امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے لیے آواز اٹھانے پر 450 طلبا کے ویزے منسوخ

امریکا کی نامور یونیورسٹیوں میں پاکستانی اور دیگر مسلم ممالک کے طلبا کے ویزے ایک لمحے میں منسوخ کر دیے گئے ہیں اور یہ فیصلہ بغیر کسی پیشگی اطلاع یا قانونی کارروائی کے کیا گیا ہے۔ اس اقدام نے عالمی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑادی ہے اور یونیورسٹیوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق یہ ویزے منسوخ کرنے کا عمل نہ صرف امریکی حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے بلکہ اس میں خاص طور پر ان طلبا کو نشانہ بنایا گیا ہے جو فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کچھ طلبا ایسے بھی ہیں جنہوں نے کسی مظاہرے میں حصہ نہیں لیا پھر بھی ان کے ویزے منسوخ کر دیے گئے۔ یہ صورت حال طلبا اور تعلیمی اداروں کے لیے تشویش کا باعث بن گئی ہے۔ اس کے علاوہ جن تعلیمی اداروں میں یہ ویزے منسوخ کیے گئے ہیں ان میں ہارورڈ، اسٹینفورڈ، یو سی ایل اے اور یونیورسٹی آف مشیگن جیسے بڑے ادارے شامل ہیں۔ یہ بھی پڑھیں:‘امریکا کو فوجی اڈے دیے تو سنگین نتائج کا سامنا کرو گے’ ایران کی مسلم ممالک کو دھمکی یو سی ایل اے میں 12 طلبا اور گریجویٹس کے ویزے منسوخ ہوئے ہیں جبکہ یونیورسٹی آف مشیگن کے ایک طالب علم کو ملک چھوڑنا پڑا۔ ان ویزوں کی منسوخی کی سب سے بڑی وجہ سیوس سسٹم کے آڈٹ کو بتایا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس عمل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور قانونی کارروائی نہ ہونے کے سبب اس عمل کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب یونیورسٹیز نے اپنے طلبا کو قانونی مدد فراہم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، جبکہ طلبا تنظیموں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے اٹھایا ہے اور ویزا منسوخیوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ بین الاقوامی طلبا اب بے یقینی کی کیفیت میں ہیں کہ کہیں ان کے ویزے بھی اچانک منسوخ نہ کر دیے جائیں۔ یہ فیصلہ امریکی حکومت کی جانب سے ایک قدم پیچھے جانے کی جانب اشارہ کرتا ہے جہاں طلبا کے حقوق اور آزادی اظہار کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس صورتحال نے امریکا کے تعلیمی نظام پر گہرا اثر ڈالا ہے جو طلبا کے لیے ایک سوال چھوڑ رہا ہے کہ آیا وہ مستقبل میں اس نظام پر اعتماد کر سکتے ہیں یا نہیں۔ مزید پڑھیں:جنوبی چینی سمندر کا تنازع: کیا تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہونے جا رہی ہے؟
سمندری تنازع: کیا تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہونے جا رہی ہے؟

جنوبی چینی سمندر، جو نہ صرف عالمی تجارت کے لیے اہم ہے بلکہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے، جہاں اس سمندر میں قدرتی خزانہ چھپا ہے وہیں بیشتر ممالک کے درمیان سنگین تنازعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔ چین، ویتنام، فلپائن، تائیوان، ملائیشیا اور برونائی جیسے ممالک اس سمندر پر اپنی ملکیت جتاتے ہیں اور ان کے دعوے ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ چین کا سب سے بڑا دعویٰ اس کی “نو ڈیش لائن” کے تحت ہے جو 1947 میں جاری کیے گئے ایک نقشے پر مبنی ہے۔ یہ لائن جنوبی چینی سمندر کے وسیع حصے پر پھیلی ہوئی ہے اور چین اسے اپنی تاریخ اور ثقافت سے جڑت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اس کا حق اس علاقے پر سینکڑوں سال پرانا ہے جب کہ دیگر ملکوں کے لیے یہ دعویٰ غیر منطقی اور غیر قانونی ہے۔ دوسری جانب ویتنام، فلپائن اور دیگر ممالک چین کے اس دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ علاقے تاریخ میں کبھی چین کے زیر اثر نہیں آئے۔ ویتنام کا دعویٰ ہے کہ اس کا ان علاقوں پر 17ویں صدی سے تسلط رہا ہے لیکن چین کی طاقتور فوجی موجودگی اور بحری گشت نے علاقے میں کشیدگی بڑھا دی ہے اور یہ تنازعہ اب ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس تنازعے نے کئی مرتبہ علاقائی جھڑپوں کی شکل اختیار کی ہے۔ 1974 میں چین نے ویتنام سے پیراسیل جزائر چھینے جس کے نتیجے میں 70 سے زائد ویتنامی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد 1988 میں ایک اور جھڑپ ہوئی جس میں ویتنامی بحریہ کو شدید نقصان پہنچا۔ 2012 میں چین اور فلپائن کے درمیان اسکاربورو شول پر کئی ہفتوں تک کشیدگیاں جاری رہیں۔ حال ہی میں 2023 میں فلپائن نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ چین نے اس کی کشتیوں پر لیزر شعاعیں ڈالی ہیں جس سے کشتیوں کے عملے کی آنکھوں میں تکلیف ہوئی۔ ان واقعات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ سے بچنے کی کوششیں جاری ہیں اور عالمی طاقتیں بھی اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس تنازعے میں صرف جنوبی ایشیا کے ممالک ہی نہیں بلکہ عالمی طاقتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ جیسا کہ امریکا، جو اس مسئلے میں نیوٹرل رہنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اپنی “فریڈم آف نیویگیشن” کارروائیوں کے تحت جنوبی چینی سمندر میں اپنی فوجی موجودگی بڑھاتا جا رہا ہے۔ چین کو یہ کارروائیاں اشتعال انگیز لگتی ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ اس سب کے علاوہ جاپان بھی اس مسئلے میں فریق بن چکا ہے حالانکہ اس کا براہ راست کوئی دعویٰ تو نہیں ہے لیکن جاپان نے فلپائن اور ویتنام کو سمندری تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے تاکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ عالمی سطح پر یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آیا اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے گا یا پھر سفارتی مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے گا۔ جنوبی چینی سمندر کی اہمیت صرف اس کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہی نہیں ہے بلکہ یہاں کی ماہی گیری کی صنعت اور قدرتی وسائل بھی اس تنازعے کا حصہ ہیں۔ یہ سمندر دنیا بھر میں سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑنے والے علاقوں میں سے ایک ہے اور لاکھوں افراد کی روزگار کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح اس سمندر میں تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ہونے کا بھی امکان ہے جو کئی ممالک کے لیے اقتصادی طور پر اہم ہیں۔ اگرچہ اس علاقے کا مکمل قدرتی وسائل کا جائزہ نہیں لیا گیا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سمندر دنیا کے کچھ سب سے اہم قدرتی وسائل کا حامل ہو سکتا ہے جو اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ جنوبی چینی سمندر کا تنازعہ صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی امن کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ اس علاقے میں کشیدگی سے بچنا ضروری ہے لیکن اس کے لیے عملی حل کیا ہو گا یہ ایک بڑا سوال ہے۔ جنوبی چینی سمندر کا تنازعہ نہ صرف اس علاقے کے ممالک کے لیے بلکہ پورے عالمی امن کے لیے ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ طاقتور ممالک کی شمولیت، قدرتی وسائل کا تنازعہ اور عالمی تجارت کی اہمیت اس علاقے کو خاص بنا دیتی ہے۔ اس تنازعے کا حل عالمی سفارتکاری اور سنجیدہ مذاکرات پر منحصر ہے اور یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ مسئلہ ایک عالمی جنگ کی شکل اختیار کرے گا یا اس کا کوئی پائیدار حل نکلے گا۔
‘امریکا کو فوجی اڈے دیے تو سنگین نتائج کا سامنا کرو گے’ ایران کی مسلم ممالک کو دھمکی

ایران نے امریکا کی جانب سے جوہری پروگرام پر براہ راست مذاکرات کی پیشکش یا حملے کی دھمکی کو رد کرتے ہوئے اپنے پڑوسی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے امریکی کارروائی میں کسی قسم کی مدد فراہم کی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ایک سینئر ایرانی عہدیدار نے خبردار کیا کہ وہ ممالک جو امریکا کے فوجی اڈوں کی میزبانی کرتے ہیں ان کے لیے ممکنہ طور پر ایرانی حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایران نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکا کی جانب سے پیش کی گئی براہ راست مذاکرات کی تجویز کو مسترد کیا گیا ہے، تاہم وہ عمان کے ذریعے بالواسطہ مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل عرصے سے رابطے کا ذریعہ رہا ہے۔ ایرانی عہدیدار کے مطابق “بالواسطہ مذاکرات ایک موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ واشنگٹن کی نیت کو پرکھا جا سکے کہ آیا وہ ایران کے ساتھ سیاسی حل پر بات چیت کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں۔” انہوں نے کہا ہے کہ اگرچہ یہ راستہ مشکل ہو سکتا ہے لیکن اگر امریکا کی جانب سے مثبت پیغامات آئے تو ان مذاکرات کا آغاز جلد ہو سکتا ہے۔ ایران نے عراق، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکی اور بحرین کو باقاعدہ نوٹس بھیجے ہیں جن میں ان ممالک کو واضح طور پر خبردار کیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے ایران پر امریکی حملے میں مدد فراہم کی تو اسے “دشمنی کا عمل” سمجھا جائے گا۔ یہ بھی پڑھیں:امریکی ٹیرف کے اثرات: انڈیا کی اقتصادی ترقی کی رفتار سوالات کی زد میں آگئی ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ “ایسا عمل ان کے لیے شدید نتائج کا باعث بنے گا۔” انہوں نے مزید کہا کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایرانی افواج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ امریکی حملے کا بھرپور جواب دیا جا سکے۔ اس وارننگ کے بعد خطے کے ممالک میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے خاص طور پر اس پس منظر میں جب غزہ اور لبنان میں کھلی جنگ، یمن میں فوجی حملے، شام میں قیادت کی تبدیلی آ چکی ہے اور اسرائیل اور ایران کے درمیان مسلسل کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ترکیہ کی وزارت خارجہ نے کہا کہ انہیں ایران کی جانب سے ایسی کوئی وارننگ موصول نہیں ہوئی لیکن یہ پیغامات دیگر ذرائع سے پہنچائے جا سکتے ہیں۔ اسی دوران ایرانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ کویت نے ایران کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے کسی بھی جارحانہ کارروائی کی اجازت نہیں دے گا۔ اس کے ساتھ ہی روس نے بھی امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکیوں کو غیر قابل قبول قرار دیتے ہوئے احتیاط کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ لازمی پڑھیں:برطانیہ میں روسی زیر آب سینسرز: جوہری سب میرینز کی جاسوسی کی کوشش ایران کی نظر میں روس ایک اہم اتحادی ہے لیکن وہ اس کی وابستگی پر مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں کیونکہ یہ تعلقات امریکا اور روس کے تعلقات پر منحصر ہیں۔ ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ “یہ تعلقات امریکا اور روس کے تعلقات کی حرکیات پر منحصر ہیں۔” امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لیے ایک سیاسی حل چاہتے ہیں لیکن وہ جنگ کے بجائے معاہدے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے 7 مارچ کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط لکھا تھا جس میں مذاکرات کی تجویز دی گئی تھی۔ ایرانی عہدیدار کے مطابق بالواسطہ مذاکرات کی پہلی نشست عمان کے ذریعے ہو سکتی ہے جس میں ایرانی اور امریکی نمائندے ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی یا ان کے نائب مجید تخت روانچی کو ان مذاکرات میں شرکت کے لیے خامنہ ای کی جانب سے اختیار دیا گیا ہے۔ ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایران کے لیے یہ “دو ماہ کا سنہری موقع” ہے تاکہ کسی معاہدے تک پہنچا جا سکے۔ اس وقت ایران کی فکر یہ ہے کہ اگر مذاکرات میں تاخیر ہوئی تو اسرائیل خود ایک حملہ کر سکتا ہے جو ایران کے خلاف “تمام عالمی پابندیوں کی واپسی” کا باعث بنے گا تاکہ ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے سے روک سکے۔ ضرور پڑھیں:اسرائیلی جارحیت کی انتہا: صحافیوں کے خیمے پر بمباری، دو شہید، سات زخمی ایران نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ کسی جوہری ہتھیار کی تیاری کا ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ایران نے یورینیم کی افزودگی میں تیزی لائی ہے جس کے نتیجے میں یورینیم کی افزودگی 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح کے قریب ہے۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے اس بات کی اطلاع دی ہے کہ ایران اس سطح پر افزودگی کر رہا ہے جس پر مغربی ممالک نے شدید اعتراض کیا ہے۔ ایران نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکا سے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن وہ ان مذاکرات کو اس وقت تک مسترد کرتا ہے جب تک کہ امریکا کی جانب سے دھمکیاں دی جا رہی ہوں اور اس نے اپنے میزائل پروگرام کو مذاکرات کے موضوع سے باہر رکھا ہے۔ ایک سینئر ایرانی فوجی کمانڈر اسلامی انقلابی گارڈز کے امیر علی حاجی زادہ نے پیر کے روز اشارہ دیا تھا کہ کسی بھی جنگ کی صورت میں ایران امریکا کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ 2020 میں ایران نے عراقی سرزمین پر امریکی اڈوں کو اس وقت نشانہ بنایا تھا جب بغداد میں امریکی میزائل حملے میں ایران کے مشہور کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت ہوئی تھی۔ مزید پڑھیں: فلسطینیوں کے حق میں معاشی مزاحمت، بائیکاٹ مہم عالمی سطح پر دوبارہ سرگرم
امریکی ٹیرف کے اثرات: انڈیا کی اقتصادی ترقی کی رفتار سوالات کی زد میں آگئی

انڈیا نے اپنے مالی سال 2025/26 کے لیے 6.3 فیصد سے 6.8 فیصد تک کی ترقی کی پیش گوئی کی تھی لیکن اس کے باوجود عالمی سطح پر امریکی ٹیرف کے اثرات کا خدشہ اب بھی برقرار ہے۔ حکومت کے اعلیٰ حکام کے مطابق اگر تیل کی قیمتیں 70 ڈالر فی بیرل سے نیچے رہیں تو انڈیا کی معیشت اپنے متوقع نمو کے ہدف کو حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم، متعدد نجی ماہرینِ معیشت نے اپنے تخمینوں میں کمی کرتے ہوئے انڈیا کی ترقی کی شرح کو 6.1 فیصد تک محدود کر دیا ہے۔ یہ خدشات اس وقت مزید بڑھ گئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف نئے تجارتی ٹارفز عائد کیے۔ ان ٹارفز نے عالمی تجارت کو ہلا کر رکھ دیا اور ایشیا کے بڑے اسٹاک انڈیکس میں مندی کا رجحان دیکھا گیا۔ ٹرمپ کے 26 فیصد ٹارفز نے انڈیا کی معیشت کے مختلف شعبوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان تمام ٹارفز کا سب سے زیادہ اثر انڈیا کی ڈائمنڈ انڈسٹری پر پڑا ہے جو اپنی ایک تہائی برآمدات صرف امریکا کو بھیجتی ہے۔ اس سے ہزاروں افراد کی روزگار پر سوالیہ نشان بن ہے۔ انڈیا کے حکام نے اس صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور صنعتکاروں کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر دیا ہے تاکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تدابیر وضع کی جا سکیں۔ یہ بھی پڑھیں:امریکی ٹیرف اثر دکھانے لگا: ‘اسٹاک ایکسچینج کا سیاہ دن’، کاروبار بند ہوگیا حکومت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ “ہم نے پہلے ہی وزارت تجارت سے متعدد تجاویز موصول کی ہیں جن میں برآمدی صنعتوں کو سہولت دینے کے لیے شرح سود کی سبسڈی، نئے بازاروں میں توسیع اور بینکوں سے زیادہ قرضوں کی فراہمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔” انڈیا کی حکومت نے پہلے ہی 2025/26 کے مالی سال کے بجٹ میں برآمدات کے شعبے کی حمایت کے لیے مناسب اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، امریکا کے نئے ٹارفز کے باعث انڈیا کے حکام نے مزید امدادی تدابیر پر غور شروع کر دیا ہے۔ ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کا کہنا ہے کہ “ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان ٹارفز کا اثر انڈیا کی برآمدات اور دیگر شعبوں پر کس حد تک پڑے گا اور ضرورت پڑنے پر ہم اضافی اقدامات بھی کر سکتے ہیں۔” لیکن انڈیا کی حکومت نے ابھی تک ان ٹارفز کے جواب میں کوئی سخت ردعمل ظاہر کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر مذاکرات کے ذریعے حل کی تلاش میں ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات خراب نہ ہوں۔ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان شعبوں کا ہے جو محنت طلب کاموں پر منحصر ہیں، جیسے کہ ٹیکسٹائل، جوتے اور زرعی مصنوعات۔ ان شعبوں میں روزگار کی بہت بڑی تعداد وابستہ ہے اور امریکی ٹارفز کے باعث ان کے لئے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ان شعبوں میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کی روزگار کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لازمی پڑھیں:امریکی ٹیرف: 50 سے زائد ممالک کا وائٹ ہاؤس سے تجارتی مذاکرات کا مطالبہ انڈیا کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ٹارفز کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان اقدامات میں برآمدات کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس ریلیف، قرضوں کی فراہمی اور دیگر تجارتی سہولتیں شامل ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اقتصادی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہے چاہے عالمی سطح پر تجارتی رکاوٹوں کا سامنا کیوں نہ ہو۔ ایک حکومتی اہلکار نے بتایا کہ “ہم نے بجٹ میں برآمدات کو فروغ دینے کے لیے جو اسکیمیں رکھی ہیں، ان کی مدد سے ہم عالمی مارکیٹ میں انڈیا کی پوزیشن کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہماری معیشت امریکی ٹارفز یا کسی بھی عالمی بحران سے زیادہ متاثر نہ ہو۔” اگرچہ انڈیا کے حکام کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انڈیا عالمی سطح پر ہونے والی تجارتی کشمکش سے محفوظ رہ سکتا ہے لیکن عالمی ماہرینِ معیشت اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ انڈیا کی معیشت پر ان ٹارفز کا اثر نہیں پڑے گا۔ بعض ماہرین نے انڈیا کی معیشت کے لیے ترقی کی شرح میں کمی کی پیش گوئی کی ہے جبکہ کچھ نے اسے 6.1 فیصد تک محدود کر دیا ہے۔ یہ وقت انڈیا کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ ایک طرف امریکی ٹارفز نے انڈیا کی معیشت کے سامنے مشکلات کھڑی کر دی ہیں، دوسری طرف حکومت نے ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ انڈیا کو نہ صرف اپنے برآمدی شعبے کو بچانا ہے بلکہ عالمی اقتصادی تعلقات میں اپنی پوزیشن کو بھی مستحکم رکھنا ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف اثر دکھانے لگا: ‘اسٹاک ایکسچینج کا سیاہ دن’، کاروبار بند ہوگیا
برطانیہ میں روسی زیر آب سینسرز: جوہری سب میرینز کی جاسوسی کی کوشش

برطانیہ کے ساحلی علاقے میں روسی زیر آب سینسرز کی موجودگی نے برطانوی حکام کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق برطانوی فوج نے سمندر کی تہہ میں نصب روسی سینسرز کا پتہ چلایا ہے جو ممکنہ طور پر برطانوی جوہری سب میرینز کی جاسوسی کے لئے لگائے گئے تھے۔ ان سینسرز کی دریافت نے برطانوی حکام کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ یہ سینسرز ممکنہ طور پر روسی حکومت کے خفیہ آپریشنز کا حصہ ہو سکتے ہیں جو برطانوی جوہری سب میرینز کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے لگائے گئے تھے۔ رائل نیوی کے حکام نے ان سینسرز کو سمندر کی تہہ میں نصب پایا جبکہ کچھ سینسرز ساحل پر بھی آ گئے ہیں۔ اس سلسلے میں برطانوی فوجی اور انٹیلی جنس افسران کا خیال ہے کہ یہ سینسرز برطانوی جوہری سب میرینز کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کی کوششوں کا حصہ ہو سکتے ہیں جو کہ نیوکلیئر میزائلوں سے لیس ہیں۔ ایک اعلیٰ برطانوی فوجی عہدیدار نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ جنگ اٹلانٹک میں جاری ہے اور یہ کھیل سرد جنگ کے اختتام کے بعد دوبارہ شدت اختیار کر چکا ہے۔” یہ رپورٹس اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ روس کا جاسوسی کا نیٹ ورک اب بھی فعال ہے اور اس نے سمندر کے گہرے حصوں میں اپنے غیر مسلح خودکار گاڑیاں بھی چھپائی ہیں جو کہ برطانوی سب میرینز کے راستوں اور زیر آب کیبلز کی نگرانی کر رہی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی جارحیت کی انتہا: صحافیوں کے خیمے پر بمباری، دو شہید، سات زخمی ان تحقیقات کے دوران یہ بھی پتا چلا ہے کہ روسی اولیگارکوں کے زیر ملکیت سپر یاٹ بھی ان سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتی ہیں۔ دوسری جانب فرانس کے صدر ایمینیول میکرون نے روس کی جارحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر روس نے امن کی کوششوں کو مسترد کیا تو سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں یوکرین کے شہر کریوی ریگ پر ہونے والے روسی میزائل حملے کی مذمت کی ہے جس میں نو بچوں سمیت بیس افراد ہلاک ہوئے۔ میکرون نے کہا کہ “روس کی جانب سے بچوں اور بے گناہ شہریوں کی قتل و غارت گری کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔” یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور کہا کہ روس کی فضائی بمباری کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یوکرین کے دارالحکومت کیف پر ہونے والے حالیہ حملوں میں بھی ایک شخص ہلاک جبکہ تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان حملوں نے یوکرین کی شہری آبادی کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس دوران پولینڈ نے بھی اپنی فضائی حدود کی حفاظت کے لئے فوری طور پر اقدامات اٹھائے ہیں اور اپنے فوجی طیارے فضا میں روانہ کیے ہیں تاکہ کسی بھی غیر ملکی حملے کا فوری جواب دیا جا سکے۔ پولینڈ کی فضائی نگرانی کی وجہ سے ہی گزشتہ سال ایک یوکرینی میزائل کے پولینڈ کے جنوبی علاقے میں گرنے سے انسانی نقصان ہوا تھا۔ اس صورتحال نے عالمی برادری کو ایک مرتبہ پھر یہ یاد دلایا ہے کہ سرد جنگ کے دوران کی جاسوسی کی سرگرمیاں اب بھی جاری ہیں اور عالمی سیاست میں تناؤ کی لہر مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف سے عالمی تجارت پر شدید اثرات: ٹرمپ کا ٹیرف کم نہ کرنے کا فیصلہ
امریکی ٹیرف سے عالمی تجارت پر شدید اثرات: ٹرمپ کا ٹیرف کم نہ کرنے کا فیصلہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی مالیاتی نظام کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے، انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک امریکہ کی تجارتی پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں، انہیں اب بہت زیادہ رقم ادا کرنا ہوگی۔ ٹرمپ نے درآمدی محصولات کو دوا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ قلیل مدتی طور پر مالیاتی منڈیوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں، مگر طویل المدت میں امریکا کے مفاد میں ہیں۔ ان بیانات کے بعد ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں بھاری گراوٹ دیکھی گئی جبکہ امریکی اسٹاک فیوچرز نے بھی نیچے کا رخ اختیار کیا۔ سرمایہ کاروں میں خوف ہے کہ ٹرمپ کے سخت ٹیرف اقدامات سے عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھیں گی، صارفین کا اعتماد کم ہوگا اور یہ صورتحال عالمی تجارت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اتوار کو ایئر فورس ون پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: “میں نہیں چاہتا کہ معیشت نیچے جائے، لیکن کبھی کبھی کسی مسئلے کو ٹھیک کرنے کے لیے دوا لینا پڑتی ہے۔” انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ یورپ اور ایشیا کے کئی رہنما ان سے ٹیرف کم کرنے کے لیے بات کر رہے ہیں، مگر وہ صرف اسی صورت میں رعایت دیں گے جب دوسرے ممالک امریکا کو سالانہ بنیاد پر بھاری ادائیگی کریں۔ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں نے نہ صرف چین کو جوابی اقدامات پر مجبور کیا بلکہ دنیا بھر کی معیشتوں میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں عالمی تجارتی جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں، اور کئی معاشی ماہرین اسے دنیا کی معاشی بحالی کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ اس دوران، امریکی حکومت کے اعلیٰ مشیر ٹیرف پالیسی کے دفاع میں سامنے آئے۔ ٹریژری سکریٹری سکاٹ بیسنٹ کے مطابق، ٹرمپ کے اعلانات کے بعد 50 سے زائد ممالک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کر چکے ہیں۔ کامرس سکریٹری ہاورڈ لٹنک نے کہا کہ ٹیرف عارضی نہیں بلکہ ممکنہ طور پر طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر تجارت کے توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جانب ایک مضبوط اشارہ ہے، جس کا اثر ترقی پذیر ممالک پر خاص طور پر گہرا ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کی انتہا: صحافیوں کے خیمے پر بمباری، دو شہید، سات زخمی

غزہ پر اسرائیل کے ظلم و بربریت نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، غزہ کے علاقے خان یونس کے ناصر اسپتال کے قریب صحافیوں کے خیمے کو نشانہ بنا کر اسرائیلی فوج نے ایک بار پھر اپنی سفاکیت کا ثبوت دے دیا۔ اس حملے میں دو معصوم فلسطینی صحافی شہید ہو گئے جبکہ سات شدید زخمی ہیں، جبکہ ان میں دو صحافی زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ شدید بمباری کے نتیجے میں صحافی احمد منصور آگ میں جھلس کر شدید زخمی ہوگئے، ذرائع کے مطابق وہ ایک شخص اور بھی ہے جس کی زندگی بچانے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔ دوسری جانب ایہاب البدینی نامی صحافی کو سر میں شیل کا ٹکڑا لگا جو آنکھ کے ذریعے باہر نکل گیا، ان کی حالت بھی نازک بتائی جا رہی ہے۔ یہ بمباری ایک ایسے وقت میں کی گئی جب اسرائیلی فوج نے دیر البلح کے پانچ رہائشی علاقوں کو خالی کرنے کا حکم دیا اور اسی دوران پچاس سے زائد بےگناہ فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ صورتحال یہاں تک محدود نہیں رہی، ظالم اسرائیلی افواج نے مقبوضہ ویسٹ بینک میں ایک فلسطینی-امریکی بچے کو گولی مار کر شہید کر دیا جبکہ جنوبی لبنان میں بھی دو افراد اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنے۔ دوسری جانب امریکی افواج نے یمن کے دارالحکومت صنعاء میں چار افراد کو شہید کر دیا، جس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔ صحافیوں کو نشانہ بنانا ایک ایسا جرم ہے جو صرف جسمانی نہیں بلکہ سچ کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اب بھی خاموش رہے گی؟ غزہ کی سرزمین پر بہتا بےگناہ خون، جلتے وجود، چیختے بچے اور سسکتے خاندان پوری دنیا کو پکار رہے ہیں کیا انسانیت مر چکی ہے؟ مزید پڑھیں: فلسطینیوں کے حق میں معاشی مزاحمت، بائیکاٹ مہم عالمی سطح پر دوبارہ سرگرم
امریکی ٹیرف: 50 سے زائد ممالک کا وائٹ ہاؤس سے تجارتی مذاکرات کا مطالبہ

دنیا کے تجارتی نظام میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں، 50 سے زیادہ ممالک نے امریکا کے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا ہے اور تجارتی مذاکرات شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ وائٹ ہاوس میں رابطہ کرنے والے یہ وہ ممالک ہیں جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسیوں سے تشویش لاحق ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر جاری ان تبدیلیوں نے مالیاتی منڈیوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، جس کے اثرات کئی ممالک کی معیشتوں پر برائے راست پڑ رہے ہیں۔ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی نے عالمی سطح پر ایک نئی تشویش پیدا کی ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے ایک کے بعد ایک نئے ٹیر ف اور تجارتی پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہے جس سے عالمی سطح پر معیشت میں ہلچل مچ گئی ہے۔ اس دوران ٹرمپ کے اکانومی مشیر، کیون ہیسیٹ نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ 50 سے زیادہ ممالک نے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا ہے اور امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات عالمی سطح پر امریکی مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں اور امریکی معیشت کی ترقی کو تیز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کامیاب ہو گی یا پھر عالمی سطح پر ایک تجارتی جنگ کا آغاز ہوگا؟ ٹرمپ کی طرف سے جاری کیے گئے نئے ٹیر ف نے عالمی منڈیوں کو لرزہ براندام کر دیا ہے۔ امریکی ٹیر ف کے اثرات صرف امریکی معیشت پر نہیں پڑے بلکہ عالمی معیشت بھی اس کے اثرات سے بچ نہ سکی۔ امریکی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی دیکھنے کو ملی اور سرمایہ کاروں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی ٹریژری کے سیکریٹری، اسکاٹ بیسینٹ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی معیشت میں کسی قسم کی کساد بازاری کی کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ اقتصادی اعداد و شمار جیسے امریکی ملازمتوں کی شرح میں غیر متوقع اضافہ، اس بات کی دلیل ہیں کہ امریکی معیشت کی حالت مستحکم ہے اور ابھی کسی بڑی مشکل کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس کے باوجود عالمی منڈیوں میں سرمایہ کاروں کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین نے امریکا کے ان اقدامات کے خلاف اپنی تیاری مکمل کر لی ہے۔ یہ بھی پڑھیں:امریکی ٹیرف پالیسی: انڈیا کی معیشت پر گہرے اثرات اور ریپو ریٹ میں کمی کی پیشگوئی یورپی یونین کی 27 ممبر ریاستیں ایک مشترکہ محاذ پر متحد ہو کر امریکی ٹیرف کے خلاف جوابی اقدامات اٹھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ یورپ کی قیادت نے امریکا کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر 28 ارب ڈالر تک کے امریکی مصنوعات پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ یہ اقدام یورپ کی اقتصادی طاقت کا مظہر ہے جو امریکی تجارتی جنگ کے جواب میں اپنا موقف مضبوطی سے پیش کر رہا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک میں فرانس، اٹلی اور آئرلینڈ سمیت مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ فرانس نے اس تجویز کو پیش کیا ہے کہ یورپی کمپنیاں امریکا میں اپنی سرمایہ کاری کو معطل کر دیں تاکہ وہاں کی اقتصادی پالیسیوں کی سمت کے بارے میں مزید وضاحت مل سکے۔ دوسری جانب آئرلینڈ نے تجویز دی ہے کہ یورپ کو محتاط اور سوچ سمجھ کر جوابی کارروائی کرنی چاہیے تاکہ عالمی تجارت میں مزید بدامنی نہ پھیل سکے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھی اپنے فیصلوں پر قائم رہنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ تجارتی پالیسی امریکا کے مفاد میں ہے اور اس سے نہ صرف امریکا کی معیشت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی امریکی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا نے ہمیشہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے معاملات میں نقصان اٹھایا ہے اور یہ وقت ہے کہ امریکا اپنے مفادات کی حفاظت کرے۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہیں، آئی ایم ایف
فلسطینیوں کے حق میں معاشی مزاحمت، بائیکاٹ مہم عالمی سطح پر دوبارہ سرگرم

امریکی سرپرستی میں فلسطین پر حالیہ اسرائیلی حملوں اور ان میں ہزاروں شہادتوں کے ردعمل میں عوامی سطح پر اسرائیلی اور پرواسرائیلی بائیکاٹ کی مہم نئے سرے سے شروع ہوئی ہے۔ حالیہ مہم کی خاص بات یہ ہیکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں سوشل میڈیا صارفین، تاجر، کاروباری ادارے اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا سمیت اتحادیوں فرانس، برطانیہ وغیرہ کی مصنوعات کے خلاف حالیہ مہم صرف مشروبات تک محدود نہیں بلکہ کاسمیٹکس، گروسری آئٹمز، ہاؤس ہولڈ پراڈکٹس، ڈیوائسز اور ڈیجیٹل خدمات کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔ eکا آغاز اور پھیلاؤ: فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف سب سے پہلی بائیکاٹ مہم 2023 کے اکتوبر میں سوشل میڈیا پر پاکستان میں شروع ہوئی۔ اس مہم میں عوامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات، جیسے اسٹاربکس، میکڈونلڈز، کے ایف سی، اور دیگر مغربی برانڈز کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔ اس کے بعد، دیگر اسلامی ممالک جیسے ملائیشیا، مصر، اردن، کویت اور مراکش میں بھی اسی نوعیت کی مہمات چلائیں گئیں۔ ملائیشیا: ملائیشیا میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف بائیکاٹ مہم نے زور پکڑا اور یہ 2023 کے اواخر میں سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئی۔ حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے اس مہم کی حمایت کی گئی۔ خاص طور پر، اسٹاربکس، میکڈونلڈز اور دیگر غیرملکی برانڈز کی مصنوعات کو نشانہ بنایا گیا۔ ملائیشیا میں بائیکاٹ کے اثرات واضح تھے، جہاں اسٹاربکس نے تسلیم کیا کہ اس کے 400 سٹورز میں کم از کم 40 فیصد فروخت میں کمی آئی۔ حکومت نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت کی اور اس مہم کی پزیرائی میں عوامی سطح پر اضافہ دیکھنے کو ملااس کے علاوہ، کئی مقامی برانڈز نے بھی اس مہم کو تیز کرنے میں تعاون کیا۔ مصر: مصر میں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔ مصر کے مختلف شہروں میں لوگوں نے بازاروں میں اسرائیلی مصنوعات کی نمائش پر احتجاج کیا۔ مصر میں اس مہم کا اثر خاص طور پر بڑے شہروں میں محسوس کیا گیا۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے نتیجے میں کئی غیرملکی کمپنیوں کی فروخت میں 25 سے 30 فیصد تک کمی آئی۔ خاص طور پر اسٹاربکس اور کے ایف سی جیسے برانڈز کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اردن: اردن میں بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی اور عوامی سطح پر اس میں دلچسپی لی گئی۔ اردن میں احتجاجی مظاہرے اور سوشل میڈیا پر #BoycottIsrael کے ہیش ٹیگ کے ذریعے لوگوں نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ اردن میں بائیکاٹ مہم کے اثرات مایوس کن نہیں تھے۔ مقامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 20 سے 25 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ تاہم، عالمی سطح پر اس بائیکاٹ کا اثر محدود رہا اور اسرائیل کو اس کی معیشت میں کوئی نمایاں نقصان نہیں پہنچا۔ کویت: کویت میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ کویتی حکومت نے اس مہم کی غیرمستقیم طور پر حمایت کی اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ اسلامی دنیا کی یکجہتی کا مظہر ہے۔کویت میں بائیکاٹ کے اثرات خاص طور پر غیرملکی کمپنیوں پر مرتب ہوئے، جنہوں نے کویت میں اپنے کاروبار کو متاثر ہوتے ہوئے دیکھا۔ مقامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 40 فیصد تک کمی آئی، اور کچھ کمپنیوں نے اپنے پروڈکٹس کی قیمتیں بڑھا دیں تاکہ عوام کی توجہ ہٹ سکے مراکش: مراکش میں بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی گئی۔ مراکش کے سوشل میڈیا اور عوامی فورمز پر اس مہم کو نمایاں طور پر پزیرائی ملی مراکش میں اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 15 سے 20 فیصد تک کمی آئی، اور لوگوں نے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مراکش میں اس مہم کی کامیابی زیادہ تر عوامی سطح پر تھی اور اس کا اثر عالمی سطح پر کم تھا۔ پاکستان میں بائیکاٹ مہم کا اثر: پاکستان میں بائیکاٹ مہم کی مقبولیت خاص طور پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تھی۔ حکومتی سطح پر اس مہم کی حمایت نہیں کی گئی، مگر عوامی سطح پر اس مہم کا زور پکڑا۔ مارکیٹ میں اسرائیلی مصنوعات کی خرید و فروخت میں واضح کمی دیکھی گئی، خاص طور پر ان کمپنیوں کے ساتھ جڑے مصنوعات جو اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے جڑے ہوئے تھے۔ پاکستان بزنس فورم کے مطابق، اسرائیل سے جڑی مصنوعات کی فروخت میں 40-50 فیصد کمی آئی۔ اس کے علاوہ، کچھ غیرملکی برانڈز نے پاکستان میں اپنے آپریشنز کو محدود کیا یا اپنے پراڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ کیا تاکہ بائیکاٹ کے اثرات کم کیے جا سکیں۔ پاکستان بزنس فورم کے کو آرڈینیٹر ابراہیم زبیر نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بائیکاٹ کی مہم میں عوام کی سرگرم شرکت ضرور نظر آئی ہے، خصوصاً میکڈونلڈ، کوکا کولا اور دیگر ایسی مصنوعات کا جنہیں لوگوں نے کچھ عرصے کے لئے چھوڑا۔ تاہم، یہ بائیکاٹ اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتا جب تک بڑی کاروباری کمیونٹیز اور حکومت اس میں شامل نہ ہوں۔ عوامی سطح پر بائیکاٹ کے اثرات تھوڑے سے نظر آتے ہیں کیونکہ جب تک یہ مصنوعات ہر بازار، ہر ریسٹورنٹ اور ہر دکان پر دستیاب ہیں، عوام کی مجبوری کبھی نہ کبھی انہیں خریدنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک ریسٹورنٹ میں اگر 10 افراد ہیں، تو پانچ لوگ شاید ان مصنوعات کو چھوڑ دیں گے، لیکن باقی لوگ یا تو خاموشی سے خرید لیں گے یا کسی نہ کسی وجہ سے ان کو خریدنے پر مجبور ہوں گے اس بائیکاٹ کو موثر بنانے کے لئے کاروباری کمیونٹیز کا اتحاد ضروری ہے، اور اگر حکومت اس میں شراکت دار بنے، تو یہ ایک مضبوط اور کامیاب مہم بن سکتی ہے۔ عوام کی طرف سے اس کی بھرپور حمایت تب ہی ممکن ہو سکتی ہے جب یہ مہم وسیع سطح پر منظم ہو، تاکہ اس کا اثر اصل میں دیکھنے کو ملے۔ سابق ایگزیکٹو ممبر لاہور چیمبر آف کامرس اعجاز تنویر کے مطابق بائیکاٹ مہم کا خاص طور پر غیر
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 20 دنوں میں 490 بچے شہید، مجموعی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کر گئی: یونیسیف

غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ تھم نہ سکا، صرف 20 دنوں میں 490 معصوم بچے شہید ہوگئے، جب کہ مجموعی طور پر شہید ہونے والے بچوں کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں ایک ملین سے زائد بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ تنظیم کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر بچے نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی و نفسیاتی طور پر بھی جنگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ فوری جنگ بندی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی فراہمی ناگزیر ہو چکی ہے۔