مقامی صنعت کو فروغ: امریکا نے درآمدی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیکس لگا دیا

اوول آفس میں خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ تمام غیر امریکی ساختہ گاڑیوں پر یہ نیا ٹیرف لاگو ہوگا۔ ان کے مطابق یہ محصولات نہ صرف امریکی صنعت کو دوبارہ مضبوط کریں گے بلکہ ٹیکس کٹوتیوں کے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ یہ محصولات 3 اپریل سے نافذ ہوں گے اور ان کا مقصد امریکی تجارتی خسارے میں کردار ادا کرنے والے بڑے ممالک پر دباؤ ڈالنا ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے اس فیصلے کو کاروبار اور صارفین دونوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اسے کینیڈین معیشت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ملکی مفادات کا دفاع کرے گی۔ یونائیٹڈ آٹو ورکرز نے اس اقدام کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے امریکی آٹو انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ یونین کے صدر شان فین کے مطابق یہ محصولات امریکی آٹو ورکرز اور مقامی معیشت کے لیے مثبت پیش رفت ہیں۔ اس اعلان کے بعد کار ساز کمپنیوں کے شیئرز میں کمی دیکھی گئی اور امریکی اسٹاک مارکیٹ کے فیوچر انڈیکس بھی نیچے چلے گئے، جس سے جمعرات کو بازار کی کمزور کارکردگی کی توقع کی جا رہی ہے۔ یہ اقدام 1962 کے تجارتی ایکٹ کے سیکشن 232 کے تحت کیا گیا ہے، جس کے تحت 2019 میں آٹو امپورٹس کی قومی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس وقت کی تحقیق میں پایا گیا تھا کہ غیر ملکی آٹو درآمدات امریکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، مگر ٹرمپ نے اس وقت ٹیرف عائد نہیں کیے تھے۔ ٹرمپ کی نئی ہدایت میں آٹو پارٹس پر عارضی چھوٹ دی گئی ہے تاکہ سرکاری ادارے اس پالیسی کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دے سکیں۔ تاہم، امریکا-میکسیکو-کینیڈا معاہدے کے تحت آنے والے آٹو پارٹس اس وقت تک ٹیرف سے مستثنیٰ ہوں گے جب تک کہ امریکی محکمہ تجارت اور کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کوئی نئی پالیسی طے نہیں کر لیتے۔ سابق امریکی ٹریژری اہلکار بریڈ سیٹسر نے کہا کہ اس فیصلے سے کینیڈا اور میکسیکو کی تقریباً چار ملین گاڑیاں 25 فیصد یا اس سے زیادہ ٹیرف کے دائرے میں آ جائیں گی، جس کے نتیجے میں قیمتیں بڑھیں گی اور امریکی کاروں کی فروخت متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام امریکا-میکسیکو-کینیڈا معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور جنوبی کوریا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ 2024 میں امریکا نے 474 بلین ڈالر کی آٹوموٹو مصنوعات درآمد کیں، جن میں سے 220 بلین ڈالر کی گاڑیاں شامل تھیں۔ میکسیکو، جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا اور جرمنی امریکا کے بڑے آٹو سپلائرز ہیں۔ ان ٹیرف سے ان ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات متاثر ہونے کا امکان ہے۔
انڈیا میں پنجاب پولیس کے ہاتھوں فوجی افسر کی پٹائی ، فوج کا غیر جانبدار تفتیش کا مطالبہ

انڈیا کی فوج نے ایک حاضر سروس کرنل اور ان کے بیٹے کی مبینہ طور پر پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے ذریعے پٹائی کے واقعے کی غیر جانبدار اور منصفانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ ابتدائی طور پر مقامی پولیس نے کرنل کی ایف آئی آر درج نہیں کی، جس کے بعد یہ معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ اس واقعے نے فوج اور پولیس کے درمیان کشیدگی کو جنم دیا۔ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ویسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز کے اعلیٰ افسر لیفٹیننٹ جنرل موہت وادھوا اور پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادو نے چنڈی گڑھ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ لیفٹیننٹ جنرل موہت وادھوا نے اس واقعے کو افسوسناک اور غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ قصورواروں کے خلاف غیر جانبدار اور شفاف تفتیش کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج 15 مارچ کو اس واقعے سے آگاہ ہوئی اور اس کے بعد اعلیٰ حکام سے کارروائی کی درخواست کی گئی۔ پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادو نے کہا کہ اسے فوج اور پولیس کے درمیان تصادم کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ پولیس فوج کے وقار اور مرتبے کا احترام کرتی ہے۔ ان کے مطابق، واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ کرنل پشپیندر سنگھ نے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں الزام لگایا کہ 13 مارچ کی رات پٹیالہ کے ایک ڈھابے میں پارکنگ کے معمولی تنازعے کے بعد پنجاب پولیس کے چار انسپکٹر سمیت 12 اہلکاروں نے ان پر حملہ کیا۔ اس حملے میں ان کے کندھے پر چوٹ آئی جبکہ ان کے بیٹے کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ڈھابے کے باہر لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں واقعے کی ویڈیوز موجود ہیں۔ کرنل نے مزید الزام لگایا کہ پولیس اہلکاروں نے ان کا موبائل فون بھی چھین لیا اور ان کی شناخت جاننے کے باوجود واپس نہیں کیا۔ کرنل پشپیندر سنگھ اس وقت چنڈی مندر کے کمانڈ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ انہوں نے 22 مارچ کو 12 پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ بعد ازاں، انہوں نے پنجاب ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی، جس میں مطالبہ کیا کہ ان کی ایف آئی آر کو سی بی آئی یا کسی دوسرے غیر جانبدار تفتیشی ادارے کو منتقل کیا جائے تاکہ انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔
پب جی مزید دوبھائیوں کی زندگیاں نگل گئی

یمن میں ایک آن لائن ویڈیو گیم کی معمولی تکرار خونی تصادم میں بدل گئی جب ایک معمر شخص نے غصے میں آ کر دو نوجوان بھائیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ المناک واقعہ ‘وادی عمد ضلع’ میں افطار سے کچھ دیر قبل پیش آیا۔ مقامی ذرائع اور وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق، تنازعہ ایک کیفے میں شروع ہوا جو ملزم کے گھر کے قریب واقع تھا۔ یہاں دو بھائیوں، 20 سالہ علی محمد بوصلیب اور 18 سالہ ماجد نے ملزم کے بیٹے کے ساتھ مشہور آن لائن گیم PUBG کھیلنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ان کے درمیان تلخ کلامی شروع ہوئی اور جھگڑا شدت اختیار کر گیا۔ ملزم کا بیٹا اس تکرار کے بعد اپنے 55 سالہ والد ‘اماب’ کے پاس پہنچا اور ساری صورتحال بتائی۔ باپ نے بغیر کسی توقف کے بندوق اٹھائی اور جائے وقوعہ پر جا کر دونوں بھائیوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ دونوں نوجوان موقع پر ہی دم توڑ گئے۔ فائرنگ کے بعد ملزم نے خود کو مقامی پولیس کے حوالے کر دیا اور یمنی وزارت داخلہ کے مطابق، فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے لاشوں کو اسپتال منتقل کیا ہے مگر دونوں بھائی پہلے ہی جاں بحق ہو چکے تھے۔ پولیس نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاکہ اس لرزہ خیز جرم کی تمام تفصیلات سامنے لائی جاسکیں اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ اس قتل نے علاقے میں خوف اور غم کی لہر پیدا کردی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں ماں اور بچوں سمیت مزید 12 افراد کو شہید کردیا
اسرائیلی فورسز نے غزہ میں ماں اور بچوں سمیت مزید 12 افراد کو شہید کردیا

اسرائیلی فورسز نے غزہ میں 12 افراد کو شہید کر دیا ہے جن میں ایک ماں اور اس کا چھ ماہ کا بچہ جبکہ دیگر چار افراد شامل ہیں۔ غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں اب تک 50,144 فلسطینی ہلاک اور 113,704 زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کے حکومتی میڈیا آفس کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ ہزاروں افراد کا ملبے تلے دب کر شہید ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی فوج شام کے شہر درعا پر بمباری کر رہی ہے جس میں کم از کم چھ افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ملی ہیں جس پر قطر اور سعودی عرب نے شدید مذمت کی ہے۔ اسی دوران امریکا نے یمن پر بھی بمباری جاری رکھی ہے۔ یمن ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے امریکی فضائی حملوں میں کم از کم 25 شہری شہید ہوئے، جن میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ یہ بمباری مارچ 2022 کے بعد کی سب سے زیادہ خون ریز کارروائی قرار دی گئی ہے۔ 16 مارچ کو صعدہ کے قزاک صافرا ضلع میں دس افراد شہید ہوئے، جن میں چار بچے شامل تھے۔ اس حملے میں 11 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں دو بچے شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی واضع طور پر پاملی کرتے ہوئے یہ واقعات اس بات کو غماز کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر جنگوں کے اثرات بے گناہ شہریوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ان وحشیانہ حملوں کی روک تھام کے لیے عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ مزید پڑھیں: ہنگری میں 15 سال سے اقتدار میں رہنے والے وزیر اعظم کے خلاف احتجاج
ہنگری میں 15 سال سے اقتدار میں رہنے والے وزیر اعظم کے خلاف احتجاج

ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں منگل کے روز ہزاروں افراد نے ایک نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا، جو LGBTQ+ کمیونٹی کے سالانہ پرائیڈ مارچ پر پابندی عائد کرتا ہے اور اس کے منتظمین اور شرکاء کی شناخت کے لیے چہرے کی شناخت کے سافٹ ویئر کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ یہ قانون گزشتہ ہفتے ہنگری کی پارلیمنٹ میں حکمراں فیڈز پارٹی کے قانون سازوں نے منظور کیا تھا۔ حکام نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ پرائیڈ مارچ بچوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم وکٹر اوربان، جو 2010 سے اقتدار میں ہیں اور 2026 کے انتخابات سے قبل ایک نئی اپوزیشن پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں، LGBTQ+ کمیونٹی پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں انہوں نے ہنگری میں آزاد میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کی غیر ملکی فنڈنگ پر بھی کریک ڈاؤن کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مظاہرے کے منتظم اور پارلیمنٹ کے آزاد رکن، اکوس ہدازی نے فیس بک پر لکھا کہ یہ قانون صرف پرائیڈ مارچ پر پابندی لگانے کے لیے نہیں، بلکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے احتجاج کو دبانے کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ہے۔ مظاہرے کے دوران، تقریباً 2000 افراد نے شرکت کی۔ اپوزیشن مومینٹم پارٹی کے کارکنوں اور دیگر مظاہرین نے “یورپ” اور “فلیتھی فیڈز” (گندی فیڈز) کے نعرے لگاتے ہوئے ایک اہم پل کو بلاک کرنے کی کوشش کی۔ احتجاج میں شریک 72 سالہ ززوسا سزابو، جو بوڈاپیسٹ کے مشرق میں واقع قصبے کیچکیمیٹ سے آئی تھیں، نے کہا کہ یہ احتجاج صرف پرائیڈ مارچ کے بارے میں نہیں، بلکہ آزادی اظہار اور اجتماع کے بنیادی حق کے دفاع کے لیے ہے، جسے حکومت محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ منگل کو بھی بل کی منظوری کے خلاف مظاہرین نے وسطی بوڈاپیسٹ میں ایک پل بلاک کر دیا تھا۔ بوڈاپیسٹ کے لبرل میئر گرجیلی کاراکسنی نے اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا، جب کہ اپوزیشن مومینٹم پارٹی کے ارکان نے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے دوران احتجاجاً دھوئیں کے شعلے جلائے۔ پرائیڈ فیسٹیول کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ان کا ایونٹ بچوں کے لیے کسی بھی طرح کا خطرہ نہیں ہے، اور وہ حکومتی پابندی کے باوجود سالانہ پرائیڈ مارچ منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
چین میں ماحولیاتی تبدیلی کے شدید اثرات: 26 فیصد گلیشیئرز کم ہوگئے

چین میں گلیشیئرز کے سکڑنے کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار نے ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کو اجاگر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 1960 کے بعد سے چین کے گلیشیئر کا رقبہ 26 فیصد کم ہو چکا ہے، جبکہ 7,000 چھوٹے گلیشیئر مکمل طور پر غائب ہو گئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں گلیشیئر کی پسپائی کی رفتار مزید تیز ہو گئی ہے، جو عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنی ہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کے گلیشیئرز پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور گزشتہ تین سالوں میں ریکارڈ پر سب سے زیادہ برفانی نقصان درج کیا گیا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جیسے جیسے یہ قدرتی پانی کے ذخائر سکڑیں گے، میٹھے پانی کی دستیابی مزید کم ہو جائے گی، جس سے آبی وسائل پر دباؤ بڑھے گا اور پانی کے حصول کے لیے مقابلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، گلیشیئرز کا پگھلاؤ ماحولیاتی تباہی کے خطرات میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ چین میں گلیشیئرز بنیادی طور پر تبت، سنکیانگ، سیچوان، یونان، گانسو اور چنگھائی کے علاقوں میں واقع ہیں۔ چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے نارتھ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایکو انوائرمنٹ اینڈ ریسورسز کی تحقیق کے مطابق، 2020 میں چین کے گلیشیئرز کا کل رقبہ 46,000 مربع کلومیٹر تھا، جبکہ 1960 سے 1980 کے درمیان یہ رقبہ تقریباً 59,000 مربع کلومیٹر تھا۔ اس عرصے کے دوران گلیشیئرز کی تعداد 46,000 سے بڑھ کر 69,000 تک پہنچ گئی، جو اس وسیع علاقے میں برف کے مسلسل تغیر کو ظاہر کرتا ہے۔ اپنے گلیشیئرز کو پگھلنے سے بچانے کے لیے، چین نے مختلف ٹیکنالوجیز کو آزمایا ہے، جن میں برف کے کمبل اور مصنوعی برف کے نظام شامل ہیں، تاکہ برف کے پگھلنے کی رفتار کو سست کیا جا سکے۔ تبت کے سطح مرتفع کو دنیا کا “تیسرا قطب” بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ بلند و بالا خطہ برف کے وسیع ذخائر کا حامل ہے۔ ماہرین کے مطابق، گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کا سلسلہ نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا پر اثر ڈال رہا ہے۔ آرکٹک سے لے کر الپس اور جنوبی امریکہ سے لے کر تبت کے پہاڑی سلسلوں تک، ہر جگہ برفانی ذخائر تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ جیواشم ایندھن کے جلنے کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے، جس کے نتیجے میں برف کے بڑے پیمانے پر نقصان میں مزید تیزی آنے کی توقع ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے عالمی سطح پر اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی مسائل میں اضافہ ہوگا۔ سمندروں کی سطح میں اضافہ اور پانی کے قدرتی ذرائع کے سکڑنے سے نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے اثرات شدید ہوں گے بلکہ مستقبل میں انسانی زندگی اور معیشت پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکا کے بعد جنوبی کوریا بھی آگ کی لپیٹ میں آگیا، 18 افراد ہلاک، 27,000 لوگ بے گھر ہوگئے

جنوبی کوریا کے جنوب مشرقی علاقوں میں جنگلات کی تباہ کن آگ نے شدت اختیار کر لی ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 18 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ آگ کی لپیٹ میں آئے ہوئے علاقے میں ہزاروں فائر فائٹرز اور فوجی اہلکار آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ ملک میں تاریخ کی بدترین آگ کو قابو میں لایا جا سکے۔ مقامی حکام کے مطابق آگ نے علاقے کے 27,000 سے زیادہ افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے جبکہ صورتحال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس آگ کا سبب تیز ہوا کے جھونکے اور خشک موسمی حالات ہیں جنہوں نے آگ کو بڑھاوا دیا۔ جنوبی کوریا کے صدر ‘ہان ڈک سو’ نے اعلان کیا ہے کہ “ہم تمام دستیاب وسائل اور اہلکاروں کو اس آفت سے نمٹنے کے لیے متحرک کر چکے ہیں لیکن یہ صورتحال بہت مشکل ہے۔” حکومتی ترجمان نے مزید کہا کہ اس میں امریکی فوجی بھی مدد فراہم کر رہے ہیں تاکہ آگ پر قابو پایا جا سکے۔ آگ کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک 14 ہلاکتیں یوئی سونگ کاؤنٹی میں رپورٹ ہو چکی ہیں جبکہ 4 افراد سانچیون کاؤنٹی میں جاں بحق ہوگئے اور مرنے والوں کی اکثریت 60 سے 70 سال کی عمر کے افراد ہیں۔ جنوبی کوریا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف فارسٹ سائنس کے ماہر ‘لی باینگ ڈو’ نے کہا کہ یوئی سونگ کی آگ نے ‘ناقابل تصور’ سرعت سے پھیلتے ہوئے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جسے روکنے میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا کے روس اور یوکرین کے ساتھ ‘الگ الگ’ معاہدے: کب اور کیسے نافذ ہوں گے؟ مقامی حکام کے مطابق خشک موسم بدستور جاری رہنے کی توقع ہے اور اس صورتحال نے جنگلات کی آگ کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی آگ کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے جیسا کہ اس سے پہلے امریکا کے لاس اینجلس اور جاپان کے شمال مشرق میں بھی ایسی آفات دیکھی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ جنوبی کوریا کی حکومت اپنے پہاڑی علاقوں میں آگ بجھانے کے لیے ہیلی کاپٹروں پر انحصار کر رہی ہے لیکن گزشتہ سال روسی ہیلی کاپٹروں کی مرمت نہ ہونے کے باعث ان کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ حکومت نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مزید ہیلی کاپٹر اور جدید ٹیکنالوجی جیسے ڈرونز کے استعمال کا منصوبہ بنایا ہے۔ یوئی سونگ کی آگ نے ایک قدیم مندر “گائون” کو بھی مکمل طور پر جلا دیا جب کہ اس کی لپیٹ میں آنے والی دیگر تاریخی ورثوں میں یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل “ہاہوے گاؤں” اور “بیونگ سان کنفیوشن اکیڈمی” بھی شامل ہیں۔ حکام ان علاقوں کی حفاظت کے لیے آگ کو روکنے کے لیے ایروسلز اور کیمیکل مواد کا استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت نے متاثرہ علاقوں کو ‘خصوصی قدرتی آفات کے علاقے’ کے طور پر اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ جنگلات کی آگ نے 15,000 ہیکٹر سے زائد زمین کو تباہ کر دیا ہے۔ جنوبی کوریا کی حکومت نے ایسی آفات سے نمٹنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لانے کا عہد کیا ہے تاکہ مزید جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔ مزید پڑھیں: ویسے تو ٹرمپ کو عدالت کا حکم ماننا چاہیے مگر ‘امیگریشن پالیسی’ میں استثنا، امریکی عوام
امریکا کے روس اور یوکرین کے ساتھ ‘الگ الگ’ معاہدے: کب اور کیسے نافذ ہوں گے؟

امریکا نے منگل کے روز یوکرین اور روس کے ساتھ دو الگ معاہدے کیے، جن کے تحت سمندر میں اور توانائی کے اہداف پر حملے روکنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس کے بدلے میں، واشنگٹن نے کچھ روسی پابندیاں ہٹانے کے لیے تعاون کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ یہ واضح نہیں تھا کہ بحیرہ اسود کے بحری تحفظ سے متعلق معاہدے کب اور کیسے نافذ ہوں گے، لیکن یہ دونوں ممالک کے درمیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد کیے جانے والے پہلے رسمی معاہدے تھے۔ ٹرمپ یوکرین میں جنگ ختم کرنے اور روس کے ساتھ تیزی سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے کیف اور یورپی ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ روس کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں امریکا نے روسی زراعت اور کھاد کی برآمدات پر عائد عالمی پابندیاں ہٹانے میں مدد کرنے پر بھی اتفاق کیا، جو کہ روس کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ تاہم، کریملن نے فوری طور پر واضح کیا کہ بحیرہ اسود کے معاہدے اس وقت تک نافذ نہیں ہوں گے جب تک کہ کچھ روسی بینکوں کے عالمی مالیاتی نظام سے تعلقات بحال نہیں ہوتے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کی توقع کے مطابق معاہدے پر عمل درآمد فوری ہوگا اور اس کے لیے کسی قسم کی پابندیوں میں نرمی کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کریملن کے بیان کو معاہدے کو “ہیرا پھیری” کرنے کی کوشش قرار دیا۔ اپنے رات کے ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے کہا، “وہ پہلے ہی معاہدے کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور درحقیقت ہمارے بیچ میں شامل افراد اور پوری دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں۔” روس اور یوکرین دونوں نے کہا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے واشنگٹن پر انحصار کریں گے، لیکن دونوں کو شبہ تھا کہ مخالف فریق ان کی پاسداری کرے گا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا، “ہمیں واضح ضمانتوں کی ضرورت ہے۔ کیف کے ساتھ ماضی کے تلخ تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ ضمانتیں صرف واشنگٹن ہی دے سکتا ہے، جو زیلنسکی اور ان کی حکومت کو ہدایات دے۔” زیلنسکی نے مزید کہا کہ اگر روس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ ٹرمپ سے اضافی پابندیاں لگانے اور یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ انہوں نے کہا، “ہمیں روس پر بھروسہ نہیں، لیکن ہم تعمیری رویہ اپنائیں گے۔” معاہدوں کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد، روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر ڈرون حملے کرنے کا الزام لگایا، لیکن بحیرہ اسود یا توانائی کے اہداف پر کسی بڑے حملے کی اطلاع نہیں ملی۔ ٹرمپ نے خبر رساں ادارے نیوز میکس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ روس جنگ ختم کرنے میں تاخیر کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، “مجھے لگتا ہے کہ روس اس کا خاتمہ چاہتا ہے، لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ جان بوجھ کر وقت ضائع کر رہے ہوں۔ میں نے ماضی میں بھی ایسی صورتحال دیکھی ہیں۔”
ویسے تو ٹرمپ کو عدالت کا حکم ماننا چاہیے مگر ‘امیگریشن پالیسی’ میں استثنا، امریکی عوام

امریکہ میں زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر کو ہمیشہ وفاقی عدالت کے فیصلوں کی پابندی کرنی چاہیے، چاہے وہ صدر کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جب بات غیر قانونی طور پر رہنے والے افراد کو ملک سے نکالنے کی آتی ہے تو کچھ لوگ اس اصول سے استثنا دینے کے حق میں نظر آتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ رائٹرز/اِپسوس کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، 82 فیصد امریکیوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ صدر کو عدالتی فیصلوں کی تعمیل کرنی چاہیے، چاہے وہ ان سے متفق نہ ہوں۔ اس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے افراد شامل تھے۔ لیکن جب سوال خاص طور پر ان افراد کی ملک بدری سے متعلق آیا جنہیں ٹرمپ انتظامیہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہنے والے اور خطرہ سمجھتی تھی، تو 76 فیصد ریپبلکنز نے اس بات کی حمایت کی کہ انتظامیہ کو عدالتی حکم کے باوجود ان افراد کو ملک بدر کرنا چاہیے۔ دوسری طرف، صرف 8 فیصد ڈیموکریٹس نے اس کی حمایت کی۔ اس سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر ریپبلکنز عمومی طور پر عدالتوں کے اختیارات کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن جب معاملہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کا آتا ہے، تو وہ ان کی حمایت میں عدالتی فیصلوں کو نظرانداز کرنے کے حامی بن جاتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے والے افراد کو نکالنے کے لیے 18ویں صدی کے ایک پرانے قانون کا سہارا لیا، جس کے تحت وینزویلا کے ایک گینگ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ لیکن ایک جج نے اس عمل کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔ اس کے باوجود انتظامیہ نے پہلے سے طے شدہ دو ملک بدری کی پروازوں کو واپس نہیں بلایا، جس کی وجہ سے سوالات اٹھنے لگے کہ آیا یہ عدالتی حکم کی دانستہ خلاف ورزی تھی۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑے پیمانے پر ملک بدریوں کا وعدہ کیا تھا، لیکن جب وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے مہینوں میں ملک بدری کی شرح جو بائیڈن کے دور سے کم رہی۔ تاہم، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، غیر قانونی امیگریشن میں اضافہ ہوا، اور ملک بدری کی کارروائیاں تیز ہو گئیں۔ ٹرمپ نے ملک بدری کے نئے طریقے بھی متعارف کروائے، جن میں ملزم گینگ ممبران کو سلواڈور کی جیلوں میں بھیجنا شامل تھا۔ سروے میں شامل 45 فیصد افراد نے ٹرمپ کی صدارت کی کارکردگی کو مثبت قرار دیا، جبکہ 44 فیصد لوگوں نے اس سے پہلے کیے گئے ایک اور سروے میں ان کی کارکردگی کو سراہا تھا۔ ٹرمپ کی مقبولیت ان کے پہلے دورِ حکومت (2017-2021) کے مقابلے میں اب زیادہ ہے اور یہ جو بائیڈن کی صدارت کے دوران ملنے والی مقبولیت سے بھی زیادہ ہے۔ امیگریشن کے معاملے پر ٹرمپ کو سب سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ تقریباً نصف امریکیوں نے ان کی امیگریشن پالیسیوں کو سراہا، جن میں تازہ ترین سروے میں 49 فیصد اور اس سے پہلے کے سروے میں 50 فیصد لوگ شامل تھے۔
پاکستانی صحافیوں کا دورہ اسرائیل، دفتر خارجہ نے ان خبروں کی تردید کر دی

پاکستان کے دفتر خارجہ نے پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ کے اسرائیل جانے کی خبروں کی تردید کی ہے،دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ قوانین کے تحت یہ ممکن نہیں ہے۔ عالمی خبر ارساں ادارے عرب نیوز کے مطابق عبرانی زبان کے ایک اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ صحافیوں، دانشوروں اور اثرورسوخ کے 10 رکنی پاکستانی وفد نے ایک ہفتے کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ انگریزی زبان کے اسرائیلی اخبار دی یروشلم پوسٹ نے کہا کہ اس ہفتے ان پاکستانیوں نے ہولوکاسٹ اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے بارے میں جاننے کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور مسلسل بین الاقوامی طور پر متفقہ پیرامیٹرز اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا کہ حکومت پاکستان نے پاکستانی صحافیوں کے اسرائیل کا سفر کرنے کے حوالے سے رپورٹس کو نوٹ کیا ہے، اس حوالے سے واضح کیا جاتا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ اسرائیل کے سفر کے لیے درست نہیں ہیں، لہذا موجودہ ضوابط کے تحت ایسا کوئی دورہ ممکن نہیں ہے۔ دفتر کارجہ کے ترجمان شفقت محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت کرتا ہے، جس میں 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام بھی شامل ہے۔ پاکستان نے مسلسل غزہ میں اسرائیلی فوجی مہم بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور گذشتہ منگل کو اس علاقے میں اسرائیلی حملوں کی بحالی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 17 ماہ پرانی جنگ کو مکمل طور پر بحال کر سکتے ہیں جس میں 48,000 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اکتوبر 2023 میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر گولہ باری شروع کرنے کے بعد سے اسلام آباد فلسطینی عوام کے لیے دو درجن سے زائد امدادی سامان بھی بھیج چکا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور پرامن حل کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتا ہے۔