جنگ بندی تجویز: امریکا اور حماس کا اتفاق، اسرائیل کے ردعمل کا انتظار

غزہ کی سرزمین پر جنگ کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس دوران مصر نے ایک نئی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کی صورت حال کو بحال کرنا ہے۔ یہ تجویز گزشتہ ہفتے پیش کی گئی تھی اور غزہ میں جاری خون ریز جنگ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ اس تجویز کو دونوں طرف سے امریکا اور حماس نے پذیرائی دی ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے اسرائیل کی فضائی حملوں اور گولہ باری نے غزہ میں خوفناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے اور فلسطینی حکام کے مطابق صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 65 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ 18 مارچ کو اسرائیل نے ایک بار پھر حماس کے خلاف فضائی اور زمینی کارروائیاں شروع کیں جس کے بعد سے غزہ میں تقریباً 700 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 400 سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حماس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی صفوں میں بھی کئی اعلیٰ سیاسی اور سیکیورٹی عہدیدار شہید کیے گئے ہیں، جن میں مقامی صحافی بھی شامل ہیں۔ ان حالات کے چلتے، مصر نے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔ مصر کی تجویز کے مطابق حماس کو ہر ہفتے پانچ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا اور اس کے بدلے میں اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کو نافذ کرے گا۔ اس تجویز کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں ایک مکمل اسرائیلی فوجی انخلا کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے بدلے میں باقی فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا جائے گا۔ یہ تجویز امریکا اور حماس دونوں کی طرف سے قبول کی جا چکی ہے لیکن اسرائیل نے اس پر ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا۔ دونوں طرف سے متنازعہ صورتحال میں مصر کی اس تجویز کو ایک ممکنہ حل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اسرائیل کا جواب اس حوالے سے فیصلہ کن ہو گا۔ یہ بھی پڑھیں: “وینزویلا سے تیل خریدنے والے کسی بھی ملک کو 25 فیصد ٹیرف ادا کرنا ہو گا “ٹرمپ کا اعلان اس کے علاوہ مغربی کنارے میں بچوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک اور اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ جہاں اسرائیلی فوجی آپریشنز، چیک پوائنٹس اور سٹلر حملوں کے باعث روزانہ ہزاروں بچے اپنے اسکول جانے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فورسز نے نہ صرف اسکول جانے والے راستوں کو غیر محفوظ بنا دیا ہے بلکہ فلسطینی بچوں کے تعلیمی اداروں پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کی عالمی سربراہ ‘ایلیکزینڈرا ساہیہ’ کا کہنا ہے کہ”مغربی کنارے اور غزہ میں بچوں کی تعلیم پر جو دباؤ پڑا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔” وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں کہ فلسطینی بچوں کے لیے تعلیم کا حصول ایک مشکل ترین چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ ‘یو این آر ڈبلیو اے’ (UNRWA) جو کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 96 اسکولز چلاتا ہے، یہ ادارہ اب اسرائیلی پابندیوں اور فنڈنگ کی کمی کے باعث اپنی خدمات جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ امریکا اور دیگر بڑے عالمی ذرائع سے ہونے والی فنڈنگ کی کمی کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے جاری امدادی کام مزید متاثر ہو سکتے ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے کی صورتحال دنیا بھر کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ غزہ میں جنگ کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے اثرات نہ صرف انسانی جانوں پر پڑ رہے ہیں بلکہ بچوں کی تعلیم بھی خطرے میں ہے۔ مصر کی تجویز ایک امید کی کرن دکھاتی ہے لیکن اسرائیل کا ردعمل اور اس کے عملی اقدامات سے ہی اس مسئلہ کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: ٹرمپ نے جج کے وفاقی کارکن کی بحالی کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

بنگلہ دیش سے بڑھتے پاک-چین تعلقات سے انڈیا خوفزدہ

بنگلہ دیش کے چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں گزشتہ کچھ برسوں سے جو نیا موڑ آیا ہے وہ نہ صرف جنوبی ایشیا کی سیاست میں اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ انڈیا کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر اُبھرا ہے۔ تینوں ممالک کے درمیان روابط میں اعتماد اور تعاون کے امکانات دیکھے جا رہے ہیں جس کا اثر انڈین سیاسی اور سفارتی حکمت عملی پر پڑ سکتا ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رکھتے ہیں۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کے قیام نے دونوں ممالک کے درمیان گہرے اختلافات پیدا کر دیے تھے۔ اس کے بعد پاکستان نے طویل عرصے تک بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی تھی، تاہم 1974 میں اس نے بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا۔ 2024 میں شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں نئی قیادت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے قدم اٹھایا تھا۔ اس اقدام سے نہ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری آئی ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی، ثقافتی، اور فوجی تعلقات کی نئی بنیاد بھی رکھی گئی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں اقتصادی تعاون، فوجی تربیت اور مشترکہ مشقوں کا آغاز ہو رہا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج بنگلہ دیشی فوج کو تربیت فراہم کریں گی اور 2025 میں دونوں افواج مشترکہ مشقوں میں حصہ لیں گی۔ یہ فوجی تعاون دونوں ممالک کے تعلقات کو مستحکم کرے گا جبکہ یہ قربت انڈیا کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہر سلیم منصور خالد کا پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ “موجودہ حالات سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا نے بنگلہ دیش میں اپنے اثرات کو گہرائی تک پھیلایا ہوا ہے جیسا کہ سماجی، تعلیمی، اور فوجی شعبوں میں بھی انڈیا کے افراد کی موجودگی ہے۔” انکا کہنا تھا کہ “بنگلہ دیش اپنی آزادی حاصل کرنے کے باوجود انڈیا کی براہ راست مداخلت کا شکار ہے۔ اسی لیے دنیا کو چاہیے کہ وہ بنگلہ دیش کا ساتھ دے، خاص طور پر چین، پاکستان، اور عرب ممالک کو بنگلہ دیش کا ساتھ دینا چاہیے جو کہ انکا فطری مطالبہ ہے۔” دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر کی نظریں چین اور بنگلہ دیش کے بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعلقات پر جمی ہوئی ہیں جس کا براہ راست اثر جنوبی ایشیا کی سیاسی حرکیات پر پڑنے والا ہے۔ حالیہ دنوں میں تینوں ممالک کے درمیان اقتصادی، تجارتی، اور سیکیورٹی کے شعبوں میں تعلقات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جو انڈیا کے لیے بہت سے محاظ پر مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سب کے چلتے بنگلہ دیش کی نئی خارجہ پالیسی نے انڈیا کے ساتھ ٹیلی کام کے معاہدے کو منسوخ کر دیا ہے اور پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھا دی ہے۔ یہ بھی پڑھیں:“انڈین روپیہ ایشیا کی بہترین کرنسی بن گیا” اسی طرح پاکستان نے بھی بنگلہ دیش کے لیے ویزہ فیس بھی ختم کر دی ہے جبکہ چٹاگانگ اور کراچی کے مابین فاصلے سمٹ رہے ہیں۔ دوسری جانب چین نے بنگلہ دیش میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے متعدد منصوبوں کا آغاز کیا ہے، جن میں سڑکیں، پل، اور بندرگاہیں شامل ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف بنگلہ دیش کی معیشت کے لیے فائدہ مند ہیں بلکہ چین کے “بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبے کے تحت انڈیا کے ہمسایہ ممالک میں بڑھتی ہوئی موجودگی کی علامت بھی ہیں۔ چین کا بنگلہ دیش میں اثرو رسوخ انڈیا کی سیکیورٹی اور اقتصادی مفادات کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ منصور خالد کا کہنا تھا کہ “چین کی سرمایہ کاری یقینی طور پر انڈیا کی معاشی گرفت کو کسی حد تک کمزور کرے گی”۔ اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ منائی گئی اور پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجے جس سے دونوں ممالک کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو انڈین سیاست دانوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ بنگلہ دیشی انتظامیہ کے سربراہ محمد یونس نے بھی پاکستان کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے 1971 کے جنگی جرائم کے مسئلے پر شیخ حسینہ واجد کی طرح سخت موقف اپنانے سے بھی گریز کیا ہے۔ منصور خالد نے مزید کہا کہ “جہاں تک پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان رقابت کا سوال ہے، یہ بات واضح ہے کہ انڈیا نے مشرقی پاکستان کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا اور 54 سال بعد بھی وہ نہیں چاہے گا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے۔” پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فوجی تعاون میں اضافہ انڈیا کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات نے انڈیا کی پریشانیوں کو بڑھا دیا ہے کیونکہ فوجی تربیت اور افسران کے تبادلے کے دوران نہ صرف خیالات کا اشتراک ہوتا ہے بلکہ غلط فہمیوں کا بھی ازالہ ممکن ہوتا ہے جو مستقبل میں تعلقات کی مضبوطی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سب کے علاوہ بنگلہ دیش نے اپنے نصاب میں تبدیلیاں کی ہیں اور اپنے قومی ہیروز کو نئے سرے سے متعارف کرایا، جس سے انڈیا کے اثرات بھی کم ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور چین کے بڑھتے تعلقات انڈیا کے لیے سٹریٹیجک چیلنج بن سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں چین کی موجودگی انڈیا کے مغربی اور مشرقی سرحدوں پر اثرانداز ہو سکتی ہے جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات انڈیا کی سلامتی اور اقتصادی مفادات کو متاثر کر سکتے ہیں خاص طور پر خطے میں چین کا اثر بڑھتا ہے۔ بین لااقوامی امور کے ماہر منصور خالد نے پاکستان میٹرز سے مزید کہا کہ ” چین بہت عرصہ پہلے بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور یاد رہے کہ 2024 میں جب بنگلہ دیش میں سیاسی ہنگامے شروع ہوئے تھے تو اس وقت کی وزیراعظم حسینہ واجد چین کا دورے پر ہی تھیں لیکن

ٹرمپ نے جج کے وفاقی کارکن کی بحالی کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ ایک عدالتی فیصلے کو معطل کرے جس کے تحت ہزاروں وفاقی ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ ملازمین بڑے پیمانے پر برطرفیوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو نمایاں طور پر کم کرنے کی حکمتِ عملی کے تحت نکالے گئے تھے۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق ہنگامی اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جج کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ایگزیکٹو برانچ کو 16 ہزارکے قریب پروبیشنری ملازمین کی دوبارہ بھرتی پر مجبور کرے۔ کیلیفورنیا میں قائم جج نے قرار دیا تھا کہ برطرفیاں وفاقی قوانین کے مطابق نہیں ہوئیں اور انہوں نے مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے تک ان ملازمین کو دوبارہ تقرری کی پیشکش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی اپیل میں سپریم کورٹ سے یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان وفاقی ججوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو محدود کرے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وسیع تر ایجنڈے میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ اپیل میں کہا گیا ہےکہ صرف یہ عدالت ہی بین الادارتی اختیارات کی اس کھینچا تانی کو ختم کر سکتی ہے۔ امریکہ کا وفاقی عدالتی نظام ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک اہم چیلنج بن چکا ہے، کیونکہ ریپبلکن اکثریت والی کانگریس یا تو ٹرمپ کے اقدامات کی حمایت کر رہی ہے یا خاموش ہے۔ اب تک وفاقی عدالتیں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف تین درجن سے زائد فیصلے سنا چکی ہیں، جن میں وفاقی قوانین کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ عدالتی فیصلے مختلف معاملات پر محیط ہیں، جن میں شہریت کے پیدائشی حق میں تبدیلیاں، وفاقی اخراجات، اور ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق شامل ہیں۔ ٹرمپ کے غیر معمولی تعداد میں جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈرز کا معاملہ بظاہر سپریم کورٹ میں متعدد سماعتوں کی طرف بڑھ رہا ہے، جسے انہوں نے اپنی پہلی مدت میں تین ججز تعینات کر کے ایک نئی شکل دی۔ تاہم، اب تک عدالت کی نو رکنی بینچ نے ایسے معاملات میں نسبتاً محتاط اقدامات ہی اٹھائے ہیں۔ جس حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے، ان دو عدالتی فیصلوں میں شامل ہے جو ایک ہی دن سنائے گئے تھے اور جن میں ریپبلکن انتظامیہ کی جانب سے پروبیشنری ملازمین کی برطرفیوں میں قانونی مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔

“وینزویلا سے تیل خریدنے والے کسی بھی ملک کو 25 فیصد ٹیرف ادا کرنا ہو گا “ٹرمپ کا اعلان

امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جو ملک بھی وینزویلا سے تیل خریدے گا ، اس پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ نے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ وینزویلا کے لیے بھی سخت آرڈر جاری کر دیے ہیں۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کا کہنا ہے کہ وینزویلا نے امریکہ اور ہماری آزادیوں کے خلاف معاندانہ رویہ اپنایا ہے۔ لہٰذا، جو بھی ملک وینزویلا سے تیل یا گیس خریدے گا، اسے امریکہ کے ساتھ کسی بھی تجارتی لین دین پر 25 فیصد ٹیرف ادا کرنا ہوگا۔ ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ وینزویلا نے جان بوجھ کر اور دھوکہ دہی سے مجرموں، بشمول پرتشدد افراد اور ٹرین ڈی اراگوا جیسے گینگ کے ارکان، کو امریکہ بھیجا ہے۔ یہ خبر اس وقت سامنے آئی ہے جب ٹرمپ نے ان ٹیرفس کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن کا انہوں نے پہلے اعلان کیا تھا، جن میں دواسازی، گاڑیوں اور لکڑی کی درآمدات پر 25 فیصد چارج عائد کرنا شامل تھا۔ یہ ٹیرف 2 اپریل کو نافذ ہونے تھے۔ محکمہ تجارت کے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، وینزویلا گزشتہ سال امریکہ کو تیل فراہم کرنے والے سرفہرست غیر ملکی سپلائرز میں شامل تھا۔ مجموعی طور پر، امریکہ نے 2024 میں وینزویلا سے ساڑھے 56 ارب سے زائد ڈالر کا تیل اور گیس خریدی۔ یہ اس وقت ہوا جب بائیڈن انتظامیہ نے 2023 میں مختصر مدت کے لیے وینزویلا کے تیل پر عائد پابندیاں ہٹا دی تھیں، تاہم، اپریل 2024 میں یہ پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی گئیں، جب بائیڈن انتظامیہ نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو پر آزاد اور منصفانہ انتخابات منعقد نہ کرانے کا الزام عائد کیا۔ اگرچہ اس مختصر مدت میں وینزویلا سے تیل کی ترسیل میں نمایاں اضافہ ہوا، لیکن وینزویلا کی تیل اور گیس کی برآمدات امریکہ کے سب سے بڑے غیر ملکی تیل کے ذریعہ کینیڈا سے کہیں پیچھے تھی، کینیڈا نے گزشتہ سال امریکہ کو 106 بلین ڈالر کا تیل اور گیس برآمد کیا، جو کہ امریکہ کی کل درآمدات کا 60 فیصد تھا، جبکہ وینزویلا کی برآمدات صرف 3 فیصد تھیں۔ عالمی نشریاتی ادارہ سی این این کے مطابق تیل پر ٹیرف لگانے کے اعلان سے  قبل، ٹرمپ پہلے ہی وینزویلا کے تیل کی امریکہ تک رسائی محدود کرنے کی تیاری کر رہے تھے، جس کے لیے انہوں نے شیورون کے مشترکہ منصوبے کے لائسنس کو منسوخ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جو وہاں تیل نکالنے کے لیے دیا گیا تھا۔ تاہم، گزشتہ ہفتے شیورون کے سی ای او مائیک ورتھ اور دیگر تیل کے ایگزیکٹوز سے ملاقات کے بعد، ٹرمپ اب اس لائسنس کو توسیع دینے پر غور کر رہے ہیں۔

استنبول میں احتجاج کی کوریج کرنے والے 10 صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا

استنبول اور دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں کی کوریج کرنے والے 10 صحافیوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے جن میں ایک ‘اے ایف پی’ فوٹوگرافر بھی شامل ہے۔ اس واقعے پر انسانی حقوق کی تنظیم “ایم ایل ایس اے” نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ “پیر کے روز مختلف شہروں میں پولیس آپریشنز کے دوران ان صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔” پولیس کی کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب ترکیہ کے سب سے بڑے شہر استنبول میں شہر کے میئر ‘اکرم امام اوغلو’ کے جیل جانے کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے تھے۔ امام اوغلو جو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے سیاسی حریف ہیں اور ان کو اتوار کے روز عدالت نے بدعنوانی کے الزامات پر جیل بھیج دیا تھا۔ ان کی اس گرفتاری نے پورے ملک میں زبردست احتجاج کو جنم دیا جو گزشتہ دس سالوں کے دوران سب سے بڑی عوامی بغاوت بن گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم “ایم ایل ایس اے” نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ “یہ صحافی، مظاہروں کی کوریج کے دوران حراست میں لیے گئے ہیں اور ان کی گرفتاری کی وجوہات فوری طور پر واضح نہیں ہو سکیں۔” تاہم، یہ گرفتاری اس وقت سامنے آئی ہے جب صحافیوں کی آزادی کو لے کر ترک حکومت پر عالمی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: یورپ میں ٹی بی کا بڑھتا ہوا خطرہ، بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں گزشتہ پانچ راتوں سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں جن میں زیادہ تر پرامن مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ ترک حکومتی عہدیداروں نے ان مظاہروں کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے احتجاج کے دوران سامنے آنے والی تشویش کو مسترد کیا ہے۔ دوسری طرف، ترک اپوزیشن جماعت “ریپبلکن پیپلز پارٹی” (سی ایچ پی) کے رہنما ‘اوزگر اوزل’ نے استنبول کے سرایچانی ضلع میں ہونے والے مظاہرے کے دوران اعلان کیا کہ “ہم امام اوغلو کی رہائی تک یہ احتجاج جاری رکھیں گے۔” امام اوغلو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں جو کہ “ناقابل یقین” اور “جھوٹے” ہیں، ان کے حامیوں کے لیے ایک گہری سیاسی سازش کا حصہ سمجھے جا رہے ہیں، جسے انہوں نے ترکیہ کے عدلیہ کی آزادی اور جمہوری اقدار کے خلاف سمجھا ہے۔ ترک حکومت کا موقف ہے کہ یہ تمام قانونی کارروائیاں غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ کے تحت کی جا رہی ہیں اور ان کے خلاف لگنے والے الزامات میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت شامل نہیں۔ تاہم، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس واقعے کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔ یہ گرفتاریاں ایک ایسا واقعہ ہیں جس نے ترکیہ میں اظہار رائے کی آزادی اور صحافتی حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر تشویش بڑھا دی ہے اور یہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ مزید پڑھیں: انڈین پنجاب کو ‘خالصتان’ بناؤ، امریکا میں ہزاروں سکھوں کا ریفرنڈم

یورپ میں ٹی بی کا بڑھتا ہوا خطرہ، بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں

دنیا بھر میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجی ہے جب ٹی بی جیسی بیماری جو دنیا کی سب سے بڑی مہلک بیماریوں میں سے ایک ہے اور اس بیماری نے یورپ میں ایک نئے خطرے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عالمی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2023 میں یورپ کے 53 ممالک کے بچوں میں ٹی بی کیسز میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے 7,500 سے زائد بچے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ رپورٹ WHO کی یورپی ریجن کی جانب سے جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں میں ٹی بی کے کیسز میں 650 سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔  WHO کے یورپی ریجن کے ڈائریکٹر ‘ہانس ہنری کلوگے’ نے اس خطرے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی علامت ہے کہ ٹی بی کے خلاف کی جانے والی پیشرفت اب بھی کمزور ہے۔” ٹی بی جو ایک خطرناک بیکٹیریل بیماری ہے اور عام طور پر پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے اور بچوں میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں اضافے نے عالمی ادارہ صحت کو ایک نئی فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔  WHO کے ایڈوائزر ‘اسکار یڈلبایف’ نے اس معاملے کو مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ اضافہ ایک طرف تشخیص کے بڑھتے ہوئے امکانات کو ظاہر کرتا ہے لیکن دوسری طرف یہ ممکنہ طور پر یوکرین اور روس کی جنگ کے سبب سرحدوں کے پار لوگوں کی نقل و حرکت میں اضافے کا بھی نتیجہ ہو سکتا ہے جہاں اس بیماری کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی پڑھیں: آگمینٹڈ ریئلٹی انقلاب: یہ صحت، تعلیم اور کھیلوں کو کس طرح تبدیل کر رہا ہے؟ یہ رپورٹ ایک اور اہم مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بچوں میں ٹی بی کے کیسز میں مسلسل اضافے کا تیسرا سال ہے۔  WHO نے اس صورتحال کو ‘تشویش ناک’ قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسی دوران WHO نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے کہ عالمی سطح پر ٹی بی کی روک تھام کے لیے فنڈنگ میں کمی آ رہی ہے۔ یہ کمی خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں خطرناک ثابت ہو سکتی ہے جہاں ٹی بی کی روک تھام کے پروگرامز کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس فنڈنگ میں کمی کے سبب بیماری کی روک تھام کے لیے درکار ٹیسٹ، علاج اور ضروری وسائل کی فراہمی میں مشکلات آ رہی ہیں جو بالآخر ٹی بی کے مہلک اور مشکل سے علاج ہونے والے اقسام کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یورپی یونین میں بچوں کے یہ کیسز تمام ٹی بی کے کیسز کا 4.3 فیصد ہیں جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ٹی بی کے خلاف جنگ کو کامیاب بنانے کے لیے عالمی سطح پر مربوط اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ اس خطرناک بیماری کے پھیلاؤ کو روک کر لاکھوں جانوں کو بچایا جا سکے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی یہ رپورٹ ایک بار پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹی بی جیسے پھیلنے والے بیماریوں کا مقابلہ عالمی سطح پر تعاون سے ہی ممکن ہے۔ مزید پڑھیں: صدقہ فطر کن لوگوں پر لازم ہے، یہ کب اور کیسے دیا جاتا ہے؟

انڈین پنجاب کو ‘خالصتان’ بناؤ، امریکا میں ہزاروں سکھوں کا ریفرنڈم

امریکا میں ہونے والے ریفرنڈم میں ہزں سکھو نے انڈین پنجاب کو ‘خالصتان’ بنانے کے حق میں رائے دی ہے۔ امریکی شہر لاس اینجلس میں منعقدہ ریفرنڈم میں انڈین پنجاب کو ایک علیحدہ ریاست بنانے کے حق میں 35 ہزار سے زائد سکھوں نے ووٹ ڈالا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا بھر سے سکھ برادری کے افراد بڑی تعداد میں لاس اینجلس کے سوک سینٹر پہنچے، جہاں صبح نو بجے سے ووٹنگ کا آغاز ہوا اور دن بھر بھرپور جوش و خروش کے ساتھ جاری رہا۔ ریفرنڈم کے اختتام پر سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے اعلان کیا کہ اگلا خالصتان ریفرنڈم 17 اگست کو واشنگٹن ڈی سی میں ہوگا۔ انہوں نے اس عمل کو ممکن بنانے پر ٹرمپ انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سکھ کمیونٹی انڈیا کو واضح پیغام دے رہی ہے کہ وہ انڈیا کے تسلط میں نہیں رہنا چاہتی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی گولیوں کا جواب سکھ اپنی ووٹوں کی طاقت سے دیں گے۔ اس موقع پر سکھ رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وقت آ چکا ہے کہ سکھ اپنی آزاد ریاست قائم کریں۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر شدید تنقید کی اور الزام لگایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت امریکا، کینیڈا اور دیگر ممالک میں سکھوں پر قاتلانہ حملوں میں ملوث ہے۔ تاہم، ان حملوں کے باوجود خالصتان کی تحریک کو روکا نہیں جا سکتا۔ سکھ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ 35 ہزار سے زائد سکھوں کی ووٹنگ میں شرکت اس تحریک کی طاقت اور مقبولیت کا ثبوت ہے۔ ان کے مطابق، یہ ریفرنڈم ایک واضح پیغام ہے کہ سکھ برادری اپنی علیحدہ شناخت کے لیے متحد ہے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہتی ہے۔

“انڈین روپیہ ایشیا کی بہترین کرنسی بن گیا”

پاکستان کے ہمسایہ ملک انڈیا کی کرنسی ‘روپیہ’ اس وقت ایشیا کی بہترین پرفارم کرنے والی کرنسی بن گیا ہے۔ مارچ کے مہینے میں روپیہ اپنی بہترین کارکردگی کی طرف گامزن ہے اور یہ تقریباً چار سالوں میں اس کی سب سے بڑی ماہانہ کارکردگی ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کرنسی کی کامیابی کا باعث غیرملکی سرمایہ کاری اور پوزیشنز کے ان وائنڈنگ کا مجموعہ ہے جبکہ 25 مارچ کو روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 85.90 تک پہنچ گیا۔ اس کامیابی کے باوجود انڈین مارکیٹ کے کچھ ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روپے کی حالیہ ترقی میں ایک بڑا خطرہ چھپا ہوا ہے جس کا حساب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آئندہ ہفتے متوقع جوابی ٹیرفز کے اثرات میں شامل نہیں کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی جوابی ٹیرف کا خطرہ روپے کی قیمتوں پر بڑے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ دوسری جانب ایم یو ایف جی بینک کے مطابق روپے کی حالیہ مضبوطی میں امریکی صدر کی جانب سے ہندوستان پر عائد ہونے والے ٹیرف کا مناسب تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ اگر امریکا انڈیا کے تمام درآمدات پر یکساں طور پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرتا ہے تو اس کے انڈیا کی معیشت پر منفی اثرات پڑنے کا امکان ہے اور اس سے 50 سے 60 بیسس پوائنٹس تک نقصان ہو سکتا ہے جو کہ ایک سنگین صورتحال ہو گی۔ امریکی حکومت کی طرف سے 2 اپریل کو مختلف ممالک پر جوابی ٹیرف کے اعلان کا امکان ہے اور ٹرمپ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا کو بھی اسی سطح پر ٹیرف کا سامنا کرنا پڑے گا جو وہ امریکا سے درآمدات پر عائد کرتا ہے۔ امریکی برآمدات جو انڈیا کو 2024 میں تقریباً 42 ارب ڈالر کی مالیت میں ہوں گی ان پر انڈین ٹیرف کی شرحوں کے باعث مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس میں چوبی مصنوعات اور مشینری پر 7 فیصد، جوتوں اور نقل و حمل کے سامان پر 15 سے 20 فیصد اور خوراک کی مصنوعات پر 68 فیصد تک ٹیرف عائد ہیں۔ اگرچہ روپیہ اس وقت اپنی تاریخ کی بہترین کارکردگی دکھا رہا ہے مگر امریکی جوابی ٹیرف کی صورت میں آنے والی غیر متوقع ہلچل اس کرنسی کی ترقی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: بینکوں سے ونڈ فال ٹیکس وصولی، قومی خزانے میں 31 ارب روپے جمع

پانچ لاکھ تارکینِ وطن کی قانونی حیثیت ختم: ٹرمپ انتظامیہ کا ملک چھوڑنے کا حکم

امریکی حکومت نے 5 لاکھ سے زائد تارکین وطن کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور انہیں 24 اپریل تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کا اطلاق ان افراد پر ہوگا جو کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا سے امریکا آئے تھے۔ یہ لوگ سابق صدر جو بائیڈن کی جانب سے شروع کیے گئے ایک خصوصی امیگریشن پروگرام کے تحت امریکا میں داخل ہوئے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں واپسی کے بعد تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کا عندیہ دیا تھا اور اس فیصلے کو ان کے اسی عزم کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے ملک بدری کی سب سے بڑی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد خاص طور پر لاطینی امریکی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو روکنا ہے۔ صدارتی حکم نامہ منگل کو جاری کیا جائے گا اور یہ حکم وفاقی رجسٹر میں شائع ہونے کے 30 دن بعد نافذ العمل ہوگا۔ اس کے بعد متاثرہ افراد کو امریکا چھوڑنا ہوگا، بشرطیکہ انہوں نے کوئی دوسری قانونی امیگریشن حیثیت حاصل نہ کر لی ہو جو انہیں ملک میں رکنے کی اجازت دے۔ ایک فلاحی تنظیم جو امریکا میں پناہ کے متلاشی افراد کی مدد کرتی ہے، نے متاثرہ افراد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فوری طور پر کسی امیگریشن وکیل سے رجوع کریں۔ کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے شہریوں کے لیے جنوری 2023 میں ایک خصوصی پروگرام متعارف کرایا گیا تھا جس کے تحت ہر ماہ زیادہ سے زیادہ 30 ہزار افراد کو دو سال کے لیے امریکا آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اب اس پروگرام کے تحت آنے والے افراد اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھیں گے اور انہیں امریکا چھوڑنا ہوگا۔

ٹرائل سے پہلے استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو جیل منتقل: ترکی میں احتجاج جاری

اتوار کے روز ترکی کی ایک عدالت نے استنبول کے میئر اور صدر طیب اردگان کے بڑے سیاسی حریف اکریم امام اوغلو کو بدعنوانی کے مقدمے میں جیل بھیج دیا۔ اس فیصلے کے بعد ترکی میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے، جو گزشتہ دہائی میں ملک کے سب سے بڑے مظاہروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ حزب اختلاف، یورپی رہنماؤں اور لاکھوں مظاہرین نے اس کارروائی کو سیاسی اور غیر جمہوری قرار دیا ہے۔ عدالت میں ہونے والی پیش رفت سے ظاہر ہوا کہ یہ معاملہ اردگان حکومت کے خلاف عوامی مخالفت کو مزید بڑھا رہا ہے، جو گزشتہ 22 سالوں سے ترکی پر حکومت کر رہی ہے۔ ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) کے مطابق، تقریباً 15 ملین افراد نے ملک بھر میں پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا تاکہ آئندہ صدارتی انتخابات میں امام اوغلو کو اپنا امیدوار نامزد کریں یا ان کی حمایت کا اعلان کریں۔ ان میں 13 ملین غیر ممبران بھی شامل تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام اوغلو کو پارٹی سے باہر بھی وسیع عوامی حمایت حاصل ہے۔ امام اوغلو نے اپنے خلاف الزامات کو “جھوٹے اور بے بنیاد” قرار دیا اور ملک بھر میں احتجاج کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب مل کر اس غیر منصفانہ فیصلے کو اور جمہوریت پر لگے اس داغ کو مٹائیں گے۔ عدالتی حکم کے بعد امام اوغلو کو پولیس کے قافلے میں سلیوری جیل منتقل کر دیا گیا۔ وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ استنبول کے میئر کو دو دیگر ضلعی میئروں کے ساتھ ان کے عہدوں سے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عدالتی کارروائی سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ قانون کے مطابق کی گئی ہے اور ترکی کی عدالتیں آزاد ہیں۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اردگان حکومت کے سیاسی حریفوں کو دبانے کی کوشش ہے۔ امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد ترکی کی معیشت میں بھی ہلچل دیکھی گئی۔ نائب صدر Cevdet Yilmaz اور مرکزی بینک کے گورنر Fatih Karahan نے مارکیٹ میں پیدا ہونے والی بے چینی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امام اوغلو کی جیل میں منتقلی کے بعد ترکی کے مالیاتی اثاثوں میں مزید مندی آ سکتی ہے۔ ہفتے کے روز حکومت نے ملک گیر اجتماعات پر پابندی میں مزید چار دن کی توسیع کر دی، لیکن اس کے باوجود اتوار کو بڑے شہروں میں احتجاج جاری رہا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور کچھ افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن زیادہ تر احتجاج پرامن رہے۔ یہ مسلسل پانچویں رات تھی جب حکومت مخالف مظاہرے دیکھنے میں آئے۔