امریکا نے جنوبی افریقہ کے سفیر کو ‘نسلی تفریق’ پیدا کرنے والا قرار دے کر نکال دیا

امریکا نے جنوبی افریقہ کے سفیر ‘ابراہم رسول’ کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے مطابق رسول ایک ‘نسلی تفریق پیدا کرنے والے سیاستدان’ ہیں جو امریکا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ یہ اقدام ایک سفارتی بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی اور بے اعتمادی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ روبیو نے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ “جنوبی افریقہ کے سفیر اب امریکا میں مزید خوش آمدید نہیں ہیں۔ ابراہم رسول ایک نسلی تفریق پیدا کرنے والے سیاستدان ہیں جو نہ صرف امریکا سے نفرت کرتے ہیں بلکہ وہ ٹرمپ کی قیادت سے بھی نفرت کرتے ہیں۔” انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جنوبی افریقہ کا سفیر امریکا میں اپنے سیاستدانوں کے ساتھ جڑنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے رویے نے دوطرفہ تعلقات میں مزید مشکلات پیدا کی ہیں۔ یہ تنازعہ اُس وقت شروع ہوا جب جنوبی افریقہ کے سفیر رسول نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو “سفید نسل پرستی کی تحریک” کا رہنما قرار دیا۔ یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں جنگلی حیات کی مردم شماری: جانوروں کی گنتی سے کھیتوں کا تحفظ کیسے ممکن؟ روبیو نے ایک مضمون شیئر کیا جو ویب سائٹ بریٹبارٹ سے لیا گیا تھا جس میں رسول کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ٹرمپ جنوبی افریقہ کے سفید فام افراد کے خلاف خطرہ بن چکے ہیں۔ اس کے جواب میں جنوبی افریقہ کی حکومت نے اس اقدام کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس مسئلے کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بتایا کہ جنوبی افریقہ کے سفیر کو 21 مارچ تک امریکا سے روانہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ واشنگٹن میں امریکی حکام نے یہ بھی کہا کہ جنوبی افریقہ کی حکومت کی اسرائیل کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف میں مقدمے کی حمایت، ساتھ ہی روس اور ایران کے ساتھ تعلقات میں اضافہ دونوں ممالک کے تعلقات کی تنزلی کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نے اس فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے باوجود امریکا کے ساتھ ایک مفید اور دو طرفہ تعلقات کے لیے کوشاں رہیں گے۔ لازمی پڑھیں: امریکا کی جنوب مشرقی ریاستوں میں شدید طوفان: 19افراد ہلاک، مزید طوفان متوقع جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے بھی اپنی حکومت کے ارادے کا اعادہ کیا کہ وہ ملک میں زمین کی ملکیت میں مساوات کو بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں، اور اس کا مقصد نسل پرستانہ امتیاز کو ختم کرنا ہے۔ حالیہ برسوں میں جنوبی افریقہ نے ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جن کے تحت زمین کو عوامی مفاد میں ضبط کیا جا سکتا ہے جس پر کئی بین الاقوامی ادارے تنقید کر چکے ہیں۔ سابق امریکی سفیر پیٹرک گاسپارڈ نے اس بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “امریکا اور جنوبی افریقہ کے تعلقات اس وقت اپنے نچلے ترین نقطے پر پہنچ چکے ہیں اور یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک اس تعلق کو بحال کرنے کے لیے سخت محنت کریں کیونکہ اس کا عالمی سطح پر اثر پڑ سکتا ہے۔” یہ ٖفیصلہ صرف امریکا اور جنوبی افریقہ کے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہو رہا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں تضاد عالمی سیاست کے اہم مسائل سے جڑا ہوا ہے۔ امریکا اور جنوبی افریقہ کے تعلقات کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو اپنے باہمی اختلافات کو حل کرنے کے لیے فوری طور پر مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا تاکہ عالمی سطح پر اس بحران کے مزید پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے: تین صحافیوں سمیت نو افراد شہید

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے: تین صحافیوں سمیت نو افراد شہید

غزہ کے شمالی قصبے بیت لاہیا میں ہفتے کے روز اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم نو فلسطینی جاں بحق ہوگئے، جن میں تین مقامی صحافی بھی شامل تھے۔ مقامی وزارت صحت نے اس حملے کی تصدیق کی ہے، جبکہ حماس کے رہنما قاہرہ میں ثالثوں کے ساتھ جنگ بندی کے لیے مذاکرات کر رہے تھے۔ صحت کے حکام کے مطابق، حملہ ایک کار پر ہوا، جس سے گاڑی کے اندر اور باہر موجود افراد شدید متاثر ہوئے۔ ہلاک شدگان کے علاوہ، کئی افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔ عینی شاہدین اور ساتھی صحافیوں نے بتایا کہ کار میں سوار افراد ایک خیراتی ادارے، الخیر فاؤنڈیشن، کے مشن پر تھے۔ اس دوران ان کے ساتھ صحافی اور فوٹوگرافر بھی موجود تھے۔ فلسطینی میڈیا کے مطابق، ہلاک ہونے والوں میں تین مقامی صحافی شامل ہیں، جو علاقے میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ اسرائیلی فوج نے ابتدائی طور پر کہا کہ انہوں نے ڈرون آپریٹنگ کرنے والے دو “دہشت گردوں” کو نشانہ بنایا، جو اسرائیلی افواج کے لیے خطرہ تھے اور ڈرون سے متعلقہ سامان جمع کر رہے تھے۔ بعد میں جاری کیے گئے ایک اور بیان میں، اسرائیلی فوج نے چھ افراد کے نام بتائے، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ حماس اور اسلامی جہاد سے وابستہ عسکریت پسند تھے اور اس حملے میں مارے گئے۔ فوج نے مزید دعویٰ کیا کہ بعض عسکریت پسند “صحافیوں کی آڑ میں” کام کر رہے تھے۔ یہ واقعہ 19 جنوری کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی نازک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے، جس کے بعد بڑے پیمانے پر لڑائی رک گئی تھی۔ تاہم، فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے باوجود، اسرائیلی فائرنگ سے درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس کے زیر انتظام غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے سربراہ، سلامہ معروف، نے اسرائیلی فوج کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ حملے کا نشانہ بننے والی ٹیم عام شہریوں پر مشتمل تھی اور ایک خیراتی ادارے کے مشن پر تھی۔ معروف کے مطابق، یہ ٹیم کسی ممنوعہ علاقے میں نہیں تھی اور قابض فوج کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھی۔

امریکا کی جنوب مشرقی ریاستوں میں شدید طوفان: 19افراد ہلاک، مزید طوفان متوقع

امریکا کی جنوب مشرقی ریاستوں میں شدید طوفان نے تباہی مچا دی، جس کے نتیجے میں کم از کم 19 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ طوفان کے باعث مختلف ریاستوں میں سیکڑوں گھروں کو نقصان پہنچا، گاڑیاں تباہ ہو گئیں، جبکہ جنگلات میں بھی آگ بھڑک اٹھی۔ ہزاروں افراد بجلی سے محروم ہو گئے اور کئی علاقوں میں ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی ہے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان ریاست لوزیانا میں ہوا، جہاں مختلف حادثات میں 11 افراد ہلاک ہو گئے۔ بعض افراد گھر کی چھت گرنے اور درختوں کے نیچے دب کر ہلاک ہوئے، جبکہ کئی زخمی افراد کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ ریاست ٹیکساس میں بھی طوفان نے خطرناک صورتحال پیدا کر دی۔ تیز ہواؤں کے ساتھ مٹی کے طوفان نے کئی گاڑیوں کو الٹا دیا، جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہو گئے۔ ٹیکساس کے مختلف علاقوں میں درجنوں افراد زخمی ہوئے اور کئی گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔ اوکلاہاما اور آرکنسا میں بھی طوفان کی تباہ کاریوں کے باعث ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، تاہم حکام کی جانب سے مکمل تفصیلات کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ شدید طوفان کی وجہ سے میزوری، الی نوائے، انڈیانا، ٹیکساس اور آرکنسا میں بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ اطلاعات کے مطابق 2 لاکھ سے زائد افراد بجلی سے محروم ہو چکے ہیں، جبکہ بجلی کی بحالی میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ طوفان نے درجنوں گھروں کو زمین بوس کر دیا اور بڑی تعداد میں عمارتوں کو نقصان پہنچایا۔ کئی علاقوں میں مواصلاتی نظام بھی متاثر ہوا ہے، جبکہ سڑکوں پر درخت گرنے کے باعث ٹریفک کی روانی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ طوفان کے سبب ٹیکساس اور اوکلاہاما کے جنگلات میں 100 سے زائد مقامات پر آگ لگ گئی، جس کے باعث فائر بریگیڈ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ آگ بجھانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن تیز ہواؤں کے باعث آگ کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ حکام نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں سے دور رہیں اور حفاظتی تدابیر پر عمل کریں۔ ماہرین موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ طوفان کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ مسیسپی، مشرقی لوزیانا، اور مغربی ٹینیسی کے بھی طوفان کی زد میں آنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حکام نے ان ریاستوں میں ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے اور عوام کو غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ حکومتی ادارے اور مقامی انتظامیہ طوفان سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے جبکہ بے گھر ہونے والے افراد کے لیے عارضی پناہ گاہیں قائم کی جا رہی ہیں۔ فائر بریگیڈ اور ریسکیو ٹیمیں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ متاثرہ علاقوں کے لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور سرکاری ہدایات پر عمل کریں تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ امریکا میں آنے والا یہ طوفان اپنی شدت اور تباہ کاری کے لحاظ سے حالیہ برسوں کا ایک بڑا قدرتی آفت ثابت ہو رہا ہے۔ متاثرہ ریاستوں میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، اور مزید جانی و مالی نقصان کا خدشہ موجود ہے۔ حکام عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، جبکہ امدادی کارروائیاں بھی تیزی سے جاری ہیں۔

سری لنکا میں جنگلی حیات کی مردم شماری: جانوروں کی گنتی سے کھیتوں کا تحفظ کیسے ممکن؟

سری لنکا میں فصلوں کے تحفظ کی جنگ میں ایک نئی حکمت عملی اپنائی گئی ہے جس میں جنگلی حیات کی گنتی شامل ہے۔ حالیہ دنوں میں سری لنکا کے شمال وسطی ضلع انورادھا پورہ کے کسانوں نے اپنے کھیتوں اور گھروں کے قریب بندروں، موروں اور دیگر جنگلی جانوروں کی گنتی کی۔ یہ قدم حکومت کی جانب سے فصلوں کے تحفظ کے لیے اٹھایا گیا ہے تاکہ جنگلی جانوروں کے حملوں کو روکنے کے لیے مؤثر تدابیر تیار کی جا سکیں۔ رپورٹس کے مطابق گنتی کے عمل کے لیے تقریبا 40 ہزار مقامی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جو مختلف علاقوں میں پانچ منٹ تک جنگلی جانوروں کی تعداد شمار کرتے رہے۔ اس میں جنگلی سور، لوریز، مور اور بندر شامل تھے جو اکثر کھیتوں میں جا کر فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ انورادھا پورہ میں کسانوں نے خود بھی اس عمل میں حصہ لیا اور وزیر زراعت کی جانب سے فراہم کی گئی شیٹ میں جانوروں کی تعداد درج کی۔ وزارت زراعت کے عہدیدار اجیت پشپا کمارا نے بتایا کہ یہ مردم شماری بہت مختصر وقت میں کی جا رہی ہے تاکہ کوئی جانور دوبارہ گنا نہ جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس مردم شماری کے نتائج 80 فیصد تک درست ہوں گے جس کے بعد حکام جنگلی حیات سے نمٹنے کے لیے اپنے اگلے اقدامات کا منصوبہ تیار کریں گے۔ مقامی کسانوں نے اپنے کھیتوں میں جلدی پہنچ کر اس عمل میں حصہ لیا کیونکہ ان کی فصلیں جنگلی جانوروں کی وجہ سے مسلسل تباہ ہو رہی تھیں۔ یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی اور برازیل کی عجیب منطق: درخت کاٹ کر سڑک تعمیر کسانوں کا کہنا تھا کہ اس گنتی میں بھرپور شرکت کر کے انہوں نے اپنے نقصان کو روکنے کی امید پیدا کی ہے۔ اس گنتی کے دوران مہنتلے علاقے میں محکمہ زراعت کے بیوروکریٹ چمینڈا ڈسانائکے نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے 227 بندروں اور 65 جامنی رنگ کے لنگوروں کی گنتی کی۔ یہ جانور اکثر فصلوں میں جا کر کھانے کی تلاش کرتے ہیں جس سے کسانوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن اس اہم اقدام پر کچھ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی۔ حزب اختلاف کے قانون ساز نلن بندرا نے اس مردم شماری کو “ناکامی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک فضول مشق ہے جس میں صرف پیسہ ضائع کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس گنتی میں ان کیڑوں کی تعداد نہیں شمار کی گئی جو رات کے وقت کھیتوں پر حملہ کرتے ہیں۔ بندرا نے یہ بھی تجویز کیا کہ نئی ٹیکنالوجیز کا استعمال کر کے گنتی کو مزید مؤثر بنایا جا سکتا تھا۔ حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہاتھیوں سمیت دیگر جنگلی جانوروں کی جانب سے ایک تہائی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ تاہم، اس گنتی میں ہاتھیوں کو شامل نہیں کیا گیا حالانکہ یہ جانور بھی بڑے پیمانے پر کھیتوں پر حملے کرتے ہیں۔ سری لنکا میں ہاتھیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے کیونکہ انہیں مقدس سمجھا جاتا ہے اس لیے ان کی گنتی نہ کرنا ضروری سمجھا گیا۔ اس مردم شماری کا مقصد جنگلی جانوروں کی تعداد کا درست اندازہ لگانا ہے تاکہ حکام انہیں کنٹرول کرنے کے لیے بہتر حکمت عملی تیار کر سکیں۔ اس اقدام کے بعد سری لنکا کے کسانوں کی امیدوں میں اضافہ ہوا ہے کہ شاید اب ان کی فصلیں جنگلی جانوروں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ مزید پڑھیں: آٹھ سالہ بچی سے زیادتی اور موت پر بنگلہ دیش میں شدید احتجاج

جنگ اور جنگ بندی معاہدہ: دونوں جاری, حالات کس طرف جا رہے ہیں؟

روس اور یوکرین کے درمیان فضائی حملے بدستور جاری ہیں، جس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا ہے۔ حکام کے مطابق، یہ صورتحال جنگ بندی کے کسی بھی ممکنہ معاہدے کو غیر یقینی بنا رہی ہے، جو تین سال سے جاری تنازعے کے دوران ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے حالیہ دنوں میں امریکا کی طرف سے پیش کردہ 30 روزہ جنگ بندی کی تجویز کی اصولی طور پر حمایت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ روسی افواج اس وقت تک اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی جب تک کہ کچھ اہم شرائط کو پورا نہیں کیا جاتا۔ ان بیانات کے باوجود، دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف بھاری فضائی حملے کیے ہیں، جس سے جنگ کے مزید شدت اختیار کرنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ روس نے یوکرینی افواج کو مغربی روسی علاقے کرسک سے نکالنے کے لیے کارروائی تیز کر دی ہے، جبکہ یوکرین نے بھی جوابی حملے کیے ہیں۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق، اتوار کے روز روسی فضائی دفاعی یونٹوں نے یوکرین کے 31 ڈرونز کو تباہ کیا، جن میں سے 16 وورونز، 9 بیلگوروڈ، اور باقی روستوف اور کرسک کے علاقوں میں مار گرائے گئے۔ بیلگوروڈ کے گورنر ویاچسلاو گلادکوف کے مطابق، یوکرینی ڈرون حملے میں تین افراد زخمی ہوئے، جن میں ایک 7 سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ دو افراد اس وقت زخمی ہوئے جب ایک ڈرون ان کے گھر سے ٹکرا کر آگ بھڑکانے کا سبب بنا، جبکہ ایک اور شخص ڈولگوئے گاؤں میں ڈرون حملے کی زد میں آکر زخمی ہوا۔ دوسری جانب، وورونز کے گورنر الیگزینڈر گوسیو اور روستوف کے قائم مقام گورنر نے اطلاع دی کہ ان کے علاقوں میں فوری طور پر کسی نقصان یا زخمی ہونے کی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔ یوکرین میں بھی روسی ڈرون حملوں کی شدت برقرار رہی۔ حکام کے مطابق، شمالی علاقے چرنیہیو میں ایک اونچی عمارت میں آگ بھڑک اٹھی، جو ایک روسی ڈرون حملے کا نتیجہ تھی۔ یوکرین کی ایمرجنسی سروس کے مطابق، فائر فائٹرز آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یوکرینی میڈیا نے دارالحکومت کیف اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں دھماکوں کی متعدد اطلاعات دی ہیں، جب کہ یوکرین کی فضائیہ نے وسطی یوکرین میں ڈرون حملوں کے خطرے کے پیش نظر وارننگ جاری کر دی تھی۔ اتوار کے روز 3 بجے تک کیف کے علاقے میں ہونے والے نقصان کے بارے میں کوئی سرکاری رپورٹ جاری نہیں کی گئی تھی۔ موجودہ حالات میں، جنگ بندی کی کوششوں کی کامیابی مشکوک نظر آ رہی ہے، کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، اور تنازعہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

ٹرمپ جنگی قانون استعمال کرنے لگے: وفاقی جج نے روک دیا

ہفتے کے روز، ایک وفاقی جج نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کو عارضی طور پر روک دیا، جس کے تحت وینزویلا کے گینگ “ٹرین ڈی اراگوا” کے مبینہ ارکان کی ملک بدری کو تیز کرنے کے لیے 1798 کے “ایلین اینیمیز ایکٹ” کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس اقدام کا مقصد ایک ایسے قانون کو بروئے کار لانا تھا جو عام طور پر جنگی حالات میں استعمال ہوتا ہے، تاکہ مبینہ مجرموں کو فوری طور پر بے دخل کیا جا سکے۔ چند گھنٹے قبل، ٹرمپ نے اس قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کو ایک منظم مجرمانہ تنظیم کے “حملے” کا سامنا ہے، جو اغوا، بھتہ خوری اور کنٹریکٹ کلنگ جیسے جرائم میں ملوث ہے۔ تاہم، جج جیمز بواسبرگ نے اس حکم پر 14 دن کی عارضی پابندی عائد کر دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام جنگی حالات میں استعمال ہونے والے اختیارات کا غلط استعمال ہے، کیونکہ یہ قانون کسی قوم کی دشمنانہ کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا، نہ کہ غیر ریاستی عناصر کے خلاف۔ ٹرمپ کے اس فیصلے کے تحت وینزویلا کے تمام 14 سال یا اس سے زیادہ عمر کے شہری، جو مبینہ طور پر گینگ کے رکن ہیں، اگر وہ امریکی شہریت یا قانونی رہائشی حیثیت نہیں رکھتے، تو انہیں “گرفتار، روکا اور ملک بدر” کیا جا سکتا ہے۔ اس حکم نامے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ گروہ امریکہ کے اندر غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکن سول لبرٹیز یونین کے وکیل لی گیلرنٹ، جنہوں نے اس اقدام کے خلاف دلائل دیے، نے کہا، “یہ اعلان غیر قانونی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے غلط استعمال کی ایک اور مثال ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگی اختیارات کو امن کے وقت امیگریشن پالیسی میں استعمال کرنا “بہت خطرناک نظیر قائم کرے گا۔” دوسری طرف، اٹارنی جنرل پام بونڈی نے عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، “یہ امریکی شہریوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے، کیونکہ جج نے ٹرین ڈی اراگوا کے دہشت گردوں کی حمایت کی ہے۔” بونڈی نے مزید کہا کہ حکومت کو اپنے اختیارات کا مکمل استعمال کرنا چاہیے تاکہ ملک کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ “ایلین اینیمیز ایکٹ” دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی، جرمن اور اطالوی نژاد افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کے اس اقدام کو بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے اس قانون کے احیا کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس پر انسانی حقوق کے گروپوں اور ڈیموکریٹس نے شدید تنقید کی ہے۔ کئی حلقے اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس قانون کو غیر معمولی حالات میں استعمال کرنے سے مستقبل میں اس کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔ فروری میں، ٹرمپ انتظامیہ نے “ٹرین ڈی اراگوا”، “سینالوا کارٹیل” اور دیگر چھ گروہوں کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا تھا۔ ہفتے کے روز جاری کردہ ہدایت میں کہا گیا تھا کہ “ٹرین ڈی اراگوا” امریکہ میں غیر قانونی ہجرت کے ذریعے اپنے مجرمانہ مقاصد کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ حکومت ان گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے ہر ممکنہ قانونی آپشن استعمال کرے گی۔ عدالتی فیصلے کے بعد، اس معاملے پر مزید قانونی جنگ کی توقع کی جا رہی ہے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ اس عارضی پابندی کو چیلنج کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں عدالتی فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی تشریح کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جبکہ ٹرمپ کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام قومی سلامتی کے لیے ناگزیر تھا۔

ٹرمپ کی عجیب پالیسی: 83 سال بعد وائس آف امریکا خاموش ہوگیا

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے بعد، ہفتے کے روز وائس آف امریکا کے 1,300 سے زیادہ ملازمین کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا، جبکہ دو امریکی نیوز سروسز کی فنڈنگ ​​بھی معطل کر دی گئی۔ اس اقدام کے تحت حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے میڈیا آؤٹ لیٹ کے بڑے ادارے اور چھ دیگر وفاقی ایجنسیوں کو بھی بند کر دیا گیا۔ وائس آف امریکا کے ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے تصدیق کی کہ تقریباً 50 زبانوں میں نشریات فراہم کرنے والے 1,300 صحافی، پروڈیوسر اور معاونین عارضی رخصت پر بھیجے گئے ہیں، جس سے یہ عالمی نشریاتی ادارہ مفلوج ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنی لنکڈ ان پوسٹ میں لکھا، “مجھے افسوس ہے کہ 83 سالوں میں پہلی بار وائس آف امریکا کو خاموش کر دیا گیا ہے، حالانکہ اس نے دنیا بھر میں آزادی اور جمہوریت کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔” وائس آف امریکہ کے بنیادی ادارے، یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا ، نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی اور ریڈیو فری ایشیا کی فنڈنگ ​​بھی بند کر دی ہے، جو مشرقی یورپ، روس، چین اور شمالی کوریا سمیت دیگر آمرانہ ریاستوں میں آزاد خبریں فراہم کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے اس اقدام کو ان میڈیا اداروں کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے، جو دنیا بھر میں آزاد صحافت کا نادر ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1942 میں قائم ہونے والا وائس آف امریکہ آج ایک ہفتے میں 360 ملین افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ 2024 میں، یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کا بجٹ تقریباً 886 ملین ڈالر تھا اور اس کے تحت 3,500 سے زیادہ ملازمین کام کر رہے تھے۔ کے سیئول بیورو کے سربراہ ولیم گیلو نے اتوار کے روز کہا کہ انہیں تمام سسٹمز اور اکاؤنٹس سے لاک آؤٹ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بلوسکی پر لکھا، “میں صرف سچ بولنا چاہتا تھا، چاہے میں کسی بھی حکومت کی رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ اگر یہ کسی کے لیے خطرہ ہے، تو ایسا ہی سہی۔” ٹرمپ کی اتحادی اور وائس آف امریکا کے ممکنہ ڈائریکٹر کیری لیک نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کو “امریکی ٹیکس دہندگان پر ایک بوجھ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے “بچانے کے قابل نہیں” سمجھا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قانون کے مطابق اس ایجنسی کو کم سے کم سطح پر لے آئیں گی۔ دوسری جانب، ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ روسی حکومت نے اسے “ناپسندیدہ تنظیم” قرار دیا ہے، اور روس و مقبوضہ یوکرین میں قارئین کو خبردار کیا کہ اس کے مواد کو شیئر کرنے پر انہیں قید یا جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چیک جمہوریہ کے وزیر خارجہ جان لیپاوسکی نے وائس آف امریکہ اور ریڈیو فری یورپ کو “مطلق العنان حکومتوں کے تحت رہنے والے افراد کے لیے امید کی کرن” قرار دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا، “بیلاروس سے ایران، روس سے افغانستان تک، یہ آزاد صحافت کے چند واحد ذرائع میں سے ہیں۔”

امریکا کی یمن پر بڑی فوجی کارروائی: حملے میں 31 افراد لقمہِ اجل بن گئے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز یمن کے ایران سے منسلک حوثی باغیوں کے خلاف بحیرہ احمر میں جہاز رانی پر حملوں کے جواب میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں ابتدائی حملوں میں کم از کم 31 افراد ہلاک ہوگئے۔ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا کہ وہ حوثیوں کی حمایت فوری طور پر بند کرے، بصورت دیگر سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ حملے ٹرمپ کے جنوری میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں امریکا کی سب سے بڑی فوجی کارروائی سمجھے جا رہے ہیں۔ ایک امریکی اہلکار کے مطابق، یہ مہم ممکنہ طور پر کئی ہفتے تک جاری رہ سکتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا، “تمام حوثی دہشت گردوں کے لیے، آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے، اور آپ کے حملے آج سے ہی رکنے چاہئیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آپ پر وہ تباہی نازل ہوگی جو آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی!” یمن کے دارالحکومت صنعا پر امریکی حملوں میں کم از کم 13 شہری ہلاک اور 9 زخمی ہوگئے، حوثیوں کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق۔ نشریاتی ادارے المسیرہ ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ شمالی صوبے صعدہ میں امریکی بمباری سے چار بچوں اور ایک خاتون سمیت 11 افراد ہلاک اور 14 زخمی ہوئے۔ حوثیوں کے سیاسی بیورو نے ان حملوں کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یمنی مسلح افواج ان کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ صنعا کے رہائشیوں نے بتایا کہ حملے حوثیوں کے مضبوط گڑھ میں ایک عمارت پر کیے گئے، جس سے شدید دھماکوں نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک شہری، عبداللہ یحییٰ، نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ دھماکوں کی شدت زلزلے جیسی تھی، جس نے خواتین اور بچوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ نشریاتی ادارے المسیرہ ٹی وی کے مطابق، صعدہ کے قصبے دہیان میں ایک پاور اسٹیشن پر حملے کے باعث بجلی منقطع ہوگئی۔ دہیان وہ جگہ ہے جہاں حوثیوں کے رہنما عبدالمالک الحوثی اکثر ملاقاتیں کرتے ہیں، جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ امریکی حملے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

سری نگر میں انڈین فورسز کا جابرانہ اقدام، میر واعظ عمر فاروق دوبارہ نظر بند

حریت رہنما اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کو ایک بار پھر گھر میں نظر بند کر دیا گیا، سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ نجی نشریاتی ادارے اے آر وائی نیوز کے مطابق انجمن اوقاف جامع مسجد سری نگر نے میر واعظ کی مسلسل نظر بندی پر شدید افسوس اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے بلاجواز اور من مانی کارروائی قرار دیا ہے۔ انجمن کا کہنا ہے کہ میر واعظ کو جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی اور خطاب سے روکنا عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ انجمن اوقاف کے مطابق حکام کی یہ کارروائی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب رمضان کے مقدس ایام جاری ہیں اور ہزاروں عقیدت مند جامع مسجد میں روحانی فیض کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ میر واعظ کی غیر موجودگی سے لوگ دینی رہنمائی سے محروم ہو رہے ہیں، جو کہ مذہبی آزادی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ مزید پڑھیں: آٹھ سالہ بچی سے زیادتی اور موت پر بنگلہ دیش میں شدید احتجاج انجمن اوقاف نے میر واعظ عمر فاروق کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے دیے جائیں تاکہ وہ عوام کی رہنمائی کر سکیں۔ واضح رہے کہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، جس سے وادی میں سیاسی اور مذہبی آزادی مزید محدود ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ میر واعظ عمر فاروق نہ صرف جامع مسجد سری نگر کے خطیب ہیں، بلکہ وہ اپنے والد کے قتل کے بعد میر واعظ کشمیر کے منصب پر فائز کیے گئے تھے اور تب سے وہ مسلسل جمعہ کے خطبات دیتے آ رہے ہیں۔

یوکرین کو شمالی مشرقی علاقےسومی پر ممکنہ روسی حملے کا خطرہ،صدر زیلنسکی نے خبر دار کر دیا

یوکرینی صدرزیلنسکی نے  خبردار کیا  ہےکہ یوکرینی فوجی اب بھی روس کے کورسک علاقے میں روسی اور شمالی کورئین  افواج کا مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن انہیں یوکرین کے شمال مشرقی علاقے سومی پر ممکنہ نئے حملے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس یوکرینی افواج کو مغربی روسی علاقے میں ان کے مہینوں پرانے گڑھ سے نکالنے کے قریب ہے، جس کی وجہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ ہزاروں فوجی مکمل طور پر گھیرے میں آ چکے ہیں۔ زیلنسکی نے اپنی اعلیٰ عسکری قیادت سے بریفنگ لینے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا کہ کیف کی فوجیں کورسک میں محصور نہیں ہیں، لیکن ماسکو وہاں قریبی علاقوں میں اپنی افواج کو اکٹھا کر رہا ہے تاکہ ایک الگ حملہ کیا جا سکے۔ یہ سومی کے علاقے پر حملہ کرنے کے ارادے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہم اس سے آگاہ ہیں اور اس کا بھرپور جواب دیں گے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے تمام شراکت دار یہ بالکل سمجھیں کہ پیوٹن کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وہ کس چیز کی تیاری کر رہے ہیں اور کس چیز کو نظرانداز کریں گے۔ روسی پیوٹن نے جمعرات کو کہا تھا کہ وہ اصولی طور پر ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے ساتھ 30 دن کی جنگ بندی کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں، لیکن وہ اس وقت تک جنگ جاری رکھیں گے جب تک کہ کئی اہم شرائط پر کام نہیں کر لیا جاتا۔ ہفتے کے روز برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے تقریباً 25 یورپی رہنماؤں اور دیگر اتحادیوں کے اجلاس میں کہا کہ پیوٹن کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔ زیلنسکی نے مزید کہا، روسی افواج کی نقل و حرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماسکو سفارت کاری کو نظرانداز کرنا چاہتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ روس جنگ کو طول دے رہا ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ مشرقی یوکرین کے اسٹریٹیجک شہر پوکرووسک کے قریب میدانِ جنگ کی صورتحال مستحکم ہو گئی ہے اور یوکرین نے پہلی بار ایک نئے مقامی طور پر تیار کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کو کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ کیف اپنی دفاعی صنعت کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ مغربی اتحادیوں پر انحصار کم کر سکے، جنہوں نے اہم توپ خانے، فضائی دفاع اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ زیلنسکی نے  مزیدکہا کہ یوکرین کے نئے لانگ نیپچون میزائل کی رینج 1,000 کلومیٹر (621 میل) تک ہے۔