افریقی ملک نائجر میں مسجد پر حملہ: 44 شہری شہید، تین روزہ سوگ کا اعلان

نائجر کی حکومت نے ملک کے جنوب مغرب میں اسلامک اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے مسلح گروہ کے حملے میں 44 شہریوں کی شہادت پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ وزارت داخلہ نے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملہ کوکورو کے دیہی علاقے فامبیتا کوارٹر میں ایک مسجد پر ہوا، جہاں حملہ آوروں نے وحشیانہ طریقے سے نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ مزید 13 افراد زخمی ہوئے اور حملہ آوروں نے مسجد کے علاوہ ایک مقامی بازار اور گھروں کو بھی آگ لگا دی۔ وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق حملہ دوپہر کے وقت اس وقت کیا گیا جب لوگ نماز میں مصروف تھے۔ بھاری ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں نے مسجد کو گھیر کر قتل عام کیا۔ حکومت نے حملے کے مرتکب افراد کو پکڑنے اور ان پر مقدمہ چلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہ واقعہ برکینا فاسو اور مالی کی سرحدوں کے قریب ایک ایسے علاقے میں پیش آیا جہاں اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ سے وابستہ جہادی گروہ کئی سالوں سے سرگرم ہیں۔ نائجر کی فوج خطے میں ان گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہے، لیکن عام شہری اکثر تشدد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ڈیٹا بیس کے مطابق، جولائی 2023 سے نائجر میں کم از کم 2,400 افراد مسلح تصادم کے نتیجے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
‘عالمی صورتحال کی سنگینی پر’ جاپان، چین اور جنوبی کوریا کا گٹھ جوڑ

جاپان، چین اور جنوبی کوریا کے اعلیٰ سفارت کاروں نے ہفتے کے روز ٹوکیو میں ملاقات کی تاکہ علاقائی سلامتی اور اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ یہ بات چیت مشرقی ایشیا میں بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی غیر یقینی صورتحال کے پس منظر میں ہوئی۔ جاپانی وزیر خارجہ تاکیشی ایویا نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ چو تائی یول سے ملاقات کے آغاز میں کہا کہ عالمی صورتحال سنگین ہو رہی ہے اور ہم ایک اہم تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں۔ ان کے مطابق، تقسیم اور تنازع سے بچنے کے لیے بات چیت اور تعاون مزید ضروری ہو گیا ہے۔ یہ وزارتی سطح کی پہلی میٹنگ تھی جو 2023 کے بعد ہوئی۔ توقع ہے کہ اس میں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام اور تجارتی مسائل سمیت مختلف امور پر گفتگو کی جائے گی۔ یہ مذاکرات مستقبل میں سہ فریقی سربراہی اجلاس کی راہ ہموار کر سکتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سال سیول میں منعقد ہوا تھا۔ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ چو تائی یول نے کہا کہ جزیرہ نما کوریا میں امن و استحکام مشرقی ایشیا اور دنیا کے لیے ضروری ہے اور امید ظاہر کی کہ شمالی کوریا کے جوہری مسئلے پر کھل کر گفتگو ہوگی۔ اس سال دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر، چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ بیجنگ آزاد تجارتی مذاکرات کو آگے بڑھانے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تینوں ممالک کو تاریخ کا دیانتداری سے سامنا کرنا چاہیے اور مشرقی ایشیائی تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے۔ ٹوکیو اور سیول واشنگٹن کے قریبی اتحادی ہیں اور اپنی سرزمین پر ہزاروں امریکی فوجیوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔ یہ تینوں ممالک چین کو ایک علاقائی سیکیورٹی چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ ایویا اپنے چینی اور جنوبی کوریائی ہم منصبوں سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کریں گے، جن میں چین کے ساتھ چھ سال بعد پہلی اعلیٰ سطحی اقتصادی بات چیت شامل ہے۔ اس میٹنگ میں خاص طور پر چین کی جانب سے جاپانی سمندری غذا کی درآمد پر عائد پابندی پر بات چیت کی جائے گی، جو 2023 میں فوکوشیما جوہری پلانٹ سے گندے پانی کے اخراج کے بعد نافذ کی گئی تھی۔
غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملے، 91 فلسطینی شہید

غزہ کی پٹی میں ایک بار پھر جنگ کی گھن گرج سنائی دینے لگی ہے۔ اسرائیل نے دو ماہ سے جاری جنگ بندی کو ختم کرتے ہوئے غزہ کے شمالی اور جنوبی حصوں میں فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے ہیں۔ جس کے نتیجے میں 91 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں، غزہ کی وزارت صحت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ حملے گزشتہ روز اسرائیل کی طرف سے دوبارہ حملوں کی شدت بڑھانے کے بعد ہوئے ہیں۔ غزہ میں دوبارہ خوف و ہراس پھیل چکا ہے اور ہزاروں افراد اپنی جانیں بچانے کے لیے مختلف پناہ گزین کیمپوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے شمالی غزہ کے بیٹ لہیہ، بیٹ حانون اور خان یونس کے مشرقی علاقوں میں فضائی بمباری کی جبکہ غزہ سٹی کے شیجاعیہ علاقے میں بھی شدید حملے کیے گئے۔ اسرائیلی فوج نے 24 گھنٹوں میں اس آپریشن کے دوران غزہ کے مختلف علاقوں میں شدت سے بمباری کی اور اپنے ٹینکوں کو مرکزی غزہ میں داخل کیا۔ ان حملوں میں حماس کے کئی اہم رہنما بھی شہید ہوئے، جن میں غزہ کی حکومت کے سربراہ، وزیر داخلہ کے معاون، اور وزارت انصاف کے نائب سربراہ شامل ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: دس ہزار مربع میٹر تک آگ: روس کے تیل کے ڈپو پر یوکرین کا بڑا حملہ اس سبب کے باوجود حماس کی طرف سے اسرائیل پر جوابی حملے جاری ہیں جن میں راکٹ داغے گئے ہیں۔ اسرائیل کے وسطی حصوں میں بھی سائرن کی آوازیں سنائی دیں جس کے بعد مزید راکٹ حملوں کی اطلاعات ملی۔ اسرائیل کی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ اس نے شمالی غزہ میں “نیٹزرِم کوریڈور” کے علاقے میں مزید زمینی آپریشن شروع کر دیے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے غزہ کی رہائشی آبادی کو خبردار کرنے کے لیے پروپیگنڈہ پمفلٹس بھی گرائے جن میں شمالی غزہ کے مختلف شہروں کے مکینوں کو علاقے سے نکلنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تمام آپریشن کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ وہ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو مکمل طور پر جائز سمجھتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا موقف واضح ہے کہ”حماس کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی اور اگر وہ قیدیوں کو نہیں چھوڑتے تو نتائج بھگتنا ہوں گے۔” اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی اور نئی فوجی کارروائی نے غزہ میں بدترین انسانی بحران کو جنم دے دیا ہے۔ حماس نے اس آپریشن کو جنگ بندی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے۔ ان حملوں کے دوران غزہ میں ایک اور انسانی المیہ جنم لے رہا ہے جس سے نہ صرف فلسطینی عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ پورے خطے میں امن کی تلاش کی کوششیں مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔ مزید پڑھیں: سوڈانی فوج نےمسلح گروہ سے صدارتی محل کا کنٹرول حاصل کر لیا
سوڈانی فوج نےمسلح گروہ سے صدارتی محل کا کنٹرول حاصل کر لیا

سوڈانی فوج نے جمعہ کے روز خرطوم کے مرکز میں واقع صدارتی محل پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کیا، جو کہ ایک حریف مسلح گروپ کے ساتھ جاری دو سالہ تنازعے میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس جنگ نے ملک کو تقسیم کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ فوج حالیہ مہینوں میں دفاعی پوزیشن میں رہی، لیکن اب اس نے نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز سے ملک کے وسط میں کئی علاقوں کا قبضہ واپس لے لیا ہے۔ دوسری جانب، آر ایس ایف نے مغربی علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے، جس سے جنگی محاذ مزید مستحکم ہو گئے ہیں اور ملک کو عملی طور پر تقسیم کے قریب لے آئے ہیں۔ آر ایس ایف اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ایک متوازی حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تاہم اسے بین الاقوامی سطح پر زیادہ حمایت ملنے کی توقع نہیں ہے۔ فوجی حکام کے مطابق، وسطی خرطوم میں وزارتوں اور دیگر اہم سرکاری عمارتوں کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ فوجی ذرائع نے بتایا کہ آر ایس ایف کے جنگجو تقریباً 400 میٹر دور پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ یہ جنگ اپریل 2023 میں اس وقت شروع ہوئی جب نیم فوجی دستوں کے مکمل انضمام کے معاملے پر تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔ آر ایس ایف نے ابتدائی طور پر تیزی سے صدارتی محل سمیت شہر کے وسیع حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوج کی جانب سے جاری کردہ ویڈیوز میں محل کے اندر فوجیوں کو خوشی مناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ عمارت کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی اور دیواریں گولیوں کے نشانات سے بھری ہوئی تھیں۔ آر ایس ایف نے فوری طور پر صدارتی محل پر فوج کے دوبارہ قبضے اور خرطوم میں اس کی پیش قدمی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم، جمعرات کو دیر گئے اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے ملک کے مغربی علاقے شمالی دارفر میں فوج کے ایک اہم اڈے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ خرطوم کے کئی رہائشیوں نے فوج کی اس کامیابی کا خیرمقدم کیا۔ شہر کے ایک شہری محمد ابراہیم نے کہا کہ محل کی آزادی جنگ کے آغاز کے بعد سے سننے والی سب سے اچھی خبر ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ فوج خرطوم کے دیگر حصوں پر بھی کنٹرول حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگ دوبارہ محفوظ زندگی گزارنا چاہتے ہیں، بغیر خوف اور بھوک کے۔ یہ تنازعہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحرانوں میں سے ایک بن چکا ہے، جس نے 50 ملین کی آبادی والے ملک میں قحط اور بیماریوں کو جنم دیا ہے۔ دونوں فریقوں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جبکہ آر ایس ایف پر نسل کشی کے بھی الزامات ہیں، جنہیں دونوں فریق مسترد کرتے ہیں۔
گلیشئرز کی تیزی سے پگھلتی ہوئی صورتحال، اقوام متحدہ کی رپورٹ نے دنیا کو خبردار کر دیا

دنیا بھر کے گلیشئرز تیزی سے غائب ہو رہے ہیں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے سبب ان کی پگھلائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ‘یونیسکو’ کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں گلیشئرز نے اب تک کی سب سے بڑی برف کی کمی ریکارڈ کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1975 سے لے کر اب تک گلیشئرز سے 9,000 گیگا ٹن برف کا نقصان ہو چکا ہے جو کہ جرمنی کے سائز جتنی ایک برف کی بلاک کے برابر ہے اور اس کی موٹائی 25 میٹر ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں واقع عالمی گلیشئر مانیٹرنگ سروس کے ڈائریکٹر مائیکل زیپ نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ منظرنامہ انسانیت کے لیے ایک اہم اشارہ ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں جیسے قطب شمالی، الپس، جنوبی امریکا اور تبت کی سطح مرتفع، گلیشئرز کا تیزی سے پگھلنا سیلابوں کے خطرات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عمل موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدت اختیار کر رہا ہے جو کہ توانائی کے ذرائع زراعت، اور آبی وسائل پر اہم اثرات مرتب کر رہا ہے۔ زیپ کے مطابق پچھلے چھ برسوں میں سے پانچ برسوں میں سب سے زیادہ برف کا نقصان ریکارڈ کیا گیا ہے اور 2024 میں صرف 450 گیگا ٹن برف کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ‘میری ترجیح معاہدہ کرنا ہے میں ایران کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا’ ڈونلڈ ٹرمپ یہ گلیشئرز کی پگھلائی کو سمندری سطح میں اضافے کا ایک بڑا سبب بن رہا ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ سیلابوں کی تباہ کاریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں تقریباً 2,75,000 گلیشئرز باقی ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ انٹارکٹیکا اور گرین لینڈ کے برفانی شیٹس دنیا کے 70 فیصد تازہ پانی کا ذخیرہ فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہ قدرتی وسائل اب تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) کے واٹر اینڈ کرائیوسفیئر ڈائریکٹر ‘اسٹیفن اُہلن بروک’ کے مطابق اس وقت ہمیں اپنے سائنسی علم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان قدرتی وسائل کی بہتر نگرانی پیش گوئی اور وارننگ سسٹمز فراہم کیے جا سکیں۔ گلیشئرز کی پگھلائی کے اثرات خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں رہنے والی 1.1 ارب افراد کی زندگیوں پر پڑ رہے ہیں۔ ان علاقوں میں پانی کی فراہمی غیر مستحکم ہو چکی ہے اور قدرتی آفات جیسے لینڈ سلائیڈز، آوی لینچز، اور گلیشئر جھیلوں کے سیلاب (GLOFs) کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیروا کے ایک کسان نے گلیشئر کی پگھلائی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور جرمن توانائی کمپنی RWE پر تاریخی عالمی گیس کے اخراج کا الزام عائد کیا ہے تاکہ گلیشئر جھیل کے دفاع کے لیے اس کا حصہ مل سکے۔ لازمی پڑھیں: امریکا کی غیر قانونی تارکین وطن کے لیے 700 ڈالر روزانہ جرمانے کی دھمکی ایک اور ماہر گلیشیالوجسٹ، ہیڈی سیوسٹری، نے کہا، “ہم جس نوعیت کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ نہایت دردناک ہیں اور کچھ علاقوں میں یہ تبدیلیاں ہماری توقعات سے کہیں زیادہ تیزی سے ہو رہی ہیں۔” سیوسٹری نے مشرقی افریقہ کے روینزوری پہاڑوں کا ذکر کیا جہاں گلیشئرز اب 2030 تک غائب ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مقامی آبادی جیسے کہ روینزوری پہاڑوں کے بیکونزو کمیونٹیز، ان گلیشئرز کے ساتھ روحانی تعلق رکھتے ہیں جہاں وہ گلیشئرز کو ایک دیوتا “کیتاسمبا” کا مسکن مانتے ہیں۔ دنیا بھر میں گلیشئرز کے پگھلنے سے سمندری سطح میں 2000 سے 2023 تک 18 ملی میٹر کا اضافہ ہو چکا ہے جو ہر سال تقریباً 1 ملی میٹر کا اضافہ کرتا ہے۔ اس ایک ملی میٹر کا اضافہ ہر سال 3 لاکھ لوگوں کو سیلاب کے خطرات میں ڈال سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گلیشئرز کا تحفظ صرف ان علاقوں میں رہنے والے افراد کے لیے ضروری نہیں بلکہ یہ عالمی سطح پر تمام انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ گلیشئرز کے ساتھ انسانیت کا تعلق نہ صرف پانی، بلکہ قدرت کے توازن سے بھی ہے۔ مزید پڑھیں: محکمہِ تعلیم ختم: ٹرمپ انتظامیہ امریکی تاریخ کو کس رخ موڑے گی؟
دس ہزار مربع میٹر تک آگ: روس کے تیل کے ڈپو پر یوکرین کا بڑا حملہ

روس کے کراسنودار علاقے میں ایک تیل کے ڈپو میں جمعہ کے روز ایک دھماکہ ہوا، جب فائر فائٹرز اس ہفتے کے شروع میں یوکرین کے ڈرون حملے کے بعد بھڑکنے والی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ علاقائی حکام کے مطابق، آگ بجھانے کے دوران ایک جلتے ہوئے ٹینک میں دباؤ بڑھنے سے دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں تیل کے شعلے مزید پھیل گئے۔ اس دھماکے کے بعد آگ ایک اور ٹینک تک پھیل گئی، اور مجموعی طور پر آگ کا رقبہ 10,000 مربع میٹر تک پہنچ گیا، جو ابتدائی پیمانے سے دوگنا تھا۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے 450 سے زائد فائر فائٹرز اور ایمرجنسی عملہ تعینات کیا گیا ہے، جبکہ اس حادثے میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انٹرفیکس خبر رساں ایجنسی کے مطابق، بینزین سمیت مضر کیمیکلز کی زیادہ مقدار کا پتہ قریبی علاقوں میں لگایا گیا ہے، جس سے ماحولیاتی اور صحت کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ یہ ڈپو کاوکازسکایا گاؤں کے قریب واقع ہے اور قازقستان سے بحیرہ اسود کے ذریعے روسی تیل کی سپلائی کے لیے ایک اہم ریل ٹرمینل ہے۔ یوکرین کے ڈرون حملے نے روس کی توانائی کی صنعت پر شدید اثرات مرتب کیے ہیں، جو ماسکو کی جنگی مہمات کے لیے مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔ روس کی وزارت خارجہ نے یوکرین پر الزام لگایا ہے کہ اس حملے سے کیف نے مجوزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔ تاہم، یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ روس بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس نے حالیہ دنوں میں ہسپتالوں اور ریلوے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ ان کا ملک جنگ بندی کے لیے تیار ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب کوئی باقاعدہ معاہدہ طے پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی جنگ بندی سے متعلق بیانات اور زمینی حقائق میں واضح تضاد ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا ایک اہم حکمت عملی بن چکا ہے، جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
محکمہِ تعلیم ختم: ٹرمپ انتظامیہ امریکی تاریخ کو کس رخ موڑے گی؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس کا مقصد وفاقی محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ فیصلہ قدامت پسندوں کے ایک مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کے تحت تعلیمی پالیسیوں کا اختیار ریاستوں اور مقامی تعلیمی اداروں کو منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب میں ٹرمپ نے کہا کہ یہ حکم محکمہ تعلیم کو “ختم کرنے” کی جانب پہلا قدم ہے، حالانکہ اس ایجنسی کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہوگی، جہاں ٹرمپ کو تاحال مطلوبہ ووٹوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ تقریب میں موجود طلباء نے علامتی طور پر اپنے فرضی ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے، جبکہ ٹرمپ نے کہا کہ وہ تعلیم کو واپس ان ریاستوں کے حوالے کر رہے ہیں جہاں اس کا “اصل مقام” ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب محکمہ تعلیم نے اعلان کیا کہ وہ اپنے تقریباً نصف ملازمین کو فارغ کرنے جا رہا ہے۔ یہ ٹرمپ کی اُس وسیع تر مہم کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ وفاقی حکومت کے سائز کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے وہ غیر ضروری اور ناکام تصور کرتے ہیں۔ امریکہ میں تعلیم ایک طویل عرصے سے سیاسی تنازعات کا مرکز رہی ہے۔ قدامت پسند مقامی کنٹرول، نجی و مذہبی اسکولوں کے لیے حکومتی تعاون، اور اسکول کے انتخاب جیسے نظریات کے حامی ہیں، جبکہ لبرل تعلیمی حلقے سرکاری اسکولوں اور تنوع کے فروغ کے لیے فنڈنگ میں اضافے پر زور دیتے ہیں۔ تاہم، ٹرمپ نے اس معاملے کو ایک اور سطح تک پہنچا دیا ہے، اور وہ اسے ایک بڑے نظریاتی تنازعے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کے اسکولوں اور جامعات میں لبرل نظریات کی تبلیغ ہو رہی ہے، جس کے خلاف وہ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تنوع، مساوات، اور شمولیت کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے اقدامات کیے ہیں، جیسا کہ وہ وفاقی حکومت میں کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کا اثر کولمبیا یونیورسٹی جیسے اداروں پر بھی پڑا، جسے کیمپس میں احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی آخری مہلت دی گئی، بصورتِ دیگر اسے 400 ملین ڈالر کی معطل شدہ فنڈنگ سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا۔ وائٹ ہاؤس کا مؤقف ہے کہ محکمہ تعلیم قومی خزانے پر بوجھ ہے اور اس کے نتائج ناقص رہے ہیں۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تعلیم پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امتحانی نتائج، شرح خواندگی، اور ریاضی کی مہارت کے لحاظ سے امریکی طلباء کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ تعلیمی پالیسیوں پر تنازعات کورونا وائرس وبا کے دوران مزید شدت اختیار کر گئے، جب والدین نے اسکول بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت کرکے تعلیمی نصاب اور پالیسیوں پر شدید اعتراضات اٹھائے۔ اس بے چینی کو قدامت پسند گروہوں، جیسے “مامز فار لبرٹی” اور ریپبلکن رہنماؤں نے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ٹرمپ کی تقریب میں ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ اور فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس جیسے نمایاں ریپبلکن رہنماؤں نے شرکت کی۔ دوسری جانب، ڈیموکریٹ سینیٹر پیٹی مرے نے کہا کہ ٹرمپ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کانگریس کی منظوری کے بغیر محکمہ تعلیم کو باضابطہ طور پر ختم نہیں کر سکتے، لیکن اگر وہ اس کے عملے کو فارغ کر دیں اور اس کی فعالیت کو محدود کر دیں، تو نتیجہ وہی ہوگا جو وہ چاہتے ہیں۔ یہ ایگزیکٹو آرڈر امریکی تعلیمی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
یروشلم میں نتن یاہو کے خلاف احتجاج، پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید تصادم

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو کی جانب سے داخلی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ رونن بار کو برطرف کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج میں شدت آ گئی۔ جمعرات کو یروشلم میں اسرائیلی پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا اور کئی مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ جب مظاہرے تیسرے روز بھی جاری رہے اور ہزاروں اسرائیلیوں نے وزیراعظم نتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا جہاں ایک طرف پولیس کے خلاف غصہ تھا وہیں دوسری طرف غزہ میں لڑائی دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے پر بھی ناراضگی بڑھتی جا رہی تھی۔ رونن بار کی برطرفی کے خلاف مظاہرین کے ساتھ ساتھ غزہ میں دو ماہ کے معطل جنگ کے بعد دوبارہ لڑائی شروع کرنے پر بھی شدید احتجاج کیا جا رہا تھا۔ یروشلم میں ایک احتجاجی مظاہرے میں 59 سالہ رینات ہاداشی نے کہا کہ “ہم بہت پریشان ہیں کہ ہمارا ملک آہستہ آہستہ ایک آمریت بنتا جا رہا ہے۔ وہ ہمارے یرغمالیوں کو نظرانداز کر رہے ہیں، اور ملک کے اہم مسائل کو نظرانداز کر رہے ہیں۔” جمعرات کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جب سینکڑوں مظاہرین وزیراعظم کے سرکاری رہائش گاہ کی جانب بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پولیس کے مطابق، درجنوں مظاہرین سکیورٹی حصار توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے بعد تل ابیب میں کیریا ملٹری ہیڈکوارٹر کے باہر مزید مظاہروں کا اعلان کیا گیا۔ اس سے ایک دن قبل مظاہرین اور مخالف مظاہرین کے درمیان شدید تصادم ہوا جو نتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو کی حکومت کے قیام کے بعد اسرائیل میں گہرے سیاسی اختلافات اور تقسیمات کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی وفد کا افغانستان ‘غیر معمولی دورہ’ طالبان نے قیدی رہا کر دیا
امریکی وفد کا افغانستان ‘غیر معمولی دورہ’ طالبان نے قیدی رہا کر دیا

امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے تین سال بعد ایک غیر معمولی سفارتی پیش رفت کے طور پر امریکی وفد کابل کے دورے پر پہنچا۔ افغان میڈیا کے مطابق اس دورے کے دوران طالبان اور امریکی وفد کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں دونوں فریقین نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ افغان دارالحکومت میں ہونے والی اس ملاقات میں امریکی خصوصی ایلچی برائے مغوی افراد ایڈم بوہلر اور افغانستان کے لیے سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد شامل تھے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکی وفد کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے دوران خاص طور پر قیدیوں کی رہائی اور دو طرفہ تعلقات کے مستقبل پر بات چیت ہوئی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں طالبان نے ایک امریکی شہری جارج گلیزمن کو رہا کر دیا، جسے 2022 میں کابل میں طالبان نے حراست میں لیا تھا۔ افغان میڈیا کے مطابق جارج گلیزمن کی رہائی میں قطر نے اہم سفارتی کردار ادا کیا اور اس معاملے کو حل کروانے کے لیے پس پردہ کوششیں کیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس پیش رفت کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے، تاہم امریکی حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ اب بھی چند امریکی شہری افغانستان میں قید ہیں۔ واشنگٹن نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ ان قیدیوں کی رہائی کو بھی یقینی بنائیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے عمل کو مزید فروغ دیا جا سکے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ افغانستان ایک متوازن خارجہ پالیسی پر گامزن ہے اور وہ امریکا سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے تاکہ دو طرفہ تعلقات میں پائی جانے والی بے اعتمادی کو کم کیا جا سکے۔ امیر خان متقی نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کو گزشتہ بیس سالہ جنگ کے اثرات سے نکلنے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں مثبت سیاسی و اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہے اور اس مقصد کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق افغانستان میں قیام امن اور اقتصادی ترقی کے لیے بین الاقوامی سطح پر رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے اور امریکا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے امکانات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم مغربی ممالک کی طرف سے اب تک طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے دو طرفہ سفارتی تعلقات میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست سفارتی ملاقاتیں محدود رہی ہیں، تاہم حالیہ رابطے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ دونوں فریق ایک نیا مکالمہ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان میں استحکام، انسانی حقوق، اور دیگر امور پر اختلافات کے باوجود اس قسم کے سفارتی روابط دو طرفہ تعلقات میں کسی مثبت پیش رفت کا اشارہ دے سکتے ہیں۔
کرسٹی کوونٹری بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کی نئی صدر منتخب، اہم اعزاز بھی اپنے نام کر لیے

کرسٹی کاونٹری بین الاقوامی اولمپک کمیٹی( آئی او سی) کی 10ویں صدر منتخب ہو گئی ہیں جس سے وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی افریقی ہونے کے ساتھ ساتھ پہلی خاتون بھی بن گئی ہیں۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق 41 سالہ کاونٹری جو اس عہدے پر فائز ہونے والی سب سے کم عمر شخصیت بھی ہیں، انہوں نے یونان کے سمندری کنارے کے تفریحی مقام کوسٹا ناوارینو میں سات امیدواروں کے درمیان مقابلہ جیت کر دنیا کے سب سے طاقتور کھیلوں کے عہدے پر کامیابی حاصل کی۔ کاونٹری 24 جون کو باضابطہ طور پر عہدہ سنبھالیں گی، جب موجودہ صدر تھامس باخ 12 سالہ مدت پوری کرنے کے بعد مستعفی ہوں گے۔ کرسٹی کاونٹری نے انتخابات جیتنے کے بعد کہا کہ یہ ایک غیر معمولی لمحہ ہے،نو سال کی عمر میں، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن میں یہاں کھڑی ہو کر ہماری اس شاندار تحریک کو کچھ واپس دے سکوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک بہت بڑا اعزاز نہیں بلکہ یہ میرے لیے آپ میں سے ہر ایک کے لیے عزم کی یاد دہانی بھی ہے کہ میں اس تنظیم کی قیادت بہت فخر کے ساتھ کروں گی اور میں آپ سب کو بہت فخر اور اپنے آج کے فیصلے پر انتہائی پُر اعتماد محسوس کراؤں گی،دل کی گہرائیوں سے آپ سب کا شکریہ، اور اب، ہمیں اکٹھے کام کرنا ہے۔ یہ دوڑ ایک شاندار دوڑ تھی، اور اس نے ہمیں بہتر بنایا، ہمیں ایک مضبوط تحریک بنا دیا۔ آئی او سی کی رکن بننے سے قبل، وہ زمبابوے کے لیے نمایاں ایتھلیٹ تھیں، کاونٹری نے اب تک زمبابوے کے جیتے گئے آٹھ اولمپک تمغوں میں سے سات جیتے ہیں۔ 2004 کے ایتھنز اولمپکس میں، انہوں نے تین تمغے جیتے، جن میں 200 میٹر بیک اسٹروک میں گولڈ میڈل شامل تھے اور چار سال بعد انہوں نے اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کیا۔ یونان میں ہونے والی ووٹنگ کا پہلا مرحلہ مسائل کے بغیر نہیں گزرا، کئی ووٹرز نے اپنی تکنیکی ووٹنگ سسٹمز میں مشکلات کی شکایت کی۔ ایک موقع پر، آئی او سی کے ڈائریکٹر جنرل کرسٹوف ڈی کیپر ، جو ووٹنگ کی میزبانی کر رہے تھے ، نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ایک رکن “اپنی شکایات کے ساتھ میرے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ پہلا مرحلہ ختم ہوتے ہی ووٹنگ بند کر دی گئی کیونکہ پہلے ہی ایک امیدوار کو مطلق اکثریت حاصل ہو چکی تھی۔