امریکی نائب صدر کی ڈنمارک پر تنقید، گرین لینڈ میں چین اور روس سے مقابلہ کرنے کا دعویٰ

امریکی نائب صدر جی ڈی وینس نے ڈنمارک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ گرین لینڈ کی حفاظت کے معاملے میں ناکام ہو چکے ہیں اور امریکا اس نیم خودمختار ڈنمارکی علاقے کی زیادہ بہتر طریقے سے حفاظت کرے گا۔ وینس کا کہنا تھا کہ گرین لینڈ میں موجود امریکی فوجی بیس، پٹوفک، میں امریکا کی فوجی موجودگی میں فوری طور پر کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا تاہم امریکا اس خطے میں مزید وسائل اور بحری جہاز شامل کرے گا تاکہ چین اور روس جیسے ممالک کی بڑھتی ہوئی مداخلت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ وینس نے اس موقع پر گرین لینڈ کے لوگوں کی خودمختاری کے احترام کا عہد کیا مگر ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ گرین لینڈ کو امریکا کے ساتھ تعاون میں اپنی حفاظت اور معیشت کے لیے بہت فائدہ ہوگا۔ ان کے مطابق روس اور چین جیسے ممالک گرین لینڈ کے ارد گرد کے سمندری راستوں، آرکٹک میں موجود معدنیات، اور نیوی گیشن کے لیے غیر معمولی دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ جے ڈی وینس کا کہنا تھا کہ “ڈنمارک نے وسائل کی کمی کے سبب گرین لینڈ کی حفاظت میں ناکامی دکھائی ہے“۔ یہ بھی پڑھیں: نیپال میں بادشاہت کی بحالی کے لیے احتجاج: پولیس کے تشدد سے صحافی سمیت دو افراد ہلاک وینس نے ڈنمارک کی حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ “ڈنمارک نے اس کی فوجی بیس اور ہمارے فوجیوں کی حفاظت کے لیے درکار وسائل مہیا نہیں کیے ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ “اسی وجہ سے گرین لینڈ کو روس، چین اور دیگر ممالک کی جارحانہ سرگرمیوں کا سامنا ہے”۔ تاہم انہوں نے ان جارحانہ کارروائیوں کی تفصیل نہیں بتائی۔ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ خواہش ہمیشہ سے رہی ہے کہ امریکا گرین لینڈ کو اپنے زیر کنٹرول لے گا اور وینس نے اس بات کا عندیہ بھی دیا ہے کہ امریکا اس علاقے کی حفاظت میں زیادہ اہم کردار ادا کرے گا۔ وینس کی اس سخت بیان بازی پر ڈنمارک اور گرین لینڈ کے حکام میں غم و غصہ پایا گیا۔ گرین لینڈ کے نئے وزیرِ اعظم، جینس-فریڈرک نیلسن نے اس دورے کو ‘عدم احترام’ کا مظاہرہ قرار دیا جبکہ ڈنمارک کی وزیر اعظم ‘میٹ فریڈرکسن’ نے کہا کہ “امریکی نائب صدر کا ڈنمارک کے بارے میں بیان غیر منصفانہ ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ “ڈنمارک اور امریکا نے ہمیشہ مشکل حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور وینس کا یہ بیان ہمارے طویل تعلقات کے برعکس ہے۔” لازمی پڑھیں: اسرائیل کا لبنان پر سب سے بڑا فضائی حملہ، حزب اللہ کے ڈرون اسٹور کو نشانہ بنایا گیا وینس کے دورے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایک بیان دیا ہے جس میں کہا کہ امریکا کو گرین لینڈ کی ضرورت ہے تاکہ دنیا بھر میں امن برقرار رکھا جا سکے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “گرین لینڈ کے آبی راستوں میں چین اور روس کی بہت زیادہ موجودگی ہے اور امریکا اس صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے کسی بھی دوسرے ملک پر انحصار نہیں کر سکتا۔” ڈنمارک کے وزیر خارجہ ‘لارس لوک’ نے کہا کہ وینس نے اس بات پر کچھ حد تک درست موقف اپنایا ہے کہ “ڈنمارک نے کافی وسائل نہیں فراہم کیے مگر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ امریکا نے خود بھی اس معاملے میں کافی کمی کی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے دوران جب امریکا نے گرین لینڈ میں 17 فوجی اڈے قائم کیے تھے اور ان میں 10,000 فوجی موجود تھے جبکہ آج امریکا کے پاس 200 فوجی ہیں۔ امریکا کی اس بڑھتی ہوئی دلچسپی اور وینس کے تنقیدی بیانات کے بعد گرین لینڈ اور ڈنمارک کی حکومتوں کی جانب سے محتاط ردعمل سامنے آیا ہے۔ تاہم، امریکا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور روس و چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر یہ ممکنہ طور پر ایک سیاسی اور فوجی محاذ کھول سکتا ہے جس کا عالمی سطح پر گہرا اثر پڑے گا۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب گرین لینڈ میں ایک نئی وسیع حکومت تشکیل پائی ہے جس کا مقصد ڈنمارک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط رکھنا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گرین لینڈ کی حکومت کو امریکا کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی اور اس کے اثرات پر گہری تشویش ہے۔ وینس کا یہ دورہ اور اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی اقتصادی، فوجی اور جغرافیائی سیاست میں گرین لینڈ کی اہمیت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ مزید پڑھیں: یوکرین پر روسی ڈرون حملے میں چار افراد ہلاک، 19 زخمی، کئی گھروں کو آگ لگ گئی

‘ایران کو یا تو ہمارے ساتھ بات کرنی ہوگی یا پھر اس کے لئے برا وقت آئے گا’ امریکی صدر

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ جوہری معاہدہ نہیں کرتا تو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ یہ دھمکی ٹرمپ نے ایران کی جانب سے جوہری معاہدے پر مذاکرات کے حوالے سے بھیجے گئے خط کے جواب میں دی ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق امریکی صدر نے ‘اوول آفس’ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں ایران کو ایک خط بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران کو فیصلہ کرنا ہوگا۔ ٹرمپ نے کہا کہ “ایران کو یا تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنی ہوگی یا پھر اس کے لئے برا وقت آئے گا۔” ٹرمپ نے اپنے بیان میں واضح کہا ہے کہ ان کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ ایران کے ساتھ مسئلہ حل کیا جائے لیکن اگر ایسا نہ ہو سکا تو ایران کے لئے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ امریکی صدر نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی کو مارچ کے آغاز میں ایک خط بھیجا تھا جس میں جوہری معاہدے پر مذاکرات کی پیشکش کی گئی تھی۔ ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ ایران کے ساتھ دو طریقوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ عسکری ہے اور دوسرا معاہدے کے ذریعے، جسے وہ ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق ایران کے ساتھ تصادم سے بچنا ضروری ہے۔ یہ بھی پڑھیں: یوکرین پر روسی ڈرون حملے میں چار افراد ہلاک، 19 زخمی، کئی گھروں کو آگ لگ گئی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ہم ایک اور جوہری بم نہیں بننے دے سکتے”۔ ایران نے اس تمام صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے امکان کو رد کر دیا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ وہ ملک عمان کے ذریعے ٹرمپ کے خط کا جواب دے چکا ہے جس میں ایران کے موقف کو واضح کیا گیا ہے۔ عراقچی نے کہا کہ ایران امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا تاہم بالواسطہ مذاکرات کا امکان برقرار ہے۔ ایران نے امریکی صدر کی دھمکیوں کے باوجود مذاکرات کے دروازے کو بند نہیں کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی ایران نے امریکا کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کیے ہیں اور یہ طریقہ اب بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنے خط میں ایران کو جوہری معاہدے پر مذاکرات کے لئے دو ماہ کی مہلت دی تھی۔ ایران کے ساتھ امریکی تعلقات میں کشیدگی اس وقت بڑھ گئی تھی جب ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر امریکا کو نکال لیا تھا اور ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اب، جبکہ ایران نے امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کیا ہے تو دنیا بھر میں اس بات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ آیا ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات سے کسی معاہدے کا امکان پیدا ہو سکے گا یا نہیں۔ مزید پڑھیں: نیپال میں بادشاہت کی بحالی کے لیے احتجاج: پولیس کے تشدد سے صحافی سمیت دو افراد ہلاک

یوکرین پر روسی ڈرون حملے میں چار افراد ہلاک، 19 زخمی، کئی گھروں کو آگ لگ گئی

علاقائی گورنر نے بتایا کہ جمعہ کے روز جنوب مشرقی یوکرین کے شہر دنیپرو میں ایک بڑے روسی ڈرون حملے میں چار افراد ہلاک، 19 زخمی اور ایک ہوٹل اور ریسٹورنٹ کمپلیکس اور دیگر عمارتوں میں بڑی آگ بھڑک اٹھی۔ڈنیپروپیٹرووسک علاقے کے گورنر سرگئی لیساک نے ٹیلی گرام پر بتایا کہ ایک بلند و بالا اپارٹمنٹ کی عمارت اور تقریباً 10 نجی گھروں میں آگ لگ گئی۔ فائر فائٹنگ عملے نے ہوٹل کمپلیکس میں لگی آگ پر قابو پالیا۔ پہلے کی ایک پوسٹ میں، لائساک نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے کا امکان ہے، زخمیوں میں سے تین کی حالت تشویش ناک ہے۔ “اب یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دشمن نے شہر کی طرف 20 سے زیادہ ڈرون بھیجے ہیں،” لیزاک نے ٹیلی گرام پر لکھا۔ “ان میں سے زیادہ تر مارے گئے تھے۔” آن لائن پوسٹ کی گئی تصاویر اور ویڈیوز میں آگ کے شعلے اور دھوئیں کے بڑے بڑے بادل آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسروں نے عمارت کا ٹوٹا ہوا اندرونی حصہ، ایک بلند و بالا اپارٹمنٹ بلاک کی بری طرح تباہ شدہ بالائی منزلیں اور ٹوٹے ہوئے شیشوں اور تعمیراتی سامان سے بھری گلیوں کو دکھایا۔

نیپال میں بادشاہت کی بحالی کے لیے احتجاج: پولیس کے تشدد سے صحافی سمیت دو افراد ہلاک

نیپال کے دارلحکومت ‘کھٹمنڈو’ میں بادشاہت کی بحالی کے حق میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ایک صحافی اور ایک مظاہرہ کنندہ ہلاک ہوگئے۔ پولیس کے مطابق ان مظاہروں کے دوران اہلکاروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، واٹر کینن، ربڑ کی گولیاں اور ہوائی فائرنگ کی۔ فرانس کے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا تھا جس کے نتیجے میں تشدد میں شدت آئی۔ پولیس ترجمان دنیش کمار آچاریہ نے بتایا کہ ایک مظاہرہ کنندہ گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا جبکہ صحافی کی موت اس وقت ہوئی جب مظاہرین نے اُس عمارت کو آگ لگا دی تھی جس کی وہ رپورٹنگ کر رہے تھے۔ جمعے کی صبح ہزاروں افراد نیپال کی پارلیمنٹ کے قریب جمع ہوئے، بادشاہت کی بحالی اور ہندو مذہب کو ریاستی مذہب بنانے کے حق میں نعرے لگائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ بادشاہ اور ملک ان کی زندگی سے زیادہ عزیز ہیں۔ یہ مظاہرے سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور کمزور معیشت پر عوامی عدم اطمینان کے باعث شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ نیپال میں بادشاہت کی بحالی کی جائے اور ہندو مذہب کو ریاستی مذہب کے طور پر دوبارہ تسلیم کیا جائے۔ پولیس کے مطابق مظاہروں کے دوران کئی عمارتوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا اور کٹھمنڈو ویلی پولیس اسٹیشن کے ترجمان شیکھر کھنال نے بتایا کہ 4 پولیس اہلکار شدید زخمی بھی ہوئے تھے جن کا علاج جاری ہے۔ 23 مظاہرین زخمی ہوئے اور 17 کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ حکام نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا۔ یاد رہے کہ نیپال نے 2008 میں پارلیمنٹ کے ذریعے بادشاہت کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک وفاقی جمہوری نظام اختیار کیا تھا جو ایک امن معاہدے کا حصہ تھا اور جس سے ایک دہائی سے جاری خانہ جنگی کا اختتام ہوا تھا جس میں 16 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں۔ مزید پڑھیں: اسرائیل کا لبنان پر سب سے بڑا فضائی حملہ، حزب اللہ کے ڈرون اسٹور کو نشانہ بنایا گیا

اسرائیل کا لبنان پر سب سے بڑا فضائی حملہ، حزب اللہ کے ڈرون اسٹور کو نشانہ بنایا گیا

اسرائیل نے جمعہ کے روز لبنان کے جنوبی مضافات پر پہلا فضائی حملہ کردیا ہے جو نومبر میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔ اسرائیل نے لبنان کے دارالحکومت پر اس حملے کو حزب اللہ کے ڈرون اسٹور کے طور پر بیان کیاہے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ لبنان سے دو دنوں میں راکٹ فائر کیے گئے تھے 22 مارچ اور پھر جمعہ کو۔ اسرائیل نے اس حملے کو ایک جوابی کارروائی قرار دیا جو اس نے ‘حزب اللہ’ کی ممکنہ مداخلت کے ردعمل میں کیا۔ لبنانی صدر ‘جوزف عون’ نے جمعہ کے روز اسرائیل کے حملے کو ‘غیر ضروری اور بلاجواز’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کی تفتیش میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو کہ حزب اللہ نے اسرائیل پر راکٹ حملے کیے ہیں۔ حزب اللہ نے بھی اسرائیل کے الزامات کو مسترد کردیا ہے  اور کہا کہ اس نے لبنان سے اسرائیل کی جانب کوئی راکٹ فائر نہیں کیا۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون، جنہوں نے نومبر میں جنگ بندی معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب میکرون نے اسرائیل کی طرف سے بیروت پر کیے گئے فضائی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ میکرون نے اس حملے کو ‘ناقابل قبول’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو فوری طور پر اپنے پانچ فوجی اڈوں کو لبنان سے خالی کرنا ہوگا۔ میکرون نے مزید کہا کہ اسرائیل نے جو کارروائی کی ہے اس کے پیچھے کوئی معقول وجہ نہیں ہے اور اس حملے کا معاہدے کے تحت کسی بھی طرح کا جواز نہیں بنتا۔ یہ بھی پڑھیں: ‘یوکرین میں عبوری حکومت، نئے انتخابات اور جنگ بندی کے معاہدوں کی ضرورت ہے’ ولادیمیر پوتن دوسری جانب اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر برائے لبنان ‘جینین ہینس پلاسچارٹ’ نے بھی اسرائیل کے فضائی حملے کو ” تشویش کا باعث” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقے میں کسی بھی قسم کی حملہ انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے اور اس سے پورے خطے میں وسیع جنگ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ہینس پلاسچارٹ نے اقوام متحدہ کے امن مشن کے ساتھ مل کر فوری طور پر اسرائیل اور لبنان کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کی۔ لبنانی وزیر اعظم نواف سلام نے فوج کو حکم دیا کہ وہ فوری طور پر راکٹ حملوں کے ذمہ داروں کا پتا لگائیں اور انہیں گرفتار کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملے لبنان کی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہیں اور ان کے پیچھے کسی بھی مجرمانہ یا غیر ذمے دار عناصر کو گرفتار کرنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم نواف سلام نے عالمی برادری سے اسرائیل کے حملوں کو روکنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ لازمی پڑھیں: جنوبی کوریا میں تاریخ کی بدترین آتش زدگی، 35,000 ہیکٹر جنگلات تباہ اگرچہ نومبر میں ہونے والے معاہدے کے بعد لبنان اور اسرائیل میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس کے باوجود اسرائیل نے متعدد بار لبنان کے جنوبی اور مشرقی حصوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ یہ حملے حزب اللہ کے عسکری اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے ہیں جو معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب حزب اللہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کا احترام کرتا ہے اور انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ لبنان کے جنوبی حصے سے اسرائیل کی طرف راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ حزب اللہ کے مطابق اسرائیل کی کارروائیاں معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہیں اور اس کے نتیجے میں خطے میں مزید تناؤ کا سبب بن سکتی ہیں۔ جہاں ایک طرف اسرائیل اپنی فوجی کارروائیوں کا جواز پیش کر رہا ہے وہیں لبنان اور عالمی طاقتیں اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔   مزید پڑھیں: خرطوم کی جنگ: سوڈانی فوج کی فتح یا ایک نئی جنگ کا آغاز؟ا

خرطوم کی جنگ: سوڈانی فوج کی فتح یا ایک نئی جنگ کا آغاز؟

سوڈانی فوج نے دارالحکومت خرطوم کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا، روس چین یو اے ای شکست کھا گئے۔ سوڈانی فوج کے سربراہ نےاعلان کیا ہے کہ اس نے دارالحکومت خرطوم پر مکمل کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو ایک ہفتے سے جاری شدید لڑائی کا اختتام ہوا ہے۔ فوج نے صدارتی محل، ائیر پورٹ اور دیگر اہم مقامات پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے، جو ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ سوڈان کی صورتحال اس وقت ایک پراکسی وار بنی ہوئی ہے۔ میں اس کو پراکسی وار ہی کہوں گا کیونکہ یہاں کئی عالمی طاقتیں زور آزمائی کرر ہی ہیں۔ سوڈان میں ایسا کیا ہے، جس میں عالمی طاقتیں زور آزمائی کر رہی ہیں۔ اس کی صورتحال کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ سوڈانی فوج کی حمایت کا سب سے بڑا اتحادی مصر ہے، متحدہ عرب امارات پہلے سوڈانی افواج کی حمایت کرتی تھی لیکن بعد میں انٹرنسٹ کی بنیاد پر اس نے آر ایس ایف کی حمایت کی۔ تیسرے نمبر پر موجود سعودی عرب بھی سوڈانی افواج کے حق میں بہت زیادہ متحرک ہے، وہ اس کو مالی و سفارتی امداد فراہم کرتا ہے۔ امریکہ و مغرب بھی سوڈانی افواج کی حمایت کرتے ہیں۔ ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کو روس کے واگنز گروپ کی جانب سے اسلحہ و امداد دی جارہی ہے، متحدہ عرب امارات پہلے ان کے حق میں نہیں تھا، بعد میں ہر قسمی تعاون فراہم کرنا شروع کردیا۔ چین سوفٹ ڈپلومیسی کی بنیاد پرغیر جانبدار ہے، لیکن ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف)کے کنٹرول دارفور میں معدنیات کی کان کنی میں دلچسپی رکھتا ہے، اسی وجہ سے چین کا جھکاؤ RSF کی طرف ہے، چین ویسے اپنا مفاد دیکھتا ہے، اس کو اس چیز سے فرق نہیں پڑتا کہ امریکہ و یورپ کس گروپ کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ افغانستان کے طالبان کے ساتھ سب سے پہلے معاملات چین نے طے کرنا شروع کیے تھے۔ اپریل 2023 سے جاری جنگ میں دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ 12 ملین سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 3.5 ملین سے زیادہ لوگ دارالحکومت سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور کئی علاقے مکمل طور پر خالی ہو چکے ہیں۔ لاکھوں افراد جو خرطوم چھوڑنے سے قاصر یا انکار کر چکے ہیں، انہیں شدید بھوک، حقوق کی پامالی اور دونوں جانب سے اندھا دھند گولہ باری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سوڈان میں خانہ جنگی کا آغاز 15 اپریل 2023 کو ہوا، سوڈانی فوج (SAF) اور نیم ریپڈ سپورٹ فورسز(RSF) کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہوئیں، سوڈانی فوج کی قیادت جنرل عبدالفتاح البرہان کر رہے ہیں، جب کہ RSF کی قیادت محمد حمدان دقلو (حمیدتی) کر رہا ہے، دونوں 18دسمبر 2018 کو شروع ہونے والے احتجاجی مظاہر میں ایک تھے۔ 11 اپریل 2019 کو عمر البشیر کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد اقتدار میں آئے، لیکن پھر آپس میں لڑنا شروع ہوگئے، پھر انھوں نے 2023 میں ایک معاہدہ کیا کہ RSF کو سوڈانی فوج میں شامل ہو جائے گی، لیکن آپسی اختلاف نے ان کو پھر ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا۔

چین بنگلہ دیش تعلقات: ڈاکٹر محمد یونس کی چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات

چین کی سرکاری میڈیا نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے  بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ گزشتہ اگست میں اس وقت کی بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد جنوبی ایشیائی ملک کے عبوری رہنما کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یونس کا یہ پہلا دو طرفہ سرکاری دورہ ہے۔ جہاں بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور لسانی تعلقات ہیں، چین بنگلہ دیش کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور ایک اہم سرمایہ کار ہے۔ بنگلہ دیش چین کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔ بحر ہند کے مشرقی حصے میں اس کے محل وقوع کا مطلب ہے کہ یہ چینی صدر شی جن پنگ کے اہم بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) منصوبے کے لیے مثالی ہے۔ چین کے اس منصوبے کا مقصد دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں اور تجارتی نیٹ ورکس کے ایک بڑے ڈھانچے کو نافذ کرکے چین کے اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔ بنگلہ دیش اپنی 172 ملین آبادی کے ساتھ، چین کی برآمدات پر مبنی معیشت کے لیے خطے میں ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے کہا کہ محمد یونس کے دورے کے دوران توقع ہے کہ دونوں فریق اقتصادی اور تکنیکی مدد، ثقافتی اور کھیلوں میں تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان میڈیا تعاون سے متعلق متعدد معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

میانمار میں زلزلہ: اموات کی تعداد 2700 سے تجاوز کرگئی

جمعہ کو وسطی میانمار میں شدید زلزلہ آیا اور ینگون اور پڑوسی ملک تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں بھی لوگ خوف و ہراس کے عالم میں عمارتوں سے باہر نکل آئے۔ ہفتے کے روز میانمار میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بین الاقوامی امداد پہنچنا شروع ہو گئی۔ امدادی کارکن زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کر رہے ہیں، جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ میانمار میں زلزلے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 1000 سے بڑھ گئی ہے، جبکہ 1,670 افراد زخمی ہیں۔ یہ تعداد پہلے رپورٹ کی گئی 144 ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت نے کہا ہے کہ زلزلے کی وجہ سے سڑکیں، پل اور عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں، اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔   Many buildings were reportedly destroyed in the 7.7 magnitude earthquake in Myanmar. Video showing people being rescued from the rubles of the collapsed buildings. Pray for Myanmar 🇲🇲 🙏🏻#Myanmar #earthquake #แผ่นดินไหว pic.twitter.com/7yPoGXMBvK — Sumit (@SumitHansd) March 28, 2025 یو ایس جی ایس کے مطابق، زلزلے کا مرکز منڈالے شہر سے تقریباً 17.2 کلومیٹر دور تھا، جس کی آبادی تقریباً 1.2 ملین ہے۔ میانمار کے فائر سروسز ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا “ہم نے جانی اور مالی نقصان کی جانچ کرنے کے لیے ینگون کے ارد گرد تلاش شروع کر دی ہے۔ ابھی تک ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔” میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ نے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک سے مدد اور عطیات کی اپیل کی تھی۔ اس اپیل پر چین، روس اور امریکہ سمیت کئی ممالک نے مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ چین کی ایک 37 رکنی امدادی ٹیم ہفتے کے روز میانمار کے سابق دارالحکومت ینگون پہنچی، جو اپنے ساتھ طبی سامان اور زندگی کے آثار کا پتہ لگانے والے آلات لے کر آئی ہے۔ روس نے بھی 120 تجربہ کار ریسکیو اہلکار، ڈاکٹر اور تربیت یافتہ کتے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت میانمار کی مدد کے لیے تیار ہے۔ زلزلے کا سب سے زیادہ نقصان میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں ہوا، جو زلزلے کے مرکز کے قریب تھا۔ امریکی ماہرین کے مطابق میانمار میں ہلاکتوں کی تعداد 10,000 سے تجاوز کر سکتی ہے، اور ملک کو شدید مالی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ زلزلے کے جھٹکے تھائی لینڈ میں بھی محسوس کیے گئے، جہاں دارالحکومت بنکاک میں ایک 33 منزلہ عمارت گرنے سے نو افراد ہلاک اور 101 افراد لاپتہ ہو گئے، جن میں زیادہ تر مزدور شامل ہیں۔ امدادی کارکن ملبے میں دبے لوگوں کو نکالنے کے لیے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ بنکاک کے گورنر چاڈچارٹ سیٹی پونٹ نے کہا ہے کہ “ہم جانیں بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور تمام وسائل استعمال کریں گے۔” تھائی حکام کے مطابق زلزلے کے بعد کئی لوگوں نے بنکاک کے پارکوں میں رات گزاری، تاہم اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ زلزلے کے بڑے نقصان کو دیکھتے ہوئے عالمی امدادی سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں تاکہ مزید جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔  

جنوبی کوریا میں تاریخ کی بدترین آتش زدگی، 35,000 ہیکٹر جنگلات تباہ

جنوبی کوریا میں لگی آگ نے تاریخ کی سب سے بدترین اور جنگلات کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والی آگ کا ریکارڈ قائم کر لیا ہے۔ گزشتہ اتوار کو شروع ہونے والی جنگلاتی آتشزدگی نے جنوب مشرقی علاقے کو بھسم کر دیا ہے جس سے ہزاروں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ مقامی میڈیا کہ مطابق اب تک 27 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی بڑھنے کی توقع ہے۔ جنوبی کوریا کی وزارت داخلہ و سلامتی کے مطابق 37,000 سے زائد افراد کو ان آتشزدگی سے متاثر علاقوں سے نکال لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں کی بندش اور مواصلاتی لائنوں کے منقطع ہونے کے سبب لوگ پریشانی کے عالم میں اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقامات کی طرف بھاگے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں صورت حال بے حد سنگین ہے اور آگ کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس آتشزدگی نے 35,000 ہیکٹر (86,500 ایکڑ) سے زیادہ جنگل کو جلا ڈالا ہے جو جنوبی کوریا میں اب تک کی سب سے بڑی جنگلاتی آگ ہے۔  1987 سے جنگلاتی آگ کے ریکارڈ رکھنے والے کوریا فاریسٹ سروس کے مطابق یہ اب تک کی سب سے زیادہ جان لیوا آگ ہے۔ وزارت داخلہ ‘لی ہان کیونگ’ کے ڈیزاسٹر اینڈ سیفٹی ڈویژن کے سربراہ نے کہا کہ آگ کی شدت میں اضافہ اور تیز ہوائیں اسے قابو میں رکھنے کے امکانات کو کم کر رہی ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل7 جنوری کو امریکی ریاست لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ نے علاقے میں دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم 29 افراد ہلاک ہوئے، جن میں کچھ وہ افراد بھی شامل ہیں جو اپنے گھروں کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے تھے اور ہزاروں عمارتیں تباہ برباد ہوگئیں تھی۔ یہ تباہی ان قدرتی آفات میں سے ایک ہے جس نے نہ صرف جانوں کا ضیاع کیا بلکہ لاکھوں کی املاک کو بھی بھسم کر دیا ہے۔ مزید پڑھیں: لبنان میں 6 معصوم افراد شہید، اسرائیل کا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا دعویٰ

لبنان میں 6 معصوم افراد شہید، اسرائیل کا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا دعویٰ

لبنان کے جنوبی حصے میں اسرائیلی فضائی حملے نے ایک بار پھر علاقے میں خوف ہراس پھیلا دیا ہے۔ جمعرات کو لبنانی وزارت صحت نے تصدیق کی کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں 6 افراد شہید ہو گئے ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق جنوبی لبنان کے مختلف گاؤں اور قصبوں سے تھا۔ اسرائیل نے اپنے حملوں کو حزب اللہ کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی قرار دیا ہے جبکہ لبنان کی جانب سے ان حملوں کو جنگی کارروائی اور دہشت گردانہ حملے کے طور پر دیکھا گیا۔ اسرائیلی ڈرون نے ‘یحمر الشقيف’ میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں تین افراد شہید ہوگئے۔ نیشنل نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ ایک ہی وقت میں اسرائیلی توپ خانے کی گولیوں کی بارش سے بھی ہم آہنگ تھا جس نے علاقے کو جنگی میدان میں تبدیل کر دیا۔ اسرائیلی فوج نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ وہ اس کارروائی کو حزب اللہ کے دہشت گردوں کے خلاف کر رہے ہیں جو اس علاقے میں اسلحہ منتقل کر رہے تھے۔ اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ان دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے جو اسلحہ کی منتقلی میں ملوث تھے۔ اسی دوران اسرائیلی فضائیہ نے ‘مارعوب’ کے علاقے میں ایک اور حملہ کیا جس میں ایک شخص شہید اور دوسرا زخمی ہوگئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان کے حملے میں حزب اللہ کے ایلیٹ دستے ‘ردوان فورس’ کے ایک کمانڈر کو نشانہ بنایا گیا، جو اسرائیل میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوث تھا۔ یہ حملے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان نومبر میں ہونے والے غیر رسمی ‘سیزفائر’ کے بعد پہلی بڑی کارروائی ہیں جس میں دونوں فریقوں کے درمیان ایک سال سے جاری کشیدگی کے بعد خاموشی قائم ہوئی تھی۔ مگر اب یہ سلسلہ دوبارہ شدت اختیار کر چکا ہے اور علاقے میں امن کے قیام کے امکانات مزید کم پڑتے جا رہے ہیں۔ یہ حملے لبنان کے عوام کے لیے ایک مصیبت بن کر سامنے آئے ہیں جبکہ اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں اور شہریوں کو بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: ترکیہ: بی بی سی کے صحافی کی ملک بدری، اپوزیشن ٹی وی چینل پر پابندی لگا دی گئی