ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے مطالبات مسترد کرنے پر 2.2 ارب ڈالر کی امداد روک دی

صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے 2.2 ارب ڈالرز کے وفاقی فنڈز منجمد کیے جا رہے ہیں۔ یہ اعلان اُس کے فوراً بعد آیا جب ہارورڈ نے وہ مطالبات مسترد کر دیے جو وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ہفتے ایک سرکاری خط میں بھیجے تھے۔  مطالبات بظاہر یہ تھے کہ یونیورسٹی میں یہودی طلباء کے خلاف بڑھتی نفرت کا سدباب کیا جائے۔ ہارورڈ کے صدر، ایلن گاربر نے ایک جذباتی اور دو ٹوک خط میں جواب دیا کہ “ہم کسی بھی قیمت پر اپنی خودمختاری ترک نہیں کریں گے۔ آزادی اظہار اور تعلیمی آزادی ہماری بنیاد ہے، اور ہم اسے قربان نہیں کر سکتے۔” صدر ٹرمپ، جو کہ تعلیمی اداروں پر اپنی سخت پالیسیوں کے لیے مشہور ہیں، وہ پہلے بھی کولمبیا یونیورسٹی سے 400 ملین ڈالرز کی امداد روک چکے ہیں۔ لیکن ہارورڈ کے خلاف کارروائی، اپنی شدت اور مالی حجم کی وجہ سے ایک نئی نظیر قائم کر رہی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطالبات میں یہ شامل تھا کہ “امریکی اقدار کے مخالف” سمجھے جانے والے طلباء کی رپورٹنگ کی جائے، ہر تعلیمی شعبے میں “نظریاتی تنوع” کو یقینی بنایا جائے، حکومت کی منظور شدہ کسی بیرونی ایجنسی سے جامع آڈٹ کروایا جائے اور ہارورڈ کی ڈائیورسٹی، ایکویٹی اور انکلوژن (DEI) سے متعلق تمام پالیسیوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا انسانی حقوق کا علمبردار یا صرف طاقت کا سوداگر؟ یہ سب صرف اس لیے کہ کیمپس میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہروں کے دوران بعض نعروں کو “یہود مخالف” سمجھا گیا۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ ہارورڈ نے یہودی طلباء کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی دکھائی ہے۔ ہارورڈ کے سینئر اساتذہ نے نہ صرف وائٹ ہاؤس کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے بلکہ اسے “آزادی رائے پر حملہ” قرار دیا ہے۔ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ “یہ معاملہ صرف فنڈز کا نہیں، بلکہ ہماری سوچ اور تدریسی آزادی کا ہے۔ آج ہارورڈ ہے، کل کوئی اور ہوگا۔” اس کے علاوہ جب کولمبیا اور ٹفٹس یونیورسٹی کے وہ طلباء، جنہوں نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کی، امیگریشن حکام کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے۔ یہ محض اتفاق تھا، یا دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی؟ کسی کو علم نہیں۔ وائٹ ہاؤس نے عندیہ دیا ہے کہ اگر دیگر یونیورسٹیاں بھی حکومتی پالیسیوں سے انکار کریں تو وہی انجام اُن کا بھی ہو سکتا ہے۔ اب امریکا میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ “کیا حکومت کو اتنا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ علمی اداروں کو مالی طاقت کے زور پر جھکا سکے؟” مزید پڑھیں: امریکا نے اسرائیل کو 18 کروڑ ڈالر کے ٹینک انجن فروخت کرنے کی منظوری دیدی

امریکا نے اسرائیل کو 18 کروڑ ڈالر کے ٹینک انجن فروخت کرنے کی منظوری دیدی

امریکا نے اسرائیل کو 18 کروڑ ڈالر مالیت کے ہیوی وہیکل انجن فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں کشیدگی عروج پر ہے اور اسرائیل اپنی فوجی طاقت میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔ امریکی دفاعی سلامتی تعاون ایجنسی نے اس معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انجن اسرائیلی افواج کو جنگی زون میں تیز رفتار اور محفوظ نقل و حرکت فراہم کریں گے۔  یہ صرف انجن نہیں، بلکہ ایک مکمل پیکیج ہے جس میں پرزہ جات، تکنیکی معاونت، اور لاجسٹک سپورٹ بھی شامل ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق یہ اقدام اسرائیل کی سرحدی دفاعی صلاحیت کو مزید مضبوط بنائے گا، تاہم اس کا دعویٰ ہے کہ یہ معاہدہ خطے کے فوجی توازن کو متاثر نہیں کرے گا۔ ماہرین کے مطابق اس پیش رفت سے اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی کو نئی جہت ملے گی اور شاید خطے میں طاقت کا توازن ایک بار پھر لرزنے لگے گا۔ مزید پڑھیں: امریکا انسانی حقوق کا علمبردار یا صرف طاقت کا سوداگر؟

اربوں کا بینک اسکینڈل، انڈیا کا مفرور جیولر بیلجیم میں گرفتار

بیلجیم سے ایک ایسی خبر آئی ہے جس نے انڈیا کے مشہور بینک فراڈ کیس کو ایک بار پھر سرخیوں میں لا کھڑا کیا ہے۔ سات سال سے مفرور، انڈیا کا مطلوب ترین جیولر مہول چوکسی بالآخر قانون کی گرفت میں آ گیا۔ انڈیا کی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ایک معتبر ذرائع نے  عالمی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو تصدیق کی ہے کہ چوکسی کو بیلجیم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ وہی مہول چوکسی ہے جس پر اپنے بھتیجے نیرو مودی کے ساتھ مل کر انڈیا کے دوسرے بڑے سرکاری بینک، پنجاب نیشنل بینک (PNB) کو تقریباً 2 ارب ڈالر کے فراڈ میں جھونکنے کا الزام ہے۔ 2018 میں سامنے آنے والے اس اہم مالیاتی اسکینڈل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا جب PNB کی ممبئی برانچ میں اس منفرد دھوکہ دہی کا انکشاف ہوا۔ مہول چوکسی، جو گیتانجلی جیمز کا منیجنگ ڈائریکٹر رہا ہے، اس نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انڈیا کی تحقیقاتی ایجنسیوں پر جانبداری کا الزام لگایا تھا۔  2018 میں ایک خط کے ذریعے اس نے دعویٰ کیا کہ “تحقیقاتی ادارے پہلے سے طے شدہ ذہن کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں۔” جہاں نیرو مودی پہلے ہی برطانیہ میں حراست میں ہے اور ایک ایکسٹراڈیشن اپیل ہار چکا ہے وہیں چوکسی کی گرفتاری ایک بڑی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ انڈین حکومت پہلے ہی اس کی حوالگی کے لیے درخواست دے چکی ہے تاہم قوی امکان ہے کہ چوکسی میڈیکل گراؤنڈز پر اس کا دفاع کرے گا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا نے 2008  کے ممبئی حملوں کے ایک اہم ملزم کو انڈیا کے حوالے کیا اور یہ بلاشبہ انڈیا کے لیے انصاف کی جانب ایک اور قدم ہے۔ مزید پڑھیں: یورپی یونین کا فلسطین کے لیے 1.8 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان

یورپی یونین کا فلسطین کے لیے 1.8 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان

یورپی یونین نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر ایک نیا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ فلسطینی عوام کے لیے امید کی نئی کرن بن کر سامنے آنے والا یہ اقدام 1.6 ارب یورو (تقریباً 1.8 ارب ڈالر) کی ایک زبردست مالی پیکج کی صورت میں آیا ہے، جو اگلے تین سالوں تک فلسطینی اتھارٹی کو فراہم کیا جائے گا۔ یورپی کمشنر برائے مشرقی بحیرہ روم ‘دوبراوکا شوئیکا’ نے عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ یہ امداد محض مالی تعاون نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی میں شفافیت، اصلاحات اور بہتر طرز حکمرانی کی ایک نئی بنیاد بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی خود کو بہتر بنائے تاکہ وہ نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ اسرائیل کے لیے بھی ایک بااعتماد اور مضبوط شراکت دار کے طور پر ابھرے۔” یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ کے مابین ایک اعلیٰ سطحی سیاسی ڈائیلاگ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ یہ اجلاس پیر کو لکسمبرگ میں منعقد ہو گا، جو فلسطین-یورپی تعلقات میں ایک تاریخی لمحہ ہو گا۔ یہ بھی پڑھیں: مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ کے لیے تیار رہنا، امریکا کی ایران کو دھمکی اس مالی پیکج کے تحت 620 ملین یورو براہ راست فلسطینی اتھارٹی کی بہتری اور اصلاحات کے لیے مختص ہوں گے، 576 ملین یورو مغربی کنارے اور غزہ میں “بحالی و استحکام” کے لیے دیے جائیں گے جبکہ یورپی انویسٹمنٹ بینک کی جانب سے 400 ملین یورو کے قرضے بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ یورپی یونین فلسطینیوں کی سب سے بڑی مالی مدد فراہم کرنے والی طاقت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا ستم ختم ہو، تو فلسطینی اتھارٹی نہ صرف مغربی کنارے بلکہ غزہ کی بھی بااختیار انتظامیہ بنے۔ تاہم، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت مسلسل اس خواب کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے نہ صرف فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کرتی ہے بلکہ غزہ کو بھی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کے خلاف ہے۔ اس پس منظر میں یورپی یونین کا یہ فیصلہ ایک جرات مندانہ قدم ہے۔ لازمی پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں چھ سگے بھائیوں سمیت 37 معصوم افراد کو شہید کردیا

مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ کے لیے تیار رہنا، امریکا کی ایران کو دھمکی

دنیا کو ایک بار پھر جنگ کی بو محسوس ہونے لگی ہے، ایران کے جوہری پروگرام پر امریکی موقف نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کردی ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ کی زبان سے نکلے الفاظ محض ایک بیان نہیں، بلکہ ایک اعلان جنگ کے مترادف سمجھے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ہم نے پہلے بھی اپنی فوجی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم دوبارہ کریں گے۔” یہ الفاظ دنیا کو 2003 میں عراق کی جنگ کی یاد دلواتے ہیں، لیکن اس بار ہدف ایران ہے، وہی ایران جس پر مغرب کو شبہ ہے کہ وہ جوہری بم کی تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں شروع ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کو عالمی میڈیا نے ایک نئی امید کا نام دیا، لیکن امریکی قیادت کے بیانات اس امید پر شبہات کے بادل لے آئے ہیں۔ پیٹ ہیگسیتھ نے سی بی ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں نہ صرف مذاکرات کو “نتیجہ خیز” قرار دیا بلکہ یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر سفارتکاری ناکام ہوئی تو فوجی آپشن میز پر موجود ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدور قتل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقف کو مزید سخت بناتے ہوئے بدھ کے روز اعلان کیا کہ “اگر ایران پیچھے نہ ہٹا تو اسرائیل کے ساتھ مل کر کارروائی بالکل ممکن ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نہ صرف اس میں شامل ہوگا بلکہ ممکنہ طور پر قیادت بھی کرے گا۔ ان الفاظ نے مشرق وسطیٰ میں ایک بار پھر خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ ایران کی جانب سے البتہ مکمل خاموشی نہیں بلکہ ایک بار پھر جوہری ہتھیار بنانے کی تردید کی گئی ہے۔ تہران کا مؤقف واضح ہے کہ “ہم پرامن جوہری توانائی چاہتے ہیں، نہ کہ تباہی کے ہتھیار۔” مگر دوسری جانب مغربی انٹیلیجنس رپورٹس یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول سے صرف چند ہفتوں کے فاصلے پر ہے۔ یاد رہے کہ یہ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کرچکا ہے جب صدر ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کی تھی۔ اس فیصلے نے نہ صرف عالمی اعتماد کو مجروح کیا بلکہ ایران کو دوبارہ اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دینے کا بہانہ بھی فراہم کر دیا۔ اب سوال یہ  پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا ایک اور جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے؟ یا سفارت کاری کی باریک لکیر پر توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے؟ مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں چھ سگے بھائیوں سمیت 37 معصوم افراد کو شہید کردیا

اسرائیلی فورسز نے غزہ میں چھ سگے بھائیوں سمیت 37 معصوم افراد کو شہید کردیا

غزہ میں چھ جوان بھائی اپنے لوگوں کے لیے خوراک لے جا رہے تھا مگر اسرائیلی بمباری نے ان کے قدم ہمیشہ کے لیے روک دیے۔  چھ کے چھ بھائی ایک ساتھ زمین پر گرے، خون سے لت پت۔ ان کی عمریں 10 سے 34 سال کے درمیان تھیں لیکن جذبہ ایک جیسا، انسانیت کی خدمت۔ یہ منظر کوئی فلمی سین نہیں، بلکہ حقیقت ہے۔ ان بھائیوں کے والد، زکی ابو مہدی جو خود اس جنگ میں کئی رشتہ داروں کو کھو چکے ہیں نم آنکھوں سے کہتے ہیں کہ “میرے بیٹوں کے ہاتھ میں صرف روٹی تھی، بندوق نہیں، پھر بھی وہ شہید کر دیے گئے۔” غزہ پر اسرائیلی مظالم رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے، اتوار کے دن ہونے والی بمباری میں کم از کم 37 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے تصدیق کی ہے کہ ایک معصوم بچہ طبی امداد نہ ملنے کے باعث زندگی کی بازی ہار گیا، صرف اس لیے کہ دوا کا راستہ بھی جنگ نے روک دیا۔ یہ بھی پڑھیں: ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدور قتل شمالی غزہ کا ال اہلی اسپتال، جو کبھی امید کی کرن تھا وہ اب کھنڈر بن چکا ہے۔ اس سے قبل ہفتے کی شب اسرائیلی طیاروں نے اسپتال پر بمباری کر کے نہ صرف وہاں کے مریضوں، بلکہ انسانیت پر بھی حملہ کیا۔ لوگ جو موت سے بچنے کے لیے اسپتال کا سہارا لیتے تھے اب گلیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب سعودی عرب نے اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے کھلا انسانی جرم قرار دیا جب کہ برطانیہ نے بھی حملے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ادھر غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، جنگ کے آغاز سے اب تک 50 ہزار 944 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جب کہ حکومت کے میڈیا دفتر کا کہنا ہے کہ اصل تعداد 61 ہزار 700 سے تجاوز کر چکی ہے، کیونکہ ہزاروں افراد ابھی تک ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ صرف ایک نمبر بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ جنگ صرف زمین کی نہیں، ضمیر کی جنگ ہے۔ اور جب چھ سگے بھائی صرف اس لیے مارے جائیں کہ وہ بھوکوں کو کھانا دے رہے تھے تو سوال یہ نہیں ہوتا کہ جنگ کب ختم ہوگی… سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت کب جاگے گی؟ مزید پڑھیں: ‘اس سال کا سب سے بڑا حملہ’ یوکرین میں 21 افراد ہلاک 83 زخمی

امریکا انسانی حقوق کا علمبردار یا صرف طاقت کا سوداگر؟

13 اپریل کو جب امریکا سمیت پورا مغربی نصف کرہ “پین-امریکا ڈے” مناتا ہے تو اس دن کی گہری تہہ میں صرف رنگا رنگ تقاریب یا جھنڈوں کی سجاوٹ نہیں، بلکہ ایک ایسا پیغام پوشیدہ ہوتا ہے جو اتحاد، یکجہتی اور بھائی چارے کا عکاس ہے۔ یہ دن محض ایک روایت نہیں بلکہ اس خیال کا جشن ہے کہ امریکا، یعنی شمالی، وسطی اور جنوبی حصے کے تمام ممالک باہمی احترام اور تعاون کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے یہ دن منایا جا رہا ہے ویسے ہی ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا آج کا امریکا وہی امریکا ہے جس نے پین-امریکن ڈے کے جذبے کو جنم دیا تھا؟ 1930 کی دہائی میں جب “انٹرنیشنل یونین آف امریکن ریپبلکس” کی بنیاد رکھی گئی تو امریکا عالمی قیادت کا وہ چہرہ بن کر ابھرا جو ترقی، تعاون اور امن کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔  پین-امریکن ڈے اس تصور کی علامت بنا کہ مختلف ثقافتیں، زبانیں اور نظریات رکھنے والے ممالک ایک جھنڈے تلے اکٹھے ہو سکتے ہیں اور یہ جھنڈا صرف امریکا کا نہیں بلکہ پورے براعظم کی وحدت کا ہے۔ اور پھر آیا وہ وقت جب امریکا “مانیٹر” بن گیا۔ پھر وقت بدلا، سرد جنگ کی آندھی چلی اور امریکا کا کردار ’نگران‘ سے ’حاکم‘ میں ڈھلنے لگا۔ ویت نام، عراق، افغانستان… ایک کے بعد ایک جنگ اور ہر جنگ کے پیچھے وہی پرانا جواز “دنیا کو بچانا” ہے۔ لیکن ان دعووں کے بیچ امریکا کی اپنی معیشت، فوجی نفسیات اور عوامی رائے بکھرتی چلی گئی۔ افغانستان کی جنگ نے نہ صرف لاکھوں زندگیاں نگلیں بلکہ امریکی سپاہیوں کو نفسیاتی اذیت کے ایسے گڑھے میں دھکیل دیا جہاں سے نکلنا آج تک ممکن نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ روس کے خوف میں مبتلا امریکا نے یوکرین کے ذریعے ایک اور جنگ چھیڑ دی، یہ سوچے بغیر کہ ہر بار ’جمہوریت بچانے‘ کے نام پر دنیا کا کون سا حصہ جلایا جا رہا ہے۔ 2016 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ پہلی بار اقتدار میں آیا تو یہ واضح ہو چکا تھا کہ امریکا اب “عالمی محافظ” کے خول سے باہر نکل رہا ہے۔ ٹرمپ نے یہ خول ایسے پھاڑا کہ پوری دنیا سکتے میں آ گئی۔ اس کی پالیسیز ایک بزنس مین کے ذہن کی عکاسی تھیں، نفع ہو تو دوستی، نقصان ہو تو دشمنی۔ امپورٹس پر پابندیاں، چین پر اقتصادی حملے، انڈیا کے ساتھ سخت تجارتی شرائط، یورپ کی بے رخی، نیٹو پر تنقید اور یہ سب اس بات کی علامت بن گئے کہ امریکا اب صرف امریکا کے لیے سوچتا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سید محمد غلام حسین (ماہر سیاسیات) نے کہا کہ “ٹرمپ کی پالیسیز نے دنیا کو تقسیم کیا ہے، خاص طور پر مسلم ممالک کو۔ انکا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا ‘امریکا فرسٹ’ نعرہ دنیا کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ لیکن وہ مسلمانوں کو یہ سکھا گیا کہ عالمی سیاست میں جذبات نہیں، صرف مفادات چلتے ہیں۔” اس سے قبل سابق صدر جوبائیڈن کے دور حکومت میں امید کی ایک کرن دکھائی دی تھی جب یوکرین کی جنگ میں بھرپور حمایت، روس کے خلاف موقف اور دنیا کے ساتھ سفارتی روابط کی بحالی نے ایک بار پھر امریکا کو اس کے اصل چہرے کی طرف لوٹانے کی کوشش کی۔ لیکن اچانک منظرنامہ ہی بدل گیا، بائیڈن بیمار ہوتے ہیں تو قیادت کمزور پڑتی ہے اور ٹرمپ ایک بار پھر سیاسی میدان میں کود پڑتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب یوکرین کو اپنے وجود کی جنگ لڑنی ہے مگر ٹرمپ روس کی حمایت میں نرم گوشہ دکھانے لگتے ہیں۔ یوکرینی صدر زیلنسکی کا اعتماد لرزنے لگا، یورپ میں بے چینی بڑھنے لگی اور دنیا کو ایک بار پھر وہی امریکا دکھائی دیتا ہے جو صرف اپنی سوچتا ہے۔ ٹرمپ اب کی بار ایک مختلف انداز میں واپس آیا ہے اور وہ صرف سیاستدان نہیں بلکہ ایک کاروباری حکمت عملی کے ساتھ عالمی شطرنج پر چالیں چل رہا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر انور مسعود نے کہا ہے کہ “امریکا فرسٹ” پالیسی نے نہ صرف امریکا کے عالمی اتحادیوں کو الجھن میں ڈالا بلکہ انسانی حقوق کے لیے امریکا کے دعووں کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔ ٹرمپ کی واپسی کی صورت میں یہ پالیسی دوبارہ زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب دنیا پہلے ہی غزہ میں انسانی المیے، یوکرین میں روسی جارحیت اور چین سے معاشی تناؤ جیسے بحرانوں سے نبرد آزما ہے۔ روس سے روابط، چین پر دباؤ، غزہ میں اسرائیل کی کھلی حمایت، یہ سب اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی نظریں صرف امریکا کی معیشت پر ہیں چاہے اس کے لیے انسانی حقوق، عالمی قوانین یا پرانی دوستیوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ ڈاکٹر غلام حسین نے مزید کہا کہ “ٹرمپ نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے دنیا کو نفرت، نسل پرستی میں تقسیم کردیا ہے۔ یہاں تک امریکا میں اُس کے دور میں مسلمانوں کو دہشت گرد اور ترقی پذیر ممالک کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ وہ لیڈر کم اور بدتمیز انسان زیادہ لگتا ہے۔” پین-امریکن ڈے کی روح اب دھند میں چھپتی جا رہی ہے۔ آج جب لوگ پین-امریکن ڈے مناتے ہیں تو یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی امریکا وہ ملک ہے جو اتحاد کا علمبردار تھا؟ یا اب وہ صرف ایک ایسا تاجدار بن چکا ہے جو دوسروں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے؟ پروفیسر انور مسعود نے کہا ہے کہ پین-امریکن ڈے کا پیغام برابری اور باہمی احترام ہے، لیکن موجودہ خارجہ پالیسی “پہلے امریکا” کے نعرے کے نیچے صرف مخصوص مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ امریکا بین الاقوامی ہم آہنگی سے زیادہ طاقت کے توازن کو فوقیت دیتا ہے، جو پین-امریکن فلسفے کی نفی ہے۔ ٹرمپ کا “گریٹر امریکا” کا خواب، کیا واقعی اس قوم کو بلندیوں تک لے جائے گا یا پھر اس خواب میں چھپی خود غرضی، امریکی ریاستوں کو ایک دوسرے سے دور کر دے گی؟ پین-امریکن ڈے ہر سال یاد دلاتا ہے کہ اتحاد، قربانی، اور ہم

‘اس سال کا سب سے بڑا حملہ’ یوکرین میں 21 افراد ہلاک 83 زخمی

یوکرین کے شمالی شہر سومی میں اتوار کی صبح روسی بیلسٹک میزائل حملے میں کم از کم 21 افراد جان ہلاک ہوگئے جبکہ 83 سے زائد زخمی ہوئے۔ وزیر داخلہ ایہور کلیمینکو نے بتایا کہ حملہ شہر کے مرکزی حصے میں ہوا جہاں لوگ سڑکوں، گاڑیوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور عمارتوں میں موجود تھے۔ حملے کو جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنانے کی کارروائی قرار دیا گیا، خاص طور پر اس دن جب پام سنڈے جیسا مذہبی تہوار منایا جا رہا تھا۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے رواں سال کا سب سے ہلاکت خیز حملہ قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو میں سڑک پر لاشیں، تباہ شدہ بسیں اور جلی ہوئی کاریں دکھائی گئیں۔ زیلنسکی نے دنیا سے روس کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بات چیت بیلسٹک میزائل اور فضائی بموں کو نہیں روک سکتی۔ زیلنسکی کے مطابق، روس جان بوجھ کر ایسی دہشتگرد کارروائیوں کے ذریعے جنگ کو طول دینا چاہتا ہے، اور اگر عالمی برادری خاص طور پر امریکا اور یورپ کی طرف سے سخت دباؤ نہ ڈالا گیا تو امن کا قیام ممکن نہیں ہوگا۔ یوکرینی سیکیورٹی اہلکار اینڈری کووالینکو نے کہا کہ یہ حملہ امریکی ایلچی سٹیو وِٹکوف کے روسی صدر پوٹن سے ملاقات کے کچھ دن بعد ہوا۔ کووالینکو کے مطابق روس سفارتکاری کے پردے میں شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ روس کی وزارت دفاع نے اس کے برعکس الزام لگایا کہ یوکرین نے روسی توانائی کے بنیادی ڈھانچے پر پانچ حملے کیے، جسے ماسکو نے امریکی ثالثی کی خلاف ورزی قرار دیا۔ حالانکہ دونوں ممالک نے پچھلے مہینے توانائی کی تنصیبات پر حملے روکنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن دونوں فریق ایک دوسرے پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں۔ روس نے فروری 2022 سے یوکرین کے بڑے حصے پر حملہ کیا ہوا ہے اور اب مشرقی و جنوبی یوکرین کے تقریباً 20 فیصد حصے پر قابض ہے۔ زمینی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ میزائل اور ڈرون حملوں نے جنگ کے نقشے کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔

انڈیا میں مسلمانوں کی زمینوں پر سرکاری نظر، احتجاج کرنے پر تین لوگوں کو شہید کردیا

مغربی بنگال کی سرزمین جمعے کے روز اچانک شعلہ جوالہ بن گئی، جب وقف ترمیمی بل کے خلاف پرتشدد مظاہروں نے پورے ضلع مرشدآباد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔  جو احتجاج ایک پرامن مطالبے کے ساتھ شروع ہوا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے آگ، آنسو گیس اور چیختی آوازوں میں بدل گیا۔ پولیس کے مطابق جھڑپوں میں تین افراد جاں بحق ہوئے، جن میں ایک معصوم بچہ بھی شامل ہے۔ لمحہ بہ لمحہ بگڑتی صورتحال کے پیش نظر، ریاستی ہائی کورٹ نے وفاقی فورسز کی فوری تعیناتی کا حکم جاری کیا تاکہ حالات قابو میں لائے جا سکیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ نیا وقف بل مسلمانوں کی مذہبی خودمختاری پر کاری ضرب ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون شفافیت کو فروغ دینے کے لیے لایا گیا ہے لیکن عوام کا غصہ کچھ اور کہانی سنا رہا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ اب تک 118 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ 15 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔  شہر کے حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور ڈرونز کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بل کو “تاریخی قدم” قرار دیا ہے لیکن حزب اختلاف اسے فرقہ وارانہ ایجنڈے کی ایک نئی قسط سمجھ رہی ہے۔  راہول گاندھی نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “یہ محض ایک قانون نہیں، بلکہ پوری قوم پر حملہ ہے۔” اس سے پہلے حکومت پر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی حمایت کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے مسلم اقلیت کو حاشیے پر دھکیلنے کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر عوامی غم و غصے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ آگ مزید بھڑک سکتی ہے۔ فی الحال مرشدآباد میں سکوت تو ہے مگر فضا میں بارود کی بو اب بھی موجود ہے۔ مزید پڑھیں: ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدور قتل

ٹرمپ کا یوٹرن: چینی الیکٹرانکس پر 145 فیصد ٹیرف ختم کردیا

ایک ایسے وقت میں جب تجارتی جنگ کے بھڑکنے کی توقع کی جا رہی تھی تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک یوٹرن لے لیا ہے۔  امریکی صدر نے چین سے درآمد ہونے والے اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز، ہارڈ ڈرائیوز، پروسیسرز اور سیمی کنڈکٹرز پر لگایا گیا 145 فیصد بھاری ٹیرف اچانک ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن کی جانب سے جاری ہونے والے جمعہ کی رات کے ایک ہنگامی نوٹس میں سامنے آیا تھا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے حال ہی میں چین پر فینٹانائل کی اسمگلنگ کا الزام عائد کر کے 125 فیصد اضافی ٹیرف نافذ کیا گیا تھا جو پہلے سے لاگو 20 فیصد ٹیرف کے علاوہ تھا۔ لیکن اب انہی اشیاء کو اچانک اس اضافی بوجھ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ ماہرین حیران ہیں کیونکہ یہی وہ مصنوعات ہیں جن کی تیاری امریکا میں تقریباً ختم ہو چکی ہے، اور ان کی مقامی سطح پر پیداوار دوبارہ شروع کرنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ فیصلہ سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ صارفین کے لیے یہ خبر کسی ریلیف سے کم نہیں۔ اگر ٹیرف برقرار رہتا تو اسمارٹ فونز سے لے کر لیپ ٹاپ تک ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو لیتی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ قدم وقتی طور پر سیاسی چال ہے یا ٹرمپ کی تجارتی پالیسی میں واقعی بڑی تبدیلی کی شروعات؟مزید پڑھیں: عالمی ٹیرف جنگ سے سونا ایک بار پھر مہنگا، قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی