یروشلم میں نتن یاہو کے خلاف احتجاج، پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید تصادم

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو کی جانب سے داخلی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ رونن بار کو برطرف کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج میں شدت آ گئی۔ جمعرات کو یروشلم میں اسرائیلی پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا اور کئی مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ جب مظاہرے تیسرے روز بھی جاری رہے اور ہزاروں اسرائیلیوں نے وزیراعظم نتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا جہاں ایک طرف پولیس کے خلاف غصہ تھا وہیں دوسری طرف غزہ میں لڑائی دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے پر بھی ناراضگی بڑھتی جا رہی تھی۔ رونن بار کی برطرفی کے خلاف مظاہرین کے ساتھ ساتھ غزہ میں دو ماہ کے معطل جنگ کے بعد دوبارہ لڑائی شروع کرنے پر بھی شدید احتجاج کیا جا رہا تھا۔ یروشلم میں ایک احتجاجی مظاہرے میں 59 سالہ رینات ہاداشی نے کہا کہ “ہم بہت پریشان ہیں کہ ہمارا ملک آہستہ آہستہ ایک آمریت بنتا جا رہا ہے۔ وہ ہمارے یرغمالیوں کو نظرانداز کر رہے ہیں، اور ملک کے اہم مسائل کو نظرانداز کر رہے ہیں۔” جمعرات کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جب سینکڑوں مظاہرین وزیراعظم کے سرکاری رہائش گاہ کی جانب بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پولیس کے مطابق، درجنوں مظاہرین سکیورٹی حصار توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے بعد تل ابیب میں کیریا ملٹری ہیڈکوارٹر کے باہر مزید مظاہروں کا اعلان کیا گیا۔ اس سے ایک دن قبل مظاہرین اور مخالف مظاہرین کے درمیان شدید تصادم ہوا جو نتن یاہو کی قیادت میں دائیں بازو کی حکومت کے قیام کے بعد اسرائیل میں گہرے سیاسی اختلافات اور تقسیمات کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی وفد کا افغانستان ‘غیر معمولی دورہ’ طالبان نے قیدی رہا کر دیا
امریکی وفد کا افغانستان ‘غیر معمولی دورہ’ طالبان نے قیدی رہا کر دیا

امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے تین سال بعد ایک غیر معمولی سفارتی پیش رفت کے طور پر امریکی وفد کابل کے دورے پر پہنچا۔ افغان میڈیا کے مطابق اس دورے کے دوران طالبان اور امریکی وفد کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں دونوں فریقین نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ افغان دارالحکومت میں ہونے والی اس ملاقات میں امریکی خصوصی ایلچی برائے مغوی افراد ایڈم بوہلر اور افغانستان کے لیے سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد شامل تھے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکی وفد کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے دوران خاص طور پر قیدیوں کی رہائی اور دو طرفہ تعلقات کے مستقبل پر بات چیت ہوئی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں طالبان نے ایک امریکی شہری جارج گلیزمن کو رہا کر دیا، جسے 2022 میں کابل میں طالبان نے حراست میں لیا تھا۔ افغان میڈیا کے مطابق جارج گلیزمن کی رہائی میں قطر نے اہم سفارتی کردار ادا کیا اور اس معاملے کو حل کروانے کے لیے پس پردہ کوششیں کیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس پیش رفت کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے، تاہم امریکی حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ اب بھی چند امریکی شہری افغانستان میں قید ہیں۔ واشنگٹن نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ ان قیدیوں کی رہائی کو بھی یقینی بنائیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے عمل کو مزید فروغ دیا جا سکے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ افغانستان ایک متوازن خارجہ پالیسی پر گامزن ہے اور وہ امریکا سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے تاکہ دو طرفہ تعلقات میں پائی جانے والی بے اعتمادی کو کم کیا جا سکے۔ امیر خان متقی نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کو گزشتہ بیس سالہ جنگ کے اثرات سے نکلنے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں مثبت سیاسی و اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہے اور اس مقصد کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق افغانستان میں قیام امن اور اقتصادی ترقی کے لیے بین الاقوامی سطح پر رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے اور امریکا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے امکانات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم مغربی ممالک کی طرف سے اب تک طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے دو طرفہ سفارتی تعلقات میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست سفارتی ملاقاتیں محدود رہی ہیں، تاہم حالیہ رابطے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ دونوں فریق ایک نیا مکالمہ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان میں استحکام، انسانی حقوق، اور دیگر امور پر اختلافات کے باوجود اس قسم کے سفارتی روابط دو طرفہ تعلقات میں کسی مثبت پیش رفت کا اشارہ دے سکتے ہیں۔
کرسٹی کوونٹری بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کی نئی صدر منتخب، اہم اعزاز بھی اپنے نام کر لیے

کرسٹی کاونٹری بین الاقوامی اولمپک کمیٹی( آئی او سی) کی 10ویں صدر منتخب ہو گئی ہیں جس سے وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی افریقی ہونے کے ساتھ ساتھ پہلی خاتون بھی بن گئی ہیں۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق 41 سالہ کاونٹری جو اس عہدے پر فائز ہونے والی سب سے کم عمر شخصیت بھی ہیں، انہوں نے یونان کے سمندری کنارے کے تفریحی مقام کوسٹا ناوارینو میں سات امیدواروں کے درمیان مقابلہ جیت کر دنیا کے سب سے طاقتور کھیلوں کے عہدے پر کامیابی حاصل کی۔ کاونٹری 24 جون کو باضابطہ طور پر عہدہ سنبھالیں گی، جب موجودہ صدر تھامس باخ 12 سالہ مدت پوری کرنے کے بعد مستعفی ہوں گے۔ کرسٹی کاونٹری نے انتخابات جیتنے کے بعد کہا کہ یہ ایک غیر معمولی لمحہ ہے،نو سال کی عمر میں، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن میں یہاں کھڑی ہو کر ہماری اس شاندار تحریک کو کچھ واپس دے سکوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک بہت بڑا اعزاز نہیں بلکہ یہ میرے لیے آپ میں سے ہر ایک کے لیے عزم کی یاد دہانی بھی ہے کہ میں اس تنظیم کی قیادت بہت فخر کے ساتھ کروں گی اور میں آپ سب کو بہت فخر اور اپنے آج کے فیصلے پر انتہائی پُر اعتماد محسوس کراؤں گی،دل کی گہرائیوں سے آپ سب کا شکریہ، اور اب، ہمیں اکٹھے کام کرنا ہے۔ یہ دوڑ ایک شاندار دوڑ تھی، اور اس نے ہمیں بہتر بنایا، ہمیں ایک مضبوط تحریک بنا دیا۔ آئی او سی کی رکن بننے سے قبل، وہ زمبابوے کے لیے نمایاں ایتھلیٹ تھیں، کاونٹری نے اب تک زمبابوے کے جیتے گئے آٹھ اولمپک تمغوں میں سے سات جیتے ہیں۔ 2004 کے ایتھنز اولمپکس میں، انہوں نے تین تمغے جیتے، جن میں 200 میٹر بیک اسٹروک میں گولڈ میڈل شامل تھے اور چار سال بعد انہوں نے اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کیا۔ یونان میں ہونے والی ووٹنگ کا پہلا مرحلہ مسائل کے بغیر نہیں گزرا، کئی ووٹرز نے اپنی تکنیکی ووٹنگ سسٹمز میں مشکلات کی شکایت کی۔ ایک موقع پر، آئی او سی کے ڈائریکٹر جنرل کرسٹوف ڈی کیپر ، جو ووٹنگ کی میزبانی کر رہے تھے ، نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ایک رکن “اپنی شکایات کے ساتھ میرے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ پہلا مرحلہ ختم ہوتے ہی ووٹنگ بند کر دی گئی کیونکہ پہلے ہی ایک امیدوار کو مطلق اکثریت حاصل ہو چکی تھی۔
‘میری ترجیح معاہدہ کرنا ہے میں ایران کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا’ ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی کو دو ماہ کی مہلت دی ہے کہ وہ جوہری معاہدے پر نئی بات چیت شروع کریں۔ یہ دباؤ ڈالنے والا پیغام ایک سفارتی چین کے ذریعے ایران تک پہنچایا گیا جس میں ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے نمائندے اسٹیو وٹکوف اور متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید آل نہیان نے اہم کردار ادا کیا۔ ایکس یوس کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کا پیغام ایرانی حکام تک پہنچانے کے لیے ایک سفارتی راستہ استعمال کیا گیا جس میں یو اے ای نے اپنی مدد فراہم کی۔ اس پیغام میں ٹرمپ نے ایران سے جوہری تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات کی درخواست کی اور واضح کیا کہ اگر ایران نے بات چیت میں دلچسپی نہ دکھائی تو امریکا دوسرے آپشنز پر غور کر سکتا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ‘برائن ہیوز’ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹرمپ نے خامنائی کو دو ماہ کے اندر مذاکرات کے آغاز کے لیے ایک واضح ڈیڈ لائن دی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ “صدر ٹرمپ نے یہ بات واضح کی کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے تنازعے کو جلد از جلد سفارتی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔” یہ بھی پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں سے 70 فلسطینی شہید، 500 سے زائد زخمی ایران کے جوہری عزائم پر عالمی برادری کی تشویش میں اضافے کے باوجود، ٹرمپ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کا حل بات چیت سے چاہتے ہیں۔ تاہم، اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو امریکا اور اسرائیل کے پاس فوجی کارروائی کے آپشنز بھی موجود ہیں۔ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ایک فون کال میں اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام اور ممکنہ تصادم کی روک تھام کے لیے تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ دوسری طرف ایران نے ٹرمپ کے پیغام کا جائزہ لینے کا عندیہ دیا ہے لیکن آیت اللہ خامنائی نے امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ “بدمعاش ریاستوں” سے مذاکرات نہیں کریں گے جو ایران کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ لازمی پڑھیں: امریکا کا عمران خان سے متعلق سوالات پر ردعمل، بات کرنے سے بھی انکار کردیا ایران کی وزارت خارجہ نے اس پیغام کا جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے لیکن خامنائی کی جانب سے امریکا کے بدمعاش طریقوں’ کی مذمت کی جا چکی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ “ایران کے ساتھ دو طریقے ہیں سے چل سکتے ہیں ایک فوجی کارروائی یا معاہدہ کرنا۔ میری ترجیح معاہدہ کرنا ہے کیونکہ میں ایران کو نقصان پہنچانے کا خواہاں نہیں ہوں۔” یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں 2015 کے ایران جوہری معاہدے سے امریکا کو نکال لیا تھا اور ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں تاکہ اس کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کو روکا جا سکے۔ ایران نے ان پابندیوں کے باوجود اپنے جوہری پروگرام میں توسیع کی ہے جس کے باعث عالمی سطح پر خطرات بڑھ گئے ہیں۔ ایران کی جانب سے اس معاملے میں تعاون نہ کرنے کی صورت میں ٹرمپ انتظامیہ کے “پریشر” حکمت عملی کے تحت ایران کی مزید اقتصادی اور سفارتی تنہائی ممکن ہے اور ایران کے حوثی باغیوں کی حمایت کا مسئلہ بھی عالمی سطح پر حل کرنے کی کوششیں تیز ہو سکتی ہیں۔ ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس بات کا فیصلہ اب صرف دو ماہ کے اندر ہو گا کہ آیا دونوں ممالک دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئیں گے یا دنیا ایک نئے تنازعے کی دہلیز پر کھڑی ہو گی۔ مزید پڑھیں: امریکا کی غیر قانونی تارکین وطن کے لیے 700 ڈالر روزانہ جرمانے کی دھمکی
امریکا کی غیر قانونی تارکین وطن کے لیے 700 ڈالر روزانہ جرمانے کی دھمکی

امریکا کی وزیرِ داخلہ ‘کرسٹی نویم’ نے کہا ہے کہ سینکڑوں غیر قانونی تارکین وطن نے پہلے ہی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (CBP) کے خود ساختہ ڈی پورٹیشن ایپ کے ذریعے خود کو واپس بھیجا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جو افراد امریکا میں حتمی اخراج کے حکم کے باوجود مقیم رہیں گے انہیں روزانہ 700 ڈالر تک کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ ایپ جو کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کی ہجرتی حکمت عملی کا حصہ ہے غیر قانونی تارکینِ وطن کو موقع دیتی ہے کہ وہ خود کو واپس اپنے وطن بھیج کر قانونی طور پر دوبارہ امریکا آ سکیں۔ کرسٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایپ کا مقصد لوگوں کو جلدی خود ساختہ ڈی پورٹیشن کا اختیار فراہم کرنا ہے تاکہ وہ مستقبل میں قانونی طریقے سے امریکا واپس آ سکیں۔ ہندوستانی میڈیا کے مطابق ‘راجانی سرینیوسن’ جیسے افراد نے اس آپشن کا فائدہ اٹھایا جو کہ ایک پی ایچ ڈی طالبہ ہیں اور ان پر حماس کی حمایت کرنے کا الزام تھا اور انہیں امریکا چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔ یہ مہم، جسے “ابھی جاؤ اور چلے جاؤ” نامی منصوبہ کہا جا رہا ہے 200 ملین ڈالر کی لاگت سے چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم میں کرسٹی نویم نے اشتہارات میں حصہ لیا اور کہا کہ “صدر ٹرمپ کا پیغام واضح ہے کہ اگر آپ یہاں غیر قانونی طور پر ہیں تو ہم آپ کو ڈھونڈیں گے اور ڈی پورٹ کر دیں گے۔” یہ بھی پڑھیں: امریکا کا عمران خان سے متعلق سوالات پر ردعمل، بات کرنے سے بھی انکار کردیا کرسٹئی نویم نے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت کی سخت پالیسیوں کی بدولت غیر قانونی سرحدی دراندازیوں میں 95 فیصد تک کمی آئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت روزانہ کی بنیاد پر غیر قانونی دراندازی کی تعداد تاریخی کم سطح پر آ گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کامیابی سابقہ حکومت کے مقابلے میں موجودہ انتظامیہ کی سخت سرحدی حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جس میں سرحدی دیوار کی تعمیر کے عمل کو دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کرسٹی نویم نے یہ بھی بتایا کہ امریکی امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) نے ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد 32,000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ یہ اقدامات امریکی حکومت کے سخت اور جارحانہ ہجرتی قوانین کا حصہ ہیں جو غیر قانونی تارکینِ وطن کی تعداد کو کم کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ ٹرمپ کی واپسی کے بعد نئی پالیسیوں کے تحت غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف مزید سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاکہ امریکا میں غیر قانونی رہائش پذیر افراد کا خاتمہ کیا جا سکے اور ملکی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں سے 70 فلسطینی شہید، 500 سے زائد زخمی
غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں سے 70 فلسطینی شہید، 500 سے زائد زخمی

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 70 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ حملے اس وقت ہوئے جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر اپنی بمباری کی مہم دوبارہ شروع کی۔ غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق، شمالی اور جنوبی غزہ کے مختلف علاقوں میں متعدد رہائشی گھروں کو نشانہ بنایا گیا جس سے انسانی جانی نقصان میں مزید اضافہ ہوا۔ اس سے ایک دن قبل اسرائیلی فوج نے وسطی اور جنوبی غزہ میں اپنی زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع کی تھیں جو جنوری میں عارضی طور پر ہونے والی جنگ بندی کے بعد پہلی بار ہوئی ہیں۔ اس جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل کی کارروائیاں شدت اختیار کر گئی ہیں اور فلسطینیوں پر زندگی مزید تنگ ہو گئی ہے۔ فلسطینی صحت حکام کے مطابق، اس سلسلے میں صرف بدھ کے دن ہی 400 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی خواتین اور بچے بھی اس حملے کا شکار ہوئے ہیں۔ ایک روز میں 510 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں سے بیشتر خواتین اور بچے تھے۔ غزہ کے اس تباہ کن منظر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جہاں زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی، 6 افراد ہلاک، 40 لاپتہ اسرائیلی فوج نے اپنے حملوں کو شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان “نتزریم کوریڈور” پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کارروائی قرار دیا ہے جو اسرائیل کے لیے ایک “جزوی حفاظتی علاقہ” بنانے کی کوشش ہے۔ یہ کارروائیاں نہ صرف فلسطینیوں کے لیے زندگی کو مزید مشکل بنا رہی ہیں، بلکہ عالمی سطح پر اسرائیل کے مظالم کی مذمت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ حماس کے نمائندوں نے اس بات کو “ایک نئی اور خطرناک خلاف ورزی” قرار دیا ہے اور عالمی ثالثوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فریقین کے درمیان جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے مزید کوششیں کریں۔ حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ “ثالثی کی کوششوں میں تیزی آئی ہے لیکن ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔” لازمی پڑھیں: توانائی کے مراکز کو نشانہ نہیں بنائیں گے، مگر جنگ بندی سے انکار یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیلی شہروں پر حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور 250 سے زائد افراد اغوا ہوئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں شدید بمباری کی اور انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے تقریباً 49,000 سے زائد معصوم فلسطینوں کو شہید کردیا ہے جبکہ غزہ کی پٹی اب صرف ایک کھنڈر بن کر رہ گئی ہے۔ یہ جنگ ایک طرف غزہ کے فلسطینیوں کے لئے شہادت کا پیغام بن چکی ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کی جارحیت اور ظلم کا عکاس ہے جو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی کی ایک واضح مثال ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس جنگ کے خاتمے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن غزہ کے معصوم شہری ابھی تک اس تباہی کا شکار ہیں جو صرف اور صرف اسرائیل کی ظلم و ستم کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا کا عمران خان سے متعلق سوالات پر ردعمل، بات کرنے سے بھی انکار کردیا
امریکا کا عمران خان سے متعلق سوالات پر ردعمل، بات کرنے سے بھی انکار کردیا

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیمی بروس نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے متعلق سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا۔ ایک حالیہ میڈیا بریفنگ میں جب ایک صحافی نے عمران خان کی صورتحال پر سوال اٹھایا تو ٹیمی بروس نے فوراً جواب دیا کہ امریکا کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات پر تبصرہ نہیں کرتا۔ بروس نے واضع کیا کہ “میں کسی دوسرے ملک کے داخلی مسائل پر تبصرہ نہیں کروں گی۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات جاننے ہیں تو وہ وائٹ ہاؤس سے رجوع کریں۔ ٹیمی بروس کا یہ بیان امریکا کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے جو کہ دنیا بھر میں عالمی مسائل پر توجہ مرکوز رکھتا ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک کے بہبود کو ترجیح دیتا ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکا عالمی مسائل پر مرکوز ہے۔ ضرور پڑھیں: ‘ہم نے غزہ پر دوبارہ کارروائیاں شروع کر دی ہیں’ اسرائیلی حکام یہ دوسرا موقع ہے جب ٹیمی بروس نے عمران خان یا ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات سے بچتے ہوئے غیر مشروط ردعمل دیا ہے۔ اس سے پہلے 6 مارچ کو بھی جب ایک سوال میں یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا امریکی صدر عمران خان کی حمایت کرتے ہیں تو ترجمان نے اس پر بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا کی حکومتی ترجیحات عالمی مسائل پر مرکوز ہیں اور وہ کسی بھی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔ یہ سوالات اس وقت اہمیت اختیار کر گئے ہیں جب عمران خان کی سیاست اور ان کے پارٹی کی سرگرمیاں پاکستان میں خاصی زیرِ بحث ہیں اور اس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس ہو رہے ہیں۔ امریکا کی اس پالیسی کے تحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ واشنگٹن کی حکمتِ عملی عالمی سطح پر استحکام، امن اور معیشت کو ترجیح دیتی ہے۔ تاہم، یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ آیا اس طرح کے بیانات عالمی سطح پر پاکستان کے اندرونی سیاست پر مزید اثرات ڈالیں گے یا نہیں۔ مزید پڑھیں: اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی، 6 افراد ہلاک، 40 لاپتہ
اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی، 6 افراد ہلاک، 40 لاپتہ

بحیرہ روم میں ایک اور کشتی کے ڈوبنے سے چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے جبکہ 40 افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کی نمائندہ چیرا کارڈولیٹی نے بتایا کہ یہ کشتی پیر کے روز تونس سے روانہ ہوئی تھی جس میں 56 افراد سوار تھے۔ انہوں نے اس واقعے کو “بحیرہ روم میں ایک اور المناک کشتی حادثہ” قرار دیا جہاں بہت زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کشتی کے ڈوبنے کا واقعہ اٹلی کے جزیرے لیمپیڈوسا کے قریب پیش آیا۔ یہ جزیرہ افریقہ سے یورپ جانے والے مہاجرین کے لیے ایک اہم پہنچنے کی جگہ ہے۔ اٹلی کی کوسٹ گارڈ نے دس زندہ بچ جانے والوں کو بچا لیا ہے اور لاپتہ افراد کی تلاش کا عمل جاری ہے۔ حادثے کا شکار افراد میں آئیوری کوسٹ، مالی، گیمبیا اور کیمرون کے باشندے شامل تھے۔ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ کچھ افراد طوفانی سمندر میں گر کر لاپتہ ہو گئے تھے۔ بحیرہ روم میں اس وقت مہاجرین کی کشتیوں کے ڈوبنے کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ راستہ دنیا کے سب سے خطرناک سمندری راستوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ دوسری جانب اٹلی کے جزیرے لیمپیڈوسا پر 40 مزید مہاجرین پہنچے ہیں جنہوں نے ٹینکروں کی مدد سے تونس کے شہر سفاک سے سفر کیا۔ گزشتہ روز پانچ الگ الگ کشتیوں نے جزیرے پر 213 افراد کو لنگر انداز کیا جس کے بعد لیمپیڈوسا کے ریسیپشن سینٹر میں لوگوں کی تعداد 230 تک پہنچ چکی ہے۔ اس سال اٹلی میں 8,743 مہاجرین کی آمد ہو چکی ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت سے کچھ زیادہ ہے۔ عالمی تنظیم برائے مہاجرین (IOM) کے مطابق 2014 کے بعد سے اس خطے میں 31,500 سے زائد افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ 2025 کے آغاز سے ہی 246 افراد کی موت واقع ہو چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ مہاجرین کے لیے محفوظ سفر کی راہ ہموار کی جائے اور ریسکیو آپریشنز کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ اس خوفناک انسانی بحران کو روکا جا سکے۔ مزید پڑھیں: سائپرس کے ساحل سے کشتی ڈوبنے کے بعد سات لاشیں برآمد، دو افراد کو بچا لیا گیا
‘ہم نے غزہ پر دوبارہ کارروائیاں شروع کر دی ہیں’ اسرائیلی حکام

اسرائیلی فوج نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ اس کی افواج نے وسطی اور جنوبی غزہ میں زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔ مقامی طبی ذرائع کے مطابق، دو روزہ فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 48 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ تازہ حملے ایک دن بعد ہوئے ہیں جب فضائی بمباری میں 400 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے تھے، جسے جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک کے مہلک ترین واقعات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ جنوری سے جاری جنگ بندی بھی ان حملوں کے نتیجے میں ختم ہو چکی ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، اس کی کارروائیوں کا مقصد نیٹزارم کوریڈور پر کنٹرول مضبوط کرنا تھا، تاکہ شمالی اور جنوبی غزہ کے درمیان ایک بفر زون قائم کیا جا سکے۔ دوسری جانب، فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اس کارروائی کو دو ماہ پرانی جنگ بندی کی ایک “نئی اور سنگین خلاف ورزی” قرار دیا ہے۔ گروپ نے ثالثوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور جنگ بندی کو بحال کریں۔ اقوام متحدہ نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ بدھ کو غزہ میں اقوام متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ پر حملے میں ایک غیر ملکی ملازم ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ غزہ کی وزارت صحت نے اس حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا، تاہم اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس کا ہدف حماس کے ایک مقام پر حملے کی تیاریوں کو ناکام بنانا تھا۔ اقوام متحدہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر Jorge Moreira da Silva نے کہا کہ اسرائیل جانتا تھا کہ یہ اقوام متحدہ کا احاطہ ہے، جہاں لوگ رہ رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ کے عملے پر ہونے والے تمام حملوں کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں کم از کم 280 اقوام متحدہ کے کارکن جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بلغاریہ کی وزارت خارجہ کے مطابق، اس حملے میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والا ایک بلغاریائی شہری بھی ہلاک ہوا ہے۔
ترک صدر ایردوان کا سیاسی حریف گرفتار، جرم کیا ہے؟

ترکیہ میں صدارتی انتخابات سے قبل متوقع صدارتی امیدوار کو گرفتار کرلیا گیا ۔ استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو دہشت گروہ کی مدد کرنے کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ سیکولر ریپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اکرم امام اوغلو کو ترک صدراردوان کے سب سے مضبوط سیاسی حریفوں میں شمار کیا جاتا ہے، اُن پر بدعنوانی اور ایک دہشت گرد گروہ کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ پولیس نے تحقیقات کے دوران ایک سو افراد کو حراست میں لیا ہے، جن میں سیاستدان، صحافی اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ امام اوغلو نے آن لائن بیان میں کہا کہ عوام کی مرضی کو خاموش نہیں کروایا جا سکتا۔ ترکیہ کی سڑکوں، یونیورسٹی کیمپسز اور ٹرین اسٹیشنوں پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ استنبول میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ حکومت نے استنبول میں 4 روزہ پابندیوں کے تحت عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے، لیکن ملک بھر میں مزید احتجاج کا خدشہ ہے۔