“بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کرنا جامعات کی خودمختاری پر حملہ ہے ” تدریسی عمل کا مکمل بائیکاٹ جاری

فیڈریشن آف آل پاکستان اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) سندھ شاخ کی اپیل پر آج سندھ کی تمام سرکاری جامعات میں تدریسی عمل مکمل طور پر معطل رہا۔ اساتذہ نے اتحاد و یکجہتی کے ساتھ اکیڈمک سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیا تاکہ حکومت کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ سندھ کی جامعات کو درپیش سنگین مسائل کو مزید نظرانداز کرنا ناقابلِ قبول ہے۔ یہ بائیکاٹ کل 16 جنوری سے جاری ہے۔ عبدالرحمان نانگراج جنرل سیکرٹری فپواسا سندھ شاخ نے کہا کہ تمام یونیورسٹی اساتذہ کا شکریہ ادا کرتی ہے جنہوں نے آج کے احتجاج کو کامیاب بنایا۔ آپ کی یہ قربانی اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بچانے اور اس کے بحرانوں کو اجاگر کرنے میں اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ ہم تمام اساتذہ سے درخواست کرتے ہیں کہ اسی اتحاد، عزم اور جذبے کے ساتھ احتجاج جاری رکھیں تاکہ حکومت ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے لے اور فوری طور پر عملی اقدامات کرے۔ انھوں نے اپنے مطالبات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جامعات کی خودمختاری کو بحال کیا جائے۔وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے یونیورسٹیز ایکٹ میں مجوزہ ترامیم واپس لی جائیں اور موجودہ ایکٹ کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی اساتذہ کی تقرری مستقل بنیادوں پر کی جائے۔ اساتذہ کے این او سی جاری کرنے کا اختیار یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے بجائے وائس چانسلرز کے پاس رہنے دیا جائے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ جامعات کے مالی بحران کو ختم کرنے کے لیے فوری فنڈز فراہم کیے جائیں۔ ایچ ای سی یونیورسٹیوں کی خودمختاری کا احترام کرے۔ اساتذہ کے لیے ٹیکس میں 25 فیصد ریبیٹ ختم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ عبدالرحمان نانگراج نے کہا کہ یہ جدوجہد سندھ کی اعلیٰ تعلیم کے تحفظ کی جنگ ہے۔ ہم سیاسی، سماجی، اور طلبہ تنظیموں کے علاوہ میڈیا کے نمائندوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس تحریک کا حصہ بنیں اور ہماری حمایت کریں۔آپ کا اتحاد ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔ واضح رہے کہ اس بائیکاٹ کی وجہ سندھ سرکار یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم ہےجو چل رہی ہے، جس کے تحت اب کوئی بھی 20 یا 21 گریڈ کا آفیسر یونیورسٹی کا وائس چانسلر بن سکتا ہے۔ سندھ میں یہ فیصلہ ایک بڑا تنازعہ بن چکا ہے۔ یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم سراپا احتجاج کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) نے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے احتجاج کی حمایت کر دی ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی پاکستان منعم ظفرخان کا کہنا ہے کہ بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کرنا جامعات کی خودمختاری پر حملہ ہے۔ یہ تعلیم دشمن فیصلہ ناقابل قبول ہے، اس ظالمانہ فیصلے کو فوری واپس لیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے جامعات کا وقار مجروح ہوگا اور تعلیمی معیار متاثر ہوگا۔ اساتذہ کا مطالبہ ہے کہ وائس چانسلر کا انتخاب صرف ماہرین تعلیم میں سے ہی کیا جائے، اس کے لیے شفاف اور غیر جانبدار نظام بھی وضع کیا جائے۔ ایسی صورتحال میں تعلیمی شعبے کو لے کر ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔ جامعات کی خودمختاری اور تعلیمی معیار کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کیا حکومت اس احتجاج کو سن کر اپنا فیصلہ واپس لے گی؟ اس سوال کا جواب اب وقت ہی بتائے گا۔ بہرحال اساتذہ کی جانب سے پراثربائیکاٹ جاری ہے، اس بائیکاٹ کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ فیصلہ بھی وقت کرے گا۔
پندرہ ماہ کی جنگ نے غزہ کو کس طرح تباہ کیا، بحالی میں کتنا وقت درکار؟

قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدہ طے پا گیا، اسرائیل کا ایک طویل عرصے تک یہ کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک کسی بھی جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ اتفاق نہیں کرے گا جب تک کہ اس کی فوجی کارروائیاں مکمل نہ ہو جائیں جو اس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے نتیجے میں شروع کی تھیں۔ اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ غزہ کو وسیع تباہی کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ایک سنگین انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔ حماس کے زیرِ انتظام صحت کے وزرات کے مطابق اسرائیلی حملوں کی وجہ سے 46 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ غزہ کا بیشتر بنیادی ڈھانچہ اسرئیل کے فضائی حملوں سے تباہ ہو چکا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے حملوں کا مقصد صرف حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانا تھا، اس نے شہریوں کے جانی نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حماس نے اسرائیل کے حملوں کا جواب راکٹ فائر کرکے دیا۔ ہلاکتیں اور زخمی غزہ میں صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہسپتالوں میں ریکارڈ کی گئی ہلاکتوں اور اہلِ خانہ کی جانب سے رپورٹ کی گئی ہلاکتوں کا شمار کیا ہے جو اب 46 ہزار 788 تک پہنچ چکا ہے۔ وزراتِ صحت کے ریکارڈ کے مطابق 7 اکتوبر 2024 تک کی شناخت شدہ ہلاکتوں پر مبنی ہے، ان میں 59 فیصد خواتین ، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے تجزیے کے مطابق نومبر میں خواتین اوربچوں کی تعداد 70فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ غزہ کی وزراتِ صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تنازعے میں 1ایک لاکھ 10 ہزار 453 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے 3 جنوری کو رپورٹ کیا کہ ان متاثرین میں سے 25 فیصد لوگ زندگی بدل دینے والے زخموں کے ساتھ رہ گئے ہیں۔ حال ہی میں لینسیٹ میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں تجویز کیا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد وزارت صحت کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔وزارت صحت کے ہلاکتوں کے اعداد و شمار میں شہریوں اور جنگجوؤں کے درمیان تفریق نہیں کی گئی، لیکن اسرائیلی دفاعی فوج (IDF) نے ستمبر 2024 تک 17 ہزار حماس جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم، اس نے اس دعوے کو کس طرح قائم کیا اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ بنیادی ڈھانچہ اور اسپتال اس تنازعے نے غزہ بھر کے بنیادی ڈھانچے کو وسیع اور نمایاں نقصان پہنچایا ہے۔نیچے دی گئی تصدیق شدہ تصویر میں جبالیا کے ایک علاقے کو تنازعے سے پہلے اور پچھلے ہفتے دکھایا گیا ہے۔ سی یو این وائی گریجویٹ سینٹر کے ماہر کوری شئر اور جیمون وین ڈن ہوک ، اوریگن یونیورسٹی کے ماہر غزہ میں ہونے والے نقصان کا سیٹلائٹ تصاویر سے جائزہ لے رہے ہیں ۔ 11 جنوری تک کے اپنے تازہ ترین تجزیے میں انہوں نے اندازہ لگایا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک 59.8 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی بمباری کا بیشتر حصہ شہری علاقوں پر مرکوز تھا اور کچھ بنیادی ڈھانچے کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا۔ متحدہ قوموں کا سیٹلائٹ سینٹر (UNOSAT) نے زیادہ نقصان کا اندازہ لگایا ہے – اس نے رپورٹ کیا کہ دسمبر کے آغاز میں 69فیصد تمام عمارتیں تباہ یا نقصان زدہ ہو چکی تھیں۔ اقوام متحدہ نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ غزہ کی سڑکوں کے نیٹ ورک کا 68 فیصد حصہ تباہ ہو چکا ہے۔ چند اہم طبی اداروں کے ہونے والے نقصان کی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 50فیصد ہسپتال بند ہیں، جبکہ باقی جزوی طور پر کام کر رہے ہیں – جس کا مطلب یہ ہے کہ کھلے رہنے والے ہسپتالوں کے پاس دائمی بیماریوں اور پیچیدہ چوٹوں کے علاج کی سہولت نہیں ہے۔ مس ہسٹر نے بی بی سی ویری فائی کو بتایا کہ اب کئی خصوصی طبی خدمات کے لیے ماہرین اور مخصوص طبی آلات کی کمی ہے۔ اسرائیلی حملوں کے جاری رہنے کے دوران، جنگ بندی سے قبل غزہ میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں تعلیمی اداروں کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے، اسرائیلی دفاعی فوج (IDF) نے یہ بتایاہے کہ وہ جولائی کے وسط سے حماس جنگجوؤں کو نشانہ بناتے ہوئے 49 بار اسکولوں کی عمارتوں پر حملہ کر چکے ہیں۔ ہم نے دسمبر کے آغاز سے اب تک 13 مقامات پر ایسے حملوں کی تصدیق شدہ ویڈیوز حاصل کی ہیں۔ یہ مقامات عموماً اسکول کے طور پر کام کرنا بند ہو چکے تھے اور اکثر پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ اس بھاری نقصان کے سبب غزہ میں تعلیم کو دوبارہ معمول پر لانا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ بی بی سی نے یہ بھی دستاویزی طور پر دکھایا ہے کہ اسرائیل کی فوجی کارروائی کے بعد سینکڑوں پانی اور صفائی کی سہولیات کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی دوبارہ تعمیر، گھروں سے لے کر عوامی سہولتوں کی فراہمی، آنے والے سالوں میں ایک اہم چیلنج ثابت ہوگا۔ مئی میں اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا تھا کہ غزہ کی پٹی کو دوبارہ تعمیر کرنے میں 40 ارب ڈالر کی لاگت آ سکتی ہے۔ غزہ بھر میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر برائے ہم آہنگی کے اندازے کے مطابق 1.9 ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں – جو غزہ کی آبادی کا تقریباً 90 فیصد بنتا ہے۔ کچھ افراد ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں کئی بار منتقل ہو چکے ہیں۔ بی بی سی ویری فائی تنازعے کے آغاز سے غزہ میں انخلاء کے احکامات کی نگرانی کر رہا ہے۔ غزہ کی تقریباً 2.3 ملین آبادی کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا ہے کیونکہ اسرائیل نے پورے علاقے میں مسلسل فضائی حملے کیے اور بڑے رہائشی علاقوں کے لیے بڑے پیمانے پر انخلاء کے احکامات جاری کیے۔ حالیہ تجزیے سے ظاہر ہوا کہ اکتوبر سے لے کر نومبر کے آخر تک شمالی
“اسرائیل بارود برسا کر بھی فلسطینیوں کے ایمان اور جذبہ جہاد کو شکست نہیں دے سکا”غزہ جنگ بندی پر ملک گیر یومِ عزم تشکر منایا گیا۔

امیر جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر 15ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت و دہشت گردی کے باوجود اہل غزہ و فلسطین کی مزاحمت اور حماس کے مجاہدین کی تاریخی کامیابی پر جمعہ 17جنوری کو ملک گیر سطح پر ”یومِ عزمِ تشکر“کراچی میں بھرپور طریقے سے منایا گیا ہے۔اس میں شراکین نے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کیا۔ کراچی میں ائمہ مساجد نے خطبات جمعہ میں امریکہ و اسرائیل کی مذمت اور اہل غزہ و فلسطین کی حمایت کے حوالے سے گفتگو کی۔ اسماعیل ہنیہ، یحیٰ سنوار سمیت تمام شہداء خواتین، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نےاورنگی ٹاؤن نمبر 5پر ”یوم عزم و تشکر“کے موقع پر شرکاء سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ غزہ و فلسطین میں حماس کے مجاہدین نے پوری دنیا کے باضمیر انسانوں کو اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے اپنی جانب متوجہ کیاہے۔ معاہدے پر عملدرآمد کے نتیجے میں چند سو اسرائیلی فوجیوں کے بدلے ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کی رہائی ممکن ہوگی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مؤقف کولے کر امیر جماعتِ اسلامی کراچی نے کہا کہ امریکہ و اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ وہ پاکستان، سعودی عرب اور انڈونیشیا سے مطالبہ کرے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔ہم حکمرانوں اور امریکہ کی طرف دیکھنے والوں کو متنبہ کرتے ہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا بھی گیا تو زبردست عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بانی پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بانی پاکستان قائداعظم نے بھی واضح اور دوٹوک انداز میں کہا کہ تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے اور اسے ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ دوسری جانب غزہ کے حالات پر افسوس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غزہ کی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ ہزاروں بچے بوڑھے اور خواتین سردی کا شکار ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی اورکھلی دہشت گردی کر رہا ہے۔ امریکا اسرائیل کی پشت پناہی اور بلین ڈالرز کی امداد فراہم کر رہا ہے۔غزہ کے 20 لاکھ لوگ کیمپوں میں پڑے ہیں۔ 46 ہزار شہید ہو چکے، 70 فیصد عورتیں اور بچے شہید ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کے جذبے کو سراہتے ہوئے منعم ظفر خان نے کہا کہ اسرائیل لاکھوں ٹن بارود برسا کر بھی فلسطینیوں کی ایمان کی قوت،جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو شکست نہیں دے سکا۔ چند ممالک کو چھوڑ کر کوئی فلسطین کی صورتحال پر نہیں بول رہا۔ نیتن یاہو نے کُھل کر گریٹر اسرائیل کی بات کرنا شروع کردی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کو اجاگر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تمام مسلم ممالک نے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کی چھوٹ دے رکھی ہے۔موجودہ حکمران ٹولہ عوام کے ووٹوں سے نہیں آیابلکہ فارم 47 سے مسلط کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اجتماع سے امیرجماعت اسلامی ضلع غربی مدثر حسین انصاری، سکریٹری ضلع عبد الحنان سمیت دیگر کارکنوں نے بھی خطاب کیا۔
گلی کوچوں سے عالمی کپ تک، انوکھے نام والا دلچسپ کھیل ‘کھو کھو’ دنیا بھر میں مشہور

اکیسویں صدی کے آغاز سے پہلے پیدا ہونے والے افراد میں سے اکثریت ‘کھو کھو’ جیسے انوکھے اور دلچسپ کھیل سے لطف اندوز ہوئے ہوں گے، پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس کھیل کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے، دیہی علاقوں میں اس کو ‘کھو پانی’ جبکہ شہری علاقوں میں ‘ریڈی گو’ جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ دو دیہائیاں قبل یہ بچوں کے پسندیدہ کھیلوں میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ لیکن دورِ حاضر میں اس روایتی کھیل کو ‘کھو کھو’ کے نام سے باقاعدہ قوانین کے ساتھ دنیا بھر میں کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل کی تاریخ تقسیم ہند سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ نجی خبر رساں ادارے کے مطابق کھو کھو کے اصول 1914 میں پہلی بار پونے کے دکن جمخانہ نے وضع کیے تھےاور تب سے یہ کھیل مقامی سطح سے عالمی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اب کھو کھو کا عالمی سطح پر بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، اس کھیل کے مزید فروغ کا باعث بنے گا۔ دور جدید میں ہندوستان کے شہر پونے سے شروع ہونے والا یہ کھیل خصوصی طور پر مہاراشٹر، گجرات اور مدھیہ پردیش میں مقبول ہے تاہم اب بھارت کے دیگر حصوں میں بھی اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ کھو کھو ایک ایسا کھیل ہے جس میں نہ گیند کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی بلے کی۔ اس کے لیے ایک 111 فٹ لمبے اور 51 فٹ چوڑے میدان کی ضرورت ہوتی ہے جہاں دو ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف کھیلتی ہیں۔ کھلاڑیوں کو اپنی باری میں 9 منٹ تک مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو پکڑنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔کھلاڑیوں کے درمیان دوڑ بھاگ اور ردعمل کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے یہ کھیل بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت میں اتنا اضافہ ہوا کہ عالمی سطے پر اس کے مقابلے بھی ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بھارتی دارالحکومت دہلی میں کھو کھو کے ورلڈ کپ کا آغاز ہو چکا ہے، 13 جنوری 2025 سے شروع ہونے والے ان عالمی مقابلوں میں دنیا بھر سے 23 ممالک شریک ہو رہے ہیں۔ یہ ایونٹ 19 جنوری تک جاری رہے گا جس میں مردوں کے مقابلے میں 20 ٹیمیں اور خواتین کے ایونٹ میں 19 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ اس عالمی ایونٹ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کھیل جو عموماً گلی کوچوں میں کھیلا جاتا ہے اب عالمی سطح پر ایک بڑے مقابلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ ایونٹ ایک بڑا موقع تھا، تاہم بھارت کی جانب سے ویزوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم اس مقابلے میں حصہ نہ لے سکی۔ اس پر پاکستانی کھلاڑیوں اور شائقین میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کھو کھو کے کھیل میں مرد اور خواتین دونوں کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور اس کے اہم ترین اصولوں اور تکنیکی خصوصیات کی وجہ سے اس کھیل کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم پاکستانی ٹیم کی عدم شرکت کے باوجود اس عالمی ایونٹ میں حصہ لینے والی ٹیموں کے لیے یہ ایک تاریخی موقع ہے جس میں کھلاڑی اپنے ملک کا نام روشن کرنے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ گلی کوچوں سے عالمی مقابلوں تک پہنچنے والے اس انوکھے نام والے کھیل ‘کھو کھو’ کی شہرت سے ہر کوئی حیران ہے، دور جدید کے کھیلوں میں دہائیوں سے چلتے آرہے کھو کھو کی شمولیت ایک خوش آئند بات ہے، بچپن کی کھیلے گئے کھیل کے عالمی سطح پر مقابلوں کو دیکھ کر ہر کسی کے لئے خوشی کا ذریعہ ہے، لیکن بھارت کا کھیل میں بھی سیاست کرنا تشویش ناک امر ہے۔
چنگاری سے راکھ تک:لاس اینجلس میں کتنا نقصان ہوچکا؟

چنگاری پھوٹی،شعلے نکلے اور پھیلتے ہی گئے،ایسے پھیلے کے رکنے کا نہ بجھنے کا نام لیا،ایسی آگ پھیلی کہ بڑے بڑے بنگلوں کو راکھ بنادیا۔ لاس اینجلس میں لگی آگ کی تباہ کاریاں تاحال جاری ہیں ،امریکا جو سپر پاور ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن وہ اپنی تمام تر طاقت لگانے کے باوجود بھی اب تک اِس آگ پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہا ہے ، اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ یہ آگ مزید شہروں میں پھیل سکتی ہے ،اس آگ سے لاکھوں افراد کی جانیں خطرے میں ہیں ۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگی آگ سے تباہ ہونے والی عمارتوں کا ملبہ ہٹانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے،حکام کا کہنا ہے کہ عمارتوں کے ملبے، راکھ اور گرد میں بھاری دھاتیں اور دیگر خطرناک مواد شامل ہوسکتا ہے۔ یہ خطرناک اجزا سانس کے ذریعے، جلد پر لگنے سے یا پینے کے پانی میں شامل ہوکر جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔کچرے کو نامناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے سے ان خطرناک مادوں کے پھیلاؤ کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے جس سے امدادی کارکنوں، رہائشیوں اور ماحول کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس آگ سے اب تک 25 افراد ہلاک اور 12 ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوچکے ہیں، 40 ہزار سے زائد ایکڑ رقبہ جل چکا ہے۔ مزید 88 ہزار افراد کو متاثرہ علاقہ چھوڑنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔دوسری جانب امریکا میں لگنے والی آگ انشورنس کمپنیوں پر بہت بھاری پڑی ہے، اِن بیمہ کنندگان کو 30 ارب ڈالر تک ادائیگیاں کرنا پڑسکتی ہیں۔اس تاریخی آگ میں اب تک 12 ہزار سے زائد گھر جل کر خاک کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ان میں اکثر انتہائی قیمتی گھر تھے، جن کے مالکان نے انشورنس کرا رکھی تھی۔ غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ آگ پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور یہ مشرق میں برینٹ ووڈ تک پھیل گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں نے ابتدائی طور پر تخمینہ لگایا تھا کہ بیمہ کمپنیوں کو متاثرین کو کلیمز کی ادائیگی میں 20 ارب ڈالر تک ادائیگیاں کرنا پڑ سکتی ہیں تاہم اس کا پھیلاؤ اور نقصان بڑھنے کے باعث اب یہ تخمینہ 30 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے،اس حوالے سے جاپان کی ٹوکیو میرین ہولڈنگز انکارپوریشن نے کہا ہے کہ متاثرین کو جلد از جلد انشورنس کلیم ادا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی خوفناک آگ میں اب تک 25 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو اداکار بھی شامل ہیں۔دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ آگ کیسے لگی ؟اور اب امریکا میں اِس کی تحقیقات بھی ہورہی ہیں اب یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ اِس آگ پر قابو پایا جاتا ہے یا پھر یہ آگ مزید شہروں میں پھیل کر تباہی پھیلانے کا سبب بنتی ہے ۔
ماحول کے تحفظ کی طرف اہم قدم ،الیکٹرک وہیکلز کیا کردارادا کریں گی؟

الیکٹرک گاڑیاں ماحولیاتی تحفظ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ یہ روایتی ایندھن پر چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں کم کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر گیسوں کا اخراج کرتی ہیں۔ فضائی آلودگی میں کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ نہایت ضروری ہے۔ یہ گاڑیاں توانائی کے متبادل ذرائع کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جو طویل المدتی، ماحول دوست اور پائیدار ترقی کی ضمانت ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں کی مقبولیت اور فروغ معیشت پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ مقامی صنعتوں میں بیٹری کی تیاری اور چارجنگ انفراسٹرکچر کی ترقی سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ایندھن کی درآمدات میں کمی سے زرمبادلہ کی بچت بھی ہوگی۔ان گاڑیوں کے استعمال سے آسان اور سستی آمدورفت بھی میسر ہو گی۔
“گلوبلسٹ کی جانب سے لڑنے کی بجائے آس پاس کے لوگوں سے دوستی کریں” برطانیہ یوکرین میں 100 سالہ معاہدہ طےپاگیا

برطانوی وزیرِاعظم کیراسٹارمر نے کیف میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ برطانیہ اور یوکرین کے درمیان 100 سالہ معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں،جس میں دفاع، توانائی اور تجارت سمیت متعدد شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ یہ معاہدہ دونوں قوموں کے درمیان موجود پیار کی عکاسی کرتا ہے۔ برطانوی وزیرِاعظم کیر اسٹارمر نے 16 جنوری کو روسی فضائی حملے کے دوران یوکرین کا دورہ کیا ، جہاں انھوں نے یوکرین کے دارالحکومت کیف میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی۔ملاقات میں برطانوی وزیرِاعظم نے 100 سالہ شراکت داری کے معاہدے کے ساتھ مزید تعاون کی پیشکش کی۔ دورے میں طے پایا کہ اگر امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی سے قبل حمایت کے اظہار میں روس کے ساتھ جنگ بندی پر بات چیت کی جاتی ہے تو برطانیہ یوکرین اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے کاوعدہ کرے اور دارالحکومت کیف کو مضبوط حفاظتی ضمانتیں پیش کرےگا۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو امریکہ کے صدر کا عہدہ سنبھالیں گے۔ وہ یوکرین میں تقریباً تین سال سے جاری جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں اور یوکرین کے بڑے حصوں کو روس کے حوالے کرنے کی تجاویز بھی پیش کرچکے ہیں۔ یوکرین کے دارالحکومت کیف میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ برطانیہ اور یوکرین کے درمیان 100 سالہ معاہدہ ہوا ہے، جس میں طے پایا ہے کہ برطانیہ موبائل ایئر ڈیفنس سسٹم فراہم کرے گا اور اور بحیرہ بالٹک، بحیرہ اسود اور بحیرہ ازوف میں نئے سیکورٹی فریم ورک کے ذریعے سمندری تعاون کو تقویت دے گی۔معاہدے میں لندن نےکیف کے دفاعی تعاون کو گہرا کرنےاور یوکرین کی دفاعی صنعت کو فروغ دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ یوکرین کو مستقبل کے نیٹو اتحادی کے طور پر تسلیم کیا۔ اس کے علاوہ 100 سالہ معاہدے کا حصہ بننے والے مختلف معاہدوں کو آنے والے ہفتوں میں برطانیہ کی پارلیمنٹ میں متعارف کرائے جانے کی توقع ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے زیلنسکی سے ملاقات سے قبل ایک بیان میں کہا تھاکہ ہماری طویل المدتی دوستی کی طاقت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ برطانوی وزیرِاعظم نے کہا کہ روسی حملوں سے اپنے دفاع کے لیے اور ایک آزاد مستقبل کی تعمیر نو کے لیے یوکرین کی حمایت کرنا اہم ہے۔اس شراکت داری کے ذریعےہم ایک مضبوط معیشت بنا رہے ہیں جو برطانوی عوام کے لیے کام کرےگا۔ یہ ایک ایسا کوشحال معاشرہ ہوگا جواندرون اور بیرون ملک ہمارا تحفظ اور ہمارے مفادات کےلیے کام کرے گا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلامعاہدہ ہے جو برطانیہ اور یوکرین کے درمیان ایک نئی شراکت داری اور دونوں قوموں کے درمیان موجود بڑے پیار کی عکاسی کرتا ہے۔ یاد رہے کہ کیر سٹارمر نے جولائی 2024 میں وزیرِاعظم کا عہد سنبھالا اوریوکرین میں یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔ دوسری طرف یوکرینی صدر زیلنسکی نے حال ہی میں مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ یوکرین کو طویل مدتی فوجی مدد جاری رکھیں، انھوں نے کہا کہ یہ واقعی ایک تاریخی معاہدہ ہے۔یاد رہے کہ برطانیہ یوکرین کے سب سے بڑے فوجی حمایتیوں میں سے ایک رہا ہے، جس نے فروری 2022 میں روس کی طرف سے اپنے مکمل حملے کے آغاز کے بعد سے 12.8 بلین پاؤنڈ کی فوجی اور شہری امداد کا وعدہ کیا ہے۔ برطانیہ پہلے ہی یوکرین کو 12.8 بلین پونڈز کی مدد دے چکا ہے اور ہر سال 3 بلین پونڈز فوجی امداد دینے کا عہد کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین پہلے ہی سرحد سے دور روسی فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے برطانوی فراہم کردہ اسٹارم شیڈو میزائل استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر برطانوی عوام اس فیصلے سے کافی ناخوش دیکھائی دی ہے۔ ایکس صارفین کی جانب سے معاہدے کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ 100سال ایک بہت طویل وقت ہے۔ جب یوکرین میں دوبارہ انتخابات کی اجازت دی گئی تو شایدحکومت اس سے بہت مختلف نظر آئے جو آج ہےمگر اب برطانیہ 100 سال کےلیے جُڑ چکا ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ کل کو کوئی نہیں دیکھ سکتا اور 100 سال کی شراکت صرف ایک خالی روح سے دوسرے خالی الفاظ ہیں۔ ایک صارف نے سوال کرتے ہوئے لکھا کہ یہ لمبے لمبے معاہدے جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا کیا یہ دوسری جنگِ عظیم کی وجہ نہیں ہیں؟ دوسری جانب ایک اور صارف نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ 100 سالہ یوکرین اوریوکے پارٹنرشپ کرپٹو کی دنیا میں ایک طویل مدتی اسٹیکنگ ڈیل کو حاصل کرنے کے مترادف ہے- وقت کے ساتھ ساتھ تعاون اور فوائد کی ضمانت، بہتر فوجی امداد اور ڈرون ٹیک کے ساتھ یہ آپ کی بلاکچین سیکیورٹی کو برابر کرنے جیسا ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ یوکرین کی بجائے ان بوڑھے پنشنرزکے ساتھ کھڑے ہونے کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنے گھروں کو گرم کرنے سے قاصر ہیں یا سابق فوجی جو بے گھر ہیں؟ اس معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے برطانیہ کے لوگوں سے مشورہ لیا جانا چاہیے تھا اور نیچے ہیش ٹیگ ایک اور منی لانڈرنگ اسکیم لکھا۔ ایک اور صارف نے تبصرہ کیا کہ برطانیہ میں کسی سے اس بارے میں نہیں پوچھا گیا، اس لیے ہمارے لیے یہ ایک غیر کمٹمنٹ پارٹنرشپ ہے۔100 سال کی ڈیل کے لیے عوامی ووٹ کی ضرورت ہےاوریہ شرمناک ہے۔ دوسری جانب یوکرین کے ایک صارف نے لکھا کہ یوکرین کے لیے تاریخی 100 سالہ شراکت داری اور اہم حمایت کے لیےیوکےکا شکریہ۔ آپ کی سخاوت ہماری قوم کے لیے امید اور طاقت لاتی ہے۔ ایک ساتھ ہم مضبوط کھڑے ہیں۔ جب کے اس کے جواب میں برطانوی صارف نے لکھا کہ یہ بولوں کا بوجھ ہے اور برطانوی عوام اسے جانتے ہیں۔ آپ گلوبلسٹ کی جانب سے جنگ لڑنے کی بجائے اپنے آس پاس کے لوگوں سے دوستی کریں۔ برطانیہ اور یوکرین کے اس معاہدے کو صارفین کی جانب سے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ برطانیہ اور یوکرین کا یہ معاہدہ روس کے ساتھ جاری جنگ میں کیا موڑ
سستی بجلی محض ایک دعویٰ؟ کیا عوامی ردعمل حکومت کو جگا سکے گا؟

پاکستان، ایک ایسا ملک جو توانائی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک طرف حکومت کے دعوے اور وعدے، اور دوسری طرف عوام بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت نے بجلی 300 یونٹ تک مفت بجلی، قیمتوں میں 50 روپے تک کمی اور بلاتعطل فراہمی جیسے وعدے کیے، لیکن زمینی حقائق دعوؤں کے بالکل برعکس ہیں۔ دعوے صرف دعوے ہی رہ گئے، عوام کو بجلی کے بلوں کی شکل میں نئے ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،جہاں عوام غربت اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، وہیں حکومت اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ حکومتی وزراء کی تنخواہوں میں 35% اضافہ ہوا ، سرکاری افسران کو مفت بجلی، گاڑیاں، اور دیگر مراعات دی گئی جبکہ پارلیمنٹ میں وزراء کے سفر اور دیگر اخراجات کے لیے بھی اربوں روپے مختص کیے گئ ہیں۔
موسم سرما کی سوغات، خشک میوہ جات عام آدمی کی قوت خرید سے باہر

سردیوں میں خشک میوہ جات کی اہمیت اور فوائد سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا، لیکن آج کل عوام کی رائے یہ ہے کہ ان کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ یہ صرف امیر طبقے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ عام عوام کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں خشک میوہ جات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ان کا استعمال زیادہ تر متوسط اور غریب طبقے کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ ایک عام شہری نے کہا، “ہمیں خشک میوہ جات بہت پسند ہیں، لیکن جب قیمتیں اتنی زیادہ ہو گئیں ہیں، تو ہم ان کو خریدنے سے قاصر ہیں۔” کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان میوہ جات کا سردیوں میں استعمال جسم کو گرم رکھنے اور قوت مدافعت بڑھانے کے لیے ضروری ہے، مگر موجودہ قیمتوں نے ان کی دسترس میں آنا مشکل بنا دیا ہے۔
“ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے” اراکین سندھ اسمبلی کے توجہ دلاؤ نوٹسز پر سعید غنی کا جواب

کراچی (دانیال صدیقی) آج سندھ اسمبلی میں مختلف اراکین کے توجہ دلائو نوٹسز کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی اداروں کے ریونیو میں اضافہ تو ہو رہا ہے مگر ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے مزید کہا کہ محکمہ بلدیات کے زیر انتظام محکموں میں زیادہ تر محکموں میں ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی کی جارہی ہے البتہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کا معاملہ ہے۔ وزیر بلدیات نے کہا کہ کراچی میونسپل کمیٹی (کے ایم سی) میں سابق مئیر وسیم اختر نے ملازمین کے جو پیسے علیحدہ اکائونٹ میں جمع ہوتے تھے ان کو بھی خرچ کردیا تھا۔ سندھ حکومت اس وقت بھی کے ایم سے کو ماہانہ 1.2 ارب ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادا کررہی ہے، جو سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے اپنے دور میں ایک بار500 ملین ادھار مانگے تھے۔ بڑھتی آلودگی اور غیر قانونی پارکنگ اسٹینڈز پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ایسٹ میں سندھ سولڈ ویسٹ کے تحت جو چائنیز کمپنی کام کررہی تھی اس کا کنٹریکٹ دوبارہ اس لئے نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ ادائیگی کو ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں نہیں لینا چاہ رہی۔ قانونی چارجڈ پارکنگ کے علاوہ شہر میں جتنی بھی غیر قانونی پارکنگ ہیں اس کے خاتمے کی ذمہ داری محکمہ بلدیات نہیں بلکہ پولیس و قانون نافذ کرنے والوں کا ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن عبدالوسیم کے توجہ دلائو نوٹس پر جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی میں مسائل موجود ہیں اور بہت سے ملازمین پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب کے ایم سی میں پینشن ریگولر مل رہی ہے اور پی ایف بھی ادا کردئے گئے ہیں البتہ واجبات کی مد میں 13 ارب روپے کے بقایاجات ہیں، جولائی 2017 تک کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کردئیے گئے ہیں اس کے بعد کے بقایاجات باقی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ ڈی ایم سیز کے ملازمین کے بقایاجات 2023 تک کے ایم سی کو ادا کرنے چاہیے یہ ہمارا موقف ہے اس کے بعد کے بقایاجات ٹاؤنز کو ادا کرنے ہیں۔ نئے ملازمین پر تو یہ ہوسکتا ہے کہ ان کو ٹائون ادا کرے لیکن پرانے پر نہیں۔ وزیر بلدیات سندھ نے کہا کہ کے ایم سی کی مزید ڈیمانڈ پر سندھ حکومت نے 2.76 ارب روپے کے ایم سی کو لون کی مد میں دینے کی منظوری دے دی ہے، اس وقت کے ایم سی کے اپنے ذرائع سے بھی ان کے ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر ادارے میں ملازمین کی تنخواہوں کا اکائونٹ الگ ہوتا ہے لیکن سابقہ میئر وسیم اختر نے وہ پیسے کسی اور مد میں خرچ کردئیے تھے۔ اسی طرح کے ڈی اے میں ستمبر 2020 کے بعد کے ملازمین کے 3.8 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ انہوں نے بھی سندھ حکومت کو 3 ارب روپے کی گرانٹ کے لیے لکھا ہے۔ وزیر بلدیات نے کہا کہ ہم کے ڈی اے کو بھی ماہانہ 40 کروڑ روپے تنخواہوں اور پنشن کی مد میں سندھ حکومت دے رہی ہے۔ کے ڈی اے میں بھی تمام پینشنرز کو باقاعدگی سے پینشن مل رہی ہے۔ اسی طرح کابینہ نے حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے لئے گذشتہ روز کابینہ نے 500 ملین کی گرانٹ منظور کی ہے البتہ اس کے میکنزم کے لئے کابینہ کی سب کمیٹی بنائی گئی ہے تاکہ آئندہ اس طرح ملازمین۔ کے واجبات ادا کرنے میں مشکلات نہ ہوں۔ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کسی ملازم کے واجبات نہیں ہیں جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں جولائی 2020 ہے بعد سے دسمبر 2024 تک 5.1 ارب کے واجبات ہیں، جن میں سے ان کے کئی سرکاری اداروں پر 2.1 ارب ہے واجبات ہیں جس کی ری کنشیلیش کرلی گئی ہے جبکہ واٹر بورڈ کا 2.5 ارب کا دعوہ ہے۔ اس کے علاوہ واٹر بورڈ کے وفاقی اداروں پر بھی 12.5 ارب روپے کا دعوہ ہے، جس کی ری کنشیلیشن کروائی جارہی ہے۔ اس وقت واٹر بورڈ کے ریونیو بھی بہتر ہورہا ہے تو انشاءاللہ وہاں بھی ملازمین کے واجبات جلد ادا کردئیے جائیں گے۔ ایم کیو ایم کے رکن عامر صدیقی نے اپنے توجہ دلائو نوٹس میں کہا کہ ان کے حلقے بشمول جمشید ٹائون وغیرہ میں صفائی اور کچرہ نہیں اٹھایا جاتا۔ اس غفلت کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ بنوری ٹائون جہاں کئی غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم ہے اس کے پاس کچرہ کنڈی ہے، وہاں کا یوسی چیئرمین کوئی کام نہیں کرتا۔ جس پر سعید غنی نے جواب میں کہا کہ صرف معزز ممبر نہیں بلکہ اس وقت ڈسٹرکٹ ایسٹ کے تمام ٹاؤنز میں سولڈ ویسٹ کے حوالے سے اشیو ہے۔