April 19, 2025 10:20 pm

English / Urdu

اسرائیلی فورسز نے غزہ میں مزید دو معصوم بچوں کو شہید کر دیا

اسرائیلی فورسز نے غزہ کے مختلف حصوں میں حملے شروع کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں غزہ سٹی اور ‘بیت لاهیا’ میں کم از کم دو بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ حملے اس وقت ہو رہے ہیں جب اسرائیل کی طرف سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کا آج تیرہواں دن ہے جس کے تحت تمام امدادی سامان کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک کم از کم 48,524 فلسطینی اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 111,955 زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ کی حکومتی میڈیا آفس نے ہلاکتوں کی تعداد بڑھا کر 61,700 سے زیادہ بتائی ہے اور ہزاروں لاپتہ افراد ملبے کے نیچے دفن ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس دوران اقوام متحدہ کے ماہرین نے اسرائیل پر “نسل کشی” کے الزامات عائد کیے ہیں اور کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی خواتین کے صحت کے مراکز کو منظم طریقے سے تباہ کر رہا ہے اور جنگی حکمت عملی کے طور پر جنسی تشدد کا استعمال کر رہا ہے۔ یہ الزامات اسرائیلی فوج کے غزہ میں جاری آپریشن کے دوران سامنے آئے ہیں جس میں درجنوں خواتین اور بچوں کی زندگیوں کا نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب حماس کے ایک ترجمان نے کہا کہ فلسطینی تنظیم موجودہ غزہ سیفائر معاہدے پر قائم رہنے کی عزم کی حامل ہے اور اس کا مقصد اس معاہدے کے دوسرے مرحلے کی طرف پیش رفت کرنا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کی جانب سے ایک نئی تجویز سامنے آئی ہے جس میں پہلے مرحلے کی مدت کو مزید 60 دنوں تک بڑھانے کی بات کی گئی ہے اور بدلے میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا نے یوکرین کو روس کے خلاف جنگ کے لیے ‘نئے ہتھیار’ بھیج دیے اس کے علاوہ غزہ میں صورتحال کی شدت کو دیکھتے ہوئے نیو یارک شہر میں فلسطینیوں کی حمایت میں ایک ہنگامی احتجاج منعقد کیا گیا جس میں درجنوں افراد نے ٹرمپ ٹاور کے سامنے بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ دوسری جانب احتجاجی مظاہرے کا اہتمام امریکی اور یہودی گروپ ‘Jewish Voice for Peace’ (JVP) نے کیا تھا، جو کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کی گرفتاری کے خلاف اظہار یکجہتی کے طور پر منعقد کیا گیا تھا۔ مظاہرین نے ٹرمپ ٹاور کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف آواز اٹھائی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے 98 افراد کو گرفتار کرلیا، جن میں ہولوکاسٹ کے متاثرین کے نسلوں کے افراد اور طلبا بھی شامل تھے۔ پولیس نے مظاہرین کو تشویش کے بغیر گرفتار کیا اور دو گھنٹے کے اندر اندر احتجاج ختم کر دیا۔ غزہ کی صورتحال اور نیو یارک کے احتجاج نے دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر پیدا کر دی ہے جس سے فلسطینی عوام کی حمایت میں عالمی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یہ مظاہرے اور اسرائیلی حملے ایک ایسے پیچیدہ تنازعے کی گونج ہیں جو عالمی سطح پر سنگین تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: یونان میں لاکھوں لوگوں کے مظاہروں نے حکومت بدلنے پر مجبور کر دیا

آذربائیجان اور آرمینیا 40 سالہ پرانا تنازع ختم کرنے کے معاہدے پر رضامند، یہ تنازع کیا تھا؟

دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔ آرمینین وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ  آذربائیجان کے ساتھ امن معاہدے کا مسودہ حتمی طور پر تشکیل پا گیا ہے، آزری حکام کے ساتھ امن معاہدے پر دسخط کے لیے تیار ہیں۔ خبر ایجنسی کا کہنا ہےکہ معاہدے پردستخط سے پہلے آذربائیجان نے آرمینیا کے آئین میں متنازع علاقے سے متعلق تبدیلی کی شرط رکھی ہے۔ خیال رہےکہ  آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1980 کی دہائی سے سرحدی علاقے نگورنو کاراباخ  پر قبضے کا تنازع  چل رہا ہے۔ سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی دو سابق ریاستوں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 6 سالہ جنگ 1994 میں اختتام پزیر ہوئی تھی، جنگ کے نتیجے میں آرمینیا نے نگورنو کاراباخ کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا تاہم 2020 میں آذربائیجان نے دوبارہ کچھ حصہ واپس لے لیا تھا۔ پھر اکتوبر 2023 میں نگورنو کاراباخ  میں ایک بار پھر آذربائیجان کی جانب سے آپریشن شروع کیا گیا جس کے باعث نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسند غیر مسلح ہونے پر مجبور ہو گئے اور انہوں نے حکومت تحلیل کرنے اور آذربائیجان کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان کیا تھا۔

لیبیا کشتی حادثے میں ملوث مطلوب انسانی سمگلر گرفتار

فروری 2025 میں ہونے والے لیبیا کشتی حادثے میں ملوث انتہائی مطلوب انسانی سمگلر کو گرفتار کر لیا گیا، ملزم کی شناخت عامر حسین کے نام سے ہوئی۔ ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کوہاٹ زون نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے فروری 2025 میں ہونے والے لیبیا کشتی حادثے میں ملوث بدنام زمانہ گینگ کے انتہائی مطلوب انسانی سمگلر کو گرفتار کر لیا ہے، ملزم کی شناخت عامر حسین کے نام سے کی گئی ہے۔ ملزم کو پاراچنار، ضلع کرم سے گرفتار کیا گیا۔ ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے ہیومن انٹیلیجنس اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا گیا، گرفتار ملزم لیبیا کشتی حادثے میں ملوث ہے۔ گرفتار ملزم سادہ لوح شہریوں کو سمندر کے راستے یورپ بھجوانے میں ملوث پایا گیا۔ ضرور پڑھیں: لیبیا میں پاکستانی شہریوں کی کشتی الٹ گئی: 65 مسافر سوار ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم عامر حسین ایف آئی اے کوہاٹ کو فروری 2025 کے کشتی حادثے میں مطلوب تھا، ملزم عامر حسین نے متاثرہ شہری نصرت حسین کو یورپ بھجوانے کے لئے 37 لاکھ روپے بٹورے تھے۔ ملزم نے بھاری رقوم بینک اکاؤنٹ میں وصول کی تھی۔ ایف آئی اے کے مطابق ملزم نے دیگر ساتھیوں کی ملی بھگت سے متاثرہ شہریوں کو لیبیا کے راستے اٹلی بھجوانے کی کوشش کی، کشتی حادثے میں متاثرہ کی موت واقع ہوئی۔ گرفتار ملزم عامر حسین کے دیگر ساتھی منیر حسین، احمد اسلم، شاہ فیصل اور واجد علی یو اے ای، لیبیا اور اٹلی سے نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ ترجمان ایف آئی اے نے کہا ہے کہ ملزم عامر حسین نے کشتی حادثے کے دیگر متاثرین سے بھی بھاری رقوم وصول کی، ملزم کے زیر استعمال بینک اکاؤنٹ پہلے ہی ضبط کیا جا چکا ہے۔ ملزم کی گرفتاری کے لئے اس سے قبل بھی متعدد بار چھاپے مارے جا چکے ہیں۔ ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ گینگ کے دیگر ملزمان کی بیرون ملک سے گرفتاری کے لئے انٹرپول سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: لیبیا کشتی حادثے میں 16 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق، 10 لاپتہ ڈائریکٹر ایف آئی کوہاٹ زون نے کہا ہے کہ کشتی حادثات میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے۔ انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں مزید تیز کر دی گئی ہیں، انسانی سمگلنگ کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل جاری ہے، گرفتار انسانی سمگلروں کو قانون کے مطابق سخت سزائیں دلوائی جائیں گی، بین الاقوامی سطح پر انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورک کو جڑ سے ختم کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 10 فروری کو لیبیا میں پاکستانی شہریوں کو لے جانے والی ایک کشتی حادثے کا شکار ہو گئی تھی، لیبیا میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق کشتی کو مرسا ڈیلا بندرگاہ کے قریب حادثہ پیش آیا، کشتی میں 65 افراد سوار تھے۔

تمام کمرشل پلاٹس منجمد، نیب کی بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف کارروائی

قومی احتساب بیورو (نیب) نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے تمام کمرشل پلاٹس منجمد کردیے ہیں۔ نجی نشریاتی ادارے ہم نیوز کے مطابق نیب حکام بحریہ ٹاؤن کراچی کے تمام کمرشل پلاٹس منجمد کر کے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ سے پلاٹس کی تفصیلات طلب کر لی ہیں، منجمد 10 ہزار سے زائد کمرشل پلاٹس کی مالیت اربوں روپے ہے۔ واضح رہے کہ منجمد پلاٹس میں فروخت شدہ کمرشل پلاٹ بھی شامل ہیں، ڈی جی نیب نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز بحریہ ٹاؤن کراچی کے ایک ہزار تجارتی پلاٹس کو منجمد کرنے کا نوٹس جاری کیا گیا تھا، ڈائریکٹر جنرل نیب سندھ جاوید اکبر ریاض کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں تجارتی پلاٹس کو فوراً منجمد کرنے کی ہدایت کی گئی۔

قومی اسمبلی نے جعفر ایکسپرس حملے کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کر لی

قومی اسمبلی نے جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کر لی۔ یہ قرارداد وفاقی وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چودھری نے پیش کی، جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ قرارداد کے متن میں جعفر ایکسپریس حملے اور دیگر تمام دہشت گرد واقعات کی شدید مذمت کی گئی۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ قومی سلامتی کے خلاف نظریات کو پھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ایوان نے حادثے میں جاں بحق ہونے والے معصوم شہریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور بہادر سکیورٹی فورسز کی خدمات کو سراہا۔ قرارداد میں یہ عزم بھی دہرایا گیا کہ عوام کو دہشت گردی کے خلاف متحد اور منظم کیا جائے گا، بغیر کسی تفریق کے ملک کے دفاع کو یقینی بنایا جائے گا۔

ڈیجیٹل پاکستان: کیا ہم عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کو تیار ہیں؟

جدید دنیا میں ٹیکنالوجی نے ہر شعبۂ زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور پاکستان بھی اس تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ڈیجیٹل معیشت ایک ایسا اقتصادی نظام ہے جو بنیادی طور پر انٹرنیٹ، جدید ٹیکنالوجی، اور الیکٹرانک وسائل پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کا رجحان حالیہ برسوں میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ ای کامرس، ڈیجیٹل بینکنگ، فری لانسنگ، اور موبائل پیمنٹ سسٹمز نے کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ نوجوان بڑی تعداد میں آن لائن پلیٹ فارمز سے وابستہ ہو رہے ہیں اور عالمی سطح پر اپنی مہارتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ حکومت پاکستان بھی اس شعبے کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل پاکستان ویژن، نیشنل ای کامرس پالیسی، اور سٹارٹ اپ سپورٹ پروگرامز جیسے اقدامات معیشت کو جدید راستے میں لے کر جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے کاروبار، آن لائن شاپنگ اور ڈیجیٹل سروسز کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی آئی ٹی برآمدات میں سالانہ 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت پاکستان نے 18 اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کو فعال کیا ہے، جبکہ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز ٹیکس چھوٹ، فارن ایکسچینج اکاؤنٹس سہولت فراہم کرتے ہیں. اس کے علاوہ اسپیشل ٹیکالوجی زونز ڈیوٹی فری درآمدات کے ذریعے سرمایہ کاری کو راغب کرتے ہیں۔ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں براڈ بینڈ، فنٹیک اور اے آئی میں سرمایہ کاری کے ساتھ 75 بلین ڈالر تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر ڈیجیٹل تبدیلی سے مکمل فائدہ اٹھایا جائے تو 2030 تک 9.7 ٹریلین روپے تک کی معاشی قدر پیدا ہو سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کے اقدامات سے معاشی ترقی اور شمولیت کو مدد ملے گی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پاکستان کی ڈیجیٹل برآمدات میں نمایاں کردار ادا کریں گی۔ آئی ٹی سیکٹر میں سالانہ 30 فیصد اضافے کی توقع ہے، جس سے 2029 تک 3.6 بلین ڈالر تک کی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ 2018 اور 2023 کے درمیان ٹیکنالوجی کی برآمدات میں 143 فیصد اضافہ ہوا، جو 1 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2.6 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ تاہم، کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ کی سہولیات ہر جگہ دستیاب نہیں، جس سے ڈیجیٹل معیشت کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے مسائل اور آن لائن دھوکہ دہی کے خدشات بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ ڈیجیٹل خواندگی کی کمی کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے محروم ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہِ کاروبار سے وابستہ طالب علم بشریٰ امان ورک نے کہا کہ “ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کے لیے پاکستان میں سب سے بڑا چیلنج انٹرنیٹ کی محدود اور سست رفتار ہے اور  انٹرنیٹ کی سست رفتار اور وقتاً فوقتاً بندش ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ نہ صرف کاروبار کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع کو بھی محدود کرتا ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “دوسرا بڑا مسئلہ ڈیٹا سیکیورٹی اور اس کا تحفظ ہے مزید یہ کہ ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے جامع قانون کی کمی ایک اہم چیلنج ہے۔اس مسئلہ کے حل کے لیے گیریژن یونیورسٹی لاہور اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے طلباء، امریکہ کی سپورٹ سے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ شہریوں کے حساس ڈیٹا کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت  ہے۔ فاونڈر آف ڈیجیٹل پاکستان اور فارمر ڈی جی ایف آئی اے سید عمار جعفری اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان میں پچاس سے زائد سینٹر آف انفارمیشن اور ٹیکنالوجی بنا چکے ہیں جس کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے لوگ بھی اپنا ڈیٹا محفوظ کرنے کی سہولت پا سکتے ہیں”۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں  80 فیصد آئی ٹی گریجویٹس کے پاس متعلقہ انڈسٹری کی مہارت نہیں ہے۔ ڈیجیٹل ہنر کی تربیت کے ذریعے اس کمی کو دور کرنے سے 2030 تک پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی میں 2.8 ٹریلین روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کا مقصد 70 فیصد براڈ بینڈ کی رسائی حاصل کرنا اور جی ڈی پی میں آئی ٹی سیکٹر کے حصہ کو بڑھانا ہے۔ ڈیجیٹل خدمات میں خلل، بشمول انٹرنیٹ کی رفتار کم کرنا اور سوشل میڈیا پر پابندی، کاروبار کو متاثر کر رہی ہیں۔ 2023 میں، پاکستان کو انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے 65 بلین روپے (237.6 ملین ڈالر) کا نقصان ہوا۔ مصنوعی ذہانت (AI) 2030 تک پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں 10 سے 20 بلین ڈالر تک کا حصہ ڈال سکتی ہے۔ اے آئی 2030 تک پاکستان کی جی ڈی پی کا 10 فیصد تک ہو سکتا ہے۔ 2023 میں، گوگل کی مصنوعات اور حل نے پاکستانی کاروباروں کے لیے 2.6 ٹریلین روپے کی معاشی سرگرمی فراہم کرنے اور 864,600 ملازمتوں کو سپورٹ کرنے میں مدد کی۔ موبائل ایپس، آن لائن ویڈیو سروسز، کراس بارڈر ڈیجیٹل اشتہارات، کراس بارڈر ای کامرس اور دیگر ڈیجیٹل سروسز کی برآمدات سے 2030 میں 6.6 بلین ڈالر (1.8 ٹریلین روپے) کی اضافی سالانہ برآمدی قیمت حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کے امکانات وسیع ہیں۔ اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں، پالیسیوں میں استحکام لائیں، اور عوام میں ڈیجیٹل تعلیم کو فروغ دیں، تو یہ شعبہ ملکی معیشت کو ایک نئی جہت دے سکتا ہے۔ مستقبل میں ڈیجیٹل معیشت کے ذریعے پاکستان ایک مضبوط اور خوشحال اقتصادی نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ ای-کامرس پلیٹ فارمز جیسے دراز، ٹیلی مارٹ اور دیگر آن لائن مارکیٹ پلیسز کے ذریعے ہزاروں کاروباری افراد اپنی مصنوعات بیچ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا بھی آن لائن کاروبار کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے، جہاں انسٹاگرام اور فیس بک بزنسز کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں شعبئہ آئی ٹی سے وابستہ ڈاکٹر کامران جہانزیب کا کہنا تھا کہ “ترقی یافتہ ممالک امریکہ، یورپ، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک جدید ڈیجیٹل انفراسٹرکچر رکھتے ہیں، جہاں فائیو جی نیٹ ورک، فائبر آپٹکس، اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ عام ہیں۔ یہ ممالک مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا، اور بلاک چین جیسی جدید ٹیکنالوجیز کو

پاکستان نے آئی ایم ایف کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے راضی کرلیا

پاکستان کے آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات میں مثبت پیشرفت سامنے آئی ہے، پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈز کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے راضی کر لیا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک ارب ڈالر قسط کے لیے مذاکرات جاری ہیں جس دوران توانائی شعبے کے حکام نے آج اور کل آئی ایم ایف وفد سے ملاقات کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام نے بجلی کا ریٹ 2 روپے فی یونٹ کم کرنے پر آئی ایم ایف کو راضی کرلیا ہے جب کہ بجلی کا بنیادی ٹیرف ڈیڑھ سے 2 روپے تک سستا کرنے پر آئی ایم ایف سےطویل سیشن ہوا۔ ذرائع کے مطابق بجلی کے بنیادی ٹیرف میں کمی کے فیصلے پر عمل درآمد اپریل سے ہونے کا امکان ہے تاہم ٹیرف کم کرنے سے پہلے تقسیم کارکمپنیوں کی نجکاری کا نیا جامع منصوبہ آئی ایم ایف کو دینا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے موجودہ منصوبے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نقصانات پر اظہار تشویش بھی کیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی ہر حال میں بہتر کرنا ہوگی۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے 3 ڈسکوز کی نجکاری کا پلان آئی ایم ایف کو پیش کیا ہے جس کے تحت  پہلے مرحلے میں آئیسکو، فیسکو اور گیپکو کی نجکاری کی جائے گی جب کہ دوسرے مرحلے میں میپکو، لیسکو اور حیسکو کی نجکاری کی جائے گی۔

ٹرمپ کا سفری پابندی کے لیے حکم نامہ کل جاری ہونے کا امکان، شامل ممالک کے نام سامنے آگئے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آئندہ روز ایک نیا سفری پابندی کا حکم نامہ جاری کرنے کا امکان ہے جس میں متعدد ممالک کو شامل کیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حکم نامے میں پاکستان، افغانستان، عراق، لبنان، ایران، لیبیا، فلسطین، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن جیسے ممالک کا نام شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا، کیوبا، ہیٹی اور وینزویلا جیسے ممالک پر بھی سفری پابندیاں لگنے کا امکان ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا مقصد ان ممالک میں موجود حفاظتی خطرات اور جانچ کے نظام کی خامیوں کو دور کرنا ہے۔ ان ممالک کے شہریوں کو امریکا سفر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس نئے حکم نامے کے تحت ممکنہ طور پر ممالک کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ “اورنج گروپ” کے ممالک کے شہریوں پر سخت پابندیاں لگیں گی جنہیں امریکا کا سفر محدود یا ممکنہ طور پر مکمل طور پر ممنوع ہوگا۔ جبکہ “یلو گروپ” کے ممالک کو اپنے جانچ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے دو ماہ کا وقت دیا جائے گا۔ یہ سفری پابندیاں امریکی سیکیورٹی کے اقدامات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے اور عالمی سطح پر اس فیصلے کا گہرا اثر پڑنے کا امکان ہے۔ مزید پڑھیں: سمندر میں آئل ٹینکر اور کارگو شپ میں خوفناک حادثہ، 32 افراد زخمی

کیا پاکستان میں مردو خواتین ججز کا مساوی کردار ہے؟

حرفِ عام میں کہا جاتا ہے کہ ‘وکیلوں اور پولیس والوں کی نہ ہی دوستی اچھی ہوتی ہے اور نہ دشمنی،’  ویسے تو وکالت ایک معتبر پیشہ ہے، مگر پاکستان میں اس کے بارے میں کافی بدگمانی پائی جاتی ہے۔ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وکالت مردوں کا پیشہ ہے جس میں عورتوں کا کوئی کام نہیں اور اس پیشے میں اچھے کم اور برے افراد سے زیادہ پالا پڑتا ہے۔ ماضی میں عدلیہ میں خواتین ججوں اور وکیلوں کا تعداد گنی چنی ہوئی ہوا کرتی تھی، مگر بدلتے وقت کے ساتھ نظریات میں تبدیلی آئی ہے اور عدلیہ میں خواتین کی شمولیت بڑھی ہے، لیکن پھر بھی مردوں کے مقابلے میں تعداد کافی کم ہے۔ عدالتی نظام میں جہاں خواتین ججز کی موجودگی انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، وہیں  ترقی اور تقرری کے عمل میں انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں پہلی خاتون جج جسٹس (ر) خالدہ راشد خان ہیں، جو 1974 میں بطور سول جج مقرر ہوئیں۔ اس کے بعد خواتین ججز کی تعداد میں اضافہ ہوا، لیکن اعلیٰ عدلیہ میں ان کی شمولیت محدود ہی  رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سپریم کورٹ میں اب تک صرف دو خواتین ججز کو مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں میں بھی خواتین ججز کا تناسب کم ہے۔ خواتین ججز مختلف عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کر رہی ہیں اور انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مختلف عدالتی فیصلوں میں خواتین ججز نے اہم مقدمات کا فیصلہ سنایا ہے، جن میں انسانی حقوق، خواتین و بچوں کے تحفظاور دیگر قانونی معاملات شامل ہیں۔ ملک میں خواتین ججز کی عدلیہ میں موجودگی سے متعلق عدالتی حلقوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں اور اس پر تحقیق اور تجزیہ ہر وقت ہو رہا ہےکہ ان کی شمولیت عدالتی نظام پر کیا اثر ڈال رہی ہے۔ پاکستان میں خواتین ججز کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں صنفی تعصب، ترقی کے مواقع کی محدود دستیابی اور عدالتی نظام میں موجود روایتی رکاوٹیں شامل ہیں۔ ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ رابعہ اعوان نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا  کہ انہوں نے عدلیہ میں کام کرتے ہوئے بعض مواقع پر صنفی تعصب کا سامنا رہا، خاص طور پر ابتدائی دور میں انھیں مرد ساتھی وکلا اور ججز  کم تجربہ کار اور کمزور تصور کرتے تھے، مگر ان کے فیصلوں اور کارکردگی نے وقت کے ساتھ ان تصورات کو بدل دیا۔ حالیہ برسوں میں خواتین ججز کی ترقی اور عدلیہ میں ان کی شمولیت کے حوالے سے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں مخصوص نشستوں پر تقرری اور عدلیہ میں صنفی مساوات کے فروغ کے لیے پالیسی سازی شامل ہے۔ رابعہ اعوان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں خواتین کو درپیش سب سے بڑا چیلنج معاشرتی دباؤ اور پیشہ ورانہ برتری ثابت کرنا  ہے۔ بطور خاتون وکیل انہیں اپنے فیصلوں میں غیر جانبداری، قانونی مہارت اور خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنا پڑا۔ محنت اور مستقل مزاجی کی بدولت انہوں نے اپنی جگہ بنائی اور صنفی رکاوٹوں کو عبور کیا۔ عدلیہ میں خواتین ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے مختلف حکومتی اور عدالتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں تقرری کے عمل میں اصلاحات، خواتین ججز کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی اور عدالتی نظام میں صنفی تفریق کو کم کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں۔ ایڈووکیٹ رابعہ اعوان کا  کہنا تھا کہ کہنے کو تو خواتین اور مردوں کے لیے مواقع یکساں دستیاب ہیں، لیکن عملی طور پر بعض معاملات میں مرد ججز کو زیادہ اہم مقدمات اور انتظامی عہدوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ تاہم، خواتین ججز کی کارکردگی نے اس رجحان کو کم کرنے میں مدد دی ہے اور اب کئی اعلیٰ عدالتی عہدوں پر خواتین فائز ہیں۔ یہ مسائل محض خواتین ججز کو ہی نہیں بلکہ خواتین وکلا کو بھی درپیش آتے ہیں، بلکہ اگر کہا جائے کہ خواتین وکلا، ججز کی نسبت زیادہ مسائل میں گھری ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ فاطمہ فخر رانا نے بتایا کہ وکالت ایک خوش آئندہ پیشہ ہے، جہاں  خواتین کو مردوں کے برابر مواقع میسر ہیں اور یہ ان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس پیشے میں کامیاب ہونا چاہتی ہیں۔ خواتین وکلا کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں  ترقی کے مواقع، عدالتی نظام میں شمولیت اور ورک لائف بیلنس شامل ہیں۔ اپنے کام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فاطمہ فخر رانا کا کہنا تھا کہ ایک پیشہ ور عورت ہونے کے ناطے ہمیں کمرہ عدالت میں کبھی بھی صنفی امتیاز محسوس نہیں کرنا چاہیے، ہم ایک ہی صفحے پر ہیں، مرد یا عورت کے طور پر کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی ایک عورت کے طور پر ہمیں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جیساکہ  جب ہم کمرہ عدالت میں جاتے ہیں تو اکثریت مرد وں کی ہوتی ہے جہاں ہم بعض اوقات تھوڑا سا عجیب سا محسوس کرتے ہیں اور پیشے کے آغاز میں ایسا سب سے زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ عدلیہ میں خواتین کی شمولیت کو فروغ دینے کے حوالے سے رابعہ اعوان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں خواتین کے لیے مخصوص کوٹہ یا مراعات نہیں، بلکہ ایک شفاف اور مساوی نظام ہونا چاہیے جہاں میرٹ پر فیصلے کیے جائیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے لیے قانونی تعلیم اور تربیت کے مزید مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں ۔ اس کے برعکس فاطمہ فخر رانا کا کہنا ہے کہ خواتین وکلاء اور ججوں کو کچھ مراعات دی جانی چاہئیں،  تاکہ وہ بحیثیت خاتون اپنی پیشہ ورانہ زندگی اور عملی زندگی میں توازن قائم کر سکیں۔ پاکستانی معاشرے میں جڑوں میں ایک ایسی بیماری نے زہر گھول رکھا ہے، جو کہ چاہ کر بھی نہیں نکالی جا رہی، اس بیماری کو ‘عورت کا کام گھر سنبھالنا ہے’ کہتے ہیں۔ یہ ایک نظریہ ہے کہ کام کرنے والی خواتین گھر بار نہیں سنبھال سکتیں خواہ وہ کسی بھی پیشے سے کیوں نہ ہوں اور پھر عدلیہ میں کام کرنے والی خواتین کو اور بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ ورک لائف بیلنس کے

اسرائیل حماس سے مذاکرات کے لیے راضی: پیر کو اسرائیلی وفد دوحہ جائے گا

فلسطینی حکمران جماعت حماس کی قاہرہ میں مصری حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد، پیر کے روز جنگ بندی میں توسیع کے معاہدے پر مذاکرات کے لیے اسرائیل ایک وفد دوحہ بھیجے گا۔ اسرائیل نے تصدیق کی ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کے ساتھ نازک جنگ بندی میں توسیع پر بات چیت کے لیے ایک وفد قطر کے دارالحکومت بھیجے گا۔ ہفتے کی رات، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ مذاکرات کو آگے بڑھانے کی کوشش میں پیر کو ایک وفد دوحہ بھیجا جائے گا۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب فلسطینی حکمران جماعت حماس کی ٹیم نے ہفتے کے روز قاہرہ میں مصری حکام سے جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر بات چیت کی۔ فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس نے ایک بیان میں کہا کہ “وفد نے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع کرنے، سرحدی راستوں کو کھولنے، اور کسی بھی شرط یا پابندی کے بغیر غزہ میں امدادی سامان کے داخلے کی اجازت دینے کے لیے معاہدے کی تمام شرائط پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔” ابتدائی تبصروں میں، فلسطینی حکمران جماعت حماس کے ترجمان عبداللطیف القانون نے ایک روز قبل کہا تھا کہ “دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات کے آغاز کے حوالے سے اشارے مثبت ہیں۔” تاہم، حماس کا مؤقف ہے کہ دونوں فریقوں کو دوسرے مرحلے کی طرف اسی طرح بڑھنا چاہیے جیسا کہ پہلے اتفاق کیا گیا تھا۔ جنگ بندی کے معاہدے کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں تک جاری رہا اور یکم مارچ کو ختم ہوا۔ اس دوران، غزہ میں قید 25 زندہ اسرائیلی اسیران کو رہا کیا گیا، جو اسرائیلی جیلوں میں قید 1,800 فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں آزاد کیے گئے تھے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کے پہلے مرحلے کو وسط اپریل تک بڑھانا چاہتا ہے، لیکن وہ دوسرے مرحلے کی طرف بڑھنے سے انکار کر رہا ہے، جس میں جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے اس کی افواج کا مکمل انخلاء شامل ہے۔