اسرائیل کی غزہ میں فوجی کارروائیاں: یورپی ممالک کی فوری جنگ بندی کے لیے اپیل

اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ میں کشیدگی آئے روز بھڑھتی ہی چلی جاری رہی ہے جس سے غزہ میں ہر طرف تباہی پھیل چکی ہے جبکہ اسرائیل نے غزہ میں بربادی سے متاثرہ علاقے پر پھر سے کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اسرائیلی فوج نے منگل کے روز غزہ کی پٹی میں ایک نئی حملے کی لہر شروع کی تھی جس سے جنوری 19 کے بعد کی خاموشی کا خاتمہ ہوگیا اور علاقے میں دھماکوں کی آوازیں پھر سے گونجنے لگیں۔ اس آپریشن نے فلسطینیوں کی زندگیوں میں مزید تباہی اور بے بسی کی لہر دوڑا دی جس کے نتیجے میں متعدد معصوم فلسطینی شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی اس کارروائی کے دوران جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے جمعہ کی رات غزہ میں فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے اور کہا کہ اس کی فوری ضرورت ہے تاکہ غزہ کے عوام کو مزید اذیت سے بچایا جا سکے۔ ان وزرائے خارجہ کا کہنا تھا کہ “ہم شہری ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور فوری جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ “تمام فریقین کو مذاکرات میں دوبارہ شامل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ جنگ بندی کا مکمل نفاذ ہو سکے اور یہ مستقل طور پر قائم رہ سکے۔” یہ بھی پڑھیں: اٹلی کی وزارت تعلیم کا جینڈر نیوٹرل علامات پر پابندی کا فیصلہ ان وزرائے خارجہ نے خاص طور پر حماس پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے تمام رہائشیوں کو رہا کرے اور غزہ میں اپنی حکومت کو مزید خطرہ بننے سے روکے۔ ساتھ ہی اسرائیل سے یہ بھی کہا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی مکمل تعمیل کرے اور امدادی سامان کی ترسیل کو ممکن بنائے۔ اس دوران اسرائیلی وزیر دفاع ‘اسرائیل کٹز’ نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا تو غزہ کے کچھ حصوں کو اسرائیل کے ساتھ ضم کر لیا جائے گا۔ یہ دھمکی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تعلقات کی مزید کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسری جانب لبنان کے جنوبی علاقے میں اسرائیلی فوج کی کارروائی نے مزید خونریزی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ہفتے کو اسرائیل نے لبنان کے جنوبی شہر تولین پر فضائی حملے کیے جس میں ایک بچی سمیت دو افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ حملہ لبنان کی سرحد سے اسرائیل کی طرف چھ راکٹ فائر ہونے کے بعد کیا گیا تھا جن میں سے تین راکٹ اسرائیلی فوج نے مار گرائے۔ لبنانی نیوز ایجنسی نے اس واقعے کی اطلاع دی اور کہا کہ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے دو افراد میں ایک بچی بھی شامل تھی۔ اس حملے کے بعد اسرائیل نے جنوبی لبنان سے چھ راکٹ فائر ہونے کا الزام حزب اللہ پر عائد کیا۔ تاہم، حزب اللہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ “ہم اس راکٹ حملے میں ملوث نہیں ہیں”۔ حزب اللہ نے اس حملے کو اسرائیل کی جانب سے لبنان پر مزید دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ وہ لبنانی ریاست کے ساتھ مل کر اس صورتحال سے نمٹے گا۔ غزہ اور لبنان کی یہ کشیدہ صورتحال پوری دنیا کے لیے ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے اور عالمی رہنماؤں کو اس پر سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں مزید خون ریزی کو روکا جا سکے۔ مزید پڑھیں: یوکرین پر روسی ڈرون حملہ: شہر میں آگ بھڑک اٹھی، متعدد افراد ہلاک
اٹلی کی وزارت تعلیم کا جینڈر نیوٹرل علامات پر پابندی کا فیصلہ

اٹلی کی وزارت تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ اسکولوں کو جینڈر نیوٹرل علامات کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق یہ علامات واضح نہیں ہیں اور اٹالین گرامر کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ اس فیصلے کا مقصد ملک میں بڑھتے ہوئے ثقافتی اختلافات کو مزید شدت دینا ہے اور خاص طور پر وہ جو حکومت کے دائیں بازو کے موقف اور ایل جی بی ٹی کیو اور خواتین کے حقوق کے علمبرداروں کے درمیان ہیں۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ “غیر مطابق گرافک علامات، جیسے کہ ایسٹرکِس (*) اور شوا (ə)، زبان کے اصولوں کے خلاف ہیں اور ادارہ جاتی ابلاغ کی وضاحت اور یکسانیت کو متاثر کر سکتی ہیں۔” وزیر اعظم جورجیا میلونی نے 2022 میں اقتدار میں آنے کے بعد اس وقت یہ تنازعہ کھڑا کر دیا تھا جب انہوں نے وزیراعظم کے عہدے کو “presidente del consiglio” کے طور پر پہچانے جانے کی بجائے اسے مردانہ لفظ “il” سے خطاب کرنے کی حمایت کی۔ یہ بھی پڑھیں: یوکرین پر روسی ڈرون حملہ: شہر میں آگ بھڑک اٹھی، متعدد افراد ہلاک اٹلی کی زبان جو ‘لاطینی’ بنیادوں پر ہے، اس میں تمام اسماء اور صفات کا جینڈر (مردانہ یا زنانہ) ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب دونوں جنسوں والے جمع اسماء ہوں تو مردانہ شکل کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ افراد اسے مردانہ غلبے کی علامت سمجھتے ہیں اور جینڈر نیوٹرل علامات، جیسے ایسٹرکِس اور شوا کے ذریعے اس کو تبدیل کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ اٹلی کی “اکیڈمیا ڈیلا کروسکا” جو اٹالین زبان کا سرپرست ادارہ ہے، اس ادارے نے بھی ماضی میں ان غیر روایتی علامات کے استعمال کی مخالفت کی ہے اور سرکاری دستاویزات میں ان کی عدم موجودگی کی تجویز دی ہے۔ یہ فیصلہ ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی اور ثقافتی کشیدگی کا حصہ بن چکا ہے جہاں دائیں بازو کی حکومت اپنے روایتی اقدار کی محافظ بن کر سامنے آ رہی ہے جبکہ آزادی اور مساوات کے حامی اس قدم کو اقلیتوں کے حقوق پر حملہ سمجھتے ہیں۔ اب اس بات کا امکان ہے کہ یہ اقدام ایک نیا تنازعہ پیدا کرے گا جو مستقبل میں مزید سماجی بحث کا سبب بن سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی حملے میں ‘حماس کے رہنما’ اپنی اہلیہ سمیت شہید
یوکرین پر روسی ڈرون حملہ: شہر میں آگ بھڑک اٹھی، متعدد افراد ہلاک

آج صبح روس نے یوکرین پر ڈرون حملہ کر دیا جس کہ نتیجے میں کم از کم دو افراد ہلاک ہو گئے جبکہ کئی دیگر شدید زخمی ہوئے۔ یہ حملہ اتنی شدت کا تھا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں آگ بھڑک اٹھی اور بلند عمارتوں میں تباہی مچ گئی۔ کیف میں اس حملے کہ بعد وہاں کہ میئر ‘وٹالی کلیچکو’ نے اپنے ٹیلی گرام پیغام میں اس بات کی تصدیق کی کہ “یہ دشمن کا بڑا ڈرون حملہ تھا”۔ ابتدائی طور پر اس حملے کی شدت اور اس کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں لیکن عالمی خبررساں ادارے ‘رائٹرز’ کے عینی شاہدین نے شہر میں کئی دھماکوں کی آوازیں سنیں جو ممکنہ طور پر فضائی دفاعی نظام کی کارروائی تھی۔ دوسری جانب یوکرین کی ایمرجنسی سروسز نے رات کے وقت جاری تصاویر میں دکھایا کہ فائر فائٹرز بلند عمارتوں میں لگی آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ‘دنیپرووسکی’ ضلع میں ایک خاتون کی موت اس وقت ہوئی جب ڈرون کا ملبہ ایک بلند عمارت میں گر کر آگ بھڑکنے کا باعث بنا۔ اس واقعے میں کم از کم 27 افراد کو عمارت سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر لیا گیا۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا کے کئی شہروں میں ایلون مسک کے خلاف احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے علاوہ ایک اور فرد کی ہلاکت کیف کے ایک ضلع میں ہوئی، ایمرجنسی سروسز کے مطابق اس حملے کے دوران سات افراد زخمی ہو گئے ہیں جنہیں فوری طور پر طبی امداد فراہم کی گئی۔ کیف کے مختلف علاقوں میں متعدد مکانات کو نقصان پہنچا، اور متعدد علاقے آگ کی لپیٹ میں آ گئے۔ اس حملے نے کیف اور اس کے اطراف کے علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیلایا دیا ہے جبکہ یوکرین کی فضائی افواج نے بتایا کہ کیف اس کے نواحی علاقے اور مشرقی یوکرین کے مختلف حصوں میں پانچ گھنٹوں سے زائد عرصہ تک ایئر ریڈ الرٹس جاری رہے۔ یاد رہے کہ اس وقت دونوں طرف کی افواج کی طرف سے ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور امریکی حکومت یوکرین اور روس کے درمیان جزوی جنگ بندی اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملوں میں کمی کے لیے بات چیت کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ تاہم دونوں فریقین نے شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے۔ روسی حکام کی طرف سے ابھی تک اس حملے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم، یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے روسی افواج کی طرف سے جاری جارحیت کا حصہ ہی جو تین سال سے جاری جنگ میں شدت اختیار کر چکے ہیں۔ یوکرین کے حکام نے اس حملے کے بعد شہر بھر میں ایمرجنسی سروسز کو متحرک کر دیا ہے اور عوامی مراکز کو ہنگامی طور پر کھول دیا گیا ہے تاکہ زخمیوں کو فوری علاج فراہم کیا جا سکے۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی حملے میں ‘حماس کے رہنما’ اپنی اہلیہ سمیت شہید
اسرائیلی حملے میں ‘حماس کے رہنما’ اپنی اہلیہ سمیت شہید

جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں اسرائیلی فضائی حملے میں اتوار کے روز حماس کے سیاسی رہنما صلاح البرداویل اپنی اہلیہ سمیت ہلاک ہو گئے، حماس کے حکام نے تصدیق کی۔ برداویل حماس کے سیاسی دفتر کے رکن تھے اور ان کی ہلاکت ایسے وقت میں ہوئی جب اسرائیل نے غزہ میں اپنی فضائی اور زمینی کارروائیاں مزید تیز کر دی ہیں۔ حماس کے میڈیا ایڈوائزر طاہر النونو نے فیس بک پر برداویل کی موت پر اظہارِ افسوس کیا، جبکہ حماس کے بیان میں کہا گیا کہ “برداویل اور ان کی اہلیہ کا خون آزادی کی جنگ کو مزید تقویت دے گا۔” دو ماہ کی نسبتی خاموشی کے بعد، اسرائیل نے جنگ بندی کو ترک کرتے ہوئے منگل کو ایک نئی مہم شروع کی، جس کے نتیجے میں پورے شمالی، وسطی اور جنوبی غزہ میں شدید بمباری ہوئی۔ فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق، صرف منگل کے روز کم از کم 400 افراد ہلاک ہوئے، جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے تھے۔ حماس کے مطابق، اسرائیل نے اپنے حملوں میں حماس کے مزید اعلیٰ عہدیداروں کو نشانہ بنایا، جن میں ڈی فیکٹو حکومتی سربراہ عصام عدلیس اور داخلی سلامتی کے سربراہ محمود ابو وتفہ شامل ہیں۔ رفح میں بھی ایک مکان پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ عرب اور یورپی ممالک نے جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر غزہ میں انسانی امداد کی رسائی بحال کرے۔ تاہم، اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ حماس امداد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے، جس کی حماس نے تردید کی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر اپنی تباہ کن کارروائیاں جاری رکھی ہیں، جس میں اب تک فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 49,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
امریکا کے کئی شہروں میں ایلون مسک کے خلاف احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟

ہفتے کے روز واشنگٹن میں ایک ٹیسلا ڈیلرشپ کے باہر تقریباً 100 افراد نے احتجاج کیا، جنہوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور رقص کرتے ہوئے الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی کے سی ای او ایلون مسک پر برہمی کا اظہار کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مسک وفاقی ملازمین میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ مظاہرے کے قریب سے گزرنے والی کاروں کے ہارن بجانے سے احتجاج کو مزید توجہ ملی۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی تصاویر تھیں، جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکومتی کارکردگی کی نگرانی کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اس ٹاسک فورس نے اب تک وفاقی سویلین افرادی قوت میں ایک لاکھ سے زیادہ ملازمتوں میں کٹوتی کی ہے اور غیر ملکی امداد کو بھی منجمد کرنے کی تجویز دی ہے۔ احتجاج میں شریک میلیسا نٹسن نے کہا، “ہم یہاں خوشی کے ساتھ آئے ہیں تاکہ دوسروں کو دکھا سکیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔” یہ مظاہرے صرف واشنگٹن تک محدود نہیں رہے بلکہ لاس اینجلس سمیت دیگر امریکی شہروں اور ٹورنٹو جیسے بین الاقوامی مقامات پر بھی لوگوں نے شرکت کی۔ کینیڈا میں بعض افراد نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کینیڈین اشیاء پر محصولات عائد کرنے کے بعد امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا عزم ظاہر کیا۔ ایڈمنڈز کے اعداد و شمار کے مطابق، احتجاج کے آغاز کے بعد ٹیسلا کی گاڑیوں کی فروخت میں کمی دیکھی گئی ہے۔ جنوری میں عروج پر پہنچنے کے بعد، کمپنی کے حصص کی قیمت تقریباً نصف رہ گئی ہے۔ نومبر میں ٹرمپ کے انتخاب کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ ٹیسلا کو نئی حکومت کے تحت روبوٹکس کے فروغ میں مدد ملے گی، لیکن حالات اس کے برعکس نظر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے رواں ہفتے دعویٰ کیا کہ آتش زنی کرنے والوں نے کئی ٹیسلا ڈیلرشپ اور چارجنگ اسٹیشنوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم، ہفتے کے روز واشنگٹن میں ہونے والے احتجاج کے دوران کسی قسم کے تشدد کی اطلاع نہیں ملی۔
جنوبی لبنان میں اسرائیل کے ‘فضائی حملے’ مزید کشیدگی بڑھ سکتی ہے

ہفتے کے روز اسرائیلی توپ خانے اور فضائی حملوں نے جنوبی لبنان کو نشانہ بنایا، جب اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے سرحد پار سے داغے گئے راکٹوں کو روک دیا ہے۔ یہ صورتحال ایک کمزور جنگ بندی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، جو اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے جاری کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ یہ تنازعہ غزہ جنگ کے دوران سب سے سنگین پھیلاؤ کی نشاندہی کرتا ہے، جس میں اسرائیلی حملوں نے حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈروں، جنگجوؤں اور اس کے فوجی اثاثوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، تقریباً چھ کلومیٹر شمال میں لبنانی علاقے سے تین راکٹ داغے گئے، جو نومبر میں امریکی ثالثی کے تحت ہونے والی جنگ بندی کے بعد پہلی بار سرحد پار فائرنگ کا واقعہ تھا۔ اسرائیلی آرمی ریڈیو نے بتایا کہ فوج نے توپ خانے سے جوابی فائرنگ کی۔ لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق، اسرائیلی گولہ باری سے جنوبی لبنان کے دو قصبے متاثر ہوئے، جب کہ فضائی حملے میں مزید تین قصبوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل نے سرحد پار حملوں کے ذمہ داروں کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا، اور حزب اللہ نے بھی اس معاملے پر فوری ردعمل نہیں دیا۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت، حزب اللہ کو جنوبی لبنان میں ہتھیار نہیں رکھنے تھے، جب کہ اسرائیلی فوجیوں کو علاقے سے نکلنا تھا اور لبنانی فوج کو وہاں تعینات کیا جانا تھا۔ معاہدے میں یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ لبنان کی حکومت جنوبی لبنان میں تمام غیر قانونی ہتھیاروں کو ضبط کرے اور ہر طرح کے فوجی ڈھانچے کو ختم کرے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع، اسرائیل کاٹز نے کہا کہ لبنانی حکومت سرحدی علاقے میٹولا پر داغے گئے راکٹوں کی ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا، “ہم لبنان سے گلیلی کے علاقوں پر راکٹ حملے برداشت نہیں کریں گے۔ ہم نے اپنے عوام کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا اور ہم اس پر قائم ہیں۔” جنگ بندی معاہدے کے باوجود، دونوں فریق ایک دوسرے پر اس کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ حزب اللہ نے اب بھی جنوبی لبنان میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھی ہے، جب کہ لبنان اور حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل سرحد کے قریب فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور کئی پہاڑی مقامات پر اپنی فوجی موجودگی قائم رکھ کر لبنانی علاقے پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔
اہرام مصر کے نیچے کیا؟ جدید تحقیق نے حیرت پھیلا دی

ایک جدید مطالعے نے دنیا بھر میں حیرت پھیلا دی ہے۔ اس تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ گیزا کے مشہور اہرام کے نیچے ایک وسیع اور پیچیدہ زیر زمین نظام موجود ہے۔ یہ دریافت اس نظریے کو چیلنج کرتی ہے کہ اہرام صرف شاہی مقبرے تھے۔ یہ تحقیق اٹلی کی یونیورسٹی آف پیسا کے سائنسدان کوراڈو ملنگا اور یونیورسٹی آف اسٹریتھ کلائیڈ کے فلیپو بیونڈی نے کی۔ انہوں نے مصنوعی یپرچر ریڈار ٹوموگرافی کا استعمال کرتے ہوئے کھفری اہرام کو اسکین کیا اور تینوں بڑے اہرام کے نیچے تقریباً دو کلومیٹر تک پھیلا ہوا ایک زیر زمین ڈھانچہ دریافت کیا۔ ریسرچ کے مطابق، کھفری اہرام کی بنیاد کے قریب پانچ ایک جیسے کثیر سطحی ڈھانچے موجود ہیں جو جیومیٹرک راستوں سے جُڑے ہوئے ہیں۔ مزید حیرت انگیز دریافت آٹھ عمودی کنویں ہیں جو سطح سے تقریباً 648 میٹر نیچے جاتے ہیں اور سرپل راستوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ یہ کنویں آخر میں دو بڑے مکعب نما کمروں سے جا ملتے ہیں، جن کی ہر ایک سمت 80 میٹر لمبی ہے۔ یہ دریافت کئی دہائیوں سے گردش کرنے والے نظریات کو تقویت دیتی ہے کہ اہرام کا مقصد صرف مقبرہ ہونا نہیں تھا بلکہ ان کا کوئی اور فنکشن بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ڈھانچے توانائی کے ذرائع کے طور پر کام کرتے تھے۔ موجد نکولا ٹیسلا نے ایک بار قیاس کیا تھا کہ اہرام زمین کی قدرتی توانائی کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انجینئر کرسٹوفر ڈن نے اپنی کتاب میں تجویز دی کہ عظیم اہرام ایک دیو ہیکل مشین کے طور پر کام کرتا تھا جو زلزلے کے جھٹکوں کو توانائی میں بدل سکتا تھا۔ اس تحقیق کے نتائج سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ کچھ صارفین نے اس دریافت کو تاریخ کی سب سے اہم دریافتوں میں سے ایک قرار دیا، جبکہ کچھ نے اسے کسی قدیم تہذیب یا اجنبی ٹیکنالوجی سے جوڑ دیا۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ اہرام کی تعمیر میں صرف اشرافیہ نہیں بلکہ عام مزدور بھی شامل تھے، جیسا کہ مزدوروں کی باقیات سے پتہ چلتا ہے۔ تاہم، ابھی بھی مرکزی دھارے کے ماہرین یہ مانتے ہیں کہ اہرام 2500 قبل مسیح میں عام اوزار اور ریمپ کے ذریعے بنائے گئے تھے۔ کھفری پروجیکٹ ٹیم نے اس جگہ کی کھدائی میں دلچسپی ظاہر کی ہے، لیکن مصری حکومت عام طور پر ایسی کھدائیوں کے حوالے سے محتاط رہتی ہے جو اہرام کے تاریخی مقصد کے سرکاری موقف کو چیلنج کر سکیں۔ اس لیے، یہ راز فی الحال دفن ہی رہے گا۔
‘لاکھوں افراد کے ملک گیر مظاہرے’ کیا ترکیہ تبدیل ہونے جا رہا ہے؟

استنبول کے میئر کی نظربندی کے خلاف مظاہرے جمعہ کے روز شدت اختیار کر گئے اور تناؤ میں بدل گئے۔ صدر طیب اردگان نے خبردار کیا کہ سول نافرمانی برداشت نہیں کی جائے گی، جو ترکی میں ایک دہائی سے زائد عرصے میں سب سے بڑے عوامی احتجاج میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بدھ کے روز میئر اکریم امام اوغلو کی حراست اور فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد ہزاروں ترک زیادہ تر پرامن مظاہروں میں سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ اردگان کے اہم سیاسی حریف تصور کیے جاتے ہیں اور بعض رائے عامہ کے جائزوں میں ان سے آگے ہیں۔ ریپبلکن پیپلز پارٹی، جو کہ مرکزی اپوزیشن جماعت ہے، نے اس نظربندی کو سیاسی طور پر محرک قرار دیتے ہوئے مذمت کی اور حامیوں پر زور دیا کہ وہ قانونی طور پر احتجاج کریں۔ اردگان نے استنبول میں ایک خطاب کے دوران کہا کہ حکومت عوامی امن و امان میں خلل برداشت نہیں کرے گی اور توڑ پھوڑ کے سامنے جھکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگرچہ مظاہروں پر چار دن کی پابندی عائد کر دی گئی تھی، مگر احتجاجی مظاہرے یونیورسٹی کیمپس سمیت مختلف مقامات پر جاری رہے۔ استنبول سمیت کئی شہروں میں سی ایچ پی کی کال پر بڑی ریلیاں نکالی گئیں۔ سراچانے ضلع میں میونسپلٹی کی عمارت کی طرف جانے والی تمام سڑکیں گورنر کے حکم سے بند کر دی گئیں، مگر پابندی کے باوجود ہزاروں افراد وہاں جمع ہوئے۔ سی ایچ پی رہنما اوزگور اوزیل کے مطابق، تقریباً تین لاکھ افراد نے اجتماع میں شرکت کی۔ جیسے ہی وہ خطاب کر رہے تھے، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کالی مرچ کے اسپرے اور واٹر کینن کا استعمال کیا، جبکہ بعض مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹوں پر دھاوا بول دیا۔ انقرہ، ازمیر اور دیگر شہروں میں بھی پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ وزیر داخلہ کے مطابق، ملک بھر میں 97 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ کشیدگی میں مزید اضافہ متوقع ہے کیونکہ عدالت میئر کی باضابطہ گرفتاری پر فیصلہ سنا سکتی ہے۔ اس طرح کے اقدام سے ترکی کی معیشت پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، جس کی وجہ سے مرکزی بینک کو کرنسی کو مستحکم رکھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔ امام اوغلو پر بدعنوانی اور دہشت گرد گروپ کی مدد کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، تاہم انہوں نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق، ان سے میونسپل ٹینڈرز کے بارے میں کم از کم 40 سوالات کیے گئے۔ یورپی رہنماؤں نے اس نظربندی کو ترکی میں جمہوریت کی پسپائی کی علامت قرار دیا ہے۔ اردگان نے کہا کہ احتجاج کے ذریعے مسائل حل کرنا بے سود ہے اور قانون کو نظرانداز کر کے سڑکوں پر آنا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔
افریقی ملک نائجر میں مسجد پر حملہ: 44 شہری شہید، تین روزہ سوگ کا اعلان

نائجر کی حکومت نے ملک کے جنوب مغرب میں اسلامک اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے مسلح گروہ کے حملے میں 44 شہریوں کی شہادت پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ وزارت داخلہ نے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملہ کوکورو کے دیہی علاقے فامبیتا کوارٹر میں ایک مسجد پر ہوا، جہاں حملہ آوروں نے وحشیانہ طریقے سے نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ مزید 13 افراد زخمی ہوئے اور حملہ آوروں نے مسجد کے علاوہ ایک مقامی بازار اور گھروں کو بھی آگ لگا دی۔ وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق حملہ دوپہر کے وقت اس وقت کیا گیا جب لوگ نماز میں مصروف تھے۔ بھاری ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں نے مسجد کو گھیر کر قتل عام کیا۔ حکومت نے حملے کے مرتکب افراد کو پکڑنے اور ان پر مقدمہ چلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہ واقعہ برکینا فاسو اور مالی کی سرحدوں کے قریب ایک ایسے علاقے میں پیش آیا جہاں اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ سے وابستہ جہادی گروہ کئی سالوں سے سرگرم ہیں۔ نائجر کی فوج خطے میں ان گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہے، لیکن عام شہری اکثر تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ڈیٹا بیس کے مطابق، جولائی 2023 سے نائجر میں کم از کم 2,400 افراد مسلح تصادم کے نتیجے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
‘عالمی صورتحال کی سنگینی پر’ جاپان، چین اور جنوبی کوریا کا گٹھ جوڑ

جاپان، چین اور جنوبی کوریا کے اعلیٰ سفارت کاروں نے ہفتے کے روز ٹوکیو میں ملاقات کی تاکہ علاقائی سلامتی اور اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ یہ بات چیت مشرقی ایشیا میں بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی غیر یقینی صورتحال کے پس منظر میں ہوئی۔ جاپانی وزیر خارجہ تاکیشی ایویا نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ چو تائی یول سے ملاقات کے آغاز میں کہا کہ عالمی صورتحال سنگین ہو رہی ہے اور ہم ایک اہم تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں۔ ان کے مطابق، تقسیم اور تنازع سے بچنے کے لیے بات چیت اور تعاون مزید ضروری ہو گیا ہے۔ یہ وزارتی سطح کی پہلی میٹنگ تھی جو 2023 کے بعد ہوئی۔ توقع ہے کہ اس میں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام اور تجارتی مسائل سمیت مختلف امور پر گفتگو کی جائے گی۔ یہ مذاکرات مستقبل میں سہ فریقی سربراہی اجلاس کی راہ ہموار کر سکتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سال سیول میں منعقد ہوا تھا۔ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ چو تائی یول نے کہا کہ جزیرہ نما کوریا میں امن و استحکام مشرقی ایشیا اور دنیا کے لیے ضروری ہے اور امید ظاہر کی کہ شمالی کوریا کے جوہری مسئلے پر کھل کر گفتگو ہوگی۔ اس سال دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر، چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ بیجنگ آزاد تجارتی مذاکرات کو آگے بڑھانے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تینوں ممالک کو تاریخ کا دیانتداری سے سامنا کرنا چاہیے اور مشرقی ایشیائی تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے۔ ٹوکیو اور سیول واشنگٹن کے قریبی اتحادی ہیں اور اپنی سرزمین پر ہزاروں امریکی فوجیوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔ یہ تینوں ممالک چین کو ایک علاقائی سیکیورٹی چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ ایویا اپنے چینی اور جنوبی کوریائی ہم منصبوں سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کریں گے، جن میں چین کے ساتھ چھ سال بعد پہلی اعلیٰ سطحی اقتصادی بات چیت شامل ہے۔ اس میٹنگ میں خاص طور پر چین کی جانب سے جاپانی سمندری غذا کی درآمد پر عائد پابندی پر بات چیت کی جائے گی، جو 2023 میں فوکوشیما جوہری پلانٹ سے گندے پانی کے اخراج کے بعد نافذ کی گئی تھی۔