کینیڈا کا جوابی وار: امریکی اشیا پر 155 ارب ڈالر پر 25 فیصد ٹیرف لگانےکی دھمکی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا، میکسیکو اور چائنہ کی اشیا پر ٹیرف لگا نے کی دھمکی کو ثابت کیا اور اب سے ان ممالک پر ٹیرف لگایا جائے گا، امریکی صدر کے اس عمل کے جواب میں کنیڈا نے بھی ٹیرف لگانے کی ٹھان لی ہے اورامریکی اشیا پر 25 فیصد تک ٹیرف لگانے کی دھمکی دے دی ہے۔ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے دارالحکومت اوٹاوا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے کینیڈا پر بلاجواز محصولات عائد کیے جو آج سے نافذ العمل ہیں، جس کے جواب میں کینیڈا 155 ارب ڈالر مالیت کی امریکی اشیا پر 25 فیصد محصولات نافذ کرے گا، کینیڈین وزیراعظم کا کہنا ہے کہ امریکا نے اپنے قریبی دوست اور اتحادی کینیڈا کے خلاف تجارتی جنگ شروع کی، ٹرمپ روس کے ساتھ مثبت انداز میں کام کرنے کی بات کر رہے ہیں اورٹرمپ ولادیمیر پیوٹن کو خوش کر رہے ہیں، جس کا مطلب بتائیں۔ انہوں نے کہاکہ  30ارب ڈالر مالیت کی امریکی اشیا پر فوری طور پر ٹیرف نافذہو گا، 125ارب ڈالر مالیت کی امریکی اشیا پر 21 دنوں میں ٹیرف لگے گا۔ جسٹن ٹرڈو کا مزید کہنا ہے کہ ہم شائستہ ہیں لیکن لڑائی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے،کینیڈا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں دعوے دائر کرے گا،ہمارے ٹیرف اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک امریکی ٹیرف واپس نہیں لیا جاتا ۔ واضح رہے کہ چین نے بھی امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اگر تجارتی جنگ میں مزید شدت آئی، تو بیجنگ اس جنگ کو ایک تلخ انجام تک پہنچانے میں پیچھے نہیں ہٹے گا۔یہ بھی پڑھیں:اگر ٹرمپ نے تجارتی جنگ جاری رکھی تو اس کے تلخ انجام تک لڑیں گے، چین چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان ‘لین جیان’ نے امریکا کے حالیہ تجارتی اقدامات کے جواب میں یہ سخت بیان دیا ہے۔ چین کی طرف سے یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکا نے چینی مصنوعات پر 20 فیصد محصولات عائد کیے ہیں، جس کا اثر دونوں ملکوں کے اقتصادی تعلقات پر گہرے اور طویل مدتی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ لین جیان کا کہنا تھا کہ “اگر امریکا اپنی تجارتی جنگ اسی طرح جاری رکھے گا، تو چین بھی اس جنگ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آخر تک لڑے گا، چاہے وہ تجارتی جنگ ہو یا کوئی اور قسم کی جنگ۔”

اگر ٹرمپ نے تجارتی جنگ جاری رکھی تو اس کے تلخ انجام تک لڑیں گے، چین

چین نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اگر تجارتی جنگ میں مزید شدت آئی، تو بیجنگ اس جنگ کو ایک تلخ انجام تک پہنچانے میں پیچھے نہیں ہٹے گا۔ چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان ‘لین جیان’ نے امریکا کے حالیہ تجارتی اقدامات کے جواب میں یہ سخت بیان دیا ہے۔ چین کی طرف سے یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکا نے چینی مصنوعات پر 20 فیصد محصولات عائد کیے ہیں، جس کا اثر دونوں ملکوں کے اقتصادی تعلقات پر گہرے اور طویل مدتی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ لین جیان کا کہنا تھا کہ “اگر امریکا اپنی تجارتی جنگ اسی طرح جاری رکھے گا، تو چین بھی اس جنگ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آخر تک لڑے گا، چاہے وہ تجارتی جنگ ہو یا کوئی اور قسم کی جنگ۔” چین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ امریکی محصولات کے جواب میں بیجنگ نے زرعی اور خوراکی مصنوعات پر 15 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا ہے، تاکہ اپنے اقتصادی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا جا سکے۔ چین نے امریکا کی سخت تجارتی پالیسیوں کے جواب میں صرف اقتصادی سطح پر نہیں، بلکہ سیاسی اور دفاعی میدان میں بھی اپنے اقدامات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں چین نے متعدد امریکی کمپنیوں کو اپنی “نا قابل اعتماد اداروں کی فہرست” میں شامل کر دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو چین میں مزید کاروبار کرنے یا سرمایہ کاری کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ بھی پڑھیں: روس کا ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ تعاون کا اعلان ان کمپنیوں میں امریکا کی وہ دفاعی اور ٹیکنالوجی کمپنیاں شامل ہیں جو چین کے لیے خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ چین نے امریکا کی 15 اہم کمپنیوں کو نشانہ بنایا ہے جن پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان کمپنیوں میں “جنرل ڈائنیمکس لینڈ سسٹم” شامل ہے جو فوجی گاڑیاں اور ٹینک تیار کرتی ہے، اور “شیلڈ اے آئی”، جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے بغیر پائلٹ کے طیارے اور ڈرون تیار کرتی ہے۔ ان کمپنیوں پر پابندی چین کے مفادات کے تحفظ کی ایک اور کڑی ہے۔ اس کے علاوہ چین نے امریکی کمپنیوں کے خلاف مزید اقدامات بھی اٹھائے ہیں، جن میں “ہنٹنگن انگالز انڈسٹری” شامل ہے، جو امریکا میں بحری جہازوں کی سب سے بڑی سازندہ کمپنی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے “ٹیکس اورے” جیسے اداروں کو بھی اپنی پابندی کی فہرست میں شامل کیا ہے، جو دفاعی اور خفیہ معلومات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان اقدامات کے باوجود چین نے امریکا سے بات چیت کی امید کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن سے درخواست کی ہے کہ وہ جلد از جلد بات چیت کا آغاز کرے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ لیکن چین نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر امریکا نے اپنی تجارتی پالیسیوں کو تبدیل نہ کیا، تو چین مزید سخت ردعمل دینے سے گریز نہیں کرے گا۔ چین کے ان اقدامات کا مقصد صرف امریکا کو دباؤ میں لانا نہیں، بلکہ عالمی سطح پر ایک واضح پیغام دینا بھی ہے کہ وہ اپنے اقتصادی مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا امریکا اور چین کے درمیان یہ جنگ مزید طول پکڑے گی یا دونوں ممالک کسی سمجھوتے تک پہنچ کر اس بحران کو ختم کریں گے؟ مزید پڑھیں: ٹرمپ کا یوکرین کی فوجی امداد روکنے کا فیصلہ:عالمی رہنماؤں کا شدید ردعمل

انڈیا کی دبئی میں آسٹریلیا کو شکست، لاہور سے فائنل کی میزبانی چھن گئی

انڈیا نے دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں چیمپئنز ٹرافی کے پہلے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو چار وکٹوں سے شکست دے دی ۔ اب فائنل لاہور کے بجائے دبئی میں کھیلا جائے گا۔ اس فتح نے انڈیا کو مسلسل تیسری بار چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پہنچا دیا اور اس کا مقابلہ جنوبی افریقہ یا نیوزی لینڈ سے ہوگا، جس کا فیصلہ کل دوسرے سیمی فائنل کے بعد ہو گا۔ انڈیانے آسٹریلیا کی جانب سے ملنے والا 265 رنز کا ہدف 48.1 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا، بھارت کی جانب سے ویرات کوہلی 84 رنز کیساتھ نمایاں رہے۔ انڈیا کی جانب سے اننگز کا آغاز کپتان روہت شرما اور شبمن گل نے کیا تاہم یہ جوڑی زیادہ دیر تک ساتھ نہ نبھا سکی اور شبمن گل 8 رنز بناکر پویلین لوٹ گئے جبکہ کپتان روہت شرما 28 رنز بناکر چلتے بنے۔ ویرات کوہلی اور اور شریاس آئیر کی ذمہ دارانہ بیٹنگ نے ٹیم کے مجموعی سکور کو آگے بڑھایا تاہم شریاس آئیر 45 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے، اکشر پٹیل 27 رنز بناکر بولڈ ہوئے ، ویرات کوہلی 84 جبکہ ہارڈک پانڈیا 28 رنز بناکر کیچ تھما بیٹھے۔ پانڈیا نے 24 گیندوں پر 28 رنز بنائے جبکہ راہول نے 34 گیندوں پر دو چوکوں اور اتنے ہی چھکوں کی مدد سے ناقابل شکست 42 رنز بنائے۔ دوسری جانب آسٹریلیا نے ناتھن ایلس اور زمپا نے دو دو وکٹیں حاصل کیں جب کہ دوارشوئس اور کونولی نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ آسٹریلیا کی جانب سے اننگز کا آغاز بہتر ثابت نہ ہوسکا اور پہلی وکٹ صرف 4 رنز کے مجموعی سکور پر گری جب اوپننگ بلے باز کوپر کونولی بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹ گئے جبکہ دوسری وکٹ 54 رنز کے مجموعی سکور پر گری جب جارح مزاج بلے باز ٹریوس ہیڈ 39 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے۔ اس طرح آسٹریلیا کی کارکردگی کچھ زیادہ بہتر ثابت نہ ہوئی اور پوری ٹیم 264 رنز پر ڈھیر ہو گی۔ بھارت کی جانب سے محمد شامی نے 3، روندرا جڈیجا اور ورون چکرورتھی نے 2، 2، ہاردک پانڈیا اور اکشر پٹیل نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

مہنگائی کی شرح میں کمی، بہتری کا فائدہ عوام تک پہنچنا شروع ہوگیا: وزیراعظم

رواں ماہ مہنگائی کی شرح کم ہو کر 1.52 فیصد پر آ گئی ہے جس کو دس سالوں کے دوران کم ترین سطح قرار دیا جا رہا ہے، اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے خبر کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے حالات میں مزید بہتری کی نوید سنا دی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے بتایا ہے کہ فروری میں مہنگائی کی شرح مزید کم ہو کر ایک اعشاریہ پانچ دو فیصد پر آ گئی ہے۔ جنوری 2025 میں مہنگائی کی شرح دو اعشاریہ چار ایک فیصد تھی، جنوری کے مقابلے میں فروری میں مہنگائی کی شرح میں صفر اعشاریہ آٹھ تین فیصد کمی ہوئی۔ وزارت خزانہ نے فروری کے لیے مہنگائی کا تخمینہ 2 سے 3 فیصد کے درمیان لگایا تھا، لیکن ملک میں مہنگائی کی شرح وزارت خزانہ کے توقعات سے بھی کچھ کم رہی ہے۔ دریں اثنا وزيراعظم شہباز شریف نے حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر مہنگائی میں کمی کی خبر کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ افراط زر ڈیڑھ فیصد پر ہے جو  2015 کے بعد سب سے کم سطح پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ٹیم کی کاوشوں سے معاشی اشاریے ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہو رہے ہیں، معیشت کی بہتری، کاروبار اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے تمام ادارے مل کر کام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میکرو اکنامک معاشی بہتری کا فائدہ عوام تک پہنچنا شروع ہو گیا ہے، قوی اُمید ہے کہ افراط زر میں مزید کمی ہوگی، عوام کو کم نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

‘جس دن بانی پی ٹی آئی کو سزا ہوئی، سٹاک مارکیٹ اوپر گئی،’ عطاء تارڑ کا دعویٰ

وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ جس دن بانی پی ٹی آئی کو سزا ہوئی، ملک میں سٹاک مارکیٹ کی قیمت اوپر گئی۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل 4 مارچ کو مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت کا ایک سال مکمل ہو جائے گا۔ وزیرِاعظم کل قوم کے سامنے ایک سالہ حکومتی کارکردگی پیش کریں گے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملکی بہتری کے لیے فیصلے کیے گئے۔ عطاء تارڑ نے کہا کہ ایک مخصوص جماعت نے پاکستان کے خلاف آئی ایم ایف کو خطوط لکھے گئے، ہم نے ریاست کے لیے اپنی سیاست کی قربانی دی۔ حکومتی اقدامات کی بدولت آج مہنگائی کم ترین سطح پر ہے۔ مہنگائی کی شرح ایک سال میں 23 فیصد سے کم ہو کر 1.5 فیصد پر آئی ہے، پالیسی ریٹ میں بھی مسلسل کمی آ رہی ہے۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ مختلف ممالک کے سربراہان نے پاکستان کا دورہ کیا، پاکستان میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے میچز ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک بار پھر کھیلوں کے میدان آباد ہو رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے لیے اچھے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ آذربائیجان پاکستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ معاشی بحالی میں ایس آئی ایف سی کا اہم کردار ہے۔ مزید پڑھیں : گنڈاپور کی ترجیحات میں صوبے کے غریب عوام نہیں اڈیالہ کا قیدی ہے، عظمیٰ بخاری عطاء تارڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی دور میں پاکستان خارجہ محاذ پر تنہائی کا شکار تھا، پاکستان کے ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والے آج خود انتشار کا شکار ہیں۔ ملکی معیشیت میں بہتری کے ثمرات عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ کامیاب پالیسیوں کی بدولت معیشیت کے تمام اشاریے مثبت ہیں۔ وزیرِ اطلاعات نے کے پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں عوام کو کیا دیا؟ پی ٹی آئی والوں نے صرف اپنی جیبیں بھریں۔ کھوکھلے نعرے لگانے والوں نے اپنے دور میں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا۔ رہا ہے، عوام انتشار نہیں خوشحالی چاہتے ہیں اور انہیں جلاؤ گھیراؤ کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے القادر ٹرسٹ کے نام پر لوٹ مار کی، جس کی سزا بھگت رہے ہیں، 190 ملین پاؤنڈ کا ڈاکہ مارنے والے اپنی سزا بھگت رہے ہیں۔ آرمی چیف کا معاشی بحران کے حل میں کردار قابلِ ستائش ہے۔ جس دن بانی پی ٹی آئی کو سزا ہو ئی، اس دن سٹاک مارکیٹ اوپر گئی۔ اڑان پاکستان پائیدار ترقی کا منصوبہ ہے۔ عوام کو بجلی بلوں میں ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔ آٹے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔

رمضان المبارک: برکتوں کا مہینہ مگر قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں؟

روزہ ارکانِ اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج پہلا روزہ ہے۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ عبادت، رحمت اور برکت کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ مہینہ اپنے ساتھ محض خوشیاں اور برکت ہی نہیں، بلکہ بے تحاشا مہنگائی بھی لاتا ہے۔ اس سال بھی پاکستان بھر میں یہ مہینہ مہنگائی کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ ملک بھر میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رمضان کے آتے ہی حکومت سبسڈی اور اشیائے خورونوش سستی کرنے کا اعلان کرتی ہے، مگر بازاروں میں ہر چیز کا دام دگنا ملتا ہے، جس کی وجہ سے عام عوام یہ سوال کرتی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یک لخت مہنگائی کا پہاڑ اس مقدس مہینے میں ان پر مسلط ہو جاتا ہے؟ اگر بات کی جائے اس کی وجوہات کی تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان کے دوران مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں طلب اور رسد میں عدم توازن، ذخیرہ اندوزی، حکومتی کنٹرول کی کمی اور عوامی بے بسی شامل ہیں۔ اس مقدس مہینے میں اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض تاجر مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ قیمتیں بڑھائی جا سکیں۔ ماہرِ معاشیات پروفیسر ڈاکٹر خرم فرید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ رمضان میں مہنگائی کا زیادہ تعلق مصنوعی قلت سے ہوتا ہے۔ تاجر جان بوجھ کر اشیاء کی قیمتیں بڑھاتے ہیں تاکہ زیادہ منافع کما سکیں، حالانکہ رسد اور طلب میں اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ قیمتیں بے قابو ہو جائیں۔ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے منافع خور تاجر اشیاء کو ذخیرہ کرکے قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں، جب کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ عوام مہنگائی کے باوجود خریداری پر مجبور ہوتے ہیں، جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں تو رمضان میں تقریباً ہر چھوٹی بڑی چیز مہنگی ہو جاتی ہے، مگر چند اشیاء کی قیمتوں کو تو جیسے پَر لگ جاتے ہیں، جیساکہ کھجور، چینی اور پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ دوسری جانب آڑھتی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بے جا ٹیکسز، بڑھتے ہوئے کسٹم ڈیوٹیز، دکانوں کے کرائے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو قرار دیتے ہیں، مگر غریب عوام کا کوئی نہیں سوچتا۔ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر  غریب اور سفید پوش طبقہ ہوتا ہے، جن کے لیے افطاری کا سامنا خریدنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم پروفیسر علی نے کہا ہے کہ رمضان میں مہنگائی سب سے زیادہ غریب اور متوسط طبقے کو متاثر کرتی ہے۔ وہ اشیائے خورونوش کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور اکثر غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے ان کی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ حکومت نے رمضان المبارک کے دوران عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے 20 ارب روپے مالیت کے رمضان ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے، جس کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ اس بار عوام کو ریلیف ملے گا، مگرماضی کے ریلیف پیکجز پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان بازار اور سستا بازار کی حقیقت عوام کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر خرم فرید کے مطابق حکومت رمضان میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور سستے بازار قائم کرتی ہے،  لیکن یہ اقدامات عموماً کاغذی ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا اور بڑے تاجر ان قوانین سے بچنے کا راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ رمضان بازار ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کا دائرہ محدود ہے۔ زیادہ تر افراد عام بازاروں پر ہی انحصار کرتے ہیں جہاں قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر یہ ماڈل پورے ملک میں مؤثر طریقے سے لاگو کیا جائے تو عوام کو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور ان کی عدم فعالیت کی وجہ سے قیمتوں میں استحکام نہیں آ سکا، جب کہ سبسڈی کے اعلانات اور عملی صورتِ حال میں فرق کی وجہ سے عوام کو مطلوبہ ریلیف نہیں مل سکا۔ ماضی میں بھی حکومت نے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کیا، لیکن عملی طور پر کتنی شکایات درج ہوئیں، کتنے جرمانے اور گرفتاریاں ہوئیں اور عدالتی اور قانونی نظام کس حد تک مؤثر ثابت ہوا؟ یہ سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔ ماہرِ معاشیات نے کہا ہے کہ پاکستان میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف قوانین موجود ہیں، جن کے تحت بھاری جرمانے اور سزائیں دی جا سکتی ہیں، مگر سیاسی دباؤ اور انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے ان قوانین پر سختی سے عمل نہیں ہوتا۔ اس سے منافع خوروں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ پروفیسر شفاقت علی کا کہنا ہےکہ حکومت جو سبسڈی دیتی ہے وہ عام طور پر ناکافی ہوتی ہے اور اکثر اوقات مستحق افراد تک تو پہنچ ہی نہیں پاتی۔ بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے رمضان پیکجز کا زیادہ فائدہ مخصوص طبقے اٹھا لیتے ہیں اور غریب طبقہ بدستور مہنگائی کی چکی میں پستہ رہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے مہنگائی کے خلاف ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے، مگر اس کا فائدہ ابھی تک دیکھا نہیں گیا۔ ماہرِ تعلیم پروفیسر شفاقت علی کا کہنا تھا کہ میڈیا اس مسئلے کو اجاگر تو کرتا ہے مگر بعض اوقات یہ خبریں وقتی سنسنی تک محدود رہتی ہیں۔ اگر میڈیا تسلسل کے ساتھ منافع خوروں کے خلاف مہم چلائے اور حکومت پر دباؤ ڈالے تو صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے۔ اسلام میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق منافع خوری کے خلاف سخت احکامات موجود ہیں، اس لیے تاجر برادری کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے مناسب منافع رکھنا اور قیمتیں اعتدال پر رکھنی چاہئیں۔ پروفیسر شفاقت علی نے کہا ہے کہ اسلام میں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری حرام ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسے تاجروں پر سخت وعید سنائی ہے جو لوگوں کی ضروریات کی اشیاء مہنگی کر کے ان کا استحصال کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں

ویکسین کے بعد صحت کے مسائل: کیا کووڈ ویکسین سنڈروم واقعی ایک سنگین خطرہ ہے؟

کووڈ ویکسین لگوانے والے متاثرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد ان کی زندگیوں میں شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔ ایک نئی ممکنہ حالت جسے ویکسین سنڈروم (پی وی ایس)  کے شکار افراد نے کہا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد وہ بے روزگار، بے گھر اور یہاں تک کہ اینٹی ڈپریسنٹس پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ برطانوی ویب سائٹ میل آن لائن  کے مطابق مشتبہ متاثرین نے بتایا ہے کہ کووڈ ویکسین لینے کے بعد انہیں دماغی دھند، بے خوابی، ٹنیٹس (کانوں میں مستقل شور سنائی دینا)، دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی اور دیگر پیچیدہ علامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کچھ افراد نے کا کہنا ہے کہ انہیں ویکسین کے فوراً بعد علامات محسوس ہوئیں، جب کہ کچھ کے مطابق یہ اثرات وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوئے ہیں۔ ساؤتھ ویلز سے تعلق رکھنے والے ایک متاثرہ شخص  نے میل آن لائن کو بتایا کہ وہ  اپنی نوکری اور گھر سے محروم ہوگیا ہےاور اسے روزانہ ٹنیٹس اور دورے پڑتے ہیں، چکر آتے ہیں، دماغی دھند کی کیفیت ہوتی ہے اور وہ چلنے یا بولنے میں دشواری محسوس کرتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ سب پی وی ایس سے جڑا ہوا ہے۔ ایک اور متاثرہ شخص نے دعویٰ کیا کہ ویکسین لگوانے کے 24 گھنٹوں کے اندر اندر اس نے ٹنیٹس کی علامات محسوس کرنا شروع کر دیں، جو آج تک برقرار ہیں۔ اس نے مزید کہاکہ اس کے کانوں میں مسلسل ایک نبض جیسی آواز سنائی دیتی ہے، جس نے اس کی زندگی کو تباہ کر دیا ہے۔ متاثرہ شخص کے مطابق اس نے ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے اینٹی ڈپریسنٹس کا استعمال شروع کر دیا، لیکن نیند کی کمی اور بے چینی آج بھی اس کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ فائزر اور موڈرنا ویکسین کے بعد پیدا ہونے والی علامات کئی سالوں تک برقرار رہ سکتی ہیں۔ تاہم، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سنڈروم کے شواہد ابھی محدود ہیں اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ تحقیقی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر اکیکو ایواساکی نے کہا ہے کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ اس حوالے سے مزید شفافیت ہو، تاکہ متاثرہ افراد کے مسائل کو سمجھا جا سکے۔ دوسری جانب ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر مطابق ویکسین کے ممکنہ ضمنی اثرات کا مطالعہ کرنا ضروری ہے، لیکن ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ پی وی ایس واقعی ویکسین کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر بغیر مکمل ثبوت کے کوئی نتیجہ اخذ کر لیا گیا، تو اس سے عوام کے ویکسین پر اعتماد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ برطانوی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ویکسین سے مبینہ طور پر زخمی یا جاں بحق ہونے والوں کے معاوضے کے دعوے 18,500 کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ تاہم، سخت شرائط کے باعث ان میں سے صرف 200 سے زائد افراد کو معاوضہ دیا گیا ہے۔ ویکسین ڈیمیج پے منٹ اسکیم کے تحت متاثرہ افراد کو 120,000  پاؤنڈ تک کی ادائیگی کی جا سکتی ہے، لیکن صرف ان کیسز میں جہاں فرد کو کم از کم 60 فیصد معذوری ہو چکی ہو۔ اس پیمانے پر نہ آنے والے ہزاروں دعوے مسترد کیے جا چکے ہیں۔ مزید پڑھیں: چین میں کورونا جیسا نیا وائرس دریافت: سائنسدان کیا کہتے ہیں؟ ویکسین بنانے والی کمپنی فائزر کے ترجمان نے کہا ہے کہ مریضوں کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے اوروہ کسی بھی منفی اثرات کی رپورٹس کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ ویکسین کے بعد پیش آنے والے ہر واقعے کو ویکسین سے جوڑنے کے بجائے سائنسی بنیادوں پر پرکھا جائے۔ واضح رہے کہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس سنڈروم کے شواہد مضبوط نہ ہوئے، تو یہ ویکسین کے خلاف غیر ضروری خوف پیدا کر سکتا ہے، جو مستقبل میں ویکسینیشن مہمات کی کامیابی کو متاثر کرے گا۔

’’ٹرمپ پیوٹن کا ’لیپ ڈاگ‘ بن گیا‘‘ کرس مرفی کی امریکی صدرپرتنقید

امریکی سینیٹر کرس مرفی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیوٹن کے لیپ ڈاگ بن گئے ہیں، امریکہ کی عالمی طاقت خون بہا رہی ہے، کیونکہ امریکہ جمہوریت پر آمروں کا ساتھ دے رہا ہے اور یہ کتنی شرمندگی کی بات ہے ۔ عالمی خبررساں ادارے بی بی سی کے مطابق چیمبر میں ڈیموکریٹس کے رہنما سینیٹر چک شمر نے ایکس پر کہا ہے کہ ٹرمپ اور وینس، پیوٹن کا گندا کام کر رہے ہیں۔ سینیٹ ڈیموکریٹس آزادی اور جمہوریت کے لیے لڑنا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ ایوان میں اعلی ترین ڈیموکریٹ کے نمائندے حکیم جیففیز نے کہا ہے کہ آج وائٹ ہاؤس کی یوکرین کے صدر کے ساتھ ملاقات خوفناک تھی اور یہ ایک سفاک ڈکٹیٹر ولادیمیر پیوٹن کی مزید حوصلہ افزائی کا کام کرے گی۔ امریکہ کو روسی جارحیت کا بدلہ نہیں دینا چاہیے اور پیوٹن کو راضی کرنا جاری رکھنا چاہیے۔ What just happened in the oval office was a planned ambush, designed to help a brutal Russian dictator and hurt America’s security. Trump has become Putin’s lapdog, and America’s global power is hemorrhaging as America sides with dictators over democracy. What an embarrassment. pic.twitter.com/06BdzyJHE0 — Chris Murphy 🟧 (@ChrisMurphyCT) February 28, 2025 خارجہ تعلقات کمیٹی میں سب سے سینئر ڈیموکریٹ سینیٹر جین شاہین نے ایک رپورٹر سے کہا کہ یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ صدرٹرمپ یوکرین میں ہماری وابستگی سے ہٹ رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قاتل ڈکٹیٹر ولادیمیر پیوٹن کیا ہے۔ دوسری جانب ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کے سب سے سینئر ڈیموکریٹ نمائندے گریگوری میکس کا کہنا تھا کہ آج ٹرمپ کے اقدامات نے امریکی قیادت کو کمزور کیا ہے اورمخالفین کی حوصلہ افزائی کی ہے۔  یہ ان کی اور ریپبلکن پارٹی دونوں کی توہین ہے۔ ضرور پڑھیں: ٹرمپ اور زیلنسکی کی تلخ کلامی: امریکی تاریخ کے منفرد لمحات ان کا کہنا تھا کہ ایسا کر کے ٹرمپ نے ان امریکیوں کی نسلوں کی توہین کی ہے، جنہوں نے دنیا میں امریکہ کی حیثیت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی اور اپنی جانیں قربان کیں۔ یہ صدر زیلنسکی نہیں ہیں، جنہوں نے اوول آفس میں امریکہ کی بے عزتی کی، یہ ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔ رکن امورِ خارجہ کمیٹی اورایوان نمائندگان ٹیڈلیو نے کہا ہے کہ اوول آفس میں صدر ٹرمپ اور نائب صدر وینس کے شرمناک رویے کا ولادیمیر پیوٹن سے زیادہ کوئی جشن نہیں منا رہا،  آج ہم میں سے ان لوگوں کے لیے ایک پریشان کن لمحہ تھا جو جمہوریت اور بھلائی کے لیے ایک قوت کے طور پر امریکہ کے کردار کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: ’تم اکیلے نہیں ہو‘ یورپ یوکرینی صدر کے ساتھ کھڑا ہوگیا امریکی ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے ایکس پر کہا ہے کہ اوول آفس میں جو کچھ ہوا وہ ایک منصوبہ بند گھات لگا کر کیا گیا تھا، جو ایک سفاک روسی ڈکٹیٹر کی مدد کرنے اور امریکہ کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ٹرمپ پوتن کی گود بن چکے ہیں  اور امریکہ کی عالمی طاقت خون بہہ رہی ہے کیونکہ امریکہ جمہوریت پر آمروں کا ساتھ دے رہا ہے اور یہ کتنی شرمندگی کی بات ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ شپ یوکرینی صدر زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اور معدنیات پر بات کرتے ہوئے ان کی یہ ملاقات جھگڑے میں بدل گئی۔

ٹرمپ اور زیلنسکی کی تلخ کلامی: امریکی تاریخ کے منفرد لمحات

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات بری طرح ناکام ہو گئی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان روس کے ساتھ جنگ پر شدید تلخ کلامی ہوئی، جو دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے ہوئی۔ زیلنسکی اس ملاقات کو امریکا کو قائل کرنے کا موقع سمجھ رہے تھے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا ساتھ نہ دے، جس نے تین سال پہلے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ لیکن اس کے برعکس، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے زیلنسکی پر سخت تنقید کی اور ان پر بے ادبی کا الزام لگایا۔ اس صورتحال نے یوکرین کے سب سے بڑے اتحادی کے ساتھ اس کے تعلقات کو مزید خراب کر دیا۔ ایک امریکی عہدیدار کے مطابق، زیلنسکی کو ملاقات کے دوران ہی جانے کے لیے کہہ دیا گیا۔ یوکرین اور امریکا کے درمیان ایک معاہدہ طے پانے والا تھا جس کے تحت دونوں ممالک یوکرین کے قدرتی وسائل کو ترقی دینے کے لیے مل کر کام کرتے، لیکن یہ معاہدہ اب معطل ہو گیا ہے۔ یورپی رہنماؤں نے زیلنسکی کی حمایت میں آواز بلند کی۔ جرمنی کے چانسلر کے امیدوار فریڈرک مرز نے کہا کہ ہمیں اس خوفناک جنگ میں جارح اور مظلوم کے درمیان فرق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ زیلنسکی نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے اور یورپی یونین کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا سے فون پر بات کی۔ یوکرینی وفد کے ایک عہدیدار کے مطابق، برطانیہ اتوار کو یورپی رہنماؤں اور زیلنسکی کے ساتھ ایک اجلاس کی میزبانی کرے گا، جہاں روس اور یوکرین کے درمیان ممکنہ امن معاہدے کے لیے سیکیورٹی انتظامات پر بات ہوگی۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد وہ روس کے قریب آ رہے ہیں، جس نے یورپ اور دیگر اتحادیوں کو حیران کر دیا ہے۔ اس تبدیلی نے یوکرین کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ جمعہ کی ملاقات میں یہ رجحان کھل کر سامنے آیا۔ ملاقات میں تلخی اس وقت بڑھی جب نائب صدر جے ڈی وینس نے اس بات پر زور دیا کہ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سب سے بڑے تنازع کو سفارتی کوششوں سے حل کرنا ضروری ہے۔ زیلنسکی نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ پیوٹن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے وینس کو یاد دلایا کہ وہ کبھی یوکرین گئے ہی نہیں۔ زیلنسکی نے سوال کیا کہ “آپ کس قسم کی سفارت کاری کی بات کر رہے ہیں، جے ڈی؟” وینس نے جواب دیا، “میں ایسی سفارت کاری کی بات کر رہا ہوں جو آپ کے ملک کی تباہی کو روک سکے۔” زیلنسکی نے ٹرمپ کو پیوٹن کے ساتھ نرم رویہ اپنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ “ایک قاتل کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔” ٹرمپ نے فوری طور پر اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ “ٹرتھ سوشل” پر زیلنسکی پر بے ادبی کا الزام عائد کیا اور کہا، “میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جب تک زیلنسکی امن کے لیے تیار نہیں ہوتے، امریکا اس معاملے میں شامل نہیں ہوگا۔ جب وہ امن کے لیے تیار ہوں، تب وہ دوبارہ آ سکتے ہیں۔” بعد میں جب ٹرمپ فلوریڈا میں اپنے گھر کے لیے روانہ ہو رہے تھے، تو انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ زیلنسکی کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ جنگ ہار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، “انہیں کہنا ہوگا کہ میں امن چاہتا ہوں۔ وہ مسلسل پیوٹن کے خلاف بول رہے ہیں، ہر بات منفی کہہ رہے ہیں۔ انہیں بس کہنا چاہیے کہ میں جنگ نہیں لڑنا چاہتا، میں امن چاہتا ہوں۔” جب فاکس نیوز نے زیلنسکی سے پوچھا کہ کیا وہ ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں، تو انہوں نے کہا، “ہاں، بالکل” اور کچھ افسوس کا اظہار بھی کیا، کہتے ہوئے، “میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔” یوکرین کے مسلح افواج کے سربراہ اولیکساندر سرسکی نے ٹیلیگرام پر ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ان کے فوجی زیلنسکی کے ساتھ کھڑے ہیں اور یوکرین کی طاقت اس کے اتحاد میں ہے۔ یوکرین کے عوام اس صورتحال کو بے چینی سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ اپنے صدر کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن انہیں اس بات کی فکر ہے کہ امریکا کی فوجی امداد جاری رہے گی یا نہیں، جس پر یوکرین کا دار و مدار ہے۔ امریکی کانگریس میں اس معاملے پر مختلف آراء دیکھنے کو ملیں۔ ریپبلکن پارٹی میں اس پر ملا جلا ردعمل آیا، جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے ٹرمپ کے رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ زیلنسکی نے ملاقات کے دوران انگریزی میں گفتگو کی، جو ان کی مادری زبان نہیں ہے۔ جیسے جیسے بات آگے بڑھی، ٹرمپ اور وینس ان کی بات دبا رہے تھے۔ ٹرمپ نے کہا، “آپ اچھی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ کے پاس زیادہ اختیارات نہیں ہیں۔ اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں، تو آپ کے پاس اختیارات ہوں گے۔” زیلنسکی نے جواب دیا، “میں کوئی کھیل نہیں کھیل رہا، میں بہت سنجیدہ ہوں، جناب صدر۔” ٹرمپ نے کہا، “آپ کھیل رہے ہیں۔ آپ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ جوا کھیل رہے ہیں، آپ تیسری عالمی جنگ کے ساتھ جوا کھیل رہے ہیں۔” روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے اس صورتحال پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ٹیلیگرام پر لکھا کہ زیلنسکی کو “سخت سرزنش” کا سامنا کرنا پڑا ہے۔  

تیل کی قیمتوں میں کمی، پیٹرول کتنا سستا ہوا؟

وفاقی حکومت نے آئندہ 15 روز کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کر دیا ہے، پیٹرول کی قیمت میں 50 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 255 روپے 63 پیسے فی لیٹر پر پہنچ گئی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 5 روپے 31 پیسے کی کمی کی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ نوٹیکفیکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 50 پیسے فی لیٹر کمی اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 4 روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 258 روپے 64 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔  لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 2 روپے 47 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 153 روپے 34 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی، وزارتِ خزانہ کا نوٹیفیکیشن جاری مٹی کے تیل کی قیمت میں 3 روپے 53 پیسے فی لیٹر کمی کر دی گئی ہے، جس کے بعد مٹی کے تیل کی نئی قیمت 168 روپے 12 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات نے مارچ 2025 کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کر دیا۔ متحدہ عرب امارات کی فیول کمیٹی نے مارچ 2025 کے مہینے کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد سپر 98 پیٹرول کی قیمت 2.73 درہم فی لیٹر ہوگی جو فروری میں 2.74 درہم فی لیٹر تھی۔ اسپیشل 95 کی قیمت 2.61 فی لیٹر ہو گی جو پچھلے مہینے 2.63 درہم فی لیٹر تھی۔ ای پلس زمرے کا پٹرول 2.54 درہم فی لیٹر میں دستیاب ہوگا جو فروری میں 2.55 درہم فی لیٹر تھا۔ یہ بھی پڑھیں: قرضوں کے بوجھ تلے دبی بے حال معیشت، متبادل کیا ہے؟ مزید یہ کہ ڈیزل کی قیمت اب 2.77 درہم فی لیٹر ہوگی جو پچھلے مہینے 2.82 درہم فی لیٹر تھی۔ یاد رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق آج رات 12 بجے سے ہوگا۔