میانمار زلزلہ: آٹھویں دن بھی موت کی بُو آرہی ہے

میانمار میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد انسانی المیے کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 3,354 ہو چکی ہے، جبکہ 4,850 افراد زخمی اور 220 لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے امدادی کارروائیوں میں انسانی ہمدردی اور کمیونٹی گروپوں کے کردار کو سراہا اور کہا کہ وہ لوگ جو خود سب کچھ کھو چکے، وہ بھی دوسروں کی مدد کے لیے میدان میں ہیں۔ فوجی حکومت کے سربراہ من آنگ ہلینگ عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد نیپیتاو واپس لوٹے ہیں، جہاں انہوں نے علاقائی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دسمبر میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کرانے کے ارادے سے آگاہ کیا۔ تاہم، ناقدین ان انتخابات کو فوجی اقتدار کو جاری رکھنے کی ایک چال سمجھتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے ملک مسلسل سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ خانہ جنگی، معاشی تباہی، اور صحت کی سہولیات کی کمی نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے، جو اب زلزلے کی تباہ کاریوں سے مزید متاثر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، ملک میں تیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ ایک تہائی آبادی کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ زلزلے کے بعد کچھ علاقوں میں جنتا کی جانب سے امدادی رسد روکنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں حکومت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے انکشاف کیا ہے کہ فوج کی جانب سے مخالفین پر 53 حملے کیے گئے، جن میں 16 حملے اس ہفتے کی جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہوئے۔ ان میں فضائی حملے بھی شامل ہیں، اور یہ الزامات اب تحقیقات کا حصہ ہیں۔
روسی حملے جاری، زیلنسکی کا عالمی برادری سے روس پر ‘دباؤ ڈالنے’ کا مطالبہ

یوکرین کے شہر کریوی ریہ میں ایک روسی حملے میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہو گئے ہیں، جن میں 9 بچے بھی شامل ہیں۔ علاقائی حکام کے مطابق، رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں شدید تباہی اور آگ بھڑک اٹھی۔ بعد میں ایک ڈرون حملے میں ایک اور شخص بھی جان سے گیا۔ امدادی کارکنوں نے رات بھر ملبہ ہٹانے اور متاثرین کی مدد میں کام کیا۔ شہریوں نے اپنے گھروں کی مرمت کا کام شروع کیا، اور آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والوں نے خوفناک مناظر کا ذکر کیا، جیسے زخمی بچے، روتے ہوئے والدین، اور تباہ حال عمارتیں۔ روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ ان کا حملہ ایک ایسی جگہ پر کیا گیا تھا جہاں یوکرینی کمانڈر اور غیر ملکی انسٹرکٹرز کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ ان کے مطابق حملے میں 85 فوجی اور 20 گاڑیاں تباہ ہوئیں۔ تاہم یوکرین نے اس بیان کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ روس عام شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ حملہ صدر زیلنسکی کے آبائی شہر پر کیا گیا، اور یہ رواں سال کا سب سے جان لیوا حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔ زیلنسکی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ روس پر مزید دباؤ ڈالا جائے۔ ادھر امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کیے تھے جن میں توانائی کے نظام پر حملے روکنے کی بات شامل تھی، مگر دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر ان معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ اس حملے میں پچاس سے زیادہ افراد زخمی ہوئے، جن میں ایک تین ماہ کا بچہ بھی شامل ہے، اور کئی افراد اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یوکرین نے کہا ہے کہ روس کی یہ کارروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ وہ امن کا خواہاں نہیں بلکہ جنگ کو مزید طول دینا چاہتا ہے۔
ونسٹن چرچل: لکھاری اور عظیم رہنما یا ضدی اور ناکام شخص؟

دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برطانوی وزیراعظم ‘ونسٹن چرچل’ کی شخصیت کا جادو آج بھی بہت سے لوگوں پر طاری ہے۔ اس کی باتیں، اس کے فیصلے اور رہنمائی آج بھی تاریخی حوالوں میں زندہ ہیں۔ لیکن ایک سوال جو اب تک زندہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ونسٹن چرچل واقعی ایک عظیم ہیرو تھا یا پھر وہ ایک جنگی مجرم تھا جس نے اپنی قوم کے مفاد کے لیے لاکھوں انسانوں کی جانوں کو نظرانداز کیا؟ اس سوال کا جواب کئی زاویوں سے دیا جا سکتا ہے لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ چرچل کی میراث اتنی سادہ نہیں جتنی دکھائی دیتی ہے۔ چرچل کو بچپن میں ہمیشہ ایک ہیرو کی طرح پیش کیا گیا تھا، اس کی قیادت اور عظمت کی کہانیاں پڑھ کر انسان کا دل جوش و جذبے سے بھر جاتا تھا۔ اینڈ بلائیٹن جیسے مصنفین نے ان کی زندگی کو ایک سنہری مثال کے طور پر پیش کیا ہے انکا کہنا تھا کہ “جیسے جیسے میں بڑی ہوئی اور ہندوستان کی نوآبادیاتی تاریخ سے آگاہ ہوئی تو مجھے اس ’ہیرو‘ کی حقیقت کا پتا چلا۔ چرچل کی شخصیت کو صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کئی سوالات کا سامنا ہے۔” انہوں نے لکھا کہ “ہندوستان میں چرچل کے بارے میں رائے بہت مختلف ہے۔ جب میں نے انڈیا کی آزادی کے جنگی منظرنامے پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ برطانوی استعمار کے دوران کئی لوگوں کی زندگیوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا گیا اور وہ شاید چرچل کے ’ہیرو‘ ہونے کے دعووں کو مشکوک بناتا ہے۔ بنگال کا قحط 1943ء جس میں تقریباً تیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس پر برطانوی وزیراعظم چرچل کا کردار تاریخ میں ہمیشہ کے لیے سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ چرچل نے اس قحط کو ایک ’طبیعی حادثہ‘ قرار دیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قحط کے پیچھے برطانوی حکومت کی غلط حکمت عملی اور امداد کی کمی تھی۔ اس کے علاوہ جنگی حکمت عملی کے تحت فصلوں اور کشتیوں کو تباہ کر دینے والے چرچل کے فیصلے نے پورے بنگال میں قحط کی صورتحال کو بدترین بنا دیا۔ چرچل کا یہ ماننا تھا کہ جاپانیوں کے حملے کی صورت میں بنگال میں غذا کی فراہمی روکنی ہوگی تاکہ جنگی وسائل پر کوئی اثر نہ پڑے۔ لیکن لاکھوں بے گناہ انسانوں کی جانوں کی قیمت پر اس حکمت عملی کا کیا جواز تھا؟ مزید برآں، چرچل نے انڈیا کے عوام کے بارے میں انتہائی متعصبانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ونسٹن چرچل ہندوستانیوں کو ’جنگلی‘ اور ’غلیظ‘ سمجھتے تھے اور ان کی نظر میں ہندوستان کی آزادی کے قابل نہیں تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ہندوستانیوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، اگر انہیں آزاد کر دیا گیا تو ملک کا بٹوارہ اور انتشار ہوگا۔‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک وزیراعظم کے منہ سے نکلے تھے اور جو اپنے ہی ملک کے باشندوں کو غلام بنانے کا حق سمجھتا تھا۔ اس سب کے باوجود چرچل کی زندگی میں ایک پیچیدہ حقیقت چھپی ہوئی ہے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں اس کی قائدانہ صلاحیتوں کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اس کی قیادت میں برطانوی فوج نے جرمنی کو شکست دی اور اس نے دنیا کو ایک نیا رخ دیا تھا۔ اس کی جنگی حکمت عملی اور فیصلہ کن فیصلوں نے برطانیہ کو تاریخ کے اس مشکل ترین وقت میں بچا لیا تھا۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ چرچل کی ہر بات کو محض ہیرو کی نظروں سے دیکھا جائے؟ جہاں ایک طرف اس کی قائدانہ صلاحیتیں غیر معمولی تھیں وہیں دوسری طرف اس کا رویہ اور متعصب سوچ بہت سے لوگوں کے لیے ایک المیہ بھی بنی۔ انڈین اور افریقی اقوام کے بارے میں ونسٹن چرچل کے بیانات اور پالیسیوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا تھا۔ اگر ہم چرچل کو ایک جنگی ہیرو کے طور پر دیکھیں تو اس کے سیاسی اقدامات کی حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے برطانوی سلطنت کی عزت کو بچانے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کیے تھے لیکن ان فیصلوں نے لاکھوں انسانوں کی جانیں بھی لیں۔ کیا یہ کسی ’ہیرو‘ کا کام ہے؟ یا پھر یہ ایک جنگی مجرم کے اقدامات ہیں؟ چرچل کی شخصیت کو محض ایک زاویے سے دیکھنا کافی نہیں بلکہ اس کی زندگی میں کئی ایسی داستانیں چھپی ہوئی ہیں جو ہمیں اس کی حقیقی تصویر دکھاتی ہیں۔ آج جب ہم چرچل کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کی یادوں کے ساتھ ساتھ اس کی پالیسیوں کے اثرات کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جو اس کے ‘لکھاری اور عظیم رہنما یا ضدی اور ناکام شخص’ ہونے کے سوال کا جواب دیتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر پابندی کے نفاذ کے لیے 75 دن کی توسیع کر دی

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےاعلان کیا کہ وہ ٹِک ٹاک کی فروخت یا پابندی کے قانون کے نفاذ میں 75 دن کی مزید تاخیر کریں گے، کیونکہ ان کے عملے کی جانب سے امریکہ میں ایپ تک رسائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک معاہدہ پر کام جاری ہے۔ ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا، میری انتظامیہ ٹِک ٹاک کو بچانے کے لیے ایک معاہدے پر سخت محنت کر رہی ہے اور ہم نے شاندار پیش رفت کی ہے۔ اس معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے تاکہ تمام ضروری منظوریوں پر دستخط کیے جا سکیں۔ یہ اعلان ایک دن بعد آیا جب پابندی کے نافذ ہونے کا وقت قریب تھااور ٹرمپ نے جنوری میں عہدہ سنبھالنے پر ابتدائی 75 دن کے لیے اس پر تاخیر کی تھی۔ سابق صدر جو بائیڈن نے گزشتہ سال ایک قانون پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ٹِک ٹاک کی چینی کمپنی بائٹ ڈانس کو ایپ سے دستبردار ہونا ضروری تھا، ورنہ امریکہ میں پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو قومی سلامتی کے خدشات سے متعلق تھا۔ یہ قانون جنوری میں نافذ ہونے والا تھا، لیکن ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ معاہدہ تک پہنچنے کی امید میں اس کے نفاذ میں تاخیر کریں گے تاکہ ایپ کوزندہ رکھا جا سکے۔ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی ونس نے، جنہیں ٹِک ٹاک کے معاہدے کی کوششوں کی قیادت کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا، حالیہ دنوں میں بار بار کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ 5 اپریل کی ڈیڈ لائن تک ایک معاہدہ ہو جائے گا۔ وائٹ ہاؤس کی باتوں سے واقف ذرائع نے اس ہفتے سی این این کو بتایا تھا کہ ٹرمپ کے عملے نے ایک معاہدے پر غور کیا ہے جس میں ٹِک ٹاک کے زیادہ تر امریکی اثاثے ٹیکنالوجی کمپنی اوریکل اور دیگر امریکی سرمایہ کاروں کو بیچ دیے جائیں گے، جبکہ بائٹ ڈانس کو ایپ میں اقلیتی حصص ملیں گے۔ ٹرمپ نے اپنی جمعہ کی پوسٹ میں اس ممکنہ معاہدے کی تفصیلات فراہم نہیں کیں، لیکن انہوں نے اشارہ دیا کہ اس کو حتمی شکل دینے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
امریکی ٹیرف عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہیں، آئی ایم ایف

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی سربراہ، کرسٹلینا جیورجیا نے امریکی ٹیرف کو عالمی معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے نئے ٹیرف عالمی اقتصادی استحکام کے لیے ایک نمایاں چیلنج بن سکتے ہیں۔ انہوں نے امریکا پر زور دیا کہ وہ اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کرے اور ایسے اقدامات سے گریز کرے جو عالمی معیشت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے مزید کہا کہ سست شرح نمو کے دور میں امریکی ٹیرف عالمی معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے فیصلوں سے بچا جائے جو عالمی اقتصادی صورتحال کو مزید متاثر کریں۔ یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کے کاغذی اعدادوشمار اور زمینی حقیقت میں تضاد کیوں؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں پاکستان، چین، ترکیہ اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ 9 اپریل سے پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا جب کہ چین، یورپی یونین، جاپان اور دیگر ممالک پر بھی مختلف شرحوں پر ٹیرف لگائے جائیں گے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے اس فیصلے کو غیر ضروری اور عالمی معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے امریکی ٹیرف کے خلاف جوابی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب کینیڈا نے اس فیصلے کے خلاف اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ آسٹریلیا اور یورپی ممالک نے بھی اس اقدام کو غلط قرار دیا ہے۔ امریکی ٹیرف میں اضافے کے اعلان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی دیکھنے کو ملی ہے جس کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ 1500 پوائنٹس تک گر گئی۔ یہ تمام صورتحال کووڈ-19 کی وبا کے بعد امریکی اسٹاکس کی سب سے بدترین کارکردگی ہے اور دنیا بھر کی مالیاتی منڈیاں شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف پالیسی: انڈیا کی معیشت پر گہرے اثرات اور ریپو ریٹ میں کمی کی پیشگوئی
امریکی ٹیرف پالیسی: انڈیا کی معیشت پر گہرے اثرات اور ریپو ریٹ میں کمی کی پیشگوئی

دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے ساتھ تجارتی تعلقات میں ایک نئی تبدیلی آنے والی ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کے خلاف 26 فیصد کی متبادل ٹیرف عائد کر دی ہیں۔ یہ قدم انڈین معیشت پر گہرے اثرات ڈالنے کی توقع ہے اور ماہرین کے مطابق اس کے نتیجے میں انڈین معیشت کی شرح نمو میں 20 سے 40 بیسس پوائنٹس تک کمی آ سکتی ہے۔ انڈین مرکزی بینک یعنی ریزرو بینک آف انڈیا (RBI)، کی جانب سے 2025-26 میں 6.7 فیصد معاشی ترقی کی پیشگوئی کی گئی تھی جو اب شدید دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ اسی طرح حکومت کی اقتصادی سروے رپورٹ میں بھی 6.3 فیصد سے 6.8 فیصد کی ترقی کی پیشگوئی کی گئی تھی لیکن امریکا کی ٹیررف پالیسی نے ان تمام پیشگوئیوں کو زوردار جھٹکا دیا ہے۔ معروف مالیاتی ادارے گولڈمین ساکس نے انڈیا کی معاشی ترقی کی پیشگوئی کو 6.3 فیصد سے گھٹاکر 6.1 فیصد کر دیا ہے۔ مزید پڑھیں:مہنگائی کے کاغذی اعدادوشمار اور زمینی حقیقت میں تضاد کیوں؟ اسی طرح سٹی گروپ نے 40 بیسس پوائنٹس کی کمی کی پیشگوئی کی ہے جبکہ ممبئی میں مقیم تحقیقی ادارہ کوانٹ ایکو ریسرچ نے 30 بیسس پوائنٹس کی کمی کا اندازہ لگایا ہے۔ انڈین معیشت پر اس دباؤ کا ایک اور اثر یہ ہوگا کہ ریزرو بینک آف انڈیا کو شرح سود میں مزید کمی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ حال ہی میں RBI نے پانچ سال میں پہلی بار شرح سود میں کمی کی تھی جب فروری میں اس نے 25 بیسس پوائنٹس کی کمی کی تھی جس کے بعد 6.25 فیصد پر پالیسی ریپو ریٹ مقرر کیا گیا تھا۔ اس بار بھی ماہرین کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق RBI اپریل کے اجلاس میں 25 بیسس پوائنٹس مزید کمی کرنے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں جس سے پالیسی ریپو ریٹ 6.00 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ گولڈمین ساکس سٹی گروپ اور کوانٹ ایکو ریسرچ کے ماہرین نے اب یہ پیشگوئی کی ہے کہ RBI اس مالی سال کے دوران شرح سود میں مزید 75 بیسس پوائنٹس کی کمی کرے گا جس سے پالیسی ریپو ریٹ 5.5 فیصد تک پہنچ جائے گا جو کہ اگست 2022 کے بعد سب سے کم سطح ہوگی۔ سٹی گروپ کے چیف اکانومسٹ سامیران چکربورتی نے اس فیصلے کو اقتصادی ترقی کو بڑھانے کی حکمت عملی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے معیشت کو مزید نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب انڈیا کی معیشت کی شرح نمو اس سال سست پڑنے کی توقع ہے لیکن حکومتی اقدامات اور مالی پالیسی میں نرمی سے کچھ امید کی کرنیں بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ حکومت نے فروری میں اپنے بجٹ میں 12 لاکھ روپے تک سالانہ آمدنی پر ٹیکس میں کمی کا اعلان کیا تھا جس سے مقامی طلب کو بڑھانے کی امید ہے۔ اس کے علاوہ ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی 2025 کے لیے افراط زر کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کیا ہے جو کہ اس کے ہدف کے قریب ہے اور اس کے اثرات پر نظر رکھنے کے لیے پولیسی کمیٹی کا اجلاس اپریل میں متوقع ہے۔ اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا کو اس چیلنج سے نپٹنے کے لیے اپنی مالی پالیسی میں تیزی سے رد و بدل کی ضرورت ہوگی۔ اس میں شرح سود کی کمی اور کرنسی کی کمزوری جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں تاکہ عالمی تجارتی تناؤ سے نمٹا جا سکے اور ملکی معیشت کی بحالی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ یہ بھی پڑھیں:امریکا نے روس میں نشریات کے لیے ریڈیو فری یورپ کا سیٹلائٹ بند کردیا
امریکا نے روس میں نشریات کے لیے ریڈیو فری یورپ کا سیٹلائٹ بند کردیا

جمعرات کے روز ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی کے سربراہ اسٹیفن کیپس نے انکشاف کیا کہ امریکی حکومت نے روس میں اس کے روسی زبان میں نشر ہونے والے پروگراموں کے سیٹلائٹ سگنلز کو اچانک بند کر دیا ہے۔ یہ اقدام اُس وقت سامنے آیا جب امریکا کی حکومت نے مارچ کے وسط میں اس ادارے کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد ریڈیو فری یورپ نے امریکی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ امریکا اور روس کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور دونوں ممالک کے مابین میڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار پر شدید اختلافات موجود ہیں۔ امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے اپنی انتظامیہ کے تحت اخراجات میں کٹوتی کرنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں امریکی ایجنسی برائے عالمی میڈیا (USAGM) نے ریڈیو فری یورپ کو درپیش مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ اس کے نشریاتی سسٹمز میں بھی روکاوٹ ڈال دی۔ ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی نے امریکی ایجنسی کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا اور عدالت سے عارضی حکم امتناعی حاصل کیا تھا لیکن اس کے باوجود امریکی ایجنسی نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان کے سیٹلائٹ کنٹریکٹس کو منسوخ کر دیا۔ یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا رفاع پر قبضہ: 97 فلسطینی شہید، لاکھوں شہریوں کو گھروں سے بے دخل کردیا گیا اس فیصلے کے نتیجے میں ’’کرنٹ ٹائم‘‘ ٹی وی پروگرام، جو روس، یوکرین، وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کے علاقوں میں نشر ہو رہا تھا، اس کا سلسلہ اچانک بند ہو گیا۔ اسٹیفن کیپس نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ جب وہ دفتر پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ امریکی ایجنسی نے ’’کرنٹ ٹائم‘‘ کی نشریات کو یورپ تک پہنچانے والے سیٹلائٹ سروسز کو بند کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’’ہمیں اس دن کا سامنا نہیں تھا اور اب ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ اس فیصلے سے روس اور دیگر ممالک میں ہمارے ناظرین تک کس طرح پہنچا جائے۔‘‘ یہ صورتحال ایک اہم سوال اٹھاتی ہے کہ کیا آزادی اظہار اور آزاد میڈیا کے حقوق کو اس طرح کے سیاسی فیصلوں کے ذریعے دبایا جا سکتا ہے؟ اس اقدام سے نہ صرف روسی عوام کو اہم خبروں سے دور رکھا جائے گا بلکہ ان کی آزادی اظہار کی حوصلہ شکنی بھی کی جائے گی۔ اس اقدام کے پس منظر میں امریکا اور روس کے مابین جاری سرد جنگ کی جھلک نظر آتی ہے جہاں دونوں جانب کے ذرائع ابلاغ ایک دوسرے کے موقف کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران امریکی ایجنسی برائے عالمی میڈیا نے اس فیصلے پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طرف سے ایک اور سخت پیغام ہے جو خاص طور پر روس کے حکومتی موقف کو چیلنج کرنے والے میڈیا چینلز کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: ‘ہر چھ منٹ میں ایک حملہ’ آسٹریلیا میں ہیکرز کے حملوں سے پنشن فنڈز کا نظام سخت متاثر
‘ہر چھ منٹ میں ایک حملہ’ آسٹریلیا میں ہیکرز کے حملوں سے پنشن فنڈز کا نظام سخت متاثر

آسٹریلیا کے سب سے بڑے پنشن فنڈز پر مربوط سائبر حملوں کی ایک سلسلہ وار کارروائی میں 20,000 سے زائد اکاؤنٹس متاثر ہوئے ہیں، اور بعض صورتوں میں اراکین کی بچتیں چوری بھی کی گئی ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق، ان حملوں کا سب سے زیادہ اثر آسٹریلیا کے سب سے بڑے فنڈ آسٹریلین سپر پر پڑا ہے، جہاں 600 اراکین کے پاس ورڈز چوری کر کے ان کے اکاؤنٹس سے مالی دھوکہ دہی کی گئی۔ چار اراکین کے کھاتوں سے مجموعی طور پر پانچ لاکھ آسٹریلین ڈالر نکالے گئے اور دوسرے اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے۔ نیشنل سائبر سیکیورٹی کوآرڈینیٹر مشیل میک گینس نے کہا کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس مسئلے پر فوری ردعمل دے رہے ہیں، لیکن اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کل کتنے فنڈز اور اراکین متاثر ہوئے ہیں۔ آسٹریلین ریٹائرمنٹ ٹرسٹ نے بھی غیر معمولی لاگ ان سرگرمیوں کی نشاندہی کی ہے اور احتیاطاً کئی سو اکاؤنٹس کو بند کر دیا ہے، اگرچہ وہاں کوئی مالی نقصان رپورٹ نہیں ہوا۔ ریسٹ سپر نے بھی بتایا کہ 20,000 سے زائد اکاؤنٹس پر غیر مجاز رسائی ہوئی، جس پر فوری طور پر پورٹل بند کر کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ انسگنیا فائینینسز اور ہوسٹ پلس جیسے دیگر بڑے فنڈز نے بھی سائبر حملوں کی تصدیق کی ہے، تاہم ان کے مطابق اراکین کو تاحال کوئی مالی نقصان نہیں پہنچا۔ وزیر اعظم انتھونی البانی نے کہا کہ انہیں اس صورتحال پر بریفنگ دی گئی ہے اور سرکاری ادارے جلد مؤثر ردعمل دیں گے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سائبر حملے آسٹریلیا میں ایک باقاعدہ خطرہ بن چکے ہیں، جہاں ہر چھ منٹ میں ایک حملہ ہوتا ہے۔ یہ حملے ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب آسٹریلیا پہلے ہی صحت، انشورنس اور ٹیلی کام کے شعبوں میں بڑی سائبر خلاف ورزیوں کا سامنا کر چکا ہے۔ حکومت نے 2023 میں سائبر سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے 587 ملین ڈالر کی سات سالہ حکمت عملی کا اعلان بھی کیا تھا۔
اسرائیل کا رفح پر قبضہ: 97 فلسطینی شہید، لاکھوں شہری گھروں سے بےدخل

اسرائیلی فورسز نے جنوبی غزہ کے شہر رفح پر ایک بار پھر حملہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی اپنے گھروں سے نکل کر پناہ گزینی کی حالت میں دوسرے علاقوں کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے زور دار حملہ کیا گیا جس میں کئی رفح کے علاوہ دیگر علاقوں پر بھی حملے کیے جا چکے ہیں لیکن رفح کا محاصرہ ان سب سے مختلف ہے۔ اسرائیل نے اپنی فورسز کو رفح میں ایک “سیکورٹی زون” قائم کرنے کے لیے بھیجا ہے جس کا مقصد غزہ کی جنوبی سرحدوں کو مکمل طور پر کنٹرول کرنا ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کے بڑے حصوں کو اپنے قبضے میں لے لے گا اور اس کے بعد فورسز نے رفح شہر کی طرف پیش قدمی کی۔ رفح، یہ شہر کئی مہینوں تک غزہ کے دیگر حصوں سے بچ کر آنے والوں کا آخری پناہ گاہ تھا لیکن اب اس پر اسرائیلی حملہ نے وہاں کے مکینوں کو مزید بدترین حالات میں دھکیل دیا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی فضائی حملوں سے 97 فلسطینی شہید ہوگئے، جن میں سے کم از کم 20 افراد شجاعیہ کے ایک مضافاتی علاقے میں ایک فضائی میں شہید ہوئے تھے۔ اسی دوران، ایک اسرائیلی فضائی حملے نے غزہ سٹی میں واقع دار الارقم اسکول کی عمارت کو نشانہ بنایا جس میں درجنوں افراد شہید ہوگئے۔ یہ اسکول کئی خاندانوں کے لیے پناہ گزینی کا مرکز تھا اور یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اب کہیں بھی محفوظ پناہ گاہ نہیں بچی۔ ایک فلسطینی شخص نے عالمی خبررساں ایجنسی رائٹرز سے کہا کہ “رفح اب ختم ہو چکا ہے اس کا نام و نشان مٹایا جا رہا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “ہمیں اپنے گھروں سے نکال کر خان یونس منتقل کیا گیا اور یہاں بھی ہم پر فضائی حملے ہو رہے ہیں۔” اس صورتحال میں زندگی کی سختیوں کو بیان کرتے ہوئے ایک اور شہری نے کہا ہے کہ “ہم مرنے کے لیے یہاں آئے ہیں، اس زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔” اسی دوران اسرائیل کی فوج نے رفح کے گرد ایک “سیکورٹی زون” بنانے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے طویل مدتی مقاصد پر ابھی تک کسی قسم کی وضاحت نہیں دی گئی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ فوج “مورگ ایکسس” کے علاقے میں پیش قدمی کر رہی ہے جو کہ ایک سابقہ اسرائیلی آباد کاری کا حصہ تھا۔ یہ علاقے اب مکمل طور پر اسرائیلی قبضے میں آ گئے ہیں اور ان کا مقصد غزہ کی زرعی زمینوں اور اہم پانی کی سہولتوں پر قبضہ کرنا بتایا جا رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، غزہ کی جنوبی اور شمالی سرحدوں پر اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کے باعث لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے ہیں۔ ان کے لیے اب نہ کوئی محفوظ پناہ گاہ ہے اور نہ ہی کوئی پناہ گزینی کی جگہ۔ غزہ میں اس وقت صورتحال بدترین انسانی بحران کی صورت اختیار کر چکی ہے اور یہ جنگ مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں مگر اس وقت حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے شہری زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ مزید پڑھیں: ‘مارشل لا نافذ کرنے کی سزا’ جنوبی کوریا کے صدر کو عدالت نے برطرف کر دیا
‘مارشل لا نافذ کرنے کی سزا’ جنوبی کوریا کے صدر کو عدالت نے برطرف کر دیا

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کو جمعہ کے روز آئینی عدالت نے برطرف کر دیا، جس نے گزشتہ سال ان کے مارشل لاء کے نفاذ پر پارلیمنٹ کے مواخذے کی تحریک کو برقرار رکھا۔ اس اقدام نے ملک میں شدید سیاسی بحران کو جنم دیا تھا۔ یہ فیصلہ مہینوں سے جاری سیاسی کشیدگی کے بعد آیا، جس نے جنوبی کوریا کی معیشت پر اثر ڈالا اور ملک کی خارجہ پالیسی کو پیچیدہ بنا دیا، خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے۔ صدر کی برطرفی کے بعد آئینی طور پر 60 دنوں کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ وزیر اعظم ہان ڈک سو نئے صدر کے انتخاب تک قائم مقام صدر کے طور پر فرائض انجام دیں گے۔ سیول میں ایوا یونیورسٹی کے پروفیسر لیف ایرک ایزلی کا کہنا تھا کہ عدالت کے فیصلے سے ایک بڑی غیر یقینی صورتحال ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی انتظامیہ کو شمالی کوریا کے فوجی خطرات، چین کے سفارتی دباؤ اور امریکی تجارتی پالیسیوں جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ قائم مقام چیف جسٹس مون ہیونگ بائی نے فیصلے کے دوران کہا کہ یون نے 3 دسمبر کو مارشل لاء نافذ کر کے آئینی حدود سے تجاوز کیا اور ان کے اقدامات کو جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر نے عوامی اعتماد کی سنگین خلاف ورزی کی اور ان کے فیصلے نے ملکی معیشت، سماج اور خارجہ پالیسی میں انتشار پیدا کیا۔ یون کی برطرفی کے حق میں نکالی جانے والی ریلی میں ہزاروں افراد شامل تھے، جن میں کچھ لوگ کئی گھنٹوں سے احتجاج کر رہے تھے۔ جیسے ہی فیصلہ سنایا گیا، مظاہرین نے خوشی کا اظہار کیا اور نعرے بازی کی۔ دوسری جانب، یون کے حامی جو ان کی سرکاری رہائش گاہ کے قریب جمع تھے، شدید غصے میں دکھائی دیے۔ یونہاپ نیوز ایجنسی کے مطابق، ایک مظاہرین کو پولیس بس کی کھڑکی توڑنے پر گرفتار کیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد جنوبی کوریا کی کرنسی وون میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں دیکھا گیا، جو 1,436.6 فی ڈالر پر تقریباً 1 فیصد زیادہ رہا۔ بینچ مارک KOSPI انڈیکس 0.7 فیصد نیچے رہا، تاہم صبح کے وقت کی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، کیونکہ یہ فیصلہ پہلے سے متوقع تھا۔