ترکیہ: بی بی سی کے صحافی کی ملک بدری، اپوزیشن ٹی وی چینل پر پابندی لگا دی گئی

ترکیہ میں حکومت نے حالیہ مظاہروں پر کریک ڈاؤن کو مزید تیز کرتے ہوئے ‘بی بی سی’ کے ایک صحافی کو ملک بدر کر دیا اور ایک اپوزیشن ٹی وی چینل پر دس روزہ براڈکاسٹ کی پابندی عائد کر دی۔ یہ اقدامات اس وقت کیے گئے جب 19 مارچ کو استنبول کے مقبول میئر ‘اکرم امام اوغلو’ کی گرفتاری کے بعد ترکیہ میں شدید مظاہروں شروع ہو گئے تھے۔ یہ مظاہروں 2013 کے بعد سے ترکیہ میں سب سے بڑے اور ہنگامہ خیز مظاہروں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ پولیس نے 11 ترک صحافیوں کو بھی حراست میں لیا جن میں اے ایف پی کے فوٹوگرافر یاسین آکگل بھی شامل تھے۔ تاہم، یاسین آکگل کو استنبول کی جیل سے 17 گھنٹے بعد رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی کے باوجود ان کے خلاف مقدمہ ابھی بھی جاری ہے۔ یہ احتجاج 19 مارچ کو شروع ہوئے جب استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ یہ بھی پڑھیں: ‘یوکرین میں عبوری حکومت، نئے انتخابات اور جنگ بندی کے معاہدوں کی ضرورت ہے’ ولادیمیر پوتن ان کی گرفتاری کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کا سلسلہ روزانہ جاری رہا۔ ان مظاہروں میں اکثر وقت پر پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جنہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جنہیں عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان اقدامات میں ایک اہم واقعہ بھی سامنے آیا جب ترکیہ نے بی بی سی کے صحافی مارک لووین کو ملک بدر کر دیا۔ بی بی سی کے مطابق ‘مارک لووین’ کو 17 گھنٹے تک حراست میں رکھنے کے بعد ترکی سے نکال دیا گیا۔ اس واقعے پر بی بی سی نیوز کی سی ای او ‘ڈیبورا ٹرنز’ نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ ‘انتہائی پریشان کن’ ہے اور اس معاملے پر ترک حکام کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔ مارک لووین نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا اخراج ‘انتہائی افسوسناک’ تھا اور انہوں نے مزید کہا کہ صحافت کی آزادی جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔ لووین نے کہا کہ وہ ترکیہ میں پانچ سال گزار چکے ہیں اور یہاں کی سیاست اور معاشرتی حالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس دوران ترکیہ میں 19 مارچ سے اب تک 1,879 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جن میں صحافیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ ترک وزیر داخلہ ‘علی یرلکایا’ نے بتایا کہ ان میں سے 260 افراد کو جیل میں بند کر دیا گیا ہے جبکہ 468 افراد کو مشروط رہائی دی گئی ہے۔ اور باقی افراد کا کیس ابھی زیر غور ہے۔ مزید پڑھیں: گرین لینڈ نے امریکا مخالف سیاسی اتحاد پر اتفاق کرلیا
گرین لینڈ نے امریکا مخالف سیاسی اتحاد پر اتفاق کرلیا

گرین لینڈ، جو کہ ڈنمارک کا خود مختار حصہ ہے اس نے ایک ایسی حکومت کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جو اپنے اندر چار سیاسی جماعتوں کا اتحاد لیے ہوئے ہے۔ یہ اعلان آج کے روز متوقع ہے اور یہ تاریخی فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گرین لینڈ کو خریدنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔ مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق یہ چار جماعتوں پر مشتمل حکومت امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی گرین لینڈ آمد سے صرف ایک دن قبل متعارف کرائی جائیں گی۔ جے ڈی وینس نے گرین لینڈ کے شمالی علاقے میں واقع امریکی فوجی اڈے دورہ کرنا ہے۔ یہ دورہ پہلے گرین لینڈ اور ڈنمارک کی حکومتوں کے لیے متنازعہ تھا لیکن اب مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔ ابتدائی طور پر وینس کے ساتھ ان کی اہلیہ اوشا اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹس کا بھی گرین لینڈ کے مشہور ‘ڈوگ ریس’ میں شرکت کا منصوبہ تھا لیکن اس میں گرین لینڈ کی مقامی حکومت کی طرف سے کوئی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ اسی دوران مقامی خبر رساں ادارے KNR نے مطابق گرین لینڈ کی سیاست میں ایک نیا اتحاد تشکیل پانے جا رہا ہے۔ لازمی پڑھیں: بحیرہ احمر میں آبدوز حادثہ: چھ روسی ہلاک، درجنوں سیاح محفوظ یہ اتحاد پرو بزنس جماعت “ڈیموکریٹس” کی قیادت میں ہوگا جس کے سربراہ ‘جینس-فریڈریک نیلسن’ مارچ 11 کو ہونے والے انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئے ہیں۔ نیلسن کی جماعت نے اپنی سیٹوں کی تعداد تین گنا بڑھا کر 10 تک پہنچا دی تھی اور انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کو اختلافات بھلا کر ایک متحد حکومت بنانے کی اپیل کی تھی تاکہ امریکی دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہ اتحاد گرین لینڈ کے پارلیمنٹ کی 31 سیٹوں میں سے 23 سیٹوں پر مشتمل ہوگا۔ تاہم، اس میں سب سے بڑی حامی جماعت “نالیرق” شامل نہیں ہوگی جو مکمل طور پر خودمختاری کے حق میں ہے۔ نالیرق نے اپنی سیٹوں کی تعداد دوگنا کر 8 کر لی تھی لیکن وہ اس اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس وقت گرین لینڈ میں ایک سیاسی جنگ چھڑی ہوئی ہے، جہاں ایک طرف ٹرمپ کا ارادہ ہے کہ گرین لینڈ کو امریکا کے تحت کر لیا جائے اور دوسری طرف گرین لینڈ کے مقامی حکام نے بار بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ جزیرہ ان کے لئے اہم ہے اور وہ اپنی تقدیر خود طے کریں گے۔ گرین لینڈ میں موجودہ عبوری وزیراعظم ‘میوٹ ایگڈے’ نے واضح طور پر کہا ہے کہ گرین لینڈ کسی کے لیے فروخت نہیں ہوگا اور اس کے لوگ ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ نیلسن کی قیادت میں بننے والی یہ حکومت، جو مختلف سیاسی نظریات کی حامل جماعتوں کا ایک غیر متوقع اتحاد ہے اور گرین لینڈ کے مستقبل کے حوالے سے عالمی برادری کو ایک پیغام دے رہی ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مزید پڑھیں: ‘عبوری حکومت، نئے انتخابات اور جنگ بندی کے معاہدوں کی ضرورت ہے’ ولادیمیر پوتن
‘یوکرین میں عبوری حکومت، نئے انتخابات اور جنگ بندی کے معاہدوں کی ضرورت ہے’ ولادیمیر پوتن

روسی میڈیا کے مطابق صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کو ایک عارضی عالمی انتظامیہ کے تحت رکھنے کی تجویز دی ہے، تاکہ نئے انتخابات کا انعقاد کیا جا سکے اور جنگ کے خاتمے کے لیے اہم معاہدوں پر دستخط کیے جا سکیں۔ پوتن کے یہ بیانات شمالی بندرگاہ مرمانسک کے دورے کے دوران سامنے آئے، ایسے وقت میں جب امریکا روس کے ساتھ دوبارہ روابط قائم کرنے اور کیف و ماسکو کے درمیان علیحدہ علیحدہ مذاکرات کے ذریعے تنازعہ ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کریملن کے رہنما نے عندیہ دیا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حقیقی طور پر یوکرین میں امن چاہتے ہیں، جو ان کے پیشرو جو بائیڈن سے مختلف حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں۔ بائیڈن نے روس کے ساتھ براہ راست بات چیت سے گریز کیا تھا، جبکہ ٹرمپ کھلے عام مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں۔ پوتن نے کہا، “میری رائے میں، امریکا کے نو منتخب صدر مخلصانہ طور پر کئی وجوہات کی بنا پر تنازعات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔” فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے جاری جنگ نے لاکھوں افراد کو ہلاک و زخمی کیا، لاکھوں شہری بے گھر ہوئے، اور کئی قصبے کھنڈر بن چکے ہیں۔ اس جنگ نے ماسکو اور مغربی دنیا کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کی سی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ پوتن کی تجویز یوکرین کے سیاسی استحکام پر ان کی دیرینہ تنقید کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی ایک جائز مذاکراتی فریق نہیں ہیں کیونکہ ان کی صدارت مئی 2024 میں ختم ہو چکی ہے، لیکن وہ اب بھی اقتدار میں ہیں۔ پوتن نے تجویز دی کہ ایک عبوری عالمی انتظامیہ، جسے اقوام متحدہ، امریکا، یورپی ممالک اور دیگر فریقین کی حمایت حاصل ہو، یوکرین میں عارضی طور پر اقتدار سنبھالے۔ انہوں نے کہا، “اصولی طور پر، یوکرین میں ایک عارضی انتظامیہ متعارف کرائی جا سکتی ہے جو اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی ممالک اور ہمارے شراکت داروں کی سرپرستی میں کام کرے۔” پوتن کے مطابق، اس انتظامیہ کا مقصد جمہوری انتخابات کا انعقاد اور ایک ایسی حکومت قائم کرنا ہوگا جو عوام کے اعتماد پر پورا اترے اور جس کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کی جا سکے۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے پوتن کی اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین میں حکمرانی کا تعین اس کے آئین اور عوام کے ذریعے ہوتا ہے، کسی بیرونی قوت کے ذریعے نہیں۔ یوکرین کی جانب سے فوری طور پر اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ یورپی رہنماؤں نے پیرس میں ہونے والی ایک ملاقات کے بعد کیف کی فوج کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاکہ مستقبل میں یوکرین کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ فرانس اور برطانیہ نے روس کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی کی صورت میں ایک بین الاقوامی “یقین دہانی فورس” کی تشکیل پر غور کیا ہے، تاہم ماسکو یوکرین میں کسی بھی غیر ملکی فوجی موجودگی کو سختی سے مسترد کر چکا ہے۔
بحیرہ احمر میں آبدوز حادثہ: چھ روسی ہلاک، درجنوں سیاح محفوظ

جمعرات کو ایک آبدوز کے ڈوبنے کے نتیجے میں چھ روسی شہری ہلاک ہوگئے، جبکہ 39 غیر ملکی سیاحوں کو بحیرہ احمر کے مصری سیاحتی مقام ہرغدا سے بچا لیا گیا۔ بحیرہ احمر گورنریٹ کے مطابق، سندباد نامی آبدوز میں مجموعی طور پر 50 افراد سوار تھے، جن میں روس، بھارت، ناروے، اور سویڈن کے 45 سیاح شامل تھے، جبکہ عملے کے پانچ مصری ارکان بھی موجود تھے۔ ہرغدا میں روسی قونصل خانے نے تصدیق کی کہ جہاز میں سوار بیشتر افراد کو ریسکیو کرلیا گیا اور انہیں ہرغدا کے ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق، آبدوز کو بڑے سوراخوں سے لیس کیا گیا تھا تاکہ مسافر بحیرہ احمر کے دلکش مرجانوں اور سمندری حیات کو دیکھ سکیں، اور یہ 25 میٹر کی گہرائی تک غوطہ لگانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ یہ واقعہ ایک انتہائی ایڈونچر آبدوز کے حادثے سے بہت مختلف تھا، جو جون 2023 میں بحر اوقیانوس میں ڈوبے ہوئے ٹائٹینک کے قریب ہزاروں میٹر کی گہرائی میں تباہ ہوگئی تھی۔ تاہم، بحیرہ احمر میں پیش آنے والے اس حادثے نے ایک بار پھر سیاحتی کشتیوں اور آبدوزوں کے حفاظتی معیارات پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ بحیرہ احمر مصر کی سیاحتی صنعت کا ایک اہم مرکز ہے اور ملکی معیشت کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے، جہاں روسی سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مصر اپنی قدیم تہذیب، عظیم اہرامِ گیزا، اور دریائے نیل کے کنارے لکسر اور اسوان کی تاریخی سیر کے باعث بھی سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے۔ مصری حکومتوں نے ماضی میں اسلام پسند عسکریت پسند گروپوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا ہے، جو غیر ملکیوں پر حملے کرکے سیاحت کی صنعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں مصر نے سیاحوں کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ مصری حکام اس حادثے کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کر رہے ہیں۔ بحیرہ احمر کے گورنر عمرو حنفی کے مطابق، آبدوز ایک مصری شہری کی ملکیت تھی، اس کے پاس تمام ضروری لائسنس موجود تھے، اور عملے کے پاس مکمل پیشہ ورانہ تربیت بھی تھی۔ حکام آبدوز کے عملے سے بھی پوچھ گچھ کر رہے ہیں تاکہ حادثے کی اصل وجوہات معلوم کی جا سکیں۔ بحیرہ احمر میں سیاحتی کشتیوں کے الٹنے کے حالیہ واقعات نے بھی تشویش پیدا کی ہے۔ گزشتہ جون میں، ایک کشتی اونچی لہروں کے باعث شدید نقصان کے بعد ڈوب گئی، تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ نومبر میں، ایک اور سیاحتی کشتی الٹ گئی تھی جس میں 31 سیاح اور 13 عملے کے افراد سوار تھے، اس حادثے میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پچھلے ماہ بھی ایک کشتی دیکھ بھال کے بعد ہرغدا جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔ سیاحت کی وزارت اور چیمبر آف ڈائیونگ نے اس حوالے سے تبصرے کے لیے دی گئی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2024 میں مصر نے سیاحت سے 14.1 بلین ڈالر کی آمدنی حاصل کی، جو نہر سویز کی آمدنی سے تقریباً دوگنا زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مصر کی معیشت کو سہارا دینے میں سیاحت کا ایک اہم کردار ہے۔
امریکی یونیورسٹی سے ترک طالبہ گرفتار، جرم کیا ہے؟

امریکی امیگریشن حکام نے ٹفٹس یونیورسٹی کی ترک نژاد پی ایچ ڈی طالبہ رومیسا اوزترک کو حراست میں لے لیا، جہاں انہیں سومرویل میں ان کے اپارٹمنٹ کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔ عالمی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق وکیل ماشا خان کا کہنا ہے کہ اوزترک کو سادہ لباس میں ملبوس چھ اہلکاروں نے گھیر لیا، جنہوں نے گرفتاری سے قبل کوئی بیج نہیں دکھایا۔ محلے کی نگرانی کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ چلتے ہوئے اچانک روکی گئیں اور پھر انہیں ایک گاڑی میں بٹھا کر لے جایا گیا۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) کے مطابق اوزترک پر “حماس کی حمایت میں سرگرمیوں میں ملوث ہونے” کا الزام ہے، تاہم حکام نے ان مبینہ سرگرمیوں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ٹفٹس یونیورسٹی نے ایک بیان میں واضح کیا کہ انہیں اوزترک کی گرفتاری کا پہلے سے کوئی علم نہیں تھا۔ یونیورسٹی کے صدر سنیل کمار نے کہا کہ یہ واقعہ ہمارے بین الاقوامی طلبہ اور کمیونٹی کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ اوزترک کے بھائی عاصم اوزترک نے کہا کہ “انہیں صرف اپنے نظریات کے اظہار کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ فلسطین کے حق میں بات کرنے والوں کے خلاف ایک مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔” گرفتاری کے بعد، ٹفٹس یونیورسٹی کے قریب سینکڑوں افراد نے اوزترک کی رہائی کے حق میں مظاہرہ کیا۔ ترک سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وہ معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکی حکام سے رابطے میں ہیں۔ “ہم اپنے شہری کے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ اوزترک کو لوزیانا میں امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی حراستی سہولت میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے وکیل کے مطابق انہیں طبی سہولیات تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ یہ واقعہ امریکی امیگریشن پالیسی پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے، خاص طور پر ان غیر ملکی طلبہ کے لیے جو فلسطینی کاز کی حمایت کر رہے ہیں۔
جنوبی لبنان میں اسرائیلی ڈرون حملے میں چار افراد جاں بحق ہو گئے

لبنان کی وزارت صحت عامہ نے کہا ہے کہ جنوبی لبنان میں دو الگ الگ اسرائیلی حملوں میں کم از کم چار افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، جبکہ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق یہ حملے جنوب لبنان میں جاری مہلک حملوں کے سلسلے کی تازہ کڑی ہیں، حالانکہ نومبر میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے زیادہ عرصے کی کشیدگی اور دو ماہ کی کھلی جنگ کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ لبنان کی نیشنل نیوز ایجنسی این این اےکے مطابق وزارت صحت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یُحمر الشقیف میں ایک گاڑی پر اسرائیلی دشمن کے حملے میں تین افراد جاں بحق ہو گئے۔ این این اے نے مزید کہا ہے کہ دشمن کے ایک ڈرون نےقصبے کے قریب ایک گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے ساتھ ہی توپ خانے کی گولہ باری بھی کی گئی۔ دوسری جانب، اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ جنوبی لبنان کے یُحمر علاقے میں کئی حزب اللہ کے جنگجوؤں کو ہتھیار منتقل کرتے ہوئے دیکھا گیا اور مزیداسرائیلی فوج نے کہا کہ فوج نے ان جنگجوؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ جمعرات کی صبح این این اے نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ اسرائیلی ڈرون کے ذریعے ،قصبہ معروب میں ایک گاڑی کو نشانہ بنانے کے واقعے میں ایک شخص جاں بحق اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ یہ بھی پڑھیں: جنوبی لبنان میں اسرائیل کے ‘فضائی حملے’ مزید کشیدگی بڑھ سکتی ہے اسرائیل نے 27 نومبر کو ہونے والی جنگ بندی کے بعد بھی لبنان میں حملے جاری رکھے ہیں اور ان اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے جو اس کے مطابق حزب اللہ کے فوجی ٹھکانے ہیں اور جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ تاہم، زیادہ تر شہید عام شہریوں ہوئے ہیں۔ اس سے قبل، رواں ماہ کے آغاز میں وزارت صحت نے بتایا تھا کہ یُحمر کے علاقے میں ایک اسرائیلی حملے میں دو افراد جاں بحق، جبکہ اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے دو حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا تھا۔
شام میں ‘شعبہِ صحت کے منصوبوں’ کے لیے اٹلی نے 68 ملین یورو کا اعلان کر دیا

اٹلی نے شام میں انسانی ہمدردی کے منصوبوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لیے تقریباً 68 ملین یورو مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے جمعرات کو پارلیمانی سماعت کے دوران قانون سازوں کو بتایا کہ دمشق میں سیاسی منتقلی کی حمایت کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ان کے مطابق، یہ فنڈز صحت کے شعبے، ہسپتالوں، بنیادی ڈھانچے، اور غذائی فراہمی کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات میں استعمال کیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعاون کے نئے منصوبے آنے والے ہفتوں میں شروع کیے جائیں گے تاکہ شام میں استحکام اور بحالی کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔ یہ بھی پڑھیں: ‘اسرائیل نے غزہ میں طاقت استعمال کی تو قیدی تابوت میں واپس آئیں گے’ حماس کی وارننگ شام کی صورتحال میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب دسمبر میں باغی گروپ حیات تحریر الشام نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور سابق صدر بشار الاسد کی کئی دہائیوں پر محیط آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس تبدیلی کے بعد، عالمی برادری، خاص طور پر یورپی یونین، نے شام کے نئے حکام کی منتقلی کے چیلنجوں میں مدد کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں ایک یورپی یونین کی زیر قیادت کانفرنس میں عطیہ دہندگان نے شام کے لیے 5.8 بلین یورو فراہم کرنے کا وعدہ کیا، تاکہ ملک میں جاری منتقلی کے عمل کو مدد دی جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی، یورپی یونین کے ممالک نے شام کے خلاف عائد کئی پابندیاں بھی معطل کر دی ہیں، جن میں توانائی، بینکنگ، ٹرانسپورٹ، اور تعمیر نو کے شعبے سے متعلق پابندیاں شامل ہیں۔ نئے حکام نے حال ہی میں ایک آئینی اعلامیہ جاری کیا ہے جو ملک میں اسلامی قانون کے مرکزی کردار کو برقرار رکھتا ہے۔ اس حوالے سے، وزیر خارجہ تاجانی نے اس اعلامیے کو ایک مثبت قدم قرار دیا اور کہا کہ پابندیوں میں ترقی پسند اور محتاط نرمی سے ادارہ جاتی استحکام اور معاشی بحالی کو فروغ دینے کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹلی اور دیگر یورپی ممالک شام میں امن، استحکام، اور بنیادی سہولیات کی بحالی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ جنگ زدہ ملک میں ایک پائیدار اور مستحکم نظام قائم کیا جا سکے۔
‘اسرائیل نے طاقت استعمال کی تو قیدی تابوت میں واپس آئیں گے’ حماس

حماس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں اپنے قیدیوں کی بازیابی کے لیے طاقت کا استعمال کیا تو تمام قیدیوں کو ہلاک کیا جا سکتا ہے۔ حماس کے بیان کے مطابق وہ اسرائیلی قیدیوں کو زندہ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہے لیکن اسرائیلی بمباری قیدیوں کی زندگیوں کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق حماس نے ایک بیان میں کہا کہ “اگر اسرائیل نے طاقت کے ذریعے اپنے قیدیوں کو بازیاب کرانے کی کوشش کی تو انہیں تابوت میں واپس بھیجا جائے گا”۔ حماس نے مزید کہا کہ وہ ان قیدیوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے تاہم اسرائیلی بمباری ان کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن رہی ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم ‘بینجمن نیتن یاہو’ نے بدھ کے روز دھمکی دی تھی کہ اگر حماس نے قیدیوں کو رہا نہیں کیا تو اسرائیل غزہ کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لے گا۔ نیتن یاہو نے اسرائیلی پارلیمنٹ کو بتایا کہ “حماس جتنا زیادہ ہمارے قیدیوں کی رہائی سے انکار کرے گا، اتنا ہی ہم ان پر دباؤ بڑھائیں گے، اور ان کے علاقوں پر قبضہ بھی گے”۔ یہ بھی پڑھیں: امریکی کمیشن نے انڈیا کو ‘علیحدگی پسند سکھوں’ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا اسرائیلی وزیر دفاع ‘یواف کاٹز’ نے بھی چند روز قبل کہا تھا کہ “حماس جتنا زیادہ مزاحمت کرے گا، ہم اتنے زیادہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں اسرائیل میں ضم کرتے چلے جائیں گے”۔ جنوری میں جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر ہی غزہ پر حملے دوبارہ شروع کیے تھے۔ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ حملوں کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ باقی قیدیوں کو رہا کرے۔ اسی دوران اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے دو میزائل داغے جانے کا بھی ذکر کیا جن میں سے ایک کو روک لیا گیا جبکہ دوسرا سرحد کے قریب گرا۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نے غزہ میں شدید فضائی حملے شروع کیے اور زمینی کارروائیاں شروع کیں جس سے جنگ بندی کے دوران قائم ہونے والے پرسکون ماحول کو ختم کردیا گیا۔ دوسری جانب حماس نے بھی ان حملوں کے جواب میں راکٹ حملے شروع کر دیے ہیں جس سے دونوں جانب کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان اس تنازعے میں دونوں طرف سے سخت بیانات اور فوجی کارروائیاں کی جاری ہیں اور مستقبل میں مزید کشیدگی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: یوکرینی صدر آج اپنے اتحادیوں سے ملاقات کریں گے، ‘مزید امداد’ کی یقین دہانی
یوکرینی صدر آج اپنے اتحادیوں سے ملاقات کریں گے، ‘مزید امداد’ کی یقین دہانی

آج پیرس میں 30 کے قریب عالمی رہنما یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں یوکرین کے لیے فوجی مدد بڑھانے، جنگ بندی کے امکانات کا جائزہ لینے اور مستقبل میں روس کے ساتھ کسی امن معاہدے میں یورپ کے ممکنہ کردار پر بات کی جائے گی۔ فرانس نے اس اجلاس کو اہم اور قابل اتحاد کا نام دیا ہے۔ اس کانفرنس میں پولینڈ، نیٹو، اٹلی اور ترکی سمیت کئی ممالک کے اعلیٰ عہدیدار شریک ہوں گے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ فرانس یوکرین کو مزید 2 بلین یورو کی فوجی مدد فراہم کرے گا، جبکہ زیلنسکی نے کہا کہ دوسرے ممالک بھی امداد کا اعلان کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر غور ہوگا کہ یوکرین کو روسی حملوں سے بچانے کے لیے عسکری طور پر مزید کیسے مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کی نگرانی اور سیکیورٹی انتظامات پر بھی گفتگو ہوگی۔ رپورٹس کے مطابق، کچھ یورپی ممالک یوکرین میں براہ راست فوجی بھیجنے کے بجائے دیگر سیکیورٹی اقدامات پر غور کر رہے ہیں کیونکہ انہیں سیاسی اور لاجسٹک مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ امریکا اور روس بھی اس کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں ایک تجویز یہ بھی زیر بحث آئے گی کہ مستقبل میں یوکرین میں ایک فورس تعینات کی جائے، جو جنگ بندی کے بعد امن و امان برقرار رکھنے میں مدد دے گی۔ تاہم، ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کون سے ممالک اس فورس کا حصہ بنیں گے۔ دوسری طرف، یوکرین اور روس نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے ہیں، جبکہ یورپی یونین نے بحیرہ اسود میں روس کی تجویز کردہ جنگ بندی کی شرائط کو مسترد کر دیا ہے۔
ترکیہ: اے ایف پی کے صحافی کو احتجاج کے دوران گرفتاری کے بعد عدالت نے رہا کر دیا

پیر کے روز ترکیہ دارالحکومت استنبول میں بلدیہ کے میئر ‘اکرم امام وغلو’ کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران ‘اے ایف پی’ نیوز کے صحافی ‘یاسین آکگل’ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ یہ مظاہرے امام وغلو کی کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتاری کے بعد شروع ہوئے جنہوں نے صدر رجب طیب اردگان کے سیاسی حریف کے طور پر اپنی اہمیت بنا رکھی تھی۔ ان مظاہروں نے ایک دہائی میں سب سے بڑے عوامی احتجاج کا رُخ اختیار کیا اور پورے ملک میں پھیل گئے، جبکہ اس دوران پولیس کی جانب سے متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پیر کے روز آکگل سمیت سات صحافیوں کو غیر قانونی اجلاسوں اور جلوسوں میں شرکت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا مگر آج عدالت نے یاسین آکگل کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ باقی کے چھ صحافیوں کو بھی رہا کر دیا گیا۔ اس دوران ان صحافیوں پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے پولیس کے انتباہ کے باوجود احتجاج میں شرکت کی تھی۔ دوسری جانب صدر اردگان نے ان مظاہروں کو محض ایک ‘تماشہ’ قرار دیا اور کہا کہ اس میں شریک افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ تاہم، حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی نے مظاہرے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور کہا کہ وہ حکومت پر مزید دباؤ ڈالیں گے۔ امام وغلو کے خلاف اس کیس کو نہ صرف اپوزیشن بلکہ مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی سیاسی مقدمہ قرار دیا ہے کیونکہ اماموغلو کی مقبولیت اردگان کے لئے ایک ممکنہ انتخابی خطرہ بن چکی تھی اور حکومت کا کہنا ہے کہ عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے اور اس پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ اس تناظر میں ترکیہ کے آئندہ سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے کیونکہ یہ مقدمہ صرف ایک فرد کی آزادی نہیں بلکہ ملک میں اظہار رائے اور صحافت کی آزادی کے لئے بھی بہت اہم بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی کمیشن نے انڈیا کو ‘علیحدگی پسند سکھوں’ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا