یوکرین جنگ: ‘روس چینی شہریوں کو فوج میں بھرتی کر رہا ہے’

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک اور پریشان کن دعویٰ کیا ہے کہ کم از کم 155 چینی شہری یوکرین کی جنگ میں روس کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب یوکرین کی فوج نے دو چینی جنگجوؤں کو پکڑ لیا جو پہلی بار چین کے براہ راست ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بدھ کے روز زیلنسکی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے جن معلومات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے ان کے مطابق اس تنازعے میں مزید کئی چینی شہری شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چین روس کو نہ صرف فوجی امداد فراہم کر رہا ہے بلکہ اس نے اپنی سوشل میڈیا کی مدد سے چینی شہریوں کو جنگ میں شامل ہونے کے لیے بھی راغب کیا ہے۔ زیلنسکی نے کہا کہ “روس چینی شہریوں کو اپنی فوج میں بھرتی کر رہا ہے اور یہ سب کچھ بیجنگ کے علم میں ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ جن افراد کو بھرتی کیا گیا ہے انہیں ماسکو میں تربیت دی جاتی ہے اور اس کے بدلے انہیں ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ زیلنسکی کا کہنا تھا کہ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ روس اور چین کے تعلقات اس جنگ میں مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ اگرچہ چین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کے شہری روس کے لیے لڑ رہے ہیں مگر زیلنسکی کے دعوے نے عالمی برادری کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے بھی ان رپورٹس کو ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ یوکرین کے صدر نے یہ بھی کہا کہ اگر روسی حکام چین کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے شہریوں کو بھرتی کر رہے ہیں تو یہ ایک عالمی خطرہ بن سکتا ہے۔ اس جدید جنگ میں روس کی جانب سے چین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی بالواسطہ یا براہ راست مداخلت نے ایک نیا موڑ لیا ہے۔ زیلنسکی کے مطابق یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روس کی جنگ میں شکست قبول کرنے کی کوئی نیت نہیں ہے۔ زیلنسکی نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ “پوتن کے ارادے واضح ہیں وہ جنگ کے خاتمے کے بجائے کسی بھی قیمت پر اسے جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔” یہ دعویٰ نہ صرف یوکرین بلکہ پورے عالمی منظرنامے پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے جس کا جواب صرف وقت ہی دے سکے۔
’ہم چین کے گنواروں سے قرض لیتے ہیں‘ امریکی نائب صدر کے بیان پر طوفان برپا

دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ چکی ہے لیکن اس بار یہ طوفان کسی فوجی مشق، تجارتی معاہدے یا ٹیکنالوجی کی جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک جملے کا مرہون منت ہے۔ امریکا کے نومنتخب نائب صدر جے ڈی وینس نے ایک امریکی ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے چینی شہریوں کو “گنوار” کہہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم چین کے گنواروں سے قرض لیتے ہیں تاکہ ان ہی کے بنائے ہوئے گنوارانہ سامان کو خرید سکیں۔” یہ الفاظ گویا خنجر بن کر چینی شہریوں کے سینے میں جا لگے۔ بیجنگ نے نہ صرف اس بیان کو “جہالت اور غرور کا مظاہرہ” قرار دیا بلکہ اسے امریکا کے چہرے کا اصل عکس بھی کہا۔ دوسری جانب چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سخت ردعمل میں کہا کہ “یہ بیان صرف بے ادبی نہیں بلکہ ایک قوم کی توہین ہے۔” چین کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غصے کی لہر دوڑ گئی، صارفین نے جے ڈی وینس کو “بدتمیز دہقانی سیاستدان” اور “سفارتی تباہی” جیسے القابات سے نوازا۔ ایک صارف نے لکھا کہ “جو شخص گاؤں سے نکل کر وائٹ ہاؤس پہنچا، وہ آج دنیا کے سب سے بڑی قوم کو گنوار کہہ رہا ہے؟” یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا جب امریکا اور چین کے تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں چین پر 125 فیصد نئے تجارتی ٹیرف عائد کر دیے ہیں، ایک اور چنگاری جو تجارت کی جنگ کو بھڑکا سکتی ہے۔
“جھک جاؤ یا نتائج بھگتو” امریکا نے ایران پرمزید پابندیاں لگا دیں

واشنگٹن نے تہران پر ایک اور سفارتی حملہ کر دیا، جوہری مذاکرات سے محض 48 گھنٹے قبل امریکا نے ایران کے مزید پانچ اداروں اور ایک اہم شخصیت پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ تمام ادارے ایران کے متنازع جوہری پروگرام سے منسلک ہیں۔ بظاہر تو یہ صرف پابندیاں ہیں مگر درپردہ پیغام بہت واضح ہے کہ “یا تو جھک جاؤ، یا نتائج بھگتو۔” پابندیوں کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات روشن ہو رہے تھے۔ لیکن اس نئی چال نے ایک بار پھر حالات کو کشیدگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں کہا کہ “ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر ضرورت پڑی تو فوجی طاقت استعمال کریں گے اور اسرائیل ہمارے ساتھ ہوگا۔” ایران پر دباؤ بڑھانے کی یہ حکمت عملی واشنگٹن کی پرانی پالیسی کا تسلسل ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا مذاکرات اب بھی ممکن ہیں؟ یا پھر خطے میں ایک اور تنازع جنم لینے والا ہے؟
‘نائٹ کلب میں جشن کا سماں تھا اچانک چھت گر گئی’ 184 افراد ہلاک ہوگئے

ڈومینیکن ریپبلک کے دارالحکومت سینتو ڈومنگو میں واقع مشہور نائٹ کلب جیٹ سیٹ میں ایک اندوہناک سانحہ پیش آیا جب چھت گرنے کے نتیجے میں کم از کم 184 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس دلخراش واقعے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا ہے، اور متاثرہ خاندانوں کی بےچینی اور کرب نے فضا کو مزید بوجھل بنا دیا ہے۔ یہ سانحہ منگل کی رات روبی پیریز کے کنسرٹ کے دوران پیش آیا، جو کہ ایک مقبول میرنگو گلوکار تھے۔ اس کنسرٹ میں متعدد سیاسی شخصیات، معروف کھلاڑیوں اور دیگر ممتاز افراد نے شرکت کی تھی۔ بدقسمتی سے یہ خوشیوں بھرا لمحہ اچانک قیامت میں بدل گیا، جب آدھی رات کے بعد کلب کی چھت زمین بوس ہو گئی۔ اب تک 155 افراد کو زندہ ملبے سے نکال کر اسپتالوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، لیکن 24 گھنٹوں سے کسی کو زندہ نہ نکالے جانے کے بعد بچ جانے والوں کی امیدیں دھندلانے لگی ہیں۔ ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے سربراہ جوآن مینوئل مینڈیز نے پریس کانفرنس میں یقین دہانی کرائی کہ امدادی کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک آخری لاش نہیں نکال لی جاتی۔ تاہم، اب آپریشن کا محور تلاش و بچاؤ سے منتقل ہو کر لاشوں کی بازیابی کی طرف ہو چکا ہے۔ کلب کے ملبے کے باہر سینکڑوں لوگ جمع ہیں، جو اپنے پیاروں کی تلاش میں تصاویر اور پہنے گئے لباس کی تفصیلات لے کر کھڑے ہیں۔ ان کے چہروں پر بے بسی، آنکھوں میں امید کی جھلک اور دلوں میں دعا کی روشنی اب بھی باقی ہے۔ ایک متاثرہ شخص الیکس ڈی لیون نے بتایا کہ اس کی سابقہ بیوی، اس کے دو بچوں کی ماں، اور ایک قریبی دوست لاپتہ ہیں۔ وہ اپنے 15 سالہ بیٹے کے صدمے، اور 9 سالہ بچے کو سنبھالنے کی کوشش میں ٹوٹ چکا ہے۔ اس حادثے نے فن، کھیل اور سیاست کے کئی معروف چہروں کو بھی متاثر کیا۔ خود روبی پیریز، جن کا کنسرٹ جاری تھا، جان کی بازی ہار گئے۔ وزارتِ ثقافت نے انہیں “ملک کے فن کی عظیم شخصیات” میں سے ایک قرار دیتے ہوئے ان کی یاد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بیس بال کے دو سابقہ مشہور کھلاڑی، آکٹاوے ڈوٹیل اور ٹونی بلانکو، بھی جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں، جبکہ پبلک ورکس کے وزیر کا بیٹا بھی اس سانحے کا شکار ہو گیا۔ صدر لوئس ابیندر نے نہ صرف اس المیے پر قوم سے اظہارِ افسوس کیا بلکہ مونٹی کرسٹی میں متاثرہ گورنر اور معروف بیس بال کھلاڑی نیلسن کروز کی بہن کی آخری رسومات میں بھی شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا، “ہم صرف اس کے نہیں، بلکہ اس عظیم المیے کے تمام متاثرین کے غم میں شریک ہیں۔” یہ سانحہ نہ صرف سینتو ڈومنگو بلکہ پورے ڈومینیکن ریپبلک کے لیے ایک کربناک یادگار بن گیا ہے، جس نے ہر دل کو دکھ اور ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا ہے۔
عالمی برادری غزہ میں ’انسانی توہین‘ پرسخت ردِعمل دے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسے دنیا کی نظر سے الگ مسئلہ قرار دیا ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد وہاں کوئی خوراک، ایندھن یا دوا نہیں پہنچ رہی۔ گوتریس نے اس صورتحال کو نہ صرف انسانیت کی توہین قرار دیا ہے بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل اپنے عالمی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے مسلسل فضائی حملے اور بمباری نے غزہ کو ایک “قتل گاہ” بنا دیا ہے۔ گوتریس نے کہا ہے کہ “جب ایک طاقت کسی علاقے پر قبضہ کرتی ہے تو اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو کھانا، دوا اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرے”۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی جانب سے اس انسانی توہین پر سخت ردعمل ظاہر کرے۔ اس کے علاوہ گوتریس نے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں امدادی کارکنوں کی شہادت پر بھی شدید مذمت کی اور ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اقوام متحدہ کے عملے کے افراد سمیت کئی انسانی امدادی کارکن مارے گئے ہیں۔ گوتریس نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی مدد کرنے والے افراد بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالنے کے منصوبے کے بارے میں پوچھے جانے پر گوتریس نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا منصوبہ عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کی حمایت کسی بھی صورت میں نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں رہیں اور اسرائیل کے ساتھ امن وآشتی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرفز، 37 فیصد ٹیکس کے بعد بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار اسی دوران اسرائیلی افواج نے غزہ میں مسلسل فضائی حملے جاری رکھے جس سے 26 فلسطینی شہید ہوگئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم “ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز” نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ تنظیم نے کہا کہ غزہ میں ان کے ہسپتالوں اورکلینکس کے قریب بمباری کی جا رہی ہے جو کہ ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ یمن میں امریکی فوج کی بمباری بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں کم از کم چھ افراد مارے گئے ہیں، جب کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے لبنان کے علاقے بقاع اور بعلبک کو نشانہ بنایا۔ ان تمام واقعات نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔
ایران اور امریکا میں ’مذاکرات‘ کے دروازے کھلنے کا امکان

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعلان کیا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدہ ایک نئی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے بشرطیکہ امریکا اپنی پوزیشن میں نرمی لائے اور سنجیدہ مذاکرات کا حصہ بنے۔ یہ بیان انہوں نے اس وقت دیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو اپنے دباؤ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ عراقچی نے کہا کہ “اگر امریکا نے اچھے ارادے کے ساتھ بات چیت کی تو ہم معاہدہ کر سکتے ہیں لیکن یہ بات چیت صرف اس صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب امریکا اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے اور ایران پر عائد سخت پابندیاں ختم کرے‘‘۔ امریکا نے 2018 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ایرانی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور ایران نے جوہری پروگرام میں تیزی سے پیشرفت شروع کر دی۔ لیکن اب پانچ سال بعد موقع آیا ہے جس میں امریکا نے ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت کی تجویز دی ہے حالانکہ ایران اس صورت میں بات چیت کو بے معنی سمجھتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا دروازہ کھل سکتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ “اگر بات چیت کامیاب نہیں ہوئی تو ایران کو خطرہ ہو گا اور میں یہ نہیں چاہتا، مگر اگر معاہدہ نہ ہوا تو بمباری ہو سکتی ہے۔” ٹرمپ کے اس بیان کے بعد عالمی سطح پر ایک ہلچل مچ گئی ہے اور ایران نے اس دھمکی کو سختی سے رد کیا۔ روس اور چین نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے مشاورت کا آغاز کیا ہے اور دونوں ممالک نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ ایران اور امریکا کے درمیان دوبارہ مذاکرات ہونے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ روسی حکومت نے اس بات کا عندیہ دیا کہ یہ مذاکرات ایران کے جوہری مسئلے پر کشیدگی کم کرنے کی سمت میں اہم قدم ہو سکتے ہیں۔ چین نے بھی امریکا پر تنقید کی ہے کہ “امریکا کو اپنے غلط اقدامات کو ترک کر دینا چاہیے اور طاقت کا استعمال ختم کر دینا چاہیے۔” چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کو ایران کے ساتھ مذاکرے میں سنجیدہ ہونا چاہیے اور ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایک پائیدار حل تک پہنچنا چاہیے۔ اس صورتحال میں ایران کی نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا اپنی پابندیاں ختم کرے اور ایران کے جوہری حقوق کا احترام کرے۔ عراقچی نے یہ واضح کیا کہ “ہم براہ راست مذاکرات کو قبول نہیں کرتے اور ہمارے لیے یہ زیادہ اہم نہیں کہ مذاکرات کا طریقہ کیا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان مذاکرات سے کیا نتائج نکلتے ہیں۔” اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور ایران اپنے اختلافات کو حل کر پائیں گے یا عالمی برادری کو ایک اور جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا؟
پینٹاگون کے چیف نے نیٹو میں تعینات امریکی فوجی نمائندے کو برطرف کر دیا

امریکی وزیر دفاع پٹ ہیگسیٹھ نے نیٹو میں تعینات امریکی فوجی نمائندے وائس ایڈمرل شوشانا کو چیٹ فیلڈ کے عہدے سے ہٹایا ہے۔ پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ وائس ایڈمرل چیٹ فیلڈ کو ان کی کم اعتمادی لے ڈوبی ہے۔ یہ برطرفی امریکی فوجی قیادت میں ہونے والی ایک بڑی تبدیلی کا حصہ ہے جس میں چند ماہ کے دوران متعدد اعلیٰ افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ چیٹ فیلڈ کو نیٹو کے ملٹری کمیٹی میں امریکی نمائندہ کے طور پر کام کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا لیکن ان کی قیادت کے حوالے سے تحفظات پیدا ہو گئے تھے۔ چیٹ فیلڈ کا کیریئر خاصا قابل ذکر رہا ہے اور وہ ایک تربیت یافتہ ہیلی کاپٹر پائلٹ ہیں اور اپنے کیریئر کے دوران پیسیفک اور گلف کے علاقے میں اہم مشنز کا حصہ رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یورپ میں نیٹو کے اعلیٰ کمانڈر کے معاون خصوصی کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں اور امریکی ایئر فورس اکیڈمی میں سیاسیات کے تدریسی عمل کا بھی حصہ رہیں۔ جب چیٹ فیلڈ کی برطرفی کی خبر منظر عام پر آئی تو اس پر امریکی سیاستدانوں کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آئے۔ ڈیموکریٹک رکن ایڈم اسمتھ نے اس برطرفی کو امریکی سلامتی کے لیے نقصان دہ قرار دیا اور کہا کہ ’’صدر ٹرمپ کے اقدامات سے ملک کی حفاظت متاثر ہو رہی ہے‘‘۔ سینیٹر جیک ریڈ نے بھی اس اقدام کو ’بلاجواز‘ اور ’شرمناک‘ قرار دیا۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ میں یہ بھی خبر آئی ہے کہ امریکا نیٹو میں اپنی موجودگی کو کم کرتے ہوئے یورپ سے 10,000 فوجی واپس بلانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ اقدام نیٹو کے مشرقی علاقے میں اضافی 20,000 فوجیوں کی تعیناتی کے چند سال بعد کیا جا رہا ہے جو 2022 میں روس کی یوکرین پر حملے کے بعد کی گئی تھی۔ یہ خبر اس بات کا غماز ہے کہ امریکا کے یورپ میں فوجی استحکام کے حوالے سے فیصلوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں خاص طور پر جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیٹو کے بارے میں پوزیشن کو مدنظر رکھا جائے جنہوں نے بار بار نیٹو پر تنقید کی اور یورپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی دفاعی ذمہ داریوں میں اضافہ کرے۔ یہ واقعہ نہ صرف امریکی فوجی قیادت کی تبدیلی کا عکاس ہے بلکہ عالمی سیاست میں امریکی پوزیشن کے حوالے سے بھی ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتا ہے جس سے نیٹو کے مستقبل اور یورپ میں امریکی فوجی موجودگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔
عالمی برادری غزہ میں ’انسانی توہین‘ پرسخت ردعمل دے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسے دنیا کی نظر سے الگ مسئلہ قرار دیا ہے۔ ایک ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل کی جانب سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد وہاں کوئی خوراک، ایندھن یا دوا نہیں پہنچ رہی۔ گوتریس نے اس صورتحال کو نہ صرف انسانیت کی توہین قرار دیا ہے بلکہ اس بات پر بھی زور دیا کہ اسرائیل عالمی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے مسلسل فضائی حملے اور بمباری نے غزہ کو ایک “قتل گاہ” بنا دیا ہے۔ گوتریس نے کہا ہے کہ “جب ایک طاقت کسی علاقے پر قبضہ کرتی ہے تو اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو کھانا، دوا اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرے”۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کی جانب سے اس انسانی توہین پر سخت ردعمل ظاہر کرے۔ اس کے علاوہ گوتریس نے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں امدادی کارکنوں کی شہادت پر بھی شدید مذمت کی اور ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اقوام متحدہ کے عملے کے افراد سمیت کئی انسانی امدادی کارکن مارے گئے ہیں۔ گوتریس نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی مدد کرنے والے افراد بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالنے کے منصوبے کے بارے میں پوچھے جانے پر گوتریس نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا منصوبہ عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کی حمایت کسی بھی صورت میں نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں رہیں اور اسرائیل کے ساتھ امن وآشتی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرفز: 37 فیصد ٹیکس کے بعد بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار اسی دوران، اسرائیلی افواج نے غزہ میں مسلسل فضائی حملے جاری رکھے جس سے 26 فلسطینی شہید ہوگئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم “ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز” نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔ تنظیم نے کہا کہ غزہ میں ان کے ہسپتالوں اورکلینکس کے قریب بمباری کی جا رہی ہے جو کہ ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ یمن میں امریکی فوج کی بمباری بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں کم از کم چھ افراد مارے گئے ہیں جب کہ اسرائیلی فضائی حملوں نے لبنان کے علاقے بقاع اور بعلبک کو نشانہ بنایا۔ ان تمام واقعات نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔یہ بھی پڑھیں: امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے لیے آواز اٹھانے پر 450 طلبا کے ویزے منسوخ
امریکی سرپرستی میں اسرائیلی بمباری جاری، مزید 19 معصوم فلسطینی شہید

غزہ میں اسرائیلی فورسز نے بمباری کی ہے جس میں کم از کم 19 فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ شہادتیں آج صبح کے وقت پیش آئی ہیں اور یہ سلسلہ غزہ کے مختلف علاقوں میں جاری ہے۔ فلسطینیوں کی امداد کے لیے کام کرنے والی تنظیم “سیول ڈیفنس” کے مطابق بمباری میں ہلاکتوں کے علاوہ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب، 6 اکتوبر کو جنوبی غزہ کے خان یونس میں ایک میڈیا کیمپ پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے والے صحافی احمد منصور کی شہادت کی خبر بھی سامنے آئی ہے۔ احمد منصور کی حالت بہت نازک تھی اور وہ اس حملے میں نہیں سنبھل سکے اور ان کی شہادت کے ساتھ اس حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 3 تک پہنچ گئی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جنگ کے دوران اب تک 50,695 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ 115,338 دیگر زخمی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں:‘امریکا کو فوجی اڈے دیے تو سنگین نتائج کا سامنا کرو گے’ ایران کی مسلم ممالک کو دھمکی حکومت میڈیا آفس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کی لاشوں کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا اور ان کی ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ ہے۔ مجموعی شہادتوں کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ غزہ میں ایک سنگین انسانی بحران جنم لے چکا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے ان ممالک پر گفتگو کی جو غزہ سے جبری طور پر نقل مکانی کرنے والے فلسطینیوں کو پناہ دینے پر رضامند ہو سکتے ہیں۔ اس دوران دونوں رہنماؤں نے فلسطینیوں کی بے دخلی کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر بات کی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا تھا جب حماس کے حملے میں اسرائیل میں کم از کم 1,139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زائد اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا گیا۔ اس خون ریز جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف کی ہلاکتیں تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہیں اور جنگی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے جس میں نہ صرف انسانی زندگیوں کا ضیاع ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اس جنگ کے اثرات بھی واضح ہو رہے ہیں۔ عالمی رہنما اس جنگ کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات پر غور کر رہے ہیں لیکن اس بات کی کوئی واضح نشاندہی نہیں ہو پائی کہ اس مسئلے کا کوئی فوری حل سامنے آ سکے گا۔ مزید پڑھیں: امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے لیے آواز اٹھانے پر 450 طلبا کے ویزے منسوخ
امریکی ٹیرفز: 37 فیصد ٹیکس کے بعد بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری بھی مشکلات کا شکار

بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری کو امریکا کی جانب سے حالیہ ٹیرفز کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکا نے بنگلہ دیش کے کپڑے اور چمڑے کے مصنوعات پر 37 فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے جو گزشتہ 16 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس فیصلے کے بعد بنگلہ دیش کے مینوفیکچررز اور کاروباری حضرات امریکی خریداروں سے آرڈرز کی معطلی کی شکایات کر رہے ہیں۔ محمود مشفیق الرحمٰن، جو اسنسور فٹ ویئر اینڈ چمڑے کے مصنوعات کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں، انہوں نے بتایا کہ ایک طویل عرصے سے ان کے خریدار نے 300,000 ڈالر مالیت کی چمڑے کی مصنوعات کی سپلائی روکنے کا مطالبہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ “یہ ایک مشکل لمحہ ہے، ہم دونوں حیرت میں ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔” محمود کے مطابق اس سے قبل وہ ہر ماہ اوسطاً 100,000 ڈالر مالیت کی مصنوعات امریکا کو بھیجتے تھے مگر اب یہ صورتحال ان کے کاروبار کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے۔ دوسری جانب ویکٹیکس بی ڈی کے سی ای او اے کے ایم سیف الرحمٰن نے بتایا کہ ان کے امریکی خریدار نے 150,000 ڈالر مالیت کی گارمنٹس کی سپلائی روک دی ہے۔ یہ فیصلے بنگلہ دیش کے لیے ایک بڑے چیلنج بن گئے ہیں کیونکہ ملک کی معیشت کا 80 فیصد انحصار ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی ایکسپورٹ پر ہے۔ گزشتہ سال بنگلہ دیش نے امریکا کو 8.4 ارب ڈالر مالیت کی مصنوعات برآمد کیں جن میں سے 7.34 ارب ڈالر صرف تیار شدہ گارمنٹس سے حاصل ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری اس شدید امریکی ٹیرمز کے اثرات سے نکل پائے گی؟ یا یہ مسئلہ بنگلہ دیش کی معیشت پر طویل مدتی اثرات چھوڑے گا؟ اس وقت بنگلہ دیش کے گارمنٹس مینوفیکچررز ایک نیا راستہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ امریکی مارکیٹ سے واپس جانے کی صورتحال کو روکا جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ دنیا بھر میں دوسرے سب سے بڑے گارمنٹس ساز ملک بنگلہ دیش کے کاروباری رہنما ان مشکلات کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف کے اثرات: انڈیا کی اقتصادی ترقی کی رفتار سوالات کی زد میں آگئی