غزہ میں اسرائیلی بمباری، ایک ہی خاندان کے نو بچے شہید

Mom crying with child

غزہ میں اسرائیلی شدید بمباری کا سلسلہ جاری ہے، خان یونس شہر میں ایک ہی حملے میں فلسطینی ڈاکٹر علاء النجار کے 9 بچے شہید ہو گئے، صرف ایک بچہ زندہ بچ سکا۔ اسرائیلی فوج نے واقعے کی نظرثانی کا اعلان کیا ہے جبکہ غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ معصوم بچوں کا قتل اسرائیلی فوجیوں کا مشغلہ بن چکا ہے۔ دوسری جانب غزہ میں انسانی بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ خوراک کی قلت کے باعث چار سالہ محمد یاسین بھوک سے دم توڑ گیا۔ اقوام متحدہ کا ادارہ عالمی خوراک پروگرام خبردار کر چکا ہے کہ غزہ میں 70,000 سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسرائیل نے بدھ سے اب تک صرف 100 امدادی ٹرک داخل ہونے دیے ہیں، جو دو ملین کی آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں اب تک کم از کم 53,901 فلسطینی شہید اور 122,593 زخمی ہو چکے ہیں۔ سرکاری میڈیا دفتر کے مطابق مجموعی شہداء کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں وہ ہزاروں افراد بھی شامل ہیں جو ملبے تلے دب کر شہید ہو چکے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کے حملوں میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک اور 200 سے زائد یرغمال بنائے گئے تھے۔ اس ظلم کے چلتے عالمی برادری مسلسل خاموش ہے اور امریکا اسرائیل کی پشت پناہی پر کھلی حمایت میں مصروف ہے۔ مزید پڑھیں: ہارورڈ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے نشانے پر کیوں؟

یوکرین کا روس پر حملہ، فضائی دفاعی نظام نے 95 ڈرونز ناکام بنا دیے

Ukrain attack on russia

روسی وزارت دفاع کے مطابق آج صبح یوکرین کی جانب سے ڈرونز کا ایک منظم حملہ کیا گیا، جس میں لگ بھگ 100 بغیر پائلٹ طیارے روسی حدود میں داخل ہونے کی کوشش میں تھے۔ حکام نے بتایا کہ فضائی دفاعی نظام نے چار گھنٹوں کے دوران 95 ڈرونز کو کامیابی سے مار گرایا یا ناکام بنایا۔ ان حملوں میں دو ڈرون ماسکو کے قریب تباہ کیے گئے، جب کہ زیادہ تر حملے روس کے وسطی اور جنوبی علاقوں پر مرکوز تھے۔ ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانن نے بعد ازاں ٹیلیگرام پر بتایا کہ دارالحکومت کے اطراف 11 ڈرونز کو روکا گیا۔ اس کارروائی کے دوران ماسکو کے تین بڑے ہوائی اڈے عارضی طور پر بند کر دیے گئے۔ علاقائی حکام کے مطابق تولہ اور ٹور شہر میں بھی ڈرونز کو مار گرایا گیا۔ واقعہ نے روسی فضائی تحفظ پر نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مزید پڑھیں: ہارورڈ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے نشانے پر کیوں؟

‘معاہدہ نہیں، ایکشن چاہتا ہوں’، ٹرمپ کا یورپی یونین پر 50 فیصد ٹیرف، جب کہ آئی فونز پر 25 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان

Trump

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین پر یکم جون سے 50 فیصد درآمدی ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دی ہے، جب کہ ایپل کمپنی کو بھی خبردار کیا ہے کہ 25 فیصد ٹیکس لگایا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیان جاری کرتے ہوئے ٹرمپ نے یورپی یونین پر یکم جون سے 50 فیصد درآمدی ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دی ہے، جب کہ ایپل کمپنی کو بھی خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی صارفین کے لیے درآمد شدہ آئی فونز امریکا میں تیار نہ کیے گئے تو ان پر 25 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کی ان دھمکیوں کے بعد عالمی مالیاتی منڈیاں غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گئی ہیں۔ امریکی اور یورپی اسٹاک مارکیٹس میں مندی دیکھنے میں آئی، ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی، جب کہ سونے کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ساتھ ہی امریکی ٹریژری بانڈز کی منافع کی شرح بھی کم ہو گئی، جو معیشت کی سست روی کا عندیہ دے رہی ہے۔ ٹرمپ نے یورپی یونین سے تجارتی مذاکرات کی رفتار کو ‘ناقص’ قرار دیتے ہوئے کہاکہ “میں کسی معاہدے کا خواہاں نہیں، ہم نے 50 فیصد پر معاہدہ سیٹ کر دیا ہے، اگر وہ اپنی فیکٹری یہاں بنائیں تو کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔” امریکی صدر نے ایپل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایپل کو امریکا میں آئی فونز تیار کرنا ہوں گے، یہ ٹیکس صرف ایپل نہیں بلکہ سام سنگ اور دیگر اسمارٹ فون ساز کمپنیوں پر بھی لاگو ہوگا۔ عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس اعلان پر یورپی یونین کے تجارتی چیف ماروش سیفکووچ نے ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی کمیشن دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند معاہدے کے لیے پرعزم ہے اور تجارت میں ‘دھمکیوں کے بجائے باہمی احترام’ کی ضرورت ہے۔ ڈچ وزیر اعظم ڈک شوف نے بھی کہا کہ یورپی یونین اس اقدام کو مذاکرات کا حصہ سمجھے گی۔ ماہرین کے مطابق 50 فیصد ٹیرف کی صورت میں جرمن گاڑیوں، اطالوی زیتون کے تیل سمیت کئی مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گزشتہ سال یورپی یونین کی امریکا کو برآمدات 500 ارب یورو سے تجاوز کر گئیں تھیں، جن میں جرمنی، آئرلینڈ اور اٹلی سرِفہرست تھے۔ خیال رہے کہ ایپل کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایپل انڈیا میں پیداوار بڑھانے پر کام کر رہا ہے تاکہ چین پر انحصار کم کیا جا سکے۔ اس دوران جاپان کے چیف تجارتی مذاکرات کار ریوسی اکازاوا نے بھی امریکی حکام سے ملاقات کی اور کہا کہ مذاکرات تفصیلی اور کھلے ماحول میں ہوئے، جلد بازی میں معاہدہ کرنا جاپان کے مفاد میں نہیں۔ یاد رہے کہ 90 دن کی مہلت کے اختتام پر جولائی میں مزید تجارتی فیصلے متوقع ہیں، جس کے لیے عالمی سطح پر بے چینی پائی جا رہی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے نشانے پر کیوں؟

Harward gf

ایک وقت تھا جب ہارورڈ یونیورسٹی کے چین سے مضبوط روابط اسے عالمی سطح پر علمی، مالی اور سفارتی وقار دلاتے تھے لیکن اب یہی تعلقات امریکی سیاسی حلقوں میں ہارورڈ کے لیے وبالِ جان بنتے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے جمعرات کے روز ہارورڈ کی غیر ملکی طلبا کو داخلہ دینے کی اجازت منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ الزام یہ ہے کہ یونیورسٹی میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے اثر و رسوخ کی سرگرمیاں جاری ہیں اور کیمپس پر چین نواز عناصر کی پشت پناہی سے ہارورڈ میں مبینہ یہود دشمنی کو فروغ مل رہا ہے۔ دوسری جانب ہارورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا جس پر جمعہ کے روز ایک امریکی جج نے عارضی طور پر انتظامیہ کا حکم روک دیا ہے جبکہ مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ یہ خدشات نئے نہیں، کئی ریپبلکن ارکانِ کانگریس طویل عرصے سے چین کے ہارورڈ کے ذریعے امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے، سیکیورٹی قوانین کو بائی پاس کرنے اور امریکا میں چینی حکومت پر تنقید کو دبانے کے امکانات پر تشویش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے: مزید 76 معصوم فلسطینی شہید وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار کے مطابق “ہارورڈ نے طویل عرصے تک چینی کمیونسٹ پارٹی کو اپنی حدود میں آزادانہ کام کرنے دیا۔ادارے نے سی سی پی کے احکامات پر مبنی انتقامی کارروائیوں کو نظر انداز بھی کیا۔” ہارورڈ نے فوری طور پر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم اس نے حکومتی اقدام کو آزادیٔ اظہار رائے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے “نقطہ نظر کی بنیاد پر سزا دی جا رہی ہے۔” ہارورڈ کے چین سے روابط برسوں پر محیط ہیں، جن میں تحقیقی شراکت داریاں، تعلیمی مراکز، اور مالی عطیات شامل ہیں۔  2014 میں ہانگ کانگ کے بزنس مین رونی چن کی جانب سے 350 ملین ڈالر کا عطیہ بھی انہی تعلقات کا نتیجہ تھا جس پر یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کو اُن کے والد ٹی ایچ چن کے نام سے منسوب کیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق ہارورڈ نے 2020 کے بعد بھی سنکیانگ پر امریکی پابندیوں کے باوجود “XPCC” کے افسران کو صحت سے متعلق تربیت فراہم کی۔ محکمہ داخلہ کے مطابق یہ تعاون 2024 تک جاری رہا، حالانکہ امریکا XPCC کو ایغور مسلمانوں پر مبینہ مظالم کی وجہ سے پابندیوں کی زد میں لا چکا ہے۔ لازمی پڑھیں: ’پہلا قدم‘، امریکا نے شام پر لگائی گئی پابندیاں اٹھالیں مزید برآں، اپریل 2024 میں ایک چینی طالب علم نے ہارورڈ میں چینی سفیر کی تقریر کے دوران ایک احتجاج کرنے والے امریکی نژاد طالب علم کو زبردستی باہر نکالا، جس سے یہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ چینی حکومت طلبا کے ذریعے تنقید کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں غیر ملکی مالی امداد کی نگرانی کے لیے امریکی محکمہ تعلیم نے ہارورڈ سے تمام غیر ملکی فنڈنگ کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔ محکمہ کے مطابق یونیورسٹی نے بڑی تعداد میں عطیات اور معاہدے درست طریقے سے رپورٹ نہیں کیے۔ چینی سفارتخانے نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ “چین اور امریکا کے درمیان تعلیمی تبادلے باہمی فائدے کے حامل ہیں اور انہیں سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔” لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام نے ماہرین تعلیم کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کی محقق یاقیو وانگ کہتی ہیں کہ “چینی حکومت کی تنقید کو دبانے کی کوششیں اور جاسوسی کے خدشات حقیقی ہیں، مگر ان کا حل غیر ملکی طلبا کی پابندی نہیں ہو سکتا۔” مزید پڑھیں: میکسیکو میں سیاحتی مقام پر ’گرم ہوا کا غبارہ‘ حادثے کا شکار، 12 افراد زخمی

ہیمبرگ اسٹیشن پر چاقو سے حملہ، 18 افراد زخمی، حملہ آور خاتون گرفتار

Hemburg attack

جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں گزشتہ روز شام کے وقت ریلوے اسٹیشن پر خاتون نے چاقو سے حملہ کر کے 18 افراد کو زخمی کر دیا۔  جرمن اخبار ‘بلڈ’ کے مطابق زخمیوں میں سے چار کی حالت تشویشناک ہے جبکہ چھ دیگر افراد کو شدید زخم آئے ہیں۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ایک 39 سالہ خاتون کو حراست میں لے لیا جو بغیر کسی مزاحمت کے گرفتار ہو گئی۔ پولیس ترجمان فلورین آبن سیٹھ نے بتایا کہ تاحال کوئی شواہد نہیں ملے کہ حملہ سیاسی محرکات کے تحت کیا گیا ہو۔ ترجمان کے مطابق ابتدائی تحقیقات اس جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ ممکن ہے حملہ آور ذہنی دباؤ یا کسی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو۔ واقعے کے بعد ریلوے اسٹیشن کو کچھ وقت کے لیے بند کر دیا گیا جبکہ جائے وقوعہ پر امدادی ٹیمیں اور فورنزک ماہرین نے شواہد اکٹھے کیے اور زخمیوں کو قریبی اسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ جرمن چانسلر فریڈرش مرز نے اس واقعے کو ‘چونکا دینے والا’ قرار دیتے ہوئے متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کیا ہے۔ پولیس واقعے کی مزید تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ حملے کے اصل محرکات جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مزید پڑھیں: ’زندگی رُک سی گئی ہے‘، روس اور یوکرین میں قیدیوں کا تبادلہ، فوجیوں کے علاوہ عام شہری بھی شامل

آسٹریلیا میں بارشوں کے بعد سیلاب: پانچ افراد ہلاک، ہزاروں مکانات متاثر

Flood in austrelia

آسٹریلیا کے جنوب مشرقی علاقوں میں گزشتہ ہفتے ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی شدید سیلابی صورتحال نے تباہی مچا دی۔ اس سیلابی صورتحال میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے جبکہ 10,000 سے زائد مکانات متاثر ہوئے۔  ہفتہ کے روز وزیر اعظم انتھونی البانیسی نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں صفائی اور بحالی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ نیوز ساؤتھ ویلز کے مڈ-نارتھ کوسٹ میں سیلاب نے کئی قصبوں کو کاٹ کر رکھ دیا، مویشی بہہ گئے اور متعدد رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ ریاستی ایمرجنسی سروسز نے اندازہ لگایا ہے کہ کم از کم 10,000 جائیدادیں متاثر ہوئی ہیں۔ حکام کے مطابق اگرچہ جمعہ کے بعد سے موسم کی صورتحال میں بہتری آئی ہے مگر اب بھی سیکڑوں افراد مختلف انخلا مراکز میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ریاستی ایمرجنسی کمشنر مائیک واسنگ نے بتایا کہ گزشتہ رات کے دوران 52 ریسکیو آپریشنز انجام دیے گئے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق ایک 80 سالہ شخص کی لاش تری کے قریب ایک سیلاب زدہ علاقے سے برآمد ہوئی ہے جو ریاست کے بدترین متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ لازمی پڑھیں: غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 85 معصوم فلسطینی شہید پولیس کے مطابق یہ مقام سڈنی سے تقریباً 300 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ وزیر اعظم البانیسی نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر پیغام دیتے ہوئے کہا کہ “ہم وفاقی، ریاستی اور مقامی حکومتوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں تاکہ متاثرہ افراد کو فوری اور دیرپا مدد فراہم کی جا سکے۔” وہ جمعہ کے روز تری کا دورہ کرنے والے تھے مگر سیلابی صورتحال کے باعث ان کا دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں دریا اپنی حدود سے باہر نکل آئے، سڑکیں اور چوراہے زیرآب آ گئے اور گاڑیاں تقریباً چھت تک پانی میں ڈوب گئیں۔ ایک مرحلے پر 50,000 سے زائد افراد سیلابی پانی کے باعث محصور ہو گئے تھے۔ ماہرین کے مطابق آسٹریلیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات واضح ہو چکے ہیں جہاں گزشتہ چند سالوں میں قحط، جنگلاتی آگ اور اب مسلسل سیلاب جیسی شدید موسمی آفات دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ حکام کی جانب سے نقصانات کا جائزہ لینے اور متاثرین کو امداد فراہم کرنے کا عمل جاری ہے جبکہ ممکنہ مزید بارشوں کے پیش نظر الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ مزید پڑھیں: میکسیکو میں سیاحتی مقام پر ’گرم ہوا کا غبارہ‘ گر گیا، 12 افراد زخمی

غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے: مزید 76 معصوم فلسطینی شہید

Gaza situation

غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملوں کو شدت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے، اس بمباری کے نتیجے میں جمعہ کی صبح سے اب تک کم از کم 76 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے سب سے ہولناک حملہ جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں ایک گھر پر کیا گیا، عینی شاہدین کے مطابق “اسرائیلی فوج شہریوں کو تفریحا قتل کر رہی ہے”۔ اس حملے میں 50 کے قریب افراد شہید یا لاپتہ ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اب 53,822 سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 1,22,382 ہو چکی ہے۔ دوسری جانب غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر کا کہنا ہے کہ اب تک شہادتوں کی اصل تعداد 61,700 سے زائد ہے کیونکہ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن کے زندہ بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے خبردار کیا ہے کہ “یہ جنگ اپنے سب سے کٹھن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے”۔ انہوں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ صرف ‘چائے کے چمچ کے برابر’ امداد غزہ بھیج رہا ہے اور محصور شمالی غزہ تک تو اب تک کوئی امداد پہنچی ہی نہیں۔ واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 200 سے زائد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیل کو کھلی امریکی حمایت حاصل ہے اور عالمی برادری اس بے رحم خون ریزی اور انسانی المیے پر شرمناک حد تک خاموش ہے۔ مزید پڑھیں: ’پہلا قدم‘، امریکا نے شام پر لگائی گئی پابندیاں اٹھالیں

’زندگی رُک سی گئی ہے‘، روس اور یوکرین میں قیدیوں کا تبادلہ، فوجیوں کے علاوہ عام شہری بھی شامل

Prisoners

روس اور یوکرین کے درمیان 2022 میں شروع ہونے والی مکمل جنگ کے بعد قیدیوں کا سب سے بڑا تبادلہ ہوا ہے، جس میں دونوں ممالک نے 390، 390 قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ اس تبادلے میں 270 فوجی اور 120 عام شہری شامل تھے، جو بیلاروس کی سرحد پر یوکرینی علاقے میں ایک دوسرے کے حوالے کیے گئے۔ یہ اقدام استنبول میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں ہوا، جس کے تحت مجموعی طور پر 1000 قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا گیا تھا، اور آئندہ دنوں میں مزید تبادلوں کی امید کی جا رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے یہ تبادلہ اس لحاظ سے منفرد رہا کہ اس میں بڑی تعداد میں عام شہری بھی شامل تھے، جبکہ اس سے قبل صرف فوجی قیدیوں کے تبادلے دیکھے گئے تھے۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق، یوکرینی قیدیوں میں وہ لوگ شامل تھے جنہیں حالیہ مہینوں میں روسی سرحدی علاقے کرسک میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ان افراد کو اب بیلاروس سے روس منتقل کیا جا رہا ہے جہاں ان کا طبی معائنہ اور علاج کیا جائے گا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے سوشل میڈیا پر اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ہر قیدی کی شناخت اور تفصیلات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس عمل میں اپنے لوگوں کو واپس لانے کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ یوکرینی حکام نے تصدیق کی کہ رہا کیے گئے فوجی یوکرین کے مختلف علاقوں، کیف، چرنیہیو، سومی، ڈونیٹسک، کھارکیو، اور کھیرسن، سے تعلق رکھتے تھے۔ رہا شدگان میں تین خواتین بھی شامل ہیں، اور کچھ افراد 2022 سے روسی قید میں تھے۔ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تبادلے پر اپنی ٹرتھ سوشل پوسٹ میں مبارکباد دی اور کہا کہ یہ پیش رفت کسی بڑی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ تبادلے کی خبر کے بعد شمالی یوکرین میں کئی اہل خانہ جمع ہوئے، جنہیں امید تھی کہ ان کے جاننے والے بھی آزاد کیے گئے ہوں گے۔ ایک ماں نتالیہ نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تین سال سے اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں، جبکہ اولہا نے کہا کہ جب سے اس کا بیٹا لاپتہ ہوا، اس کی زندگی رک سی گئی ہے۔ یہ تبادلہ ترکی میں ہونے والی اس دو گھنٹے کی ملاقات کا نتیجہ ہے جہاں روس اور یوکرین کے وفود مارچ 2022 کے بعد پہلی بار آمنے سامنے ہوئے تھے۔ تاہم، جنگ بندی پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ مذاکرات کا دوسرا دور بھی متوقع ہے، اور روس یوکرین کو ایک میمورنڈم پیش کرے گا۔ ادھر ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن سے دو گھنٹے طویل فون کال کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ فریقین فوری جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، تاہم زیلنسکی نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے روس کی جانب سے وقت خریدنے کی کوشش قرار دیا۔ اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ویٹیکن کو ممکنہ ثالث بنانے کی تجویز کی حمایت کی، لیکن لاوروف نے اسے غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا۔ لاوروف نے مزید دعویٰ کیا کہ زیلنسکی کی صدارت قانونی نہیں رہی اور کسی بھی امن معاہدے سے قبل یوکرین میں نئے انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ ایک قانونی قیادت کے ساتھ معاہدہ ممکن ہو۔ ان کے بقول، روس کی ترجیح ایک ایسا معاہدہ ہے جو دیرپا امن اور تمام فریقین کی سلامتی کو یقینی بنائے۔

میکسیکو میں سیاحتی مقام پر ’گرم ہوا کا غبارہ‘ حادثے کا شکار، 12 افراد زخمی

Hot bollon

میکسیکو سٹی کے قریب واقع مشہور سیاحتی مقام تیوتیہواکن کے نزدیک گرم ہوا کا غبارہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ گزشتہ روز اس وقت پیش آیا جب غبارہ ایک عمارت سے ٹکرا گیا جس کے باعث ہنگامی لینڈنگ کرانا پڑی۔ تمام زخمیوں کو ایک مقامی کلینک میں منتقل کیا گیا جہاں انہیں ابتدائی طبی امداد دی گئی۔ تصاویر اور مقامی حکام کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق، حادثہ چاند کے اہرام سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر پیش آیا، جہاں غبارہ باڑ لگانے والے تاروں اور بجلی کی لائنوں میں الجھ گیا۔ متاثرہ مقام اہرام کی بنیاد سے تقریباً ایک ہزار فٹ دور ایک دو لین والی سڑک پر واقع ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے یہ غبارہ ایک نجی ٹور کمپنی کی ملکیت تھا، جو سیاحوں کو فضاء سے اہرام کا نظارہ کروانے کے لیے گرم ہوا کے غبارے کی سواریاں فراہم کرتی ہے۔ ریاست میکسیکو کے اٹارنی جنرل کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ ایک 29 سالہ شخص کو حراست میں لے کر واقعے کی تفتیش جاری ہے۔ حکومتِ میکسیکو کے مطابق، تیوتیہواکن کولمبیا سے پہلے کے دور میں میسو امریکا کا سب سے بڑا شہر تھا، جہاں سورج اور چاند کے اہرام اس قدیم تہذیب کے اہم آثار شمار ہوتے ہیں۔ مقامی سیاحت کے حکام کے مطابق، اہرام کے گرد گرم ہوا کے غبارے کی پروازیں میکسیکو آنے والے سیاحوں میں بے حد مقبول ہیں، اور اس واقعے نے ان سرگرمیوں کی سکیورٹی پر نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔

’پہلا قدم‘، امریکا نے شام پر لگائی گئی پابندیاں اٹھالیں

Syria president

ٹرمپ انتظامیہ نے شام پر عائد اقتصادی پابندیاں مؤثر طریقے سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد خانہ جنگی سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو میں مدد فراہم کرنا ہے۔ رواں ماہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وعدے کے مطابق یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ وہ شام میں بحالی کی کوششوں کو فروغ دیں گے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے ایک عمومی لائسنس (GL25) جاری کیا ہے، جس کے تحت شام کی عبوری حکومت، مرکزی بینک اور دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ لین دین کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لائسنس کے مطابق، شام پر عائد پابندیوں میں نرمی لاتے ہوئے وہاں نئی سرمایہ کاری اور نجی شعبے کی سرگرمیوں کو ممکن بنایا جائے گا۔ امریکی محکمہ خزانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ اقدام “امریکہ فرسٹ” حکمت عملی کا حصہ ہے اور اس کا مقصد شام میں معاشی سرگرمیوں کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے “سیزر ایکٹ” کے تحت 180 دن کی رعایت دی ہے تاکہ پابندیاں انسانی بنیادوں پر جاری کوششوں، بجلی، پانی، توانائی اور صفائی کے شعبے میں کام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے روبیو کے مطابق، یہ ابتدائی قدم صدر ٹرمپ کے اس وژن کا حصہ ہے جو شام اور امریکا کے درمیان ایک نئے تعلق کا آغاز کرتا ہے، پابندیوں میں نرمی کے بعد شامی حکومت سے عملی اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے، جن میں تمام غیر ملکی جنگجوؤں کا شام سے انخلا، فلسطینی دہشت گردوں کی ملک بدری، اور داعش کے دوبارہ ابھرنے کو روکنے کے لیے امریکا سے تعاون شامل ہے۔ وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ اور شامی صدر احمد الشارع کی ملاقات کے بعد بتایا تھا کہ امریکا نے شام کو اقتصادی ریلیف دینے کے بدلے مخصوص شرائط پر عمل کرنے کا کہا ہے۔ ان شرائط میں خطے میں امن قائم کرنا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا شامل ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ اقدام ایک واضح پیغام ہے کہ امریکا مشروط طور پر شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے اور وہاں استحکام قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔