April 22, 2025 11:32 pm

English / Urdu

روس یوکرین تنازعہ: روس کی جانب سے 46 یوکرینی ڈرونز تباہ کرنے کا دعویٰ

روس نے راتوں رات 46 یوکرینی ڈرونز کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس میں سے زیادہ تر ڈرونز بیلگورود علاقے میں گرے ہیں جو یوکرین کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ روس کی وزارت دفاع نے ٹیلی گرام پر اعلان کیا کہ اس کے فضائی دفاعی یونٹس نے ان 46 ڈرونز میں سے 41 کو بیلگورود علاقے میں تباہ کیا ہے جبکہ باقی ڈرونز برانسک، کورسک اور اوریول علاقوں میں گرے۔ بیلگورود کے گورنر ویچی سلاو گلاڈکوف نے مزید بتایا کہ اس حملے میں ایک شخص زخمی ہو گیا اور کئی گھروں کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ، برانسک کے گورنر ‘الیگزینڈر بوگوماز’ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں حملے سے کسی جانی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ یوکرین نے فوری طور پر اس حملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا، تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ کیف نے بار بار کہا ہے کہ وہ روسی علاقے میں حملے اس لئے کرتا ہے تاکہ ماسکو کی جنگی مشینری کے لیے ضروری انفراسٹرکچر کو تباہ کیا جا سکے۔ یہ یوکرین کی طرف سے روسی سرزمین پر کیے جانے والے ان حملوں کا حصہ ہے جو روس کی جانب سے یوکرین کے شہر اور انفراسٹرکچر پر ہونے والے مسلسل بمباریوں کے ردعمل کے طور پر کیے جا رہے ہیں۔ یہ حملہ ایک نئے جنگی سلسلے کی غمازی کرتا ہے جہاں دونوں طرف کی جانب سے سرحد پار حملوں میں تیزی آ گئی ہے، اور صورتحال مزید کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیل نے دوبارہ غزہ پر حملہ کر دیا: مختلف حملوں میں 200 افراد جاں بحق

ہونڈوراس میں طیارہ حادثہ، سات افراد ہلاک، زندہ بچنے والوں کی حالت تشویش ناک

ہونڈوراس کے کیریبین ساحل پر ایک افسوس ناک حادثہ پیش آیا جس نے پورے علاقے کو غمگین کر دیا۔ لانسہ ایئر لائن کا جیٹ اسٹریم طیارہ روٹن آئی لینڈ سے اُڑنے کے بعد محض چند منٹ کی پرواز کے بعد بحر کیریبین میں گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں سات افراد کی جانیں گئیں جبکہ دس دیگر افراد خوش قسمتی سے زندہ بچ گئے۔ حادثہ پیر کی رات کو پیش آیا، جب طیارہ روٹن آئی لینڈ کے ساحل سے تقریباً ایک کلومیٹر (0.6 میل) دور سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا۔ طیارے میں مجموعی طور پر 14 مسافر اور 3 عملے کے ارکان سوار تھے، جن میں ایک امریکی، ایک فرانسیسی شہری اور دو بچے شامل تھے۔ یہ طیارہ ہونڈوراس کے مرکزی شہر لا سیبیا کی طرف روانہ ہو رہا تھا۔ حادثے کی اطلاع ملنے مقامی حکام اور امدادی ٹیموں نے فوراً کارروائی شروع کی۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا کے حوثیوں پر فضائی حملے جاری، پانچ بچوں سمیت 53 افراد جاں بحق روٹن کے فائر کیپٹن فرینکلن بورجاس نے اس بات کی تصدیق کی کہ سات افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے جبکہ زندہ بچ جانے والوں کو فوری طور پر قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ اس حادثے کی جگہ پر امدادی کارروائیاں انتہائی مشکل تھیں، کیونکہ تیز لہروں اور 30 میٹر بلند چٹانوں نے ریسکیو آپریشن کو مزید پیچیدہ بنا دیا تھا۔ قریب ہی موجود کشتیوں سے روشنیاں چمکائی جا رہی تھیں، جبکہ مقامی پولیس اور فائر اہلکاروں نے بچ جانے والوں کو خطرناک چٹانی ساحل تک پہنچایا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ امدادی کارکنان زخمی افراد کو اسٹریچروں پر اٹھا کر ساحل تک لے جا رہے ہیں۔ اس حادثے میں ہونڈوراس کے معروف گاریفونا موسیقار آوریلیو مارٹنیز سوازو کی بھی موت ہو گئی، جس نے اس سانحے کو اور بھی المناک بنا دیا۔ فی الحال، طیارے کے گرنے کی وجوہات کا پتہ نہیں چل سکا اور ایئر لائن نے بھی ابھی تک اس حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ دوسری جانب حکام نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ موسمی حالات نے تلاش و بچاؤ کی کارروائیوں کو بہت مشکل بنا دیا ہے، اور غوطہ خوروں کے لیے پانی میں صفر بصارت کے باعث امدادی کاموں میں شدید رکاوٹیں آئی ہیں۔ روٹن آئی لینڈ، جو کہ ہونڈوراس کے بے شمار سیاحوں کی پسندیدہ منزل ہے، اس سانحے کے بعد سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیل نے دوبارہ غزہ پر حملہ کر دیا: مختلف حملوں میں 200 افراد جاں بحق

اسرائیل کے جنگ بندی معاہدہ توڑتے ہوئے غزہ پر حملے، مزید 400 معصوم افراد شہید

اسرائیلی فضائی حملوں نے منگل کے روز غزہ پر گولہ باری کی، جس میں 400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، جنگ بندی کے بعد سے تقریباً دو ماہ کا نسبتاً سکون ختم ہو گیا۔ اسرائیل نے خبردار کیا کہ یہ حملہ “صرف آغاز” تھا۔ اسرائیل اور حماس نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ جنوری سے جاری جنگ بندی نے غزہ کے 2.3 ملین شہریوں کو کچھ مہلت دی تھی، لیکن اب شہر تباہی کے دہانے پر ہے۔ حماس، جس کے پاس اب بھی 59 سے زیادہ یرغمالی موجود ہیں، نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ثالثوں کی مدد سے جنگ بندی کے مستقل معاہدے کی کوششوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ تاہم، حماس نے فوری جوابی کارروائی کی کوئی دھمکی نہیں دی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے حملے کا حکم اس لیے دیا کیونکہ حماس نے جنگ بندی میں توسیع کی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے غزہ کے شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے کی ہدایت کرتے ہوئے ہر ہلاکت کا ذمہ دار حماس کو ٹھہرایا۔ نیتن یاہو نے کہا، “اب سے اسرائیل حماس کے خلاف بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ کارروائی کرے گا۔ مذاکرات صرف آگ میں ہوں گے۔ حماس نے پچھلے 24 گھنٹوں میں ہمارے وار محسوس کیے ہیں، اور میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ صرف شروعات ہے۔” حملے شمالی سے جنوبی غزہ تک پھیلے، جس میں گھروں اور خیمہ بستوں کو نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر پر میزائل برسائے، جبکہ ٹینکوں نے سرحد پار گولہ باری کی۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ جنگ شروع ہونے کے بعد یہ ایک دن میں ہونے والی سب سے بڑی ہلاکتیں ہیں۔ غزہ شہر کی 65 سالہ ربیعہ جمال نے کہا، “یہ جہنم کی رات تھی۔ یہ جنگ کے پہلے دنوں جیسا محسوس ہو رہا تھا۔” شمالی اور جنوبی علاقوں میں کئی خاندان اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے، کچھ پیدل، کچھ گاڑیوں یا رکشوں پر نکلے، جب اسرائیلی فوج نے انہیں “خطرناک جنگی زون” سے نکلنے کا حکم دیا۔ مصر اور قطر، جو امریکہ کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے میں ثالث ہیں، نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی، جبکہ یورپی یونین نے جنگ بندی کے خاتمے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کے ہنگامی امدادی رابطہ کار ٹام فلیچر نے کہا کہ “جنگ بندی کے دوران حاصل ہونے والے معمولی فوائد کو تباہ کر دیا گیا ہے۔” اسرائیل نے دو ہفتوں سے زائد عرصے سے غزہ میں امداد کی ترسیل روک دی ہے، جس سے انسانی بحران مزید شدید ہو گیا ہے۔ تاہم، اقوام متحدہ میں قائم مقام امریکی سفیر ڈوروتھی شیا نے کہا کہ غزہ میں جنگ دوبارہ شروع ہونے کا الزام “صرف حماس پر ہے” اور اسرائیل کے اگلے اقدامات کی حمایت کی۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان برائن ہیوز نے کہا، “حماس یرغمالیوں کو رہا کر کے جنگ بندی کو بڑھا سکتی تھی، لیکن اس نے انکار اور جنگ کا انتخاب کیا۔”

وائس آف امریکا بند ہونے پر چین میں’جشن‘ ، ماجرا کیا ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےامریکی عانت سے چلنے والے میڈیا ادارے، جیسے کہ وائس آف امریکا ( وی اواے) اور ریڈیو فری ایشیا کی ٹرانسمیشن کو ختم کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں ، جس پر چینی قوم اور سرکاری میڈیا نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ عالمی نشریاتی ادارہ سی این این کے مطابق چینی حکومت نے طویل عرصے سے وائس آف امریکا  اور ریڈیو فری ایشیا کو انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں پر تنقید کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا ہے۔ جب  ٹرمپ انتظامیہ ان اداروں کو بند کر رہی ہے، بیجنگ اس فیصلے پر خوش نظر آ رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب چین اپنے سرکاری میڈیا کی عالمی رسائی کو بڑھانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے زیر انتظام اخبار گلوبل ٹائمز نے پیر کو ایک اداریے میں وائس آف امریکا کو ‘جھوٹ کا کارخانہ’ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اس کی چین سے متعلق رپورٹنگ کا ریکارڈ حیرت انگیز حد تک ناقص ہے۔ اخبار نے مزید کہا کہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، بحیرہ جنوبی چین کے تنازعات، تائیوان، ہانگ کانگ، کورونا وائرس وبا اور چینی معیشت سے متعلق وائس آف امریکا کی رپورٹنگ خاص بیانیے کے مطابق ہوتی رہی ہے۔ وائس آف امریکہ کی چین سے متعلق کوریج دہائیوں پر محیط ہے۔ 1989 میں تیانمن اسکوائر میں جمہوریت نواز مظاہروں کے دوران، اس کے چینی زبان کے ریڈیو نشریات چینی عوام کے لیے غیر سنسر شدہ معلومات کا ایک اہم ذریعہ بن گئے تھے۔ (VOA نے 2011 میں چینی زبان میں ریڈیو نشریات بند کر دی تھیں، لیکن اس کی چینی زبان کی ویب سائٹ پیر تک آن لائن موجود تھی۔ سوشل میڈیا پر چینی تجزیہ کاروں نے وائس آف امریکا اور ریڈیو فری ایشیا کی ممکنہ بندش کا جشن منایا۔ گلوبل ٹائمز کے سابق ایڈیٹر ان چیف ہو شی جن نے چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم وائیبو پر لکھا کہ “وائس آف امریکہ مفلوج ہو چکا ہے! اور ریڈیو فری ایشیا، جو چین کے خلاف اتنا ہی زہریلا تھا، بھی بند ہو رہا ہے۔ یہ واقعی خوشی کی بات ہے” ایک اور چینی تجزیہ کار نے وائس آف امریکا اور ریڈیو فری ایشیا کو ‘رنگین انقلابات کے لیے بدنام زمانہ پروپیگنڈا مشینیں ‘قرار دیا، جو 2000 کی دہائی میں سابق سوویت یونین اور بلقان میں حکومتوں کے خلاف عوامی مظاہروں میں کردار ادا کر چکی ہیں۔ دیگر صارفین نے طنزاً ٹرمپ کو “چوان جیانگو” (چینی قوم کا معمار) کہا، اس اشارے کے ساتھ کہ ان کی پالیسیوں نے بیجنگ کو عالمی سطح پر فائدہ پہنچایا ہے۔ صدر شی جن پنگ کے دور میں، چین نے اپنے سرکاری میڈیا کی رسائی اور اثر و رسوخ کو نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے تاکہ عالمی سطح پر اپنا بیانیہ مضبوط کر سکے۔ 2018 میں، بیجنگ نے تین ریاستی میڈیا اداروں کو ضم کر کے ایک بڑا میڈیا نیٹ ورک قائم کیا، جس کا نام وائس آف چائنا’ رکھا گیا۔

ایران نے ٹرمپ کے خط کو مسترد کر دیا، مذاکرات کی پیشکش کو پروپیگنڈا قرار دے دیا

ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذاکرات کی پیشکش کو انتہائی احتیاط کے ساتھ رد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم وہ اس کا جواب بعد ازاں دیے جانے والے ڈپلومیٹک چینلز کے ذریعے دے گا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ‘اسماعیل بگہائی’ نے پیر کے روز ایک اہم بیان میں کہا کہ ایران اس خط کا جواب دینے سے پہلے اس کا مکمل جائزہ لے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران کی قیادت، بشمول سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی اور صدر مسعود پزشکیاں، ٹرمپ کے خط کو نہ صرف مسترد کر چکی ہے بلکہ اس کو دھوکہ دہی اور دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش قرار دے چکی ہے۔ بگہائی کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ ساتھ ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ایرانی حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ بگہائی نے مزید کہا کہ “ہمیں ٹرمپ کے خط کو عوامی طور پر ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہمارا جواب مناسب طریقے سے، تمام پہلوؤں پر غور کے بعد، دیا جائے گا۔” یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں طالب علم کے قتل پر 20 قاتلوں کو سزائے موت ایران نے امریکا پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ واشنگٹن مذاکرات کو صرف سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ ایرانی مفادات کو تسلیم کرنے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ امریکا کی جانب سے متضاد اشارے اور نئی پابندیوں کا نفاذ ایران کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہو کر ایران کے خلاف نئی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے بعد ایران نے جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دیں اور یورینیم کی افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھا دیا، جسے مغربی طاقتیں جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش سمجھتی ہیں۔ ایران نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں صرف پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔ ایران کی یہ مواقف عالمی سطح پر شدید توجہ کا مرکز بن چکے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں کب تک اضافہ ہوتا ہے۔ مزید پڑھیں: جرمنی کا شام کی عوام کے لیے 300 ملین یورو امداد دینے کا اعلان

جرمنی کا شام کی عوام کے لیے 300 ملین یورو امداد دینے کا اعلان

جرمنی نے شام کے عوام کے لیے 300 ملین یورو (326 ملین ڈالر) کی اضافی امداد کا اعلان کیا ہے جو اقوام متحدہ اور منتخب تنظیموں کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ یہ اعلان جرمن وزیر خارجہ ‘انالینا بیئرباک’ نے پیر کے روز برسلز میں ہونے والی یورپی یونین کی قیادت میں ہونے والی امدادی کانفرنس سے قبل کیا۔ بیئرباک کے مطابق، اس امداد کا نصف حصہ شام کے اندرونی علاقوں میں فراہم کیا جائے گا جہاں اس کا انتظام شامی عبوری حکومت کے بغیر کیا جائے گا۔ اس امداد کا مقصد خوراک، صحت کے خدمات، ایمرجنسی پناہ گاہیں فراہم کرنا ہے اور خاص طور پر حساس طبقوں کے لیے حفاظتی تدابیر فراہم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اردن، لبنان، عراق اور ترکی میں مقیم شامی پناہ گزینوں اور میزبان کمیونٹیز کو بھی امداد دی جائے گی۔ جرمن وزیر خارجہ نے ایک بار پھر شام کے لیے ایک جامع سیاسی عمل کی ضرورت پر زور دیا تاکہ شام کے عوام کے لیے ایک پرامن مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکے۔ انہوں نے کہا ہے کہ “ہم یورپی باشندے شام کے عوام کے لیے یکجا ہیں، ایک آزاد اور پرامن شام کے لیے کھڑے ہیں۔” بیئرباک نے شامی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ماہ کے اوائل میں علوی گاؤں میں سینکڑوں شہریوں کے قتل کی تحقیقات کرے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ اس دوران شام کے ساحلی علاقے میں حالیہ دنوں میں ہونے والی خونریز جھڑپوں میں 1,000 سے زائد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جب کہ سابق صدر بشار الاسد کے حامیوں اور شام کے نئے اسلامی حکمرانوں کے درمیان شدید جنگ چھڑی تھی۔ مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں طالب علم کے قتل پر 20 قاتلوں کو سزائے موت

بنگلہ دیش میں طالب علم کے قتل پر 20 قاتلوں کو سزائے موت

بنگلادیش کی عدالت نے 2019 میں ایک طالب علم کے قتل کے معاملے میں 20 سابق یونیورسٹی طلبہ کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے جنہوں نے اس طالب علم کو اس کے سوشل میڈیا پر ملک کے سابقہ حکومت کے خلاف تنقید کرنے پر قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے نے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑادی تھی اور اس کے بعد ملک بھر میں احتجاج کی لہر نے جنم لیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق، یہ ہولناک قتل 2019 میں بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (بی یو ای ٹی) کے 21 سالہ طالب علم ابرار فہاد کا تھا۔ فہاد نے ایک فیس بک پوسٹ میں اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت پر شدید تنقید کی تھی، جس میں انہوں نے انڈیا کے ساتھ پانی کے تقسیم معاہدے پر اعتراض کیا تھا۔ جس کے چند گھنٹوں کے اندر، اس طالب علم کو 25 افراد پر مشتمل ایک گروہ نے تشدد کا نشانہ بنایا، جن میں سے تمام افراد بنگلہ دیش چٹرا لیگ کے ممبر تھے، جو حکومتی جماعت، عوامی لیگ کی طلبہ ونگ ہے۔ ان طلبہ نے فہاد کو کرکٹ بیٹس سے تقریباً چھ گھنٹے تک پیٹا تھا، جس کے نتیجے میں اس کی موت ہو گئی۔ یہ واقعہ نہ صرف فہاد کے خاندان کے لیے ایک ذاتی سانحہ تھا بلکہ پورے ملک میں ایک سیاسی اور سماجی مسئلہ بن گیا۔ فہاد کے والد، برکات اللہ نے عدالتی فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “میں مطمئن ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ قانونی عمل جلد مکمل ہو گا اور انصاف ملے گا۔” انہوں نے مزید کہا کہ “میں ان والدین کو ملامت نہیں کرنا چاہتا جنہوں نے اپنے بیٹوں کو بہترین یونیورسٹیوں میں بھیجا، مگر انہوں نے غلط سیاست میں ملوث ہو کر اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کر لیا۔” فہاد کے قتل نے پورے بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج کی لہر کو جنم دیا، جس کے بعد وزیر اعظم حسینہ واجد نے قاتلوں کے لیے سخت سزا کا وعدہ کیا تھا۔ اب، عدالت نے 20 مجرموں کو سزائے موت سنائی ہے جبکہ پانچ افراد کو عمر قید کی سزا دی ہے۔ تاہم، ان مجرموں کو اپنے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد، اٹارنی جنرل محمد اسدالزماں نے صحافیوں کو بتایا کہ “اعلیٰ عدالت نے نچلی عدالت کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے، اور یہ کہ مجرموں کو اپنے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔”  تاہم، ان میں سے چار مجرم اب بھی فرار ہیں، جن میں سے ایک، منتصر آل جیمی، جس نے 6 اگست کو ایک اعلیٰ سیکیورٹی جیل سے فرار ہو کر ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا۔ بنگلہ دیش میں سزائے موت معمول کی بات ہے اور اس وقت سینکڑوں افراد موت کی سزا کے منتظر ہیں اور سزائیں ہمیشہ پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہیں، جو برطانوی نوآبادیاتی دور کی میراث ہے۔ فہاد کے قتل کیس میں سزاؤں کی توثیق کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ ملک میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روک پائے گا؟ مزید پڑھیں: امریکا کے حوثیوں پر ہوائی حملے جاری، پانچ بچوں سمیت 53 افراد جاں بحق ہوگئےا

امریکا کے حوثیوں پر فضائی حملے جاری، پانچ بچوں سمیت 53 افراد جاں بحق

امریکا کی فوج نے یمن کے حوثی باغیوں پر مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاملات پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا کی جانب سے اتوار کے روز کیے گئے حملوں میں 53 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جن میں پانچ بچے بھی شامل ہیں۔ حوثی باغیوں نے مچھلی کی بندرگاہ ‘حدیدہ’ پر نئے فضائی حملوں کی رپورٹ دی ہے جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا اس وقت تک حوثیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گا جب تک وہ سرخ سمندر میں اسرائیل سے جڑے جہازوں پر حملوں کی دھمکی واپس نہیں لیتے۔ حوثی باغیوں نے حال ہی میں ایک اور میزائل اور ڈرون حملہ “یو ایس ایس ہیری ٹرومین” طیارہ بردار بیڑے پر کیا، تاہم امریکا نے ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکا نے جنوبی افریقہ کے سفیر کو ‘نسلی تفریق’ پیدا کرنے والا قرار دے کر نکال دیا اس کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی میں اسرائیل نے حملوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک 62 سالہ فلسطینی شخص کو ہلاک کر دیا۔ غزہ میں اسرائیل کی شدید محاصرہ بندی اور فضائی حملوں کے نتیجے میں صورتحال انتہائی سنگین ہوگئی ہے۔ اس دوران ایک اسرائیلی وفد قاہرہ پہنچا ہے تاکہ مصر کے حکام سے جنگ بندی کی شرائط پر بات چیت کر سکے۔ عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے غزہ میں اشیاء کی فراہمی کی بندش پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ڈبلیو ایف پی نے کہا ہے کہ 2 مارچ سے غزہ میں کسی بھی قسم کا خوراک کا سامان داخل نہیں ہوا، جس کے نتیجے میں قیمتیں 200 فیصد تک بڑھ گئی ہیں اور بنیادی ضروریات کی شدید کمی ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (OCHA) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ غزہ میں والدین اپنے بچوں کو کھانا دینے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، اور اسپتالوں میں ادویات اور طبی سامان کی کمی ہو چکی ہے۔ لازمی پڑھیں: مقدونیہ کے نائٹ کلب میں آتشزدگی، 51 افراد ہلاک، 100 سے زائد زخمی انہوں نے مزید کہا کہ دو ہفتوں سے امدادی سامان کی فراہمی بند ہونے کی وجہ سے انسانی بحران مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔ دوسری جانب، لبنان کے جنوبی علاقے میں اسرائیلی فوج نے “عیناتا” گاؤں پر حملہ کر کے کم از کم دو افراد کو شہید کر دیا ہے جس سے علاقے میں مزید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ اس وقت عالمی برادری میں غزہ کے اندر اور یمن میں انسانی بحران پر گہری تشویش پائی جا رہی ہے اور امدادی تنظیمیں دونوں مقامات پر فوراً امداد کی فراہمی کی اپیل کر رہی ہیں۔ حالات میں مزید بگاڑ کی صورتحال سامنے آ رہی ہے اور ان علاقوں میں انسانی زندگیوں کی بقا کے لیے عالمی سطح پر فوراً اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا کی جنوب مشرقی ریاستوں میں شدید طوفان: 19افراد ہلاک، مزید طوفان متوقعا

مقدونیہ کے نائٹ کلب میں آتشزدگی، 51 افراد ہلاک، 100 سے زائد زخمی

مقدونیہ کے شہر کوکانی میں ہفتے کی شب کو ایک نائٹ کلب میں خوفناک آتشزدگی نے تباہی مچا دی۔ اس سانحے میں 51 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے جن میں کئی افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ مقدونیہ کے وزیر داخلہ ‘پانچے ٹوسکووسکی’ نے اس بات کی تصدیق کی کہ آتشزدگی کا سبب “پائروٹیکنک ڈیوائسز” (آتشبازی) تھے جو ایک کنسرٹ کے دوران استعمال کیے گئے تھے۔ مقامی ذرائع کے مطابق نائٹ کلب ‘پلس’ میں رات 3 بجے کے قریب آتشبازی کے دوران چمکنے والی چمک نے کلب کی چھت کو آگ لگا دی۔ ویڈیو فوٹیج جس کی تصدیق عالمی خبررساں ایجنسی رائٹرز نے کی ہے جس میں دکھایا گیا کہ اسٹیج پر ایک بینڈ پرفارم کر رہا تھا جب دو فلیئرز سے سفید چمک دار چمک آسمان میں پھیل گئی۔ ان چمکوں نے اسٹیج کے اوپر موجود چھت کو آگ لگا دی جس سے لوگوں میں افراتفری پھیل گئی۔ ویڈیو میں بینڈ کے ارکان چھپتے ہوئے دکھائی دیے۔ یہ بھی پڑھیں: ’15 دن بغیر کھائے گزارے’ پیرو کا گمشدہ ماہی گیر 95 دن بعد لوٹ آیا آگ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب فائر فائٹرز پہنچے تو کلب کے دروازے کے باہر دھواں اور خاک کے بادل چھا گئے تھے۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق 27 افراد کو شدید جلنے کے باعث اسکوپجے کے سٹی ہسپتال میں داخل کیا گیا، جبکہ 23 افراد کو کلینکل سینٹر میں علاج کے لیے منتقل کیا گیا جبکہ زخمیوں میں متعدد بچے بھی شامل ہیں۔ مقدونیہ کے وزیر اعظم ہریستیان مکوسکی نے اس سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ مقدونیہ کے لیے ایک بہت مشکل اور افسوسناک دن ہے۔ اتنی زیادہ جانوں کا نقصان ناقابل تلافی ہے اور خاندانوں کا دکھ بے شمار ہے۔” انہوں نے متعلقہ اداروں سے زخمیوں کے علاج میں فوری مدد فراہم کرنے کی اپیل کی۔ یہ سانحہ ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب تفریح کے ایونٹس میں حفاظتی اقدامات نظرانداز کیے جاتے ہیں تو اس کے تباہ کن اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: امریکا نے جنوبی افریقہ کے سفیر کو ‘نسلی تفریق’ پیدا کرنے والا قرار دے کر نکال دیا

’15 دن بغیر کھائے گزارے’ پیرو کا گمشدہ ماہی گیر 95 دن بعد لوٹ آیا

پیرو کا ایک ماہی گیر، میکسمو ناپا، جو بحرالکاہل میں 95 دن تک کھویا رہا، بالآخر اپنے خاندان کے پاس واپس آ رہا ہے۔ اس نے زندہ رہنے کے لیے مچھلی، پرندے اور سمندری کچھوے کھائے اور سخت مشکلات کا سامنا کیا۔ ناپا 7 دسمبر کو جنوبی پیرو کے ساحلی قصبے مارکونا سے ماہی گیری کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اس نے دو ہفتوں کے لیے خوراک ساتھ لی تھی، لیکن دس دن بعد ایک طوفان نے اس کی کشتی کو راستے سے ہٹا دیا، اور وہ سمندر میں بہتا چلا گیا۔ اس کے اہل خانہ نے تلاش شروع کی، لیکن پیرو کی سمندری گشت ٹیم اسے ڈھونڈنے میں ناکام رہی۔ بالآخر، بدھ کے روز ایکواڈور کے ماہی گیری گشت نے اسے ساحل سے 1,094 کلومیٹر دور دریافت کیا۔ وہ شدید پانی کی کمی کا شکار تھا اور اس کی حالت تشویشناک تھی۔ ناپا نے بتایا کہ اس نے ہمت نہیں ہاری اور زندہ رہنے کی جدوجہد جاری رکھی۔ اس نے سمندر میں پائی جانے والی مچھلیاں اور پرندے کھائے، اور جب کھانے کا کوئی ذریعہ نہ رہا، تو کچھوے کھا کر خود کو زندہ رکھا۔ جب کھانے کے تمام وسائل ختم ہو گئے، تو اس نے کشتی پر جمع ہونے والے بارش کے پانی سے پیاس بجھائی، لیکن آخری 15 دن بغیر کھائے گزارے۔ اپنے بھائی کے ساتھ ایکواڈور کے پائیتا میں دوبارہ ملنے کے بعد، ناپا نے کہا، “میں مرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں ہر روز اپنی ماں کے بارے میں سوچتا تھا۔ میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ مجھے دوسرا موقع ملا۔” اس کی والدہ، ایلینا کاسترو، جو ابتدا میں امید کھو چکی تھیں، نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ان کی بیٹیاں ہمیشہ پرامید رہیں۔ “میں نے رب سے دعا کی کہ وہ کسی بھی حالت میں میرے بیٹے کو میرے پاس واپس لے آئے۔ میری بیٹیاں ہمیشہ کہتی رہیں کہ وہ واپس آئے گا، اور آج وہ سچ ثابت ہوئیں۔” ناپا کو مزید طبی معائنے کے لیے پائیتا میں رکھا گیا، جس کے بعد اسے لیما منتقل کیا جائے گا، جہاں وہ مکمل صحت یابی کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ زندگی کا نیا باب شروع کرے گا۔