’یہ بہت زیادہ خطرناک ہے‘، سابق امریکی صدر جو بائیڈن میں پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص

امریکا کے سابق صدر جو بائیڈن میں پروسٹیٹ کینسر تشخیص ہوئی ہے، جو ان کی ہڈیوں تک پھیل چکا ہے۔ میڈیکل رپورٹس کے مطابق پروسٹیٹ کینسر ’جارحانہ‘ سطح پر پہنچ چکا ہے۔ یہ بات ان کے دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہی گئی ہے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق، 82 سالہ بائیڈن کو پیشاب سے متعلق کچھ علامات ظاہر ہونے پر جمعے کے روز ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑا، جہاں ابتدائی معائنے اور ٹیسٹوں کے بعد کینسر کی تصدیق ہوئی۔ یہ بھی پڑھیں: انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے بائیڈن کے دفتر کے مطابق، یہ کینسر ہارمون سے حساس ہے، جس کا مطلب ہے کہ جدید طبی طریقوں کے ذریعے اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت سابق صدر اور ان کے اہل خانہ مختلف علاج کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس خبر پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے بائیڈن اور ان کی اہلیہ کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ میلانیا اس خبر سے افسردہ ہیں اور بائیڈن کی جلد صحتیابی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ماہر یورولوجی ڈاکٹر ہربرٹ لیپور کے مطابق، جو بائیڈن کا گلیسن سکور 10 میں سے 9 ہے، جو کہ پروسٹیٹ کینسر کی شدت اور جارحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک “بہت زیادہ خطرناک” درجہ ہے، لیکن اس کے باوجود کئی مریض میٹاسٹیٹک پروسٹیٹ کینسر کے ساتھ پانچ سے دس سال یا اس سے زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر لیپور نے مزید کہا کہ گزشتہ دہائی میں اس کینسر کے علاج میں نمایاں بہتری آئی ہے، جس سے مریضوں کی زندگی کے معیار اور دورانیے میں اضافہ ممکن ہوا ہے۔ اس وقت دنیا بھر سے جو بائیڈن کے لیے ہمدردی اور دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔
چین کے جنوبی صوبوں میں شدید بارشیں، پانچ افراد ہلاک ہوگئے

چین کے جنوبی صوبوں گوانگ ڈونگ اور گوانگسی میں شدید بارشوں کے باعث پانچ افراد ہلاک اور کئی لاپتہ ہو گئے ہیں۔ حکام نے ملک کے جنوبی حصے میں موسلا دھار بارش، پہاڑی سیلاب اور زمینی تودے گرنے جیسے خطرات کے پیشِ نظر ہنگامی الرٹ جاری کر رکھا ہے۔ قومی موسمیاتی مرکز نے خبردار کیا ہے کہ اتوار سے پیر کے دوران جیانگ شی، ژی جیانگ، فوجیان، گوانگسی، گوانگ ڈونگ اور شمال مغربی سنکیانگ کے کچھ علاقوں میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان میں سے ژی جیانگ، فوجیان، گوانگ ڈونگ اور گوانگسی کے کچھ حصوں میں پیلے رنگ کا وارننگ الرٹ جاری کیا گیا ہے، جو پہاڑی علاقوں میں اچانک آنے والے سیلاب کے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے چین میں موسمی خطرات کا چار سطحی نظام ہے، سرخ سب سے زیادہ سنگین، اس کے بعد نارنجی، پھر پیلا اور آخر میں نیلا۔ اس وقت پیلا الرٹ جاری کیا گیا ہے، جو درمیانے درجے کے خطرے کو ظاہر کرتا ہے۔ موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2024 چین کے لیے ریکارڈ شدہ تاریخ میں سب سے گرم سال رہا ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا، جس کے ساتھ تیز آندھیاں اور شدید بارشیں بھی آئیں۔ ان موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بجلی کے استعمال میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، جو صنعتی پیداوار اور روزمرہ زندگی پر اثرانداز ہوا۔ سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق پیر سے منگل کے درمیان ملک کے انتہائی مغربی علاقے، جیسے تیان شان پہاڑوں کے قریب سنکیانگ، بھی شدید بارشوں کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ موجودہ موسمی حالات نے نہ صرف مقامی آبادی کی نقل و حرکت کو متاثر کیا ہے بلکہ زرعی زمینوں، رہائشی علاقوں اور بنیادی ڈھانچے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ حکام نے ہنگامی ٹیموں کو متحرک کر دیا ہے اور لوگوں کو نشیبی علاقوں سے محفوظ مقامات کی جانب منتقل کرنے کا عمل جاری ہے۔
مودی کی پالیسیوں پر تنقید، انڈیا نے خاتون پروفیسر کی شہریت منسوخ کر دی

انڈین حکومت ایک جانب دوسرے ملکوں کو اپنا موقف بتانے کے لیے بھاری خراج پر پارلیمانی وفود بھیج رہی ہے جب کہ دوسری جانب اپنے اوورسیز شہریوں کی شہریت مودی پر تنقید کی پاداش میں کینسل کر رہی ہے۔اس سلسلے کا تازہ شکار برطانیہ کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر کی پروفیسر نتاشا کول بنی ہیں۔ انہوں نے 18 مئی کو سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر لکھا کہ آج جب میں گھر پہنچی تو مجھے اپنی اوورسیز سٹیزن شپ آف انڈیا کی منسوخی کا نوٹس ملا۔ یہ ایک انتقامی اور غیر منصفانہ قدم ہے جو انڈیا میں مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف اور جمہوریت دشمن پالیسیوں کا حصہ ہے۔ مجھے یہ سزا اس لیے دی گئی ہے کیونکہ میں نے ان پالیسیوں پر تحقیق اور علمی کام کیا ہے۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انڈیا میں نفرت کے خلاف بولنے پر ماہرینِ تعلیم کو گرفتار کرنا صرف ایک داخلی دباؤ نہیں، بلکہ یہ ان غیرملکی ماہرین تعلیم کے لیے بھی ایک سخت پیغام ہے جن کی جڑیں انڈیا سے جڑی ہوئی ہیں، ان کے لیے ملک اور خاندان تک رسائی محدود یا ختم کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے اصل مقصد ایک واضح پیغام دینا ہے ہمیں اندر سے چیلنج کرنے کی ہمت نہ کرو، اور نہ ہی بیرونی دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کرو کہ یہاں درپردہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ ایک قسم کی دھمکی ہے، جو تجزیے، سوال، اور اختلافِ رائے کو جرم بنانے کی کوشش ہے۔ انہوں نے پہلے بھی اسی سال 24 فروری کو لکھا کہ مجھے صرف جمہوری اور آئینی اقدار پر بات کرنے کی پاداش میں انڈیا میں داخلے سے روک دیا گیا۔ مجھے کرناٹک کی حکومت، جو کانگریس کے زیرِ انتظام ہے، نے ایک کانفرنس میں معزز مندوب کے طور پر مدعو کیا تھا، لیکن انڈیا کی مرکزی حکومت نے مجھے ملک میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔ میری تمام دستاویزات بالکل درست اور کارآمد تھیں، برطانیہ کا پاسپورٹ اور او سی آئی کارڈ۔ اس کے علاوہ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر علی خان محمود آباد، جو اشوکا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، کو “آپریشن سندور” سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس پر گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی بی جے پی یووا مورچہ کے ایک رہنما کی شکایت پر ہوئی۔ علی خان کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹس بدسلوکی پر مبنی نہیں تھیں بلکہ ان پر ناحق سنسرشپ کی جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق انہیں دہلی سے حراست میں لیا گیا ہے۔ اشوکا یونیورسٹی نے تصدیق کی ہے کہ وہ پولیس سے رابطے میں ہے اور مکمل تعاون کر رہی ہے۔ یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب ہریانہ کی خواتین کمیشن نے ان کے ریمارکس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی باتوں سے خواتین افسران کی توہین ہوئی اور فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا ملی۔ اپنے سوشل میڈیا بیان میں علی خان نے کہا کہ ان کے ریمارکس کو غلط سمجھا گیا ہے اور خواتین کمیشن کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی قانونی اختیار نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی بطور نمائندہ خواتین افسران تقرری قابلِ تعریف ہے، اور ان کی نیت کسی بھی طور پر توہین یا نفرت پھیلانے کی نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انہوں نے ان دائیں بازو کے افراد کی بھی تعریف کی جنہوں نے خواتین افسران کی حمایت کی، اور انہیں دعوت دی کہ وہ عام مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا رویہ اپنائیں جنہیں روزانہ کی بنیاد پر تعصب اور ظلم کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، ان کے تمام تبصرے شہریوں اور فوجی اہلکاروں کی جانوں کے تحفظ کے بارے میں تھے، نہ کہ کسی کے خلاف۔
انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے

انڈیا کے شہر حیدرآباد میں اتوار کے روز آگ لگنے سے کم از کم 17 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ تاریخی چارمینار کے قریب اس وقت پیش آیا جب ایک تین منزلہ عمارت میں آگ بھڑک اٹھی۔ عمارت کے گراؤنڈ فلور پر زیورات کی دکان تھی جبکہ اوپر کی منزلیں رہائش کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ حادثے کے وقت عمارت میں 21 افراد موجود تھے۔ تلنگانہ فائر سروسز کے ڈائریکٹر جنرل وائی ناگی ریڈی کے مطابق آگ صبح کے وقت شارٹ سرکٹ کے باعث لگی۔ عمارت کی سیڑھیاں تنگ تھیں اور صرف ایک ہی باہر نکلنے کا راستہ تھا جو آگ سے بند ہو گیا، جس کی وجہ سے لوگ باہر نہ نکل سکے۔ یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان کئی افراد بے ہوش ہو گئے جنہیں فوری طور پر مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا لیکن 17 افراد جانبر نہ ہو سکے۔ مرنے والوں میں چھ بچے بھی شامل تھے جن کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں۔ وفاقی وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما جی کشن ریڈی نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور میڈیا کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آگ کی وجہ شارٹ سرکٹ تھی۔ جائے حادثہ پر تقریباً ایک درجن فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھانے میں مصروف رہیں اور بعد ازاں آگ پر قابو پا لیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایک پیغام میں کہا کہ وہ اس جانی نقصان پر بے حد غم زدہ ہیں۔ انڈیا میں اس قسم کے حادثات معمول بن چکے ہیں جہاں اکثر عمارتوں میں حفاظتی اصولوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ عمارت کے ضابطے اور فائر سیفٹی کے قوانین پر عمل نہ ہونے کے باعث چھوٹے مسائل بھی بڑے سانحے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ حکام نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے تاکہ ذمے داروں کا تعین کیا جا سکے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن بنائی جا سکے۔
زمینی آپریشن کا دائرہ کار وسیع کرنے کے بعد امداد کا اعلان کریں گے، اسرائیل

اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی بحران کو کم کرنے کے لیے اپنی ناکہ بندی میں جزوی نرمی کرتے ہوئے محدود مقدار میں خوراک فراہم کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ اعلان وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے اُس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں زمینی آپریشن کا دائرہ وسیع کرنے کا اعلان کیا۔ مارچ میں اسرائیل کی جانب سے لگائی گئی امدادی پابندیوں کے باعث غزہ میں قحط کے خدشات میں اضافہ ہو گیا تھا، اور عالمی برادری کی جانب سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ اسرائیل انسانیت کی بنیاد پر امداد بحال کرے۔ فلسطینی صحت حکام کے مطابق گزشتہ ہفتے اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں فلسطینی جاں بحق ہوئے، جن میں صرف ایک رات میں 130 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان نیتن یاہو کے دفتر کے بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی دفاعی افواج کی سفارش پر، “حماس کو شکست دینے کے لیے جاری شدید لڑائی کی ضرورت” کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسرائیل نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں بنیادی خوراک کی ترسیل کی اجازت دے گا تاکہ قحط کی صورتِ حال سے بچا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے امدادی امور کے سربراہ ٹام فلیچر کے ترجمان ایری کانیکو نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حکام نے اقوام متحدہ سے محدود انسانی امداد کی فراہمی دوبارہ شروع کرنے کے سلسلے میں رابطہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “زمین پر موجود صورتِ حال کے پیش نظر” امدادی رسد کے حوالے سے مزید بات چیت جاری ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قطر میں اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا ایک نیا دور بغیر کسی نمایاں پیش رفت کے اختتام پذیر ہوا ہے۔ نیتن یاہو کے مطابق موجودہ مذاکرات میں یرغمالیوں کی رہائی، جنگ بندی، اور غزہ کی عسکریت سے صفائی کے ساتھ ساتھ حماس کے عسکری رہنماؤں کی جلاوطنی جیسے نکات شامل ہیں۔ تاہم، حماس ان شرائط کو پہلے بھی مسترد کر چکی ہے۔ اسرائیلی فوج نے بعد ازاں اپنے ایک بیان میں عندیہ دیا کہ اگر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کسی معاہدے کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ اپنی کارروائیاں محدود کرنے پر غور کر سکتی ہے۔ فوجی سربراہ ایال ضمیر نے غزہ میں تعینات اسرائیلی افواج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “فوج اپنے ملک کی سیاسی قیادت کو اتنی لچک فراہم کرے گی جس سے وہ یرغمالیوں کے معاہدے تک پہنچ سکیں۔” فوجی بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ “گیڈون کے رتھ” نامی ایک زمینی کارروائی کے آغاز کے بعد، غزہ میں گزشتہ ہفتے کے دوران حماس کے 670 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا گیا، اور درجنوں حماس جنگجو ہلاک کیے گئے۔ اس کارروائی کا مقصد غزہ کے مخصوص علاقوں میں “آپریشنل کنٹرول” حاصل کرنا ہے۔ مجموعی طور پر یہ صورتِ حال اس بات کی عکاس ہے کہ ایک طرف اسرائیل اپنی عسکری حکمت عملی کو جاری رکھتے ہوئے غزہ میں پیش قدمی کر رہا ہے، تو دوسری جانب عالمی دباؤ اور انسانی المیے کے پیشِ نظر محدود نرمی کے اشارے بھی دے رہا ہے۔ تاہم، اصل تبدیلی کا انحصار قطر میں جاری مذاکرات کی کامیابی اور دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد سازی پر ہے۔
امریکی خاتون اول کا مجسمہ غائب، کہاں نصب تھا؟

امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ کا کانسی کا مجسمہ ان کے آبائی ملک سلوانیا کے شہر سیونیسا سے پراسرار طور پر غائب ہو گیا ہے، جس کے بعد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کے مطابق یہ مجسمہ 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ صدارت کے دوران نصب کیا گیا تھا، جب میلانیا ٹرمپ کے پہلے لکڑی سے بنے مجسمے کو نذرِ آتش کر دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ یہ وہی مقام ہے، جہاں 1970 میں میلانیا ٹرمپ کی پیدائش ہوئی تھی۔ ترجمان مقامی پولیس کے مطابق انہیں 13 مئی کو مجسمہ غائب ہونے کی اطلاع دی گئی اور اب ذمہ داروں کی تلاش کے لیے باقاعدہ چھان بین شروع کی جا چکی ہے۔ پولیس کے مطابق مجسمہ کے صرف پیر اور دو میٹر اونچے درخت کا تنا باقی رہ گیا ہے، جس پر یہ مجسمہ کھڑا تھا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق مجسمے کو اس کے ٹخنوں سے اکھاڑ کر لے جایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مقامی افراد نے اس واقعے پر حیرت کے بجائے بے نیازی کا اظہار کیا ہے۔ ایک شہری نے تبصرہ کیا ہے کہ “ہمیں اس مجسمے پر کبھی فخر محسوس نہیں ہوا، تو ہمارے خیال میں یہ بہتر ہے کہ اسے ہٹا دیا گیا۔” کانسی کے اس مجسمے کو اکثر تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ اس کی ساخت اور خدوخال میلانیا ٹرمپ کی شخصیت یا حلیے سے میل نہیں کھاتے تھے، جس کے باعث یہ متنازع آرٹ پیس بن گیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب میلانیا ٹرمپ کے مجسمے کو نشانہ بنایا گیا ہو بلکہ اس سے قبل 2019 میں مقامی فنکار ایلس ‘میکسی’ زوپیوک نے ایک لکڑی کا مجسمہ بنایا تھا، جسے بعد ازاں نامعلوم افراد نے امریکی یوم آزادی (4 جولائی) پر جلا دیا، جس کے بعد امریکی فنکار بریڈ ڈاؤنی نے اسی مجسمے کی کانسی میں نقل تیار کی تاکہ وہ زیادہ پائیدار ثابت ہو۔ مجسمہ بنانے والے آرٹسٹ بریڈ ڈاؤنی کا کہنا تھا کہ وہ ابتدا ہی سے اس مجسمے کا کانسی ورژن تیار کرنا چاہتے تھے تاکہ اسے مختلف آرٹ گیلریوں میں نمائش کے لیے رکھا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فن پارہ “انتہائی مضبوط مواد سے بنایا گیا ہے تاکہ اسے یوں تباہ نہ کیا جا سکے، مگر مجسمے کو اب ٹخنوں سے کاٹ کر غائب کر دیا گیا ہے، جس سے ڈاؤنی کا دعویٰ بے اثر ہو گیا۔ ڈاؤنی نے اس مجسمے کو ایک سیاسی بیان قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق میلانیا ٹرمپ کو امریکی شہریت کے عمل میں تیزی سے فائدہ ملا، جب کہ دیگر تارکین وطن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی “غیرملکی مخالف” پالیسیوں کا شکار بنے۔
امریکا کا انڈین آم قبول کرنے سے انکار

انڈین حکام نے بھیجی گئی شپ منٹس کی مکمل دستاویزات نہیں بھیجی تھیں۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ آم ہوائی جہاز کے ذریعے امریکا کے مختلف ایئرپورٹس، بشمول لاس اینجلس، سان فرانسسکو اور اٹلانٹا بھیجے گئے تھے لیکن امریکی حکام نے انہیں مسترد کر دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ آموں کو 8 اور 9 مئی کو ممبئی میں تابکاری (irradiation) کے عمل سے گزارا گیا تھا۔ یہ عمل پھلوں کی شیلف لائف بڑھانے اور کیڑوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہوتا ہے لیکن متعلقہ دستاویزات کی کمی کے باعث یہ شپمنٹس معیار پر پوری نہیں اتریں۔ امریکی حکام نے برآمد کنندگان کو ہدایت دی کہ وہ یا تو یہ آم ضائع کر دیں یا واپس انڈیا بھجوا دیں۔ برآمد کنندگان نے آموں کو ضائع کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے انہیں تقریباً 5 لاکھ ڈالر کا ممکنہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔ امریکا کا یہ فیصلہ برآمدی عمل میں سخت معیار، درست دستاویزات کی اہمیت اور بین الاقوامی منڈی میں مسابقتی تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: ’آج شہر سوگ میں ہے‘، امریکی ریاستوں میں شدید طوفان، 25 افراد ہلاک ہوگئے
’آج شہر سوگ میں ہے‘، امریکی ریاستوں میں شدید طوفان، 25 افراد ہلاک ہوگئے

امریکی ریاستوں کینٹکی، میسوری اور ورجینیا میں شدید طوفان اور بگولوں کے باعث کم از کم 25 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ کینٹکی میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، جہاں ریاست کے گورنر اینڈی بیشیر نے بتایا کہ کم از کم 14 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ کینٹکی آج کا دن افسوسناک خبر کے ساتھ شروع کر رہا ہے، اور امکان ہے کہ مرنے والوں کی تعداد مزید بڑھے گی۔ لورئل کاؤنٹی میں 9 افراد ہلاک ہوئے، جو ریاست میں سب سے متاثرہ علاقہ ہے۔ علاقے کی فضائی تصاویر میں مکمل تباہی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں گھر بکھر گئے اور گاڑیاں الٹ گئیں۔ میسوری میں بھی طوفان نے بڑی تباہی مچائی۔ سینٹ لوئس شہر میں کم از کم 5 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ دو افراد ریاست کے جنوب مشرقی علاقے اسکاٹ کاؤنٹی میں مارے گئے۔ شہر کی میئر کارا اسپینسر نے کہا کہ آج رات ہمارا شہر سوگ میں ہے، کیونکہ طوفان کی تباہی واقعی خوفناک ہے۔ مقامی ہسپتالوں میں کم از کم 35 زخمیوں کو داخل کیا گیا ہے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ طوفان کی زد میں ورجینیا سمیت دیگر ریاستیں بھی آئیں۔ نیشنل ویدر سروس کے مطابق، جمعہ کو مسیسیپی، ٹینیسی اور اوہائیو وادیوں کے علاقوں میں شدید بارش، گرج چمک اور بگولے آئے۔ نیو جرسی میں بھی ایک طوفان کی اطلاع ملی ہے۔ کم از کم چھ بگولے مسوری اور ہمسایہ ریاست الینوائے میں دیکھے گئے۔ ہفتہ کی صبح تک تقریباً 3 لاکھ 34 ہزار افراد بجلی کے بغیر تھے۔ پاور آؤٹیج کی سب سے زیادہ شکایات کینٹکی، میسوری اور مشی گن سے سامنے آئیں۔ شدید موسم کے باعث سینٹ لوئس کے دو پولیس اضلاع میں رات 9 بجے سے صبح 6 بجے تک کرفیو نافذ کر دیا گیا تاکہ عوام کو خطرناک ملبے اور ممکنہ لوٹ مار سے بچایا جا سکے۔ یہ طوفانی سلسلہ امریکا کے مختلف علاقوں میں شدید نقصان کا باعث بن رہا ہے اور حکام عوام کو محتاط رہنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں 100 سے زائد فلسطینی شہید: طبی عملہ

جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں ایک کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 100فلسطینی شہید ہو گئے۔ مقامی طبی حکام کے مطابق اتوار کے روز حملے میں خواتین اور بچے بھی شہید ہوئے ہیں، جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے اور کئی خیموں میں آگ لگ گئی۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، اور پچھلے 72 گھنٹوں میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے ’سرخ لکیر‘ ہے، وزیراعظم شہباز شریف غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ کے باوجود اسرائیلی حملوں میں کمی نہیں آئی، بلکہ مزید شدت آ گئی ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس نے اس حملے کو “وحشیانہ جرم” قرار دیا ہے اور اس کا ذمہ دار امریکی انتظامیہ کو ٹھہرایا ہے۔ ادھر اسرائیلی فوج نے تازہ حملے پر کوئی بیان نہیں دیا، لیکن پہلے کہا تھا کہ وہ اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے کے لیے غزہ پر بھرپور کارروائی جاری رکھے گی۔ دوسری جانب مصر اور قطر، جو امریکا کی حمایت سے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے نئی بات چیت شروع کی ہے۔ تاہم رائٹرز کے ذرائع کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والی مذاکرات میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، کیونکہ دونوں فریق اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔
نیویارک: بحری جہاز پُل سے ٹکرا گیا، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا

نیویارک سٹی میکسیکن بحریہ کا تربیتی جہاز بروکلین برج سے ٹکرا گیا۔ نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز کے مطابق، جہاز کے اونچے مستول پل سے ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں ان کے اوپری حصے کٹ گئے اور کم از کم 19 افراد زخمی ہو گئے، جن میں سے تین کی حالت تشویش ناک ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جہاز مشرقی دریا کے راستے بروکلین برج کے نیچے سے گزرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جہاز کے مستول 147 فٹ بلند تھے، جو پل کی اونچائی سے زیادہ نکلے اور یوں یہ ٹکراؤ پیش آیا۔ حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں نیول کیڈٹس کو سفید وردیوں میں جہاز کی رکاوٹوں سے لٹکتے اور راہگیروں کو خوفزدہ ہو کر بھاگتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: صرف تین مہینوں میں فیملی عدالتوں کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ، معاشرتی شعور یا بڑھتے مسائل؟ میکسیکو کی بحریہ نے بتایا کہ جہاز پر 277 افراد سوار تھے اور حادثے میں 22 زخمی ہوئے، جن میں سے 19 کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ خوش قسمتی سے کوئی بھی شخص دریا میں نہیں گرا، اس لیے ریسکیو آپریشن کی ضرورت نہیں پڑی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حادثے کی ممکنہ وجہ مکینیکل خرابی ہو سکتی ہے، تاہم اس پر ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ نیویارک شہر کے محکمۂ ٹرانسپورٹ کے مطابق، پل کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا اور ابتدائی معائنے کے بعد ٹریفک دونوں اطراف بحال کر دی گئی ہے۔ تربیتی جہاز، جو 1981 میں اسپین کے بلباؤ شہر میں تیار کیا گیا تھا، نیویارک کے ساؤتھ اسٹریٹ سی پورٹ میوزیم کے ساتھ مشترکہ طور پر شہر کے دورے پر آیا تھا۔ عوام کو اس دوران جہاز کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی، اور اس کا دورہ ہفتے کی شام کو مکمل ہونا تھا۔ حادثے کے بعد یہ جہاز نیویارک سے روانہ ہو کر آئس لینڈ کی جانب جا رہا تھا۔ میکسیکو کی وزارت خارجہ نے بیان دیا کہ امریکا میں تعینات میکسیکن سفیر اور دیگر حکام زخمی کیڈٹس کی مدد کر رہے ہیں اور امریکی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔