April 21, 2025 10:33 pm

English / Urdu

امریکا کے روس اور یوکرین کے ساتھ ‘الگ الگ’ معاہدے: کب اور کیسے نافذ ہوں گے؟

امریکا  نے منگل کے روز یوکرین اور روس کے ساتھ دو الگ معاہدے کیے، جن کے تحت سمندر میں اور توانائی کے اہداف پر حملے روکنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس کے بدلے میں، واشنگٹن نے کچھ روسی پابندیاں ہٹانے کے لیے تعاون کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ یہ واضح نہیں تھا کہ بحیرہ اسود کے بحری تحفظ سے متعلق معاہدے کب اور کیسے نافذ ہوں گے، لیکن یہ دونوں ممالک کے درمیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد کیے جانے والے پہلے رسمی معاہدے تھے۔ ٹرمپ یوکرین میں جنگ ختم کرنے اور روس کے ساتھ تیزی سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے کیف اور یورپی ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ روس کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں امریکا  نے روسی زراعت اور کھاد کی برآمدات پر عائد عالمی پابندیاں ہٹانے میں مدد کرنے پر بھی اتفاق کیا، جو کہ روس کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ تاہم، کریملن نے فوری طور پر واضح کیا کہ بحیرہ اسود کے معاہدے اس وقت تک نافذ نہیں ہوں گے جب تک کہ کچھ روسی بینکوں کے عالمی مالیاتی نظام سے تعلقات بحال نہیں ہوتے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کی توقع کے مطابق معاہدے پر عمل درآمد فوری ہوگا اور اس کے لیے کسی قسم کی پابندیوں میں نرمی کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کریملن کے بیان کو معاہدے کو “ہیرا پھیری” کرنے کی کوشش قرار دیا۔ اپنے رات کے ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے کہا، “وہ پہلے ہی معاہدے کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور درحقیقت ہمارے بیچ میں شامل افراد اور پوری دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں۔” روس اور یوکرین دونوں نے کہا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے واشنگٹن پر انحصار کریں گے، لیکن دونوں کو شبہ تھا کہ مخالف فریق ان کی پاسداری کرے گا۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا، “ہمیں واضح ضمانتوں کی ضرورت ہے۔ کیف کے ساتھ ماضی کے تلخ تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ ضمانتیں صرف واشنگٹن ہی دے سکتا ہے، جو زیلنسکی اور ان کی حکومت کو ہدایات دے۔” زیلنسکی نے مزید کہا کہ اگر روس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ ٹرمپ سے اضافی پابندیاں لگانے اور یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ انہوں نے کہا، “ہمیں روس پر بھروسہ نہیں، لیکن ہم تعمیری رویہ اپنائیں گے۔” معاہدوں کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد، روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر ڈرون حملے کرنے کا الزام لگایا، لیکن بحیرہ اسود یا توانائی کے اہداف پر کسی بڑے حملے کی اطلاع نہیں ملی۔ ٹرمپ نے خبر رساں ادارے نیوز میکس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ روس جنگ ختم کرنے میں تاخیر کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، “مجھے لگتا ہے کہ روس اس کا خاتمہ چاہتا ہے، لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ جان بوجھ کر وقت ضائع کر رہے ہوں۔ میں نے ماضی میں بھی ایسی صورتحال دیکھی ہیں۔”

ویسے تو ٹرمپ کو عدالت کا حکم ماننا چاہیے مگر ‘امیگریشن پالیسی’ میں استثنا، امریکی عوام

امریکہ میں زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر کو ہمیشہ وفاقی عدالت کے فیصلوں کی پابندی کرنی چاہیے، چاہے وہ صدر کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جب بات غیر قانونی طور پر رہنے والے افراد کو ملک سے نکالنے کی آتی ہے تو کچھ لوگ اس اصول سے استثنا دینے کے حق میں نظر آتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ رائٹرز/اِپسوس کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، 82 فیصد امریکیوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ صدر کو عدالتی فیصلوں کی تعمیل کرنی چاہیے، چاہے وہ ان سے متفق نہ ہوں۔ اس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے افراد شامل تھے۔ لیکن جب سوال خاص طور پر ان افراد کی ملک بدری سے متعلق آیا جنہیں ٹرمپ انتظامیہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہنے والے اور خطرہ سمجھتی تھی، تو 76 فیصد ریپبلکنز نے اس بات کی حمایت کی کہ انتظامیہ کو عدالتی حکم کے باوجود ان افراد کو ملک بدر کرنا چاہیے۔ دوسری طرف، صرف 8 فیصد ڈیموکریٹس نے اس کی حمایت کی۔ اس سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر ریپبلکنز عمومی طور پر عدالتوں کے اختیارات کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن جب معاملہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کا آتا ہے، تو وہ ان کی حمایت میں عدالتی فیصلوں کو نظرانداز کرنے کے حامی بن جاتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے والے افراد کو نکالنے کے لیے 18ویں صدی کے ایک پرانے قانون کا سہارا لیا، جس کے تحت وینزویلا کے ایک گینگ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ لیکن ایک جج نے اس عمل کو عارضی طور پر روک دیا تھا۔ اس کے باوجود انتظامیہ نے پہلے سے طے شدہ دو ملک بدری کی پروازوں کو واپس نہیں بلایا، جس کی وجہ سے سوالات اٹھنے لگے کہ آیا یہ عدالتی حکم کی دانستہ خلاف ورزی تھی۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑے پیمانے پر ملک بدریوں کا وعدہ کیا تھا، لیکن جب وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے مہینوں میں ملک بدری کی شرح جو بائیڈن کے دور سے کم رہی۔ تاہم، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، غیر قانونی امیگریشن میں اضافہ ہوا، اور ملک بدری کی کارروائیاں تیز ہو گئیں۔ ٹرمپ نے ملک بدری کے نئے طریقے بھی متعارف کروائے، جن میں ملزم گینگ ممبران کو سلواڈور کی جیلوں میں بھیجنا شامل تھا۔ سروے میں شامل 45 فیصد افراد نے ٹرمپ کی صدارت کی کارکردگی کو مثبت قرار دیا، جبکہ 44 فیصد لوگوں نے اس سے پہلے کیے گئے ایک اور سروے میں ان کی کارکردگی کو سراہا تھا۔ ٹرمپ کی مقبولیت ان کے پہلے دورِ حکومت (2017-2021) کے مقابلے میں اب زیادہ ہے اور یہ جو بائیڈن کی صدارت کے دوران ملنے والی مقبولیت سے بھی زیادہ ہے۔ امیگریشن کے معاملے پر ٹرمپ کو سب سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ تقریباً نصف امریکیوں نے ان کی امیگریشن پالیسیوں کو سراہا، جن میں تازہ ترین سروے میں 49 فیصد اور اس سے پہلے کے سروے میں 50 فیصد لوگ شامل تھے۔

پاکستانی صحافیوں کا دورہ اسرائیل، دفتر خارجہ نے ان خبروں کی تردید کر دی

پاکستان کے دفتر خارجہ نے پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ کے اسرائیل جانے کی خبروں کی تردید کی ہے،دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ قوانین کے تحت یہ ممکن نہیں ہے۔ عالمی خبر ارساں ادارے عرب نیوز کے مطابق عبرانی زبان کے ایک اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ صحافیوں، دانشوروں اور اثرورسوخ کے 10 رکنی پاکستانی وفد نے ایک ہفتے کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ انگریزی زبان کے اسرائیلی اخبار دی یروشلم پوسٹ نے کہا کہ اس ہفتے ان پاکستانیوں نے ہولوکاسٹ اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے بارے میں جاننے کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور مسلسل بین الاقوامی طور پر متفقہ پیرامیٹرز اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا کہ حکومت پاکستان نے پاکستانی صحافیوں کے اسرائیل کا سفر کرنے کے حوالے سے رپورٹس کو نوٹ کیا ہے، اس حوالے سے واضح کیا جاتا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ اسرائیل کے سفر کے لیے درست نہیں ہیں، لہذا موجودہ ضوابط کے تحت ایسا کوئی دورہ ممکن نہیں ہے۔ دفتر کارجہ کے ترجمان شفقت محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت کرتا ہے، جس میں 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام بھی شامل ہے۔ پاکستان  نے مسلسل غزہ میں اسرائیلی فوجی مہم بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور گذشتہ منگل کو اس علاقے میں اسرائیلی حملوں کی بحالی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 17 ماہ پرانی جنگ کو مکمل طور پر بحال کر سکتے ہیں جس میں 48,000 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اکتوبر 2023 میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر گولہ باری شروع کرنے کے بعد سے اسلام آباد فلسطینی عوام کے لیے دو درجن سے زائد امدادی سامان بھی بھیج چکا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ  پاکستان اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور پرامن حل کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں میں ایک ہفتے کے دوران 270 بچے جاں بحق ہو گئے

اسرائیل فلسطین میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایک بار پھر جنگ نے زور پکڑ لیا ہے،جس میں اسرائیلی حملوں سے ایک ہفتے کے دوران 270  فلسطینی بچے شہید ہو گے۔ عالمی نشریاتی ادارہ الجزیرہ کے مطابق  اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ دوبارہ شروع کیے جانے کے بعد ایک ہفتے کے دوران 270 سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں، جو جنگ کے آغاز سے اب تک بچوں کے لیے ‘سب سے ہلاکت خیز دنوں میں شامل ہیں۔ سیو دی چلڈرن کی انسانی امداد کی ڈائریکٹر راچل کمنگز نے کہا کہ بم گر رہے ہیں، اسپتال تباہ ہو رہے ہیں، بچے مارے جا رہے ہیں اور دنیا خاموش ہے۔ کوئی امداد نہیں، کوئی تحفظ نہیں، کوئی مستقبل نہیں۔ ادارے نے اپنے بیان میں کہا کہ جنگ کی بحالی ‘غزہ کے بچوں کے لیے موت کا پروانہ ہے۔ غزہ کی گورنمنٹ میڈیا آفس کے مطابق، اکتوبر 2023 میں جنگ کے آغاز سے اب تک 17,900 سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سیو دی چلڈرن نے مزید کہا کہ بچوں کو ان کے خیموں میں نیند کے دوران قتل کیا جا رہا ہے، انہیں بھوکا رکھا جا رہا ہے اور حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بچوں اور خاندانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا واحد راستہ مستقل اور مکمل جنگ بندی ہے۔ جنکہ غزہ میں دوبارہ جنگ شروع ہونے کے بعد مزید افراد جاں بعق ہوئے ہیں،غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے پٹی پر دوبارہ جنگ شروع کرنے کے بعد سے ایک ہفتے میں 792 افراد ہلاک اور 1,663 زخمی ہو چکے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے ہلاکتوں کی کل تعداد 50,144 ہو گئی ہے، جب کہ 113,704 لوگ زخمی ہوئے ہیں

انڈیا: بدھ مت کے پیروکاروں کا مہابودھی مندر پر ہندوؤں کے کنٹرول کے خلاف احتجاج کیوں؟

انڈیا میں بدھ مت کے پیروکاروں نے مہابودھی مندر پر ہندوؤں کے کنٹرول کے خلاف شدید احتجاج شروع کر دیا، جس کا مقصد مندر کا مکمل اختیار بدھ کمیونٹی کا حاصل کرنا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ مندر میں ادا کی جانے والی ہندو رسومات بدھ مت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ مندر کا مکمل اختیار بدھ کمیونٹی کو دیا جائے۔ مظاہرین نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ہندو اکثریت کی حکومت بدھ مت کے حقوق کو نظرانداز کر رہی ہے۔ پولیس نے بھوک ہڑتال کرنے والے بدھ راہبوں کو زبردستی ہٹایا، جس کے بعد یہ احتجاج شدت اختیار کرگیا۔ مزید پڑھیں: اسرائیل کا شام کے دو فوجی اڈوں پر حملہ، ایرانی افواج اور حزب اللہ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ واضح رہے کہ مہابودھی مندر کو 1949 کے بودھ گیا ٹیمپل ایکٹ کے تحت چلایا جاتا ہے، جس کے مطابق 8 رکنی کمیٹی میں ہندو اور بدھ نمائندوں کو مساوی نمائندگی دی گئی ہے۔ بدھ رہنما اس قانون کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے مندر کا مکمل انتظامی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب سولہویں صدی میں ہندوؤں نے مندر پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا، ہندو خانقاہ بودھ گیا ماتھ تاریخی تحفظ کی کوششوں کو اپنی ذمہ داری قرار دیتی ہے۔ خیال رہے کہ انڈین حکام اور سپریم کورٹ میں معاملہ پہنچنے کے باوجود تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ ہندو راہبوں نے ان مظاہروں کو سیاسی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے، تاہم بدھ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کی یکجہتی میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یاد رہے کہ انڈیا میں اقلیتی برادریوں کو درپیش مسائل میں بدھ مت کے پیروکار بھی شامل ہیں، جو ہندو اکثریت کے ظلم کا شکار ہیں۔

‘امریکی قومی سلامتی داؤ پر لگ گئی’ حوثیوں کے خلاف جنگی منصوبے غلطی سے شئیر ہوگئے

وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک غلطی نے امریکی حکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جب کچھ اعلیٰ ترین حکومتی افسران نے ایک ‘انکرپٹڈ چیٹ گروپ’ میں یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے خلاف جنگی منصوبے ایک صحافی کے ساتھ شیئر کردیے۔ یہ انکشاف “دی اٹلانٹک” کے صحافی کی طرف سے سامنے آیا جس پر امریکی قانون سازوں کی طرف سے فوری ردعمل آیا ہے اور انہوں نے اس مسئلے کو امریکی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ “دی اٹلانٹک” کے ایڈیٹر ان چیف ‘جیفری گولڈ برگ’ نے پیر کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ انہیں 13 مارچ کو سگنل میسجنگ ایپ پر ایک “ہوثی پی سی اسمال گروپ” کے نام سے ایک چیٹ گروپ میں دعوت دی گئی تھی۔ اس گروپ میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر ‘مائیک والز’ اور ان کے نائب ‘ایلیکس وونگ’ یمن میں حوثیوں کے خلاف امریکی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ گولڈ برگ نے یہ بھی بتایا کہ اس گروپ میں کئی اعلیٰ امریکی حکام کے اکاؤنٹس شامل تھے جن میں نائب صدر جے ڈی ونس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ‘جان رٹکلف’ بھی شامل تھے۔ گولڈ برگ کے مطابق امریکی وزیر دفاع ‘پیٹ ہیگسیٹھ’ نے گروپ میں جنگی منصوبے کی آپریشنل تفصیلات شیئر کیں جن میں اہداف، ہتھیار، اور حملوں کے ترتیب کا ذکر شامل تھا۔ ہیگسیٹھ نے بعد میں ان الزامات کی تردید کی تاہم گولڈ برگ نے اس بات کو “شوکنگلی ریکلیس” قرار دیا اور کہا کہ یہ واقعہ قومی سلامتی کے لیے ایک دھچکا تھا۔ 15 مارچ کو امریکا نے یمن کے حوثیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فضائی حملے شروع کیے تھے جو ریڈ سی شپنگ پر حملے کر رہے تھے۔ یہ بھی پڑھیں: کیا نئی امریکی ویزا پالیسی پاکستان کو متاثر کرے گی؟ ان حملوں کی تیاری کے دوران گروپ میں یہ بحث ہوئی تھی کہ آیا یورپ کے اتحادیوں کو اس فوجی کارروائی میں شامل کیا جائے اور اس بارے میں تشویش ظاہر کی گئی تھی کہ امریکی اسٹریٹجک مفادات میں یورپی ممالک کا کردار زیادہ ہے۔ اس واقعے نے امریکی قانون سازوں کو بھی متحرک کر دیا ہے جو اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اس قسم کی معلومات کی غلط طریقے سے شیئرنگ امریکی قومی سلامتی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ امریکا کے قانون کے مطابق اگر کسی شخص نے خفیہ معلومات کو غلط طریقے سے استعمال کیا یا شیئر کیا تو وہ قانونی کارروائی کا سامنا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سگنل ایپ پر غائب ہونے والی معلومات نے وفاقی ریکارڈ رکھنے کے قوانین کے حوالے سے مزید سوالات اٹھائے ہیں۔ ڈیموکریٹک رہنماؤں نے اس معاملے کی شدید مذمت کی ہے اور سینیٹر الزبتھ وارن نے کہا کہ یہ “غیر قانونی اور انتہائی خطرناک” عمل تھا اور سینیٹر کرس کوونز نے اس بات کو مزید واضح کیا کہ اس معاملے میں شامل تمام حکام نے قانونی طور پر ایک بڑا جرم کیا ہے، چاہے وہ اس میں جان بوجھ کر ملوث نہ ہوں۔ وائٹ ہاؤس نے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا۔ وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تفصیل سے تحقیقات کی جا رہی ہیں اور وہ اس کے نتائج سے آگاہ ہیں۔ تاحال اس مسئلے کے نتیجے میں کسی افسر کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا۔ یہ واقعہ نہ صرف امریکی حکومتی اداروں کی سطح پر ایک بڑی غلطی ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی امریکی حکومتی رازوں کی حفاظت کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: کینیڈا کے انتخابات میں چین اور انڈیا کی مداخلت کا خطرہ، سیکیورٹی ایجنسی نے خبردار کردیا

کینیڈا کے انتخابات میں چین اور انڈیا کی مداخلت کا خطرہ، سیکیورٹی ایجنسی نے خبردار کردیا

کینیڈا کی سیکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ آئندہ 28 اپریل کو ہونے والے جنرل انتخابات میں چین اور انڈیا کی غیر ملکی مداخلت کے خطرات بڑھ گئے ہیں، جبکہ روس اور پاکستان بھی اس ضمن میں ممکنہ طور پر مداخلت کرسکتے ہیں۔ کینیڈا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس (سی ایس آئی ایس) کی جانب سے یہ انتباہ اس وقت جاری کیا گیا ہے جبکہ کینیڈا کے چین اور انڈیا کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ سی ایس آئی ایس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ‘ونیسا لوئڈ’ نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عالمی سطح پر دشمن ممالک انتخابات میں مداخلت کے لیے اب جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) کا استعمال کر رہے ہیں اور چین کی جانب سے کینیڈا کے جمہوری عمل میں مداخلت کا امکان بہت زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین خاص طور پر AI کی مدد سے انتخابات میں اثر انداز ہونے کی کوشش کرسکتا ہے جیسے کہ اس نے ماضی میں متعدد ممالک میں کیا ہے۔ یہ انتباہ ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب کینیڈا اور چین کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں اور اس ماہ کے آغاز میں چین نے کینیڈا کے زرعی اور خوراکی مصنوعات پر 2.6 بلین ڈالر سے زائد کی ٹیکس عائد کردیئے ہیں جو کینیڈا کی جانب سے چینی برقی گاڑیوں اور اسٹیل و ایلومینیم پر عائد ٹیکس کا جواب تھا۔ اس کے علاوہ چین نے گزشتہ سال چار کینیڈین شہریوں کو منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات میں سزائے موت دے دی تھی جس پر کینیڈا نے شدید احتجاج کیا۔ یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا شام کے دو فوجی اڈوں پر حملہ، ایرانی افواج اور حزب اللہ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ دوسری جانب انڈیا کے ساتھ کینیڈا کے تعلقات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں کیونکہ گزشتہ سال کینیڈا نے انڈیا کے چھ سفارتی افسران کو ملک سے نکال دیا تھا جن پر الزام تھا کہ وہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں۔ سی ایس آئی ایس نے انڈیا پر بھی کینیڈا کے اندر جمہوری عمل میں مداخلت کی صلاحیت اور نیت رکھنے کا الزام لگایا۔ کینیڈا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ غیر ملکی مداخلت ہمیشہ نتائج پر اثر انداز نہیں ہوتی مگر اس کا اثر عوامی اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور جمہوری اداروں کی ساکھ کو متاثر کرسکتا ہے۔ ونیسا لوئڈ نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ بہت مشکل ہے کہ غیر ملکی مداخلت کو براہ راست انتخابی نتائج سے جوڑا جائے لیکن ان اقدامات سے جمہوری عمل کی ساکھ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ سی ایس آئی ایس نے روس اور پاکستان کے حوالے سے بھی خبردار کیا کہ یہ دونوں ممالک بھی کینیڈا کے انتخابات میں مداخلت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں حالانکہ ان ممالک کا ملوث ہونے کا امکان نسبتاً کم ہیں۔ اس تمام صورتحال میں کینیڈا کی حکومت اور سیکیورٹی ادارے انتخابات کے دوران غیر ملکی مداخلت کے خطرات کو سنجیدہ لے رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کینیڈا کے عوام کو اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کے جمہوری عمل کو غیر ملکی طاقتوں سے بچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کینیڈا کے انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کے یہ خدشات عالمی سطح پر جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم سوال اٹھاتے ہیں اور اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور عالمی سیاست کا گہرا تعلق جمہوری عمل کے لیے ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: کیا نئی امریکی ویزا پالیسی پاکستان کو متاثر کرے گی؟

کیا نئی امریکی ویزا پالیسی پاکستان کو متاثر کرے گی؟

نئی امریکی انتظامیہ نے پاکستان پرسفری پابندیاں لگانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، اس حوالے امریکی وزارت خارجہ کی اردو ترجمان مارگریٹ میکلاؤڈ نے واضح پیغام جاری کردیا۔ اردو ترجمان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی معاشرے کا اہم حصہ ہیں، داخلے پر پابندی کا فیصلہ نہیں ہوا، ویزا پروگرام پرازسرنو نظرثانی کی جائے گی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ویزا پابندیوں کیلئے مختلف ملکوں سے متعلق معلومات کا تبادلہ کیا جارہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ امریکا میں داخلے کی درخواست دینا ہو تو درخواست دہندہ کو تمام باتیں درست بتانی چاہئیں، غیر قانونی طور پر امریکا میں داخلے کی صورت میں سزا ملے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فیصلے کا مقصد امریکا کو غیرملکی دہشت گردوں سے محفوظ رکھنا ہے۔۔۔صدر ٹرمپ نے اسٹیٹ یونین سے خطاب میں پاکستان کے تعاون کو سراہا تھا، امریکا میں آباد پاکستانی معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔  امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے واضح کیا ہے کہ ٹرمپ کے اٹھائے گئے کسی بھی اقدامات سے پاکستان کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اس کا اطلاق تمام اقوام پر عالمگیر طور پر ہوگا۔ مزید پڑھیں: بنگلہ دیش سے بڑھتے پاک-چین تعلقات سے انڈیا خوفزدہ پاکستانی امریکیوں سے خطاب کرتے ہوئے میکلوڈ نے امریکی معاشرے میں ان کے تعاون کی تعریف کی اور خواہشمند مسافروں کو قانونی راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ ویزا پابندیوں سے متعلق زیادہ تر قیاس آرائیاں غیر تصدیق شدہ ہیں، کیونکہ انتظامیہ فی الحال صرف جائزہ لے رہی ہے۔ یاد رہے چند روز قبل امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پریس کانفرنس میں پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان کے بیان کی تردید کی تھی، پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان نے ممکنہ امریکی سفری پابندی کو افواہ قرار دیا تھا۔ پریس کانفرنس کے دوران صحافی نے امریکی ترجمان سے کچھ ملکوں پر ممکنہ سفری پابندی پر سوال کرتے ہوئے کہا تھا کیا سفری پابندی جاری کرنے کی آج ڈیڈ لائن ہے۔ ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ میں آپ کو تفصیلات نہیں بتاسکتی لیکن یہ آج نہیں ہورہا، امریکا آنے والوں کیلئے ویزا پالیسی کا جائزہ لے رہے ہیں۔

اسرائیل کا شام کے دو فوجی اڈوں پر حملہ، ایرانی افواج اور حزب اللہ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ

اسرائیلی فوج نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے شام کے صوبہ حمص میں موجود دو فوجی اڈوں “تدمر” اور “ٹی 4” کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے ان اڈوں کو ایرانی افواج اور لبنان کے حزب اللہ کے ساتھ تعلقات کی بنا پر نشانہ بنایا جو سابقہ شامی حکومت کے اتحادی ہیں۔ اسرائیل نے حالیہ مہینوں سے شام میں فضائی حملے تیز کر دیے ہیں اور اس کا مقصد ان فوجی مراکز کو تباہ کرنا ہے جو ایران اور حزب اللہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ حملے شام میں جاری جنگ کی شدت میں اضافے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جہاں اسرائیل اپنے علاقائی اثرات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شام کے صوبہ حمص میں واقع “تدمر” اور “ٹی 4” ایئر بیسوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں ایئر بیس شام میں اسلحہ کی منتقلی کے اہم راستے سمجھے جاتے ہیں جو علاقے کی فوجی حرکات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے حملے ایران کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور شام میں اس کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے کے لیے ہیں۔ دسمبر 8 کو باغیوں نے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے شام میں اپنی فضائی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اسرائیل کی فوجی حکمت عملی میں ایک اس وقت تبدیل ہوئی جب “ہیات تحریر الشام” (HTS)، جو کہ ایک اسلامسٹ گروہ ہے اور سابقہ طور پر القاعدہ سے منسلک تھا اور یہ گروپ شام کے جنوبی حصے میں فعال ہوگیا۔ اسرائیل نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ HTS یا اس سے منسلک گروپوں کو شام کے جنوبی علاقے میں کسی بھی قسم کی موجودگی برداشت نہیں کرے گا اور اسرائیل نے اس علاقے کو غیر فوجی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیل نے حالیہ عرصے میں اپنے فضائی حملوں کی شدت میں اضافہ کیا ہے خاص طور پر لاذقیہ اور لبنانی سرحد کے قریب علاقے میں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کی شام میں پختہ موجودگی اور خطے کی عدم استحکام کی صورتحال نے اس کی سیکیورٹی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ مزید پڑھیں: فلم ساز کی گرفتاری پراسرائیل غصے سے پاگل، سات بچوں سمیت مزید 23 فلسطینی شہید کردیے

جنگ بندی تجویز: امریکا اور حماس کا اتفاق، اسرائیل کے ردعمل کا انتظار

غزہ کی سرزمین پر جنگ کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس دوران مصر نے ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کی صورت حال کو بحال کرنا ہے۔ یہ تجویز گزشتہ ہفتے پیش کی گئی تھی اور غزہ میں جاری خون ریز جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس تجویز کو دونوں طرف سے امریکا اور حماس نے پذیرائی دی ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے اسرائیل کی فضائی حملوں اور گولہ باری نے غزہ میں خوفناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے اور فلسطینی حکام کے مطابق صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 65 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ 18 مارچ کو اسرائیل نے ایک بار پھر حماس کے خلاف فضائی اور زمینی کارروائیاں شروع کیں جس کے بعد سے غزہ میں تقریباً 700 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 400 سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی صفوں میں بھی کئی اعلیٰ سیاسی اور سیکیورٹی عہدیدار شہید کیے گئے ہیں، جن میں مقامی صحافی بھی شامل ہیں۔ ان حالات کے چلتے، مصر نے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔ مصر کی تجویز کے مطابق حماس کو ہر ہفتے پانچ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا اور اس کے بدلے میں اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کو نافذ کرے گا۔ اس تجویز کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں ایک مکمل اسرائیلی فوجی انخلا کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے بدلے میں باقی فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا جائے گا۔ یہ تجویز امریکا اور حماس دونوں کی طرف سے قبول کی جا چکی ہے لیکن اسرائیل نے اس پر ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا۔ دونوں طرف سے متنازعہ صورتحال میں مصر کی اس تجویز کو ایک ممکنہ حل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اسرائیل کا جواب اس حوالے سے فیصلہ کن ہو گا۔ یہ بھی پڑھیں: “وینزویلا سے تیل خریدنے والے کسی بھی ملک کو 25 فیصد ٹیرف ادا کرنا ہو گا “ٹرمپ کا اعلان اس کے علاوہ مغربی کنارے میں بچوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک اور اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں اسرائیلی فوجی آپریشنز، چیک پوائنٹس اور سٹلر حملوں کے باعث روزانہ ہزاروں بچے اپنے اسکول جانے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فورسز نے نہ صرف اسکول جانے والے راستوں کو غیر محفوظ بنا دیا ہے بلکہ فلسطینی بچوں کے تعلیمی اداروں پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کی عالمی سربراہ ‘ایلیکزینڈرا ساہیہ’ کا کہنا ہے کہ”مغربی کنارے اور غزہ میں بچوں کی تعلیم پر جو دباؤ پڑا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔” وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں کہ فلسطینی بچوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک مشکل ترین چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ ‘یو این آر ڈبلیو اے’ (UNRWA) جو کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 96 اسکولز چلاتا ہے، یہ ادارہ اب اسرائیلی پابندیوں اور فنڈنگ کی کمی کے باعث اپنی خدمات جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ امریکا اور دیگر بڑے عالمی ذرائع سے ہونے والی فنڈنگ کی کمی کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے جاری امدادی کام مزید متاثر ہو سکتے ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے کی صورتحال دنیا بھر کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ غزہ میں جنگ کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے اثرات نہ صرف انسانی جانوں پر پڑ رہے ہیں بلکہ بچوں کی تعلیم بھی خطرے میں ہے۔ مصر کی تجویز ایک امید کی کرن دکھاتی ہے لیکن اسرائیل کا ردعمل اور اس کے عملی اقدامات سے ہی اس مسئلہ کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: ٹرمپ نے جج کے وفاقی کارکن کی بحالی کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا