پاکستانی معیشت میں رئیل اسٹیٹ کا کردار،پراپرٹی کا کاروبارزبوں حالی کا شکارکیوں ہے؟

ایک وقت تھا جب رئیل اسٹیٹ کاروبار پاکستان میں بہت منافع بخش ہوا کرتا تھا مگر گزشتہ چند برس میں سیاسی عدم استحکام اور گرتی ہوئی معیشت کے سبب رئیل اسٹیٹ نے بھی بڑا نقصان اٹھایا ہے۔ ماضی میں ہونے والے شرح سود کے اضافے کے باعث رئیل اسٹیٹ کاروبار کافی متاثر ہوا۔ جہاں سال 2024 میں مہنگائی کے سبب تمام بزنسز شدید نقصان میں رہے وہیں دوسرے کاروباروں کی نسبت رئیل اسٹیٹ نسبتاً کم نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران رئیل اسٹیٹ بزنس میں نمایاں تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ مئی 2023 میں ورلڈ بینک کے لگائے گئے تخمینے میں ملکی دولت کا 60 سے 70 فیصد حصہ پاکستانی رئیل اسٹیٹ اکانومی کا تھا جو تقریبا 700 بلین ڈالر بنتا تھا۔ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ جی ڈی پی کے تقریبا 2.8 فیصد پر مشتمل تھی۔رئیل اسٹیٹ کی ابتدا پاکستان کی آزادی سے پہلے کی ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل بند روڈ کے قریب پرانےکراچی میں رئیل اسٹیٹ ایجنسیاں موجود تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد شہروں کی جانب نقل مکانی سے رئیل اسٹیٹ کاروبار بڑھا اورضلع جنوبی کراچی رئیل اسٹیٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنا۔ ڈی ایچ اے کراچی 50 کی دہائی میں بنایا گیا تھا۔ رئیل اسٹیٹ میں بڑا منافع 1973 میں بھٹو حکومت میں ایمنسٹی اسکیم کے آغاز کے بعددیکھنے کو ملا مگر 1977 میں انتخابات اور ڈی ایچ اے میں تباہ کن سیلاب کے بعد رئیل اسٹیٹ بری طرح ناکام ہوئے۔ موجودہ رئیل اسٹیٹ کی بنیاد 90 کی دہائی میں رکھی گئی۔ 1992 میں مارکیٹ میں رئیل اسٹیٹ نے کامیابی سمیٹی مگر 1997 میں زوال کا شکار ہوگئی۔ 2013 میں ایک بار پھر رئیل اسٹیٹ نے اپنے قدم جمالیے۔ 2015 میں رہائشی پلاٹوں میں 5 سے 7 فیصد جبکہ کمرشل پراپرٹی میں 15 سے 20 فیصد تک حیران کن منافع ہوا۔ کورونا، سیاسی عدم استحکام اور ڈگمگاتی ملکی معیشت کے سبب 2019 کے بعد ایک بارپھررئیل اسٹیٹ کی کمر ٹوٹ گئی۔ چھوٹے رئیل اسٹیٹ تاجروں کو گزشتہ برسوں میں بہت زیادہ نقصان پہنچاہے ۔ نجی خبر رساں ادارے اردو پوائنٹ کی رپورٹ کے مطابق آل پاکستان رئیل اسٹیٹ کے ماہر حسام علی کا کہنا ہے کہ 2024 کےپہلے 6 مہینے میں مہنگائی کی شرح اوسط 2.30فیصد تھی۔ باقی کاروبار کی نسبت رئیل اسٹیٹ میں خاصی لچک رہی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں معاشی بدحالی کے باوجود رئیل اسٹیٹ کی قدر برقرار رہی۔ رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں افراطِ زر کے ساتھ بڑھتی ہیں۔ ملک میں پراپرٹی قلیل مدتی وطویل مدتی سرمایہ کاروں کے لیے بہت سے مواقع پیش کرتی ہے۔ رئیل اسٹیٹ پلیٹ فارم زمین ڈاٹ کام کے مطابق گزشتہ دہائی میں لاہور،اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں رہائشی املاک کی قیمتوں میں 10 سے 15 مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ جرمن شماریاتی پورٹل سٹیٹسٹا کے مطابق 2025 میں پاکستانی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا 2.03ٹریلین ڈالر پر پہنچنے کا امکان ہے۔ سالانہ شرح نمو 3.75فیصد ہونے کی توقع کی گئی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ2029 میں 2.41ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ رئیل اسٹیٹ کے مثبت و منفی دونوں اثرات پائے جاتے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے فوائد یہ ہیں کہ ایک تو اس سے روزگار پیدا ہوتا ہے اوردوسرا منافع سرمایہ کاروں کو راغب کرتا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کریں۔ انفراسٹرکچرکی بہتری اور پلاٹوں کے لین دین سے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کم آمدنی والے طبقے پر گہرے اثر چھوڑتا ہے۔ قیمتوں کے بڑھ جانے سے نچلاطبقہ اپنے خود کے گھر نہیں بنا سکتا۔غیر قانونی قبضے اور رشوت خوری جیسی سماجی برائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ کارخانے لگانے سے پیسہ بڑھتا ہے۔ پیسے کی ریل پیل ہوتی ہے مگررئیل سٹیٹ کے کاروبار میں پیسہ منجمد ہوجاتا ہےجو کہ ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ سینئرصحافی اور ڈائریکٹررائٹ پلیس مارکیٹنگ لاہور مناظرعلی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” ،یہاں اربوں روپے کا سرمایہ کاری کا عمل دخل ہوتا ہے اور لاکھوں افراد کا چولہا رئیل اسٹیٹ سے ہونے والی آمدن سے چلتاہے۔ سرمایہ کاروں کے علاوہ اس سے وابستہ دفاتر اور کنسٹرکشن کمپینوں کے ملازمین بھی اسی روزگار کے چلنے سے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ مگر پچھلے کچھ عرصے سے اس مارکیٹ میں خاصی مندی دیکھی جارہی ہے،اس کی سب سے بڑی وجہ ٹیکسز کی بھرمار ہے جس وجہ سے سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری سے منہ پھیر لیا ہے اور نتیجتا مارکیٹ میں مندی ہے”۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ “2025 کو رئیل سٹیٹ مارکیٹ میں پھر بہتری کا سال قرار دیاجارہاہے۔ ٹیکسز میں کسی حد تک کمی آرہی ہے اور کچھ نئے پروجیکٹس شروع ہونے سے بھی مارکیٹ میں ہلچل کی صورتحال نظر آرہی ہے،ان دنوں الغنی ڈویلپرز نے اپنا فیز سیون لانچ کیا ہے،اسی طرح آنے والے دنوں میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض بھی دبئی میں ایک بڑا پروجیکٹ لانچ کرنے جارہے ہیں،کہاجارہاہے کہ پاکستان کے بڑے سرمایہ کار بھی دبئی میں بھاری سرمایہ کیلئے تیاری کررہے ہیں،یہ پروجیکٹ بھی پاکستانی رئیل سٹیٹ مارکیٹ میں تیزی کا باعث بن سکتاہے”۔ مناظر علی نے کہا کہ “مجموعی طورپر اگر بات کی جائے تو اب پراپرٹی خریدنے کا وقت ہے،بیچنے کا نہیں۔ 2025 کے آغاز میں جن لوگوں نے پراپرٹی خریدنے کافیصلہ کرلیا ہے وہ سال کے آخر میں یا پھر دوہزار چھبیس میں کئی گنا منافع کماسکتے ہیں۔ اس مارکیٹ میں وہی لوگ زیادہ منافع کماتے ہیں جنہیں سرمایہ کاری کرنے کے وقت کا اندازہ ہوتاہے اور کہاں سرمایہ کاری کرنی ہے یہ بھی معلوم ہوتاہے۔ لہذا عام آدمی کو بھی یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اگر کچھ خریدنا ہے تو ابھی وقت ہے خرید لیں”۔
ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سنٹرز: اب آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانےکی ضرورت نہیں!

ڈاکٹر یا ہسپتال جانے کا جھنجھٹ ختم ،ایک کال پر ڈاکٹر خود آپ کے پاس حاضر ہوگا،کیا ایسا ممکن ہے؟جی ہاں ،سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسا انقلاب برپا کیا ہے کہ اب اس کے بغیر رہنا ناممکن ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عالمی سطح پر صحت کی فراہمی اور دیکھ بھال کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ دنیا کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان نے قابلِ قدر کوشش کی ہے کہ صحت کے مراکز میں بہتری لائی جائے۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والی جگہوں کوہیلتھ کئیر سنٹرز کہا جاتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کی مدد سے صحتِ عامہ کی خدمات کو مؤثر بنانا ڈیجیٹل ہیلتھ کئیر سسٹم کہلاتا ہے۔ ڈیجیٹل ہیلتھ کئیرسسٹم صحت عامہ کے مسائل پر بروقت مدد فراہم کرتا ہے۔ ڈیجیٹل سائٹ ہیلتھ وائرکےاعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 2022 سے 2023 تک آن لائن ریکارڈ مریضوں کی تعداد میں 40 سے 55 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔ 195 ممالک کی فہرست میں صحت کے اعتبار سے پاکستان کا122واں نمبر ہے ۔کورونا کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے صحت کو لے کر بہت سے اقدامات کیےگئے۔صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیلی میڈیسن جیسی ڈیجیٹل سہولتیں متعارف کرائی گئیں، ٹیلی میڈیسن گھر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے علاج کا نام ہے۔ فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی میں ٹیلی میڈیسن مرکز قائم ہے جو ویڈیو کال کے ذریعے مفید مشورے دیتا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارمز اور الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈ سسٹمز جیسے ڈیجیٹل سلوشنز تیار کرنےپرکام کیا جارہا ہے۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی آیشن (پیما) کی ہیلتھ لائن پروجیکٹ کی سربراہ ڈاکٹر حوریہ نے مئی 2020 میں نجی چینل ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ پیما ٹیلی کلینک سروس کا اجراء اس لیے کیا گیا ہےکہ لوگ کورونا کے دوران گھروں سے کم سے کم نکلیں اور اگر انھیں صحت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو یا فوری طبی مدد چاہئے ہو تو وہ آسانی سے کال کر کے مشورہ لے سکیں۔ ہیلتھ لائن کی سروس ملک بھر میں بالکل مفت ہے اورصبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ امن ٹیلی ہیلتھ سروس کے انچارج شیخ نادر نےڈان نیوز کو بتایا کہ یہ سروس گزشتہ 10 سال سے فعال ہے اور ہیلپ لائن نمبر 9123 ہے۔ 2020 میں نفسیاتی پریشانیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے امن ٹیلی اور پاکستان برائے ایکسیلینس ان سائیکالوجی کی جانب سے مل کر ایک فون کال سروس کا آغاز کیا گیا جس کے اوقات کار دوپہر 2 سے شام 4 بجے تک مختص کیے گئے۔ ڈان نیوز کے مطابق خواتین مریضوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سارہ سعید اور ڈاکٹر عفت ظفر کی جانب سے 2019 میں صحت کہانی ٹیلی میڈیسن ایپ سروس کا آغاز کیا گیا ۔ ایپ کا مقصد تھا کہ خواتین بنا کسی جھنجھٹ اور پریشانی کے خواتین ڈاکٹروں کو اپنے مسائل بتاسکیں۔ منصورہ ہسپتال لاہور سے ڈاکٹر عمیراحمد صدیقی نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “جو بھی سسٹم شروع کیا جاتا ہے اس کی فائدے و نقصان ہوتے ہیں۔ جب تک مریض آپ کے سامنے نہیں ہے آپ مکمل طور پر اس کا معائنہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے دوستوں میں بھی جب کوئی بیمار ہوتا ہےتو ایک حد تک ہم ان کو موبائل پہ ٹریٹ کرتےہیں لیکن اس کے بعد ہم اس کو ہمارے پاس آنے کا کہتے ہیں تا کہ بہتر طریقے سے معائنہ کیا جائے۔ جب مریض آپ کے پاس ہوگا تو آپ اس کی حرکات و سکنات کو دیکھتے ہوئے بہتر معائنہ کر سکتے ہیں”۔ پاکستان کا 195 مین سے 122ویں نمبر پہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ “پاکستان میں آگاہی کی بہت کمی ہے۔ لوگوں کو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں کو بیماریوں کی علامات کے بارے میں مکمل علم ہوتا ہے جب کہ پاکستان میں ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ ہماری گھریلو تربیت میں شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمارے اسپتالوں میں بھی بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے”۔
سٹریٹ کرکٹ سے بنے پاکستانی کھلاڑی جنہیں کھیلتا دیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی

سڑک پر گاڑیاں گزر رہی ہیں، لیکن نوجوان لڑکے بدستور سڑک پر وکٹیں لگائے کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ایسا ضرور آپ نے بھی کیا ہوگا۔ پاکستان میں اسے گلے کرکت کہلائی جاتی ہے۔ پاکستان میں صرف چند کھلاڑی ایسے جو بچپن سے ہی اعلی معیار کے کلبز میں کھیلتے ہیں۔ عام طور پر تمام کھلاڑی اپنی کرکٹ گلی محلے سے کرتے ہیں۔ یہیں سے ان کی صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور وہ آگے بڑھتے ہوئے قومی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک ترقی پذیر ملک ہے اس لیےزیادہ تعداد میں بڑے سٹیدیم بنانا نہایت مشکل کام ہے۔ بڑے سٹیڈیمز کی عدم دستیابی کے باعث یہاں لوگ گلی محلوں میں کرکٹ کھیلتے ہیں۔ وہ کرکٹ جو ہم گلی محلے میں کھیلتے ہیں اسے گلی کرکٹ ، ٹیب بال کرکٹ، یا ٹینس بال کرکٹ بھی کہتے ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں جو کرکٹ بال استعمال ہوتا ہے وہ بہت سخت اور مہنگا ہوتا ہے۔ اس لیے گلی کرکٹ میں ٹینس بال یا پھر ٹینس بال پہ ٹیپ چڑھا کر اسے سخت بنایا جاتا ہے اور پھر استعمال کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں کرکٹ کا آغاز انگریزوں کی آمد سے ہوا۔ جہاں انگریز اپنے ساتھ اپنی زبان، لباس، اور رہن سہن کے انداز لائے وہیں پہ وہ اپنے ساتھ کرکٹ بھی لائے۔ جہاں سے برصغیر میں بھی کرکٹ کھیلی جانے لگی۔ انگریزوں کو دیکھ کر مقام لوگ بھی کرکٹ کھیلنے لگے۔ چونکہ برصغیر کے لوگوں کو بڑے بڑے گراونڈز تک رسائی نہ تھی اس لیے وہ جہاں بھی ذرا سی جگہ دیکھتے وہیں پہ کھیلنا شروع کر دیتے۔ 1980 کی دہائی میں کراچی میں گلی کرکٹ کا آغاز ہوا جہاں نوجوان کھلاڑیوں نے ٹینس بال پہ ٹیپ چڑ ھا کر اس سے کھیلنا شروع کیا۔ یہ روایت تب سے برقرار ہے اور آج بھی کروڑوں لوگ گلی محلے میں کھیلتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سلیکٹرز گلی کرکٹ سے بھی عمدہ کھلاڑیوں کا انتحاب کرتے ہیں۔ گلی کرکٹ عالمی کرکٹ سے تھوڑی سی مختلف ہوتی ہے جب کہ بنیادی قوانین ایک جیسے ہوتے ہیں۔ گلی کرکٹ میں کیوں کہ جگہ نہایت کم ہوتی ہے اس لیے کھلاڑی زیادہ تر سیدھا کھیلتے ہیں تا کہ گیند کہیں گم نہ ہو۔ اس کے علاوہ کئی جگہ پہ چھکا مارنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی ہے کیوں کہ اس سے بھی گیند گم ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اینٹوں یا کریٹس سے وکٹیں بنائی جاتی ہیں اور چاک کی مدد سے پچ پہ لائنیں لگائی جاتی ہیں۔ پاکستان اور کرکٹ کا تعلق صرف کھیل سے بہت بڑھ کر ہے۔ بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر شخص اس کھیل کا دیوانہ ہے۔ گلی کرکٹ میں بھی جہاں بچے جذبے سے کھیلتے ہیں وہیں بڑوں کا شوق بھی دیدنی ہوتا ہے۔ گلی محلوں میں کرکٹ کے ٹورنامنٹ کروائے جاتے ہیں جس بھی کھلاڑی زور و شور سے شرکت کرتے ہیں اور جیتنے والوں کو انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم میں بہت سے کھلاڑی ایسے ہیں جو پہلے گلی کرکٹ سے وابستہ تھے جن میں انضمام الحق، شاہد آفریدی، عبدُالرّزاق، مصباع الحق،خرم منظور، رومان رئیس اور حارث رؤف شامل ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کے سٹار کرکٹر حارث رؤف بھی پہلے گلی کرکٹ ہی کھیلتے تھے ۔ 2017 میں لاہور قلندرز نے پاکستان کے مختلف شہروں میں ٹرائلز کیے جس میں حارث رؤف کو بھی چن لیا گیااور اس کے بعدپی ایس ایل میں حارث نے عمدہ کارکردگی دیکھائی جس کی وجہ سے انہوں نے پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنائی۔
یوگا : اپنے آپ سے ملاقات کی مشق

ورزش انسانی زندگی کا ایک اہم ساتھی ہے۔ روزانہ ورزش کرنا انسان کو بہتر زندگی اور بیماریوں سے نجات بخشتا ہے۔ دنیا بھر میں ورزش کے کئی طریقے پائے جاتے ہیں جن میں سب سے مشہور اور یوگا ہے جو ورزش سے بہت بڑھ کر ہے۔ کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے ملاقات کی ہے؟ دنیا کے تمام کاموں اور پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر خودکو محسوس کرنا ، یوگا کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم اپنی زندگی میں روزانہ کئی طرح کے جذبات سے گزرتے ہیں۔ ہماری زندگی کے تجربات ہمیں مختلف جذبات سے روشنائی حاصل کرواتے ہیں۔کچھ جذبات ہمارے ذہن کو خوش جب کہ کچھ ہمارے ذہن کو غمگین کر دیتے ہیں۔ ہمارا خوش یا غمگین ہونا ہمارے دماغ پہ منحصر ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے دماغ کو فتح کر لیں تو آپ ٹینشن، پریشانی، تناؤ اور دباؤ جیسے احساسات سے نکل کرتے ہیں۔ یوگا اور مراقبہ کرنا آپ کو ایسے ہی خوشگوار احساسات سے ملواتا ہے۔ یوگا سنسکرت کے لفظ “یوج” سے نکلا ہے جس کا مطلب “جوڑنا” یا “ملانا” کے ہیں۔ یہ ذہنی سکون کے لیے انتہائی مؤثر عمل ہے۔ یوگا کی شروعات قدیم انڈیا میں آج سے تقریباً 5000 سال پہلے وادیِ سندھ کی تہذیب سے ہوئی۔ وادیِ سندھ کی تہذیب سے جو مجسمات ہمیں ملے ہیں ان میں سے بہت سے مجسموں پہ انسان کو یوگا کرتے ہوئے بنایا گیا ہے جو ہمیں اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ وادیِ سندھ میں لوگ یوگا کیاکرتے تھے۔ اس دور کو ویدوں سے پہلے کا دور بھی کہا جاتا ہے ۔ وید ایسے لکھے ہوئے نسخوں کو کہا جاتا ہے جو ہندومت کے ابتدائی عرصے میں لکھے گئے اور اس کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں۔ 1500 سے 500 سال قبل مسیح میں یوگا کو خدا سے ملنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ قدیم ویدوں میں ابتدائی مراقبہ، گیتوں اور رسومات کا ذکر ہے جو یو گا کے دوران کیے جاتے تھے۔ ریگ وید ، جو کہ ویدوں کی ایک قسم ہے، میں ایسے اشعار بھی ملے ہیں جس میں خود(آتمان) اور برہمن(اعلی حقیقت)کے درمیان تعلق کو بیان کیا گیا ہے۔ یوگا ، مراقبہ اور عبادت کی مشقوں سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ 800 سے 400 سال قبل مسیح میں ہندومت کی بنیار رکھنے والے نسخے “اپنشد” تخلیق کیے گئے۔ ان نسخوں میں روحانی طور پہ مراقبہ کرنے اورخود پر قابو پانے پر زور دیا گیا تا کہ علم حاصل کیاجا سکے اور بری طاقتوں سے آزادی حاصل کی جا سکے۔ ہندومت کے کلاسیکی دور میں پہلی مرتبہ ہندومت کے مشہور فلسفی پتنجلی نے یوگا کو باقاعدہ متعارف کروایا ۔ اسی دورمیں ہندوں کی مقدس کتاب گیتا ابھری جس میں یوگا کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یوگا اجتمائی طور پہ مختلف مشقوں کا نام ہے جس سے انسانی جسم اور دماغ سکون حاصل کرتا ہے۔یوگا کے دوران انسان خود کو قدرتی مناظر سے جوڑتا ہے۔ اس میں گہری سانس لینا، ورزش کرنا، اورمختلف پوزیشنز میں اپنے جسم کو لے کر جانا شامل ہیں۔ جب کہ مراقبہ یوگا میں سے لی گئی ایک مشق کا نام ہے۔ مراقبہ میں انسان ایک جگہ بیٹھ کر اپنی توجہ کسی ایک نقطے پہ مرکوز کر لیتا ہے جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے۔ مراقبہ کا بنیادی مقصد ذہن کی خاموشی کو سننا اور خود کو جاننا ہے ۔ ہر انسان کچھ عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے یوگا اور مراقبہ کو اپنے طریقے سے کر سکتا ہے ۔ یہ مکمل طور پرایک انفرادی عمل ہے ۔ آپ خود اپنا اور اپنے ارد گرد موجود قدرت کا تعلق روحانی طور پہ جوڑ سکتے ہیں۔ آج کے دور میں دنیا میں کروڑوں لوگ روزانہ یوگا کرتے ہیں۔ یوگا اور مراقبہ دونوں انسانی زہن اور دماغ میں توازن پیدا کرتے ہیں جس سے انسان میں سٹریس کم ہوتا ہے اور تناؤ سے آزادی ملتی ہے۔ اس سے انسان کے جسم میں لچک اور طاقت پیدا ہوتی ہے۔ انسان اپنے اندر کی روح کو پہچانتا ہے اوراپنے جذبات کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یوگا انسان کی خود سے ملاقات کراتا ہے۔
فلسطین میں جنگ بندی: کس کی ہار کس کی جیت

غزہ پر 15 ماہ سے جاری اسرائیلی حملے ایک معاہدے کے بعد ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ قطر میں حماس اور اسرائیلی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اس کے بعد ‘کون جیتا، کون ہارا’ کی بحث نے معاملے کے دیگر پہلوؤں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی نے قطر میں بدھ کی رات کو پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ معاہدے کا آغاز 19 جنوری سے ہوگا۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیرس اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس معاہدے کی تصدیق کی ۔ سماجی رابطے کی ایپ ایکس(سابقہ ٹویٹر) پہ اوسنٹ ڈیفینڈر کے نام سے صارف نے اپنے ٹویٹ میں معاہدے کی تفصیلات جاری کیں ۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ “غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے مسودے میں، جسے آج رات مذاکرات کے قریب ایک فلسطینی نے لیک کیا تھا، اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کے آبادی والے علاقوں سے انخلاء پر راضی ہے۔ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران، تقریباً چھ ہفتے تک جاری رہنے والے، کل 33 یرغمالیوں (زندہ اور مردہ) کو رہا کیا جائے گا، ہر یرغمال کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے 30 فلسطینی نابالغ اور خواتین، اور ہر ایک خاتون اسرائیلی فوجی کے لیے 50 قیدی رہا کیے جائیں گے۔ چھٹے ہفتے تک، اسرائیل 2011 کے قیدیوں کے تبادلے کے بعد گرفتار کیے گئے 47 فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ 7 اکتوبر 2023 سے گرفتار ہونے والی خواتین اور بچوں کو رہا کر دے گا۔ جنگ بندی سے متعلق تجویز کردہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ بارہویں ہفتے کے تیسرے مرحلے کے دوران، یرغمالیوں کی کوئی بھی اضافی لاش اسرائیل کو واپس کر دی جائے گی۔ مصر، قطر اور اقوام متحدہ کی قیادت میں اگلے 3سے5 سالوں میں غزہ کی پٹی کے لیے تعمیر نو کا منصوبہ نافذ کیا جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ معاہدہ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ یقین نہیں ہے کہ غزہ میں 94 یرغمالیوں میں سے 30 سے زیادہ باقی ہیں، جو ابھی تک زندہ ہیں”۔ اس ٹویٹ کے ریپلائز میں بہت سے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کوئی اسے اسرائیل کی ہار بتا رہا تھا تو کوئی نیتن یاہو کو مستعفی ہونے کےلیے کہہ رہا تھا۔ ایتھائی ریوبینوف نامی صارف نے لکھا کہ “مجھے امید ہے نیتن یاہو کچھ اور سوچ رہا ہے اگر نہیں تو یہ اس کے سیاسی کرئیر کا خاتمہ ہے” ۔ ایک اوراسرائیلی صارف نے لکھا کہ “مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اسرائیل اس کو مان کیسے سکتا ہے”۔ سورن لانکو نامی اسرائیلی صارف نے لکھا کہ “اگر وہ ایسے اپنے ملک کی بعزتی کر رہا ہے تو نیتن یاہو کو فوراً استعفی دے دینا چاہیے”۔ یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ میں دونوں فریقین کا بہت نقصان ہوا ہے۔ دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ عالمی عدالت کی جانب سے اسرائیل کے حملوں کی شدید مذمت کی گئی اور ہتھیار روکنے جیسی پابندیاں لگائی گئی۔ اسرائیل کو امریکہ کی مسلسل سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ سے اسرائیل نے بے جا حملے کیے اور پچاس ہزار کے لگ بھگ فلسطینی مارے گئے۔ پاکستان سمیت مختلف ممالک نے جنگ بندی کے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ جنگ بندی امن و استحکام لائے گی۔ حماس کی جانب سے بیان میں یہ کہا گیا کہ ” اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کی قیادت نے فلسطینی گروہوں کے رہنماؤں کے ساتھ رابطوں اور مشاورت کا ایک سلسلہ منعقد کیا اور انہیں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ فورسز اور گروہوں کے رہنماؤں نے مذاکرات کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اگلے مرحلے اور اس کے تقاضوں کے لیے تیاری کی ضرورت پر زور دیا۔ تحریک کی قیادت اور مختلف ممالک نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی تکمیل تک رابطے اور مشاورت جاری رکھنے پر زور دیا، جو اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے، اس امید کا اظہار کرتے ہوئے کہ مذاکرات کا یہ دور ایک واضح اور جامع معاہدے کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا”۔
جیسا میچ ویسی ٹکٹ، چیمپئنز ٹرافی کی میچ ٹکٹس کی قیمتوں کا اعلان

پاکستان میں آئندہ ماہ منعقد ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے میچوں کےلیے ٹکٹوں کی قیمتوں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ کرکٹ کے شائقین کے لیے میچز کو براہ راست دیکھنا یقینی بناتے ہوئے ٹکٹ کی قیمتیں اینکلوژر اور سٹیڈیم میں بیٹھنے کی جگہ کے مطابق ہوں گی۔ ٹکٹ کی کم از کم قیمت 1 ہزار جبکہ زیادہ سے زیادہ قیمت 25 ہزار تک جاتی ہے۔ ٹکٹ کی کیٹیگریز میں جنرل اینکلوژر، فرسٹ کلاس، پریمیم، وی آئی پی اور ڈبل وی آئی پی شامل ہیں، جو ناظرین کو اپنی پسند کے تجربے کا انتخاب کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی کراچی میں 19 فروری کو شروع ہوگی۔ جس میں افتتاحی میچ پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ ہے۔ اس میچ میں سب سے سستی ٹکٹ جنرل اینکلوژر میں ہوگی جس کی قیمت 1 ہزار ہوگی جبکہ فرسٹ کلاس ٹکٹ 15 سو روپے کی ہوگی۔ اسی میچ میں پریمیم ٹکٹ 35 سو جبکہ وی آئی پی ٹکٹ 7 ہزار کی ہوگی۔ اس میچ میں سب سے مہنگی ٹکٹ 12 ہزار کی ہوگی جسے وی وی آئی پی کہا گیا ہے۔ کراچی میں دیگر میچز انہی قیمتوں کے مطابق ہوں۔ لاہور میں اہم میچوں کا انعقاد ہوگا جنس کے پہلے میچ میں آسٹریلیا کا مقابلہ انگلینڈ کے ساتھ ہوگا۔ اس میچ میں فرسٹ کلاس کی قیمت 2 ہزار ہوگی جبکہ پریمیم کی قیمت 5 ہزار ہوگی۔ اس میچ میں وی آئی پی ٹکٹ کی قیمت 7،500 ہوگی ۔ اسی طرح گیلری کے ٹکٹ کی قیمت 18 ہزار ہوگی۔ باقی اقسام کے ٹکٹوں کی قیمت وہی رہے گی۔ افغانستان کے میچز مثال کے طور پر افغانستان بمقابلہ انگلینڈ اور افغانستان بمقابلہ آسٹریلیا، ان میچیز میں صرف جنرل اینکلوژر اور گیلری کے ٹکٹ دستیاب ہوں گے ۔ اس کے علاوہ ان میچز کے لیے کوئی کیٹیگری دستیاب نہیں ہوگی۔ لاہور میں سیمی فائنل کے لیے، جنرل اینکلوژر کے ٹکٹ کی قیمت 2,500 پاکستانی روپے ہوگی، جبکہ وی وی آئی پی ٹکٹ کی قیمت 25,000 پاکستانی روپے ہوگی۔ سیمی فائنل کے لیے دیگر کیٹیگریز دستیاب نہیں ہوں گی۔ راولپنڈی میں منعقد ہونے والے پاکستان بمقابلہ بنگلا دیش میں جنرل اینکلوژر 2 ہزار جبکہ فرسٹ کلاس ٹکٹ 4 ہزار کی ہوگی۔ اسی طرح پریمیم 7 ہزار اور وی آئی پی 12 ہزار پانچ سو میں ہوگی۔ راولپنڈی میں دیگر میچز کے لیے، جنرل اینکلوژر کی ٹکٹ 1,000روپے میں دستیاب ہوں گی، جبکہ گیلری کی ٹکٹ 12,500روپے میں فروخت ہوں گی۔ ان میچز کے لیے فرسٹ کلاس، پریمیم، وی آئی پی، یا ڈبل وی آئی پی ٹکٹ دستیاب نہیں ہوں گی۔ پی سی بی کے مطابق ٹکٹوں کی فروخت جلد شروع کردی جائے گی تاکہ مداح اس ٹورنامنٹ کے میچوں کے لیے ٹکٹ خرید کر اپنی جگہ محفوظ کر سکیں ۔ ٹکٹ کی قیمتوں کا اعلان اور کٹیگریز اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ ایک بڑی تعداد میں کرکٹ کے شائقین میچ دیکھ سکیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی سی بی اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے مکمل تیار ہے۔
عبدالحفیظ کاردار: فادر آف پاکستان کرکٹ

عبدالحفیظ کاردار کا نام شاید آج کی نوجوان نسل نےنہ سنا ہو مگر پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ عبدالحفیظ کاردار پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا ایک اہم اور عظیم نام ہے۔ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان تھے۔ پاکستانی کرکٹ کے لئے بے مثال خدمات کے پیش نظر ان کو “فادر آف پاکستان کرکٹ” کے خطاب سے نوازا گیا۔ قومی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان 17 جنوری 1925 کو لاہور کے معروف علاقے بھاٹی گیٹ میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہی انھوں نے اپنے کرکٹ کیرئیر کا آغازکیا ۔ انہوں نے پاکستانی کرکٹ کو ابتدائی مراحل میں استحکام فراہم کیا اور قومی کرکٹ کو عالمی سطح پرمتعارف کروایا۔ عبدالحفیظ کاردار ہی کی قیادت میں پاکستان نے عالمی کرکٹ میں قدم رکھا اور ‘ٹیسٹ نیشن’ کا درجہ حاصل کیا۔ 1952 میں ان کی قیادت میں ہی قومی کرکٹ نے عالمی سطح پریہ مقام حاصل کیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھی کھلاڑیوں کو ہمیشہ حوصلہ افزائی دی اور ایک مضبوط کرکٹ ٹیم کی بنیاد رکھی، انہوں نے فضل محمود، حنیف محمد، نذر محمد، عامر الہیٰ اور خان محمد جیسے بڑے ناموں کو عالمی سطح پر متعارف کروایا۔ عبدالحفیظ کاردار نے نہ صرف کرکٹ کپتان کے طور پر بلکہ ایک کھلاڑی کے طور پر بھی اپنے کارنامے سرانجام دیے۔ ان کے دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور بھارت جیسے ممالک کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے اپنے میدانوں پر کئی یادگار میچ جیتے اورکرکٹ کی دنیا میں اپنے قدم جما لیے۔ انہوں نے اپنا آخری عالمی میچ 26 مارچ 1958 کو ویسٹ انڈیز کے ساتھ پورٹ آف سپین میں کھیلا جہاں پاکستان نے تاریخی فتح حاصل کی۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر کے طور پر بھی عبدالحفیظ کاردار نے پاکستان میں کرکٹ کی ترقی کے لئے اہم کردارادا کیا۔ 1972سے 1977 تک انہوں نے پی سی بی کی قیادت کی۔ اس دوران ایشیائی اور افریقی ممالک کی کرکٹ کمیونٹیز کو مزید متعارف کرایا۔ ان کی کوششوں سے سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کو کرکٹ کے عالمی فورمز میں نمایاں مقام حاصل ہوا۔ 70 کی دہائی میں انہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہو کر وزیرخوراک سمیت دیگر اہم وزارتوں کا قلمدان سنبھالا۔ علاوہ ازیں زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔ ان کی سیاست و سفارتکاری میں بھی دیانت داری اور اصول پسندی ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ بے شمار خدمات کے باعث انہیں کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ، بعد از مرگ ستارہ امتیاز اور پی سی بی ہال آف فیم بھی شامل ہیں۔ عبدالحفیظ کاردار نے کرکٹ، سیاست اور سفارت کاری کے علاوہ 10 سے زائد کتابیں بھی لکھیں۔ کاردار کا انتقال لاہور میں ہواجہاں انہیں میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا، انکی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائےگا اور ان کا نام پاکستان کرکٹ کے سنہری دور کا حصہ رہےگا۔
پانامہ کینال کا تنازعہ:25 سال پرانا مسئلہ پھر زندہ ہوگیا

31دسمبر 1999 کا دن تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا جب پانامہ کینال کی سرحدوں پر امریکی جھنڈا اتار کراس کی جگہ پانامہ کا جھنڈا لہرایا گیا یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے پانامہ کے باشندوں کے دلوں میں آزادی کی امید جگا دی تھی۔ ایک طویل عرصے تک امریکی اجارہ داری کا شکار یہ اہم آبی راستہ آخرکار پانامہ کے حوالے کیا جا رہا تھا مگرآج 25 سال بعداس اہم ترین دن کی یادوں میں ایک نیا تنازعہ ابھر رہا ہے۔ یہ تنازعہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ(ٹرمپ 20جنوری کودوسری بار امریکی صدر کا حلف اٹھائیں گے) کے تازہ ترین بیانات سے شروع ہوا ہے،ٹرمپ نے اپنے ایک متنازعہ بیان میں کہا تھا کہ “پانامہ کینال سے گزرتے ہوئے امریکی بحری جہازوں سے وصول کی جانے والی فیسیں امریکا کے ساتھ بدسلوکی کا معاملہ ہیں۔” ٹرمپ کا کہنا ہے کہ “ہمیں لوٹا جا رہا ہے”. اس بیان کے بعد امریکہ کے ساتھ پاناما کے تعلقات ایک بار پھرسرخیوں میں ہیں اور صدر ٹرمپ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر فیسوں میں تبدیلی نہ آئی تو امریکا پانامہ کینال کو فوری طور پر واپس حاصل کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ پانامہ کے صدر جوزے راؤل ملینو نے ٹرمپ کے اس بیان کا سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “کینال کا ہرایک انچ پانامہ کا ہی رہے گا” یہ لفظوں کی جنگ اب ایک نئے تنازعے کی صورت اختیار کر چکی ہےجواس آبی راستے کی خودمختاری کے مستقبل پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ یاد رہے کہ پانامہ کینال کی تعمیر کا آغاز 16ویں صدی میں یورپی آبادکاروں کی ضرورت سے ہوا،جبکہ 19ویں صدی کے آخر میں فرانس کے انجینئر فرڈینینڈ ڈی لیسیپس نے اس منصوبے کی سربراہی کی مگر مشکلات اور بیماریوں کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ پھرامریکا نے کولمبیا کے بحران کا فائدہ اٹھا کر پانامہ کی آزادی تسلیم کی اور کینال کی تعمیر کا اختیار دے دیا۔ پانامہ نے 1903 میں آزادی حاصل کی اور امریکا کے ساتھ معاہدے کے تحت کینال کی تعمیر مکمل کی جس سے امریکا نے کینال کے علاقے پر کنٹرول حاصل کیا اس کے بعد پانامہ میں امریکی اجارہ داری کے خلاف احتجاج بڑھا، خاص طور پر1958 اور 1964 میں جب کینال زون میں پانامہ کے جھنڈے لگانے پر جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ اس احتجاج نے پانامہ میں خودمختاری کی تحریک کو جنم دیا۔ 1977 میں امریکا اور پانامہ کے درمیان ایک نیا معاہدہ ہوا جس میں کینال کا کنٹرول پانامہ کو واپس دینے کا وعدہ کیا گیا۔ 31 دسمبر 1999 کو پانامہ نے کینال کا کنٹرول حاصل کیا جو ان کی طویل جدوجہد کا نتیجہ تھا۔پانامہ کے صدر میرینا موسکو نے 31 دسمبر 1999 کو کینال ایڈمنسٹریشن بلڈنگ میں پانامہ کا جھنڈا بلند کیا جس کے بعد پانامہ ایک خودمختار ملک بن گیا اور اس دن کو شہریوں نے جشن کی صورت میں منایا۔ 25 سال بعد جب پانامہ کے کینال کی خودمختاری ایک نئی آزمائش سے گزر رہی ہے ٹرمپ کے متنازعہ بیانات نے اس مسئلے کو دوبارہ اجاگر کیا ہے اور سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا پانامہ کی خودمختاری دوبارہ خطرے میں آ سکتی ہے؟ کیا یہ صرف ایک سیاسی بیان ہے یا پھر یہ ایک نئی سیاسی جنگ کا آغاز ہے؟ پانامہ کے شہری اس وقت اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے تیار ہیں اور یہ تاریخ کا ایک نیا موڑ ہو سکتا ہے جس میں پانامہ کا کینال ایک بار پھر عالمی طاقتوں کے درمیان تنازعہ کا مرکز بن جائے گا۔
شاندار ماضی رکھنے والے اسٹیڈیمز جو بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں

پاکستانی اورکرکٹ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں،یہ ایسے ہے جیسے کرکٹ پاکستانیوں کے لیے بنی ہے اور پاکستانی کرکٹ کے لیے بنے ہیں،ملک پاکستان میں جگہ جگہ کرکٹ کے دیوانے نظر آتے ہیں جوصبح سے شام تک کھیلتے ہیں مگر تھکاوٹ انھیں چھوکر بھی نہیں گزرتی۔ چھٹی کا دن ہواورکوئی عوامی اسٹیڈیم یا گراؤنڈ آپ کو ویران پڑا مل جائے ایسا نہیں سکتا۔ پی ایس ایل اور عالمی ٹیموں کے ملک میں میچز منعقد ہونے کے بعد ملکی اسٹیڈیمز کی شان و شوکت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے مگر کچھ گراؤنڈز ایسے بھی ہیں جو کبھی دنیا کی توجہ کا مرکز ہوا کرتے تھے اور اب ان کی طرف جانے کو تیار نہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد 28 جولائی 1952کو انگلینڈ کے لارڈز میں منعقد ہونے والی امپیریل کرکٹ کانفرنس کے سیشن کے دوران پاکستان بھی عالمی ٹیموں میں شامل ہوگیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں شمولیت کے بعد ایک جانب پاکستان نے مختلف ممالک میں جاکر میچز کھیلے ،وہیں دوسری جانب پاکستان میں بھی مختلف میچز ہوئے۔ کرکٹ کے فروغ کے لیے ان میچزکومختلف شہروں کے 20اسٹیڈیمز میں منعقد کرایا گیا مگر پچھلی دو دہائیوں سے کوئی انٹرنیشنل میچ نہ ہونے کے سبب ان اسٹیڈیمزپرآج گلی محلے کی کرکٹ کھیلی جارہی ہے۔ 3 مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہونے والےدہشت گردحملے کے بعد عالمی ٹیموں نے دورہ کرنے سے انکار کردیا۔ عالمی میچز کی میزبانی نہ کرنے کی وجہ سے یہ اسٹیڈیمزعالمی معیار کے مطابق نہ رہے اور گزرتے وقت کے ساتھ مزید بدترہوتے گئے۔ عالمی ٹیموں کو پاکستانی سرزمین پر لانے میں پی ایس ایل نے اہم کردار ادا کیا۔2017 کے دوسرے ایڈیشن میں فیصلہ کیا گیا کہ فائنل پاکستان کے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا جائے گا۔ ملک میں عالمی کھلاڑیوں کو لانے کی جانب یہ پہلا قدم تھا۔ 2018 میں پی ایس ایل کے تیسرے ایڈیشن کے 3 آخری میچز ، 2 سیمی فائنل اور فائنل کو پاکستان میں منعقد کیا گیا۔ پی ایس ایل 2019 کے چوتھے ایڈیشن کے آٹھ میچ پاکستان میں رکھے گئے۔ پی ایس ایل 2020 کے پانچویں ایڈیشن کے سارے میچز پاکستان میں منعقد کرائے گئے اورانٹرنیشنل اسٹیڈیم کراچی، لاہور قذافی اسٹیڈیم، ملتان انٹرنیشنل اسٹیڈیم اورراولپنڈی انٹرنیشنل اسٹیڈیم وینیو میں رکھے گئے۔ یوں پاکستان میں سکیورٹی کو لے کر عالمی ٹیموں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ 2009 کےبعد2015 میں زمبابوے وہ پہلی ٹیم بنی جس نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 2017 میں سری لنکن ٹیم نے حادثے کے 8 سال بعد دورہ کرکے پاکستان کو پرامن ملک کے طور پر ظاہر کیا۔ اس کے بعد 2018 میں ویسٹ انڈیز ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پی ایس ایل اور عالمی ٹیموں کے دورے کی بدولت پاکستان سیکیورٹی کے حوالے سے مثبت نظر آیا اور اس کے بعد افریقہ، انگلینڈ اورآسٹریلیا سمیت تمام بڑی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان میں عالمی مقابلے تو شروع ہوگئے مگر چند اسٹیڈیمز کو ہی عالمی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، باقی اسٹیڈیمز پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کھنڈربنتے پاکستان کے عالمی کرکٹ گراؤنڈز ارباب نیاز اسٹیڈیم پشاور کو 1985 میں انٹرنیشنل کرکٹ کے لئے مختص کردیا گیا۔بیس ہزار نشستیں رکھنے والے ارباب نیاز اسٹیڈیم کا پرانا نام پشاور کلب گراؤنڈ تھا۔ یہاں 1984 سے لےکراب تک تقریباً 17 ایک روزہ جبکہ 1995سے اب تک تقریباً 7 ٹیسٹ میچ کھیلے جا چکے ہیں۔ پہلا ٹیسٹ میچ پاکستان اور سری لنکا کے مابین 1995 میں جبکہ آخری ٹیسٹ میچ قومی ٹیم اور بنگلہ دیش کے مابین 2003میں کھیلا گیا۔ پہلا ایک روزہ میچ 1984 میں انڈیااور پاکستان کے مابین جبکہ آخری ایک روزہ میچ 2006 میں انڈیا اور قومی ٹیم کے مابین کھیلا گیا۔ یہ اسٹیڈیم خیبرپختونخوا بورڈ کی ملکیت ہے۔ 2018 میں پی ٹی آئی دورِحکومت میں اس اسٹیڈیم کے توسیعی منصوبے کو منظور کیا گیا تھا جس پر گزشتہ مہینوں میں کام شروع کیاگیا ہے۔ایک ارب 39 کروڑ روپے کی لاگت کے ساتھ نیا پویلین ، ہاسٹل اور اکیڈمی کی تعمیر پر کام کیا جارہا ہے۔ مستقبل میں اس اسٹیڈیم پر پی ایس ایل میچز کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بلوچستان کرکٹ ایسوسی ایشن کے نام سے معروف ایوب نیشنل اسٹیڈیم پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں واقع ہے جہاں پر بیس ہزار تماشائیوں کی نشستیں موجود ہیں۔ اس گراؤنڈ میں پہلا ایک روزہ عالمی میچ پاکستان اور انڈیاکے درمیان 1978–79 جبکہ آخری ایک روزہ میچ انڈیا اور پاکستان کے مابین 1984-85 میں کھیلا گیا۔ کرکٹ کے علاوہ اس اسٹیڈیم میں فٹ بال کے میچز منعقد کرائے جاتے ہیں۔ لاہور جم خانہ اورلارنس گارڈن کے نام سے مشہور باغِ جناح ماضی میں انٹرنیشنل کرکٹ میچوں کی میزبانی بھی کرچکا ہے۔ اس اسٹیڈیم کو 1985 میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہاں پر 8000 لوگوں کے بیٹھنے کے لیے نشستیں موجود ہیں۔ یہ اسٹیڈیم اصل میں لارنس گارڈن کے اندر موجود ہے جسے برٹش حکومت نے تعمیر کیاتھا۔ یہاں پر پہلا ٹیسٹ میچ 1955 میں پاکستان اور انڈیا کے مابین جبکہ آخری ٹیسٹ میچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان 1959 میں کھیلا گیا۔ بہاول اسٹیڈیم بہاولپور کو مقامی سطح پر ڈرنگ اسٹیڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹیڈیم ماضی میں ایک انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ کی میزبانی کرچکا ہے جو انڈیا اور قومی ٹیم کے مابین 1955 میں کھیلا گیا تھا۔ موجودہ بگٹی اسٹیڈیم کوئٹہ کو ماضی میں ریس کورس اسٹیڈیم کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔اس اسٹیڈیم میں آج تک صرف ایک عالمی میچ منعقد ہوا ہے جو کہ ایک روزہ میچ تھا جو 1996 میں پاکستان اور زمبابوے کے درمیان کھیلا گیا۔ ابنِ قاسم باغ اسٹیڈیم ملتان کو حرفِ عام میں اولڈ فورٹ اسٹیڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ ابنِ قاسم باغ اسٹیڈیم ملتان کو انٹرنیشنل میچوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہے۔ اس اسٹیڈیم میں پہلا ایک روزہ میچ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1982 میں جبکہ آخری آسٹریلیا اور قومی ٹیم کے مابین 1994 کو کھیلا گیاتھا۔ یہاں صرف 1 ٹیسٹ میچ منعقد کیا گیا تھا جوکہ 1981 میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا گیا۔موجودہ وقت میں یہاں مقامی سطح پر مختلف کلب کے میچز کرائے جارہے ہیں۔ لائل پوراسٹیڈیم کہلانے والا اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد
شادیوں میں دولت کی نمائش:ضرورت یا مجبوری

’لوگ کیا کہیں گے‘یہ وہ جملہ ہے جس کے لیے پاکستان میں شادیوں پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے،مفت کا مال سمجھ کرہوا میں اڑایا جاتا ہے اور پھر کم حیثیت لوگ کئی سال تک قرضوں کی دلدل میں پھنسے رہتےہیں۔ گزشتہ دنوں یوٹیوبر رجب بٹ کی شادی میں ملک کے نامورسوشل میڈیاسٹارزکی جانب سے پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا۔ رائفل سے لےکرشیرکےبچے تک لوگوں نے بے شمار تحائف دیے، جس کی وجہ سے دولہے کو پولیس اسٹیشن کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک طرف پیسہ اڑانے جیسی فضول رسم پروان چڑھ رہی ہے تو دوسری طرف جہیز میں طرح طرح کی چیزیں مانگنا بھی ایک الگ مسئلہ بن گیا ہے،پنجاب حکومت نے شادیوں کو سادہ کرنے کے بجائے سرکارکی طرف سے’دھی رانی پروگرام‘کے تحت ایک لاکھ روپے سلامی اوردو لاکھ کے تحائف دینے کا اعلان کیا گیا، آخر شادیوں پر فضول خرچی کرنے کی وجہ کیا ہے؟ ہرسال ستمبر کے آتے ہی شادیوں کا موسم شروع ہوجاتا ہے اوردسمبر تک جاری رہتا ہے۔ اس دورانیے میں سڑکوں پر باراتیوں کی لمبی لمبی گاڑیاں نظرآتی ہیں، بے دریغ خرچ ہوتا ہوا پیسہ نظر آئے گا۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جہاں ایک طرف ملک میں لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں وہیں دوسری طرف فضول خرچ ہوتا ہوا پیسہ نظر آرہا ہو؟ ایک عام فرد سوچنے پر مجبورہوجاتا ہے کہ ’کیسے جاہل لوگ ہیں فضول میں پیسے کا ضیاع کر رہے ہیں‘ یا پھر آپ کہیں گےکہ یہ پیسے کی نمائش کی جارہی ہے، مگر ہم سب انہی رسومات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ نومبر کو ’شادی ماہ‘ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ شادیاں نومبر میں ہوتی ہیں، شادیوں میں سب سے زیادہ خرچہ متوسط طبقے کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ خاندان والوں سے شراکت داری ہونے کے نام پر قرضہ لے کر شادی کرنے کا رواج عام ہوچکا ہے،دیہات میں عزت کا کہہ کر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔ لیکن شہروں نے اب دیہات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ شادی ہالز کے بننے کے بعد شہر کے سارے شادی ہال ہر وقت بُک ہی نظر آتے ہیں۔ فضول خر چی کا یہ عالم ہے کہ چھوٹے ہالز میں شادی کی بجائے صرف جنم دن کے کیک کاٹے جارہے ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو امیر ہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو امیر دکھنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کی شاد یوں پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے آبا ؤ اجداد نے اس طرح کی شادیاں کی تھیں اور اگر وہ فضول خرچی نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے۔اشتہارات اور ڈراموں نے فضول خرچی کو ہوا دی ہے، بلاوجہ ایسی چیزیں دکھاتے ہیں جن سےلگتا ہےکہ ان کے بغیر شاید شادی ادھوری ہے۔ شادیوں میں یوں فضول خرچی کرنے کی وجہ دکھاوا ہے یا احساس کمتری؟ یہ ایک نفسیاتی سوال ہے، ماہرین اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں، ماہرین کے مطابق دونوں جواب ہی اپنی جگہ پر صحیح ہیں، اگر غور کیا جائےتو پتہ چلتا ہے کہ یہ احسا س کمتری ہے جس کے پیشِ نظر فضول خرچی نے جنم لیا ہے۔ اسائنمنٹ ایڈیٹر 24 نیوز اینڈ بلاگر ثنا نقوی کا پاکستان میٹرز خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فضول خرچی کی ایک بڑی وجہ معاشرتی رسومات کی قید ہے ۔ اس کے علاوہ دکھاوے ، رشتےداروں میں احساس برتری اورذاتی تسکین کےلئے بھی شادیوں پر فضول خرچی کی جاتی ہے ۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ شادیوں پر بے بہا پیسہ خرچ کرنے والوں کو لگتا ہے کہ پیسہ خرچ نہ کرنے سے انہیں لوگ اپنے سے کم تر سمجھیں گے،یا عزت نہیں کی جائے گی۔ ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ عزت پیسے سے ملتی ہے اور وہ عزت خریدنے نکل پڑتے ہیں مگر وہ شاید نہیں جانتے کہ عزت خریدی نہیں جاتی بلکہ کمانی پڑتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق، وہ احسا س کمتری کا شکار ہوتے ہیں، اپنی دھاک بٹھانے کی غرض سے فضول خرچی کرتے ہیں اور بعد میں پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں،۔ یہ ز یادہ تر سفید پوش لوگ ہوتے ہیں ۔ عزت اوراحسا س کمتری میں آکر خود کو مصیبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔ ثنا نقوی نے کہا کہ قریبی رشتے داروں اور دوست احباب سے اپنا موازنہ کرنے کی وجہ سے سفید پوش طبقہ احساسِ کمتری کا شکار ہوچکا ہے۔ شادیوں پر کی جانے والی فضول خرچیوں کو روکنے کےلئے ضروری ہے کہ شادی کی رسومات کو سادگی اور شرعی طریقے سے کیا جائے۔ اس کے علاوہ شادی هالز کے اوقات کار اور ون ڈش کی پابندی میں انتظامیہ کی جانب سے سختی فضول خرچی کو روکنے میں صحیح معنوں میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ہر پڑھا لکھا انسان اس بات کو بخوبی جانتا ہے مگرجب وقت آتا ہے تو وہ بھی انہی فضول رسومات کا شکار ہو جاتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ہم سب کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے، آخر کونسی وجوہات ہیں جنہوں نے ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے اورہم لوگ ایک مصنوعی زندگی جینے پر مجبور ہوکررہ گئے ہیں۔