نرس کے طور پر کام کرتی تھی۔ اسے غزہ سے متصل کبوتز کفرازا نامی علاقے سے حراست میں لیا گیا۔ واضح رہے کہ  یہ وہی علاقہ ہے جو حماس کے القسام بریگیڈ کے حملے کا سب سے زیادہ نشانہ بنا تھا۔ اسرائیلی خاتون قیدی  نے  حراست میں لیے جانے سے قبل  فون پر گھر والوں  کو بتایا تھا کہ وہ خوفزدہ ہے اور مسلح حملہ آور بلڈنگ کے قریب پہنچ گئے ہیں اور وہ کسی بھی وقت گرفتار ہوسکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس  نے اپنی دوستوں کو ایک وائس میسج بھیجا  اور اپنے گرفتار ہونے کی خبر دی۔ تیسری اسرائیلی قیدی 28  سالہ برطانوی نژاد ایمیلی دماری تھی، اسےبھی کبوتز کفرازا کے علاقے سے  گرفتار کیا گیا تھا۔ایمیلی کی پرورش لندن میں ہوئی اور وہ فٹبال ٹیم کے کھلاڑیوں کی فین ہے۔  ایمیلی کی والدہ کا کہنا تھا  کہ ایمیلی کے ہاتھ پر گولی لگی جس سے وہ زخمی ہوگئی، پھر اس کی ٹانگ کو چھری سے زخمی کیا گیا اور آنکھوں پر پٹی ڈال کر کار کی ڈگی میں غزہ لے جایا گیا۔ دوسری جانب حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے کے تحت  اسرائیلی جیلوں سے گزشتہ شب 90 فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا گیا، جن میں فلسطینی صحافی رولا  حسنین بھی شامل ہیں۔فلسطینی صحافی  جب قیدیوں کی بس سے اتریں تو ان کی ڈیڑھ سالہ بیٹی ایلیا ماں سے ملاقات کی منتظر تھی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر  ماں اور بیٹی کی ملاقات کے جذباتی مناظرتیزی سے وائرل ہورہے ہیں۔ واضح رہے کہ رولا حسنین کو مارچ 2024 کو اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر بیت لحم سے گرفتار کیا تھا، قید کے وقت اس کی بیٹی صرف 9 ماہ کی تھی۔ فلسطینی صحافی پر سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے اشتعال پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور اسرائیلی عدالت نے ان کی درخواست ضمانت بھی خارج کردی تھی۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کے غزہ سےانخلا کے بعد حماس  پولیس نےغزہ سمیت مقبوضہ علاقوں کا کنٹرول ہاتھوں میں لےلیا ہے ۔ حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  اسرائیل پر بھی معاہدے کی پاسداری کے لیے زور دیا جائے۔ یہ بات ذہن نشین کر لی جائے کہ اسرائیل کی جانب سے خلاف ورزی پورے عمل کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ غزہ پر جب بھی قبضے کی کوشش کی جائے گی ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ معاہدے کو اپنی تاریخی کامیابی قرار دے دیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ  جوبائیڈن انتظامیہ جو کام چار سال میں نہیں کرپائی، وہ انہوں نے تین ماہ میں کر دکھایا ہے۔ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس کے ساتھ ہی کیتھولک مسیحیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کیا ۔ فریقین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین سیاسی حکام جلد دوریاستی حل تک بھی پہنچیں گے۔انھوں  نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین غزہ معاہدے کا احترام کریں۔ واضح رہے کہ حماس نےغزہ پر کنٹرول برقرار رکھنے کی حکمتِ عملی پرپیرا عمل ہونا شروع کردیا ہے۔حماس پولیس سرنگوں سے نکل کر غزہ کا کنٹرول سنبھال رہی ہے۔عرب میڈیا کے مطابق حماس کی پولیس دوبارہ منظم ہوتی اور غزہ کا انتظام سنبھالتی نظر آرہی ہے۔ دوسری جانب حماس کا کہناہے کہ جنگ بندی معاہدے کے احترام کے لیے پُرعزم ہیں۔  ثالث کاروں پر زور دیتے ہوئے حماس نے کہا ہےکہ اسرائیل کو معاہدے کی پاسداری کا پابند کریں۔ یاد رہے کہ 16 جنوری کو حماس اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا کہ جنگ بندی کا نفاذ 19 جنوری سے ہوگا۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اکتوبر 2023 سےشروع ہونے  والی اس جنگ میں 46707 سے زائد افراد جاں بحق جب کہ 1 لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں کثیر تعداد

گوادرایئرپورٹ کاافتتاح: پاکستان کی ترقی کی پرواز کا آغاز

نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاح،پہلی کمرشل پرواز نے پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے میں نیا سنگ میل عبور کیا ہے جو گوادر کو عالمی تجارتی اور سیاحتی مرکز بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ جب20جنوری 2025 کو پہلی کمرشل پرواز کامیابی کے ساتھ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کر گئی۔ اس پرواز نے نہ صرف پاکستان کی فضائی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا بلکہ گوادر کو عالمی، تجارتی اور سیاحتی مرکز بنانے کی راہ بھی ہموار کر دی ہے۔ پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی (پی اے اے) نے اس کامیاب پرواز کی خبروں کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ پی آئی اے کی پرواز PK-503،جو کراچی سے صبح 9:50 بجے روانہ ہوئی،اس پرواز نے 46 مسافروں کو لے کر گوادر کے جدید ایئرپورٹ پر 11:15 بجے کامیابی سے لینڈ کیا۔ اس کامیاب لینڈنگ سے پاکستان کا ہوا بازی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہوا ہے کیونکہ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی مکمل آپریشنلائزیشن کے ساتھ پاکستان کی فضائی صنعت نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔ وزیر دفاع و ہوا بازی خواجہ محمد آصف جو اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے،انہوں نے گوادر ایئرپورٹ پہنچ کر اس تاریخی پرواز کا آغاز کیا۔ ان کے ہمراہ گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی بھی موجود تھے۔ خواجہ آصف نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پاکستان کی اقتصادی ترقی، علاقائی سیاحت، اور عالمی  رابطوں کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم قدم ہے”۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس بات پر زور دیا کہ گوادر ایئرپورٹ کی کامیابی سے گوادر عالمی تجارتی، سیاحتی اور اقتصادی مرکز بننے کی سمت میں ایک بڑا قدم اٹھا رہا ہے۔اس ایئرپورٹ میں موجودہ جدید انفراسٹرکچر اور سہولتیں گوادر کو ایک اہم عالمی شہر بنانے میں معاون ثابت ہوں گی۔ ایئرپورٹ کے افتتاح میں شرکت کرنے والے دیگر معزز مہمانوں میں ڈائریکٹر جنرل ایئرپورٹس سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) میجر جنرل عدنان، ڈائریکٹر جنرل پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی (پی اے اے) ایئر وائس مارشل ذیشان سعید، جی او سی 44 ڈویژن میجر جنرل عدنان سرور ملک، پاک بحریہ کے ریئر ایڈمرل عدنان، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایئرپورٹس صادق الرحمٰن، اور ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمٰن شامل تھے۔ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا  منصوبہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے جس کی تکمیل پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو رہی ہے۔ اس ایئرپورٹ کی منفرد خصوصیات میں 3.6 کلومیٹر طویل رن وے شامل ہے جو بوئنگ 747 اور ایئربس  (A380) جیسے بڑے طیاروں کو سہولت فراہم کرتا ہےجبکہ جدید ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم اور نیویگیشنل ایڈز کی سہولت موجود ہے ۔ اس کے علاوہ مسافروں کی سہولت اور سیکیورٹی کے لیے جدید ترین انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی خصوصیات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ ایئرپورٹ تقریباً 4,300 ایکڑ کے رقبے پر قائم ہے اور اس کی سالانہ گنجائش 4 لاکھ مسافروں کی ہے۔ اس کی مکمل لاگت تقریباً 246 ملین امریکی ڈالر ہے جو حکومتِ پاکستان، پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹیPIA))، سلطنتِ عمان کی گرانٹ اور حکومتِ چین کی گرانٹ سے فراہم کی گئی ہے۔ یہ ایئرپورٹ سی پیک کی کامیابی کی علامت ہے جو نہ صرف پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے بلکہ پورے خطے میں تجارت اور ترقی کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ” یہ منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دوستی اور تعاون کا ثبوت ہے۔” پہلی کمرشل پرواز کی کامیاب لینڈنگ کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کامیابی میں حصہ لینے والے معزز مہمانوں کو اعزازات پیش کیے۔ ان میں وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی، گورنر جعفر خان مندوخیل، سیکریٹری ایوی ایشن منگی، سی ای او پی آئی اے ایئر وائس مارشل عامر حیات، اور متعدد دیگر حکومتی اور فوجی اہلکار شامل تھے۔ یہ کامیابی پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے کے لیے ایک شاندار قدم ہے جو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا مقام مضبوط کرے گا۔