’رنگین انقلاب ختم ہو گیا ہے‘ سربیا میں صدر کی حمایت میں ہزاروں افراد کا احتجاج

ہفتے کے روز سربیا، کوسوو اور بوسنیا کے قصبوں سے ہزاروں افراد بسوں کے ذریعے بلغراد پہنچے تاکہ صدر الیگزینڈر ووچک کی حمایت میں منعقد ہونے والی ریلی میں شرکت کر سکیں۔ صدر ووچک کی حکومت کو مہینوں سے جاری بدعنوانی مخالف مظاہروں کی وجہ سے سخت دباؤ کا سامنا ہے، اور ان کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ شہر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، اہم سڑکیں بند رہیں اور پارلیمنٹ کے سامنے فاسٹ فوڈ اور مشروبات کے اسٹالز لگائے گئے۔ اس ریلی کو 15 مارچ کو ہونے والے بڑے حکومت مخالف مظاہرے کا ردعمل تصور کیا جا رہا ہے، جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی، جو حالیہ دہائیوں کا سب سے بڑا احتجاج تھا۔ سربیا میں ایک ریلوے اسٹیشن کی چھت گرنے سے 16 افراد کی ہلاکت کے بعد سے عوامی غصہ بڑھا ہے۔ اس واقعے نے حکومت پر بدعنوانی اور انتظامی لاپرواہی کے الزامات کو مزید ہوا دی، جس کے بعد طلباء، اساتذہ اور کسانوں سمیت مختلف طبقات نے احتجاج شروع کیے۔ صدر ووچک، جو پچھلے 12 سال سے اقتدار میں ہیں، مظاہرین کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “رنگین انقلاب ختم ہو گیا ہے” اور اس بات پر زور دیا کہ احتجاج جتنا بھی ہو، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ریلی کا ایک مقصد ووچک کی سربراہی میں نئی سیاسی تحریک کو فروغ دینا بھی تھا، جو سربیائی پروگریسو پارٹی کے ساتھ مل کر حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی یکجا کرے گی۔ اس تحریک کا باضابطہ آغاز تاحال باقی ہے۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے ویڈیو لنک کے ذریعے ریلی سے خطاب کیا اور سربیائی عوام کو ہنگری کی حمایت کا یقین دلایا۔ تاہم، ملک بھر میں کشیدگی برقرار رہی۔ نووی پزار میں حکومت مخالف کارکنوں نے ریلی میں جانے والی بسوں کو قصبے سے باہر نکلنے سے روکنے کی کوشش کی۔ بلغراد میں بھی مظاہرین نے شہر کے مرکز کی جانب آنے والی بسوں پر انڈے پھینکے، جس پر پولیس نے مداخلت کی۔ حالات دن بھر کشیدہ رہے، اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔

ایران میں دہشت گردوں کا حملہ: باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی مزدور قتل

ایران کے جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان کے دورافتادہ گاؤں “ہزرآباد” میں واقع ایک چھوٹے سے ورکشاپ پر نامعلوم حملہ آوروں نے دھاوا بول دیا۔  یہ وہ جگہ تھی جہاں آٹھ پاکستانی مزدور گاڑیوں کی پالش، پینٹنگ اور مرمت کا کام کرتے تھے۔ یہ محنت کش لوگ، جو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے سرحد پار روزی کما رہے تھے۔ رات کی تاریکی میں حملہ آور آئے، بے رحمی سے مزدوروں کے ہاتھ پیر باندھے اور قریب سے گولیاں مار کر سب کو ہلاک کردیا۔  مقامی ذرائع کے مطابق حملہ اس قدر اچانک ہوا کہ کسی کو بچ نکلنے کا موقع تک نہ ملا سکا۔  اس کے علاوہ سیکیورٹی فورسز جب جائے وقوعہ پر پہنچیں تو لاشیں خون میں لت پت زمین پر بکھری ہوئی تھیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ان 8 پاکستانیوں کے بہیمانہ قتل پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ایرانی حکومت سے قاتلوں کی فوری گرفتاری و سزا کا مطالبہ کیا۔  انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پورے خطے کے لیے خطرناک ہے اور اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانی ہوگی۔  اس کے علاوہ وزیراعظم نے وزارتِ خارجہ اور ایران میں پاکستانی سفارتخانے کو میتوں کی واپسی اور لواحقین سے رابطے کی ہدایت کی۔  دفتر خارجہ نے کہا کہ ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور تصدیق کے بعد باضابطہ بیان دیا جائے گا۔  وزیراعلیٰ مریم نواز نے بھی واقعے پر گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس واقعہ کے بعد اب تک کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر ابتدائی تحقیقات ایک ممکنہ شدت پسند گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو پاک-ایران سرحدی علاقوں میں سرگرم ہے اور پاکستان دشمنی کی بنیاد پر کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ مزید پڑھیں: ‘مذاکرات سے مطمئن’ ایران اور امریکا اگلے ہفتے پھر ملاقات کریں گے دوسری جانب پاکستانی سفارتخانہ حرکت میں آ چکا ہے جبکہ تہران میں موجود سفارتی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ان کے نمائندے جائے وقوعہ پر پہنچ چکے ہیں تاکہ لاشوں کی شناخت، قانونی کارروائی اور متاثرہ خاندانوں کی مدد کو یقینی بنایا جا سکے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی اس واقعے پر شدید ردعمل دیا ہے اور ایرانی حکام سے فوری تحقیقات اور قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستانی سفیر محمد مدثر ٹیپو نے اسے “انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ایسے بزدلانہ حملے دونوں ممالک کے تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہیں۔ ہم ایرانی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کے منتظر ہیں تاکہ انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔” اس سے قبل گزشتہ برس بھی سرحدی شہر سراوان میں نو پاکستانی مزدور اسی طرح قتل کر دیے گئے تھے۔ مسلسل حملوں نے پاکستانی مزدوروں کے اہلخانہ کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے، نہ صرف روزگار کا خواب بکھرتا نظر آ رہا ہے بلکہ اپنوں کو کھو دینے کا ڈر بھی ہر پل منڈلا رہا ہے۔ سیستان بلوچستان ایک عرصے سے بدامنی، اسمگلنگ، اور نسلی کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ مگر اس حالیہ سانحے نے ثابت کر دیا کہ یہاں غیر ملکی مزدور بھی محفوظ نہیں۔ یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فورسز کا اسپتال پر حملہ: بچوں، عورتوں سمیت درجنوں افراد شہید

اسرائیلی فورسز کا اسپتال پر حملہ: بچوں، عورتوں سمیت درجنوں افراد شہید

غزہ کی فضا دھماکوں سے لرز اٹھی، اسرائیلی جنگی طیاروں نے شمالی غزہ کے ال اہلی اسپتال پر بےرحمانہ بمباری کی، جہاں مریض، زخمی، اور نوزائیدہ بچوں کی آخری امید دم توڑتی دکھائی دی۔  ڈاکٹرز نے جان کی پروا کیے بغیر مریضوں کو کندھوں پر اٹھا کر اسپتال سے نکالا لیکن بم برسنے کا سلسلہ نہیں تھما۔ نہتے شہری، جن کا گناہ صرف فلسطینی ہونا ہے، یہ سب بار بار نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ اس بار اسرائیلی فوج نے وسطی نُصیرات کیمپ اور جنوبی خان یونس کے عوام کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا مگر اب لوگ کہاں جائیں؟ زمین بھی اب ان کے لیے تنگ ہو چکی ہے۔ انسانی تاریخ کا سیاہ باب رقم ہو چکا ہے، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 50,912 فلسطینی شہید اور 115,981 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ حکومت کے میڈیا دفتر کا کہنا ہے کہ اصل شہداء کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں ہزاروں ایسے ہیں جو ملبے تلے دبے ہیں اور شہادت پا چکے۔ ادھر قاہرہ میں مصالحتی مذاکرات جاری ہیں لیکن زمینی حقیقت ہر لمحہ مزید ستم خیز ہو رہی ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے میں 1,139 اسرائیلی ہلاک اور 200 سے زائد قیدی بنائے گئے تھے لیکن جواب میں جو کچھ غزہ پر ٹوٹا، وہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ سب ہونے کے باوجود، عالمی ادارے اس حیوانیت پر خاموش ہیں مگر غزہ کے بےگناہ شہداء گواہ ہیں کہ مظلوم کی آہ دیر سے سہی، خالی نہیں جاتی۔ مزید پڑھیں: روس کے یوکرین پر ڈرون حملے، چار افراد زخمی

مذاکرات سے مطمئن ایران اور امریکا اگلے ہفتے پھر ملاقات کریں گے

ایران اور امریکا نے ہفتے کے روز عمان میں ہونے والی بات چیت کو مثبت اور تعمیری قرار دیتے ہوئے اگلے ہفتے دوبارہ مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد ایران کے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو امریکا فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ وہ مذاکرات کی بنیاد کے قریب پہنچ چکے ہیں، اور اگر اگلے ہفتے اس بنیاد کو طے کر لیا گیا تو حقیقی بات چیت کا آغاز ممکن ہو جائے گا۔ انہوں نے ان مذاکرات کو نتیجہ خیز، پرسکون اور مثبت ماحول میں ہونے والی پہلی براہِ راست بات چیت قرار دیا، جو ایران اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان ہوئی ہے۔ عراقچی نے مزید کہا کہ دونوں فریق مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہیں، اور غالب امکان ہے کہ اگلی ملاقات آئندہ ہفتے ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب سے مذاکرات میں سنجیدگی پائی جاتی ہے اور یہ صرف وقت گزاری کے لیے نہیں بلکہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ مسائل پیچیدہ ہیں، لیکن امریکی ایلچی اسٹیون وٹکوف اور ایرانی وفد کے درمیان براہِ راست رابطہ باہمی مفاد کے حصول کی سمت ایک مثبت قدم ہے۔ صدر ٹرمپ نے ہفتے کی رات صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، تاہم انہوں نے مکمل معاہدہ ہونے تک اس پر زیادہ بات نہ کرنے کو ترجیح دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران سے متعلق صورتحال امید افزا ہے۔ پیر کے روز ٹرمپ نے اچانک اعلان کیا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ عمان پہلے بھی مغرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر چکا ہے، خاص طور پر ایران میں قید غیر ملکیوں اور دوہری شہریت رکھنے والوں کی رہائی کے سلسلے میں۔

روس کے یوکرین پر ڈرون حملے، چار افراد زخمی

یوکرینی حکام کے مطابق، روس نے  یوکرین پر ڈرونز  سے حملہ کیے جس کے نتیجے میں چار افراد زخمی ہوئے اور یوکرینی دارلحکومت کیف اور ملک کے دیگر حصوں میں رہائشی و تجارتی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ عالمی خبر ارساں ادرے رائٹرز کے مطابق روس کی جانب سے چھوڑے گئے 88 ڈرونز میں سے 56 کو مار گرایا گیا، جبکہ 24 ڈرونز کو الیکٹرانک وارفیئر کے ذریعے راستہ بھٹکانے میں کامیاب ہوئے۔ کییف کے میئر ویتالی کلیچکو کے مطابق، دارالحکومت میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوئے۔ شہری انتظامیہ کے مطابق، ڈرون کے ملبے نے ایک نجی مکان کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور کئی تجارتی عمارتوں کو نقصان پہنچا، جس کے باعث شہر کے مختلف حصوں میں شدید آگ بھڑک اٹھی۔ شمال مشرقی شہر خارکیف میں بھی ایک شخص زخمی ہوا، جیسا کہ خارکیف کے میئر ایہور تیریکوف نے بتایا۔ علاقائی حکام کا کہنا ہے کہ وسطی علاقے ڈنیپروپیٹرووسک میں بھی رہائشی اور تجارتی عمارتیں متاثر ہوئیں، جبکہ فوجی حکام نے جنوبی علاقے اوڈیسا میں بھی نقصان کی تصدیق کی ہے۔

اسرائیل نے متعدد حملوں میں صرف خواتین اور بچوں کو ہی نشانہ بناکر قتل کیا ہے، اقوامِ متحدہ

اقوام متحدہ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے حالیہ دنوں میں متعدد حملے ایسے کیے ہیں، جن میں صرف خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ نجی نشریاتی ادارے جیو نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کاروں نے بتایا ہے کہ 18 مارچ سے 9 اپریل کے درمیان ایسے کم از کم 36 حملے کیے گئے جن میں نشانہ صرف خواتین اور بچے بنے۔ خلیجی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے تقریباً 3 ہفتوں کے دوران 224 حملے کیے، جن میں رہائشی عمارتوں اور عالمی سطح پر بے گھر افراد کے خیموں کو نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ ان 36 حملوں میں صرف خواتین اور بچوں کی لاشیں ملی ہیں، جو اس بات کی سنگینی کو واضح کرتی ہیں کہ اسرائیلی بمباری کس حد تک عام شہریوں کو ہدف بنا رہی ہے۔ مزید پڑھیں؛ رات بھر زمین کانپتی رہی، ایسا لگتا تھا جیسے قیامت آ گئی ہو، غزہ کے رہائشی رپورٹس کے مطابق گزشتہ رات بھی اسرائیلی فوج نے غزہ پر شدید بمباری کی اور بعض علاقوں میں زمینی پیش قدمی کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق فوج نے غزہ کے شمالی حصے پر جزوی قبضہ بھی کر لیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے غزہ میں جاری خواتین اور بچوں کے قتل عام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے یہ بربریت نہیں دیکھی تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ انسانیت مر چکی ہے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔

المناک حادثہ: ایک ہی خاندان کا سیر و تفریح کا سفر سانحے میں بدل گیا

نیویارک  میں ایک سیاحتی ہیلی کاپٹر دریائے ہڈسن میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں سوار تمام چھ افراد ہلاک ہو گئے، جن میں ایک ہسپانوی خاندان اور ہیلی کاپٹر کا پائلٹ شامل تھا۔ عالمی نشریاتی ادارے سی این این  کے مطابق ہیلی کاپٹر نے مین ہٹن کے ایک ہیلی پورٹ سے پرواز بھری اور حسب معمول راستے پر روانہ ہوا، جو مجسمۂ آزادی کے گرد چکر کاٹتے ہوئے دریائے ہڈسن کے ساتھ ساتھ جارج واشنگٹن پل تک جاتا ہے۔ پرواز کے 16 منٹ بعد ہی، ہیلی کاپٹر نیو جرسی کے قریب پانی میں گر کر تباہ ہو گیا۔ عینی شاہدین نے سی این این کو بتایا کہ ہیلی کاپٹر نےپہلے توازن کھو یا، الٹا ہوا اور پھر پانی میں گر گیا۔ ایک عینی شاہد سارہ جین ریمونڈ کے مطابق، پروپیلر ہیلی کاپٹر سے الگ ہو گیا اور اکیلا ہوا میں گردش کرتا رہا۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں 49 سالہ اگسٹن اسکوبار، ان کی اہلیہ مرسے کمپرُوبی مونتال، ان کے دو بیٹے (4 اور 11 سال کے) اور ایک بیٹی شامل ہے ۔ نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز نے تصدیق کی کہ یہ خاندان اسپین سے آیا تھا۔ جرسی سٹی کے میئر اسٹیون فلوپ نے بتایا کہ خاندان مرسے کی سالگرہ منانے نیویارک آیا تھا۔ سیمنز موبیلیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں اپنے اعلیٰ عہدیدار اگسٹن اسکوبار اور ان کے خاندان کے سانحاتی انتقال پر گہرا دکھ ہے۔ مرسے کمپرُوبی سیمنز انرجی میں عالمی سطح پر کام کر رہی تھیں۔ اسپین کے وزیراعظم پیدرو سانچیز نے بھی اس حادثے کو ناقابلِ تصور المیہ قرار دیتے ہوئے اظہار تعزیت کیا ہے۔ مرسے کمپرُوبی کا تعلق اسپین کے معروف اسپورٹس خاندان سے تھا ان کے دادا اور پردادا دونوں ایف سی بارسلونا کے صدر رہ چکے ہیں۔ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سیانکیز جانسن کی عمر 36 سال تھی۔ انہیں اگست 2023 میں کمرشل ہیلی کاپٹر اڑانے کا لائسنس ملا تھا اور وہ 788 پرواز گھنٹے مکمل کر چکے تھے۔ ان کے دوست اور ساتھی پائلٹ میٹ کلیر کے مطابق، وہ ایک ماہر اور نیک انسان تھے۔ حادثے کی تحقیقات نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کی زیر نگرانی جاری ہیں۔ حکام کی جانب سے ویڈیو شواہد اور تکنیکی معلومات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ حادثے کی اصل وجہ کا تعین کیا جا سکے۔

کیا ایران کا جوہری پروگرام کامیاب ہوگا؟ واشنگٹن اور تہران آج عمان میں مذاکرات کریں گے

ایران اور امریکا آج سنیچر کے روز عمان میں ایک اہم سفارتی ملاقات کرنے جا رہے ہیں جس کا مقصد ایران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت کو بحال کرنا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو فوجی کارروائی کا راستہ اپنایا جائے گا۔ ایران مذاکرات کے لیے تیار تو ہے، لیکن اسے اس عمل پر شبہ ہے کہ یہ کسی با معنی معاہدے کی طرف لے جا سکتا ہے، خاص طور پر ٹرمپ کے رویے کے پیش نظر، جنہوں نے بارہا دھمکی دی ہے کہ ایران نے اگر اپنا جوہری پروگرام بند نہ کیا تو اسے فوجی حملے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دونوں فریق پیش رفت کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں، تاہم اب تک اس پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ مذاکرات براہ راست ہوں گے یا بالواسطہ۔ ایران بالواسطہ مذاکرات کا خواہاں ہے، جبکہ ٹرمپ براہ راست بات چیت پر زور دے رہے ہیں۔ خطے میں جاری تنازعات جیسے کہ غزہ، لبنان، شام، اور بحیرہ احمر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر یہ بات چیت اہم ہے اور یہ کسی حد تک حالات کو پرامن بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر بات چیت ناکام ہوتی ہے تو مشرق وسطیٰ میں ایک بڑے تصادم کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا، خاص طور پر ان ممالک کے لیے جہاں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان اڈوں سے اس پر حملہ کیا گیا تو سنگین نتائج ہوں گے۔یہ بھی پڑھیں: چین کا امریکی ٹیرف کے جواب میں 125٪ ٹیرف لگانے کا اعلان، عالمی تجارت متاثر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے وزیر خارجہ عباس عراقچی کو بات چیت کے لیے مکمل اختیار دے دیا ہے۔ ایران کی طرف سے مذاکرات کی قیادت عراقچی کریں گے جبکہ امریکہ کی نمائندگی مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹ کوف کریں گے۔ ایرانی اہلکار کے مطابق بات چیت کا دورانیہ اور کامیابی اس بات پر منحصر ہو گی کہ امریکی وفد کتنی سنجیدگی اور خیرسگالی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایران نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے میزائل پروگرام یا دفاعی صلاحیتوں پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔ ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن اور سویلین مقاصد کے لیے ہے، لیکن مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ ایران کا یورینیم کی افزودگی کا عمل ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ایران اب 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر چکا ہے، جو ایٹم بم کے لیے مطلوبہ سطح سے محض ایک قدم نیچے ہے۔ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر کے دوبارہ سخت پابندیاں عائد کی تھیں، جس کے بعد ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں تیزی سے بڑھا دی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ مذاکرات امن کی طرف بڑھنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اور واضح کیا کہ امریکہ کسی بھی صورت ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

چین کا امریکی ٹیرف کے جواب میں 125٪ ٹیرف لگانے کا اعلان، عالمی تجارت متاثر

بیجنگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر ٹیرف بڑھانے کے فیصلے کے جواب میں امریکی درآمدات پر ٹیرف میں 125 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اقدام امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے اور عالمی سپلائی چین کو متاثر کرنے کا خطرہ ہے۔ چین کی اس جوابی کارروائی نے عالمی معیشت میں غیر یقینی کی صورتحال کو بڑھا دیا ہے۔ امریکی اسٹاک مارکیٹ میں یہ ہفتہ غیر یقینی صورتحال کا شکار رہا، جبکہ سرمایہ کاروں نے سونے کو محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر چنا، جس کی قیمت ریکارڈ سطح تک جا پہنچی۔ اسی دوران امریکی 10 سالہ بانڈ کی شرح منافع میں نمایاں اضافہ ہوا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سرمایہ کار امریکی معیشت پر اعتماد کھو رہے ہیں۔ ایک حالیہ امریکی سروے سے معلوم ہوا ہے کہ افراط زر کے خدشات 1981 کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر ہیں۔ مالیاتی ماہرین اب کساد بازاری کے امکانات کو پہلے سے زیادہ سنگین قرار دے رہے ہیں۔یہ بھی پڑھیں: کیا ایران کا جوہری پروگرام کامیاب ہوگا؟ واشنگٹن اور تہران آج عمان میں مذاکرات کریں گے صدر ٹرمپ نے معاشی بےچینی کو کم کرنے کی کوشش کی اور پیش گوئی کی کہ مستقبل میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب امریکہ مختلف ممالک سے بہتر تجارتی معاہدے کر لے گا تو محصولات میں نمایاں کمی آ جائے گی، اور یہ شرح 10 فیصد تک بھی محدود ہو سکتی ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اب تک 75 سے زائد ممالک امریکا سے مذاکرات کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں، اور مستقبل قریب میں کئی تجارتی معاہدے متوقع ہیں۔ ہندوستان اور جاپان ان ممالک میں شامل ہیں جو امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات کی راہ پر گامزن ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور چین کی جانب سے ایک دوسرے پر عائد کی جانے والی محصولات دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارت کو شدید متاثر کر سکتی ہیں، جس کی مالیت 2024 میں 650 ارب ڈالر سے زائد تھی۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ اگر امریکا پر حملہ کیا جائے گا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔ اس صورتحال کے نتیجے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں کمی آئی ہے، جبکہ سرمایہ کاروں نے سونے اور دیگر محفوظ اثاثوں کی طرف رخ کیا ہے۔

پاکستانیوں کے لیے سعودی حکومت کا تحفہ، حج کوٹے میں 10 ہزار کا اضافہ کر دیا

حج 2025 کی تیاریاں جوں جوں تیز ہو رہی ہیں، پاکستانی عازمین کے لیے ایک اور خبر سامنے آئی ہے، جس میں سعودی عرب نے پاکستانیوں کے لیے حج کوٹے میں مزید 10 ہزار لوگوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے نے ہزاروں پاکستانیوں کو رواں سال حج کرنے کی ایک نئی امید دی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ پیشرفت اُس وقت سامنے آئی جب نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سعودی وزیر خارجہ سے براہ راست رابطہ کیا۔ پاکستان کی جانب سے حج کوٹے میں اضافے کی خصوصی درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ شہری بھی شامل ہو سکیں جو مقررہ وقت پر رجسٹریشن نہیں کر سکے تھے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین اور سعودی وزیر حج و عمرہ ڈاکٹر توفیق بن فوزان الربیعہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت اب مجموعی طور پر 189,210 پاکستانی عازمین حج 2025 کی سعادت حاصل کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار پاکستانی حجاج کو منیٰ میں خصوصی جگہ فراہم کی جائے گی اور قیمتوں میں بھی کمی کا وعدہ کیا گیا ہے۔  سعودی حکام نے حجاج کو بہتر سے بہتر سہولیات دینے پر مکمل آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ فیصلہ ہزاروں پاکستانیوں کے لیے خواب کی تعبیر بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: حکومت پاکستان کا 53 ہزار ڈی پورٹ پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیلصلہ