برطانیہ میں پڑھنے والوں کے لیے ‘سب اچھا’: کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟

“ایک بار برطانیہ پہنچ جاؤں پھر سارے مسئلے حل ہوجائیں گے” یہ جملہ تقریبا ہر نوجوان سے سننے کو ملتا ہے ۔ برطانیہ جانے کے لیے لوگ مختلف تدابیر لڑاتے ہیں ۔ سب سے بڑا طریقہ جو پاکستانی استعمال کرتے ہیں وہ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنا ہے۔برطانیہ میں تقریباً 17 لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔ لیکن کیا برطانیہ جانے سے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ برطانیہ میں موجود پاکستانی طلبا جو اعلی تعلیم اور روشن مستقبل کے لیے یہاں آتے ہیں ، یہاں آ کر بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ یہ مسائل ان کی تعلیم اور ذاتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پاکستانی نوجوان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پرائے دیس زیادہ تر اس لیے جاتے ہیں کہ برطانیہ جا کر وہاں کی شہریت حاصل کر لی جائے اور پھر مستقل طور پہ وہاں رہا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ دورانِ تعلیم یا تو برطانوی لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں یا پھر کوئی مستقل ملازمت ڈھونڈتے ہیں جو ان کی شہریت کی راہ ہموار کر سکے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی افراد کے اوقات کار اتنے مختلف اور سخت ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا اپنی فیملی سے رابطہ کم ہو جاتا ہے۔ والدین سے رابطہ نہ ہونا، شریک حیات سے دوری اور اولاد پر توجہ نہ ہونا وہ فوری قیمت ہے جو بیرون ملک جانے والوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ پاکستانی طلبا برطانیہ میں تعلیم کے ساتھ کام بھی کرتے ہیں لیکن ان کو کم اجرت، سخت اوقات کار اور رہائش کی کمی کے مسائل بھی درپیش آتے ہیں۔ برطانوی قانون کے مطابق کم ترین اجرت 11 سے 12 پاونڈ مقرر ہے مگر وہاں موجود طلبا اس سے بھی کم پر کام کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں رہائش نہ ملنے کی صورت میں طلبا نجی ہاسٹل میں رہائش رکھنے پر مجبور ہیں جن کے کرائے بہت زیادہ ہیں۔ ایک اور مسئلہ جو پاکستان سے جانے والے طلبا کو بھگتنا ہوتا ہے وہ معاشرتی ہم آہنگی اور سماجی رابطوں میں مشکل کا ہے۔ زبان اور مقامی لہجوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے بات چیت میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ گلوبل سٹوڈنٹ لیونگ انڈیکس کے مطابق 2021 اور 22 میں 23 ہزار سے زائد طلبا برطانیہ میں زیرِ تعلیم ہیں اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی جاری ہے۔ عائشہ سکندر برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم پاکستانی طالبہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہاں آنے سے پہلے ہمیں لگتا تھا کہ یہاں آ کر ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تعلیم اور کام کو متوازن رکھنا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ہمیں کام تلاش کرنے میں اور پھر اس کام کی مناسب اجرت ملنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ ایک اور طالب علم حمزہ یعقوب نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ مختلف سماج کا ہے۔ پاکستان میں پرائویسی کا خیال نہیں رکھا جاتا جب کہ یہاں آپ کو ساتھ والے کمرے میں رہنے والے سے بھی ملنے کے لیے پہلے اجازت لینی پڑتی ہے۔ ان کے مطابق رہائش حاصل میں کئی مسائل ہوتے ہیں اگر آپ کو کوئی اپنے گھر میں رکھتا ہے تو اس کی شرائط بھی پوری کرنی پڑتی ہیں۔یہاں پر تعلیمی نظام بھی مختلف ہے اور امتحانی طریقہ کار بھی۔ برطانیہ یا دیگر یورپی ممالک میں ٹیکنالوجی کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے ہمیں ٹیکنالوجی اور ڈیوائسز کو سیکھنا پڑتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے کام کرنے کو ترجیح دینی پڑتی ہے تاکہ کچھ آمدن ہو سکے۔ محمد حسین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں لوگ دوست بنانے میں وقت لیتے ہیں۔ طرزِ زندگی انتہائی مختلف ہے دکانیں صبح پانچ یا چھ بجے کھل جاتی ہیں تو ہمیں ان کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کام کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں لیکن اگر آپ کا مینیجر پاکستانی یا انڈین ہے تو وہ آپ کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کا استحصال کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات سچ ہے کہ یہاں آنے کے کچھ عرصے کے بعد آپ یہاں کی سہولیات سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔
متنازع نقشے کا نیا ظہور، کیا “گریٹر اسرائیل” کا خواب حقیقت بن رہا ہے؟

مسلسل 15 ماہ تک غزہ پر قبضہ کی ہر کوشش میں ناکامی کے بعد مذاکرات کے ذریعے سیزفائر پر مجبور ہونے والا اسرائیل اپنا ایک نقشہ سامنے لایا ہے جس پر ہنگامہ برپا ہے، اس نقشہ میں فلسطین، اردن، شام اور لبنان کے وسیع علاقے اسرائیل میں دکھائے گئے ہیں۔ یہ نقشہ نہ صرف فلسطینی عوام کی سرزمین پر اسرائیل کے دعوؤں کو مزید مستحکم کرنے کی ایک کوشش نظرآتا ہے بلکہ عرب دنیا میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے توسیعی پسندانہ عزائم کی جانب ایک واضح اشارہ بھی ہے۔ نقشہ جاری ہونے کے بعد عالمی برادری کی طرف سے اسرائیل کی اس جارحیت پر سخت ردعمل بھی سامنے آیا۔ اس نقشے میں اسرائیل کی تاریخی سرحدوں کا دعویٰ کیا گیا ہے جس میں فلسطین، شام کی گولان کی پہاڑیاں، لبنان اور اردن کے کچھ حصے شامل ہیں، اس نقشے کی اشاعت نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے کہ کیا اب اسرائیل نقشے میں ظاہر کیے گئے علاقوں پر مستقل قبضہ جمانے کے لیے خانہ جنگی کرے گا؟ یا پھر اس کے عزائم ان علاقوں سے آگے بھی بڑھیں گے؟ برطانوی خبررساں ادرے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے برمنگھم یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے محقق عمر کریم نے کہا کہ “یہودی مذہب کے مطابق گریٹر اسرائیل سے مراد مشرقِ وسطی میں وہ تمام قدیمی علاقے ہیں جو سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے اور جہاں یہودی آباد تھے۔” سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل ‘گریٹر اسرائیل’ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے؟ یا یہ موجودہ پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کے لیے محض ایک سیاسی چال ہے؟ اسرائیلی وزیر مالیات بیزلیل سموٹریچ کا کہنا ہے کہ “یہ نقشہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اسرائیل کو اپنی تاریخی سرحدوں میں واپس آنا چاہیے، ان سرحدوں میں فلسطین کے علاوہ اردن اور لبنان کے علاقے بھی شامل ہونے چاہئیں۔” بیزلل سموٹریچ کے اس بیان سے اسرائیل کے دائیں بازو کے حامی خوش ہوئے تو عرب ممالک میں غم و غصے کی لہر واضح دکھائی دی۔ عرب اسرائیل تنازعات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم بخاری نے کہا کہ “اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس کے پاس اپنے ہمسائیہ ممالک کی جغرافیہ میں تبدیلی کرنے کا یکطرفہ اختیار موجود ہے، اس کو یہ اعزاز ان تمام ممالک نے دیا ہے جو انسانی حقوق، جمہوریت اور انسانیت کے اصولوں کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لیے یہ تمام ممالک اسرائیل کے جارحانہ اقدمات پر خاموش ہیں”۔ عرب ممالک کا ردعمل اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ نقشے کے سامنے آتے ہی عرب ممالک میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ قطری وزارت خارجہ نے اس اقدام کو “بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ خطے میں امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اس نقشے کو “مقبوضہ علاقوں کی توسیع” اور “بین الاقوامی قوانین کی پامالی” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پر فوری اقدامات کریں۔ سعودی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو “انتہاپسندانہ حرکت” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے درخواست کی کہ اسرائیل کو عالمی قوانین کی پاسداری کرنے پر مجبور کیا جائے۔ سعودی عرب نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کا مقصد نہ صرف اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنا ہےبلکہ یہ دوسرے ممالک کی خودمختاری پر کھلا حملہ ہے جو خطے کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ فلسطین اور اردن نے اسرائیل کے نئے نقشے کی شدید الفاظ میں مذمت کی، فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام فلسطینی حقوق کی پامالی اور خطے میں کشیدگی کا سبب بنے گا جبکہ اردن نے اسے امن معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پورے خطے کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ مغربی ممالک کا ردِ عمل نقشے کے منظر عام پر آنے کے بعد مغربی ممالک نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن ان کے ردعمل میں واضح سختی نظر نہیں آئی۔ امریکہ اور یورپی یونین نے اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر بات تو کی مگر عملی طور پر اسرائیل پر کوئی دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک اسرائیل کے ‘گریٹر اسرائیل’ کے منصوبے کو غیر رسمی طور پر حمایت فراہم کر سکتے ہیں جس سے خطے کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ عالمی سطح پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل اپنے توسیعی عزائم کو عملی شکل دے سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امن کا کیا ہوگا؟ ‘گریٹر اسرائیل’ کا تصور یہ نقشہ اسرائیل میں موجود ‘گریٹر اسرائیل’ کے تصور کی عکاسی کرتا ہے جس میں اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے باہر کے علاقے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ یہ نظریہ صہیونیت کے بانی ‘تھیوڈور ہرزل’ کے نظریے سے جڑا ہوا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ یہودیوں کی ریاست صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں ہوگی بلکہ اس کا دائرہ دریائے نیل سے فرات تک پھیلا ہوگا، اس تصور کا آغاز اسرائیل کی داخلی سیاست میں ایک اہم عنصر کے طور پر ہوتا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر مالیات بیزلیل سموٹریچ نے 2023 میں اس تصور کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اردن کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا تھا جس سے اردن کے ساتھ اسرائیل کے امن معاہدے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ اس اقدام نے اردن کے ساتھ اسرائیل کے موجودہ تعلقات میں سنگین مسائل پیدا کیے ہیں، اس سے پورے خطے میں امن کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تصور اور عالمی امن ایک جانب اسرائیل پر ‘گریٹر اسرائیل’ بننے کا جنون طاری ہے تو دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل کے توسیعی عزائم کو عالمی سطح پر روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو خطے میں ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے جو کہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ اسرائیل کا یہ متنازع نقشہ نہ صرف فلسطین اور اسرائیل کے