نائیجیریا میں پولیس کے بھوک سے تڑپتے افراد کو مارنے کا دعویٰ جھوٹ نکلا

نائیجیریا میں خیرات کی تقسیم کے دوران ہونے والے مہلک حادثات کے بعد ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں پولیس کی جانب سے ‘بھوک سے تڑپتے’ افراد کو مارنے کا دعویٰ کیا گیا،لیکن یہ ویڈیو دراصل آئیوری کوسٹ کے شہر آبوجا کی ہے۔ دسمبر 2024 میں نائیجیریا میں تین مختلف حادثات میں 60 سے زائد افراد کی موت ہو گئی،یہ تمام واقعات سال کے آخر میں ہونے والی خیرات کی تقسیم سے متعلق تھے جہاں لوگوں کو کھانا فراہم کیا جا رہا تھا۔ان تمام حادثات کے بعد ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ان بھوک سے تڑپتے نائیجیریوں کو پولیس ٹرک سے پیسٹریاں نکالنے پر مار رہی ہے۔تاہم یہ ویڈیو نائیجیریا کی نہیں بلکہ آئیوری کوسٹ کے شہر آبوجا میں بنائی گئی تھی۔ اس پوسٹ کو 116,000 سے زیادہ مرتبہ لائیک کیا گیا ہے اور اس میں ایک 16 سیکنڈ کی ویڈیو شامل ہے جس میں ایک شخص وردی میں ملبوس ہے اور وہ اپنے بیلٹ سے لوگوں کو مار رہا ہے جب وہ پولیس ٹرک کے پچھلے حصے سے کھانے کی اشیاء اٹھا رہے ہیں۔ نائیجیریا میں آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں اور 34.6 فیصد کی بلند ترین مہنگائی کی وجہ سے لاکھوں افراد کو خوراک حاصل کرنے کے لیے لمبی قطاروں میں گھنٹوں گزارنے پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں دسمبر 2024 میں کئی مہلک ہجوم کے حادثات پیش آئے جن میں کل 67 افراد کی جان چلی گئی۔ اس کے علاوہ 18 دسمبر 2024 کو لوگوں کا ایک اور ہجوم صبح پانچ بجے سے خوراک اور نقد رقم حاصل کرنے کے لیے ایک اسکول کے باہر کھڑا تھا،اچانک سے ایک بھیانک بھگدڑ مچی جس میں 35 بچوں کی موت اور 6 شدید زخمی ہو گئے۔ اسکے علاوہ21 دسمبر کو ایک اور جگہ پر 22 افراد ہجوم کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ اسی دن ابوجا میں ایک چرچ کے باہر بھی بھگدڑ کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ویڈیو کو جھوٹ ثابت کرنے کی سب سے پہلی علامت اس میں بولی جانےوالی زبان ہے جیسا کہ ویڈیو میں دیکھاجاسکتا ہے کہ ایک شخص فرانسیسی میں کہہ رہا ہے”پاپولیشن ڈا’جامیے،پاپولیشن ڈا’جامیے،پاپولیشن ڈا’جامیے،پاپولیشن ڈا’جامیے… لی میچ ہے شو!” اس کا مطلب ہے “عاجامیے کے لوگ،عاجامیے کے لوگ،عاجامیے کے لوگ،عاجامیے کے لوگ… میچ شدت اختیار کر گیا ہے۔” عاجامیے آئیوری کوسٹ کے شہر آبوجا کا ایک مشہور علاقہ ہے۔اس ویڈیو میں نظر آنے والی پولیس ٹرک پر بھی فرانسیسی زبان میں تحریر ہے “ڈون ڈی لا مئیر ڈا’جامیے”جس کا مطلب ہے “عاجامیے کی میونسپلٹی کی طرف سے تحفہ”۔ ایک آئیوری کوسٹ کے ٹیم کے رکن نے تصدیق کی کہ ویڈیو آبوجا کی ایک مارکیٹ کی ہے۔اس نے ویڈیو کے شروع میں گرے ہوئے اسٹالز،درمیان میں نظر آنے والے سفید پیکٹوں،اور پولیس کے یونیفارم کو دیکھا اور یہ بھی بتایا کہ یہ یونیفارم مقامی پولیس کے ہیں۔ ویڈیو میں دو قسم کے پولیس اہلکار دکھائی دیتے ہیں جن میں ایک شخص لوگوں کو مار رہا ہے وہ نیلے رنگ کی قمیض اور سیاہ پتلون پہنے ہوئے ہےجبکہ دوسرے پولیس افسران سیاہ لباس میں ہیں۔

برطانیہ کو یورپی یونین کی کسٹمز یونین میں دوبارہ شامل ہونا چاہیے،سر ایڈی ڈیوی

لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما سر ایڈ ڈیوی نے اپنی ایک اہم تقریر میں برطانیہ کو یورپی یونین کے کسٹم یونین میں دوبارہ شامل ہونے تجویز پیش کی ہے۔ سر ایڈ ڈیوی کا کہنا تھا کہ “یہ اقدام نہ صرف برطانیہ کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے، بلکہ عالمی سطح پر برطانیہ کو طاقتور پوزیشن میں رکھنے کے لیے بھی اہم ہے، خاص طور پر اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ” یہ پالیسی معیشت کی تیز رفتار ترقی کی جانب ایک عملی قدم ہے اور لبرل ڈیموکریٹس کے طویل مدتی مقصد یعنی یورپی یونین میں دوبارہ شمولیت کی طرف بھی ایک اہم پیش رفت ہو گی”۔ سر ایڈ نے خبردار کیا کہ” ٹرمپ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں لیکن برطانیہ کے مفاد میں ان سے مضبوط تعلقات استوار کرنا ضروری ہے”۔  اس کے علاوہ انہوں نے ٹرمپ کی امریکی صدارت کو دنیا کے امن اور خوشحالی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ٹرمپ نے یوکرین پر روس کے حملے کو ‘جینیئس’ قرار دیا تھا اور تجارتی جنگوں کو خوش آئند سمجھا تھا”۔ اس کے برعکس لبرل ڈیموکریٹس نے برطانیہ کی موجودہ حکومت اور دیگر سیاسی رہنماؤں پر شدید تنقید کی،انہوں نے وزیر اعظم کیمی بیڈنچ سے لے کر ریزرف یو کے کے رہنما نائجل فریج تک کو نشانہ بنایا،جنہوں نے ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں بے جا لچک دکھانے کا الزام عائد کیا۔ سر ایڈ نے کہا کہ” اگر برطانیہ اس طرح ٹرمپ کے سامنے کمزور اور لچکدار نظر آیا تو ٹرمپ برطانیہ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے گا اور اس کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لے گا۔ سر ایڈ ڈیوی نے برطانیہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی دیگر تجارتی شراکت داریوں،خاص طور پر یورپ کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرے تاکہ ٹرمپ کو یہ واضح کیا جا سکے کہ برطانیہ بلیڈنگ یا دھونس کے تحت اپنے فیصلے نہیں کرے گا۔   ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرے تو وہ اسے صرف مالی اور فوجی مدد کے بدلے یوکرین کے مسئلے پر تعاون کرنے پر مجبور کرے۔ اس خطاب میں سر ایڈ نے کہا کہ برطانیہ کو یورپی یونین کے کسٹم یونین سے دوبارہ جڑنا چاہیے تا کہ تجارتی رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکے اور ملک کی معیشت کو تقویت دی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدام سے برطانیہ کو امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ بہتر پوزیشن میں بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔ سر ایڈ ڈیوی نے اصرار کیا کہ برطانیہ کو 2030 تک یورپی یونین کے کسٹم یونین میں شامل ہونے کے لیے مذاکرات کرنا شروع کر دینے چاہئیں۔ یہ تمام بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے جب برطانیہ کی معیشت میں حالیہ مہینوں میں کمی کا سامنا رہا ہے۔ نومبر کے مہینے میں معیشت میں معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا تھا مگر یہ اضافہ زیادہ تر ماہرین اقتصادیات کی توقعات سے کم رہا۔ اس سب کے باوجود سر ایڈ نے کہا کہ کسٹم یونین میں دوبارہ شامل ہونے سے برطانیہ کی معیشت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی اور عالمی سطح پر اس کی پوزیشن مضبوط ہو گی۔ دوسری جانب حکومتی حلقوں سے اس پر شدید ردعمل آیا، برطانوی وزیر خارجہ پریتی پٹیل نے لبرل ڈیموکریٹس کے اس اقدام کو ایک ‘جمہوری فیصلے’ کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء مکمل ہو چکا ہے اور اب وقت ہے کہ حکومت برطانیہ کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی سطح پر کامیاب تجارت کی راہ ہموار کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بیانات صرف برطانوی عوام کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریفارم پارٹی کے نائب رہنما رچرڈ ٹائس نے بھی سر ایڈ کی تجویز پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ٹرمپ کبھی بھی یورپی یونین کے ساتھ تجارت پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں جس سے برطانیہ کو نقصان پہنچے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ”یورپی یونین کی معیشت خود مشکلات کا شکار ہے اور برطانیہ کا اس سے دوبارہ تعلق قائم کرنا ایک بے وقوفانہ فیصلہ ہو گا”۔ اس خطاب میں سر ایڈ نے ایک واضح پیغام دیا کہ برطانیہ کو اپنی تجارتی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی اپنانا ہو گی اور ان کی تجویز ہے کہ یورپی یونین کے کسٹم یونین میں دوبارہ شمولیت اس کا بہترین طریقہ ہے تاکہ برطانیہ عالمی سیاست میں اپنی جگہ مضبوط کر سکے،خاص طور پر ٹرمپ کے جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے۔

سفید فام انتہا پسند کو پناہ گزین پر حملے کے الزام میں عمر قید کی سزا

انگلینڈ کے شہر ویسٹ مڈلینڈز میں ایک 32 سالہ نوجوان ‘کالرم پارسلو’ کو پناہ گزینوں کے خلاف نفرت انگیزی کے باعث عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ کالرم پارسلو نے چھرا گھونپ کر 22 سالہ پناہ گزین ‘نہوم ہیگوس’ کو زخمی کردیا تھا،اس انتہا پسند نوجوان نے پناہ گزین کو چاقو کے وار سے اس وقت زخمی کیا جب وہ  ہوٹل میں قیام پزیر تھا۔ وولویچ کراؤن کورٹ میں سماعت کے دوران جج جسٹس ڈوو نے پارسلو کے حملے کو ‘دہشت گردی کا حملہ’ قرار دیا اور کہا کہ”یہ حملہ اس کی انتہاپسند، نیو نازی ذہنیت کی بنیاد پر ہوا تھا”۔ جج نے پارسلو کی سوچ کو مسخ شدہ، پر تشدد اور نسل پرستانہ قرار دیتے ہوئے اسے مزید کہا کہ “اس کا حملہ مکمل طور پر اجنبی اور بلا اشتعال تھاجس کے نتیجے میں ہیگوس شدید زخمی ہوگیا”۔ دوسری جانب پارسلو نے اپنے مقدمے کے دوران اعتراف کیا کہ وہ ہوٹل میں اس لیے آیا تھا تاکہ ‘چینل مائیگرنٹس’ میں سے کسی کو نشانہ بنائے کیونکہ وہ غصے اور مایوسی کا شکار تھا۔ اس کے علاوہ پارسلو نے دیگر غیر متعلقہ جنسی جرم اور لوگوں کو ایلیکٹرانک کمیونیکیشن کے ذریعے اذیت دینے کے الزامات میں بھی مجرمانہ فیصلے کا سامنا کیا۔ عدالت نے پارسلو کو قتل کی کوشش کے جرم میں کم از کم 22 سال اور 8 ماہ کی سزا سنائی،جج نے یہ بھی کہا کہ “اس حملے کا مقصد واضح طور پر پناہ گزینوں کے خلاف نفرت پھیلانا تھا اور پارسلو کی اس کارروائی نے نہ صرف ہیگوس کی زندگی کو خطرے میں ڈالا بلکہ معاشرتی امن کو بھی چیلنج کیا ہے”۔ جج جسٹس ڈوو نےفیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ”عمر قید کی سزا ہی اس کی سب سے مناسب سزا ہے کالرم پارسلو عوام کے لیے ایک شدید خطرہ ہے کیونکہ اس کے تشویشناک جرائم مزید تشدد کی طرف بڑھ سکتے ہیں، پارسلو نے ہیگوس پر ایک خاص چھری سے وار کیا تھا جبکہ اس چھری کی دھار خاصی سخت اور تیز تھی وہ چھری پارسلو نے انٹرنیٹ پر 770 پاؤنڈ میں خریدی تھی”۔ پراسیکیوشن کی طرف سے عدالت میں پیش کردہ ایک بیان میں ہیگوس نے کہا کہ وہ اب بھی اپنے ہاتھ میں شدید درد محسوس کرتا ہے اور نیند میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔اس نے مزید کہا کہ “میں اس واقعے سے پہلے خوشحال زندگی گزار رہا تھا مگر اب ایسا نہیں رہا، میں تنہا ہوں اور سڑکوں پر خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتا”۔ کاؤنٹی پروسیکیوشن سروس کی انسداد دہشت گردی کے شعبے کی سربراہ بیثان ڈیوڈ نے کہاکہ “یہ حملہ عوام کو دہشت زدہ کرنے کے لیے کیا گیا تھا یعنی پناہ گزینوں اور ان ہوٹلوں کے رہائشیوں کو جو پناہ گزینوں کو پناہ فراہم کرتے ہیں،کالرم پارسلو کی نیو نازی نظریات نے اسے بے رحمی سے ایک شخص پر حملہ کرنے پر اکسا لیا تھا،محض اس کی رنگت اور اصل وطن کی بنیاد پر یہ ایک دہشت گردی کا عمل تھا”۔ مقدمے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ پارسلو، جس کے جسم پر ایڈولف ہٹلر کے دستخط کا ٹاٹو تھا، اپنی گرفتاری سے قبل ‘مینی فیسٹو’ پوسٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اپنے ‘فراض انگلینڈ’ کو ادا کیا ہے اور اپنے متاثرہ کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔تاہم وہ یہ پیغام بھیجنے میں ناکام ہو گیا تھا۔ پارسلو کے فلیٹ کی تلاشی کے دوران پولیس کو ایک اور چھری،ایک دھاتی بیس بال بیٹ،ایک لال کا بینڈ،سوستیکا والے نازی دور کا میڈل اور ‘مائن کامپف’ کی نقول ملی تھیں۔ پارسلو نے یہ حملہ اس وقت کیا جب وہ توہین آمیز مواصلات اور نازیبہ تصاویر کے الزامات میں تحقیقات کے تحت تھا۔ اس سب کے علاوہ جولائی اور اگست 2023 کے دوران پارسلو نے سوشل میڈیا پر ایک معروف ٹی وی صحافی کو نفرت انگیز اور نسلی نوعیت کے پیغامات بھیجے جن میں ایک جنسی ویڈیو بھی شامل تھی ،حتٰہ کہ صحافی کی بیٹی کو بھی ان پیغامات میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ صحافی خاتون نے اپنے متاثرہ بیان میں کہا کہ اس نے اپنی سیکیورٹی کا احساس کھو دیا ہے اور اکثر نیند سے جاگ کر یہ چیک کرتی ہوں کہ تمام کھڑکیاں اور دروازے بند ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ”اس واقعہ نے مجھے ڈرا دیا ہے کیونکہ اس نے مجھے یہ احساس دلایا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صرف کی بورڈ کے جنگجو نہیں ہیں بلکہ وہ لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے  ہر حد تک جا سکتے ہیں۔” یاد رہے کہ پارسلو کی پچھلی سزاوں میں 2018 میں سات خواتین کو خوف میں مبتلا کرنے اور تین خواتین کو غیر مہذب پیغامات بھیجنے کے الزامات میں 30 ماہ کی قید بھی شامل ہے۔ اس نے فیس بک پر جعلی ناموں کے ساتھ 13 مختلف خواتین کو انتہائی گرافک اور تشویشناک پیغامات بھیجے تھے۔

برطانیہ کی حکومت نے ای ٹی اے فیس میں اضافے کی تجویز دےدی

برطانیہ کے حال ہی میں متعارف کرائے گئے الیکٹرانک ٹریول اتھارٹی کی لاگت میں بدھ (16 جنوری) کو ہوم آفس کی تجویز کے بعد 60 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ سفر سے پہلے کا آن لائن چیک، جو پہلی بار نومبر 2023 میں متعارف کرایا گیا تھا، مرحلہ وار شروع کیا جا رہا ہے اور فی الحال 50 سے زائد ممالک سے آنے والے لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔ 2 اپریل 2025 سے، یہ  یورپی ممالک کے مسافروں تک بڑھ جائے گی جنہیں ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجوزہ فیس تبدیلی سے ETA درخواست کی لاگت £10 سے £16 تک بڑھ جائے گی۔ تاہم، ہوا بازی کی صنعت کے تاثرات کے بعد، حکومت نے ایئر سائیڈ ٹرانزٹ مسافروں کے لیے ایک عارضی  طور پر چھوٹ دینے پر بھی اتفاق کیا ہے، جنہیں، سفر سے پہلے ETA  درخواست دینا پڑتی تھی۔ ہوم آفس نے کہا کہ اس استثنیٰ کو “نظرثانی کے تحت رکھا جائے گا”۔ فیس میں مجوزہ اضافے نے کاروباری سفری صنعت میں تنقید کو جنم دیا ہے۔ ایجنسی کنسورشیم دی ایڈوانٹیج ٹریول پارٹنرشپ کی سی ای او جولیا لو بیو سائیڈ نے اس اقدام کو “مایوس کن” قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا  ہے کہ اس سے اندرون ملک اور باہر جانے والے سفر میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ “ایک فروغ پاتے ہوئے  ان باؤنڈ سیکٹر کے بغیر، آپ کے پاس ترقی پذیر آؤٹ باؤنڈ انڈسٹری نہیں ہو سکتی۔ حکومت کو ترقی کی حوصلہ افزائی اور فائدہ اٹھانے کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے”۔ اسی طرح  بزنس ٹریول ایسوسی ایشن کے سی ای او کلائیو ریٹن نے کہا کہ “زیادہ فیس آنے والے کاروباری مسافروں کو روک دے گی”۔ انہوں نے کہا، “حکومت کا وقت زیادہ خراب نہیں ہو سکتا کیونکہ اس پالیسی سے اہم اندرون ملک سفر کی حوصلہ شکنی کا خطرہ ہے، خاص طور پر ان لوگوں کی طرف سے جو برطانیہ کے کاروبار کے ساتھ بامعنی تعاون حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔” کلائیو ریٹن نے یورپی یونین  کے آنے والے الیکٹرانک ٹریول انفارمیشن اینڈ اتھارٹی سسٹم (ETIAS) کی طرف بھی اشارہ کیا، جس کی لاگت €7 متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہم موثر طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم کاروبار کے لیے بند ہیں اور مسافروں  کو یورپ یا کسی اور جگہ جانے کا کہہ رہے ہیں” اسی دوران، ایئر لائنز نے ٹرانزٹ مسافروں کو ای ٹی اے کی ضروریات سے عارضی طور پر مستثنیٰ کرنے کے فیصلے کی تعریف کی ہے۔ انڈسٹری باڈی ایئرلائنز یوکے کے سی ای او ٹم ایلڈرسلیڈ نے کہا کہ “یہ عملی قدم اصل خطرے سے نمٹتا ہے کہ برطانیہ یورپی مراکز سے کاروبار کھو دے گا جن کے لیے ٹرانزٹ ویزا کی ضرورت نہیں ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم درخواست کرتے ہیں کہ اس سہولت کو اس اہم کردار کے پیش نظر مستقل کر دیا جائے جو UK جانے والے مسافر اہم عالمی  راستوں کو قابل عمل بنانے میں ادا کرتے ہیں، خاص طور پر ترقی کی منڈیوں کے لیے”۔ برطانیہ کی سرحدوں کو ڈیجیٹائز کرنے کے اقدام سے سوائے برطانوی اور آئرش شہریوں کے ان تمام لوگوں کو آنے سے قبل ETA حاصل کرنا ضرورت ہوگی جنہیں فی الحال ویزے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ جن مسافروں کو ملک میں داخل ہونے کے لیے ویزا درکار ہوتا ہے انہیں اب بھی ویزا حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی لیکن اسے ETA کی ضرورت نہیں ہوگی۔ توقع ہے کہ ان تبدیلیوں سے سرحدی حفاظت میں اضافہ ہو گا لیکنبرطانیہ کی قانونی فرم کنگسلے نیپلے کے مطابق، وہ مزید لوگوں کو ویزے کی ضرورت پر مجبور کر سکتے ہیں۔ فرم کی ایک وکیل کیٹی نیوبری نے کہا۔”ہوم آفس کو توقع ہے کہ ETAs کے لیے ایک سال میں تقریباً 30 ملین درخواستیں آئیں گی۔ اگر ان میں سے صرف 1 فیصد کو مجرمانہ سزائیں ہیں تو اس سے ہوم آفس کے لیے سالانہ30 لاکھ اضافی ویزے کی درخواستیں ہوں گی (اگر وہ سب پر  لاگو ہوں گے)”۔ ایک بیان میں نیوبری نے مزید کہا کہ “اس اضافی کیس کے بوجھ سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کے ہوم آفس کے عملے کی صلاحیت کے بارے میں حقیقی خدشات ہیں اور ہم ہوم آفس کے فیصلوں سے قانونی کاروائی کی توقع بھی رکھتے ہیں کیونکہ فی الحال وزٹ ویزے سے انکار کے خلاف اپیل کا کوئی حق نہیں ہے۔ “

انٹرنیٹ پرپابندی؟کیا پاکستان یونہی کچھوے کی چال چلتا رہے گا؟

دنیا تیزترین انٹر نیٹ کی جانب بڑھ رہی ہے، تھری جی اور فورجی کا زمانہ پرانا ہوا ہے تو فائیو جی کا دور آرہا ہے مگرپاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے، جو انٹرنیٹ میسر ہے وہ بہت سست ہے۔ انٹرنیٹ کی سست روی پر حکومت تنقید کی زد میں ہے،سوشل میڈیا سے ایوانوں تک آواز اٹھائی جارہی ہے، کبھی فائر وال تو کبھی وی پی این کا بہانہ بنایا جاتا ہے، اب حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ حکومت نے انٹرنیٹ کی تیز ترین فراہمی والی کمپنی اسٹارلنک کو بھی رجسٹرڈ کرلیا ہے۔ جس کے بعد یہ توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ انٹرنیٹ کی سست روی اورسوشل میڈیا ایپس میں خلل دور ہوجائے گا، فی الحال انٹرنیٹ کی بندش سے صارفین اور فری لانسرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انٹرنیٹ کی سست روی کی ایک وجہ زیر سمندر سب میرین کیبل ایشیا افریقہ یورپ ون کی خرابی بتائی جارہی ہے اور اِسکی مرمت پر پی ٹی سی ایل ہاتھ کھڑے کرتا نظر آرہا ہے۔ پی ٹی سی ایل کا کہنا ہے کہ میرین کیبل کی مرمت کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا ہے۔یعنی انٹرنیٹ کتنی دیر تک سلو رہتا ہے اِس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔اب حکومت کی جانب سے وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی بندش پر صفائیاں دی جارہی ہیں ۔جیسا کہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ ہر ملک کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی سائبر سیکیورٹی پر توجہ دے ،کچھ مسائل کا سامنا ہے جو دو تین چار مہینے کے اندر حل ہو جائیں گے ایسا نہیں ہے کہ پانچ سال اسی طرح ہی چلتا رہے گا۔ اب ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن انٹرنیٹ کی رفتار بہتر نہیں ہوسکی ایسے میں صارفین یہ سوال تو اُٹھائیں گے کہ انٹرنیٹ کا مسئلہ موجودہ حکومت کے دور میں ٹھیک بھی ہوسکے گا یا نہیں۔ بہرحال سوال تو انٹرنیٹ وائی فائی پر بھی اُٹھ رہا ہےاور یہ سوال خود حکومت اُٹھا رہی ہے۔خبر کے مطابق حکومت نے وائی فائی نیٹ ورکس کو غیر محفوظ قراردیدیا۔ اس حوالے سے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے تمام اداروں کو وائرلیس نیٹ ورکس کے بارے میں سیکیورٹی تھریٹ سے متعلق ایڈوائزری جاری کردی۔ انٹرنیٹ سپیڈ پرکھنے والی عالمی تنظیم ‘اوکلا سپیڈ ٹیسٹ گلوبل انڈیکس’ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق حالیہ پابندیوں کے باعث پاکستان انٹرنیٹ کی رفتار کے لحاظ سے دنیا کے سست ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے، اس فہرست میں پاکستان موبائل انٹرنیٹ سپیڈ کے اعتبار سے 111 ممالک میں سے 100ویں نمبر پر ہے جبکہ براڈبینڈ سپیڈ کے لحاظ سے 158 ممالک میں سے 141ویں نمبر پر آگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سپیڈ کم ہونے کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے فائروال کی تنصیب ہے، فائروال ایک ایسا نیٹ ورک سکیورٹی سسٹم ہے جو نیٹ ورک پر آنے اور جانے والی ٹریفک کو قوانین کے مطابق بلاک کرتا ہے یا اجازت دیتا ہے۔  اس سسٹم کی تنصیب سے حکومت شہریوں کی نگرانی کر سکتی ہے۔ آئی ٹی کے ماہر عمار جعفری نے پاکستان میٹرز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ “انٹرنیٹ بہتے ہوئے پانی کی طرح ہے اور اگر آپ اس کے آگے جالی لگادیں گے تو وہ آہستہ ہو جائے گا۔  سوال یہ ہے کہ جالی کتنی پتلی یا موٹی ہے۔ اگر جالی میں سوراخ  بڑے ہوں گے تو اس میں سے تیزی سے پانی جائے گااور اگر سوراخ چھوٹے ہوں گے تو پانی آہستہ ہوجائے گا۔ اسی طرح ہمارے انٹرنیٹ میں بھی اب ایسی  ٹیکنالوجی متعارف کروائی جا رہی ہے جس سے زیادہ معلومات ہونے کی وجہ سے انٹرنیٹ آہستہ کام کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ ٹیکنالوجی ہماری اپنی نہیں ہے بلکہ بیرون ملک سے لی گئی ہے اس لیے ہمارے یہاں آہستہ ہے۔” انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتاری سے آن لائن کاروبار کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کے سدِباب کے لئے صارفین نے ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک (وی پی این) کا استعمال شروع کیا، لیکن حکومت کی جانب سے وی پی این کی بندش بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ موجودہ دورمیں انٹرنیٹ اورمصنوعی ذہانت (اے آئی) دنیا میں انقلاب برپا کر رہے ہیں، اس کے برعکس پاکستان میں صارفین کی انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہوتی جارہی ہے، صارفین کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ میسجنگ ایپ ‘واٹس ایپ’ کے ذریعے بھی عزیز و اقارب سے رابطے میں مشکلات درپیش ہیں۔ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے. پاکستان سوفٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سجاد سید کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کے باعث پاکستان کو یومیہ ایک ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ ایک گھنٹہ انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے 9 لاکھ 10 ہزار ڈالر کا نقصان ہو رہاہے۔ جبکہ یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سے عالمی کمپنیوں نے مختلف آپریشنز باہر منتقل کرنا شروع کردیے ہیں۔ جبکہ حکومت پر انٹرنیٹ کی ناقص اسپیڈ کی وجہ سے تنقید بھی ہورہی ہے ۔پی ٹی آئی کے رہنما شعیب شاہین کا میڈیا سے گفتگومیں کہنا تھا کہ انٹرنیٹ سلو کرنے سے ہماری یوتھ اور ہمارے کاروبار کا نقصان ہوا۔اِس کا جواب کون دے گا۔ انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتار نے تیزی سے ترقی کرتی فری لانسنگ انڈسٹری کو بھی مشکلات میں دھکیل دیا ہے،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 5 سے 6 لاکھ فری لانسرز اور  تقریباً 25 ہزار کمپنیاں اسی وجہ سے نقصان اٹھا رہی ہیں۔،آئی ٹی سیکٹر کے فروغ اوراس کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے حکومتی دعووں کے باوجود یہ انڈسٹری صرف 2.7 بلین ڈالر تک ہی پہنچ پائی ہے، دوسری جانب ہمسایہ ملک بھارت آئی ٹی ایکسپورٹ سے سالانہ 300 بلین ڈالرز سے زائد کی آمدنی حاصل کر رہا ہے۔ عمارجعفری کا کہنا تھا کہ “یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔  دنیا بھر میں اس طرح کی ٹیکنالوجیز آتی ہیں جس سے انٹرنیٹ پہ شائع ہونے

“بائیڈن کے دورہ لاس اینجلس نے فائر فائٹنگ آپریشنز کو متاثر نہیں کیا”، امریکی حکام نے جھوٹے دعوے مسترد کر دیے

امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے 6 جنوری 2025 کو لاس اینجلس کے دورے کے دوران یہ دعویٰ کیا گیا کہ ان کی آمد کی وجہ سے فائر فائٹنگ طیاروں کی پرواز میں رکاوٹ پیدا ہوئی، جس سے آگ بجھانے کے عمل میں خلل آیا۔ تاہم، حکام نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والے طیارے صدارتی ایئر اسپیس پابندیوں سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ یہ دعوے 8 جنوری 2025 کو الیکس جونز کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کیے گئے۔ جونز نے کہا کہ “بائیڈن انتظامیہ نے لاس اینجلس کی فضائی حدود کو بند کر کے فائر فائٹنگ آپریشنز کو روک دیا، جس کی وجہ سے تاریخی آگ مزید پھیل گئی۔” ان کے دعوے پر مبنی پوسٹ کو 73,000 سے زائد لائکس ملے اور یہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہو گئی۔ فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے ترجمان نے کہا کہ فائر فائٹنگ طیاروں کو صدارتی ایئر اسپیس پابندیوں کے دوران پرواز کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، بشرطیکہ وہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے پیشگی رابطہ کریں۔ مزید یہ کہ فلائٹ ڈیٹا سے یہ ظاہر ہوا کہ بائیڈن کے دورے کے دوران کسی فائر فائٹنگ طیارے کو روکا نہیں گیا۔ لاس اینجلس فائر چیف کرسٹن کراؤلی نے بتایا کہ 8 جنوری کی صبح 3:30 بجے تیز ہواؤں کی وجہ سے تمام فائر فائٹنگ آپریشنز عارضی طور پر روک دیے گئے تھے۔ یہ پروازیں دوپہر 3:00 بجے کے قریب دوبارہ شروع ہوئیں۔ صدر بائیڈن نے لاس اینجلس میں جاری آگ سے نمٹنے کے لیے وفاقی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا، جس میں 400 فائر فائٹرز اور 30 ہوائی جہاز شامل تھے۔ انہوں نے کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم کی درخواست پر 180 دنوں تک آگ بجھانے کے اخراجات کو وفاقی حکومت کے ذریعے برداشت کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ لاس اینجلس شہر میں اس وقت پانچ مختلف مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے، جن میں سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے Palisades اور Pasadena ہیں۔ تیز ہواؤں اور غیر مستحکم موسم کی وجہ سے آگ پر قابو پانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ لاس اینجلس شہر اور کاؤنٹی میں فائر فائٹنگ کے لیے مقامی، ریاستی اور بین الاقوامی ٹیمیں کام کر رہی ہیں، جن میں کینیڈا کے صوبے کیوبیک کی دو واٹر بمبار طیارے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک طیارہ ایک ڈرون کے حادثے کی وجہ سے ناکارہ ہو گیا۔ حکام نے واضح کیا ہے کہ صدر بائیڈن کے دورے کی وجہ سے فائر فائٹنگ آپریشنز میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ صدارتی پابندیاں ہنگامی پروازوں کو متاثر نہیں کرتیں۔ اس کے برعکس، تیز ہواؤں اور موسم کی خرابی نے امدادی کارروائیوں کو محدود کیا۔ یہ دعویٰ کہ صدر کی آمد نے آگ بجھانے کے عمل میں رکاوٹ ڈالی، حقیقت کے برعکس اور گمراہ کن ہے۔ اس سارے معاملے سے یہ ثابت ہوا کہ سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے الزامات جھوٹے اور حقائق کے منافی بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ایسے دعوے شیئر کرنے سے پہلے معتبر ذرائع سے ان کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔