April 21, 2025 11:26 am

English / Urdu

امریکی یونیورسٹی سے ترک طالبہ گرفتار، جرم کیا ہے؟

امریکی امیگریشن حکام نے ٹفٹس یونیورسٹی کی ترک نژاد پی ایچ ڈی طالبہ رومیسا اوزترک کو حراست میں لے لیا، جہا‍‌ں انہیں سومرویل میں ان کے اپارٹمنٹ کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔ عالمی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق وکیل ماشا خان کا کہنا ہے کہ اوزترک کو سادہ لباس میں ملبوس چھ اہلکاروں نے گھیر لیا، جنہوں نے گرفتاری سے قبل کوئی بیج نہیں دکھایا۔ محلے کی نگرانی کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ چلتے ہوئے اچانک روکی گئیں اور پھر انہیں ایک گاڑی میں بٹھا کر لے جایا گیا۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) کے مطابق اوزترک پر “حماس کی حمایت میں سرگرمیوں میں ملوث ہونے” کا الزام ہے، تاہم حکام نے ان مبینہ سرگرمیوں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ٹفٹس یونیورسٹی نے ایک بیان میں واضح کیا کہ انہیں اوزترک کی گرفتاری کا پہلے سے کوئی علم نہیں تھا۔ یونیورسٹی کے صدر سنیل کمار نے کہا کہ یہ واقعہ ہمارے بین الاقوامی طلبہ اور کمیونٹی کے لیے باعثِ تشویش ہے۔   اوزترک کے بھائی عاصم اوزترک نے کہا کہ “انہیں صرف اپنے نظریات کے اظہار کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ فلسطین کے حق میں بات کرنے والوں کے خلاف ایک مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔” گرفتاری کے بعد، ٹفٹس یونیورسٹی کے قریب سینکڑوں افراد نے اوزترک کی رہائی کے حق میں مظاہرہ کیا۔ ترک سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وہ معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکی حکام سے رابطے میں ہیں۔ “ہم اپنے شہری کے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ اوزترک کو لوزیانا میں امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی حراستی سہولت میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے وکیل کے مطابق انہیں طبی سہولیات تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ یہ واقعہ امریکی امیگریشن پالیسی پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے، خاص طور پر ان غیر ملکی طلبہ کے لیے جو فلسطینی کاز کی حمایت کر رہے ہیں۔

جنوبی لبنان میں اسرائیلی ڈرون حملے میں چار افراد جاں بحق ہو گئے

لبنان کی وزارت صحت عامہ نے کہا ہے کہ جنوبی لبنان میں دو الگ الگ اسرائیلی حملوں میں کم از کم چار افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، جبکہ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق یہ  حملے جنوب لبنان میں جاری مہلک حملوں کے سلسلے کی تازہ کڑی ہیں، حالانکہ نومبر میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے زیادہ عرصے کی کشیدگی اور دو ماہ کی کھلی جنگ کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ لبنان کی نیشنل نیوز ایجنسی این این اےکے مطابق وزارت صحت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یُحمر الشقیف میں ایک گاڑی پر اسرائیلی دشمن کے حملے میں تین افراد جاں بحق ہو گئے۔ این این اے نے مزید کہا ہے کہ دشمن کے ایک ڈرون نےقصبے کے قریب ایک گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے ساتھ ہی توپ خانے کی گولہ باری بھی کی گئی۔ دوسری جانب، اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ جنوبی لبنان کے یُحمر علاقے میں کئی حزب اللہ کے جنگجوؤں کو ہتھیار منتقل کرتے ہوئے دیکھا گیا اور مزیداسرائیلی فوج نے کہا کہ فوج نے ان جنگجوؤں کو نشانہ بنایا ہے۔ جمعرات کی صبح این این اے نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ اسرائیلی ڈرون کے ذریعے ،قصبہ معروب میں ایک گاڑی کو نشانہ بنانے کے واقعے میں ایک شخص جاں بحق اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ یہ بھی پڑھیں: جنوبی لبنان میں اسرائیل کے ‘فضائی حملے’ مزید کشیدگی بڑھ سکتی ہے اسرائیل نے 27 نومبر کو ہونے والی جنگ بندی کے بعد بھی لبنان میں حملے جاری رکھے ہیں اور ان اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے جو اس کے مطابق حزب اللہ کے فوجی ٹھکانے ہیں اور جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ تاہم، زیادہ تر شہید عام شہریوں ہوئے ہیں۔ اس سے قبل، رواں ماہ کے آغاز میں وزارت صحت نے بتایا تھا کہ یُحمر کے علاقے میں ایک اسرائیلی حملے میں دو افراد جاں بحق، جبکہ اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے دو حزب اللہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا تھا۔

شام میں ‘شعبہِ صحت کے منصوبوں’ کے لیے اٹلی نے 68 ملین یورو کا اعلان کر دیا

اٹلی نے شام میں انسانی ہمدردی کے منصوبوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لیے تقریباً 68 ملین یورو مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے جمعرات کو پارلیمانی سماعت کے دوران قانون سازوں کو بتایا کہ دمشق میں سیاسی منتقلی کی حمایت کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ان کے مطابق، یہ فنڈز صحت کے شعبے، ہسپتالوں، بنیادی ڈھانچے، اور غذائی فراہمی کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات میں استعمال کیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعاون کے نئے منصوبے آنے والے ہفتوں میں شروع کیے جائیں گے تاکہ شام میں استحکام اور بحالی کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔ یہ بھی پڑھیں: ‘اسرائیل نے غزہ میں طاقت استعمال کی تو قیدی تابوت میں واپس آئیں گے’ حماس کی وارننگ شام کی صورتحال میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب دسمبر میں باغی گروپ حیات تحریر الشام  نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور سابق صدر بشار الاسد کی کئی دہائیوں پر محیط آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس تبدیلی کے بعد، عالمی برادری، خاص طور پر یورپی یونین، نے شام کے نئے حکام کی منتقلی کے چیلنجوں میں مدد کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں ایک یورپی یونین کی زیر قیادت کانفرنس میں عطیہ دہندگان نے شام کے لیے 5.8 بلین یورو فراہم کرنے کا وعدہ کیا، تاکہ ملک میں جاری منتقلی کے عمل کو مدد دی جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی، یورپی یونین کے ممالک نے شام کے خلاف عائد کئی پابندیاں بھی معطل کر دی ہیں، جن میں توانائی، بینکنگ، ٹرانسپورٹ، اور تعمیر نو کے شعبے سے متعلق پابندیاں شامل ہیں۔ نئے حکام نے حال ہی میں ایک آئینی اعلامیہ جاری کیا ہے جو ملک میں اسلامی قانون کے مرکزی کردار کو برقرار رکھتا ہے۔ اس حوالے سے، وزیر خارجہ تاجانی نے اس اعلامیے کو ایک مثبت قدم قرار دیا اور کہا کہ پابندیوں میں ترقی پسند اور محتاط نرمی سے ادارہ جاتی استحکام اور معاشی بحالی کو فروغ دینے کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹلی اور دیگر یورپی ممالک شام میں امن، استحکام، اور بنیادی سہولیات کی بحالی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ جنگ زدہ ملک میں ایک پائیدار اور مستحکم نظام قائم کیا جا سکے۔

‘اسرائیل نے طاقت استعمال کی تو قیدی تابوت میں واپس آئیں گے’ حماس

حماس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں اپنے قیدیوں کی بازیابی کے لیے طاقت کا استعمال کیا تو تمام قیدیوں کو ہلاک کیا جا سکتا ہے۔ حماس کے بیان کے مطابق وہ اسرائیلی قیدیوں کو زندہ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہے لیکن اسرائیلی بمباری قیدیوں کی زندگیوں کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق حماس نے ایک بیان میں کہا کہ “اگر اسرائیل نے طاقت کے ذریعے اپنے قیدیوں کو بازیاب کرانے کی کوشش کی تو انہیں تابوت میں واپس بھیجا جائے گا”۔ حماس نے مزید کہا کہ وہ ان قیدیوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے تاہم اسرائیلی بمباری ان کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن رہی ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم ‘بینجمن نیتن یاہو’ نے بدھ کے روز دھمکی دی تھی کہ اگر حماس نے قیدیوں کو رہا نہیں کیا تو اسرائیل غزہ کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لے گا۔ نیتن یاہو نے اسرائیلی پارلیمنٹ کو بتایا کہ “حماس جتنا زیادہ ہمارے قیدیوں کی رہائی سے انکار کرے گا، اتنا ہی ہم ان پر دباؤ بڑھائیں گے، اور ان کے علاقوں پر قبضہ بھی گے”۔ یہ بھی پڑھیں: امریکی کمیشن نے انڈیا کو ‘علیحدگی پسند سکھوں’ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا اسرائیلی وزیر دفاع ‘یواف کاٹز’ نے بھی چند روز قبل کہا تھا کہ “حماس جتنا زیادہ مزاحمت کرے گا، ہم اتنے زیادہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں اسرائیل میں ضم کرتے چلے جائیں گے”۔ جنوری میں جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر ہی غزہ پر حملے دوبارہ شروع کیے تھے۔ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ حملوں کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ باقی قیدیوں کو رہا کرے۔ اسی دوران اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے دو میزائل داغے جانے کا بھی ذکر کیا جن میں سے ایک کو روک لیا گیا جبکہ دوسرا سرحد کے قریب گرا۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نے غزہ میں شدید فضائی حملے شروع کیے اور زمینی کارروائیاں شروع کیں جس سے جنگ بندی کے دوران قائم ہونے والے پرسکون ماحول کو ختم کردیا گیا۔ دوسری جانب حماس نے بھی ان حملوں کے جواب میں راکٹ حملے شروع کر دیے ہیں جس سے دونوں جانب کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان اس تنازعے میں دونوں طرف سے سخت بیانات اور فوجی کارروائیاں کی جاری ہیں اور مستقبل میں مزید کشیدگی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔  مزید پڑھیں: یوکرینی صدر آج اپنے اتحادیوں سے ملاقات کریں گے، ‘مزید امداد’ کی یقین دہانی

یوکرینی صدر آج اپنے اتحادیوں سے ملاقات کریں گے، ‘مزید امداد’ کی یقین دہانی

آج پیرس میں 30 کے قریب عالمی رہنما یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں یوکرین کے لیے فوجی مدد بڑھانے، جنگ بندی کے امکانات کا جائزہ لینے اور مستقبل میں روس کے ساتھ کسی امن معاہدے میں یورپ کے ممکنہ کردار پر بات کی جائے گی۔ فرانس نے اس اجلاس کو اہم اور قابل اتحاد کا نام دیا ہے۔ اس کانفرنس میں پولینڈ، نیٹو، اٹلی اور ترکی سمیت کئی ممالک کے اعلیٰ عہدیدار شریک ہوں گے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ فرانس یوکرین کو مزید 2 بلین یورو کی فوجی مدد فراہم کرے گا، جبکہ زیلنسکی نے کہا کہ دوسرے ممالک بھی امداد کا اعلان کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر غور ہوگا کہ یوکرین کو روسی حملوں سے بچانے کے لیے عسکری طور پر مزید کیسے مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کی نگرانی اور سیکیورٹی انتظامات پر بھی گفتگو ہوگی۔ رپورٹس کے مطابق، کچھ یورپی ممالک یوکرین میں براہ راست فوجی بھیجنے کے بجائے دیگر سیکیورٹی اقدامات پر غور کر رہے ہیں کیونکہ انہیں سیاسی اور لاجسٹک مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ امریکا اور روس بھی اس کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ اجلاس میں ایک تجویز یہ بھی زیر بحث آئے گی کہ مستقبل میں یوکرین میں ایک فورس تعینات کی جائے، جو جنگ بندی کے بعد امن و امان برقرار رکھنے میں مدد دے گی۔ تاہم، ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کون سے ممالک اس فورس کا حصہ بنیں گے۔ دوسری طرف، یوکرین اور روس نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے ہیں، جبکہ یورپی یونین نے بحیرہ اسود میں روس کی تجویز کردہ جنگ بندی کی شرائط کو مسترد کر دیا ہے۔

ترکیہ: اے ایف پی کے صحافی کو احتجاج کے دوران گرفتاری کے بعد عدالت نے رہا کر دیا

پیر کے روز ترکیہ دارالحکومت استنبول میں بلدیہ کے میئر ‘اکرم امام وغلو’ کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران ‘اے ایف پی’ نیوز کے صحافی ‘یاسین آکگل’ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ یہ مظاہرے امام وغلو کی کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتاری کے بعد شروع ہوئے جنہوں نے صدر رجب طیب اردگان کے سیاسی حریف کے طور پر اپنی اہمیت بنا رکھی تھی۔ ان مظاہروں نے ایک دہائی میں سب سے بڑے عوامی احتجاج کا رُخ اختیار کیا اور پورے ملک میں پھیل گئے، جبکہ اس دوران پولیس کی جانب سے متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پیر کے روز آکگل سمیت سات صحافیوں کو غیر قانونی اجلاسوں اور جلوسوں میں شرکت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا مگر آج عدالت نے یاسین آکگل کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ باقی کے چھ صحافیوں کو بھی رہا کر دیا گیا۔ اس دوران ان صحافیوں پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے پولیس کے انتباہ کے باوجود احتجاج میں شرکت کی تھی۔ دوسری جانب صدر اردگان نے ان مظاہروں کو محض ایک ‘تماشہ’ قرار دیا اور کہا کہ اس میں شریک افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ تاہم، حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی نے مظاہرے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور کہا کہ وہ حکومت پر مزید دباؤ ڈالیں گے۔ امام وغلو کے خلاف اس کیس کو نہ صرف اپوزیشن بلکہ مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی سیاسی مقدمہ قرار دیا ہے کیونکہ اماموغلو کی مقبولیت اردگان کے لئے ایک ممکنہ انتخابی خطرہ بن چکی تھی اور حکومت کا کہنا ہے کہ عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے اور اس پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ اس تناظر میں ترکیہ کے آئندہ سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے کیونکہ یہ مقدمہ صرف ایک فرد کی آزادی نہیں بلکہ ملک میں اظہار رائے اور صحافت کی آزادی کے لئے بھی بہت اہم بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی کمیشن نے انڈیا کو ‘علیحدگی پسند سکھوں’ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا

امریکی کمیشن نے انڈیا کو ‘علیحدگی پسند سکھوں’ کے قتل میں ملوث قرار دے دیا

امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی حالیہ رپورٹ میں انڈین حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی “را” کو بیرون ملک سکھ علیحدگی پسندوں کے قتل میں براہ راست ملوث قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈین انٹیلی جنس نہ صرف دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے بلکہ بیرون ملک سرگرم علیحدگی پسندوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں بھی کر رہی ہے۔ کمیشن نے انڈین انٹیلی جنس ایجنسی را پر عالمی سطح پر پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی ہے، جس کی بنیادی وجہ اس کا سکھ علیحدگی پسندوں کے قتل کی سازشوں میں ملوث ہونا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ را کے سابق انٹیلی جنس افسر وکاش یادیو براہ راست ان حملوں میں شریک تھے اور انہیں متعدد کارروائیوں میں مرکزی کردار ادا کرتے دیکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں انڈیامیں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ نہ صرف انڈین انٹیلی جنس ایجنسی بلکہ اس میں ملوث افراد، خصوصاً وکاش یادیو پر بھی خصوصی پابندیاں عائد کرے تاکہ انڈیاکو یہ پیغام دیا جا سکے کہ اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ انڈیا میں مذہبی اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور یہ صورتحال 2024 میں مزید خراب ہو گئی۔ انتخابات کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ، انڈیا میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیز تقاریر، اقلیتوں کے خلاف بنائے جانے والے امتیازی قوانین، زبردستی مذہب کی تبدیلی کے خلاف سخت قوانین، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی، اور مسلمانوں کی املاک کی مسماری کو اقلیتوں کے حقوق پر کھلا حملہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کی ابتر صورتحال کے پیش نظر انڈیا کو خصوصی تشویش کے حامل ملک قرار دیا جائے۔ اس اقدام سے انڈیا پر عالمی دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے تاکہ وہ اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے۔ یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی سطح پر انڈیا کی خفیہ کارروائیوں اور دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انڈیا نہ صرف اپنے ملک میں اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہا ہے بلکہ بیرون ملک بھی سیاسی مخالفین اور علیحدگی پسندوں کے خلاف خفیہ آپریشن کر رہا ہے، جو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ امریکا سمیت مختلف ممالک انڈیا کی ان سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اور مستقبل میں اس حوالے سے سخت اقدامات کیے جانے کا امکان ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف کی سفارشات پر عمل درآمد کی صورت میں انڈیا کو سفارتی اور اقتصادی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔  

اسرائیلی فورسز کی غزہ میں بمباری، مزید 23 معصوم افراد شہید

غزہ کی سرزمین پر اسرائیلی بمباری نے ایک بار پھر علاقے میں خوف ہراس پھیلا دیا ہے، جہاں منگل کے روز کم از کم 23 فلسطینی شہید ہو گئے۔ مقامی صحت حکام کے مطابق اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں نے ایک ہفتے قبل شروع ہونے والی جنگ کو مزید شدت دی ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ ایک ہفتے میں 700 سے زائد بے گناہ افراد کی جانیں گئیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی پہلے ہی 18 مہینوں سے جاری جنگ میں بار بار بے گھر ہو چکی ہے اور اب یہ بے بس لوگ کھانے کی کمی اور پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے اس مہینے کے اوائل میں امدادی سامان کی ترسیل روک دی تھی، جس سے وہاں کے حالات مزید بدتر ہو گئے ہیں۔ منگل کے روز اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے تمام سرحدی قصبوں کے رہائشیوں کو فوراً جنوب کی طرف منتقل ہونے کا حکم دیا یہ شہر جن میں جبالیہ، بیت لہیہ، بیت حانون اور الشجاعیہ شامل ہیں ان علاقوں میں ہزاروں افراد کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے مگر اسرائیلی فوج نے ان کو بے گھر ہونے کے لیے فوری طور پر نقل مکانی کرنے کا حکم دے دیا۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ سب فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ تاہم، فلسطینی اور اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔ اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ان حملوں کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ اسیر 59 افراد کو رہا کرے جن میں سے 24 زندہ ہیں۔ اسرائیل نے حماس کو 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا، جس میں 1,200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور تقریبا 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل کی فوجی کارروائیاں بدستور جاری ہیں جنہوں نے اب تک 50,000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے جن میں بچے اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔ حماس نے اس خون ریزی کے آغاز کے بعد سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں مگر ابھی تک کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی۔ جبکہ غزہ کی حالت زار بدتر ہوتی جا رہی ہے اور عالمی برادری کی خاموشی اس المیے میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں اسرائیلی حملے نہ صرف انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ مزید پڑھیں: پب جی مزید دوبھائیوں کی زندگیاں نگل گئی

امریکا کا گاڑیوں پر ٹیکس: کینیڈا کے وزیر اعظم نے ‘براہ راست حملہ’ قرار دے دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے آٹو ٹیرف کے اعلان پر کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اسے اپنے ملک پر “براہ راست حملہ” قرار دیا اور کہا کہ تجارتی جنگ امریکیوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکی صارفین کا اعتماد کئی سالوں کی کم ترین سطح پر ہے۔ ٹرمپ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ آٹو امپورٹ پر 25 فیصد ٹیرف عائد کر رہے ہیں اور یہ مستقل ہوگا۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے کارنی نے کہا کہ وہ اپنے کارکنوں، کمپنیوں اور ملک کا دفاع کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ انتقامی اقدامات سے پہلے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کی تفصیلات دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال پر غور کے لیے وہ انتخابی مہم چھوڑ کر اوٹاوا واپس جا رہے ہیں، جہاں وہ امریکی تعلقات پر اپنی کابینہ کمیٹی کی صدارت کریں گے۔ کارنی نے پہلے ہی ایک اسٹریٹجک ریسپانس فنڈ کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت دو ارب کینیڈین ڈالر ان کینیڈین آٹو ملازمتوں کی حفاظت کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو ان محصولات سے متاثر ہوں گی۔ کینیڈا کی معیشت میں آٹو انڈسٹری کا اہم کردار ہے، جس میں ایک لاکھ پچیس ہزار افراد براہ راست اور پانچ لاکھ افراد بالواسطہ ملازمتیں کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے پہلے کینیڈا اور میکسیکو سے امریکی کار سازوں کے لیے درآمدات پر ایک ماہ کی چھوٹ دی تھی، لیکن نئے محصولات سے غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکی صارفین کے اعتماد میں مسلسل چار ماہ کی کمی رپورٹ کی گئی، اور مارچ میں یہ 92.9 پوائنٹس پر آ گیا، جو جنوری 2021 کے بعد سب سے کم سطح ہے۔ کارنی نے انتخابی مہم کے دوران کہا کہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ امریکی صارفین اور کارکنوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ نئے ٹیرف سے آٹو مینو فیکچررز کو زیادہ لاگت اور کم فروخت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل، ٹرمپ نے کینیڈین اسٹیل اور ایلومینیم پر بھی 25 فیصد محصولات عائد کیے تھے اور اب دھمکی دی ہے کہ وہ 2 اپریل سے کینیڈا سمیت تمام تجارتی شراکت داروں پر مزید محصولات لگائیں گے۔ کارنی نے کہا کہ یہ اقدام دراصل امریکہ کی جانب سے کینیڈا پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، لیکن کینیڈا اس کا مقابلہ کرے گا۔ اونٹاریو کے پریمیئر ڈگ فورڈ نے خبردار کیا کہ اگر محصولات لاگو ہوئے تو سرحد کے دونوں طرف آٹو پلانٹس بند ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ٹرمپ اسے یوم آزادی قرار دے رہے ہیں، لیکن یہ امریکی کارکنوں کے لیے یوم برخاستگی ہوگا۔ کینیڈا اور امریکہ کے تعلقات اس فیصلے کے بعد مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ٹرمپ نے کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کے مطالبات بھی جاری رکھے ہیں، جس پر کینیڈین عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کارنی نے کہا کہ ان کا ابھی تک ٹرمپ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، جو غیر معمولی بات ہے، لیکن انہیں امید ہے کہ جلد ہی بات چیت ہوگی۔ کینیڈا میں حزب اختلاف کے رہنما پیئر پوئیلیور نے بھی محصولات پر تنقید کی اور کہا کہ ٹرمپ کو یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے کیونکہ یہ امریکی اور کینیڈین آٹو انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

مقامی صنعت کو فروغ: امریکا نے درآمدی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیکس لگا دیا

اوول آفس میں خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ تمام غیر امریکی ساختہ گاڑیوں پر یہ نیا ٹیرف لاگو ہوگا۔ ان کے مطابق یہ محصولات نہ صرف امریکی صنعت کو دوبارہ مضبوط کریں گے بلکہ ٹیکس کٹوتیوں کے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ یہ محصولات 3 اپریل سے نافذ ہوں گے اور ان کا مقصد امریکی تجارتی خسارے میں کردار ادا کرنے والے بڑے ممالک پر دباؤ ڈالنا ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے اس فیصلے کو کاروبار اور صارفین دونوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اسے کینیڈین معیشت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ملکی مفادات کا دفاع کرے گی۔ یونائیٹڈ آٹو ورکرز نے اس اقدام کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے امریکی آٹو انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ یونین کے صدر شان فین کے مطابق یہ محصولات امریکی آٹو ورکرز اور مقامی معیشت کے لیے مثبت پیش رفت ہیں۔ اس اعلان کے بعد کار ساز کمپنیوں کے شیئرز میں کمی دیکھی گئی اور امریکی اسٹاک مارکیٹ کے فیوچر انڈیکس بھی نیچے چلے گئے، جس سے جمعرات کو بازار کی کمزور کارکردگی کی توقع کی جا رہی ہے۔ یہ اقدام 1962 کے تجارتی ایکٹ کے سیکشن 232 کے تحت کیا گیا ہے، جس کے تحت 2019 میں آٹو امپورٹس کی قومی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس وقت کی تحقیق میں پایا گیا تھا کہ غیر ملکی آٹو درآمدات امریکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، مگر ٹرمپ نے اس وقت ٹیرف عائد نہیں کیے تھے۔ ٹرمپ کی نئی ہدایت میں آٹو پارٹس پر عارضی چھوٹ دی گئی ہے تاکہ سرکاری ادارے اس پالیسی کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دے سکیں۔ تاہم، امریکا-میکسیکو-کینیڈا معاہدے کے تحت آنے والے آٹو پارٹس اس وقت تک ٹیرف سے مستثنیٰ ہوں گے جب تک کہ امریکی محکمہ تجارت اور کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کوئی نئی پالیسی طے نہیں کر لیتے۔ سابق امریکی ٹریژری اہلکار بریڈ سیٹسر نے کہا کہ اس فیصلے سے کینیڈا اور میکسیکو کی تقریباً چار ملین گاڑیاں 25 فیصد یا اس سے زیادہ ٹیرف کے دائرے میں آ جائیں گی، جس کے نتیجے میں قیمتیں بڑھیں گی اور امریکی کاروں کی فروخت متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام امریکا-میکسیکو-کینیڈا معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور جنوبی کوریا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ 2024 میں امریکا نے 474 بلین ڈالر کی آٹوموٹو مصنوعات درآمد کیں، جن میں سے 220 بلین ڈالر کی گاڑیاں شامل تھیں۔ میکسیکو، جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا اور جرمنی امریکا کے بڑے آٹو سپلائرز ہیں۔ ان ٹیرف سے ان ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات متاثر ہونے کا امکان ہے۔