نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی: روایتی سیاست کا خاتمہ یا نیا آغاز؟

نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی سیاسی رجحانات کو جنم دیتی ہیں۔ آج کےنوجوان سیاست اور ریاستی امورپر کھل کر بات بھی کرتے ہیں اور سیاست کے بارے میں باخبر بھی ہیں، متفکر بھی اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، جس سے نوجوان دلچسپی بڑھنے کی وجہ سیاست میں مزید حصہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان میں جاگیردرانہ اور روایتی سیاست سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے نوجوان خود سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ نوجوان سیاستدان اپنی منفرد شناخت، متحرک سوچ، اور نوجوانوں کے مسائل کو بہتر انداز میں اجاگر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ’پاکستان میٹرز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر اسجد ممتاز نے کہا ہے کہ نوجوانوں کا سیاست میں دلچسپی لینا اچھا رجحان ہے، یہ جمہوری نظام کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے، نوجوانوں کا فرسودہ نظام اور پرانے سیاستدانوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ نوجوانوں کی سیاست میں بڑھتی دلچسپی نے پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت پہلو کو جنم دیا ہے جس میں سٹوڈنٹ یونین کا بڑا اہم کردار سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں سٹوڈنٹ یونین پر بین ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کی قیادت میں خلا پیدا کر دیا ہے، اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر اسجد ممتاز نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ سٹوڈنٹس یوننینز بحال کرکے انتخابات کروائے جائیں تاکہ نوجوان قیادت سیاست میں مزید دلچسپی پیدا ہو۔ پاکستان کی سیاست بالخصوص انتخابات میں نوجوان ووٹرز کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق 18برس سے لے کر 35برس تک کے ووٹرز کی تعدادپانچ سے چھ کروڑ کے درمیان ہے ،جو کہ کل ووٹرز میں سے 46فیصد نوجوان 18 سے 35 سال کے ووٹرز ہیں ۔ پنجاب یونیورسٹی میں سیاسیات کی طالبہ نگزہ اکبر نے پاکستان میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے حوالے سے ’پاکستان میٹرز‘ کو بتایا کہ پاکستان میں نوجوانوں کی سیاست میں بڑھتی ہوئی دلچسپی تبدیلی لا رہی ہے۔ 2024 کے انتخابات میں نوجوانوں کی شمولیت نے کئی حلقوں کے نتائج پر اثر ڈالا، کیونکہ وہ پہلے سے زیادہ متحرک ہو چکے ہیں۔ اگر نوجوان اسی طرح سیاست میں شامل رہے، تو سیاستدانوں کو عوامی مسائل حل کرنے پر زیادہ توجہ دینی ہوگی اور شخصیت پرستی کی جگہ کارکردگی کی سیاست آ سکے گی۔ پاکستان میں حالیہ انتخابات میں کئی نوجوانوں نے حصہ لیا تھا جو کہ پاکستانی سیاست کے بدلتے رحجانات کے لیے بہترین مثال ہیں، اس حوالے سے نگزہ اکبر نے کئی نوجوانوں کے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ مثال 27 سالہ صابزادہ میر جمال رئیسانی نے حلقہ این اے 264 سےپاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے امیدوار کے طور پربلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل کے خلاف الیکشن لڑا اور جیت کر سب سے کم عمر پاکستان قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ثانیہ عاشق کو 25 سال کی عمر میں2018 کے عام انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست پر پاکستان مسلم لیگ ن کی میدوار کے طور پر پنجاب اسمبلی کے لیے منتخب کیا گیا اور اب بھی ثانیہ عاشق پنجاب اسمبلی کی سب سے کم عمر ممبر ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ مقرر ہیں،اس کے علاوہ 27 سالہ نوجوان معاذ محبوب ایم کیو ایم کے امیدوار کے طور پر پی ایس 127 میں منتخب ہوئے اور پاکستانی سیاست کے بدلتے رحجانات کے لیے بہترین مثال ہیں۔ کم عمر سیاستدانوں کی کامیابی صرف نوجوانوں کے لیے ایک مثال نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ سیاستدان روایتی سیاست کے خلاف نئی سوچ، شفافیت، اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوجوان ووٹرز کے تعاون اور جدید ذرائع کے استعمال نے انہیں قومی منظرنامے میں نمایاں مقام دیا ہے اور اس سے پاکستان میں عرصہ دراز سے چلنے والے جاگیر درانہ نظام کو شکست دے کر نوجوانوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ سیاست کی طلبہ نگزہ اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاگیردارانہ سیاست کی جڑیں بہت گہری ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں نوجوان سیاستدان اس رجحان کو کمزور کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، علی زیدی، مصطفیٰ نواز کھوکھر، اور زرتاج گل جیسے سیاستدان ایسے خاندانوں سے نہیں آتے جن کا سیاست میں پرانا اثر و رسوخ رہا ہو، لیکن وہ اپنی محنت سے سیاست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کئی نوجوان سیاستدان ابھرے، جو اپنے علاقوں کے مسائل پر کام کر رہے ہیں۔ اگر نوجوان قیادت کو عوام کی حمایت ملتی رہی، تو پاکستان میں خاندانی سیاست کا اثر کم ہو سکتا ہے اور میرٹ پر سیاست ممکن ہو سکتی ہے کسی بھی جمہوری حکومت میں نوجوانوں کا ٹرن آؤٹ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے لیکن پاکستان میں یہ الٹ ہے ۔ 2018 اور 2024 کے الیکشن میں نوجوانوں نے پہلے کی نسبت زیادہ ووٹ ڈالے ۔ نوجوانوں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ وہ روایتی سیاستدانوں کے بجائے نوجوان سیاست دانوں کوزیادہ ترجیع دیتے ہیں، جو کہ پاکستانی سیاست کو ایک بہتر موڑ کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ نگزہ اکبر اکبر نے نوجواں کی سیاست میں اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان ووٹرز اگر سمجھداری سے ووٹ ڈالیں، تو سیاست میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ 2024 کے انتخابات میں دیکھا گیا کہ کئی حلقوں میں نوجوان ووٹرز کے رجحانات نے نتائج پر اثر ڈالا، خاص طور پر شہری علاقوں میں جہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں نے زیادہ ووٹ کاسٹ کیے۔ اگر وہ کارکردگی پر ووٹ ڈالیں، تو سیاست میں روایتی خاندانوں اور شخصیت پرستی کا زور ٹوٹ سکتا ہےاور عوامی مفاد پر مبنی فیصلے ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اگر نوجوان ووٹ ڈالنے کو ترجیح دیں، تو انتخابی دھاندلی کم ہو سکتی ہے، کیونکہ زیادہ ٹرن آؤٹ شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں نوجوانوں کی دلچسپی اور شمولیت ایک نئے دور کا آغاز کر رہی ہے۔ جہاں ماضی میں سیاست پر روایتی اور جاگیردارانہ نظام کا غلبہ تھا، وہیں اب نوجوان ووٹرز اور سیاستدان ملکی سیاست کے رخ کو تبدیل کر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں نوجوان ووٹرز کے زیادہ متحرک
’ملکی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، کوئی شخصیت نہیں‘ آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملک کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، کوئی تحریک یا کوئی شخصیت نہیں۔ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا، یہ ہماری اور آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کب تک ہم ایک سافٹ اسٹیٹ کے طرز پر جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے، گورننس کی خلا کو کب تک افوج پاکستان اور شہداء کے خون سے بھرتے رہیں گے، علما سے درخواست ہے کہ وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں۔ عاصم منیر نے کہا کہ اگر یہ ملک ہے تو ہم ہیں، لہٰذا ملک کی سلامتی سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں، پاکستان کے تحفظ کے لیے یک زبان ہو کر اپنی سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بیانیہ اپنانا ہوگا۔ مزید پڑھیں: اسلام آباد میں جناح میڈیکل سینٹر پاکستان کا دوسرا جان ہاپکنز بنے گا، شہباز شریف آرمی چیف کا کہنا تھا کہ جو سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو ان دہشتگردوں کے ذریعے کمزور کرسکتے ہیں، تو ان کو یہ پیغام ہے کہ ہم متحد ہو کر نہ صرف ان کو بلکہ ان کے تمام سہولتکاروں کو بھی ناکام کریں گے۔ عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، تحریک اور شخصیت نہیں ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے، جو کچھ بھی ہو جائے انشا اللہ ہم کامیاب ہوں گے۔
پاکستان میں ای کامرس اور فری لانسنگ کا بڑھتا رجحان کیا تبدیلی لائے گا؟

پاکستان میں ای کامرس اور فری لانسنگ کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ڈیجیٹل مارکیٹ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اور لاکھوں پاکستانی نوجوان اس شعبے سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے استعمال نے کاروبار کے روایتی طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ آن لائن خرید و فروخت اب صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں بلکہ چھوٹے قصبوں اور دیہات میں بھی مقبول ہو چکی ہے۔ فری لانسنگ کے میدان میں پاکستان دنیا کے چند بڑے ممالک میں شامل ہو چکا ہے، جہاں نوجوان مختلف مہارتوں کے ذریعے زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ ای کامرس کی ترقی کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کی دستیابی ہے۔ آن لائن مارکیٹ پلیسز جیسے دراز، علی بابا، اور ایمیزون نے پاکستانی صارفین کو عالمی مارکیٹ سے جوڑ دیا ہے۔ چھوٹے کاروباری افراد اور گھریلو سطح پر کام کرنے والے افراد کے لیے بھی آن لائن اسٹورز ایک نعمت ثابت ہو رہے ہیں۔ کئی خواتین اور طلبہ گھر بیٹھے اپنے کاروبار چلا رہے ہیں اور اس سے معقول آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، فری لانسنگ کے شعبے میں بھی بے پناہ ترقی دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستانی نوجوان مختلف پلیٹ فارمز جیسے فائیور، اپ ورک، اور پیپل پر آور کے ذریعے دنیا بھر کے کلائنٹس کو اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ سے زائد فری لانسرز کام کر رہے ہیں، جو سالانہ کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ ملک میں لا رہے ہیں۔ معروف فری لانسرز میں حشام سرور، عزیر علی، اور ضیا الرحمن جیسے نام شامل ہیں، جو نہ صرف خود کامیاب ہوئے بلکہ دیگر نوجوانوں کو بھی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ کئی نوجوان یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے فری لانسنگ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے مزید لوگ اس شعبے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ تاہم، جہاں اس شعبے میں ترقی ہو رہی ہے، وہیں کئی مشکلات بھی درپیش ہیں۔ انٹرنیٹ کی سست رفتاری ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے کئی فری لانسرز کو بروقت کام مکمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کئی بار انٹرنیٹ سروسز میں رکاوٹیں دیکھی گئیں، جس کی وجہ سے کئی فری لانسرز کے پروجیکٹس متاثر ہوئے اور ان کی آمدنی میں کمی آئی۔ ایک اور بڑا مسئلہ بینکنگ سسٹم اور حکومتی پالیسیز ہیں۔ پاکستان میں فری لانسرز کو بینک اکاؤنٹ کھلوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور کئی بار بیرون ملک سے آنے والی ادائیگیوں پر غیر ضروری ٹیکس عائد کر دیا جاتا ہے۔ ایف بی آر کی پیچیدہ پالیسیوں کی وجہ سے کئی فری لانسرز ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ابوزر رفیق، جو فری لانسنگ اور ایک کامرس میں تقریباً 7 سال کا تجربہ رکھتے ہیں، نے کہا کہ “فری لانسنگ اور ای کامرس پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ فری لانسرز ہر سال کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ ملک میں لا رہے ہیں، جو ملکی معیشت کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ اسی طرح، ای کامرس نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو فروغ دیا ہے، جس سے روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور کاروباری افراد کو عالمی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہو رہی ہے۔ اگر حکومت ان شعبوں کو مزید سہولتیں فراہم کرے، جیسے بہتر انٹرنیٹ، بینکنگ سسٹم کی بہتری اور پے منٹ گیٹ ویز، تو ان شعبوں کا معیشت پر مزید مثبت اثر پڑ سکتا ہے”۔ ای کامرس کے میدان میں بھی کئی چیلنجز ہیں۔ آن لائن کاروبار کرنے والوں کو آئے دن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کے مسائل، سائبر کرائم، اور غیر منظم قوانین شامل ہیں۔ کئی آن لائن اسٹورز کو غیر ضروری پالیسیوں کی وجہ سے بند کر دیا جاتا ہے، جس سے کاروباری افراد کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جدید طریقہِ روزگار کے آنے کے بعد روایتی تعلیم کی اہمیت کم یا ختم ہوگئی ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں شعبہِ کمپوٹر سائنس سے وابستہ پروفیسر جمیل چوہدری کا کہنا تھا کہ “روایتی تعلیم کی اہمیت اب بھی برقرار ہے، لیکن اس کا کردار بدل رہا ہے۔ اب تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں، بلکہ عملی مہارتیں سیکھنا بھی بن چکا ہے۔ فری لانسنگ اور ای کامرس کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے روایتی تعلیمی اداروں کو بھی جدید ڈیجیٹل مہارتوں کو نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔ اگرچہ فری لانسنگ اور ای کامرس نے نوجوانوں کو بغیر ڈگری کے بھی کمانے کے مواقع فراہم کیے ہیں، لیکن طویل مدتی کامیابی کے لیے تعلیم اب بھی ضروری ہے۔ جدید دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو روایتی تعلیم اور ڈیجیٹل مہارتوں کو یکجا کر کے کام کریں گے”۔ بہت سے چیلنجز کے باوجود، پاکستان میں ای کامرس اور فری لانسنگ کا مستقبل روشن ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے اس شعبے کو سہولت فراہم کریں، انٹرنیٹ کی بہتری، آسان بینکنگ سسٹم، اور فری لانسرز کے لیے معاونت جیسے اقدامات کریں، تو یہ شعبہ ملک کی معیشت میں ایک مضبوط ستون بن سکتا ہے۔ لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں، اور پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت میں عالمی سطح پر نمایاں مقام دلایا جا سکتا ہے۔
جعفر ایکسپریس حملہ، اداروں کیخلاف نفرت انگیز مہم چلانے والا ملزم بنی گالہ سے گرفتار

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سائبر کرائم سرکل نے جعفر ایکسپریس حملے کے بعد ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والےشخص کو گرفتار کرلیا۔ نفرت انگیز چلانے والےشخص کی شناخت حیدر سعید کے نام سے ہوئی ہے، جسے بنی گالہ کے علاقے میں ایک چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق سعید جعفر ایکسپریس حملے کے دوران ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے والے توہین آمیز مواد شیئر کرتے ہوئے پایا گیا ہے۔ مزید برآں، ملزم سوشل میڈیا پر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو فروغ دینے، ان گروپس کی حمایت میں اشتعال انگیز مواد شیئر کرنے میں ملوث تھا۔ ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ملزم نہ صرف ریاست مخالف پروپیگنڈا کر رہا تھا بلکہ انتہا پسندوں کے حق میں اشتعال انگیز بیانات بھی پوسٹ کر رہا تھا۔ ایجنسی نے مزید تفتیش کے لیے اس شخص کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ڈیجیٹل شواہد کو قبضے میں لے لیا ہے۔ ایف آئی اے نے ملزمان کے خلاف قانون کے مطابق سخت قانونی کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ جعفر ایکسپریس، نو بوگیوں میں 400 سے زائد مسافروں کو لے کر کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی کہ منگل کو بولان پاس کے علاقے ڈھادر میں اس پر حملہ ہوا۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب مسلح بندوق برداروں نے منگل کی سہ پہر صوبے کے ایک دور افتادہ، پہاڑی علاقے میں ٹرین کو روکنے پر مجبور کیا، اس حملے کی ذمہ داری صوبے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے پیچھے ایک دہشت گرد گروہ، کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے فوراقبول کی۔۔
‘یہ غلط اور غیر انسانی بات ہے کہ افغانوں کو بغیر کسی انتظام کے ان کے ملک واپس بھیجا جائے’ وزیراعلیٰ گنڈاپور

خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ، علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ان کی حکومت 31 مارچ کے بعد فیصلہ کرے گی کہ وفاقی حکومت کی طرف سے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے حکم پر عمل درآمد کیا جائے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ صوبے کے مقامی حالات، ثقافت اور روایات کے مطابق کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت کی پناہ گزینوں کی واپسی کی پالیسی کو “غیر انسانی اور جابرانہ” قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ غلط اور غیر انسانی بات ہے کہ افغانوں کو بغیر کسی انتظام کے ان کے ملک واپس بھیجا جائے، جہاں نہ تو ان کے لیے کوئی سہولتیں ہیں اور نہ ہی ان کی آباد کاری کا کوئی منصوبہ ہے۔” وفاقی حکومت کی جانب سے افغان شہریوں کو 31 مارچ تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے جس کے بعد انہیں زبردستی ملک سے نکالنے کا عمل شروع کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت اس فیصلے کے حوالے سے خود مختار ہے اور صوبے کے عوام کے مفاد میں ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ “میں جو فیصلہ کروں گا، وہ خیبر پختونخوا کے عوام کی ثقافت اور روایات کے مطابق ہوگا۔” یہ بھی پڑھیں: پاکستان مخالف پروپیگنڈہ، پی ٹی آئی قیادت ایک بار پھر جے آئی ٹی میں طلب وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ اس وقت افغانوں کی جبراً واپسی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ افغانستان میں ان کے لیے مناسب سہولتیں اور تحفظ فراہم نہیں کیا جا رہا۔ وزیراعلیٰ گنڈاپور نے صوبے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ حکومتی اداروں کا اپنی اصل ذمہ داریوں سے غفلت برتنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ریاست اور اس کے ادارے گزشتہ چند ماہ سے اپنی توانائیاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ختم کرنے اور اس کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے میں لگا چکے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور بدامنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔” گنڈا پور نے کا کہنا ہے کہ “آج میں صاف کہتا ہوں کہ دہشت گردی میں اضافے کا اصل ذمہ دار وفاقی حکومت اور اس کے ادارے ہیں، جو اپنے فرادی مفادات میں مشغول ہیں اور اصل مسئلے سے نظریں چراتے ہیں۔” وزیراعلیٰ نے کہا کہ “امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنا حکومت اور اس کے اداروں کا فرض ہے اور اگر یہ کام مؤثر طریقے سے نہ کیا گیا تو ملک اور صوبے میں مزید بدامنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔” لازمی پڑھیں: جنوبی وزیرستان سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں کرفیو نافذ، کب تک جاری رہے گا؟ انہوں نے مزید کہا کہ ملک اور صوبے کی صورتحال کا تقاضا ہے کہ ادارے اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھیں اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات کریں۔ “یہ وقت ہے کہ ہم اپنے فیصلے درست کریں، تاکہ امن قائم ہو سکے اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔” وزیراعلیٰ کی جانب سے اٹھائے گئے اہم سوالات اور ان کے سخت بیانات نے وفاقی حکومت اور صوبے کے موجودہ حالات پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے ان کے موقف نے صوبے کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ افغانوں کی واپسی کے بارے میں خیبر پختونخوا میں فیصلہ صوبے کے حالات کے مطابق ہوگا، ان کی سیاسی حکمت عملی کو واضح کرتا ہے۔ اس صورتحال میں صوبے کے عوام اور حکومت دونوں کے لیے چیلنجز اور اہم فیصلے درپیش ہیں۔ مزید پڑھیں: وفاق پر الزام تراشی کرکے گنڈاپور اپنی شرمندگی اور نالائقی کو چھپانا چاہتے ہیں، اختیار ولی خان
دہشتگردی کی تمام کارروائیوں میں انڈین خفیہ ایجینسی ‘را’ کا ہاتھ ہے، رانا ثنااللہ

مشیر سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ دہشتگردی کی جتنی کارروائیاں ہورہی ہیں، اس میں انڈین خفیہ ایجینسی ‘را’ کا ہاتھ ہے۔ فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کوئی بڑا آپریشن نہیں ہورہا ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پوری قوم اور ادارے پرعزم ہیں، انڈین خفیہ ایجنسی ‘را’ دہشتگرد تنظیموں کی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ دہشتگردی پر جو پروپیگنڈہ انڈیا کر رہا ہے، وہ ایک سیاسی جماعت بھی کر رہی ہے۔ دہشتگردوں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ دہشتگردی کے لیے افغانستان سرزمین کا استعمال ہونا افسوسناک ہے۔ افغان حکومت کو دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی۔ مشیر سیاسی امور کا کہنا ہے کہ قومی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر ہرزہ سرائی انتہائی قابلِ مذمت ہے، قومی وقار اور سلامتی کے خلاف تمام سازشیں ناکام، بنائیں گے۔ بیرونی عناصر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی سالہا سال مدد کی ہے، افغانستان حکومت پراکسی کا کردار ادا کر رہی ہے، افغانستان کے عوام پاکستان کے ساتھ ہیں، وہاں کی حکومت نہیں۔ مزید پڑھیں: نوشکی میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ، تین اہلکار، دوعام شہری جاں بحق رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ افغانستان نے دہشتگردوں کو سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں، افغانستان میں دہشتگردی کی تیاری ہوتی ہے اور پھر پاکستان میں کارروائی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جعفر ایکسپریس والی دہشتگرد کارروائی ہوتے ہی انڈین میڈیا نے پروپیگنڈہ شروع کردیا، ایسا لگتا ہے کہ انڈین میڈیا کو پہلے ہی پتہ تھا کہ دہشتگرد کارروائی ہونے جارہی ہے۔ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے آپریشن کیا اور دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔ ٹرین میں سفر کرنے والے تمام مسافروں کو بازیاب کرایا گیا، انڈین میڈیا پروپیگنڈہ کر رہا ہے، کوئی بھی بندہ مسنگ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی گرینڈ آپریشن کی ضرورت نہیں، انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن ہورہے ہیں، انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن میں دہشتگردوں کو مارا جارہا ہے۔ وزیرِاعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے پاک فوج کے شہید جوان مزمل کے اہلخانہ سے تعزیت بھی کی۔
جنگ اور جنگ بندی معاہدہ: دونوں جاری, حالات کس طرف جا رہے ہیں؟

روس اور یوکرین کے درمیان فضائی حملے بدستور جاری ہیں، جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا ہے۔ حکام کے مطابق، یہ صورتحال جنگ بندی کے کسی بھی ممکنہ معاہدے کو غیر یقینی بنا رہی ہے، جو تین سال سے جاری تنازعے کے دوران ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے حالیہ دنوں میں امریکا کی طرف سے پیش کردہ 30 روزہ جنگ بندی کی تجویز کی اصولی طور پر حمایت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ روسی افواج اس وقت تک اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی جب تک کہ کچھ اہم شرائط کو پورا نہیں کیا جاتا۔ ان بیانات کے باوجود، دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف بھاری فضائی حملے کیے ہیں، جس سے جنگ کے مزید شدت اختیار کرنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ روس نے یوکرینی افواج کو مغربی روسی علاقے کرسک سے نکالنے کے لیے کارروائی تیز کر دی ہے، جبکہ یوکرین نے بھی جوابی حملے کیے ہیں۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق، اتوار کے روز روسی فضائی دفاعی یونٹوں نے یوکرین کے 31 ڈرونز کو تباہ کیا، جن میں سے 16 وورونز، 9 بیلگوروڈ، اور باقی روستوف اور کرسک کے علاقوں میں مار گرائے گئے۔ بیلگوروڈ کے گورنر ویاچسلاو گلادکوف کے مطابق، یوکرینی ڈرون حملے میں تین افراد زخمی ہوئے، جن میں ایک 7 سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ دو افراد اس وقت زخمی ہوئے جب ایک ڈرون ان کے گھر سے ٹکرا کر آگ بھڑکانے کا سبب بنا، جبکہ ایک اور شخص ڈولگوئے گاؤں میں ڈرون حملے کی زد میں آکر زخمی ہوا۔ دوسری جانب، وورونز کے گورنر الیگزینڈر گوسیو اور روستوف کے قائم مقام گورنر نے اطلاع دی کہ ان کے علاقوں میں فوری طور پر کسی نقصان یا زخمی ہونے کی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ یوکرین میں بھی روسی ڈرون حملوں کی شدت برقرار رہی۔ حکام کے مطابق، شمالی علاقے چرنیہیو میں ایک اونچی عمارت میں آگ بھڑک اٹھی، جو ایک روسی ڈرون حملے کا نتیجہ تھی۔ یوکرین کی ایمرجنسی سروس کے مطابق، فائر فائٹرز آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یوکرینی میڈیا نے دارالحکومت کیف اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں دھماکوں کی متعدد اطلاعات دی ہیں، جب کہ یوکرین کی فضائیہ نے وسطی یوکرین میں ڈرون حملوں کے خطرے کے پیش نظر وارننگ جاری کر دی تھی۔ اتوار کے روز 3 بجے تک کیف کے علاقے میں ہونے والے نقصان کے بارے میں کوئی سرکاری رپورٹ جاری نہیں کی گئی تھی۔ موجودہ حالات میں، جنگ بندی کی کوششوں کی کامیابی مشکوک نظر آ رہی ہے، کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، اور تنازعہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔
نصیبو لال اور ان کے شوہر کے درمیان صلح ہو گئی، گلو کارہ نے مقدمہ واپس لے لیا

نصیبو لال نے اپنے بھائی شاہد لال کے کہنے پر مقدمہ واپس لے لیا اور اپنے شوہر کے ساتھ صلح کر لی۔ نجی نشریاتی ادارہ جیو نیوز کےساتھ گلوکارہ کے بھائی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہنوئی غصے کا تیز ہے جسے سمجھا بجھا کر معاملہ حل کردیا ہے۔ نصیبو لال کے بھائی شاہد لال نے بتایا کہ بہن اور بہنوئی کے درمیان اکثر چھوٹے موٹے جھگڑے ہوجاتے ہیں لیکن اس مرتبہ ہاتھا پائی کی وجہ سے ایف آئی آر درج کروانے کی نوبت آئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں میاں بیوی کے درمیان صلح ہوگئی ہے اور بہنوئی نے آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ دوسری جانب گلوکارہ نصیبو لال نے شوہر کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی تصدیق کی اور کہا کہ شوہر کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا۔ نصیبو لال نے ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ وہ گھر کے صحن میں بیٹھی تھیں جب ان کے شوہر نے بدزبانی کی اور پھر قریب پڑی اینٹ اٹھا کر ان کے سر پر مار دی، جس سے ان کے چہرے اور ناک پر شدید چوٹیں آئیں۔ گلوکارہ نے مزید کہا کہ ان کا شوہر اکثر ان سے لڑائی جھگڑا کرتا ہے، مگر اس بار اس نے اینٹ مار کر اور گالی گلوچ کرکے زیادتی کی، لہٰذا اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ نصیبو لال پاکستان کی معروف فوک گلوکارہ ہیں، جو اردو، پنجابی، سرائیکی اور مارواڑی زبانوں میں گانے گاتی ہیں۔ انہوں نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے آٹھویں ایڈیشن کا ترانہ بھی گایا تھا۔ واضح رہے کہ دسمبر 2024 میں ڈان نیوز نے ایک سٹوری پبلش کی تھی جس کے مطابق نصیبو لال کے شوہر نے ایک شخص پر فائرنگ کی تھی جس وجہ سے پولیس نے اسے گرفتار کیا تھا۔ گلوکارہ کے شوہر نوید بلوچ کو شاہدرہ ٹاؤن میں اپنے محلے میں فائرنگ کرکے ایک شخص کو زخمی کرنے کے کیس میں گرفتار کیا تھا۔ مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ملزم نوید بلوچ اور اہل محلہ کے افراد میں لڑائی جھگڑا ہوا، جس دوران گلوکارہ کے شوہر نے فائرنگ کی۔ لاہور پولیس نے جائے وقوع پر پہنچ کر ملزم نوید بلوچ کو گرفتار کرکے تھانے منتقل کیا تھا، جنہیں رہا کرانے کے لیے نصیبو لال بھی تھانے پہنچی تھی اور پوری رات تھانے میں گزاری۔ خیال رہے کہ اس سے قبل ماڈل و اداکارہ زینب جمیل نے بھی اپنے سابقہ شوہر پر قاتلانہ حملے کا الزام عائد کیا تھا، جس کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے
ڈبہ اسکیم : ایک فون کال اور سب کچھ ختم

ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی دنیا میں کئی ایسی فلمیں اور سیریز تیار کی گئی ہیں، جن میں آن لائن فراڈ اور کال سینٹر کے ذریعے سے لوگوں کے بینک اکاؤنٹ اور دیگر معلومات اسپوف کالز کے ذریعے حاصل کر کے ان کے اکاؤنٹ خالی کیے جاتے ہیں، کمال بات یہ ہے کہ وہاں یہ سب فلمایا جاتا تھا، جب کہ کراچی میں یہ کام حقیقت میں کیا جارہا ہے۔ کراچی میں منظم طور پر غیر قانونی کال سینٹرز کا پورا نیٹ ورک موجود ہے، شہر میں کئی رہائشی اور کمرشل عمارتوں میں کال سینٹرز کے نام پر جعل ساز کسی فلیٹ کو کرائے پر لے کر وہاں اس کام کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ فراڈ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کیا جاتا ہے، جب کہ کراچی میں زیادہ تر یہ فراڈ بین الاقوامی صارفین کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ کال سینٹر چلانے والے افراد اپنے آپ کو کسی بھی انٹرنیشنل بینک یا انشورنس کمپنی کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح صارفین سے ان کی بینک اکاؤنٹ اور دیگر معلومات کا حصول ممکن بناتے ہیں، اس فراڈ کو ڈبہ اسکیم کہا جاتا ہے۔ پولیس کی جانب سے ابتدائی معلومات کے مطابق ہائی پروفائل مصطفیٰ قتل کیس میں گرفتار مبینہ ملزم ارمغان بھی اسی ڈبہ اسکیم میں ملوث پایا گیا ہے، جہاں سافٹ ویئر ہاؤس اور کال سینٹر کے نام پر غیر ملکی صارفین کے اکاؤنٹ خالی کیے جاتے تھے۔ بنیادی طور پر ڈبہ اسکیم چلانے والوں کا یہ نیٹ ورک عموماً منظم گروہوں پر مشتمل ہوتا ہے، جو مختلف سطحوں پر کام کرتے ہیں۔ اس میں شامل افراد میں کال سینٹر ایجنٹس، جو لوگوں کو دھوکہ دینے کا کام کرتے ہیں۔ ٹیکنیکل ماہرین جو جعلی ویب سائٹس اور سافٹ ویئر تیار کرتے ہیں، منی لانڈرنگ نیٹ ورکس جو چوری شدہ رقم کو مختلف اکاؤنٹس میں تقسیم کر کے نکالتے ہیں۔ اکثر یہ نیٹ ورکس بین الاقوامی سطح پر کام کرتے ہیں اور کئی مواقع پر ایسے گروہوں کے بھارت، چین، نائیجیریا، ملائیشیا اور دیگر ممالک سے تعلقات سامنے آ چکے ہیں، کچھ دھوکہ دہی کی وارداتوں میں مقامی سہولت کاروں کا بھی کردار ہوتا ہے، جو بیرونی گروہوں کو مقامی بینک اکاؤنٹس، سم کارڈز اور شناختی دستاویزات فراہم کرتے ہیں۔ اب تک کراچی میں چلنے والے ان کال سینٹرز کی مکمل تعداد کسی کے پاس موجود نہیں ہے، کیونکہ اکثر یہ کام ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے رہائشی فلیٹس میں بھی کیا جارہا ہے۔ دوران تعلیم اکثر نوجوان پڑھائی کے اخراجات کو اٹھانے کے لیے ان کال سینٹر میں پارٹ ٹائم ملازمت اختیار کرتے ہیں، جن کو سروس دینے کے لیے بطور سیلیز مین ہائر کیا جاتا ہے، قانونی کال سینٹرز، جو واقعی اپنا کام ایمانداری سے کر رہے ہیں، وہ ملک میں ترسیلات ذر کا بڑا ذریعہ ہیں۔ گذشتہ دنوں کراچی میں ایک نجی بینک کی صارف کے ساتھ کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جنہیں ایک نامعلوم نمبر سے کال کی گئی اور ان کو کہا گیا کہ یہ کال آپ کو بینک سے موصول ہوئی ہے اور اکاؤنٹ میں کچھ تکنیکی تبدیلی کے باعث آپ سے معلومات درکار ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو ایک صارف نے بتایا ہے کہ انہیں بینک اکاؤنٹ نمبر اور بینک برانچ تک بالکل ٹھیک بتائی گئی تھیں، جس کے بعد موبائل پر موصول ہونے والا کوڈ مانگا گیا، جیسے ہی انہوں نے وہ کوڈ نمبر اس فراڈ کرنے والے شخص کو بتایا اگلے ہی لمحے تقریباً ساڑھے چار لاکھ روپے کی رقم ان کے اکاؤنٹ سے کسی دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کا میسج موصول ہوا اور رقم جس اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی گئی، وہ اکاؤنٹ نمبر بھی نامکمل تھا، تاکہ فراڈ کرنے والوں کا پتہ نہ لگایا جاسکے۔ واقعے کے فوری بعد صارف نے متعلقہ بینک سے رابطہ کیا، جس کے جواب میں بینک انتظامیہ نے اس واقعے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا۔ صارف نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بات وہ کافی حد تک سہم گئی ہیں اور اب وہ آن لائن بیکنگ اور کسی بھی کیش والٹ کا استعمال نہیں کر رہی، جس کی بنیادی وجہ ڈیٹا کا غیر محفوظ ہونا ہے۔ ڈبہ اسکیم کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو پاتی؟ عبید شاہ ایک صحافی ہیں جو کہ گذشتہ کئی برس سے کرائم رپورٹنگ کر رہے ہیں، انہوں نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ یہ جعلساز زیادہ تر بین الاقوامی نیٹ ورکس سے جڑے ہوتے ہیں، جنہیں ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، مقامی سطح پر بھی کئی وجوہات کی بنا پر کارروائی میں تاخیر ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اکثر وہ جدید ٹولز اور مہارتیں نہیں ہوتیں، جو ایسے سائبر کرائمز کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر جعلساز کسی دوسرے ملک میں بیٹھے ہیں، تو ان کے خلاف کارروائی کے لیے بین الاقوامی تعاون درکار ہوتا ہے، جو ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ بعض صورتوں میں مقامی بینک ملازمین، ٹیلی کام ورکرز یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد خود ان گروہوں سے ملی بھگت رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے کارروائی میں رکاوٹ آتی ہے۔ عبید شاہ نے مزید بتایا ہے کہ ڈبہ اسکیم کا شکار ہونے والے بعض افراد کی رقم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے نتیجے میں بازیاب بھی ہوئی، مگر یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ اگر کسی متاثرہ شخص کی شکایت فوراً درج ہو، بینک اور حکام فوری کارروائی کریں، تو ٹرانزیکشن کو ریورس کیا جا سکتا ہے یا جعلسازوں کے اکاؤنٹس کو منجمد کر کے رقم واپس حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم، زیادہ تر کیسز میں جعلساز فوری طور پر رقم دوسرے اکاؤنٹس میں منتقل کر دیتے ہیں، جس سے بازیابی مشکل ہو جاتی ہے۔ ڈبہ اسکیم، جعلسازوں سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟ سائبر سکیورٹی میں 20 سال کا تجربہ رکھنے والے سید فراز جاوید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات ہیک ہونے کے امکانات اکثر مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرنے سے بڑھ جاتے ہیں، عام طور پر لوگ آن لائن شاپنگ کے لیے اپنے ڈیبٹ کارڈ کو ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیتے ییں، جس کے نیتجے میں اس ویب سائٹ اور سوشل میڈیا
اسرائیلی فورسز نے غزہ میں مزید دو معصوم بچوں کو شہید کر دیا

اسرائیلی فورسز نے غزہ کے مختلف حصوں میں حملے شروع کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں غزہ سٹی اور ‘بیت لاهیا’ میں کم از کم دو بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ حملے اس وقت ہو رہے ہیں جب اسرائیل کی طرف سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کا آج تیرہواں دن ہے جس کے تحت تمام امدادی سامان کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک کم از کم 48,524 فلسطینی اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 111,955 زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ کی حکومتی میڈیا آفس نے ہلاکتوں کی تعداد بڑھا کر 61,700 سے زیادہ بتائی ہے اور ہزاروں لاپتہ افراد ملبے کے نیچے دفن ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس دوران اقوام متحدہ کے ماہرین نے اسرائیل پر “نسل کشی” کے الزامات عائد کیے ہیں اور کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی خواتین کے صحت کے مراکز کو منظم طریقے سے تباہ کر رہا ہے اور جنگی حکمت عملی کے طور پر جنسی تشدد کا استعمال کر رہا ہے۔ یہ الزامات اسرائیلی فوج کے غزہ میں جاری آپریشن کے دوران سامنے آئے ہیں جس میں درجنوں خواتین اور بچوں کی زندگیوں کا نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب حماس کے ایک ترجمان نے کہا کہ فلسطینی تنظیم موجودہ غزہ سیفائر معاہدے پر قائم رہنے کی عزم کی حامل ہے اور اس کا مقصد اس معاہدے کے دوسرے مرحلے کی طرف پیش رفت کرنا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کی جانب سے ایک نئی تجویز سامنے آئی ہے جس میں پہلے مرحلے کی مدت کو مزید 60 دنوں تک بڑھانے کی بات کی گئی ہے اور بدلے میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا نے یوکرین کو روس کے خلاف جنگ کے لیے ‘نئے ہتھیار’ بھیج دیے اس کے علاوہ غزہ میں صورتحال کی شدت کو دیکھتے ہوئے نیو یارک شہر میں فلسطینیوں کی حمایت میں ایک ہنگامی احتجاج منعقد کیا گیا جس میں درجنوں افراد نے ٹرمپ ٹاور کے سامنے بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ دوسری جانب احتجاجی مظاہرے کا اہتمام امریکی اور یہودی گروپ ‘Jewish Voice for Peace’ (JVP) نے کیا تھا، جو کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کی گرفتاری کے خلاف اظہار یکجہتی کے طور پر منعقد کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے ٹرمپ ٹاور کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف آواز اٹھائی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے 98 افراد کو گرفتار کرلیا، جن میں ہولوکاسٹ کے متاثرین کے نسلوں کے افراد اور طلبا بھی شامل تھے۔ پولیس نے مظاہرین کو تشویش کے بغیر گرفتار کیا اور دو گھنٹے کے اندر اندر احتجاج ختم کر دیا۔ غزہ کی صورتحال اور نیو یارک کے احتجاج نے دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر پیدا کر دی ہے جس سے فلسطینی عوام کی حمایت میں عالمی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یہ مظاہرے اور اسرائیلی حملے ایک ایسے پیچیدہ تنازعے کی گونج ہیں جو عالمی سطح پر سنگین تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: یونان میں لاکھوں لوگوں کے مظاہروں نے حکومت بدلنے پر مجبور کر دیا