رات بھر زمین کانپتی رہی، ایسا لگتا تھا جیسے قیامت آ گئی ہو، غزہ کے رہائشی

غزہ ایک بار پھر خون سے نہا گیا، آج طلوع صبح سے قبل ہی اسرائیلی جنگی طیاروں نے جنوبی غزہ پر قیامت ڈھا دی جس کے نتیجے میں کم از کم 13 نہتے فلسطینی شہید ہو گئے۔ عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیا میں رہائشیوں نے بتایا کہ “رات بھر زمین کانپتی رہی، ایسا لگتا تھا جیسے قیامت آن پہنچی ہو”۔ غزہ کے شہری، جو پہلے ہی موت، بھوک اور بیماریوں سے لڑ رہے ہیں اب ایک اور خطرے سے دوچار ہیں، اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے نام نہاد “بفر زون” کو وسعت دینے کے لیے عمارتوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم کا انتباہ ہے کہ اگر اسرائیل نے امداد کی راہ نہ کھولی تو غزہ میں بیماریاں مزید جانیں نگل جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ دس ہزار سے زائد زخمیوں کو فوری طور پر بیرون ملک منتقل کرنے کی ضرورت ہے مگر اسرائیلی ناکہ بندی سب کے راستے بند کیے ہوئے ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک کم از کم 50,886 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ 115,875 زخمی ہیں۔ تاہم حکومتی میڈیا آفس کے مطابق اصل تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے کیونکہ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ان کی شہادت کی تصدیق باقی ہے۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے جو ظلم کی لہر شروع کی۔ اس نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ غزہ آج دنیا سے ایک ہی سوال کر رہا ہے کہ ” آخر کب تک؟ کب تک معصوموں کا خون بہتا رہے گا؟مزید پڑھیں: انڈیا میں شدید بارشیں: مختلف ریاستوں میں 100 افراد ہلاک ہوگئے
امریکا نے اچانک اربوں ڈالر کے معاہدے منسوخ کر دیے، آخر پینٹاگون میں کیا چل رہا ہے؟

دنیا کی سب سے بڑی فوج کے مرکز میں اچانک ایسا فیصلہ سامنے آیا جس نے نہ صرف ملکی حلقوں کو حیران کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بحث چھیڑ دی۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے غیر متوقع قدم اٹھاتے ہوئے دفاعی بجٹ کے اربوں ڈالرز کے معاہدے منسوخ کر دیے۔ یہ فیصلے کوئی معمولی نوعیت کے نہیں تھے بلکہ ان میں امریکی فضائیہ، بحریہ، ڈیفنس ہیلتھ ایجنسی اور یہاں تک کہ جدید ترین تحقیقاتی ادارہ ڈارپا (DARPA) جیسے بڑے ادارے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پیٹ ہیگستھ نے اعلان کیا ہے کہ ان معاہدوں میں چھپی “فضول خرچی” کو ختم کر کے دفاعی نظام کو زیادہ مؤثر اور مضبوط بنایا جائے گا۔ 5.1 ارب ڈالر مالیت کے 15 بڑے معاہدے ایک ہی دستخط سے ختم کر دیے گئے، سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب امریکی فضائیہ کا جدید کلاؤڈ آئی ٹی سروسز کا معاہدہ یہ کہہ کر منسوخ کر دیا گیا کہ “یہ خدمات موجودہ وسائل سے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔” ڈیفینس ہیلتھ ایجنسی کے تحت چلنے والے مشاورتی معاہدے بھی لپیٹ دیے گئے۔ ایکسنچر، ڈیلائٹ اور بوز ایلن جیسی بڑی نجی کمپنیوں کی مہنگی خدمات کو خیرباد کہہ دیا گیا۔ مزید پڑھیں: انڈیا میں شدید بارشیں: مختلف ریاستوں میں 100 افراد ہلاک ہوگئے امریکی نیوی کے انتظامی دفاتر کے لیے بزنس کنسلٹنگ کے مہنگے پراجیکٹس بھی بند کر دیے گئے۔ ڈارپا جو ہمیشہ سے نئی اور انقلابی ٹیکنالوجیز پر کام کرتا آیا ہے اس کے آئی ٹی ہیلپ ڈیسک سروسز کو بھی ختم کرتے ہوئے کہا گیا کہ “یہ کام موجودہ عملہ با آسانی انجام دے سکتا ہے۔” اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی، کووڈ-19 رسپانس، ڈائیورسٹی، اور دیگر مشاورتی سرگرمیوں سے متعلق 11 معاہدے بھی منسوخ کر دیے گئے۔ وزارت دفاع کے مطابق ان اقدامات سے چار ارب ڈالر کی خطیر بچت ہوگی جسے اب دفاعی نظام کی جدیدیت، فوجی قوت میں اضافہ اور اہم ہتھیاروں کی تحقیق پر خرچ کیا جائے گا۔ یہ اقدام ایک طرف غیر ضروری اخراجات کے خاتمے کا اعلان ہے تو دوسری طرف عالمی دفاعی پالیسی میں ایک نئی سمت کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ صرف بچت کی ایک کوشش ہے یا کسی بڑے اسٹریٹیجک منصوبے کا آغاز؟ لازمی پڑھیں: ہرڈ اور میکڈونلڈ جزائر: جہاں انسان ناپید، مگر امریکی ٹیکس پہنچ گئے
ہرڈ اور میکڈونلڈ جزائر: جہاں انسان ناپید، مگر امریکی ٹیکس پہنچ گئے

دنیا کے نقشے پر ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں نہ کوئی بازار ہے نہ بندرگاہ اور نہ ہی کوئی رہائشی آبادی، مگر امریکی تجارتی پابندیاں وہاں بھی پہنچ گئیں۔ آسٹریلیا کے جنوب مغرب میں 4,000 کلومیٹر دور برف سے ڈھکے، آتش فشانی سرزمین پر مشتمل ‘ہیئرڈ اور میکڈونلڈ جزائر’ بھی حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لگائے گئے تجارتی محصولات (ٹیرِفز) کی زد آگیا۔ جب یہ خبر سامنے آئی کہ ان غیرآباد، سنسان اور سرد ترین جزائر کو بھی امریکی محصولات کا سامنا ہے تو سوشل میڈیا پر مزاحیہ میمز کی بھرمار ہو گئی۔ خاص طور پر جزائر کے سب سے مشہور مکین ‘کنگ پینگوئنز’ کے تصویری خاکے دنیا بھر میں وائرل ہو گئے۔ مگر سائنسدان کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان برفانی جزیروں پر صرف پینگوئنز نہیں بستے بلکہ یہاں ایک ایسی نایاب حیاتیاتی دنیا چھپی ہوئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ یہ جزائر کسی فلمی مناظر کا حصہ لگتے ہیں، چوٹیوں پر برف، نیچے شور مچاتی لہریں، برفانی تودے اور ہر طرف خاموشی میں چیختی ہوئی ہوا۔ محقیقہ ڈاکٹر جسٹین شا جو 2003 میں یہاں دو ماہ تک قیام کر چکی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ “یہ زمین کا دنیا کا وہ کونہ ہے جہاں انسانی نشان نہیں ملتے، یہاں نہ کوئی بندرگاہ ہے نہ ہوائی پٹی۔ ہم وہاں ربڑ کی کشتیوں میں اترے۔ یہ تجربہ کسی سائنس فکشن فلم سے کم نہ تھا۔” جزائر پر موجود ایک پرانا تحقیقی مرکز جو 1955 میں چھوڑ دیا گیا تھا وہ آج صرف ٹوٹی پھوٹی لکڑی اور زنگ آلود دھاتوں کی صورت میں موجود ہے جو ہر پل یہاں کے کٹھور موسم کی مار سہہ رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈیا میں شدید بارشیں: مختلف ریاستوں میں 100 افراد ہلاک ہوگئے میرین ایکولوجسٹ اینڈریو کانسٹیبل 2004 میں 40 دنوں کی ایک سائنسی مہم کی قیادت کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “نو دن تک ہمارا جہاز سمندر کے طوفانوں میں ہچکولے کھاتا رہا۔ دس میٹر اونچی لہریں تھیں اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔” مگر جب ساحل تک رسائی ملی تو جو کچھ اُنہوں نے دیکھا وہ حیرت انگیز تھا۔ انہوں نے بتایا کہ “ہزاروں پینگوئنز، ہاتھی نما سمندری مہر، رنگ برنگے پرندے اور پگھلتے گلیشیئرز کی گونج تھی۔” یہ علاقہ ماہرین کے لیے قدرت کی آخری “لیب” جیسا ہے جہاں نہ انسانی مداخلت ہے، نہ آلودگی، صرف فطرت اپنے اصل روپ میں ہے۔ ماہرین حیران ہیں کہ آخر ان بےآباد جزیروں پر ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کا سایہ کیوں پڑا؟ اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ ممالک ان دور افتادہ علاقوں کو بطور “ری ایکسپورٹ زون” استعمال کرنا چاہتے ہوں تاکہ امریکی محصولات سے بچا جا سکے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایسی کوئی تجارتی سرگرمی ممکن ہی نہیں۔ یہ زمین کا وہ حصہ ہے جہاں “دنیا کو جوں کا توں” دیکھنے کا موقع ملتا ہے، جہاں ہر قدم فطرت کے راز کھولتا ہے اور ہر منظر حیران کر دیتا ہے۔ مزید پڑھیں: سیاحت کے لیے آئے ہسپانوی خاندان کا ہیلی کاپٹر نیویارک میں گر کر تباہ، چھ افراد ہلاک
انڈیا میں شدید بارشیں: مختلف ریاستوں میں 100 افراد ہلاک ہوگئے

انڈیا اور نیپال میں شدید بارشوں اور بدلتے موسم کے باعث خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے، جس میں بدھ سے اب تک تقریباً 100 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں میں مزید غیر متوقع بارشوں کی پیش گوئی کی ہے، جس سے عوامی تحفظ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انڈین ریاست بہار میں، جہاں بارش سے جڑے حادثات جیسے بجلی گرنا، دیواریں گرنا اور پانی میں بہہ جانے کے واقعات پیش آئے، کم از کم 64 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اتر پردیش میں مقامی میڈیا کے مطابق 20 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ موسمیاتی محکمہ نے مغربی علاقوں میں شدید گرمی کی وارننگ جاری کی ہے، جبکہ مشرقی اور وسطی علاقوں میں گرج چمک، تیز ہوا اور طوفانوں کے خطرات ہیں۔یہ بھی پڑھیں: ہسپانوی سیاحوں کا ہیلی کاپٹر نیویارک میں گر کر تباہ، چھ افراد ہلاک ادھر نیپال میں بھی صورت حال خراب ہے۔ آسمانی بجلی گرنے اور طوفانی بارش کے باعث کم از کم آٹھ افراد جان بحق ہوئے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے مطابق کئی دیہی علاقوں میں نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ہندوستان میں گرمی کی شدت میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اپریل میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہے گا، جو کہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں کے لیے تشویشناک ہے۔ یہ تمام واقعات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو واضح کرتے ہیں، جہاں ایک طرف جان لیوا گرمی ہے، تو دوسری طرف غیر متوقع اور خطرناک بارشوں نے انسانی زندگی اور بنیادی ڈھانچے کو شدید متاثر کیا ہے۔ ان حالات میں حکومتی اداروں اور عوام دونوں کو مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ جانی و مالی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔
ہسپانوی سیاحوں کا ہیلی کاپٹر نیویارک میں گر کر تباہ، چھ افراد ہلاک

نیویارک کے دریائے ہڈسن میں سیاحتی ہیلی کاپٹر کا افسوسناک حادثہ ہوا، جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حادثہ ایک بار پھر فضائی سیاحت میں حفاظت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے۔ حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک ہسپانوی خاندان، تین بچے، پائلٹ اور سیمنز کمپنی کے ایگزیکٹو آگسٹن ایسکوبار شامل ہیں۔ حادثے کی ویڈیو میں ہیلی کاپٹر کو دریا میں الٹا گرتے ہوئے دیکھا گیا۔ امدادی کشتیوں اور غوطہ خوروں نے فوری طور پر کارروائی کی، لیکن چار افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے، جبکہ دو زخمی بعد میں اسپتال میں دم توڑ گئے۔ یہ ہیلی کاپٹر، بیل 206 ماڈل، نیویارک ہیلی کاپٹر ٹورز کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ یہ تقریباً 3 بجے دن فلائٹ پر روانہ ہوا اور جارج واشنگٹن برج تک پہنچنے کے بعد نیچے کی سمت مڑتے ہی چند منٹوں میں دریا میں گر گیا۔ حادثے کے وقت ہیلی کاپٹر “اسپیشل فلائٹ رولز ایریا” میں تھا، جہاں ایئر ٹریفک کنٹرول فعال نہیں ہوتا۔یہ بھی پڑھیں: برطانیہ اور یوکرین کا تاریخی اجلاس: کیا عالمی رہنما امن کے راستے پر قدم بڑھائیں گے؟ یہ واقعہ نیویارک میں سیاحتی ہیلی کاپٹر سروسز کے بڑھتے ہوئے رجحان اور حفاظتی اقدامات کی کمی پر توجہ مبذول کراتا ہے۔ شہر کے گرد درجنوں ہیلی کاپٹرز روزانہ سینکڑوں سیاحوں کو فضائی نظارے فراہم کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ خطرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ حادثے کی مکمل تحقیقات فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن اور نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کریں گے، جس کی قیادت NTSB کے پاس ہوگی۔ یہ واقعہ نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے غم کی گھڑی ہے بلکہ نیویارک میں سیاحتی پروازوں کی نگرانی اور پالیسیوں پر نظرثانی کی بھی اشد ضرورت ظاہر کرتا ہے۔
پاناما کی بندرگاہیں امریکا کے سپرد: کینال کے گرد فوجی گھیرا، کیا پاناما بھی دوسرا عراق بننے جا رہا ہے؟

پاناما ایک بار پھر امریکا کی توجہ کا مرکز، ایک بار پھر متنازعہ معاہدہ اور ایک بار پھر وہی سوال، کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ امریکا اور پاناما کے درمیان حال ہی میں طے پانے والے ایک نئے سیکیورٹی معاہدے نے خطے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکی فوجی اہلکار اب پاناما کینال کے گرد موجود متعدد فوجی اڈوں پر نہ صرف تربیتی مشقیں کر سکیں گے بلکہ دیگر “غیر متعین سرگرمیوں” کے لیے بھی تعینات ہو سکیں گے۔ یہ معاہدہ بظاہر تو بے ضرر معلوم ہوتا ہے مگر اس کے اثرات غیرمعمولی حد تک گہرے ہو سکتے ہیں۔ جب امریکی وزیر دفاع ‘پیٹ ہیگستھ’ پاناما کے دورے پر پہنچے تو صدر ‘جوس راؤل ملینو’ نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ“اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک میں آگ لگ جائے تو مستقل امریکی اڈے بنا لیجیے۔” یہ جملہ محض جذباتی ردعمل نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے وہ تاریخی تلخیاں چھپی ہیں جو پاناما کے سینے پر آج بھی داغ کی مانند موجود ہیں۔ 1989 میں امریکی حملہ، مانویل نوریگا کی معزولی اور سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت۔ یہ سب واقعات آج بھی پاناما کہ شہریوں کے ذہن میں تازہ ہیں، حالانکہ نئی ڈیل میں امریکا کو مستقل فوجی اڈے بنانے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن “غیر معینہ مدت تک فوجی موجودگی” کی شق نے ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ، جو رواں برس دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں وہ بارہا چین کی پاناما میں بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں پر تنقید کر چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ چین نے پاناما کینال جیسے “اثاثے” پر غیرمعمولی اثر قائم کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی انتظامیہ نے نہ صرف سیکیورٹی ڈیل پر زور دیا بلکہ چین کی بندرگاہی کمپنی “پاناما پورٹس کمپنی” پر دباؤ ڈال کر اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چینی کمپنی کی جگہ اب ایک امریکی سرمایہ کاری ادارہ، بلیک راک لے رہا ہے جس نے 19 ارب ڈالر میں دنیا بھر کے 43 بندرگاہی اثاثے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جن میں پاناما کی دو بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔ بیجنگ نے اس پیش رفت پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس سودے کی اینٹی ٹرسٹ تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ یعنی صرف پاناما ہی نہیں اب یہ معاملہ عالمی سطح پر امریکا اور چین کے درمیان ایک نئے سفارتی محاذ کا آغاز بن چکا ہے۔ پاناما کے عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور بینرز پر لکھا ہے کہ “یہ کینال ہماری ہے کسی کا ذاتی اسلحہ خانہ نہیں۔” سیاسی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا اپنی عسکری موجودگی کو بڑھانے پر اصرار کرتا ہے تو یہ معاہدہ نہ صرف خطے میں بے چینی کا باعث بنے گا بلکہ پاناما کی اندرونی سیاست کو بھی عدم استحکام کی طرف دھکیل دے گا۔مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ایران پر معاشی پابندی: دبئی میں بیٹھا انڈین شہری امریکا کے نشانے پر
ٹرمپ کی ایران پر معاشی پابندی: دبئی میں بیٹھا انڈین شہری امریکا کے نشانے پر

امریکا نے ایرانی تیل کی غیر قانونی فروخت روکنے کیلئے نئی اور سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ یہ صرف معاشی دباؤ نہیں بلکہ عالمی سیاست کی وہ شطرنج کی چال ہے جو آنے والے دنوں میں خطے کے حالات کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے انکشاف کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم انڈین شہری جگویندر سنگھ ایرانی تیل کی نقل و حمل میں مرکزی کردار ادا کر رہا تھا۔ اس کی کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ خفیہ شپنگ نیٹ ورکس کے ذریعے ایرانی نیشنل آئل کمپنی اور ایرانی فوج کیلئے تیل کی ترسیل کرتی رہی ہیں۔ یہ صرف ایک شخص کی بات نہیں، امریکی محکمہ خزانہ نے 30 سے زائد بحری جہازوں کا نیٹ ورک بھی بلیک لسٹ کر دیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ ایران کو عالمی پابندیوں سے بچانے کے لیے “شیڈو فلیٹس” کا حصہ تھے۔ ان بحری جہازوں کے ذریعے ایران اپنا تیل خاموشی سے عالمی منڈیوں تک پہنچاتا رہا۔ گزشتہ روز امریکا نے ایران کے ایٹمی پروگرام سے جڑے مزید 5 اداروں اور ایک فرد پر بھی پابندیاں لگائیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکا ایران کو ایک لمحے کے لیے بھی کھل کھیلنے دینے کو تیار نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران کی یہ خفیہ تیل ڈپلومیسی بند ہوگی؟ یا یہ سرد جنگ مزید شدت اختیار کرے گی؟مزید پڑھیں: ‘وقت آ گیا ہے کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کیا جائے’ فرانسیسی صدر
اسرائیلی وزیر کی بیٹی کا والدین اور بھائی پر جنسی زیادتی کا الزام

اسرائیلی وزیر برائے آبادکاری و قومی مشن اوریت اسٹروک کی بیٹی شوشانا اسٹروک نے اپنے والدین اور بھائی پر جنسی زیادتی کے سنگین الزامات عائد کردیے اور پولیس کو باقاعدہ شکایت درج کروانے کا انکشاف کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو بیان میں شوشانا نے کہا ہے کہ میں ایک طویل عرصے کی الجھن، شدید جذباتی کیفیت اور احساسِ جرم کے بعد میں یہ بات سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے اپنے والدین اور ایک بھائی کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔ میں اس وقت اٹلی میں ہوں اور حال ہی میں پولیس کو رپورٹ دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ان یادوں نے ان کی زندگی کو بہت مشکل بنا دیا ہے اور وہ ذہنی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک موقع پر انہوں نے اپنے تین چھوٹے بھائیوں پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ میں امید کرتی ہوں کہ مجھے ایسا مقام ملے، جہاں میں کچھ سکون محسوس کر سکوں۔ Shoshana Strock, daughter of the Minister of Settlements and National Missions and member of the Knesset Orit Strock, who is also among the leaders of the Jewish settlement in Hebron, say that she was sexually abused by her parents and brother, and police silenced it. Link below pic.twitter.com/0ncbq1BRnw — Itamar Rachailovich 🇵🇸🇾🇪 (@IRachailovich) April 10, 2025 واضح رہے کہ اگرچہ شوشانا نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا کون سا بھائی اس گھناؤنے عمل میں ملوث تھا۔ دوسری جانب ان کا ایک بھائی زویکی اسٹروک 2007 میں ایک فلسطینی بچے کو اغوا اور تشدد کا نشانہ بنانےلزام میں عدالتی کارروائی کا سامنا کر چکا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملے، مزید 35 افراد شہید یاد رہے کہ شوشانا کی والدہ اوریت اسٹروک نہ صرف مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی بھرپور حامی ہیں بلکہ انہوں نے بارہا فلسطینیوں کے خلاف متنازع بیانات دیے اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس پر جنسی تشدد کے الزامات کی بھرپور وکالت کی، جنہیں متعدد عالمی اداروں نے بے بنیاد قرار دیا۔ فروری 2024 میں ان کا ایک بیان سامنے آیا تھا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔
‘وقت آ گیا ہے کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کیا جائے’ فرانسیسی صدر

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ فرانس جون میں فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔فرانس 5 کے ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے میکرون کا کہنا تھا کہ “ہمیں آگے بڑھنا ہوگا، ہم اس اعتراف کی طرف جا رہے ہیں، یہ کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ وقت کا تقاضا یہی ہے۔”یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ میکرون نے عندیہ دیا ہے کہ اگر فرانس یہ قدم اٹھاتا ہے تو اس کے بدلے مشرق وسطیٰ کے کچھ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔یہ صرف ایک اعلان نہیں بلکہ ایک ممکنہ سفارتی کوشش ہے۔ میکرون نے مزید انکشاف کیا کہ جون میں سعودی عرب کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں “دو ریاستی حل” کو عملی شکل دینے اور باہمی تسلیم کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔یاد رہے کہ دنیا کے تقریباً 150 ممالک پہلے ہی فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کر چکے ہیں لیکن امریکا، برطانیہ، جرمنی اور خود فرانس جیسے بڑے مغربی طاقتوں نے اب تک ایسا قدم نہیں اٹھایا۔اگر فرانس یہ فیصلہ کرتا ہے تو یہ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے امید کی ایک نئی کرن ہو گی بلکہ مشرق وسطیٰ میں دہائیوں پر محیط کشمکش کا نقشہ بھی بدل سکتا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کے حملے، مزید 35 افراد شہید

غزہ کے شجاعیہ محلے میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں کم از کم 35 فلسطینیوں کی شہادت اور درجنوں کے زخمی ہونے کی خبر ایک بار پھر اس انسانی المیے کی شدت کو ظاہر کرتی ہے جو گذشتہ کئی ماہ سے غزہ پر جاری جنگ نے جنم دیا ہے۔ الجزیرہ اور مقامی طبی ذرائع کے مطابق ملبے کے نیچے اب بھی لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے، اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا ہدف حماس کا ایک سینئر جنگجو تھا، تاہم متاثرہ علاقے کی شدت سے تباہی، درجنوں بے گھر خاندانوں کی ہلاکت اور امدادی کاموں میں مشکلات نے اس دعوے پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ شہری دفاع کے کارکنان اور مقامی افراد ملبے میں پھنسے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ناکہ بندی اور امدادی سامان کی شدید قلت نے ان کی کوششوں کو محدود کر دیا ہے۔ اسپتالوں میں زخمیوں کا علاج مشکل ہو چکا ہے، اور ادویات و خون کی اشد کمی ہے۔یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری غزہ میں ’انسانی توہین‘ پرسخت ردِعمل دے، اقوام متحدہ اسرائیلی حملوں کے تسلسل، بھوک کے بحران، اور طبی سہولیات کی تباہ حالی نے غزہ کو مکمل انسانی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ جنگ بندی کی کوششیں، جن میں مصر، قطر اور امریکہ شامل ہیں، تاحال کامیاب نہیں ہو سکیں۔ حماس نے اس تازہ حملے کو امریکی حمایت سے جاری قتل عام قرار دیتے ہوئے عرب و مسلم دنیا کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار مروان بشارا نے ان کارروائیوں کو نسلی تطہیر سے تعبیر کیا ہے، جب کہ غزہ کے باسیوں کو سیکیورٹی زون سے دور رہنے کا اسرائیلی حکم اس خوف کو تقویت دیتا ہے کہ کہیں یہ قبضے کو مستقل بنانے کی کوشش نہ ہو۔ یہ صورتحال عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکی ہے، جہاں انسانی جانوں کی بے وقعتی، اور مظلوموں کی آہ و بکا کو نظر انداز کرنا ایک گہری اخلاقی گراوٹ کی علامت بنتا جا رہا ہے۔