لندن میں روزانہ 55 ہزار چوری کے واقعات: پیشہ ورانہ گینگ ملوث

جمعرات کو شائع ہونے الی ایک رپورٹ کے مطابق چوری اورظلم کےبڑھتے ہوئے  واقعات لندن میں ریکارڈ لیول پر پہنچ چکے ہیں جن میں زیادہ تر جرائم پیشہ افراد اور مجرمانہ گینگ شامل ہیں۔ برٹش ریٹیل کنزورٹیم (بی آر سی) کے مطابق سورے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 31 اگست 2024 تک چوری کے 20 ملین واقعات رونما ہوئے، جو 55 ہزار فی دن بنتے ہیں، جس میں خوردہ فروشوں کو2.2بلین پاؤنڈز کا نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ سال واقعات کی تعداد 16 ملین تھی۔ بی آر سی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر واقعات پیشہ ورانہ جرائم سے منسلک تھے، جہاں گینگ مختلف طریقوں سے پورے ملک میں دکانوں کو نشانہ  بناتے ہیں۔ 2023 اور 24 میں ظلم و تشدد کے واقعات 2ہزار کی حد کو عبور کر گئے جب کہ اس سے پہلے یہ واقعات 13 سو تک تھے۔ بی آر سی کے ہیڈ ہیلن ڈکنسن نے  کہا “خوردہ فروشوں کے واقعات کنٹرول سے باہر ہو رہے ہیں۔ سٹورز مین موجود لوگ مارے جاتے ہیں ان پر تشدد کیا جاتا ہے ۔ ہر دن یہ ہو رہا ہے ۔ جرائم پیشہ افراد روز بروز مزید طاقتور اور پر تشدد ہو رہے ہیں”۔ ان جرائم کے پیش نظر عوام پولیس کے اقدامات سے اطمینان محسوس نہیں کرتی ہے۔  سروے میں 61 ٪ لوگوں نے پولیس کے اقدامات کو “برا” یا “بہت برا” قرار دیا ہے۔ ڈکنسن کا کہنا ہے کہ پولیس کے غیر مطمن جواب کو دیکھتے ہوئے مجرمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس چوری اور ظلم و تشد د کرنے کا لائسنس موجود ہے”۔ بی آر سی کے مطابق ان جرائم کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں جو پیسے خرچ ہو رہے ہیں وہ بھی ریکارڈ ہائی جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب تک 1.8بلین پاونڈزسی سی ٹی وی کیمرے، اینٹی تھیفٹ آلات اور سیکیورٹی کے عملے کے لیے خرچ کیے گئے ہیں۔ ٹیسلو سمیت بہت سے بڑے ریٹیلرز  نے پچھلے ایک سال میں اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔

ایڈنبرا میں راتوں کو قیام کرنے والے سیاحوں پر ٹیکس: ایسا کیوں ہوگا؟

ایڈنبرا کے مقامی سیاست دانوں نے سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت میں راتوں کو قیام کرنے والے سیاحوں کے لیے سیاحتی ٹیکس کی منظوری دی ہے، جس سے برطانیہ میں اپنی نوعیت کا پہلا چارج متعارف کرایا گیا ہے۔ 2026 کے وسط سے، کسٹمائیڈ رہائش، بہترین ناشتہ اور کھانے، ہاسٹل، سیلف کیٹرنگ اپارٹمنٹ یا گیسٹ ہاؤس میں قیام کرنے والے سیاح سے فی رات ان کی رہائش کی قیمت کا 5% فیس وصول کی جائے گی۔ مقامی اتھارٹی کے مطابق، یہ چارج لگاتار پانچ راتوں تک محدود ہے۔ رہائش فراہم کرنے والے اتھارٹی کی جانب سے فیس جمع کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ ووٹنگ سے پہلے، سٹی آف ایڈنبرا کونسل کے سربراہ جین میگھر نے کونسلرز کو بتایا کہ سیاحت “شہر کے وسائل پر دباؤ ڈالتی ہے” جسے “منصوبہ بند اور پائیدار طریقے سے” ترقی کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔ قومی سیاحتی ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق 2023 میں 5 ملین سیاح ایڈبرا آئے جنہوں نے £2.2 بلین ($2.7 بلین) خرچ کیے۔ کونسل کو توقع ہے کہ نئی فیس 2028 یا 2029 تک ایک سال میں ($56-62 ملین) بڑھے گی۔ ایڈنبرا میں سیاحتی ٹیکس 2018 سے زیر بحث ہے اور یہ اس وقت لاگو ہوا جب جولائی میں وزیٹر لیوی (اسکاٹ لینڈ) ایکٹ نافذ ہوا۔ سٹی آف ایڈنبرا کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق، ایکٹ کے تحت، لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مقامی سہولیات اور خدمات کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے جنہیں کاروباری اور تفریحی مہمان بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کونسلروں نے ووٹنگ سے پہلے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ چارج زیادہ ہونا چاہیے، اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہ لیوی سے حاصل ہونے والی آمدنی رہائشیوں کو سستی رہائش فراہم کرنے پر خرچ کی جائے، اور کہا جاتا ہے کہ فی الحال سیاحت میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں کے لیے رہائش بہت مہنگی ہے۔ اگست میں وزیٹر لیوی کے مسودے کی نقاب کشائی کے بعد مقامی رہائشیوں اور کاروباری اداروں سے مشورہ کیا گیا۔ مقامی اتھارٹی کے نوٹس کے مطابق، اگرچہ نصف سے زیادہ رہائشیوں اور کاروباروں نے 5% چارج سے اتفاق کیا، زیادہ تر سیاح (62%) لیوی کے خلاف تھے یا ان کا خیال تھا کہ فیس کم ہونی چاہیے۔ چارج کے لیے راتوں کی تعداد کی حد اصل میں سات کے طور پر تیار کی گئی تھی لیکن وزٹ اسکاٹ لینڈ اور ایڈنبرا فیسٹیولز کے مشاہدات کے بعد اسے کم کر کے پانچ کر دیا گیا، جس سے یہ پتا چلا  کہ تقریبات کے دوران اداکار اور میلے کے دیگر کارکن اکثر کئی ہفتوں تک رہتے ہیں۔ جمعے کے حتمی فیصلے سے پہلے، کونسلرز نے گزشتہ ہفتے اس منصوبے کی منظوری دی، میگھر نے اس اقدام کو “زندگی بھر میں ایک بار ان چیزوں کو بڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے دسیوں ملین پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کرنے کا موقع قرار دیا جو ہمارے شہر کو دیکھنے کے لیے ایک بہترین جگہ بناتی ہیں – اور ایک نیوز ریلیز کے مطابق – سارا سال رہتے ہیں۔ ایڈنبرا حالیہ برسوں میں سیاحتی ٹیکس متعارف کرانے کے لیے یورپی شہروں کی بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔

برطانیہ میں سڑکوں پر رش سے بڑھتے حادثات: ایسا کیوں؟

برطانیہ کے شہر مانچسٹر کےمضافاتی علاقے ویگن کے دیہاتی  سڑکوں پر رش، بہت زیادہ نئی تعمیر شدہ گھر اور ایک جی پی سرجری نئے مریضوں کی آمد کو سنبھالنے کے لیے پریشانی کا شکار ہیں۔  ۔ یہ اسٹینڈش کے لوگوں کا فیصلہ تھا کیونکہ لوکل ڈیموکریسی رپورٹنگ سروس نے اسکول میں گھر جانے کے وقت پر گاؤں کے مرکز میں سڑکوں کو بھرتے دیکھا۔ ایسے رہائشی جن کی پرورش اسٹینڈش میں ہوئی ہے، کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے 30 سال کے عرصے میں ایک خوشگوار، مسحور کن چھوٹے گاؤں سے ایک ایسی جگہ میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے جو اب اس کے مرکزی چوک پر افراتفری کے لیے مشہور ہے جہاں پریسٹن روڈ، ہائی اسٹریٹ، سکول لین، اور مارکیٹ سٹریٹ ملتے ہیں۔ جنکشن کے قریب کاروبار بھی، معمول کے چھوٹے حادثات، ڈرائیوروں کے خراب گاڑی چلانے، ہارن بجانے، روڈ ریج کے واقعات اور بازار سے ہائی سٹریٹ کی طرف بائیں مڑنے کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اس ہفتے افراتفری اس وقت مزید خراب ہو گئی جب اسٹینڈش کی طرف جانے والی سڑکوں میں سے ایک ریکٹری لین پر ٹریفک بند ہو گئی، اس کے نتیجے میں کویکر پیلیس کے ساتھ قریبی سکول لین پر عارضی ٹریفک لائٹس لگ گئیں۔ ایان ہارٹ کے مطابق، جو اسٹینڈش کے قلب میں ونارڈ پراپرٹی گروپ کا دفتر چلاتے ہیں، اکتوبر 2023 سے گاؤں کے مرکز کے ایک میل کے دائرے میں مسلسل سڑک کے کام ہو رہے ہیں۔ ایان نے کہا “یہ ایک طویل عرصے سے خوفناک رہا ہے”۔ “لیکن یہ پچھلے 18 مہینوں کے دوران خاص طور پر خراب رہا ہے۔ ہم نے حادثات، لوگوں کو لائٹس جمپ ​​کرتے ہوئے، اور لوگوں کو اپنی کاروں سے باہر نکلتے اور دوسرے ڈرائیوروں کو دھمکیاں دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ ایک پاگل پن ہے۔” قریبی گیلو ویز بیکرز شاپ کی منیجر 43 سالہ سٹیفنی اینڈریوز نے  کہا “لوگ اپنے گاڑیوں کے ہارن بجا رہے ہیں، بحث کر رہے ہیں اور گر رہے ہیں” انہوں نے کہا “ہم نے بہت سے چھوٹے حادثات دیکھے ہیں”۔ سڑک کے کام جو اس ہفتے ہوئے ہیں وہ اسکول لین پر ہیں – اس جنکشن پر مستقل ٹریفک لائٹس کی جگہ عارضی ٹریفک لائٹس تھیں جنہیں الیکٹرسٹی نارتھ ویسٹ نے ہنگامی کاموں کے لیے لگایا تھا۔ کام بدھ (22 جنوری) کو دوپہر سے پہلے مکمل کر لیا گیا تھا۔ چورلے روڈ پر، یونائیٹڈ یوٹیلٹیز کی جانب سے عارضی ٹریفک سگنلز کے ساتھ ہنگامی کام شروع کیے گئے ہیں۔ جمعرات (23 جنوری) تک کام مکمل ہونے کی توقع تھی۔ روڈ ورکس پرمٹ کو کہا گیا ہے تاکہ تاخیر کو کم سے کم کرنے کے لیے ٹریفک لائٹس کا انتظام کیا جائے۔ فی الحال پیپر لین میں بجلی کے نارتھ ویسٹ کے منصوبہ بند کام کے لیے پیر (27 جنوری) تک عارضی ٹریفک سگنل موجود ہیں۔ روڈ ورکس پرمٹ مشروط ہے تاکہ تاخیر کو کم سے کم کرنے میں ٹریفک لائٹس کا عملہ رکھا جائے۔

برطانیہ میں چاقو کے بڑھتے واقعات، چاقو خریدنے کے قوانین میں سختی

برطانوی حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ دکانداروں  کومجبور  کرے گا کہ وہ چاقو خریدنے والے بچوںکی عمر کی تصدیق کرے اور پھر چاقو بیچے ، ایک ٹیلر سوئفٹ کے ڈانس ایونٹ میں ایک نوجوان کی جانب سے تین کمسن لڑکیوں کو قتل کرنے کا اعتراف کرنے کے بعد پالیسی میں سختی آئی۔ مانچسٹر ایوننگ نیوز کے مطابق ایک ہفتے کے دوران پولیس نے 74 لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور ان سے 123 چاقو ضبط کیے ہیں۔ جولائی میں ایکسل روڈاکوبانا کے چاقو کے حملے کو وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے گزشتہ ہفتے برطانیہ کی تاریخ کے سب سے خطرناک لمحات میں سے ایک قرار دیا تھا اور اس نے ان ناکامیوں کے بارے میں عوامی انکوائری شروع کر دی تھی جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اگرچہ اس انکوائری میں اس بات پر توجہ رکھنے کی توقع کی جاتی ہے کہ ریاستی ادارے قاتل کے حملے سے پہلے اس کے بارے میں پتا لگانے میں کیوں ناکام رہے، وہیں پر چاقو خریدنے سے متعلق قوانین پر بھی توجہ مرکوز ہو گئی ہے۔ موجودہ برطانوی قوانین کے تحت 18 سال سے کم عمر افراد کو چاقو خریدنے سے روکنے کے لیے دکانداروں سے عمر کی تصدیق کا انتظام ہونا ضروری ہے، لیکن ان کے لائحہ عمل کی واضح طور پر وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ وزیر داخلہ یوویٹ کوپر نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ میں کہا کہ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ روداکوبانا، جس کی عمر حملے کے صرف وقت 17 سال تھی، آن لائن چاقو خریدنے میں کامیاب رہی تھی۔ اتوار کے روز حکومی عہدیداران نے کہا کہ اب سے یہ ضروری ہے کہ چاقو خریدنے والی کی تصویر ،خریداری اور ڈیلیوری کے وقت تصدیق کی جائے گی اور ڈیلیوری بھی وہ ہی لوگ حاصل کریں گے جنہوں نے آرڈر کیا ہوگا۔ اتواز کے روز کوپر نے کہا کہ ” یہ شرم ناک ہے کہ ابھی تک بچوں کے لیے آن لائن ہتھیار خریدنا کتنا آسان ہے۔ اپنی غلط معلومات لکھ کر پارسل آسانی سے ھاصل کیے جا سکتے ہیں جب کہ کوئی بھی آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھے گا۔”

“یہ برطانویوں کو اسلام سے بچنے نہیں دیں گے” نماز پڑھتے مسلمانوں پر برطانوی انتہاپسندوں کا اعتراض

Prayer offering

مغربی دنیا میں اسلام کے خلاف تشدد اور تعصب کا رویہ پایا جانا ایک عام بات ہے، لیکن اب سوشل میڈیا کے اس دور میں اسلام مخالف کمپینز بھی چلائی جارہی ہیں جن کا مقصد مذہبی عقائد اور تعلیمات کے بارے میں شکوک و شہبات پیدا کرنا اور غیر مسلم افراد کو اسلام سے دور رکھنا ہے۔ ایسا ہی واقع سکاٹ لینڈ کے سب سے بلند پہاڑ ‘بین نیوس’ پر پیش آیا ہے جہاں بڑی تعداد میں مسلمان نماز ادا کر رہے تھے اور انتہا پسند انہیں نفرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ‘برٹن فرسٹ’ نامی اکاؤنٹ سے ویڈیو شیئر کی گئی جس میں ‘بین نیوس’ پہاڑ پر چند مسلمان نماز ادا کر رہے ہیں اور اردگرد بڑی تعداد میں لوگ کھڑے نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نمازیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ‘برٹن فرسٹ’ نامی اکاؤنٹ سے شیئر ہونے والی اس ویڈیو کی کیپشن میں لکھا کہ ” یہ سب غلبے کی بات ہے، برطانیہ میں 3 ہزار سے زائد مساجد موجود ہیں جن میں وہ (نماز کے لیے) جا سکتے ہیں، ہمارے شہروں کی عوامی گلیاں قابو میں کر لینا کافی نہیں، انہیں برطانوی دیہی علاقوں پر بھی قبضہ کرنا ہے، یہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک برطانوی عوام اسلام پسندی سے بچ نہ سکیں”۔ This is all about dominance. There are over 3000 mosques in Britain they can choose from. Taking over the public streets of our cities isn’t good enough, they have to take over the British countryside too. They won’t rest until British people can’t escape from Islamism. pic.twitter.com/TGqJb1mtHS — Britain First (@BFirstParty) January 21, 2025 اسی ٹوئٹ کو بشریٰ شیخ نامی پاکستانی صآرف نے دوبارہ شیئر کیا اور کیپشن میں لکھا کہ “یہ کامل ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے، برطانوی مسلمان خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، پھر ایک لمحے کے لیے رک کر اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں، پرامن نمازیوں سے تو شیطان ہی پریشان ہوتا ہے”۔ اس ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا کہ ” ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اپنے مقامی فٹبال کلب سے رابطہ کرے اور پوچھے کہ اس سال ایسٹر کی تقریب اسٹیڈیم میں کب منعقد ہو رہی ہے، پھر جب وہ جواب دیں کہ ایسی کوئی تقریب نہیں ہو رہی، تو آپ اگلا سوال یہ کر سکتے ہیں کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو رمضان میں اسٹیدیم میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے؟” اس پر ایک صارف نے جواب میں کہا کہ “بھائی اگر آپ چاہو تو ایسٹر کی تقریب کے لیے اسٹیڈیم بُک کر سکتے ہو”۔ اس جواب پر اسی صارف نے دوبارہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مقامی مسجد والے اسٹیڈیم بک نہیں کرتے بلکہ فٹبال کلب انہیں مفت میں دعوت دیتے ہیں”۔ اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور صارف نے لکھا کہ “میں ایک مرتبہ برطانیہ کے سب سے بلند پہاڑ، بین نیوس، پر چڑھنے گیا، جب میں آدھے راستے پر ایک آبشار تک پہنچا تو وہاں بڑی تعداد میں غیر ملکی لوگوں کو دیکھا جو ہر جگہ عبادت کر رہے تھے، مجھے اپنے ملک سے محبت ہے اور اسے ایسی حالت میں دیکھنا ہمارے دلوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے، یہ دیوانگی روکنے اور دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کا وقت ہے”۔ ایک صارف نے ناقدین پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ “اوہو یہ تو واقعی بہت خوفناک بات ہو گئی کہ لوگوں کو اپنی عبادت پرامن طریقے سے کرتے ہوئے آپ کو دیکھنا پڑا، اب آپ اس صدمے کا سامنا کیسے کریں گے؟” ایک صارف نے اس پر جواب میں لکھا کہ “تمام دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کی ہیں” اسی صارف نے اس جوابی جملے پر لکھا کہ ” آپ بیوقوف ہیں”۔ ایک اور صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ “یہ بالکل بھی ٹھیک نہیں، میں اس سے متفق ہوں، یہ غلبے کی بات ہے، آپ جانتے ہیں کہ یہ خوبصورت منظر کیوں ہے؟ کیونکہ یہ تیسری دنیا سے اچھوت ہے، افسوس کہ یہ بدل جائے گا، تیسری دنیا درآمد کریں اور تیسری دنیا بنیں”۔ ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ” کیا ہمیں برطانیہ میں مسلمانوں کی عبادت کو برداشت کرنا چاہیے جبکہ کئی مسلم ممالک میں غیر مذہبی خیالات یا عقائد کا اظہار محفوظ نہیں؟ ایک غیر مذہبی شخص کے طور پر میں اس رویے اور مساوی آزادی پر سوال اٹھاتا ہوں”۔ ایکس پر جاری یہ بحث مختلف خیالات اور عقائد کے ٹکراؤ کو ظاہر کرتی ہے، کچھ افراد عوامی مقامات پر مذہبی رسومات کو برداشت کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ کچھ کھلے دل سے اس کی حمایت کر رہے ہیں، تاہم برطانیہ جیسے آزاد اور متنوع معاشرے میں مذہبی آزادی اور رواداری بنیادی اصول ہیں جنہیں برقرار رکھنا ضروری ہے۔ سب کے لیے برابری اور احترام ہی حقیقی ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔ اب قابلِ غور امر یہ ہے کہ برطانوی حکومت کس طرح سوشل میڈیا پر چلتے بحث و مباحثے کو کنٹرول کرتی ہے۔

برطانیہ کو یورپی یونین کی کسٹمز یونین میں دوبارہ شامل ہونا چاہیے،سر ایڈی ڈیوی

لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما سر ایڈ ڈیوی نے اپنی ایک اہم تقریر میں برطانیہ کو یورپی یونین کے کسٹم یونین میں دوبارہ شامل ہونے تجویز پیش کی ہے۔ سر ایڈ ڈیوی کا کہنا تھا کہ “یہ اقدام نہ صرف برطانیہ کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے، بلکہ عالمی سطح پر برطانیہ کو طاقتور پوزیشن میں رکھنے کے لیے بھی اہم ہے، خاص طور پر اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ” یہ پالیسی معیشت کی تیز رفتار ترقی کی جانب ایک عملی قدم ہے اور لبرل ڈیموکریٹس کے طویل مدتی مقصد یعنی یورپی یونین میں دوبارہ شمولیت کی طرف بھی ایک اہم پیش رفت ہو گی”۔ سر ایڈ نے خبردار کیا کہ” ٹرمپ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں لیکن برطانیہ کے مفاد میں ان سے مضبوط تعلقات استوار کرنا ضروری ہے”۔  اس کے علاوہ انہوں نے ٹرمپ کی امریکی صدارت کو دنیا کے امن اور خوشحالی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ٹرمپ نے یوکرین پر روس کے حملے کو ‘جینیئس’ قرار دیا تھا اور تجارتی جنگوں کو خوش آئند سمجھا تھا”۔ اس کے برعکس لبرل ڈیموکریٹس نے برطانیہ کی موجودہ حکومت اور دیگر سیاسی رہنماؤں پر شدید تنقید کی،انہوں نے وزیر اعظم کیمی بیڈنچ سے لے کر ریزرف یو کے کے رہنما نائجل فریج تک کو نشانہ بنایا،جنہوں نے ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں بے جا لچک دکھانے کا الزام عائد کیا۔ سر ایڈ نے کہا کہ” اگر برطانیہ اس طرح ٹرمپ کے سامنے کمزور اور لچکدار نظر آیا تو ٹرمپ برطانیہ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے گا اور اس کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لے گا۔ سر ایڈ ڈیوی نے برطانیہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی دیگر تجارتی شراکت داریوں،خاص طور پر یورپ کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرے تاکہ ٹرمپ کو یہ واضح کیا جا سکے کہ برطانیہ بلیڈنگ یا دھونس کے تحت اپنے فیصلے نہیں کرے گا۔   ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرے تو وہ اسے صرف مالی اور فوجی مدد کے بدلے یوکرین کے مسئلے پر تعاون کرنے پر مجبور کرے۔ اس خطاب میں سر ایڈ نے کہا کہ برطانیہ کو یورپی یونین کے کسٹم یونین سے دوبارہ جڑنا چاہیے تا کہ تجارتی رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکے اور ملک کی معیشت کو تقویت دی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدام سے برطانیہ کو امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ بہتر پوزیشن میں بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔ سر ایڈ ڈیوی نے اصرار کیا کہ برطانیہ کو 2030 تک یورپی یونین کے کسٹم یونین میں شامل ہونے کے لیے مذاکرات کرنا شروع کر دینے چاہئیں۔ یہ تمام بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے جب برطانیہ کی معیشت میں حالیہ مہینوں میں کمی کا سامنا رہا ہے۔ نومبر کے مہینے میں معیشت میں معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا تھا مگر یہ اضافہ زیادہ تر ماہرین اقتصادیات کی توقعات سے کم رہا۔ اس سب کے باوجود سر ایڈ نے کہا کہ کسٹم یونین میں دوبارہ شامل ہونے سے برطانیہ کی معیشت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی اور عالمی سطح پر اس کی پوزیشن مضبوط ہو گی۔ دوسری جانب حکومتی حلقوں سے اس پر شدید ردعمل آیا، برطانوی وزیر خارجہ پریتی پٹیل نے لبرل ڈیموکریٹس کے اس اقدام کو ایک ‘جمہوری فیصلے’ کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء مکمل ہو چکا ہے اور اب وقت ہے کہ حکومت برطانیہ کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی سطح پر کامیاب تجارت کی راہ ہموار کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیانات صرف برطانوی عوام کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریفارم پارٹی کے نائب رہنما رچرڈ ٹائس نے بھی سر ایڈ کی تجویز پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ٹرمپ کبھی بھی یورپی یونین کے ساتھ تجارت پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں جس سے برطانیہ کو نقصان پہنچے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ”یورپی یونین کی معیشت خود مشکلات کا شکار ہے اور برطانیہ کا اس سے دوبارہ تعلق قائم کرنا ایک بے وقوفانہ فیصلہ ہو گا”۔ اس خطاب میں سر ایڈ نے ایک واضح پیغام دیا کہ برطانیہ کو اپنی تجارتی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی اپنانا ہو گی اور ان کی تجویز ہے کہ یورپی یونین کے کسٹم یونین میں دوبارہ شمولیت اس کا بہترین طریقہ ہے تاکہ برطانیہ عالمی سیاست میں اپنی جگہ مضبوط کر سکے،خاص طور پر ٹرمپ کے جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے۔

سفید فام انتہا پسند کو پناہ گزین پر حملے کے الزام میں عمر قید کی سزا

انگلینڈ کے شہر ویسٹ مڈلینڈز میں ایک 32 سالہ نوجوان ‘کالرم پارسلو’ کو پناہ گزینوں کے خلاف نفرت انگیزی کے باعث عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ کالرم پارسلو نے چھرا گھونپ کر 22 سالہ پناہ گزین ‘نہوم ہیگوس’ کو زخمی کردیا تھا،اس انتہا پسند نوجوان نے پناہ گزین کو چاقو کے وار سے اس وقت زخمی کیا جب وہ  ہوٹل میں قیام پزیر تھا۔ وولویچ کراؤن کورٹ میں سماعت کے دوران جج جسٹس ڈوو نے پارسلو کے حملے کو ‘دہشت گردی کا حملہ’ قرار دیا اور کہا کہ”یہ حملہ اس کی انتہاپسند، نیو نازی ذہنیت کی بنیاد پر ہوا تھا”۔ جج نے پارسلو کی سوچ کو مسخ شدہ، پر تشدد اور نسل پرستانہ قرار دیتے ہوئے اسے مزید کہا کہ “اس کا حملہ مکمل طور پر اجنبی اور بلا اشتعال تھاجس کے نتیجے میں ہیگوس شدید زخمی ہوگیا”۔ دوسری جانب پارسلو نے اپنے مقدمے کے دوران اعتراف کیا کہ وہ ہوٹل میں اس لیے آیا تھا تاکہ ‘چینل مائیگرنٹس’ میں سے کسی کو نشانہ بنائے کیونکہ وہ غصے اور مایوسی کا شکار تھا۔ اس کے علاوہ پارسلو نے دیگر غیر متعلقہ جنسی جرم اور لوگوں کو ایلیکٹرانک کمیونیکیشن کے ذریعے اذیت دینے کے الزامات میں بھی مجرمانہ فیصلے کا سامنا کیا۔ عدالت نے پارسلو کو قتل کی کوشش کے جرم میں کم از کم 22 سال اور 8 ماہ کی سزا سنائی،جج نے یہ بھی کہا کہ “اس حملے کا مقصد واضح طور پر پناہ گزینوں کے خلاف نفرت پھیلانا تھا اور پارسلو کی اس کارروائی نے نہ صرف ہیگوس کی زندگی کو خطرے میں ڈالا بلکہ معاشرتی امن کو بھی چیلنج کیا ہے”۔ جج جسٹس ڈوو نےفیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ”عمر قید کی سزا ہی اس کی سب سے مناسب سزا ہے کالرم پارسلو عوام کے لیے ایک شدید خطرہ ہے کیونکہ اس کے تشویشناک جرائم مزید تشدد کی طرف بڑھ سکتے ہیں، پارسلو نے ہیگوس پر ایک خاص چھری سے وار کیا تھا جبکہ اس چھری کی دھار خاصی سخت اور تیز تھی وہ چھری پارسلو نے انٹرنیٹ پر 770 پاؤنڈ میں خریدی تھی”۔ پراسیکیوشن کی طرف سے عدالت میں پیش کردہ ایک بیان میں ہیگوس نے کہا کہ وہ اب بھی اپنے ہاتھ میں شدید درد محسوس کرتا ہے اور نیند میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔اس نے مزید کہا کہ “میں اس واقعے سے پہلے خوشحال زندگی گزار رہا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا، میں تنہا ہوں اور سڑکوں پر خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتا”۔ کاؤنٹی پروسیکیوشن سروس کی انسداد دہشت گردی کے شعبے کی سربراہ بیثان ڈیوڈ نے کہاکہ “یہ حملہ عوام کو دہشت زدہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا یعنی پناہ گزینوں اور ان ہوٹلوں کے رہائشیوں کو جو پناہ گزینوں کو پناہ فراہم کرتے ہیں،کالرم پارسلو کی نیو نازی نظریات نے اسے بے رحمی سے ایک شخص پر حملہ کرنے پر اکسا لیا تھا،محض اس کی رنگت اور اصل وطن کی بنیاد پر یہ ایک دہشت گردی کا عمل تھا”۔ مقدمے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پارسلو، جس کے جسم پر ایڈولف ہٹلر کے دستخط کا ٹاٹو تھا، اپنی گرفتاری سے قبل ‘مینی فیسٹو’ پوسٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اپنے ‘فراض انگلینڈ’ کو ادا کیا ہے اور اپنے متاثرہ کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔تاہم وہ یہ پیغام بھیجنے میں ناکام ہو گیا تھا۔ پارسلو کے فلیٹ کی تلاشی کے دوران پولیس کو ایک اور چھری،ایک دھاتی بیس بال بیٹ،ایک لال کا بینڈ،سوستیکا والے نازی دور کا میڈل اور ‘مائن کامپف’ کی نقول ملی تھیں۔ پارسلو نے یہ حملہ اس وقت کیا جب وہ توہین آمیز مواصلات اور نازیبہ تصاویر کے الزامات میں تحقیقات کے تحت تھا۔ اس سب کے علاوہ جولائی اور اگست 2023 کے دوران پارسلو نے سوشل میڈیا پر ایک معروف ٹی وی صحافی کو نفرت انگیز اور نسلی نوعیت کے پیغامات بھیجے جن میں ایک جنسی ویڈیو بھی شامل تھی ،حتٰہ کہ صحافی کی بیٹی کو بھی ان پیغامات میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ صحافی خاتون نے اپنے متاثرہ بیان میں کہا کہ اس نے اپنی سیکیورٹی کا احساس کھو دیا ہے اور اکثر نیند سے جاگ کر یہ چیک کرتی ہوں کہ تمام کھڑکیاں اور دروازے بند ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ”اس واقعہ نے مجھے ڈرا دیا ہے کیونکہ اس نے مجھے یہ احساس دلایا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صرف کی بورڈ کے جنگجو نہیں ہیں بلکہ وہ لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے  ہر حد تک جا سکتے ہیں۔” یاد رہے کہ پارسلو کی پچھلی سزاوں میں 2018 میں سات خواتین کو خوف میں مبتلا کرنے اور تین خواتین کو غیر مہذب پیغامات بھیجنے کے الزامات میں 30 ماہ کی قید بھی شامل ہے۔ اس نے فیس بک پر جعلی ناموں کے ساتھ 13 مختلف خواتین کو انتہائی گرافک اور تشویشناک پیغامات بھیجے تھے۔

برطانیہ کی حکومت نے ای ٹی اے فیس میں اضافے کی تجویز دےدی

برطانیہ کے حال ہی میں متعارف کرائے گئے الیکٹرانک ٹریول اتھارٹی کی لاگت میں بدھ (16 جنوری) کو ہوم آفس کی تجویز کے بعد 60 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ سفر سے پہلے کا آن لائن چیک، جو پہلی بار نومبر 2023 میں متعارف کرایا گیا تھا، مرحلہ وار شروع کیا جا رہا ہے اور فی الحال 50 سے زائد ممالک سے آنے والے لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔ 2 اپریل 2025 سے، یہ  یورپی ممالک کے مسافروں تک بڑھ جائے گی جنہیں ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجوزہ فیس تبدیلی سے ETA درخواست کی لاگت £10 سے £16 تک بڑھ جائے گی۔ تاہم، ہوا بازی کی صنعت کے تاثرات کے بعد، حکومت نے ایئر سائیڈ ٹرانزٹ مسافروں کے لیے ایک عارضی  طور پر چھوٹ دینے پر بھی اتفاق کیا ہے، جنہیں، سفر سے پہلے ETA  درخواست دینا پڑتی تھی۔ ہوم آفس نے کہا کہ اس استثنیٰ کو “نظرثانی کے تحت رکھا جائے گا”۔ فیس میں مجوزہ اضافے نے کاروباری سفری صنعت میں تنقید کو جنم دیا ہے۔ ایجنسی کنسورشیم دی ایڈوانٹیج ٹریول پارٹنرشپ کی سی ای او جولیا لو بیو سائیڈ نے اس اقدام کو “مایوس کن” قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا  ہے کہ اس سے اندرون ملک اور باہر جانے والے سفر میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ “ایک فروغ پاتے ہوئے  ان باؤنڈ سیکٹر کے بغیر، آپ کے پاس ترقی پذیر آؤٹ باؤنڈ انڈسٹری نہیں ہو سکتی۔ حکومت کو ترقی کی حوصلہ افزائی اور فائدہ اٹھانے کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے”۔ اسی طرح  بزنس ٹریول ایسوسی ایشن کے سی ای او کلائیو ریٹن نے کہا کہ “زیادہ فیس آنے والے کاروباری مسافروں کو روک دے گی”۔ انہوں نے کہا، “حکومت کا وقت زیادہ خراب نہیں ہو سکتا کیونکہ اس پالیسی سے اہم اندرون ملک سفر کی حوصلہ شکنی کا خطرہ ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی طرف سے جو برطانیہ کے کاروبار کے ساتھ بامعنی تعاون حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔” کلائیو ریٹن نے یورپی یونین  کے آنے والے الیکٹرانک ٹریول انفارمیشن اینڈ اتھارٹی سسٹم (ETIAS) کی طرف بھی اشارہ کیا، جس کی لاگت €7 متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہم موثر طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم کاروبار کے لیے بند ہیں اور مسافروں  کو یورپ یا کسی اور جگہ جانے کا کہہ رہے ہیں” اسی دوران، ایئر لائنز نے ٹرانزٹ مسافروں کو ای ٹی اے کی ضروریات سے عارضی طور پر مستثنیٰ کرنے کے فیصلے کی تعریف کی ہے۔ انڈسٹری باڈی ایئرلائنز یوکے کے سی ای او ٹم ایلڈرسلیڈ نے کہا کہ “یہ عملی قدم اصل خطرے سے نمٹتا ہے کہ برطانیہ یورپی مراکز سے کاروبار کھو دے گا جن کے لیے ٹرانزٹ ویزا کی ضرورت نہیں ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم درخواست کرتے ہیں کہ اس سہولت کو اس اہم کردار کے پیش نظر مستقل کر دیا جائے جو UK جانے والے مسافر اہم عالمی  راستوں کو قابل عمل بنانے میں ادا کرتے ہیں، خاص طور پر ترقی کی منڈیوں کے لیے”۔ برطانیہ کی سرحدوں کو ڈیجیٹائز کرنے کے اقدام سے سوائے برطانوی اور آئرش شہریوں کے ان تمام لوگوں کو آنے سے قبل ETA حاصل کرنا ضرورت ہوگی جنہیں فی الحال ویزے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ جن مسافروں کو ملک میں داخل ہونے کے لیے ویزا درکار ہوتا ہے انہیں اب بھی ویزا حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی لیکن اسے ETA کی ضرورت نہیں ہوگی۔ توقع ہے کہ ان تبدیلیوں سے سرحدی حفاظت میں اضافہ ہو گا لیکنبرطانیہ کی قانونی فرم کنگسلے نیپلے کے مطابق، وہ مزید لوگوں کو ویزے کی ضرورت پر مجبور کر سکتے ہیں۔ فرم کی ایک وکیل کیٹی نیوبری نے کہا۔”ہوم آفس کو توقع ہے کہ ETAs کے لیے ایک سال میں تقریباً 30 ملین درخواستیں آئیں گی۔ اگر ان میں سے صرف 1 فیصد کو مجرمانہ سزائیں ہیں تو اس سے ہوم آفس کے لیے سالانہ30 لاکھ اضافی ویزے کی درخواستیں ہوں گی (اگر وہ سب پر  لاگو ہوں گے)”۔ ایک بیان میں نیوبری نے مزید کہا کہ “اس اضافی کیس کے بوجھ سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کے ہوم آفس کے عملے کی صلاحیت کے بارے میں حقیقی خدشات ہیں اور ہم ہوم آفس کے فیصلوں سے قانونی کاروائی کی توقع بھی رکھتے ہیں کیونکہ فی الحال وزٹ ویزے سے انکار کے خلاف اپیل کا کوئی حق نہیں ہے۔ “

“گلوبلسٹ کی جانب سے  لڑنے کی بجائے  آس پاس کے لوگوں سے دوستی کریں” برطانیہ یوکرین میں 100 سالہ معاہدہ طےپاگیا

برطانوی وزیرِاعظم کیراسٹارمر نے کیف میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ برطانیہ اور یوکرین کے درمیان 100 سالہ معاہدے پر دستخط ہوئے  ہیں،جس میں دفاع، توانائی اور تجارت سمیت متعدد شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ یہ معاہدہ دونوں قوموں کے درمیان موجود پیار کی عکاسی کرتا ہے۔ برطانوی وزیرِاعظم کیر اسٹارمر نے  16 جنوری کو روسی فضائی حملے کے دوران یوکرین کا دورہ کیا ، جہاں انھوں نے  یوکرین کے دارالحکومت کیف میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی۔ملاقات میں برطانوی وزیرِاعظم نے  100 سالہ شراکت داری کے معاہدے کے ساتھ مزید تعاون کی پیشکش کی۔ دورے میں طے پایا کہ اگر امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی سے قبل حمایت کے اظہار میں روس کے ساتھ جنگ ​​بندی پر بات چیت کی جاتی ہے تو برطانیہ  یوکرین اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے کاوعدہ کرے اور دارالحکومت  کیف کو مضبوط حفاظتی ضمانتیں پیش کرےگا۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 20  جنوری  کو امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالیں گے۔ وہ  یوکرین میں تقریباً تین سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں اور  یوکرین کے بڑے حصوں کو روس کے حوالے کرنے کی تجاویز بھی پیش کرچکے ہیں۔  یوکرین کے دارالحکومت کیف میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور یوکرین کے درمیان 100 سالہ معاہدہ ہوا ہے، جس میں طے پایا ہے کہ برطانیہ موبائل ایئر ڈیفنس سسٹم فراہم کرے گا اور اور بحیرہ بالٹک، بحیرہ اسود اور بحیرہ ازوف میں نئے سیکورٹی فریم ورک کے ذریعے سمندری تعاون کو تقویت دے گی۔معاہدے میں لندن  نےکیف کے دفاعی تعاون کو گہرا کرنےاور یوکرین کی دفاعی صنعت کو فروغ دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ یوکرین کو مستقبل کے نیٹو اتحادی کے طور پر تسلیم کیا۔ اس کے علاوہ 100 سالہ معاہدے کا حصہ بننے والے مختلف معاہدوں کو آنے والے ہفتوں میں برطانیہ کی پارلیمنٹ میں متعارف کرائے جانے کی توقع ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے زیلنسکی سے ملاقات سے قبل ایک بیان میں کہا تھاکہ ہماری طویل المدتی دوستی کی طاقت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ برطانوی وزیرِاعظم نے کہا کہ  روسی حملوں سے اپنے دفاع کے لیے اور ایک آزاد مستقبل کی تعمیر نو کے لیے یوکرین کی حمایت کرنا اہم ہے۔اس شراکت داری کے ذریعےہم ایک مضبوط معیشت بنا رہے ہیں جو برطانوی عوام کے لیے کام کرےگا۔ یہ ایک ایسا کوشحال معاشرہ ہوگا جواندرون اور بیرون ملک ہمارا تحفظ اور ہمارے مفادات کےلیے کام کرے گا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلامعاہدہ ہے جو برطانیہ اور یوکرین کے درمیان ایک نئی شراکت داری اور  دونوں قوموں کے درمیان موجود بڑے پیار کی عکاسی کرتا ہے۔ یاد رہے کہ کیر سٹارمر نے جولائی 2024 میں وزیرِاعظم کا عہد سنبھالا اوریوکرین میں یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔ دوسری طرف یوکرینی صدر زیلنسکی نے حال ہی میں مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ یوکرین کو طویل مدتی فوجی مدد جاری رکھیں، انھوں نے کہا کہ یہ واقعی ایک تاریخی معاہدہ ہے۔یاد رہے کہ برطانیہ یوکرین کے سب سے بڑے فوجی حمایتیوں میں سے ایک رہا ہے، جس نے فروری 2022 میں روس کی طرف سے اپنے مکمل حملے کے آغاز کے بعد سے 12.8 بلین پاؤنڈ  کی فوجی اور شہری امداد کا وعدہ کیا ہے۔ برطانیہ پہلے ہی یوکرین کو 12.8 بلین پونڈز کی مدد دے چکا ہے اور ہر سال 3 بلین پونڈز فوجی امداد دینے کا عہد کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین پہلے ہی سرحد سے دور روسی فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے برطانوی فراہم کردہ اسٹارم شیڈو میزائل استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر برطانوی عوام اس فیصلے سے کافی ناخوش دیکھائی دی ہے۔ ایکس صارفین کی جانب سے معاہدے کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ 100سال ایک بہت طویل وقت ہے۔ جب یوکرین میں دوبارہ انتخابات کی اجازت دی گئی تو شایدحکومت  اس سے بہت مختلف نظر آئے جو آج ہےمگر اب برطانیہ 100 سال  کےلیے جُڑ چکا ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ کل کو کوئی نہیں دیکھ سکتا اور  100 سال کی شراکت صرف ایک خالی روح سے دوسرے خالی الفاظ ہیں۔ ایک صارف نے سوال کرتے ہوئے لکھا کہ  یہ لمبے لمبے معاہدے جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کیا یہ دوسری جنگِ عظیم کی وجہ نہیں ہیں؟  دوسری جانب ایک اور صارف نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ 100 سالہ یوکرین اوریوکے پارٹنرشپ کرپٹو کی دنیا میں ایک طویل مدتی اسٹیکنگ ڈیل کو حاصل کرنے کے مترادف ہے- وقت کے ساتھ ساتھ تعاون اور فوائد کی ضمانت، بہتر فوجی امداد اور ڈرون ٹیک کے ساتھ یہ آپ کی بلاکچین سیکیورٹی کو برابر کرنے جیسا ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ یوکرین کی بجائے ان  بوڑھے پنشنرزکے ساتھ کھڑے ہونے کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنے گھروں کو گرم کرنے سے قاصر ہیں یا سابق فوجی جو بے گھر ہیں؟ اس معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے برطانیہ کے لوگوں سے مشورہ لیا جانا چاہیے تھا اور نیچے ہیش ٹیگ ایک اور منی لانڈرنگ اسکیم لکھا۔ ایک اور صارف نے تبصرہ کیا کہ برطانیہ میں کسی سے اس بارے میں نہیں پوچھا گیا، اس لیے ہمارے لیے یہ ایک غیر کمٹمنٹ پارٹنرشپ ہے۔100 سال کی ڈیل کے لیے عوامی ووٹ کی ضرورت ہےاوریہ شرمناک ہے۔ دوسری جانب یوکرین کے ایک صارف نے لکھا کہ یوکرین کے لیے تاریخی 100 سالہ شراکت داری اور اہم حمایت کے لیےیوکےکا شکریہ۔ آپ کی سخاوت ہماری قوم کے لیے امید اور طاقت لاتی ہے۔ ایک ساتھ ہم مضبوط کھڑے ہیں۔ جب کے اس کے جواب میں برطانوی صارف نے لکھا کہ یہ بولوں کا بوجھ ہے اور برطانوی عوام اسے جانتے ہیں۔ آپ گلوبلسٹ کی جانب سے جنگ لڑنے کی بجائے اپنے آس پاس کے لوگوں سے دوستی کریں۔ برطانیہ اور یوکرین کے اس معاہدے کو صارفین کی جانب سے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ برطانیہ اور یوکرین کا یہ معاہدہ روس کے ساتھ جاری جنگ میں کیا موڑ

برطانیہ میں پڑھنے والوں کے لیے ‘سب اچھا’: کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟

“ایک بار برطانیہ پہنچ جاؤں پھر سارے مسئلے حل ہوجائیں گے” یہ جملہ  تقریبا ہر نوجوان سے سننے کو ملتا ہے ۔ برطانیہ جانے کے لیے لوگ مختلف تدابیر لڑاتے ہیں ۔ سب سے بڑا طریقہ جو پاکستانی استعمال کرتے ہیں وہ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنا ہے۔برطانیہ میں تقریباً 17 لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔  لیکن کیا برطانیہ جانے سے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ برطانیہ میں موجود پاکستانی طلبا جو اعلی تعلیم اور روشن مستقبل کے لیے یہاں آتے ہیں ، یہاں آ کر بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ یہ مسائل ان کی تعلیم اور ذاتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پاکستانی نوجوان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پرائے دیس زیادہ تر اس لیے جاتے ہیں کہ برطانیہ جا کر وہاں کی شہریت حاصل کر لی جائے اور پھر مستقل طور پہ وہاں رہا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ دورانِ تعلیم یا تو  برطانوی لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں یا پھر کوئی مستقل ملازمت ڈھونڈتے ہیں جو ان کی شہریت کی راہ ہموار کر سکے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی افراد کے اوقات کار اتنے مختلف اور سخت ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا اپنی فیملی سے رابطہ کم ہو جاتا ہے۔ والدین سے رابطہ نہ ہونا، شریک حیات سے دوری اور اولاد پر توجہ نہ ہونا وہ فوری قیمت ہے جو بیرون ملک جانے والوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ پاکستانی طلبا برطانیہ میں تعلیم کے ساتھ کام بھی کرتے ہیں لیکن ان کو کم اجرت، سخت اوقات کار اور رہائش کی کمی کے مسائل بھی درپیش آتے ہیں۔ برطانوی قانون کے مطابق کم ترین اجرت  11 سے 12 پاونڈ مقرر ہے مگر وہاں موجود طلبا اس سے بھی کم پر کام کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں رہائش نہ ملنے کی صورت میں طلبا نجی ہاسٹل میں رہائش رکھنے پر مجبور ہیں جن کے کرائے بہت زیادہ ہیں۔ ایک اور مسئلہ جو پاکستان سے جانے والے طلبا کو بھگتنا ہوتا ہے وہ معاشرتی ہم آہنگی اور سماجی رابطوں میں مشکل کا ہے۔ زبان اور مقامی لہجوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے بات چیت میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ گلوبل سٹوڈنٹ لیونگ انڈیکس کے مطابق 2021 اور 22 میں 23 ہزار سے زائد طلبا برطانیہ میں زیرِ تعلیم ہیں اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی جاری ہے۔ عائشہ سکندر برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم پاکستانی طالبہ ہیں۔  وہ بتاتی ہیں کہ یہاں آنے سے پہلے ہمیں لگتا تھا کہ یہاں آ کر ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تعلیم  اور کام کو متوازن رکھنا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔  ہمیں کام تلاش کرنے میں اور پھر اس کام کی مناسب اجرت  ملنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ ایک اور طالب علم حمزہ یعقوب نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ مختلف سماج کا ہے۔ پاکستان میں پرائویسی کا خیال نہیں رکھا جاتا جب کہ یہاں آپ کو ساتھ والے کمرے میں رہنے والے سے بھی ملنے کے لیے پہلے اجازت لینی پڑتی ہے۔ ان کے مطابق رہائش حاصل میں کئی مسائل ہوتے ہیں اگر آپ کو کوئی اپنے گھر میں رکھتا ہے تو اس کی شرائط بھی پوری کرنی پڑتی ہیں۔یہاں  پر تعلیمی نظام بھی مختلف ہے اور امتحانی طریقہ کار بھی۔ برطانیہ یا دیگر یورپی ممالک میں ٹیکنالوجی کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے ہمیں ٹیکنالوجی اور ڈیوائسز  کو سیکھنا پڑتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے کام کرنے کو ترجیح دینی پڑتی ہے تاکہ کچھ آمدن ہو سکے۔ محمد حسین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں لوگ دوست بنانے میں وقت لیتے ہیں۔ طرزِ زندگی انتہائی مختلف ہے دکانیں صبح پانچ یا چھ بجے کھل جاتی ہیں تو ہمیں ان کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کام کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں لیکن اگر آپ کا مینیجر پاکستانی یا انڈین ہے تو وہ آپ کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کا استحصال کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات سچ ہے کہ یہاں آنے کے  کچھ عرصے کے بعد آپ یہاں کی سہولیات سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔