برطانیہ کا جیلوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک ہزار سے زائد قیدیوں کی رہائی کا اعلان

برطانیہ میں جیلوں کی شدید گنجائشِ بحران کے پیش نظر حکومت نے 1,400 سے زائد قیدیوں کو قبل از وقت رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ پانچ ماہ میں قیدی رکھنے کی جگہ ختم ہو جائے گی۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق برطانیہ کی جسٹس سیکریٹری شبانہ محمود نے اعلان کیا کہ ایک سے چار سال کی سزائیں پانے والے قیدی، جو اپنی ضمانت کی شرائط توڑنے پر واپس جیل لائے گئے تھے، اب 28 دن بعد رہا کر دیے جائیں گے۔ شبانہ محمود کا کہنا تھا کہ حکومت 4.7 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری سے نئی جیلیں تعمیر کرے گی، لیکن صرف نئی جیلیں بنا کر بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ یہ اقدام ہمیں وقت دے گا تاکہ ہم ایک ایسے نظام میں اصلاحات کر سکیں جو بکھرنے کے دہانے پر ہے۔ وزارتِ انصاف کی سینئر اہلکار ایمی ریس نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ صورتحال برقرار رہی تو نومبر 2025 تک انگلینڈ میں بالغ مرد قیدیوں کے لیے تمام جگہ ختم ہو جائے گی۔ عام طور پر اس قسم کے قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے پیرول بورڈ کی منظوری درکار ہوتی ہے، لیکن حکومت نے یہ کہہ کر کہ اگر پیرول بورڈ کا بیک لاگ نہ ہوتا تو یہ قیدی پہلے ہی رہا ہو چکے ہوتےاس مرحلے کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ سہولت ان افراد کے لیے دستیاب نہیں ہو گی، جنہوں نے سنگین جرائم دوبارہ کیے ہوں یا جنہیں عوام کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں :برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ برطانیہ میں اس وقت 88,087 قیدی موجود ہیں، جب کہ کل آپریشنل گنجائش 89,442 ہے، یعنی صرف 1,355 قیدیوں کی جگہ باقی ہے۔ حکومت کی رپورٹ کے مطابق 2029 تک قیدیوں کی تعداد 95,700 سے 105,200 تک پہنچنے کا امکان ہے، 13,583 قیدی ایسے ہیں جو ضمانتی شرائط توڑنے پر دوبارہ جیل لائے گئے ہیں۔ شیڈو جسٹس سیکریٹری رابرٹ جینرک نے اس اقدام کو “عوامی تحفظ کے لیے ناکام فیصلہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج حکومت نے ان مجرموں کو جلدی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے دوبارہ خلاف ورزی کی۔ پرزن آفیسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین مارک فیئرحرسٹ نے کہا کہ نئی جیلیں بنانے سے بحران حل نہیں ہو گا، بلکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پرانی جیلوں کی بحالی، پروبیشن سروس کو بہتر بنانے، ذہنی صحت کے مراکز اور مضبوط متبادل سزاؤں پر توجہ دے۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال بھی، جب جیلوں میں گنجائش ختم ہونے کے قریب تھی ہزاروں قیدیوں کو ہنگامی طور پر قبل از وقت رہا کیا گیا تھا۔
برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟

برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیر سٹارمر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک کے امیگریشن کے ٹوٹے ہوئے نظام کو درست کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسا نیا نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں جو منصفانہ، منتخب اور مکمل کنٹرول میں ہو۔ اس نظام میں کئی بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ سب سے اہم تجویز یہ ہے کہ برطانیہ میں مستقل سکونت (سیٹلمنٹ) حاصل کرنے کے لیے تارکین وطن کو اب پانچ سال کے بجائے دس سال تک انتظار کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ تمام ویزا درخواست دہندگان اور ان کے ساتھ آنے والے بالغ افراد کے لیے انگلش زبان کا معیار مزید سخت کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ سر کیر نے موجودہ نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کئی صنعتیں برطانوی نوجوانوں کی تربیت اور ان میں مہارت پیدا کرنے کے بجائے بیرونِ ملک سے سستی مزدوری لانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر انجینئرنگ کے شعبے کی مثال دی، جہاں ویزا کی منظوریوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن مقامی سطح پر تربیتی مواقع، یعنی اپرنٹس شپس میں کمی آئی ہے۔ سر کیر سٹارمر کا کہنا ہے کہ ایسا امیگریشن نظام ہونا چاہیے جو برطانوی نوجوانوں کو نظر انداز نہ کرے بلکہ ان کی تربیت اور مستقبل کی راہ ہموار کرے۔ ان کے مطابق موجودہ نظام نے مقامی نوجوانوں کو وہ مواقع نہیں دیے جن کے وہ حقدار تھے۔ دوسری جانب شیڈو ہوم سیکریٹری کرس فلپ نے لیبر پارٹی کی امیگریشن پالیسی کو ایک “مذاق” قرار دیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں امیگریشن پر باقاعدہ کیپ (حد بندی) نافذ کرے۔ یہ تمام بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب برطانیہ امیگریشن سے متعلق اپنی “وائٹ پیپر” رپورٹ جاری کرنے والا ہے، جس میں آنے والی پالیسیوں کی تفصیل دی جائے گی۔ یہ ایک اہم سیاسی اور سماجی موضوع ہے جو نہ صرف تارکین وطن بلکہ برطانوی عوام کی روزگار، تربیت اور معیشت سے بھی براہ راست جڑا ہوا ہے۔
برطانیہ اور انڈیا کے درمیان تاریخی تجارتی معاہدہ طے پا گیا

تین سال کی بار بار رکی ہوئی مذاکراتی کوششوں کے بعد بالآخر برطانیہ اور انڈیا کے درمیان تاریخی تجارتی معاہدہ طے پا گیا، جس کے تحت برطانوی کمپنیوں کے لیے انڈین مارکیٹ میں وسعت حاصل کرنا آسان ہو گا، جب کہ انڈیا کے ملبوسات اور جوتوں کی برآمدات پر عائد ٹیکسوں میں نمایاں کمی کی جائے گی۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں امیگریشن پالیسی یا انڈیا سے آنے والے طلبہ کے ویزا قوانین میں کوئی تبدیلی شامل نہیں ہے۔ برطانوی وزیرِ صنعت جوناتھن رینولڈز نے اس معاہدے کو برطانوی کاروبار اور صارفین کے لیے ‘انتہائی فائدہ مند’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں معیشتوں کے لیے ترقی کا نیا باب ثابت ہو گا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں برطانیہ اور انڈیا کے درمیان تجارت کا حجم 41 ارب پاؤنڈ تھا اور اب اس نئے معاہدے کی بدولت 2040 تک تجارت میں سالانہ 25.5 ارب پاؤنڈ کا مزید اضافہ متوقع ہے۔ یہ معاہدہ گزشتہ ہفتے لندن میں وزیر رینولڈز اور ان کے انڈین ہم منصب پیوُش گوئل کے درمیان ملاقات کے بعد حتمی شکل اختیار کر گیا۔ تاہم، اس پر عملدرآمد میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ برطانوی محکمہ تجارت کے مطابق جب یہ معاہدہ نافذ العمل ہو گا تو انڈین مصنوعات پر عائد ٹیرف کم ہونے سے برطانوی صارفین کو براہِ راست فائدہ ہو گا۔ مزید یہ کہ برطانوی کمپنیوں کو انڈیا میں برآمدات بڑھانے کے مواقع ملیں گے، جو کہ روزگار کی فراہمی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ واضح رہے کہ پیشگوئی کی جارہی ہے کہ انڈیا آئندہ چند برسوں میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے، جب کہ انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی کی حکومت کا ہدف 2030 تک برآمدات کو ایک کھرب ڈالر تک پہنچانا ہے۔ لازمی پڑھیں: برطانوی انسدادِ دہشت گردی پولیس نے چار ’ایرانی شہریوں‘ سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر لیا سابق حکومتی تجارتی مشیر ایلی رینسن کا بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ “برطانیہ کے بریکسٹ کے بعد کے معاہدوں کے یہ معاہدہ انڈیا کے معاشی حجم، تیز رفتار ترقی اور اس کی مارکیٹ تک رسائی میں موجود بلند رکاوٹوں کی وجہ سے برطانیہ کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔” انہوں نے کہا کہ “اگرچہ ان مذاکرات کو کئی سال سے متعدد رکاوٹوں کا سامنا رہا، لیکن موجودہ حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت انہیں حل کرنے کی خواہشمند تھی۔” یاد رہے کہ انڈیا اور برطانیہ کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کا آغاز جنوری 2022 میں ہوا تھا اور یہ معاہدہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ کی آزاد تجارتی پالیسی کے لیے امید کی علامت بن گیا تھا۔
برطانیہ جانے والوں میں پاکستانی سرفہرست، مزید کتنی درخواستیں زیرالتوا ہیں؟

برطانیہ میں پناہ کی درخواستوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور 2024 میں ایک لاکھ آٹھ ہزار درخواستیں دائر کی گئیں، جو اب تک سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں اور پاکستانی اس میں سہرفرست ہیں۔ پاکستان سے 10,542 افراد نے درخواست دی، اس کے بعد افغانستان 8,508، ایران 8,099، بنگلہ دیش 7,225 اور شام 6,680رہے۔ یہ پانچ ممالک مجموعی طور پر گزشتہ سال کی تمام پناہ کی درخواستوں کا 38 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ان خوشحال مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے دی جانے والی پناہ کی درخواستیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ برطانیہ ایک نرم ہدف بن چکا ہے۔ 2024 میں، امریکہ سے 99، اٹلی سے 22، پرتگال سے 20، فرانس سے 17 اور آسٹریلیا سے 10 افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی۔ علاوہ ازیں، تیل سے مالا مال ریاستوں جیسے کویت (1,936)، بحرین (203) اور سعودی عرب (202) کے شہریوں نے بھی درخواستیں دیں۔ سیاحتی جنت سمجھے جانے والے کیریبیئن ممالک، جیسے ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو (444)، سینٹ ونسنٹ اینڈ گریناڈائنز (102) اور اینٹیگوا و باربودا (16) سے بھی درخواستیں موصول ہوئیں۔ برطانوی ہوم آفس کے مطابق، پناہ کے اہل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ درخواست دہندہ اپنے ملک کو کسی ظلم و ستم یا خطرے کے باعث چھوڑ چکا ہو اور واپسی سے قاصر ہو۔ ہوم آفس ایسے افراد کی بنیادی شہریت یا ترجیحی شہریت کو مدنظر رکھتا ہے۔ اگر شہریت پر اختلاف ہو تو وہی شہریت درج کی جاتی ہے جو حکام کو درست معلوم ہو۔ پناہ گزین کا درجہ یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تحفظ حاصل ہونے کے بعد ہی کسی فرد کو برطانیہ میں کام، تعلیم اور یونیورسل کریڈٹ جیسے فوائد حاصل کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ 2024 میں امریکہ سے کی گئی ابتدائی درخواستوں میں سے 13 منظور ہوئیں اور 45 مسترد کر دی گئیں، یعنی منظوری کی شرح صرف 22 فیصد رہی۔ ان میں سے چار کو انسانی تحفظ کا درجہ اور نو کو پناہ گزین کا درجہ دیا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں پناہ کی درخواست دینے والوں میں تین چوتھائی مرد تھے، اور ان میں دو تہائی کی عمر 30 سال سے کم تھی۔ صرف چار فیصد افراد 50 سال سے زائد عمر کے تھے۔
لندن میں انڈین ہائی کمیشن پر پاکستانیوں کا احتجاج، کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا عزم

لندن میں انڈین ہائی کمیشن کے باہر پاکستانی کمیونٹی نے احتجاج کیا اور انڈیا کو خبردار کیا کہ اگر اُس نے پاکستان پر حملہ کرنے کی حماقت کی تو اُسے فروری 2019 جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مظاہرین نے انڈیا کی جانب سے پاکستان پر الزامات اور جنگی دھمکیوں کی شدید مذمت کی۔ مسلم لیگ ن برطانیہ کے صدر احسن ڈار نے کہا کہ ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستان پر الزام لگا دینا انڈیا کی پرانی عادت ہے، اور عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ بغیر ثبوت پاکستان پر الزام لگانے پر انڈیا سے وضاحت طلب کریں۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان، انڈیا کشیدگی: تجارتی سامان کی ترسیل مکمل طور پر بند کر دی گئی یہ مظاہرہ اُس وقت سامنے آیا جب 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے پہلگام علاقے میں فائرنگ کے واقعے میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد انڈیا نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام عائد کر دیا اور سندھ طاس معاہدے کو بھی یکطرفہ طور پر معطل کر دیا۔ پاکستان نے نہ صرف اس واقعے کی شدید مذمت کی بلکہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے انڈیا کو پیشکش کی کہ اگر وہ غیر جانبدار تحقیقات کروانا چاہے تو پاکستان مکمل تعاون کے لیے تیار ہے۔ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے واضح پیغام دیا ہے کہ کسی بھی قسم کی جارحیت کی صورت میں انڈیا کو ایسا جواب دیا جائے گا جو وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔
برطانوی انسدادِ دہشت گردی پولیس نے چار ’ایرانی شہریوں‘ سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر لیا

برطانیہ کی انسداد دہشت گردی پولیس نے ایک مخصوص مقام کو نشانہ بنانے کی مبینہ سازش کے الزام میں چار ایرانی شہریوں سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز مختلف شہروں بشمول سوئڈن، مغربی لندن، اسٹاک پورٹ، روچڈیل اور مانچسٹر میں کی گئیں۔ میٹروپولیٹن پولیس نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ گرفتار افراد پر دہشت گردی کے جرائم کا شبہ ہے۔ پولیس نے حفاظتی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے سازش کی مزید تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔ یہ بھی پڑھیں: آسٹریلوی انتخابات: انتھونی البانیز کی جیت، مسلسل دوسری مرتبہ حکومت بنائیں گے انسداد دہشت گردی کمانڈ کے سربراہ کمانڈر ڈومینک مرفی نے کہا کہ “یہ تفتیش ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ ہم مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ ممکنہ مقاصد اور عوامی خطرات کی نوعیت کا تعین کیا جا سکے۔” پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات کے مختلف پہلوؤں پر کام کر رہے ہیں اور گرفتار افراد سے تفتیش جاری ہے۔ انہوں نے اس موقع پر عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ قیاس آرائیوں سے گریز کریں اور پولیس کی طرف سے فراہم کردہ تصدیق شدہ معلومات پر انحصار کریں۔
’جاسوسی ہو رہی ہے‘، برطانیہ کی صارفین کو چینی الیکٹرک گاڑیوں میں موبائل فون چارج نہ کرنے کی ہدایت

دفاعی شعبے کی کمپنیوں نے سیکیورٹی خدشات کے باعث اپنے عملے کو ہدایت کی ہے کہ وہ چینی ساختہ الیکٹرک گاڑیوں میں اپنے موبائل فون چارج نہ کریں۔ برطانیہ کی دو اہم دفاعی کمپنیوں بی ای ای سسٹمز اور رولز رائس نے یہ اقدامات ممکنہ چینی جاسوسی سے بچاؤ کے طور پر کیے ہیں۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چینی ریاست الیکٹرک گاڑیوں کے ذریعے جاسوسی کر سکتی ہے، جس کی روک تھام کے لیے موبائل فون کو بلوٹوتھ یا چارجنگ کیبل کے ذریعے ان گاڑیوں سے منسلک کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور حساس تنصیبات میں ایسی گاڑیوں کی پارکنگ سے بھی گریز کیا جا رہا ہے۔ ایک دفاعی کمپنی کے ترجمان نے بتایا کہ ان کا ادارہ محتاط طرز عمل اپنا رہا ہے اور اپنے ملازمین کو حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ڈرائیور کے موڈ کے مطابق چلنے والی الیکٹرک کاریں: ہونڈا کا حیرت انگیز شاہکار متعارف اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے سائبر سلامتی کے محقق جوزف جارنیکی نے کہا کہ چینی جاسوسی کی سابقہ مثالوں کے باعث ان کمپنیوں کا یہ احتیاطی قدم سمجھ میں آتا ہے۔ برطانیہ میں چینی الیکٹرک گاڑیوں کے کئی برانڈز سرگرم ہیں جن میں بائے ڈی، اورا، جیلی، ایکس پینگ، ایم جی، وولوو اور پول اسٹار شامل ہیں۔ ایکس پینگ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی گاڑیاں کسی قسم کی جاسوسی میں ملوث نہیں۔ اگرچہ چینی قانون کے تحت کمپنیاں ریاستی انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ تعاون کرنے کی پابند ہیں، تاہم بعض ماہرین کے مطابق یہ ممکن نہیں کہ چین ایسی کارروائی کرے جو اس کے تجارتی برانڈز کی ساکھ کو نقصان پہنچائے۔ سائبر ٹیکنالوجی کے ماہر جیمز بور نے کہا کہ اگرچہ موبائل فون کو چارجنگ کے ذریعے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے کے امکانات موجود ہیں، لیکن یہ صرف تجرباتی سطح پر ثابت ہوا ہے اور عملی طور پر اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ لندن میں موجود چینی سفارت خانے نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین ہر قسم کے سائبر حملوں اور جاسوسی کی مخالفت کرتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ چینی الیکٹرک گاڑیاں اپنی فنی جدت اور اعلیٰ معیار کی بنیاد پر دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہیں۔ انہوں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ قومی سلامتی کے بہانے سے باز آ کر چینی کمپنیوں کے لیے کھلا، منصفانہ اور غیر جانب دار کاروباری ماحول فراہم کرے۔
’غیر ضروری، پریشان کن اور فضول‘ برطانیہ میں واٹس ایپ صارفین میٹا اے آئی کے فیچر سے ناخوش

دنیا کی مقبول ترین میسجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ پر حالیہ متعارف کرائے گئے اے آئی فیچر نے متعدد صارفین کو ناراض کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں برطانیہ میں واٹس ایپ صارفین نے ایک نئے “میٹا اے آئی” بٹن کو اپنی ایپ پر دیکھا، جو ایک چمکتے ہوئے نیلے دائرے کی شکل میں نمایاں ہے۔ یہ فیچر چیٹ جی پی ٹی کی طرز پر صارفین کو میٹا کے ڈیجیٹل چیٹ بوٹ سے سوالات پوچھنے کی سہولت دیتا ہے، حتیٰ کہ ذاتی چیٹس میں ‘@میٹا اے آئی’ لکھ کر براہِ راست بات چیت کا آغاز بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، صارفین نے اس فیچر کو “غیر ضروری”، “پریشان کن” اور “فضول” قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خصوصاً ریڈٹ پر شکایات سامنے آئی ہیں کہ یہ اے آئی تلاش کے عمل میں مداخلت کرتا ہے، جہاں صارفین کسی دوست کا نام تلاش کرنے کے بجائے غیر متعلقہ سفارشات دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: واٹس ایپ نے نیا ایڈوانسڈ چیٹ پرائیویسی فیچر متعارف کرادیا میٹا اے آئی فیچر انسٹاگرام پر پہلے سے دستیاب تھا اور اب واٹس ایپ کے برطانوی ورژن میں متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ میٹا کے جدید “لاما فور” ماڈل پر مبنی ہے، جو کبھی کبھار معلومات میں غلطی کر سکتا ہے، جسے تکنیکی اصطلاح میں “ہیلوسینیشن” کہا جاتا ہے۔ یہ ٹول صارفین کو تخلیقی تصاویر بنانے، کھانے کی تراکیب تجویز کرنے، گیم آئیڈیاز دینے اور فٹ بال کے اسکورز بتانے جیسے مختلف کاموں میں مدد فراہم کرتا ہے۔ تاہم، امیج جنریشن فیچر فی الحال برطانیہ میں دستیاب نہیں ہے۔ میٹا نے اعتراف کیا ہے کہ صارفین کے چیٹ بوٹ کے ساتھ تبادلے محفوظ کیے جاتے ہیں، حالانکہ پرانی چیٹس کو حذف کرنے کا آپشن موجود ہے۔ کمپنی نے صارفین کو خبردار بھی کیا ہے کہ “حساس معلومات” شیئر کرنے سے گریز کریں جو اے آئی ماڈل کی تربیت کا حصہ بن سکتی ہیں۔ واٹس ایپ کے ترجمان کے مطابق، میٹا اے آئی چیٹس کو ذاتی پیغامات سے الگ ظاہر کیا جاتا ہے تاکہ صارفین کو واضح فرق معلوم ہو سکے، اور ذاتی چیٹس اب بھی مکمل طور پر اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کے تحت محفوظ ہیں۔ یہ فیچر میٹا کے بانی مارک زکربرگ کے اس بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ 2025 تک ایک ارب سے زائد صارفین تک ایک ذاتی اور انتہائی ذہین اے آئی اسسٹنٹ پہنچانے کا ہدف رکھتے ہیں۔
برطانیہ: سات سالوں کے بعد اپریل میں موسم گرم ترین ریکارڈ

جنوبی انگلینڈ میں اس ہفتے کے آخر میں درجہ حرارت 27ڈگری تک پہنچ سکتا ہے جو 2018 کے بعد اپریل میں ریکارڈ کیا گیا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق گرمی اور دھوپ برطانیہ کے بیشتر علاقوں میں بڑے پیمانے پر بڑھے گی،تاہم، بارش کی کمی ممکنہ جنگل کی آگ کے بارے میں دوبارہ خدشات کو جنم دے گی۔ آخری مرتبہ اپریل میں درجہ حرارت 27 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا تھا جو کیمبرج میں 2018 میں ریکارڈ کیا گیاتھا۔ ہفتے کا آغاز انگلینڈ اور ویلز میں درجہ حرارت پہلے ہی 19-24 ڈگری سینٹی گریڈ کے ساتھ شروع ہوتا ہے، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کا زیادہ تر حصہ قدرے ابر آلود حالات میں 16-19 سینٹی گریڈ کے ارد گرد ہے۔ شمال مغربی سکاٹ لینڈ میں بھی کچھ تیز بارش کا امکان ہے۔ تاہم، جیسے جیسے دھوپ والے آسمان زیادہ بڑے پیمانے پر بڑھتے ہیں، تیز دھوپ اور ہلکی ہواؤں کا امتزاج بدھ یا جمعرات کو درجہ حرارت کو چوٹی تک پہنچنے میں مدد کرے گا، اور چاروں ممالک میں سے ہر ایک میں اب تک سال کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہوگا۔ سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے کچھ حصوں میں 23 ڈگری متوقع ہے، ویلز میں 25ڈگری اور انگلینڈ میں 27ڈگری۔ لندن، ہوم کاؤنٹیز اور کیمبرج شائر وہ علاقے ہیں جن کی توقع ہے کہ حالات میں سب سے زیادہ گرم رہیں گے۔ برطانیہ کے آس پاس سمندری درجہ حرارت اس وقت نسبتاً کم ہونے کے ساتھ، ساحلی علاقے جہاں سمندری ہوائیں چلتی ہیں، ٹھنڈا محسوس کریں گے۔
لندن 2029 میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی میزبانی کا خواہاں، کیا امکانات ہیں؟

یو کے اسپورٹ، لندن کے میئر صادق خان اور ایتھلیٹک وینچرز نے اتوار کو لندن میراتھن کی 45ویں دوڑ سے قبل اعلان کیا کہ لندن 2029 میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی میزبانی کا خواہاں ہے۔ بولی کے منتظمین نے ستمبر میں عالمی ایتھلیٹکس میں دلچسپی کا باقاعدہ اظہار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس کے لیے حکومتی حمایت میں 45 ملین پاؤنڈز ($59.91 ملین) کی فراہمی کی کوشش کی جائے گی۔ ایک حالیہ فزیبلٹی اسٹڈی نے اس ایونٹ کے ممکنہ معاشی اور سماجی اثرات کو 400 ملین پاؤنڈز سے زیادہ قرار دیا ہے۔ ایتھلیٹک وینچرز، جو یو کے ایتھلیٹکس، گریٹ رن کمپنی اور لندن میراتھن ایونٹس کا مشترکہ منصوبہ ہے، اس مہم میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: افریقی ملک نائجر میں دہشتگردوں کا حملہ، 12 فوجی ہلاک ہوگئے لندن نے اس سے قبل 2017 میں عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی کامیاب میزبانی کی تھی، جہاں اولمپک اسٹیڈیم ہر شام مکمل طور پر بھر گیا تھا۔ یو کے ایتھلیٹکس کے صدر اور 2017 کی بولی ٹیم کے رکن ڈینس لیوس نے کہا، “لندن 2017 نے دنیا کو دکھایا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہم 2029 میں دوبارہ ایسا کر سکتے ہیں۔” اتوار کی لندن میراتھن، جس میں 56,000 رنرز کی شرکت متوقع تھی، اس بڑے اعلان کے لیے ایک اہم موقع ثابت ہوئی۔ لیوس، جو 2000 سڈنی اولمپکس میں ہیپٹاتھلون طلائی تمغہ جیت چکی ہیں، نے کہا کہ یہ بولی برطانیہ میں بین الاقوامی کھیلوں کے بڑے مقابلوں کی میزبانی کے وسیع وژن کا حصہ ہے۔ یاد رہے کہ انگلینڈ کے شہر برمنگھم کو پہلے ہی 2026 یورپی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی میزبانی کے لیے منتخب کیا جا چکا ہے۔