ترک صدر ایردوان کا سیاسی حریف گرفتار، جرم کیا ہے؟

ترکیہ میں صدارتی انتخابات سے قبل متوقع صدارتی امیدوار کو گرفتار کرلیا گیا ۔ استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو دہشت گروہ کی مدد کرنے کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ سیکولر ریپبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اکرم امام اوغلو کو ترک صدراردوان کے سب سے مضبوط سیاسی حریفوں میں شمار کیا جاتا ہے، اُن پر بدعنوانی اور ایک دہشت گرد گروہ کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔  پولیس نے تحقیقات کے دوران ایک سو افراد کو حراست میں لیا ہے، جن میں سیاستدان، صحافی اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔  امام اوغلو نے آن لائن بیان میں کہا کہ عوام کی مرضی کو خاموش نہیں کروایا جا سکتا۔ ترکیہ کی سڑکوں، یونیورسٹی کیمپسز اور ٹرین اسٹیشنوں پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ استنبول میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ حکومت نے استنبول میں 4 روزہ پابندیوں کے تحت عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے، لیکن ملک بھر میں مزید احتجاج کا خدشہ ہے۔

امریکی جج نے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر، ٹرانس جینڈر کو روک دیا

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک  ایگزیکٹو آرڈر  پاس  کیا تھا کہ ٹرانس جینڈر میں خدمات سرانجام نہیں دے سکتے، اس پر عمل درآمد ہونے کے لیے ایک وفاقی جج نے عارضی طور پر روک دیا ۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایک وفاقی جج نےامریکی فوج کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد سے عارضی طور پر روک دیا، جو خواجہ سرا افراد کو فوج میں خدمات انجام دینے سے منع کرتا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے 20 موجودہ اور ممکنہ فوجی اہلکاروں کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے دوران آیا ہے، جو اس پابندی کو سامنا کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں امریکی ڈسٹرکٹ جج آنا ریز نے پایا کہ ٹرمپ کا 27 جنوری کا حکم نامہ، جو ریپبلکن صدر کی جانب سے امریکی خواجہ سرا افراد کے قانونی حقوق کو محدود کرنے کے لیے جاری کیے گئے کئی احکامات میں سے ایک ہے، امریکی آئین میں دیے گئے صنفی امتیاز کی ممانعت کے اصول کی ممکنہ طور پر خلاف ورزی کرتا ہے۔ جج ریز نے اپنے فیصلے میں کہا، یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ہزاروں خواجہ سرا فوجیوں نے دوسروں کے مساوی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر خدمات انجام دیں، لیکن اب اسی برابری کے حق سے انہیں محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مدعیان کے وکیل جینیفر لیوی نے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے فیصلہ کن اور تیزی سے قدم اٹھایا،یہ فیصلہ واضح طور پر اس پابندی کے نقصانات کو اجاگر کرتا ہے جو بہادر خواجہ سرا فوجیوں پر مسلط کی جا رہی ہے، جو محض عزت کے ساتھ اپنی قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے نمائندوں نے فوری طور پر اس فیصلے پر تبصرہ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ کے حکم نامے کے جواب میں، فوج نے 11 فروری کو اعلان کیا تھا کہ وہ اب مزید خواجہ سرا افراد کو بھرتی نہیں کرے گی اوراسی ماہ کے آخر میں فوج نے کہا کہ وہ خواجہ سرا اہلکاروں کو فوج سے نکالنے کا عمل شروع کرے گی۔ ٹرمپ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ کسی فرد کی اصل جنس کے برخلاف صنفی شناخت اپنانا فوجیوں کی دیانت، سچائی اور نظم و ضبط پر مبنی زندگی کے اصولوں سے متصادم ہے، چاہے وہ ذاتی زندگی میں ہی کیوں نہ ہو۔ جج ریز نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکومت نے خود تسلیم کیا ہے کہ مدعیان بہترین فوجی ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ خواجہ سرا افراد میں بھی وہی جنگی جذبہ، جسمانی اور ذہنی مضبوطی، ایثار، عزت، دیانت اور نظم و ضبط ہوتا ہے جو فوجی معیار کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تو پھر انہیں اور دیگر نمایاں فوجیوں کو کیوں نکالا جا رہا ہے؟ دفاعی فریق کی طرف سے اس اہم سوال پر مکمل خاموشی چھا رہی۔ خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ نے اس طرح کا حکم جاری کیا ہو۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی انہوں نے ایک ایسا ہی ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، تاہم اس میں پہلے سے خدمات انجام دینے والے خواجہ سرا فوجیوں کو فوج میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس مقدمے کے مدعیان نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ حکم غیر قانونی ہے اور انہوں نے 2020 میں امریکی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں قرار دیا گیا تھا کہ خواجہ سرا افراد کے خلاف ملازمت میں امتیازی سلوک غیر قانونی صنفی امتیاز کے زمرے میں آتا ہے۔ حکومتی وکلاء نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ فوج کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کچھ مخصوص طبی حالات کے حامل افراد کو فوجی خدمات کے لیے نااہل قرار دے، جیسا کہ بائی پولر ڈس آرڈر یا ایٹنگ ڈس آرڈر میں مبتلا افراد کے لیے کیا جاتا ہے۔ تاہم، جج ریز نے بار بار ان سے اس مؤقف کے حق میں ثبوت فراہم کرنے کو کہا اور بعض اوقات ٹرمپ کے حکم نامے میں خواجہ سرا افراد کے کردار کو کم تر دکھانے والے الفاظ پر کھلے عام برہمی کا اظہار کیا۔ محکمہ دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکی فوج میں تقریباً 13 لاکھ فعال فوجی اہلکار موجود ہیں۔ خواجہ سرا حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ فوج میں 15 ہزار تک خواجہ سرا اہلکار خدمات انجام دے رہے ہیں، تاہم حکومتی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی اصل تعداد چند ہزار کے قریب ہے۔

سابق امریکی صدر کینیڈی کے قتل کے بارے 80،000 صفحات کے ‘خفیہ ریکارڈز’ شائع

منگل کے روز ٹرمپ انتظامیہ نے صدر جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق ہزاروں خفیہ ریکارڈ جاری کیے، جو پہلے عام لوگوں کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ کینیڈی کے قتل کے بارے میں پہلے بھی بہت سی فائلیں منظر عام پر آ چکی ہیں، خاص طور پر بائیڈن انتظامیہ کے دوران جب تیرہ ہزار سے زائد دستاویزات جاری کی گئیں۔ تاہم، اس بار جاری کی گئی فائلوں میں وہ ریکارڈ بھی شامل ہیں جن میں پہلے کچھ تبدیلیاں یا ترمیم کی گئی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ لوگ کئی دہائیوں سے ان ریکارڈز کا انتظار کر رہے ہیں۔ صدر بننے کے بعد، انہوں نے ایک حکم جاری کیا تھا جس میں کینیڈی، ان کے بھائی رابرٹ ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل سے متعلق ہزاروں فائلوں کو عام کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ دستاویزات منگل کی شام نیشنل آرکائیوز کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئیں۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دستاویزات سے کوئی ایسا بڑا راز سامنے آنے کا امکان نہیں جو کینیڈی کے قتل کے بارے میں عام نظریے کو بدل سکے۔ ٹام سمولوک، جو 1990 کی دہائی میں ایک سرکاری تحقیقاتی بورڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے، نے کہا کہ جو ریکارڈ انہوں نے دیکھے ہیں ان میں ایسا کچھ نہیں جو یہ ثابت کرے کہ قتل کے پیچھے کوئی خفیہ سازش تھی۔ ان کے مطابق، سرکاری تحقیقات کے نتائج آج بھی درست ہیں کہ لی ہاروی اوسوالڈ نامی ایک شخص اکیلے ہی اس قتل کا ذمہ دار تھا۔ نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر تلسی گبارڈ نے کہا کہ تقریباً 80,000 صفحات پر مشتمل یہ ریکارڈ بغیر کسی رد و بدل کے شائع کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، کچھ دستاویزات اب بھی قانونی وجوہات کی بنا پر عام نہیں کی جا سکتیں۔ نیشنل آرکائیوز اور محکمہ انصاف ان باقی فائلوں کو جاری کرنے کے طریقے پر کام کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف ورجینیا کے پروفیسر لیری سباتو، جو کینیڈی کے قتل پر تحقیق کر چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ لوگ ان فائلوں سے بہت کچھ جان سکیں گے، مگر جو افراد کسی بڑی سازش کے بے نقاب ہونے کی امید کر رہے ہیں، وہ مایوس ہو سکتے ہیں۔ کینیڈی کے قتل کے بارے میں ہمیشہ سے مختلف سازشی نظریات موجود رہے ہیں، جن میں سے کچھ نظریات ٹرمپ نے بھی دہرائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک تحقیقاتی بورڈ بنایا گیا تھا تاکہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کون سی معلومات عوام کے لیے جاری کی جا سکتی ہیں۔ سمولوک نے کہا کہ وہ تمام ریکارڈز نہیں دیکھ سکے جو ممکنہ طور پر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، ایف بی آئی نے حال ہی میں ٹرمپ کے جاری کردہ حکم کے بعد نئی دستاویزات دریافت کی ہیں۔ کچھ دیگر ایجنسیوں کے پاس بھی ایسی معلومات ہو سکتی ہیں جو ابھی تک ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔ گزشتہ سال نیشنل آرکائیوز نے اعلان کیا تھا کہ کینیڈی کے قتل سے متعلق 99 فیصد فائلیں اب عوام کے لیے دستیاب ہیں۔ بعد میں صدر بائیڈن نے تصدیق کی کہ جو بھی معلومات جاری کرنے کے قابل تھیں، وہ شائع کر دی گئی ہیں۔ اگرچہ ماضی میں کئی صدور، بشمول ٹرمپ، ان تمام فائلوں کو جاری کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں، مگر اب بھی سی آئی اے، پینٹاگون اور محکمہ خارجہ کے پاس کچھ دستاویزات موجود ہیں جنہیں خفیہ رکھا گیا ہے۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ وہ ایسی معلومات کو چھپائے رکھنا چاہتے ہیں جو اب بھی زندہ افراد یا قومی سلامتی کے طریقوں سے متعلق ہو سکتی ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران سیکیورٹی اداروں کی درخواست پر کچھ ریکارڈ جاری نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن اب وہ 2024 کی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ باقی تمام فائلوں کو منظر عام پر لے آئیں گے۔

طویل عرصے’ سے خلا میں موجود ولمور اور ولیمز آخر کار زمین پر پہنچ گئے’

ناسا کے خلانورد بوچ ولمور اور سنی ولیمز منگل کے روز اسپیس ایکس کے کریو ڈریگن کیپسول کے ذریعے خلا سے بحفاظت زمین پر واپس آگئے۔ ان کی واپسی فلوریڈا کے ساحل سے کچھ دور سمندر میں ایک نرم لینڈنگ کے ذریعے ہوئی۔ اصل منصوبے کے مطابق، انہیں بوئنگ کے نئے خلائی جہاز اسٹار لائنر میں واپس آنا تھا، مگر تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے ان کا یہ مشن کئی مہینوں تک تاخیر کا شکار رہا اور بالآخر اسپیس ایکس کیپسول کے ذریعے انہیں واپس لایا گیا۔ ولمور اور ولیمز جون میں بوئنگ کے اسٹار لائنر خلائی جہاز کے ذریعے خلا میں گئے تھے، اور ان کے مشن کی مدت صرف آٹھ دن رکھی گئی تھی۔ تاہم، اسٹار لائنر کے پروپلشن سسٹم میں سنگین مسائل پیدا ہوگئے، جس کی وجہ سے ناسا نے فیصلہ کیا کہ وہ خلابازوں کو فوری واپس نہ بھیجے اور انہیں عالمی خلائی اسٹیشن پر ہی رہنے دیا جائے۔ اس دوران، ناسا نے اسٹار لائنر کی خرابیوں کا جائزہ لیا، مگر مسائل کے حل میں ناکامی کے بعد، ناسا نے انہیں اسپیس ایکس کے کیپسول کے ذریعے واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ منگل کی صبح ولمور اور ولیمز دو دیگر خلابازوں کے ساتھ اپنے کریو ڈریگن خلائی جہاز میں بیٹھے اور زمین کے سترہ گھنٹے کے سفر کا آغاز کیا۔ چار افراد پر مشتمل عملہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے وقت حفاظتی نظام کے ذریعے اپنی تیز رفتاری کو کم کرتے ہوئے آہستہ آہستہ نیچے آیا۔ ان کا کیپسول فلوریڈا کے خلیجی ساحل سے تقریباً پچاس میل دور سمندر میں اترا، جہاں موسم صاف تھا۔ عملے کے کمانڈر نک ہیگ نے زمین پر پہنچنے کے بعد مشن کنٹرول سے رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک زبردست تجربہ تھا اور کیپسول میں موجود سبھی خلاباز مسکراتے ہوئے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ خلابازوں کو ناسا کے خصوصی طیارے کے ذریعے ہیوسٹن کے جانسن اسپیس سینٹر لے جایا گیا، جہاں انہیں کچھ دنوں کے لیے صحت کی جانچ کے عمل سے گزارا جائے گا۔ فلائٹ سرجنز کی اجازت کے بعد انہیں اپنے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت دی جائے گی۔ ناسا کے کمرشل کریو پروگرام کے سربراہ سٹیو اسٹیچ نے کہا کہ انہیں اب کچھ آرام کا موقع ملے گا اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزار سکیں گے، کیونکہ وہ طویل عرصے سے خلا میں تھے۔

ڈیجیٹل کیش: انڈیا کی ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ بڑھتا سائبر فراڈ، معیشت کو کتنا بڑا خطرہ؟

انڈیا کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اس میں ایک بڑی وجہ عوام کی بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل لین دین کی سرگرمیاں ہیں۔ جہاں ایک طرف انڈین شہری پارکنگ کی فیس، سگریٹ یا یہاں تک کہ پھلوں اور سبزیوں کے پش کارٹ میں بھی ڈیجیٹل پیمنٹ کا استعمال کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ایک تاریک پہلو ‘ سائبر فراڈ’ بھی سامنے آ رہا ہے۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت انڈیا میں روزانہ سب سے زیادہ ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں جس سے نہ صرف معیشت کو تقویت مل رہی ہے بلکہ لوگوں کو مالی شمولیت کا بھی موقع مل رہا ہے۔ انڈین وزارت خزانہ نے اس ترقی کو سراہا ہے اور اسے “کل کے لیے ترقی کا انجن” قرار دیا ہے۔ مرکزی بینک نے بھی اس ترقی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انڈیا کی معیشت کے لیے ایک نیا دور ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن، بدقسمتی سے اس خوشحال منظر کے ساتھ ایک افسوسناک حقیقت بھی جڑی ہوئی ہے جو کہ ‘ڈیجیٹل فراڈ’ کی بڑھتی ہوئی تعداد کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔ گزشتہ سال انڈیا میں ہونے والی سائبر فراڈ کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ان میں سے بعض واقعات اتنے پیچیدہ اور خطرناک ہیں کہ یہ کسی فلم سے کم نہیں لگتے۔ یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے جنگ بندی معاہدہ توڑتے ہوئے غزہ پر حملے، مزید 400 معصوم افراد شہید ایسا ہی ایک واقعہ انڈین ٹیکسٹائل کے ایک بڑے تاجر کا تھا جس نے 8 لاکھ 30 ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم کا نقصان اٹھایا۔ ان سکیمرز نے اسے ایک جعلی سپریم کورٹ کی سماعت میں طلب کیا اور دھمکی دی کہ اگر اس نے پیسہ نہ دیا تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔ یہ ایک نیا اور خطرناک طریقہ تھا جس میں جعلسازی اور ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال کیا گیا تھا۔ وزارت خزانہ کے مطابق پچھلے مالی سال میں ہائی ویلیو سائبر فراڈ کی تعداد گزشتہ سال سے چار گنا زیادہ ہو گئی ہے جب کہ مرکزی بینک نے بتایا ہے کہ صرف ڈیجیٹل پیمنٹس سے ہونے والے فراڈ کی مالیت 175 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے جبکہ انڈیا میں گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں شہریوں کو جعلی ملازمت کے آفرز کے ذریعے میانمار اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بھیجا گیا تھا جہاں انہیں سائبر کرائمز میں ملوث ہونے پر مجبور کیا گیا۔ انڈین حکومت نے ان میں سے تقریبا 550 افراد کو بازیاب کروا لیا تھا مگر ابھی بھی سینکڑوں افراد اس خطرناک دھوکے کا شکار ہو کر وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ لازمی پڑھیں: زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، مجموعی مالیت 15 ارب 92 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی دوسری جانب اے آئی (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجیز نے سکیمرز کو ایسا طاقتور ہتھیار دیا ہے کہ وہ جعلی پولیس اسٹیشنز اور حتی کہ جعلی عدالتی سماعتیں تک قائم کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں انڈین سائبر کرائم کے ماہر ‘پون دگل’ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ “ہم سائبر کرائمز کے ایک سنہری دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ڈارک ویب اور بے انتہا ڈیٹا لیک ہونے کی وجہ سے مالی فراڈ کی شرح غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔” لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سب کے باوجود بھارت میں سائبر سیکیورٹی کی سطح میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اگر بینکوں اور فن ٹیک کمپنیوں نے سائبر سیکیورٹی میں سرمایہ کاری نہ کی تو اس بحران میں مزید شدت آ سکتی ہے۔ مزید برآں، پولیس افسران کو جدید ٹیکنالوجی سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایسے فراڈ کا بروقت پتہ لگا سکیں۔ مرکزی بینک کے گورنر ‘سنجے ملہوترا’ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ “ادائیگی کے نظام کی حفاظت اور سیکیورٹی کی سطح کو بہتر بنانا ابھی تک ایک جاری عمل ہے اور اس میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔” انڈیا میں ڈیجیٹل معیشت کا بڑھتا ہوا اثر اقتصادی ترقی کے لیے خوش آئند ہے، مگر یہ بے شمار چیلنجز اور خطرات بھی اپنے ساتھ لے کر آیا ہے۔ مزید پڑھیں: کیا روزہ داروں کا خرچ پاکستانی معیشت کو سہارا دیتا ہے؟

توانائی کے مراکز کو نشانہ نہیں بنائیں گے، مگر جنگ بندی سے انکار

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے عارضی طور پر یوکرین کی توانائی تنصیبات پر حملے روک دیے ہیں، لیکن 30 دن کی مکمل جنگ بندی کی حمایت سے انکار کر دیا، جس کی امید سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کی تھی۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ یہ جنگ کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ یوکرین نے اس معاہدے کی حمایت کی، جس کے تحت دونوں ممالک ایک ماہ کے لیے ایک دوسرے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر حملے بند کریں گے۔ تاہم، ماہرین کے مطابق، مشرقی یوکرین میں روسی فوج کی پیش قدمی کے دوران پوتن نے بڑی رعایتیں دینے سے گریز کیا۔ وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ بحیرہ اسود میں بھی جنگ بندی کے ساتھ ساتھ مکمل امن معاہدے پر مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔ یہ فیصلہ منگل کو ٹرمپ اور پوتن کی طویل گفتگو کے بعد ہوا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یوکرین ان مذاکرات میں شامل ہوگا یا نہیں۔ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے مطابق، مذاکرات اتوار کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوں گے۔ کریملن نے کہا کہ پوتن نے ٹرمپ سے بات کرنے کے بعد روسی فوج کو یوکرین کی توانائی تنصیبات پر حملے روکنے کا حکم دیا۔ تاہم، روس کو خدشہ ہے کہ یہ جنگ بندی یوکرین کو مزید فوجی تیاری کا موقع دے سکتی ہے۔ اس لیے روس نے مطالبہ کیا کہ کسی بھی معاہدے کے تحت یوکرین کو ملنے والی فوجی اور انٹیلی جنس امداد مکمل طور پر بند کی جائے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ 30 دن کے لیے توانائی تنصیبات پر حملے روکنے کی تجویز کی حمایت کریں گے۔ لیکن منگل کی رات روس نے 40 سے زائد ڈرونز فائر کیے، جنہوں نے کیف، سومی اور دیگر علاقوں میں ایک ہسپتال کو نشانہ بنایا۔

سائپرس کے ساحل سے کشتی ڈوبنے کے بعد سات لاشیں برآمد، دو افراد کو بچا لیا گیا

سائپرس کے ساحلوں سے تقریباً 30 ناٹیکل میل جنوب مشرق میں پیر کے روز ایک افسوسناک حادثہ پیش آیا جس میں سات افراد کی لاشیں برآمد ہو گئیں۔ یہ افراد ایک کشتی کے غرق ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔ سائپرس کے حکام نے فوری طور پر سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کیا جس کے دوران دو افراد زندہ حالت میں بچا لیے گئے۔ ان افراد کا تعلق اس کشتی سے تھا جو شام کے شہر طرطوس سے روانہ ہوئی تھی اور اس پر 20 یا 21 افراد سوار تھے۔ سائپرس کے ریاستی براڈکاسٹر نے اس واقعہ کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ یہ کشتی بین الاقوامی پانیوں میں سائپرس سے تقریباً 55.5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہوئی تھی جہاں حکام نے لاشیں برآمد کیں اور زندہ بچ جانے والوں کو فوری طبی امداد فراہم کی۔ یہ بھی پڑھیں: امریکی امداد بند: درجنوں بیماریوں سے لاکھوں لوگ موت کی دہلیز پر اس کے علاوہ مزید افراد کی تلاش جاری رہی ہے اور ابھی تک ان کے بارے میں کوئی حتمی اطلاع نہیں ملی۔ سائپرس کے وزیر انصاف ماریوس ہارٹزیوٹِس نے پریس بریفنگ میں کہا کہ “یہ ایک غیر متوقع حادثہ تھا اور آج کے زندہ بچ جانے والے کا ملنا محض ایک اتفاق تھا۔” حکام نے اس واقعہ کے بعد پورٹس پولیس کو زیادہ چوکس کر دیا ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے۔ ایئر اینڈ ریسکیو ٹیموں نے اس کشتی کا مقام پیر کی دوپہر معلوم کیا، جس کے بعد سائپرس کے سرچ اینڈ ریسکیو سینٹر نے آپریشن کا آغاز کیا۔ الرام فون نامی ایک انسانی حقوق تنظیم نے 16 مارچ کو اطلاع دی تھی کہ اس کشتی کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا اور ان کے اہل خانہ نے ایک نیویگیٹڈ لوکیشن فراہم کی تھی جو بعد میں حادثے کے مقام سے ہم آہنگ نکلی۔ یورپی یونین کا رکن ہونے کے باوجود سائپرس میں ماضی میں پناہ گزینوں کی درخواستوں کا معائنہ معطل کر دیا گیا تھا کیونکہ اس سال کی ابتدا میں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے پناہ گزینوں کا دباؤ بڑھ گیا تھا۔ یہ سانحہ عالمی سطح پر تارکین وطن کی کشتیوں کے خطرات کو دوبارہ اجاگر کرتا ہے جن کا مقصد یورپ میں پناہ حاصل کرنا ہوتا ہے مگر ان خطرناک سفر کے دوران کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ مزید پڑھیں: چین میں بچوں کی پیدائش پر لاکھوں روپے کی سبسڈیز اور دودھ کی مفت فراہمی کا اعلان

چین میں بچوں کی پیدائش پر لاکھوں روپے کی سبسڈیز اور دودھ کی مفت فراہمی کا اعلان

چین کی حکومت نے اپنے شہریوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے متحرک کرنے کے لیے ایک نیا قدم اٹھایا ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے سبسڈیز اور دودھ کے مفت کوٹے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد چین کی آبادی میں کمی کے اثرات کو کم کرنا ہے۔ حال ہی میں چینی شہر ہوہوٹ جو اندرون منگولیا کا دارالحکومت ہے اس نے اپنے شہریوں کے لیے نئی سبسڈیز اور والدین کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک منفرد اسکیم کا آغاز کیا۔ ہوہوٹ کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ والدین کو پہلے بچے کے لیے ایک دفعہ 10,000 یوان (تقریباً 1,382 ڈالر) کی رقم فراہم کرے گی، جبکہ دوسرے بچے کے لیے یہ رقم سالانہ 10,000 یوان تک ملے گی جب تک کہ بچہ پانچ سال کا نہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ تیسرے بچے کے لیے سالانہ 10,000 یوان کی سبسڈی دی جائے گی جب تک بچہ 10 سال کا نہ ہو جائے۔ یہ سبسڈیز مقامی افراد کی سالانہ آمدنی سے تقریباً دوگنی ہیں جو والدین کے لیے ایک اہم مالی معاونت ثابت ہو سکتی ہیں۔ چین میں گزشتہ چند سالوں میں آبادی کی شرح میں مسلسل کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ 2024 میں چین کی آبادی میں تین سال مسلسل کمی آئی جب کہ شادیوں کی شرح میں پانچویں حصے کی کمی آئی، جو کہ ریکارڈ سطح پر ہے۔ یہ کمی دراصل چین کی سابقہ ایک بچے کی پالیسی، تیز رفتار شہری تبدیلیوں اور خاندانوں کی پرورش کے اخراجات میں اضافے کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے چین کی حکومت نے 2021 میں والدین کو تین بچوں تک پیدا کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ آبادی کی شرح میں اضافے کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس سال چین کی پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس میں وزیرِ اعظم لی چیانگ نے اعلان کیا کہ حکومت بچوں کی دیکھ بھال کے لیے سبسڈیز فراہم کرے گی اور مفت پری اسکول تعلیم کا آغاز کرے گی۔ یہ اقدامات آبادی کی شرح میں اضافے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ ہوہوٹ کی حکومت نے صرف مالی سبسڈیز تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے ایک منفرد اسکیم “ایک کپ دودھ کی افزائش نسل کے لیے دیکھ بھال” بھی شروع کی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ہر نئی ماں کو جو 1 مارچ کے بعد بچہ پیدا کرے گی  وہ روزانہ ایک کپ دودھ مفت دیا جائے گا۔ مزید برآں، یلی دودھ کمپنی کے ذریعے 3,000 یوان کے الیکٹرانک واؤچرز بھی فراہم کیے جائیں گے جس سے دودھ کی خریداری میں مدد ملے گی۔ چین کا یہ قدم عالمی سطح پر آبادی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کی ایک کوشش سمجھا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں چین نے آبادی کی کمی کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے مختلف اقدامات کیے ہیں، جن میں مالی معاونت اور بچوں کی دیکھ بھال کے نظام کو مضبوط کرنا شامل ہیں۔ چین کی حکومت کی اس جدت پسندانہ حکمت عملی نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے اور ماہرین اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ دیگر ممالک بھی چین کے اس اقدام سے سیکھتے ہوئے اپنی آبادی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایسے ہی اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: امریکی امداد بند: درجنوں بیماریوں سے لاکھوں لوگ موت کی دہلیز پر

امریکی امداد بند: درجنوں بیماریوں سے لاکھوں لوگ موت کی دہلیز پر

عالمی ادارہ صحت نے پیر کے روز کہا کہ امریکا کی جانب سے غیر ملکی امداد روکنے کے فیصلے سے آٹھ ممالک میں ایچ آئی وی کے علاج کی فراہمی میں شدید خلل پڑا ہے۔ ہیٹی، کینیا، لیسوتھو، جنوبی سوڈان، برکینا فاسو، مالی، نائیجیریا اور یوکرین جلد ہی ان ادویات کی قلت کا سامنا کر سکتے ہیں، جو ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے جان بچانے والی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے خبردار کیا کہ ایچ آئی وی پروگراموں میں رکاوٹ سے پچھلے 20 سال کی پیش رفت ضائع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں 10 ملین نئے ایچ آئی وی کیسز اور تین ملین اموات ہو سکتی ہیں۔ ایچ آئی وی، پولیو، ملیریا اور تپ دق کے خلاف جاری کوششیں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی امداد کی بندش سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق، اس کی خسرہ اور روبیلا لیبارٹری نیٹ ورک، جس میں دنیا بھر میں 700 سے زائد سائٹس شامل ہیں، بھی جلد بند ہو سکتا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ میں خسرہ کی وبا دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ ٹیڈروس گیبریئس نے کہا کہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگر کسی ملک کی فنڈنگ واپس لے رہا ہے تو یہ عمل منظم اور انسانی بنیادوں پر ہو تاکہ متاثرہ ممالک کو متبادل وسائل تلاش کرنے کا موقع ملے۔ ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ فنڈنگ کی کمی افغانستان میں 80 فیصد ضروری صحت کی خدمات کو بند کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ 4 مارچ تک، 167 صحت کی سہولیات پہلے ہی بند ہو چکی تھیں، اور اگر فوری مداخلت نہ کی گئی تو جون تک مزید 220 سے زائد مراکز بند ہو سکتے ہیں۔ امریکا کے ڈبلیو ایچ او سے نکلنے کے منصوبے نے اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کو بھی شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ عام طور پر ڈبلیو ایچ او کو اپنی سالانہ فنڈنگ کا تقریباً پانچواں حصہ امریکہ سے ملتا ہے، لیکن اب اسے ملازمتوں کو منجمد کرنے اور بجٹ میں کٹوتیاں کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہنگامی کارروائیوں کے لیے اپنے بجٹ میں کمی کر رہا ہے۔ 2026-2027 کے بجٹ میں یہ فنڈ 1.2 بلین ڈالر سے کم کر کے 872 ملین ڈالر کر دیا جائے گا۔

آٹھ دن کے لیے خلا میں جانے والے 286 دن بعد زمین پر واپس آئیں گے

ناسا کے خلاباز بوچ ولمور اور سنی ولیمز منگل کی صبح اسپیس ایکس کے کیپسول میں عالمی خلائی اسٹیشن سے زمین کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کی واپسی کئی ماہ کی تاخیر کے بعد ہوئی، حالانکہ یہ مشن اصل میں صرف ایک ہفتے کے لیے تھا۔ یہ مشن دراصل بوئنگ کے نئے اسٹار لائنر خلائی جہاز کا ایک ٹیسٹ تھا، لیکن تکنیکی مسائل کی وجہ سے اس میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی۔ آخرکار ناسا نے فیصلہ کیا کہ دونوں خلابازوں کو اسپیس ایکس کے کریو ڈریگن خلائی جہاز کے ذریعے واپس لایا جائے۔ ولمور اور ولیمز اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ کریو ڈریگن میں عالمی خلائی اسٹیشن سے روانہ ہوئے۔ ان کا کیپسول امریکی وقت کے مطابق شام 5:57 بجے فلوریڈا کے ساحل کے قریب سمندر میں اترا۔ یہ مشن غیر معمولی تاخیر اور تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے ناسا اور بوئنگ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا۔ ولمور اور ولیمز جون 2023 میں خلا میں گئے تھے اور انہیں آٹھ دن بعد واپس آنا تھا، لیکن اسٹار لائنر کے پروپلشن سسٹم میں خرابی کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ امریکا میں یہ مشن سیاسی طور پر بھی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ جو بائیڈن کی حکومت نے خلابازوں کو خلائی اسٹیشن پر “چھوڑ دیا”۔ اس دعوے کے کوئی شواہد نہیں تھے، لیکن اسپیس ایکس کے مالک ایلون مسک، جو ٹرمپ کے قریبی سمجھے جاتے ہیں، نے بھی ان کی جلد واپسی کا مطالبہ کیا۔ ناسا کے مطابق، لمبے عرصے تک خلا میں رہنے سے انسانی صحت پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔ پٹھوں کی کمزوری، ہڈیوں کی کثافت میں کمی اور بینائی میں خرابی جیسے مسائل ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے ولمور اور ولیمز کو ناسا کے طبی ماہرین کی نگرانی میں رکھا جائے گا، اور جانچ کے بعد ہی وہ اپنے خاندان سے مل سکیں گے۔ ولمور اور ولیمز نے اس مشن میں 286 دن خلا میں گزارے۔ یہ عام طور پر چھ ماہ کے معمول کے مشن سے زیادہ ہیں، لیکن امریکی خلاباز فرینک روبیو کے 371 دن کے ریکارڈ سے کم ہیں۔ سنی ولیمز نے اپنی تیسری خلائی پرواز مکمل کرکے مجموعی طور پر 608 دن خلا میں گزارنے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ خلا میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والی امریکی خواتین میں دوسرے نمبر پر آ گئی ہیں۔ سب سے زیادہ دن خلا میں گزارنے کا امریکی ریکارڈ پیگی وٹسن کے پاس ہے، جنہوں نے 675 دن خلا میں گزارے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ دن خلا میں گزارنے کا ریکارڈ روسی خلا باز اولیگ کونونینکو کے پاس ہے، جنہوں نے 878 دن خلا میں گزارے۔