“آزاد صحافت تباہ ہورہی، فائدے کےلیے جھوٹ سے سچائی کوکچل دیاجاتا ہے”  جوبائیڈن کا الوداعی خطاب

امریکی صدر جوبائیڈن کا وائٹ ہاؤس میں اپنے الوداعی خطاب میں کہنا تھا کہ آزاد صحافت تباہ ہورہی ہے۔ طاقت اور منافع کےلیے بولے جانے والے جھوٹ سے سچائی کوکچل دیاجاتا ہے۔ چند امیر لوگوں کے ہاتھ میں طاقت کا ارتکاز انتہائی تشویش ناک ہے۔ 15 جنوری کو امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں اپنا الوداعی خطاب کیا۔ الوداعی خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ  موجودہ دور میں سوشل میڈیا  غلط معلومات سے بھرا پڑا ہے، ہمیں نئی نسل کو غلط خبروں سے بچانا ہے جس کے لیے مصنوعی ذہانت کو حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ سے آزاد صحافت تباہ ہو رہی ہے اور ایڈیٹرز کا کردار ختم ہوتا جا رہا ہے جب کہ سوشل میڈیا بھی فیکٹ چیک ختم کر رہا ہے۔ طاقت اور منافع کے لیے بولے جانے والے جھوٹ سے سچائی کو کچل دیا جاتا ہے۔ صدربائیڈن کا کہنا تھا کہ گنے چنے لوگوں کے ہاتھوں میں طاقت کا آجانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر ان اختیارات کے غلط استعمال کو نہ روکا گیا تو نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔کملا ہیرس اور پوری ٹیم کی وجہ سے ہماری حکومت نے کئی مشکلات عبور کی ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل حماس جنگ بندی میں امریکہ کے کردار کو سراہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے بہترین سفارت کاری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر جنگ بندی کےلیے کام کیا ہے۔ مستقبل میں چین نے نہیں بلکہ امریکہ نے دنیا کی قیادت کرنی ہے تو امریکہ کو تمام عالمی معاملات میں اپنا واضح کردار ادا کرنا ہوگا۔ حماس کی جانب سے جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ لبنان میں جنگ بندی اور ایران کے کمزور ہونے کی وجہ سے حماس پر دباؤ آگیا تھا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے حماس کو جنگ بندی کےلیے مجبورکیا گیا۔ صدربائیڈن نے کہا کہ چار سال قبل  جب اقتدار سنبھالا تو ہم خطرات اور امکانات کے موسمِ سرما میں کھڑے تھے،لیکن ہم نے بحیثیت امریکی حالات کا بہادری سے مقابلہ کیا ۔ یاد رہے کہ یہ جوبائیڈن کا پانچواں اور آخری خطاب تھا، جب کے اس سے قبل رواں برس جولائی  میں انھوں نے وائٹ ہاؤس سے خطاب کیا تھا۔ خطاب میں انہوں نے نومبر 2024 میں ہونے والے صدارتی الیکشن لڑنے سے دستبرادر ہونے کا اعلان کیا تھا۔ صدر بائیڈن نے اپنی نائب کملا ہیرس کی ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ڈیموکریٹ امیدوار کی حیثیت سے توثیق کی تھی۔ عوامی رائے عامہ کے سروے کرنے والی امریکی کمپنی ’گیلپ‘ کے مطابق جو بائیڈن  کی اس وقت امریکی عوام میں حمایت 39 فیصد ہے۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر صارفین نے امریکی صدر بائیڈن کی تقریر پر ملتے جلتے تبصروں کا مظاہرہ کیا ، جن میں کسی نے ان کی تعریف کی تو کسی نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک صارف نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے امید ہے  آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ امریکیوں کی اکثریت برے لوگ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ بیٹھیں، غور کریں اور اس نفرت کو ختم کردیں جو آپ کو مجھ جیسے لوگوں سے ہے۔ ایک صارف نے طنز یہ لکھا کہ یہ تقریر اس بات کی ایک بہترین وضاحت ہے کہ وہ دفتر چھوڑ کر 40 فیصد سے کم پولنگ کیوں کر رہے ہیں۔ یہ چورن دو مہینے پہلے نہیں بکتا تھا اور اب بھی نہیں بک رہا۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ فاشسٹ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایف بی آئی کو سوشل میڈیا کو مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا کہ وہ پچھلے نصف درجن سالوں سے امریکیوں کو سنسر کریں۔آپ کو آزادی  سے نفرت ہے۔ انصاف آ رہا ہے۔ اس کے برعکس ایک صارف نے امریکی صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ طاقت کا غلط استعمال صرف ان کے دور حکومت میں ہوا ہے۔  ان کی اپنی پارٹی نے انہیں کل کے کچرے کی طرح دبوچ لیا ہے۔ ایک صارف نے اگلی حکومت کو لے کر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ بہت سے ممالک کو اپنے تاریک دور کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ 20 جنوری کوامریکہ تیزی سے ایک ایسے دور میں داخل ہو جائے گا جہاں ہماری قوم کے رہنما ہم میں سے بہترین نہیں بلکہ آمرانہ مجرم، اولیگارچ اور موقع پرست ہوں گے۔ آئیے دعا کریں کہ ہم میں سے بہترین ہمارے تاریک دور سے بچ جائیں۔ دوسری طرف ایک اور صارف نے لکھا کہ میں  نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں تاریخ کی کتابوں کے لیے وہ دن دیکھوں گا جب ایک پوٹس یہ کہہ رہا ہوگا۔  آپ جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا وہ  افسوس کریں گے، لیکن ہم میں سے باقیوں کو بھگتنا پڑے گا۔ امریکی صدر کی الوداعی تقریر میں صارفین کی جانب سے ملے جلے رجحانات کا اظہار کیا گیا۔ بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہماری ٹیم نے ٹرمپ انتظامیہ کو تمام حالات سے آگاہ کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی ٹرمپ حکومت عالمی دنیا خاص کرچین کو لےکر کیا حکمتِ عملی اپناتی ہے۔

انگلش کرکٹر ثاقب محمود کو آخر کار بھارت کا ویزہ مل گیا

انگلینڈ کرکٹ کے فاسٹ باؤلر ثاقب محمود کو بھارت کے دورے کے لیے ویزا کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،لیکن آخرکار ان کا ویزا منظور ہوگیا۔ انگلینڈ کے نوجوان فاسٹ باؤلر ثاقب محمود کے لیے گزشتہ ہفتہ ایک اعصابی کشمکش کا دن تھا۔اس نوجوان کھلاڑی کی زندگی کے اس لمحے کا آغاز ایک غیر یقینی صورتحال کے ساتھ ہوا جب انہیں بھارت کے دورے کے لیے درکار ویزا نہ مل سکا۔ جس دن انگلینڈ کی ٹورنگ پارٹی متحدہ عرب امارات روانہ ہونے والی تھی اس وقت ثاقب محمود کو اس خبر کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کی پرواز منسوخ کردی گئی ہے۔ ثاقب کی متحدہ عرب امارات میں ہونے والے پیس باؤلنگ کیمپ میں شرکت کی امیدوں پر پانی پھر گیا تھا۔ ایسی صورتحال میں جہاں تمام فاسٹ باؤلرز ایک دوسرے کے ساتھ تربیت حاصل کرنے جا رہے تھےثاقب محمود کو اچانک سائیڈ لائن کر دیا گیا،ای سی بی (انگلینڈ کرکٹ بورڈ) کی جانب سے اس پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے ان کے ویزے کی منظوری میں رکاوٹ آ گئی تھی۔ جبکہ ثاقب محمود کے پاسپورٹ کی کارروائی پچھلے مہینے ہی جمع کر دی گئی تھی مگر ان کا ویزا نہ آنا ایک پرجوش کرکٹر کے لیے ایک ناقابل یقین معمہ بن گیا۔ دن رات کی کشمکش میں وہ اپنے ساتھیوں کو متحدہ عرب امارات روانہ ہوتے ہوئے دیکھتے رہےاور خود ایک بے چینی میں مبتلا تھے۔ان کے ساتھی کھلاڑی جوفرا آرچر،گس اٹکنسن،اور مارک ووڈ پہلے ہی تربیتی کیمپ میں پہنچ چکے تھے۔اس دوران ثاقب کا دل ٹوٹ رہا تھا مگر وہ ہمت نہیں ہار رہے تھے۔ پھر وہ خبر آئی جس نے ان کی زندگی کےاس سنسنی خیز دن کا خاتمہ کیا۔جمعرات کی صبح جب ان کو یہ اطلاع ملی کہ ان کا ویزا آگیا ہے اور وہ انگلینڈ کی ٹورنگ پارٹی میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ انگلینڈ کا بھارت کے خلاف پہلا ٹی ٹوئنٹی اگلے بدھ یعنی 22 جنوری  کو کولکتہ میں کھیلا جائے گا اور ثاقب محمود اپنی ٹیم کے ہمراہ میدان میں اتریں گے۔ یاد رہے کہ 27 سالہ نوجوان ثاقب محمود کو نومبر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف انگلینڈ کے آخری وائٹ بال دورے میں سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا تھا جہاں انہوں نے تین میچوں میں نو وکٹیں حاصل کیں اور پاور پلے میں سب سے زیادہ وکٹوں کا ریکارڈ توڑا تھا۔

آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ اپنے گھر میں اپنے بیڈ پہ ٹیک لگا ئے بیٹھے ہیں اور اپنے موبائل سے گوگل پر اپنی پسندیدہ فلم سرچ کرتے ہیں، آپ ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جی ہاں! آپ کے اس چھوٹے سے عمل سے بھی ماحول کو نقصان پہنچتا ہے۔ نہ صرف ایسے موبائل سے سرچ کرنے سے بلکہ کھانا پکانے اور سفر کرنے جیسے روزمرہ کے کام بھی ماحول کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ ایسا کیسے ہوتا ہے۔ کاربن فٹ پرنٹ ایسی گیسوں کے اخراج کے ماپنے کو کہتے ہیں جو ماحول کو نقصان دینے کا سبب بنتی ہیں۔ ان گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور فلوسینیٹد گیسز، جنہیں ایف گیسز بھی کہا جاتا ہے، شامل ہیں۔ کیونکہ ان گیسز میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج سب سے زیادہ ہے اس لیے انہیں “کاربن فٹ پرنٹ” کا نام دیا گیا ہے۔ ان گیسوں کو گرین ہاؤس گیسز بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گیسز زمین کے گرد موجود اوزون کی تہہ، جو زمین کو سورج کی خطرناک شعاعوں سے بچاتی ہے، کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس نقصان کے نتیجے میں اوزون کی تہہ پتلی ہو جاتی ہے اور سورج کی خطرناک اور زہریلی شعاعیں اس تہہ میں سے گزر کر زمین پر پہنچتی ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں جس کے باعث سیلاب، سخت موسم اور سونامی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کاربن فٹ پرنٹ کی سب سے بڑی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی شکاگو کے مطابق دنیا میں 30 فیصد کاربن فٹ پرنٹ کا اخراج بجلی کے شعبے سے منسلک ہے جبکہ 26 فیصد پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح فیکٹریوں کی وجہ سے 21 فیصد، زرعی شعبے کی وجہ سے 9 فیصد اور رہائشی و تجارتی شعبے کی وجہ سے 12 فیصد گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی میں ماحولیاتی تحقیق کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر سیدہ عدیلہ بتول کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 26 فیصد کاربن فٹ پرنٹ ہماری خوراک سے منسلک ہے۔ اس 26 فیصد آدھے سے زیادہ حصہ صرف جانوروں کے گوشت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک کلو گرام بھیڑ کے گوشت یا ایک کلو گرام پنیر تیار کرنے پر 20 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے روزمرہ کی سرگرمیاں، جیسا کہ نقل و حرکت، بھی کاربن فٹ پرنٹ کا سبب بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم اڑھائی کلومیٹر پیدل سفر کرتے ہیں تو اس کا کاربن فٹ پرنٹ صفر ہوگا لیکن اگر ہم پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں تو یہ 20 منٹ میں 244 گرام گیسز کا اخراج ہوگا۔ اسی طرح اپنی کار پہ سفر کرنے سے یہ اخراج 560 گرام ہوگا۔ ہماری روزمرہ کی سرگرمیوں میں استعمال ہونے والی اشیا مثلاً ایک پلاسٹک کا شاپر سے 33 گرام کاربن فٹ پرنٹ ہوتا ہے۔ حیران کن طور پر اگر آپ گوگل پہ ایک سرچ کرتے ہیں تو اس سے بھی 0.2 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ ایک پلاسٹک کی بوتل 83 گرام جبکہ پھولوں کا گل دستہ 32 ہزار گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ گوکہ پاکستان پوری دنیا کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم کاربن فٹ پرنٹ کا ذمہ دار ہے لیکن جو ممالک موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ان میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کو اس تبدیلی سے زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ 2022 میں آنے والے سیلاب اسی بات کا ثبوت ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس سیلاب سے پاکستان میں 33 ملین لوگ متاثر ہوئے۔ موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے جس میں تمام ممالک مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہر سال کانفرنس آف پارٹیز کے نام سے ایک میٹنگ ہوتی ہے جس میں تمام ممالک کے سربراہان شرکت کرتے ہیں اور دنیا کو موسمیاتی تبدیلی سے درپیش مسائل کو حل کرتے ہیں۔

ہر سال اعلٰی تعلیم یافتہ اورہنرمند نوجوانوں کاپاکستان چھوڑنامستقل رجحان یاصورتحال بدل سکتی ہے؟

“میرا بیٹا باہر جا رہا ہے” یار! میں تو بس ویزہ کے انتظار میں ہوں جیسے ہی بات بنی نکل جاؤں گا”، “اچھا ایجنٹ مل گیا، اب رکنا نہیں ہے بھئی۔” کا تذکرہ ہو یا ” جینا ہے تو پاکستان سے زندہ بھاگ۔” “پانچ برس میں 33 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ چکے،” “برین ڈرین،” “ہر تیسرا پاکستانی ملک چھوڑنا چاہتا ہے” ہم میں سے ہر ایک روزانہ نہیں تو وقتاً فوقتاً اپنے دائیں، بائیں کچھ ایسا سننا  پڑتا ہے۔ گھر اور اپنوں کو چھوڑ کر پردیس جانے کا یہ سلسلہ ایسا ہے کہ بظاہر رکنے کا نام نہیں لیتا، لگتا یوں ہے کہ پورا ملک ہی “باہر” نکل جانے کے چکر میں ہے۔ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے مطابق مہنگائی، بے روز گاری اور معاشی بحران سے تنگ آکر ہر عمر کا پاکستانی، باالخصوص نوجوان بہتر مستقبل کی امید میں وطن چھوڑنا چاہتے ہیں۔ کسی کی منزل خلیجی ملک ہوتے ہیں تو کوئی یورپ، امریکا یا کینیڈا کا ارادہ بنا لیتا ہے۔ یہ رجحان نیا نہیں بلکہ گزشتہ 50 برسوں سے مسلسل جاری ہے۔ کبھی کم، کبھی زیادہ کر کے اب تک ایک کروڑ سے زائد پاکستانی دنیا کے مختلف حصوں کا رخ کر چکے ہیں۔ ان میں سے کئی واپس آتے ہیں جب کہ کئی وہیں مستقل ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ پاکستان  بیورو آف ایمیگریشن کے مطابق 1970 سے لے کر اب تک ایک کروڑ 30 لاکھ افراد پاکستان سے دوسرےممالک میں ہجرت کر چکے ہیں۔ 2024میں سات لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے بہتر مستقبل کی امید میں بیرون ملک خصوصاً یورپین اور خلیجی ممالک کا رخ کیا۔ سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 2015 میں سب سے زیادہ افراد نے ملک چھوڑا، اس سال تقریباًساڑھے 9 لاکھ کے قریب لوگوں نے بیرونی دنیا کا رخ کیا۔   وفاقی ادارہ برائے شماریات کے مطابق پاکستان میں 30 برس سے کم عمر افراد کل ملکی آبادی کا تقریباً70فیصد ہیں۔ 24 کروڑ میں سے تقریبا 17 کروڑ کی یہ آبادی جہاں امکانات کی دنیا رکھتی ہے وہیں خدشات کے سائے میں پل بڑھ رہی ہے۔ سرکاری سطح پر دستیاب ڈیٹا کےمطابق پاکستان میں ہر سال 220 جامعات سے 445,000 سے زائد اسٹوڈنتس فارغ التحصیل ہوتے ہیں، ان میں سے 31 فیصد سے زائد بے روزگار رہ جاتے ہیں۔ پاکستانی گریجوایٹس سے متعلق رپورٹس بتاتی ہیں کہ ان کی نصف سے زائد تعداد متعلقہ انڈسٹری کو مطلوب مہارتیں نہیں رکھتی، کبھی یہ صلاحیت کی کمی اور کبھی مواقع نہ ہونا ہر سال یونیورسٹیز سے فارغ ہونے والے 31 فیصد یعنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کو بیروزگاررکھتا ہے۔ باقی یا تو کچی پکی ملازمتیں کرتے ہیں یا بہتر زندگی کی تلاش میں ملک چھوڑ جاتے ہیں۔ پاکستان بیورو آف امیگریشن کے مطابق 2023 میں آٹھ لاکھ 60 ہزارافراد بیرون ملک گئے۔ان میں ہنرمند نوجوانوں میں سے 5534 انجینئر، 18000 الیکٹریکل ایسوسی ایٹ انجینئر، 2600 زراعت کے ماہر، 1600 نرسزاور 21 ہزار سے زائد دیگر ہنرمند نوجوانوں نے پاکستان کو خیرباد کہا۔ ہنرمند افراد کے پاکستان چھوڑنے کا تناسب گزشتہ 14 برس میں دو فیصد ہوتا تھا، جو 2022 سے 2024 کے دوران بڑھ کر پانچ فیصد ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق بیروزگاری کے سوا، امن وامان کی صورتحال، ناکافی آمدن، مہنگائی، کرپشن وناانصافی اور بیڈگورننس بھی ایسے مسائل ہیں جو پڑھے لکھے یا ان پڑھ، ہر دو قسم کے پاکستانیوں کو بیرون ملک جانے پر مجبور کرتے ہیں۔ امریکی ادارے بلومبرگ کے مطابق حالیہ برسوں میں ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے ملک کے “ٹاپ ٹیلنٹ نے ریکارڈ تعداد میں ملک چھوڑا” ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پڑھے لکھے اور ہنرمند ہوں یا ان پڑھ اور بغیر ہنر کے پاکستانی، کیا سبھی یا بڑی تعداد ملک چھوڑنے کا پکا فیصلہ کر چکی ہے؟ دستیاب اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ صورتحال اس نوبت کو نہیں پہنچی ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ملک چھوڑنے کی وجہ بننے والے مسائل کو حل کر لیا جائےیا ان کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات شروع ہو جائیں تو پاکستانیوں کی بڑی تعداد ملک میں ٹھہرنا چاہتی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے متعلق ادارے گیلپ پاکستان کی جولائی 2024 میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق “حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہوں، اگر مواقع میسر ہوں تو ہر 10 میں سے سات پاکستانی چاہتے ہیں کہ وہ ملک میں ہی رہیں۔”

پاکستان ساختہ پہلا سیٹلائٹ مدار میں داخل ،زراعت میں معاون ہوگا

پاکستان کےقومی خلائی ادارے اسپارکو کی جانب سے تیارہ کردہ پہلا الیکٹرو آپٹیکل سیٹلائٹ مدار میں داخل ہوگیا،سیٹلائٹ ای اوون کو چین کے جی چھوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے خلا میں بھیجا گیا ۔ پاکستان کا یہ ای اوون سیٹلائٹ لانگ ٹرم مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اسے پوری طرح سے پاکستانی انجینئرز نے ڈیزائن اور تیار کیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ ہائی ریزولوشن کیمراسے منسلک ہے جو زمین کے ہر حصے کی واضع  تصاویر لے سکے گا۔ سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے لیے چین مدد کررہا ہے۔ تاہم  اس کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے سپارکو کا انحصار خود پر ہےاور اس طرح پاکستان نے خلا کی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ مختلف شعبوں میں انقلابی ثابت ہوگا۔ سب سے پہلے تو یہ زراعت کے شعبے کے لیے مدد گار ہوگا۔سیٹیلائٹ کی مدد سے کسانوں کو فصلوں کی موزونیت، پانی کی ضروریات، اور وسائل کے استعمال کے بارے میں تفصیلی ڈیٹا فراہم کیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ وسائل کا ضیاع بھی کم ہوگا۔ اس کے علاوہ  ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی یہ سیٹلائٹ ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے ذریعے گلیشیئرز کے پگھلنے، جنگلات کی کٹائی، اور دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھی جا سکے گی۔ سیٹلائٹ کی مدد سے قدرتی آفات کی پیش گوئی اور ان سے نمٹنے کے لیے بھی اہم اقدامات کیے جا سکیں گے۔ زلزلے، سیلاب یا لینڈ سلائیڈنگ جیسے قدرتی آفات کے دوران نقصان کا فوری اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن سیٹیلائٹ کی مدد سے امدادی کارروائیاں جلد اور مؤثر طریقے سے کی جا سکیں گی۔ اس کا ہائی ریزولوشن کیمرا زمین کی سطح پر ہونے والی ہر تبدیلی کو فوری طور پر معلوم کرنے میں مدد دے گا۔ ان معلومات کی بنیاد پر پاکستان اپنی ترقیاتی حکمت عملیوں کو بہتر بنا سکے گا اور عالمی سطح پر اپنی ماحولیاتی پالیسیوں کو مزید موثر بنا سکے گا۔ ایک اور اہم شعبہ جس میں ای او ون سیٹلائٹ اہم کردار ادا کرے گا وہ ہے شہری ترقی۔  اس سیٹلائٹ کی مدد سے پاکستان کے شہروں کی ترقی، زیر تعمیر انفراسٹرکچر اور شہری پھیلاؤ کی نگرانی کی جا سکے گی۔ اس سے شہری منصوبہ بندی میں مدد ملے گی اور پاکستان کی ترقی کے راہ ہموار ہوگی۔ اس کے علاوہ سیٹیلائٹ کے ذریعے قدرتی وسائل کی نگرانی میں بھی بہتری آئے گی۔معدنیات، تیل و گیس کے ذخائر، پانی کی کمی، اور دیگر قدرتی وسائل کی بہتر نگرانی پاکستان کو ان کے استحصال میں مزید مدد دے گی۔ سیٹلائٹ کا مکمل طور پر مقامی طور پر ڈیزائن اور تیار کیا جانا پاکستان کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک بڑا سنگ میل ہے۔ پاکستان کی خلا تحقیق کے میدان میں یہ ایک  تاریخی کامیابی ہے۔ سپارکو کے ماہرین جن میں زین بخاری اور عائشہ رابیہ شامل ہیں ، انہوں  نے اس پروجیکٹ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ” یہ سیٹلائٹ پاکستان کے لیے صرف ایک سنگ میل نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک طاقتور پیغام بھی ہے کہ پاکستان خلائی ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہو چکا ہے”۔ سپارکو کے جنرل مینیجر زین بخاری کے مطابق ” ای او ون سیٹیلائٹ کا کامیاب لانچ پاکستان کی خلا کے میدان میں مزید پیشرفت کی ضمانت ہے”۔ ان کا کہنا ہے کہ “اس سیٹلائٹ کے لانچ کے بعد پاکستان خلائی مشنوں اور سائنسی تحقیق میں مزید قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ یہ کامیابی نہ صرف پاکستان کے خلا کی ٹیکنالوجی میں انحصار کو ظاہر کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی حیثیت کو مزید مستحکم کرتی ہے”۔ یقینی طور پر ای او ون کی کامیاب لانچ پاکستان کے خلائی سفر میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہوگی۔ اس کے ذریعے نہ صرف پاکستان کی تکنیکی مہارت کا لوہا مانا جائے گا بلکہ اس سے نوجوانوں کے لیے بھی نئی راہیں کھلیں گی اور اس شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی توقع ہے۔ آج کا دن پاکستان کے لیے ایک تاریخی دن ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

کرپٹ پریکٹسز،اختیارات کاناجائزاستعمال:عمران خان کو 14، اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 برس قیدوجرمانہ کی سزا

190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیس میں عمران خان کو 14 برس اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو سات برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔جمعہ کو راولپنڈی کی اڈیالا جیل میں احتساب عدالت کے سنائے گئے فیصلے میں عمران خان کو 10 اور بشری بی بی کو پانچ لاکھ جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں دونوں کو باالترتیب چھ اور تین ماہ کی مزید سزا بھگتنا ہو گی۔ احغٹساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا کے سنائے گئے فیصلہ کے مطابق وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لے لے۔ ایک برس تک جاری رہنے والے ٹرائل کے بعد عدالت نے دسمبر کے مہینے میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ آج سے قبل فیصلہ سنانے کے لیے تین تاریخوں کا اعلان کیا گیا تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ جمعہ کو جس وقت فیصلہ سنایا گیا اس وقت عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ فیصلہ کا اعلان ہونے کے بعد عدالتی عملہ نے بشری بی بی کو تحویل میں لے لیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو کرپٹ پریکٹسز اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر سزا سنائی گئی ہے۔ فیصلہ سناتے وقت پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر، عمران خان کی بہنیں، ان کی قانونی ٹیم سمیت متعدد افراد عدالت میں موجود تھے۔ ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے؟ القادر ٹرسٹ کیس پاکستان کے سب سے سنسنی خیز اسکینڈلز میں سے ایک بن کر سامنے آیا ہے۔ الزام ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کے کچھ قریبی ساتھیوں نے 2019 میں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) سے پاکستانی حکومت کو منتقل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈ (تقریباً 50 ارب روپے) کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے غلط طریقے سے ایڈجسٹ کیا۔ یہ رقم ایک طاقتور پراپرٹی ٹائیکون سے ضبط کی گئی تھی اس کے علاوہ  برطانوی حکام کا کہنا تھا کہ یہ رقم پاکستان کو واپس کی جانی چاہیے تھی کیونکہ معاملہ ‘سول نوعیت کا تھا’ اور کسی مجرمانہ کارروائی کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ القادر ٹرسٹ کے قیام کے بعد یہ الزامات سامنے آئے کہ اس ٹرسٹ کو دراصل ایک پردے کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ این سی اے سے حاصل کی گئی غیر قانونی رقم کو قانونی طور پر چھپایا جا سکے۔ دسمبر 2023 میں نیشنل اکاؤنٹبلٹی بیورو (نیب) نے اس کیس کا ریفرنس دائر کیا اور عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف الزامات عائد کیے، ان پر الزام تھا کہ 3 دسمبر 2019 کو برطانوی ایجنسی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات کو چھپایا گیا اور رقم کو ریاستی خزانے میں منتقل کرنے کے بجائے ٹرسٹ میں ڈال دیا گیا۔ اس کیس میں پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں جیسے ذلفی بخاری، بابراعوان، بشریٰ بی بی اور ان کی قریبی دوست فرحت گوگی کے نام بھی سامنے آئے۔ ذلفی بخاری کے بارے میں یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کابینہ کے معاہدے کے کچھ ہی ماہ بعد 458 کنال اراضی حاصل کی ہے   جسے بعد میں ٹرسٹ کے نام منتقل کر دیا گیا جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔ اس اسکینڈل کے منظرنامے نے اس وقت ایک نیا موڑ لیا جب 9 مئی 2023 کو عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں نے ملک بھر میں شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں فوجی اور دیگر ریاستی عمارتوں کو آگ لگا دی گئی۔ تاہم عمران خان کو چند دنوں بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ضمانت مل گئی اور سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ یہ کیس سیاسی کشمکش میں مزید شدت اختیار کرتا گیا جب متعدد اہم گواہوں نے بیان دیا۔  ان گواہوں میں سابق وزراء پرویز خٹک، زبیدہ جلال، سابق پرنسپل سیکریٹری اعزام خان اور القادر یونیورسٹی کے چیف فنانشل آفیسر شامل تھےجنہوں نے اس اسکینڈل کی گہرائیوں سے پردہ اٹھایا۔ چند مہینوں میں یہ کیس اور پیچیدہ ہوگیا  جب نیب نے چھ ملزمان کو مفرور قرار دے دیا  جن میں ذلفی بخاری، فرحت گوگی، مرزا شہزاد اکبر اور زیااللہ مصطفیٰ نسیم شامل ہیں۔ ان کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں  جس کے بعد ان کی گرفتاری کے لیے تلاش شروع ہو گئی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران متعدد ججوں کی تبدیلی ہوئی تھی  جن میں جج محمد بشیر، جج ناصر جاوید رانا، جج محمد علی وڑائچ اور پھر جج رانا شامل تھے  اور ہر جج نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے 16 گواہوں کی فہرست پیش کی تھی لیکن ان کی گواہی کو طلب کرنے کی درخواست مسترد کر دی گئی جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔

مسئلہ حل،انٹرنیٹ میں سست روی ختم،پی ٹی سی ایل نے دعویٰ کردیا

حکومتی اداروں کی طرف سے دعویٰ سامنے آیا ہے کہ انٹرنیٹ کی سپیڈ بہتر ہوگئی ہے،خرابی کو ٹھیک کرکے سست روی کو ختم کردیا گیا،کیا سب اچھا ہے؟ پی ٹی سی ایل(پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن) کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اے اے ای-1 سب میرین کیبل کی خرابی سے پیدا ہونے والی انٹرنیٹ سست رفتاری کو حل کردیا گیا ہے۔ ترجمان پی ٹی سی ایل کا کہنا تھا کہ اور براؤزنگ ہموار ہے، پی ٹی سی ایل نے اضافی بینڈوڈتھ شامل کی تاکہ مسئلے کے دوران خلل کم سے کم ہو۔ پی ٹی سی ایل کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ میٹا سروسز(واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام) مکمل طور پر فعال ہیں اور ان کی سروسز بھی مکمل طور پر بحال ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور پی ٹی سی ایل کی ٹیموں نے مکمل کنیکٹیویٹی کی بحالی کے لیے انتھک محنت کی ہے، پی ٹی سی ایل اپنے صارفین کے صبر اور تعاون کے لیے شکریہ ادا کرتا ہے۔   View this post on Instagram   A post shared by PTCL Official (@ptclofficial) واضح رہے کہ گزشتہ سال 2024 میں فروری میں عام انتخابات سے قبل ہی ملک بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے سسٹ انٹرنیٹ کی شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں۔ 3 جنوری کو پی ٹی سی ایل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو جوڑنے والی اے اے ای ون انٹرنیٹ کیبل میں خرابی کی وجہ سے ملک میں نیٹ ورک کی رفتار سست ہونے کے بعد صارفین کو درپیش مسائل کو دور کرنے کے لیے ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ اس کے ایک روز بعد، اس کے ایک روز بعد وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے کہا تھا کہ بینڈوتھ کی کمی کا تقریبا 80 فیصد کام پورا کرلیا گیا کیوں کہ کیونکہ ٹریفک کو دو دیگر کیبلز پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ 9 پی ٹی سی ایل کے ترجمان عامر پاشا کا کہنا تھا کہ سست روی سے نمٹنے کے لیے پی ٹی سی ایل نے اضافی بینڈوتھ کا انتظام کیا ہے جس سے کسی حد تک انٹرنیٹ کی سست روی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار عالمی سطح پر بدترین ہے۔ شہری علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی سپیڈ اکثر صارفین کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ پاکستان انٹرنیٹ کی سست رفتار کے حوالے سے دنیا کے 153ویں نمبر پر ہےجو نہ صرف کاروبار اور تعلیم کو متاثر کرتا ہےبلکہ قومی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے۔  حکومت سٹارلنک کے ذریعے انٹر نیٹ کو منسلک کرنا چاہ رہی ہے اوراس حوالے سے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں،مگر پاکستان میں متعارف ہونے کے لیے کئی عملی چیلنجز ہیں سب سے پہلے اس کے لئے پاکستان میں انٹرنیٹ کے روایتی انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ سیٹلائٹ کے نیٹ ورک کو سپورٹ کیا جا سکے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کے بحران کے حل کے لئے سٹارلنک ایک نیا امکان ضرور بن سکتا ہےلیکن اس کا حقیقت بننا اور اس کا پاکستانی عوام پر اثر اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت اور سٹارلنک کے درمیان کیا معاہدہ طے پاتا ہے۔ 

گوشوارے جمع نہ کروانے پر سینیٹ ،صوبائی اسمبلی ارکان کی رکنیت معطل

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گوشوارے جمع نہ کرانے پر 139 اراکین سینیٹ و صوبائی اسمبلی کی رکنیت معطل کردی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان  نے  سینٹ کے 2 جب کہ قومی اسمبلی کے 16 ارکان کی رکنیت معطل کر دی ہے۔  معطل اراکین میں میاں محمد اظہر، طارق بشیر چیمہ، اختر  مینگل، میاں اظہر، محبوب سلطان ، علی قاسم گیلانی ، طاہر اقبال اور فرخ الطاف شامل ہیں۔ اسی طرح ای سی پی نے پنجاب اسمبلی کے 68 اراکین کی رکنیت معطل کی ہے جن میں صاحبزادہ  غزین عباسی، فرحت عباس، اور جاوید کوثر شامل ہیں۔  پنجاب اسمبلی کے کُل اراکین کی تعداد  371 ہے جن میں سے 68 کی رکنیت  معطل کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سندھ اسمبلی کے 168 میں سے 15 اراکین کی رکنیت معطل کی  گئی ہے، جن میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن بھی شامل ہیں۔ اسی طرح خیبر پختونخوا اسمبلی کے 33 جب کہ بلوچستان اسمبلی کے5 اراکین کی رکنیت معطل کی گئی ہے۔ رکنیت مالی سال 2023۔2024 کے سالانہ گواشوارے جمع نہ کرانے پر معطل کی گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ارکان سینیٹ و صوبائی اسمبلی رکنیت بحالی تک قانون سازی اور اجلاسوں میں شرکت نہیں کرسکیں گے۔ الیکشن کمیشن کے  مطابق گوشوارے جمع کرانے تک اراکینِ اسمبلی اور سینیٹرزکسی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اگر کسی رکن نے گوشواروں میں غلط معلومات فراہم کیں تو کارروائی ہوگی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکرز کو معطل اراکین سے متعلق آگاہ کردیا ہے۔

بجلی سستی کرنے کے حکومتی دعوے مگر پاکستانیوں کے بجلی کے بل کم کیوں نہیں ہو رہے؟

پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن بنگلادیش جیسی صورتحال یہاں پیدا ہونا ممکن نہیں

حکومت کے بار بار اعلانات اور وعدوں کے باوجود پاکستان میں بجلی سستی نہیں ہو رہی جب کہ ملک کے دیہی علاقوں میں 20 بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ گزشتہ گرمیوں میں مہنگے بجلی بلوں کی وجہ سے ہونے والی خودکشیاں اور حالیہ دنوں میں بجلی نہ ہونے پر طویل احتجاج ابھی تک ذہنوں میں تازہ ہیں۔ سردیوں کے موسم میں بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے اس کی وجہ سے بجلی کا ماہانہ بل قدرے کم رہتا اور بلند آہنگ احتجاج کی وجہ نہیں بنتا۔ البتہ پاکستان کے بالائی علاقوں کے مکینوں کو شکوہ ہے کہ انہیں روزانہ 20 بیس گھنٹے بجلی میسر نہیں رہتی۔ پاکستان میں بجلی کی موجودہ قیمت وزارت توانائی کے ڈیٹا کے مطابق جنوری 2025 میں بجلی کی متوقع فی یونٹ قیمت 32 سے 64 روپے ہے۔ سب سے کم 32 روپے صفر سے 100 یونٹ اور زیادہ 64.06 روپے 700 سے زائد یونٹ خرچ کرنے والوں کے لیے ہے۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت 50.17 روپے جب کہ ہر یونٹ پر تقریبا 14 روپے کا ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ بجلی کے بلوں پر نو مختلف اقسام کے ٹیکس اور چارجز عائد کیے جاتے ہیں۔ مہنگی بجلی پر ملک بھر میں احتجاج، غم وغصہ کے اظہار کا سلسلہ خودکشیوں اور قتل جیسے افسوسناک واقعات تک جا پہنچا تھا۔ اسی دوران جماعت اسلامی نے معاملے پر احتجاج کیا جس کا دائرہ بڑھا تو اسلام آباد، راولپنڈی میں 14 روزہ دھرنا دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو کی جانے والی کیپیسیٹی پیمنٹس پاکستانیوں کو سستی بجلی ملنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جو بجلی بن ہی نہیں رہی اس کے لیے بھی اربوں روپے چند اداروں کو ادا کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ متعدد آئی پی پیز حکومت یا فوج کی ملکیت ہیں، ان سے کیے گئے معاہدوں کو فورا ختم کر کے بجلی سستی کی جانی چاہیے۔ حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے جس کے بعد وفاقی وزرا نے باقاعدہ ٹائم لائن کا اعلان کرتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ بجلی سستی کی جائے گی۔ اس معاملے کو اب کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ حکومت نے بیچ میں چند آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا تو بتایا کہ اس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کی بڑی بچت ہو گی۔ ان اقدامات کے باوجود مہنگی بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آ سکی ہے۔ وفاقی وزیربرائے توانائی اویس خان لغاری نے ‘خؤاہش’ ظاہر کرتے ہوئے دعوی کر رکھا ہے کہ چند ہفتوں میں ‘خطے کی سستی ترین بجلی’ مہیا کریں گے۔ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بڑھتی قیمتیں عام صارف کو متاثر ہی نہیں کر رہیں بلکہ ملکی ترقی کا پہیہ بھی روکے ہوئے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برس میں بجلی کی قیمت میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صرف جولائی 2023 سے اگست 2024 کے درمیان بجلی کی قیمتوں میں 14 مرتبہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں بجلی کا سستا نہ ہونا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس میں مختلف عوامل کارفرما ہیں۔ پاکستان میں کل 45 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے  جبکہ  ہماری ضرورت صرف 30 ہزار میگاواٹ ہے ۔ حیرت انگیز طور پہ پاکستان صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کر سکتا ہے  کیوں کہ اس سے زیادہ ہمارا ٹرانسمیشن نظام بجلی ترسیل نہیں کرتا۔ میں بننے والی کل بجلی کا 22.8فیصد مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہو جاتا تھا۔ حیران کن طورپر پہ 40 سال بعد بھی ہمارا بجلی کا نظام درست نہ ہو سکا اور آج بھی 16فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔انیس سو چوراسی میں  گو کہ پاکستانی صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتے ہیں لیکن قیمت وہ 45 ہزار میگاواٹ کی ادا کرتے ہیں۔  اس کی وجوہات میں  سب سے پہلے حکومتوں کی ناکام پالیسیاں ہیں۔ 1994 میں پہلی مرتبہ حکومت کی جانب سے نجی شعبے کو بجلی بنانے اور حکومت کو فروحت کرنے کے لیے آمادہ کیا گیا جسے انڈیپنڈنٹ  پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا نام دیا گیا۔ آئی پی پیز اور حکومت کے مابین معاہدے میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ چاہے آئی پی پیز کی بنائی ہوئی  بجلی استعمال ہو یا نہ ہو، حکومت مکمل قیمت ادا کرے گی۔ اس وقت ملک میں 90 نجی بجلی گھر کام کر رہے ہیں جو 24،958 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں،جبکہ ”11 سے 14ہزار ”میگاواٹ بجلی آبی ذرائع سے بنتی ہے۔ تین ہزار میگاواٹ بجلی ایٹمی بجلی گھروں اور اتنی ہی شمسی توانائی کے بجلی گھروں میں بنتی ہے۔   پاکستانی یہ بجلی استعمال نہیں کرتے مگر وہ کیپسٹی رقوم کے ذریعے اس بجلی کی ادائیگی ضرور کرتے ہیں۔ فی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کی قیمت 48 روپے میں سے 24 روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز کو جاتی ہے۔ حیران کن طور پر کچھ نجی بجلی گھر ایک گھنٹے جتنی بھی بجلی نہیں بناتے لیکن وہ کپیسٹی رقم کے طور پہ حکومت سے اربوں روپے حاصل کرتے ہیں۔ بجلی کے معاملہ پر ہونے والے احتجاج کے بعد جب حکومت نے بجلی سستی کرنے پر اتفاق کیا تو فریقین کے درمیان باقاعدہ معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدہ کو طے کرنے والے افراد میں ایک جماعت اسلامی کے نائب امیر سید فراست علی شاہ بھی تھے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک عرصے سے ملکی حالات خراب ہیں جس کی وجہ حکومتی اداروں کا ’ڈنگ ٹپاؤ‘ پالیسی اپنانا ہے۔ مختصر مدتی پالیسی کو اپنانے سے مسائل کا مستقل حل نہیں نکلتا اور پھر کسی میں دو روپے کم کردیے تو کسی میں تین روپے بڑھا دیے جیسے ریلیف دیے جاتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کےگزشتہ  اسلام آباد دھرنے میں حکومت نے مذاکرات کرکے کہ معاہدہ طے کیا تھا کہ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کو ختم کرکے عوام کو ریلیف دیاجائے گا۔ اس بات کو تقریباً چھ ماہ گزرچکے ہیں مگر ابھی تک بجلی سستی نہیں ہوئی۔ اسی معاہدہ کے تحت حکومت