طالبان حکومت اختلافات، افغانی وزیرِداخلہ عہدے سے مستعفی ہوگئے

افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں اور اپنا استعفیٰ ملا ہیبت اللہ اخندزادہ کو بھجوا دیا ہے، جسے قبول کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان قیادت میں اندرونی اختلافات اور حقانی کی عوامی سرگرمیوں سے طویل غیر حاضری کے باعث یہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔ ان کی غیر موجودگی کے دوران وزارت داخلہ کے امور ان کے نائبین ابراہیم صدر اور نبی عمری سنبھال رہے تھے۔ واضح رہے کہ تاحال طالبان کی جانب سے سراج الدین حقانی کے استعفے اور منتقلی پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب رپورٹس میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی مرکزی قیادت کے درمیان کشیدگی کی خبریں سامنے آئی ہیں، خاص طور پر خواتین کے حقوق اور طرز حکمرانی کے حوالے سے حقانی کی خوست منتقلی طالبان کے اندر مزید اختلافات کا اشارہ دے سکتی ہے، کیونکہ یہ علاقہ ان کے نیٹ ورک کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
آٹھ سالہ بچی سے زیادتی اور موت پر بنگلہ دیش میں شدید احتجاج

بنگلہ دیش میں آٹھ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور اس کے بعد انتقال کے واقعے نے ملک بھر میں شدید احتجاج کو جنم دیا۔ یہ افسوسناک واقعہ 5 مارچ کی رات پیش آیا جب بچی ماگورا شہر میں اپنی بڑی بہن کے گھر جا رہی تھی۔ مقدمے کے مطابق، اسی دوران اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کی بڑی بہن کے 18 سالہ شوہر کو، اس کے والدین اور بھائی سمیت گرفتار کر کے ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔ جمعرات کی رات جب بچی کے انتقال کی خبر پھیلی تو مشتعل ہجوم اس مکان پر پہنچ گیا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا اور اسے آگ لگا دی۔ حکومت کے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق، بچی نے مقامی وقت کے مطابق دن ایک بجے دل کا دورہ پڑنے کے بعد دم توڑ دیا۔ ڈاکٹرز نے دو بار اس کی حالت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی، لیکن تیسرے دورے کے بعد دل دوبارہ کام کرنے میں ناکام رہا۔ 8 مارچ کو داخل ہونے کے بعد وہ دارالحکومت ڈھاکہ کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال میں چھ دن تک تشویشناک حالت میں رہی۔ اس کی موت کے بعد، اس کی والدہ نے کہا، “میں نے سوچا تھا کہ میری بیٹی بچ جائے گی۔ اگر وہ صحت یاب ہو جاتی تو میں اسے دوبارہ کبھی اکیلے نہ جانے دیتی۔” بچی کی لاش کو فوج کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ماگورا لے جایا گیا، جہاں 18:00 بجے کے قریب شدید احتجاج جاری تھا۔ ماگورا صدر پولیس اسٹیشن کے افسر انچارج ایوب علی کے مطابق، حکام حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ 19:30 پر سپرد خاک کرنے سے قبل، ہزاروں لوگ ماگورا کے عوامی چوک میں اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، جبکہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، جس کے بعد احتجاجی مارچ اور طالبات کی تقاریر ہوئیں۔ مظاہرین نے زیادتی کے متاثرین کے لیے انصاف اور خواتین و بچوں کے تحفظ سے متعلق قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے زیادتی کی قانونی تعریف کو مزید واضح کرنے پر بھی زور دیا، کیونکہ موجودہ قوانین کو مبہم سمجھا جاتا ہے۔ قانونی مشیر آصف نذر کے مطابق، عصمت دری اور قتل کے اس کیس کی سماعت اگلے سات دنوں میں شروع ہونے کی امید ہے۔ انہوں نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ ڈی این اے کے نمونے لیے جا چکے ہیں اور پانچ دن میں رپورٹ متوقع ہے، جبکہ 12 سے 13 افراد کے بیانات بھی قلمبند کر لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مقدمے کی سماعت سات دن کے اندر شروع ہو جائے تو جج انصاف کو جلد یقینی بنا سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں 2020 میں نافذ کیے گئے قانون کے مطابق، نابالغوں کی عصمت دری پر سزائے موت دی جاتی ہے۔ یہ قانون اس وقت متعارف کرایا گیا تھا جب ملک میں جنسی تشدد کے کئی ہولناک واقعات پیش آئے، جن میں ایک 37 سالہ خاتون پر وحشیانہ گینگ ریپ بھی شامل تھا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ ماگورا میں کمسن بچی کی عصمت دری کے ایک ہفتے کے اندر ہی، میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں تین مزید کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آئے۔ کچھ معاملات میں ملزمان متاثرہ کے پڑوسی تھے، جبکہ دیگر میں قریبی رشتہ دار ملوث پائے گئے۔ قانون اور ثالثی مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ آٹھ برسوں میں بنگلہ دیش میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 3,438 مقدمات درج کیے گئے، جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان میں سے کم از کم 539 متاثرین چھ سال سے کم عمر، جبکہ 933 سات سے بارہ سال کی عمر کے درمیان تھے۔ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ زیادہ تر کیسز میں مجرم متاثرین کے قریبی جاننے والے یا رشتہ دار ہوتے ہیں۔
‘کیف کے ہتھیار ڈالنے پر گِھرے ہوئے یوکرینی فوجیوں کو چھوڑ دیں گے’ روسی صدر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے اپیل کی ہے کہ وہ کرسک کے علاقے میں گھیرے میں آئے یوکرینی فوجیوں کی جان بخشی کریں۔ پوتن نے اس درخواست پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر یوکرینی فوجی ہتھیار ڈال دیں، تو انہیں عالمی قانون کے تحت زندہ رہنے اور اچھے سلوک کی ضمانت دی جائے گی۔ ٹرمپ نے ماسکو میں اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹ کوف کی پوتن سے طویل ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر لکھا کہ اس خوفناک، خونی جنگ کو ختم کرنے کا ایک بہت اچھا موقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین نے امریکی جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور روس اس پر غور کر رہا ہے۔ کریملن نے ٹرمپ کی اپیل کو انسانی ہمدردی کے طور پر تسلیم کیا، مگر ساتھ ہی روسی سلامتی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدیف نے خبردار کیا کہ اگر یوکرینی فوجی ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہیں، تو انہیں بے رحمی سے تباہ کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب، کیف کی فوج نے گھیراؤ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے فوجی بہتر پوزیشنوں پر واپس جا رہے ہیں اور انہیں کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں۔ کینیڈا میں جاری جی 7 اجلاس کے دوران، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ وٹ کوف امریکہ واپس آ رہے ہیں اور یوکرین پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم محسوس کر رہے ہیں کہ شاید ہم جنگ کے خاتمے کے کچھ قریب پہنچ گئے ہیں، لیکن یہ ابھی بھی ایک طویل سفر ہے۔ یہ سفارتی کوششیں کیا رنگ لائیں گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر جنگ بندی کے لیے جاری عالمی کوششوں میں یہ ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
بے شمار اختلافات مگر جی سیون کا اجلاس زبردست کامیابی ثابت ہوا

کینیڈا کے ایک برفانی ریزورٹ میں ہونے والی جی سیون وزرائے خارجہ کی تین روزہ میٹنگ کے اختتام سے محض ایک دن پہلے، ریاستہائے متحدہ کے قریبی اتحادیوں کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں ان کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے نہ آ جائیں۔ یوکرین کی علاقائی سالمیت، سلامتی کی ضمانتیں، اور روس پر ممکنہ نئی پابندیوں جیسے معاملات پر سخت بحث چھڑی ہوئی تھی۔ دوسری جانب اسرائیل اور فلسطین تنازعہ پر مشترکہ موقف اپنانا بھی ایک بڑا چیلنج تھا، جہاں دو ریاستی حل کے حوالے سے ہر ملک کی اپنی حساسیت تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف پالیسیوں اور روس کے ساتھ نرم رویے نے اتحادیوں کو پہلے ہی الجھا رکھا تھا، جس کی وجہ سے یہ جی سیون اجلاس ابتدا میں تناؤ کا شکار ہو گیا۔ تاہم، سفارت کاروں نے رات گئے تک مذاکرات جاری رکھے، ایک ایسے اتحاد کے لیے جو اکثر ان معاملات پر متفق نظر نہیں آتا۔ لیکن جمعہ کی صبح، جیسے کسی نئے پوپ کے انتخاب کے بعد سفید دھواں اٹھتا ہے، ویسے ہی مذاکرات میں اتفاق رائے کی خبر ملی۔ برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، یورپی یونین اور امریکہ کے وزراء آخر کار ایک مشترکہ اعلامیے پر متفق ہو گئے، جس نے سب کو حیران کر دیا۔ اجلاس سے پہلے، جی سیون کے سفارت کاروں کو یہ خدشہ تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، جو جدہ میں یوکرینی حکام سے اعلیٰ سطحی مذاکرات کے بعد اجلاس میں شریک ہو رہے تھے، کہیں ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کی پیروی نہ کریں۔ لیکن روبیو نے حیران کن طور پر ایسا رویہ اپنایا جو نہ صرف واضح اور مضبوط تھا بلکہ کچھ معاملات میں لچکدار بھی۔ ذرائع کے مطابق، روبیو چین اور مشرق وسطیٰ کے معاملات پر امریکی مؤقف پر ڈٹے رہے، مگر انہوں نے یوکرین سمیت دیگر حساس معاملات پر اتحادیوں کی رائے کو اہمیت دی۔ مذاکرات میں ان کی حکمت عملی کو سراہا گیا، حتیٰ کہ ایک سفارت کار نے انہیں “اچھا آدمی” قرار دیا۔ روبیو نے صحافیوں کو بتایا، “اہم بات یہ ہے کہ ہم ان معاملات پر اختلافات کے باوجود ان چیزوں پر مل کر کام کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے جن پر ہم متفق ہیں۔” تاہم، مشرق وسطیٰ میں امن کے حوالے سے دو ریاستی حل کا ذکر ایک ایسا نکتہ تھا جس پر روبیو کا مؤقف غیر متزلزل رہا۔ سفارتی حلقوں میں یہ مانا جا رہا ہے کہ ان کے عملی رویے نے اجلاس کو نتیجہ خیز بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اسلاموفوبیا: نظریاتی جنگ یا خوف کی سیاست؟

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مارچ 2022 میں اسلامی تعاون تنظیم کی ایما پر 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی پاکستان کی پیش کردہ قرارداد منظور کی تھی۔ پاکستان کی سینیٹ اور قومی اسمبلی نے بھی اکتوبر 2020 میں فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی عوامی تشہیر اور اسلاموفوبیا کی مذمت کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ جون 2021 میں کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں پاکستانی نژاد مسلم فیملی اس وقت ٹرک حادثے کا شکار ہوئی جب وہ اپنے گھر کے پاس چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔ حاثے کے نتیجے میں تین خواتین سمیت چار لوگ موقع پر ہی جں بحق جبکہ ایک نو سالہ بچہ شدید زخمی ہوا۔ اونٹاریو پولیس کی جانب سے تفتیش کے بعد یہ انکشاف سامنے کہ یہ واقعہ نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے نتیجہ تھا، لیکن یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں تھا، مغربی دنیا میں نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر ایسے حملوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ جمال جعفر خان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں اسلاموفیوبیا بڑھ رہا ہے یا کم ہورہا ہے، اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں، جہاں تک اسلامو فوبیا کا تعلق ہے، یہ کچھ علاقوں میں خاص طور پر فرقہ واریت اور قوم پرستی کی وجہ سے بڑھ رہا ہے ، مگر تعلیم اور شعور میں اضافہ ہونے سے یہ مسائل کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے مشرقی علاقوں میں یہ کم نظر آتا ہے، جب کہ مغربی علاقوں میں خاص طور پر کراچی کی طرف یہ ابھی تک چل رہا ہے۔ متعدد سروے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مسلمانوں کے حوالے سے منفی رپورٹنگ اس کی بڑی وجہ ہے۔ اخبارات اور ٹی وی پر اسلام اور مسلمان مخالف رپورٹنگ عام طور پر 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد شروع ہوئی، جب مغربی معاشرے نے اسلام کو سیاسی سطح پر ایک خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کیا، بعض تحقیقات کے مطابق 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میڈیا میں مسلمان مخالف رپورٹنگ کا نقطہ آغاز تھی۔ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں کیمونزم کی شکست کے بعد اسلامی نظریات خاص طور پر ’سیاسی اسلام‘ براہ راست امریکی میڈیا کے نشانے پر آ گیا۔ بعض تجزیہ کار 1996 میں سامنے آنے والی ’سیموئل ہنگٹن‘ کی کتاب ’Clash of Civilization‘ میں پیش کیے گئے تہذیبی ٹکراؤ کے تصور کو میڈیا میں اسلام مخالف رپورٹنگ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جمال جعفر خان نے بتایا کہ مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں عام ہیں، کیونکہ لوگ اسلام کو گہرائی سے نہیں پڑھتے، بس مولویوں کی باتوں پر چل پڑتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فرقہ واریت، نسل پرستی اور ثقافتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ اسلام کی اصل حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے اور مختلف فرقے اپنے حساب سے اسلام کو پیش کرتے ہیں، جس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد عالمی میڈیا پر مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کرنے کے سلسلے میں شدت آ گئی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت کے طالب علم سراج حمید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ اسلام اور مغرب کے درمیان صدیوں پر محیط سیاسی اور عسکری کشمکش جیسے صلیبی جنگیں، عثمانی فتوحات اور نوآبادیاتی دور نے بعض مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے بارے میں ایک مخصوص منفی تصور پیدا کیا، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور یہی اسلاموفوبیا کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ 2016 میں کی گئی ایک تحقیق میں ’جس میں 2000 سے 2015 تک کے میڈیا آرٹیکلز کا جائزہ لیا گیا‘ یہ سامنے آیا کہ میڈیا میں مسلمانوں کو منفی انداز میں پیش کیا گیا اور اسلام کو اکثر ایک پرتشدد مذہب کے طور پر پیش کیا گیا۔ میڈیا اور کیمونیکیشن کی پروفیسر ’الزبتھ پول‘ کے مطابق میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کو مغربی اقدار اور سیکیورٹی کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا۔ ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ نے اپنی ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ ہمارے علاقے میں محفل میلاد یا شادیوں پر مولوی صاحب نے کہا کہ پیسے پھینکنا غلط ہے اور یہ گناہ ہے۔ لیکن جب وہ خود محفل میں شریک ہوئے تو لوگوں نے ان پر پیسے پھینکنے شروع کر دیے۔ جب انہوں نے سوال کیا تو مولوی صاحب نے کہا کہ اس سے پیسے میں برکت آتی ہے۔ پھر اسے ‘وہابی’ اور ‘شیعہ’ جیسے الزامات سننے کو ملے۔ یہ فرقہ واریت اور غلط فہمیاں ہی اسلام میں مسائل پیدا کرتی ہیں۔ 2007 میں پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے امریکہ میں کروائے گئے سروے میں یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے زیادہ تر ان باتوں کے زیر اثر تھی جو انہوں نے ذرائع ابلاغ سے سنیں اور پڑھیں، تحقیق کے مطابق مسلمانوں کے خلاف منفی رپورٹنگ کی شرح امریکہ میں 80 فیصد، برطانیہ اور کینیڈا میں 79 فیصد اور آسٹریلیا میں 77 فیصد تھی۔ متعدد تحقیقات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ منفی رپورٹنگ عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے غیر سازگار ماحول پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم کے مطابق مغربی میڈیا میں اکثر اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کشی یک طرفہ اور منفی انداز میں کی جاتی ہے۔ دہشت گردی یا انتہا پسندی کی کارروائیوں کو اکثر مذہب اسلام سے جوڑا جاتا ہے، جب کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے جرائم کو ان کے مذاہب سے منسوب نہیں کیا جاتا۔ یہ رجحان عام عوام میں اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے۔ میڈیا میں مسلسل مسلمانوں کو نیگیٹو پورٹریٹ کرنے کے عمل‘ کو عوام اور حکومتی اداروں میں، مسلمان مخالف پالیسیوں کی حمایت میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، مغربی معاشرے کا اپنے مسلمان شہریوں پراعتبار کمزور ہوا اور ان کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی طاقتوں کی مسلمان ممالک میں مداخلت کے لیے رائے
جسٹن ٹروڈو کا ایک دہائی پر محیط اقتدار ختم، مارک کارنی نے وزیرِاعظم کا حلف اٹھا لیا

کینیڈین لبرل پارٹی کے رہنما مارک کارنی نے کینیڈا کے نئے وزیرِاعظم کا حلف اٹھا لیا۔ کینیڈین سابق وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو کا ایک دہائی پر محیط اقتدار اپنے اختتام کو پہنچا اور حکمران جماعت لبرل پارٹی کے رہنما مارک کارنی نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا لیا ہے۔ 59 سالہ مارک کارنی سیاست دان اور سابق بینکر ہیں اور یہ ان کا پہلا عوامی عہدہ ہے۔ واضح رہے کہ مارک کارنی کینیڈا کے تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں، جو کبھی بھی پارلیمنٹ کے رکن نہیں رہے۔ انہوں نے یہ عہدہ ایسے وقت میں سنبھالا ہے، جب کینیڈا کو کئی داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سب سے بڑا مسئلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا کی خودمختاری پر حملے ہیں۔ مزید یہ کہ وزیراعظم بننے کے بعد مارک کارنی کو سال کے آخر میں ہونے والے اپنی پارٹی کے انتخابات بھی کرانا ہیں۔ یاد رہے کہ جسٹن ٹروڈو نے جنوری میں استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا، جب عوامی سروے سے یہ ظاہر ہوا کہ لبرل پارٹی آئندہ انتخابات میں شکست کا سامنا کر سکتی ہے۔ ٹروڈو کے مستعفی ہونے کے بعد لبرل پارٹی نے مارک کارنی کو اپنا رہنما منتخب کیا، اور مارک کارنی نے 9 مارچ کو لبرل پارٹی کے رہنما کے طور پر بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا جس کے بعد جسٹن ٹروڈو سبکدوش ہوگئے۔
امریکی جج نے کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم کی ملک بدری پر عائد پابندی میں توسیع کر دی

امریکا کے ایک وفاقی جج نے کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کی ملک بدری پر عائد پابندی میں مزید توسیع کر دی ہے جو اس وقت امیگریشن حراست میں ہیں۔ یہ کیس اس وقت شدید تنازعے کا شکار ہے کیونکہ یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں فلسطین کے حامی کالج ایکٹوسٹس کی ملک بدری کے وعدے کی عکاسی کرتا ہے۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس ڈسٹرکٹ جج جیسے فرمین نے اس ہفتے کے آغاز میں محمود خلیل کی ملک بدری کو عارضی طور پر روکا تھا اور بدھ کو مزید وقت دینے کی غرض سے اس حکم میں توسیع کی۔ اس فیصلے کے پیچھے دلیل یہ تھی کہ جج خود کو اس بات پر غور کرنے کا مزید وقت دینا چاہتے ہیں کہ آیا خلیل کی گرفتاری آئین کے خلاف ہے یا نہیں۔ اس کے جواب میں امریکی حکومت کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی فائلنگ میں کہا گیا کہ وزارت خارجہ کے سکریٹری مارکو روبیو کو یقین ہے کہ محمود خلیل کی سرگرمیاں یا امریکا میں موجودگی امریکا کی خارجہ پالیسی کے لیے سنگین مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: یونان میں لاکھوں لوگوں کے مظاہروں نے حکومت بدلنے پر مجبور کر دیا ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کا موقف ہے کہ محمود خلیل کو اس بنیاد پر ملک بدر کیا جا رہا ہے کہ ان کی موجودگی امریکی خارجہ پالیسی سے متصادم ہے جس کے باعث وہ ملکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت عالمی سطح پر زیر بحث ہے کیونکہ نیو یارک میں ٹرمپ ٹاور کے سامنے ایک بڑے احتجاج کا آغاز ہوا ہے، جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ یہ احتجاج جیوئش وائس فار پیس نامی گروپ نے منظم کیا جو ایک ترقی پسند یہودی تنظیم ہے اور فلسطینی حقوق کی حمایت کرتی ہے۔ اس گروپ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ ٹرمپ ٹاور کو ‘قبضہ’ کر رہے ہیں تاکہ امریکی حکومت کے اس اقدام کے خلاف اپنی سخت مخالفت ظاہر کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم نہیں چاہتے کہ فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کو اس فاشسٹ حکومت کے ذریعے نشانہ بنایا جائے جو اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو سزا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔” یہ معاملہ نہ صرف محمود خلیل کے مستقبل کو متاثر کر رہا ہے بلکہ یہ امریکا میں آزادی اظہار اور فلسطینی حقوق کی حمایت کرنے والے افراد کے خلاف جاری حکومتی کارروائیوں کی ایک غمگین مثال بھی بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: چین اور روس کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام کا دفاع، مذاکرات کی تجویز کو مسترد کردیا
چین اور روس کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام کا دفاع، مذاکرات کی تجویز کو مسترد کردیا

چین اور روس نے ایران کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عالمی سطح پر جاری تناؤ کے درمیان، چین اور روس نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ مذاکرات صرف “باہمی احترام” کی بنیاد پر ہونے چاہئیں اور اس کے لیے تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔ یہ باتیں اس وقت سامنے آئیں جب چین کے نائب وزیر خارجہ ما ژاؤ شو، روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف اور ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے بیجنگ میں ایک اہم ملاقات کے بعد مشترکہ بیان جاری کیا۔ دونوں ممالک نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ‘مکمل طور پر پرامن’ مقصد کے لیے تسلیم کیا ہے اور اس کے ایٹمی توانائی کے استعمال کے حق کو ‘مکمل طور پر’ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں مزید دو معصوم بچوں کو شہید کر دیا 2015 میں ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے بین الاقوامی پابندیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم 2018 میں امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر انخلا کر لیا جس کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ چین کے نائب وزیر خارجہ ما ژاؤ شو نے اس ملاقات کے بعد کہا کہ چین، روس اور ایران اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کی جڑ کو حل کرنے کے لیے تمام فریقین کو ‘دباؤ، دھمکی یا طاقت کے استعمال’ سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عالمی سطح پر ایران کے خلاف تمام ‘غیر قانون’ یکطرفہ پابندیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ امریکا کی جانب سے ایران کو ایٹمی مذاکرات کی دعوت کے بعد ایران نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ لازمی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی اور برازیل کی عجیب منطق: درخت کاٹ کر سڑک تعمیر دوسری جانب چند روز قبل امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے ایٹمی مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ایران کے ساتھ دو طریقے ہیں یا تو جنگ ہو گی یا پھر ایک معاہدہ کیا جائے گا”۔ ایران نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا سے مذاکرات نہیں کرے گا جب تک کہ اس پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے کہا کہ “ہم امریکا کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے جب تک کہ ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہوں۔” اس تمام صورتحال کے بعد ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چھ ارکان کے حالیہ اجلاس پر شدید تنقید کی ہے جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر بات کی گئی تھی۔ ضرور پڑھیں: ‘ہم جنگ بندی کی تجویز کو مانتے ہیں لیکن کچھ شرائط ہیں’ ولادیمیر پوتن ایران نے اس اجلاس کو ‘سلامتی کونسل کے وسائل کا غلط استعمال’ قرار دیا اور کہا کہ یہ اجلاس اس کے ایٹمی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایران نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ کبھی بھی ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) نے حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ ایران اپنی یورینیم کی افزودگی کو تیزی سے بڑھا رہا ہے اور اس کی سطح تقریبا 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے ضروری مقدار ہے۔ یہ عالمی تناؤ ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں ایران کی ایٹمی سرگرمیاں عالمی طاقتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں اور چین اور روس نے اس تناظر میں ایران کے ساتھ اپنی حمایت کو مزید مضبوط کیا ہے۔ مزید پڑھیں: یونان میں لاکھوں لوگوں کے مظاہروں نے حکومت بدلنے پر مجبور کر دیا
‘ہم جنگ بندی کی تجویز کو مانتے ہیں لیکن کچھ شرائط ہیں’ ولادیمیر پوتن

صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ روس یوکرین میں جنگ بندی کی امریکی تجویز کو اصولی طور پر قبول کرتا ہے، لیکن اس نے کچھ شرائط اور وضاحتیں مانگی ہیں، جس کی وجہ سے لڑائی فوری طور پر ختم نہیں ہو سکتی۔ فروری 2022 میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا، تو اس جنگ نے لاکھوں افراد کی جان لے لی، بے شمار لوگوں کو زخمی اور بے گھر کر دیا، کئی شہروں کو تباہ کر دیا اور روس اور مغربی ممالک کے درمیان سخت کشیدگی پیدا کر دی۔ امریکا کی جنگ بندی کی تجویز پر پوتن کی حمایت کو واشنگٹن کے لیے ایک مثبت اشارہ سمجھا جا رہا ہے، تاکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مزید بات چیت کا راستہ کھل سکے۔ تاہم، پوتن کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کو مکمل ہونے سے پہلے کئی معاملات کو واضح کرنا ضروری ہے، اور اس جنگ کی اصل وجوہات کو بھی حل کرنا ہوگا۔ روس نے یوکرین پر حملے کو “خصوصی فوجی آپریشن” کہا تھا، جس کا مقصد یوکرین کو غیر مسلح کرنا اور نیٹو کی توسیع کو روکنا تھا۔ پوتن نے کریملن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “ہم جنگ بندی کی تجویز کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایک اچھا خیال ہے، اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن یہ جنگ بندی ایسی ہونی چاہیے جو لمبے عرصے تک امن قائم رکھ سکے اور اس بحران کی اصل وجوہات کو بھی ختم کرے۔” پوتن نے کئی مسائل کا ذکر کیا جن پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے، اور انہوں نے ٹرمپ کا شکریہ بھی ادا کیا۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں ایک امن ساز کے طور پر یاد رکھے جانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ روسی صدر سے فون پر بات کرنے کو تیار ہیں اور پوتن کے بیان کو “حوصلہ افزا” قرار دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ روس صحیح فیصلہ کرے گا۔ ٹرمپ کے ایک خاص نمائندے سٹیو وٹ کوف اس وقت ماسکو میں روسی حکام کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں، اور یوکرین پہلے ہی اس تجویز پر رضامند ہو چکا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ جمعرات کو ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوگا کہ آیا روس معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ اگر روس تیار نہ ہوا تو یہ دنیا کے لیے مایوسی کی بات ہوگی۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ پوتن جنگ بندی کی تجویز کو رد کرنے والے ہیں، لیکن وہ ٹرمپ کو یہ بات کھل کر نہیں بتانا چاہتے۔ زیلنسکی نے کہا کہ اسی وجہ سے روس نے جنگ بندی کے حوالے سے شرائط رکھ دی ہیں، تاکہ جنگ بند نہ ہو، یا کم از کم کافی وقت تک نہ ہو۔
موسمیاتی تبدیلی اور برازیل کی عجیب منطق: درخت کاٹ کر سڑک تعمیر

برازیل کو اس نومبر میں موسمیاتی سربراہی اجلاس کے لیے ایمیزون کے جنگلات کو صاف کرکے ہائی وے بنانے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ بیلیم میں ہونے والے اس اجلاس کے لیے چار لائنوں والی شاہراہ تعمیر کی جا رہی ہے تاکہ عالمی رہنماؤں اور ہزاروں مندوبین کی آمدورفت کو آسان بنایا جا سکے، لیکن یہ منصوبہ خطے کے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کے خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ ریاستی حکومت نے یہ منصوبہ تقریباً ایک دہائی قبل پیش کیا تھا، لیکن ماحولیاتی تحفظات کی وجہ سے یہ کئی بار تاخیر کا شکار رہا۔ اب، سربراہی اجلاس سے پہلے، حکومت بیلیم کو بہتر انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لیے دیگر ترقیاتی منصوبوں جیسے ہوائی اڈے کی توسیع، بندرگاہوں کی تزئین و آرائش اور ہوٹلوں کی تعمیر کے ساتھ اس منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ حکومت اس شاہراہ کو “پائیدار” قرار دے رہی ہے، جس میں سائیکل لین، وائلڈ لائف کراسنگ اور شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹس شامل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تاہم، مقامی باشندے اور ماحولیاتی تنظیمیں اس سے متفق نہیں ہیں۔ مقامی کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی زمین اور روزگار متاثر ہو رہے ہیں۔ تحفظ پسندوں نے خبردار کیا ہے کہ جنگلات کی کٹائی سے ایمیزون کا نازک ماحولیاتی توازن بگڑ سکتا ہے، جو عالمی کاربن جذب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک موسمیاتی اجلاس کے لیے جنگلات کو نقصان پہنچانا اس کے مقصد کے خلاف جاتا ہے۔ برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا اور وزیر ماحولیات نے یہ کہتے ہوئے اس اجلاس کا دفاع کیا ہے کہ یہ ایمیزون کے مسائل کو اجاگر کرنے کا موقع ہوگا۔ تاہم، جیسے جیسے اجلاس قریب آ رہا ہے، یہ بحث شدت اختیار کر رہی ہے کہ آیا موسمیاتی سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے جنگلات کو تباہ کرنا درست فیصلہ ہے یا غلط۔