“تین سالہ فلسطینی بچی کا گردن میں گولی لگنے سے بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں” برطانوی ڈاکٹر ڈیوڈ اینڈرسن

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ مسلسل 15 ماہ تک جاری رہی ہے، رواں ہفتے کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے ، مگر یہ معاہدہ ہزاروں جانیں لینے کے بعد ہوا ہے۔اسرائیل حماس کے درمیان جاری اس جنگ میں فلسطینیوں کو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرناپڑا ہے، معصوم بچوں اور عورتوں کی ایک کثیر تعداد جان کی بازی ہار گئی ہے۔ انسانی ہمدردی کی بہت سی تنظیموں اور ڈاکٹروں نے فلسطینی شہریوں کی مدد کےلیے اپنا بہت سا وقت وہاں گزارا، ان میں سے ایک ڈاکٹر ڈیوڈ اینڈرسن بھی تھے جو کہ برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے اور جنھوں نے 6 ماہ غزہ میں گزارے۔ غیر ملکی نیوزچینل بی بی سی نیوز سے غزہ میں گزرے وقت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے 55 سالہ ڈاکٹر ڈیوڈ اینڈرسن کا کہنا تھا کہ جو منظر میں نے وہاں دیکھے ان کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ تکلیف دہ لمحات کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے بامشکل ایک تین سالہ فلسطینی بچی کی جان بچائی، جس کی گردن میں گولی اس کی ماں کے جسم سے گزرنے کے بعد لگی تھی۔ اس کا بچنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا کیونکہ گولی اس کی ریڑھ کی ہڈی سے محض ملی میٹر کے فاصلے پر لگی تھی۔ برطانوی ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ گولی کو نکالنے کےلیے تین گھنٹے کی سرجری کی گئی۔ بچی کے بچ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ گولی اس کی ماں کی پیٹ سے نکلنے کے بعد اسےلگی ، جس سے گولی کی رفتار آہستہ ہو گئی ۔ تین سالہ بچی کا نام رازان ہے جو 7.92 ایم ایم کی گولی نکالنے کے بعد مکمل طور پر صحت یاب ہو چکی ہے۔ دوسری طرف رازان کے خاندان والوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ کے آغاز میں ان کے اپارٹمنٹ کو فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا ، وہاں سے وہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور خان یونس کے مقام تک پہنچے میں وہ تین بار بے گھر ہوچکے تھے۔ واضح رہے کہ برطانوی ڈاکٹر ڈیوڈ اینڈرسن کواو بی ای ( طبی ایوارڈ) سے بھی نوازا گیا ہے، یہ ایوارڈ اسےفارن کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او ) کی مالی اعانت سے دو ہنگامی فیلڈ ہسپتال قائم کرنے ،غزہ، لبنان، یوکرین اور 2014 میں سیرا لیون میں دنیا کے بدترین ایبولا کی وبا سمیت مختلف انسانی بحرانوں کا جواب دینے اوربرطانیہ کے ایمرجنسی ہیلتھ ریسپانس کی خدمات سرانجام دینے کےاعتراف میں دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اکتوبر 2023 کو حماس کے سینکڑوں جنگجوؤں نے اسرائیل کی جنوبی سرحد پر دھاوا بول دیا جس کی وجہ سے تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 سے زائد یرغمال بنا لیے گئے۔اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے بہت بڑا حملہ کیا جس سے حماس کو شدید نقصان پہنچا۔ غزہ کی حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل کے حملوں میں 46,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔دوسری جانب اسرائیلی فوج کی جانب سے مؤقف اٹھایا گیا کہ حملہ حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کےلیےگیا ہے۔ تاہم اس وقت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پاگیا ہے اور یرغمالیوں اور قیدیوں کے درمیان تبادلےکا سلسلہ جاری ہے۔ حماس کی جانب سے پہلے مرحلے میں تین اسرائیلی خواتین کی رہائی کا کہا گیا ہے۔
لاس اینجلس کی آگ کے نام پر جھوٹی ویڈیوز وائرل، حقیقت کیا ہے؟

لاس اینجلس میں 7 جنوری 2025 سے جاری ہولناک آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی، لیکن اس کے ساتھ سوشل میڈیا پر جھوٹی ویڈیوز اور غلط معلومات کا سیلاب بھی برپا ہوگیا۔ عالمی فیکٹ چیک ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) نے تحقیق کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو جسے لاس اینجلس کی آگ سے منسوب کیا جا رہا ہے، حقیقت میں ستمبر 2024 کی ہے اور اس کا موجودہ آگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں ایک ساحلی علاقے کو دکھایا گیا ہے جہاں آگ کے شعلے اور دور تک دھوئیں کے بادل نظر آ رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے ساتھ جذباتی موسیقی بھی شامل کی گئی ہے، جس کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔ فیکٹ چیک کرنے والی ویب سائٹ اے ایف پی کے مطابق لاس اینجلس کا ساتھ جوڑ کر جھوٹی ویڈیو اصل میں جنوری 2025ء کی نہیں ہے بلکہ یہ ویڈیو ستمبر 2024ء کی ہے، جسے ابھی لاس اینجلس کے ساتھ جوڑ کرپروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ اس ویڈیو کو 12 ستمبر 2024 ء کو آگ کے پرتشدد واقعہ کے دوران کیلفورنیا کے نیوز چینل اے بی سی 7 نے نشر کیا تھا۔ اس وقت یہ ویڈیو کیلیفورنیا کے شمالی علاقوں میں لگی آگ کے دوران منظر عام پر آئی تھی۔ ویڈیو میں دکھائی دینے والے مقامات کی تحقیقات ناسا کی سیٹلائٹ تصاویر سے کی گئیں، جس نے آگ کے شعلوں اور متاثرہ علاقوں کی واضح نشاندہی کی۔ 13 ستمبر 2024ء کو ناسا نے سیٹلائٹ کے ذریعے بنائی گئی تصاویر کو اپنی ویب سائیٹ پر پبلش کیا تھا جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگ کے شعلے کہاں سے اٹھ رہے ہیں۔ ناسا نے متاثر ہونے والی جگہ کو سرخ نشانوں سے واضح کیا ہے جس میں متاثر ہونے والی جگہوں پل، لائن اور ائیرپورٹ کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اس ویڈیو میں دکھائے جانے والے متاثرہ علاقےشہر کے شمال اور مشرق میں 3 جگہوں یعنی لائن ، ائیر پورٹ اور پل میں لگی آگ کودکھایا گیا ہے۔ آگ ان 3 جگہوں پر مختلف اوقات میں باترتیب 5 ستمبر کو شام 6 بج کر 33 منٹ پر لائن میں، 8 ستمبر کو دوپہر 2 بج کر 22 منٹ پر پل میں اور 9 ستمبر 2024 کودوپہر ایک بج کر 21 منٹ پر ائیر پورٹ میں لگی تھی۔ ان 3 مقامات کو لاس اینجلس کی آگ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے جو کہ حقیقت میں لاس اینجلس میں اس کا کوئی تعلق نہیں ہے جس کی اصلیت ابھی تک تحقیقات کے ذریعے قائم نہیں ہو سکی ۔ یاد رہے کہ 7 جنوری کو کیلی فورنیا کے تین مقامات پر زبردست آگ لگی تھی جس نے ہزاروں ایکڑ زمین کو اپنی لپیٹ میں لےلیا تھا، یہ آگ ہالی ووڈ ہلز میں بھی لگی تھی جہاں ہالی ووڈ فلم انڈسٹری کے کئی بڑے ستاروں کے گھر جل کر خاک ہوگئے۔ کیلیفورنیا کے محکمہ جنگلات اور فائر پروٹیکشن کے مطابق 7 جنوری 2025ء کو لگنے والی آگ نےتین مقامات پلیسیڈز، ایٹن اور ہرسٹس پر لگی تھی جو کہ باترتیب صبح ساڑھے 10 بجے، شام 6 بج کر 18 منٹ پر اور رات 10 بج کر 29 منٹ پر لگی تھی۔ کیلیفورنیا کے محکمہ جنگلات اور فائر پروٹیکشن کے مطابق تیز ہواؤں اور خشک موسم نے آگ کو مزید پھیلنے کا موقع فراہم کیا۔ 2011 کے بعد پہلی بار ہوا کی رفتار 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ریکارڈ کی گئی اور جس نے آگ کے شعلوں کو مزید بھڑکا دیا۔ ماہرین موسمیات کے مطابق کیلیفورنیا میں بارش نہ ہونے کے باعث درخت اور جنگلات انتہائی خشک ہو چکے تھے، جو آگ کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ بنے۔ 8 ماہ کی خشک سالی کے دوران درختوں کی حالت ایسی ہو چکی تھی کہ معمولی چنگاری بھی بڑے پیمانے پر آگ لگا سکتی تھی۔ عالمی فیکٹ چیک کرنے والی ویب سائیٹ اے ایف پی نے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کو جھوٹی قرار دیا اور کہا کہ یہ پراپیگنڈا کے تحت پھیلائی جا رہی ہیں۔ ان ویڈیوز کا موجودہ لاس اینجلس کی آگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ویڈیوز دراصل پچھلے سال ستمبر میں کیلیفورنیا کے مختلف علاقوں میں لگنے والی آگ کی ہیں، جو غلط بیانی کے ذریعے حالیہ واقعے سے جوڑی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ماہرین نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ آگ سے متعلق مستند ذرائع پر انحصار کریں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ہر ویڈیو کو حقیقت نہ مانیں۔ غلط معلومات کی روک تھام کے لیے رپورٹنگ کے نظام کو مضبوط بنانا اور سچائی کی تصدیق کے لیے عالمی اداروں کی مدد لینا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ لاس اینجلس کی حالیہ آگ کے ساتھ جھوٹی ویڈیوز کا پھیلاؤ نہ صرف غلط معلومات کو عام کر رہا ہے بلکہ متاثرین کی اصل صورتحال کو بھی دھندلا رہا ہے۔ فیکٹ چیکنگ اداروں کی تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وائرل ویڈیوز کا لاس اینجلس کی موجودہ صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ان جھوٹی معلومات پر یقین کرنے کے بجائے مستند ذرائع سے حقائق معلوم کریں۔
ڈرائیور کے موڈ کے مطابق چلنے والی الیکٹرک کاریں: ہونڈا کا حیرت انگیز شاہکار متعارف

دنیا تیزی سے ٹیکنالوجی کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور جدید دور کی اختراعات مصنوعی ذہانت اور الیکٹرک گاڑیوں میں نمایاں ہیں۔ الیکٹرک کاروں نے نہ صرف خام تیل کے ذخائر کے حوالے سے خدشات کو کم کیا ہے بلکہ انہیں ماحول دوست اور قابل اعتماد ذرائع سفر کے طور پر بھی اپنایا جا رہا ہے۔ مختلف کمپنیاں ان گاڑیوں میں نت نئی خصوصیات متعارف کرا رہی ہیں تاکہ مستقبل کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ گزشتہ ہفتے امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں کاروں کا میلا سجایا گیا جس میں کاروں کی مختلف کمپنیز نے اپنے نئے ماڈل متعارف کرائے۔ اس میلےمیں چین میں ٹیسلا کا نیا ماڈل اور فورڈ کی مہنگی ترین اسپورٹس کار بھی متعارف کروائی گئی ، جس کی رفتار 325 کلومیٹر فی گھنٹہ بتائی گئی ہے۔ جاپانی کمپنی ہنڈانے لاس ویگاس میں منعقدہ کنزیومر الیکٹرانکس شو میں دو نئےالیکٹرک ماڈلز متعارف کرائے ہیں جنھیں زیرو سیریز کا نام دیا گیا ہےاور یہ ماڈلز 2026 ءمیں مارکیٹ میں پیش کیے جائیں گے۔ غیر ملکی نیوز چینل بی بی سی نیوز کے مطابق ہنڈاکا زیرو سیریز میں لانچ ہونے والا پہلاماڈل ایک ایس یو وی ہے۔ اس گاڑی کےڈیزائن کا اگلا حصہ کم و بیش روایتی ہے تاہم اس کار کا پچھلا حصہ چھوٹے شیشے، اونچی اور لمبی باڈی اور یو شیپ لائیٹوں کے ساتھ اسے ایس یو وی کاروں کی مارکیٹ میں منفرد بناتا ہے۔ بی بی سی نیوز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہنڈا نے ابھی تک ان کاروں کی تکنیکی تفصیلات جاری نہیں کی ہے، لیکن یہ کاریں ایک چارج پر 482 کلومیٹر کا فاصلہ طے کریں گی۔ اس کے علاوہ گاڑی کا سٹیئرنگ وہیل بھی مکینکلی ٹائروں کے ساتھ منسلک نہیں ہے بلکہ اسے الیکٹرانک طریقے سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جاپانی کار مینوفیکچرنگ کمپنی ہونڈا کے مطابق یہ نیا آپریٹنگ سسٹم کار ڈرائیور کے مزاج اور عادات کو سمجھنے اور جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ ڈرائیور کے مزاج کے مطابق کار کے فیچرز اور ماحول کو ترتیب دیتا ہے۔ اس آپریٹنگ سسٹم میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے، اس کے علاوہ کار میں ڈرائیور سے بات کرنے کی صلاحیت بھی ہوگی۔ کارمینوفیکچرنگ کمپنی ہونڈا کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں دیکھایا گیا ہے کہ کس طرح آپریٹنگ سسٹم کی مدد سے آسیمو کو ڈرائیور بتاتا ہے کہ وہ کچھ اچھا محسوس نہیں کر رہا اور وہ اداس ہے، جس کے بعد آسیمو ڈرائیور کےلیے ایک خوشگوار گانا چلاتا ہے۔ مزید یہ کہ ہنڈا کے ان نئے ماڈل میں اے آئی کے ہونے کی وجہ سے کچھ سڑکوں پر ڈرائیور اسٹیئرنگ سے ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور کار خود کار ٹیکنالوجی کی مدد سے چلتی رہے گی۔ ان ماڈلز کے علاوہ سات اور ماڈلز بھی 2030 تک مارکیٹ میں متعارف کرائے جائیں گے۔ واضح رہے کہ ہنڈا نے ایک اور افیلا نامی الیکٹرک کار تیار کرنے کے لیے جاپانی کمپنی سونی کارپوریشن کے ساتھ بھی اشتراک کر رکھاہے۔ یہ کار اگلے برس سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے دستیاب ہو گی اور اس کی تعارفی قیمت 90 ہزار ڈالرز رکھی گئی ہے۔ دنیا میں بڑھتے ہوئے ٹیکنالوجی کے رجحانات کے ساتھ الیکٹرک گاڑیاں انسانی زندگی کو آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ گاڑیاں خام تیل کے ذخائر کے تحفظ کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ میں بھی اہم ہیں اور مہنگے تیل پر انحصار کم کر رہی ہیں۔ ہنڈا کا زیرو سیریز کا منصوبہ انقلابی اقدامات کی ایک مثال ہے جو ٹیکنالوجی کے مستقبل کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
“جماعتِ اسلامی حق دو بلوچستان تحریک کے ذریعے بلوچوں کے حق کےلیے لڑے گی” حافظ نعیم الرحمان کا سیمینار سے خطاب

بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل اور ان کا حل کے عنوان سے آج کراچی پریس کلب میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا، سیمینار کی صدارت امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کی۔ امیر جماعتِ اسلامی پاکستان کا کراچی پریسا کلب میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں بلوچ قیادت کا کراچی پریس کلب پر خیر مقدم کرتا ہوں، جنہوں نے بلوچستان کے عوام کی نمائندگی کی ہے۔ سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جماعتِ اسلامی بلوچ عوام کے حقوق کے لیے لاہور میں مینارِ پاکستان کے مقام پر بھی بہت جلدجلسہ کرے گی، اس کے علاوہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی بلوچ قوم کا مقدمہ لڑا جائے گا۔ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے لوگ پنجابی ،پٹھان اور مہاجر میں تقسیم نہیں ہوتے، بلکہ وہاں وہ سب ایک ہوتے ہیں مگر ان لوگوں نے ذاتی مفادات کےلیے عوام کو پنجابی، پٹھان اور بلوچ کہہ کر تقسیم کیا ہوا ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے بلوچستان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنا آخری وقت بھی کوئٹہ زیارت میں گزارا ہے۔ بلوچوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکمرانوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی، انھیں بلوچوں کو ان کے حقوق دینا ہوں گے۔ اگر بلوچستان کے عوام کو عزت اور ان کے حقوق دیں گے تو یہی بلوچ فوج سے زیادہ محب وطن ثابت ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بلوچستان کی حقیقی قیادت سے بات کرنا ہوگی۔ فارم 47 کی پیداوار بلوچستان کے حقیقی نمائندہ نہیں ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن نے بھرپور جدوجہد کی اسی وجہ سے انہیں عوام نے منتخب کیا۔ جعفرآباد سے عبد المجید بادینی کو بھی عوام نے بھاری مینڈیٹ دے کر کامیاب کیا ہے۔ بلوچستان کی زمینی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے امیر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ بلوچستان میں بہت سارے خزانے موجود ہیں، وہاں کے حکمرانوں کی نظر بلوچستان کےخزانوں پر تو ہے لیکن وہ شاید وہاں کے عوام کو بھول گئے ہیں۔ بلوچستان میں لوگوں کے لاپتا ہوجانے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اگر بلوچستان میں کوئی دہشت گرد موجود ہے تو اس کا آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ پاکستانی آئین کے مطابق جو جرم کرتا ہے انہیں عدالتوں میں لانا چاہیئے نا کہ لاپتا کردینا چاہیئے۔ کسی بھی آئین میں یہ موجود نہیں ہے کہ لوگوں کو پکڑ کر لاپتا کردیا جائے۔ اس کے ساتھ حکومت کے جرنیل ہوش کے ناخن لیں بلوچستان کے عوام کو بازیاب کریں اور آئین اور قانون کےمطابق فیصلہ کریں۔ لاپتا قانون کو ایکٹویٹ کیا جائے اور طاقت کے زور سے بلوچستان کے عوام پر ظلم بند کیا جائے۔ ہم آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں اور سب کو اسی پر عمل کرنا ہوگا۔ فوج، بیوروکریٹ ، عدالت اور ہر شہری کے لیے آئین اور قانون میں حدود موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لاپتا افراد کو بازیاب کرکے گھروں میں بھیجا جائے اور ان کی عزت کی جائے۔دوسری جانب اگربلوچستان کے مسائل حل ہو جائیں تو 3 ماہ میں خود بلوچستان کے عوام اپنے صوبے کا دفاع کریں گے اور ملک ترقی کرے گا۔بلوچستان کے عوام سے مزاکرات کیے جائیں اور انہیں ضروریات زندگی کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ دوسری جانب بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جو پورے ملک کے سولر انرجی کا انتظام کرسکتا ہے۔کوئٹہ سے کراچی تک موٹر وے موجود نہیں جس کے باعث سالانہ 8 ہزار لوگ مرجاتے ہیں۔بلوچستان سے ملنے والے منرلز میں سے 20 فیصد حصہ بلوچستان کے عوام کو دےدیا جائے تو صوبہ بھی ترقی کرے گا اور پاکستان بھی۔ پہلے صرف سندھ میں سسٹم کام کررہا تھا اور اب سسٹم کو اسلام آباد میں جاکر بٹھادیا ہے۔ امیر جماعتِ اسلامی کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندے اس بات کا مقابلہ کرنے میں لگے ہیں کہ کرپشن میں کس کا فیصد سب سے زیادہ ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان کا حق ہے کہ سی پیک میں بلوچستان کے عوام کا حصہ مقرر کیا جاناچاہیے۔حکمران ہوش کے ناخن لیں اور بلوچستان کے عوام کو عزت دیں اور انہیں گیس فراہم کریں۔ بلوچستان میں موجود منرلز کو چند سرداروں کے حوالے کردیا گیا ہے جس سے حکمران فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جماعتِ اسلامی بلوچستان کے ساتھ ہے ، بلوچستان کے عوام جماعت اسلامی کی تحریک کا حصہ بنیں۔حق دو بلوچستان تحریک کو امیر صوبہ بلوچستان مولانا ہدایت الرحمن لیڈ کریں گے۔بلوچستان میں موجود افراد چاہے کسی بھی پارٹی سے ہوں وہ حق دو بلوچستان کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کا ساتھ دیں۔ بلوچستان کی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے فارم 47 کی پیداوار عوام کے نمائندے نہیں ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی نافذ، یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا آغاز

غزہ میں کئی ہفتوں سے جاری خون ریز جنگ کے بعد جنگ بندی کا طویل انتظار بالآخر ختم ہوگیا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کے تحت یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ حماس انتظامیہ کی جانب سے تین اسرائیلی خواتین یرغمالیوں کے نام جاری کیے گئےہیں، جنھیں بعد میں بہت جلدرہا کیا جاناہے۔ ان خواتین یرغمالیوں میں 31 سالہ ڈورون اسٹین بریچر،دوہری شہریت رکھنے والی 28 سالہ برطانوی اسرائیلی شہری ایملی ڈاماری، اور 24 سالہ رومی گونن شامل ہیں۔ یاد رہے کہ جنگ بندی کا عمل تقریباً تین گھنٹے کی تاخیر کا شکار ہواہے، کیونکہ حماس کی جانب سے اسرائیل کو یرغمالیوں کے نام بروقت فراہم نہیں کیےگئے۔ حماس نے اس تاخیر کو تکنیکی وجوہات قرار دیاہے۔ دوسری جانب حماس کے زیر انتظام سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق جنگ بندی کے آغازمیں تاخیر سے اسرائیل کی جانب سے فضائی حملے جاری رکھے گئے ہیں، ان حملوں کے نتیجے میں تقریباً 19 سے زائدافراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری اس جنگ میں اب تک غزہ میں تقریباً 46,800 سے زائد معصوم فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور عورتوں کی ہے۔ واضح رہے کہ حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے میں طے پایا گیا ہے کہ حماس مرحلہ وار اسرائیلیوں کو رہا کرے گا ۔ جس کے بدلے میں اسرائیل کی جانب سے اسرائیلی جیلوں میں قید متعدد فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔ جنگ بندی معاہدےکے تحت یرغمالیوں اور قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کیا جائے گا۔ حماس نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سات دنوں کے دوران مزید اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ اسرائیل سے 90 فلسطینی قیدیوں کی فہرست کا انھیں انتظار ہے، جن کے بدلے میں تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ غیر ملکی نیوز چینل بی بی سی نیوز کے مطابق جنگ بندی میں ثالثی کردار ادا کرنے والے مصر نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے پہلے چھ ہفتوں کے مرحلے میں کل 1,890 فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔دوسری جانب اسرائیل کی وزارت انصاف نے 734 قیدیوں اور زیر حراست افراد کی آزادی کی ایک فہرست جاری کی ہے۔توقع کی جارہی ہے کہ وہ 1,890 میں شامل ہوں گے، باقی افراد کے بارے میں ابھی تک کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق جنگ بندی کے بعد ہزاروں بے گھر فلسطینی اپنے تباہ شدہ علاقوں کی طرف لوٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بے گھر افراد اپنے گھروں کے قریب خیمے لگا کر رہنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے علاقوں میں واپس ہونے کا احساس برقرار رکھ سکیں۔ دوسری جانب غزہ شہر کے ایک بےگھر رہائشی سلیم نبھان نے غیرملکی نیوز چینل بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ہمارے گھر تباہ ہوگئےہیں، لیکن ہم خیمے لگا کر اپنے علاقے میں قیام کریں گے تاکہ یہ محسوس ہو کہ ہم اپنے گھروں کو واپس لوٹ کر آگئے ہیں۔ اگر اسرائیلی یرغمالیوں کی بات کی جائے تو حماس کی جانب سے یرغمال بنائی گئی پہلی تین خواتین کو سب سے پہلےریڈ کراس کے حوالے کیا جائے گا، جس کے بعد انہیں اسرائیلی فوج کے سپرد کیا جائے گا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق انھیں طبی معائنے کے بعد تل ابیب کے شیبا میڈیکل سینٹر منتقل کیا جائے گا۔ شیبا میڈیکل سینٹر کے ترجمان سٹیو والز نے بی بی سی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یرغمالیوں کو ممکنہ طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے لایا جائے گا اور ان کا طبی معائنہ کیا جائے گا۔ دوسری جانب دوہری شہریت رکھنے والی 28 سالہ ایملی ڈاماری کے خاندان کی جانب سے اس کی رہائی کا سن کا خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایملی کی والدہ مینڈی ڈاماری نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئےکہاکہ یہ ایک اذیت ناک 471 دن رہے ہیں، لیکن خاص طور پر گزشتہ 24 گھنٹے انتہائی مشکل تھے۔ ان میں کچھ بھی ہوسکتا تھا، جب تک ایملی صحیح سلامت گھر نہیں پہنچ آتی مجھے سکون نہیں آئے گا۔ یاد رہے کہ جنگ بندی کے اس معاہدے میں قطر کی جانب سے کلیدی کردار ادا کیا گیا ہے۔ قطری حکام کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ ایک پیچیدہ عمل تھا، لیکن ہمیں خوشی ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کا آغاز ہورہا ہے۔ قطری ثالثوں کے مطابق معاہدے کے تحت حماس ہر روز چند اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گا اور اس کے بدلے میں اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔ بی بی سی نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے مطابق خوراک اور دیگر امدادی سامان کے 4,000 ٹرک غزہ میں داخلے کے منتظر ہیں۔ یواین آر ڈبلیو اےکے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ جنگ بندی کے بعد امداد کی فراہمی میں تیزی آئے گی۔ دوسری جانب یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے اسرائیل میں ملے جلے جذبات پائے گئے ہیں۔ کچھ افراد کی جانب سے اس معاہدے کو دہشت گردی کی فتح قرار دےدیاگیا، جب کہ زیادہ تر افراد کی جانب سے یرغمالیوں کی واپسی اور جنگ بندی کے معاہدے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیاگیا۔ اس کے علاوہ اسرائیلی وزیر اتمار بن گویر نے جنگ بندی پر اعتراض کیا ہے، جنگ بندی معاہدہ ہونے پر وہ حکومت سے مستعفیٰ ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کیا گیاتھا، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید فضائی حملے کیے، جنہوں نے علاقے میں وسیع تباہی مچادی۔اسرائیل کی جانب سے ظلم وستم کی انتہا کی گئی اور معصوم بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد سے اب تک غزہ میں تقریباً 46,800 سے زائد معصوم فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔
پاک،امریکا تعلقات:جوبائیڈن کا دورکیسا رہا؟

جو بائیڈن کا وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنا ایک تاریخی لمحہ تھا، جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے ممالک نے اپنی پوزیشنیں از سرِ نو طے کرنا شروع کیں۔ پاکستان اورامریکا کے تعلقات، جو ہمیشہ ایک پیچیدہ سائے کی مانند رہے ہیں، بائیڈن کی صدارت میں ایک نیا موڑ لے رہے تھے۔ بائیڈن کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ ایسے مواقع اور چیلنجز آئے جو پاکستان کے لیے ایک نیا امتحان اور امریکا کے لیے ایک موقع ثابت ہوئے۔ یہ ایک کہانی ہے، جہاں ہر پیچیدہ لمحہ ایک نیا سبق سکھاتا ہے، اور ہر فیصلہ ایک نئی حقیقت کو جنم دیتا ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا: ایک سنگین اورکربناک لمحہ افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کا مرحلہ، جو بائیڈن کی صدارت میں ایک ایسا لمحہ تھا جس نے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کی تقدیر کو بدل کررکھ دیا۔ جب امریکی افواج نے افغانستان چھوڑا، تو یہ فیصلہ نہ صرف امریکا بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک پیچیدہ صورتحال بن چکا تھا۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اس عمل میں بھرپور تعاون کیا تھا،اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے کردار ادا کیا۔ تاہم، جیسے ہی طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا، دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کی نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔ پاکستان کا نقطہ نظر ہمیشہ یہی رہا کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کی اپنی قومی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔ لیکن امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ طالبان کے اثر و رسوخ کو کم کرے، جبکہ پاکستان کی حکومت نے یہ مؤقف اختیارکیا کہ اس کے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ طالبان امن کے راستے پر قدم رکھیں گے۔ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں میں یہ نکتہ واضح تھا کہ امریکا پاکستان سے افغانستان کے معاملے میں اس کی پوزیشن پرتبدیلی چاہتا تھا، تاہم اس پرعمل درآمد ایک ایسا چیلنج بن گیا جس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ امریکی انتظامیہ نے پاکستان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ اپنے روابط کو کم کرے، مگر پاکستان نے اس معاملے میں اپنی خودمختاری اور قومی مفادات کو مقدم رکھا۔ حقیقت: امریکہ نے پاکستان پر طالبان کے ساتھ روابط کو کم کرنے پر زور دیا، لیکن پاکستان نے ہمیشہ اس بات کو تسلیم کیا کہ افغان مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کے حل میں پاکستان کا کردار محض معاونت کا رہا ہے۔ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے لیے ہمیشہ اولین ترجیح رہا ہےاوریہ ہمیشہ ایک متنازعہ موضوع بن چکا ہے۔ جوہری ہتھیاروں پر امریکی بیانات:ایک کڑوا سچ اورپاکستانی خودمختاری کا سوال جوبائیڈن کے دورِ حکومت میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے جو بیانات آئے، وہ نہ صرف پاکستان کی حکومت بلکہ عوام کے لیے بھی ایک کڑا امتحان بن گئے۔ بائیڈن انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے یہ بیان دیا کہ پاکستان کا جوہری ہتھیاردنیا کےخطرناک ترین ہتھیاروں میں شمار ہوتا ہے، اوراس کاغیر منظم ہونا عالمی سطح پرایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ یہ بیان پاکستانی حکام کے لیے ایک دھچکا تھا کیونکہ پاکستان کا جوہری پروگرام ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہا ہے،اوراس پراس طرح کی عالمی تنقید اس کے لیے ایک چیلنج بن گئی۔ پاکستان نے فوری طورپراس بیان کورد کیااوراس بات کی وضاحت پیش کی کہ اس کا جوہری پروگرام نہ صرف محفوظ ہے بلکہ عالمی معیارات کے مطابق ہے۔ پاکستان نے اس تنقید کو اپنے دفاعی حقوق کے تناظر میں دیکھا اور کہا کہ ہر قوم کا حق ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے مناسب اقدامات کرے، اور جوہری ہتھیار اس ضمن میں ایک اہم جزو ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اس بیان کے بعد پاکستان نے اپنے موقف کو واضح کیا کہ اس کا جوہری پروگرام عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں کے مطابق محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہے۔ حقیقت: امریکہ کے اس بیان کے بعد پاکستان نے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں مزید شفافیت فراہم کرنے کی پیشکش کی،مگر عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ہونے والی ہر بحث پاکستان کے لیے ایک چیلنج بنی۔ یہ ایک لمحہ تھا جب پاکستان کو اپنی خودمختاری اور دفاعی حقوق کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اقتصادی تعلقات: ایک سنگین بحران اور خاموش چیلنج امریکی-پاکستانی اقتصادی تعلقات ہمیشہ ایک سنگین بحران کی شکل میں سامنے آتے ہیں، اور بائیڈن کے دور میں یہ تعلقات کوئی نمایاں ترقی حاصل نہیں کر سکے۔ اگرچہ پاکستان نے اقتصادی بحرانوں کے دوران امریکہ سے امداد کی امید کی تھی، مگر بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کو غیر فوجی امداد فراہم کرنے کے وعدے تو کیے، لیکن یہ امداد پاکستان کی اقتصادی ضروریات کے مقابلے میں کافی نہیں تھی۔ پاکستان کا موقف تھا کہ امریکہ کو اس کی اقتصادی صورتحال میں زیادہ معاونت فراہم کرنی چاہیے تھی، خاص طور پر جب عالمی سطح پر اقتصادی دباؤ بڑھ رہا تھا۔ بائیڈن کے دور میں امریکی امداد کا حجم اتنا نہیں تھا جتنا کہ پاکستان کو درکار تھا، اور تجارتی تعلقات میں بھی کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستان نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ وہ خطے میں پاکستان کے اقتصادی مفادات کے حوالے سے مزید معاونت فراہم کرے، لیکن امریکہ کی پالیسیوں میں ہمیشہ ایک تحفظ کا عنصر موجود رہا، جو تعلقات کی حقیقی ترقی میں رکاوٹ بنتا رہا۔ حقیقت: پاکستان نے امریکہ سے اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کیے، مگر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی حقیقت ہمیشہ مختلف رہی۔ اس دوران پاکستان نے چین اور دیگر ممالک سے اپنی اقتصادی وابستگی کو مزید مستحکم کیا تاکہ اپنے اقتصادی چیلنجز کا مقابله کر سکے۔ دفاعی تعلقات: ایک بدلتی ہوئی حقیقت اورمحدود تعاون دفاعی تعلقات میں جو بائیڈن کے دور میں واضح کمی واقع ہوئی۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ دفاعی تعلقات میں تیزی سے کمی کی اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کیا۔ افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد، پاکستان کے لیے عالمی سطح پر اپنی اہمیت کو دوبارہ ثابت کرنا ضروری ہو گیا، مگر امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات محدود کر
پاکستان نیوی کی نئی آبدوزیں انڈیا کے لیے چیلنج بن گئیں

پاکستان نیوی نے ایئر انڈیپنڈنٹ پروپلشن (AIP) ٹیکنالوجی میں انڈیا کو ایک اور بڑا دھچکا دیا ہے جس سے نہ صرف انڈین نیوی کی بحری طاقت کو ضرب لگی ہے بلکہ پاکستان کی بحری صلاحیتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں پاکستان اب انڈیا کے مقابلے میں ایک قدم آگے جا چکا ہے، اور اس برتری میں مزید اضافے کی امیدیں بھی روشن ہیں۔ پاکستان اب انڈیا کے مقابلے میں ایک قدم آگے جا چکا ہے، اور اس برتری میں مزید اضافے کی امیدیں بھی روشن ہیں۔ حال ہی میں پاکستان نیوی نے اپنے بیڑے میں شامل ہونے والی جدید چینی ساختہ ہنگور کلاس آبدوزوں کی شمولیت کا اعلان کیا ہے جو طے شدہ شیڈول کے مطابق آئندہ چند سالوں میں پاکستان نیوی کا حصہ بننے جا رہی ہیں۔ ان آبدوزوں کی شمولیت کے بعد پاکستان نیوی کے پاس ایئر انڈیپنڈنٹ پروپلشن (AIP) ٹیکنالوجی سے لیس آبدوزوں کی تعداد 11 ہو جائے گی، جو عالمی سطح پر پاکستان کی نیوی کو ایک طاقتور مقام پر فائز کر دے گی۔ پاکستان نیوی کے پاس اس وقت تین فرانسیسی ساختہ اگوسٹا-90B آبدوزیں (پی این ایس خالد، سعد اور حمزہ) موجود ہیں، جو AIP ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ اس کے ساتھ ہی چینی ساختہ ہنگور کلاس آبدوزیں جو 2030 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان نیوی کے بیڑے کا حصہ بنیں گی،اس کامیابی کے حاصل ہونے سے پاکستان نے جدید آبدوز ٹیکنالوجی میں اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔ دوسری جانب بھارتی نیوی، جو حالیہ دنوں میں اپنی چھٹی اور آخری P-75 اسکورپین آبدوز کے ساتھ ساتھ ایک اسٹیلتھ فریگیٹ اور گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر آبدوز بھی اپنے بیڑے میں شامل کر چکی ہےمگر بھارت اب تک ایئر انڈیپنڈنٹ پروپلشن ٹیکنالوجی سے محروم ہے۔ بھارت کی اس کمی کا فائدہ پاکستان بھرپور طریقے سے اٹھا رہا ہے۔ پاکستان نیوی کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے بیڑے میں 50 جنگی جہازوں کی شمولیت کا منصوبہ بنایا ہے جن میں 20 بڑے جنگی جہاز، فریگیٹ اور کارویٹ شامل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نیوی ایک مضبوط زیرِ سمندر بیڑا بھی تیار کر رہارہی ہےجو 11 آبدوزوں پر مشتمل ہوگا۔ پاکستان نیوی کے سربراہ ایڈمرل نوید اشرف نے حال ہی میں چینی میڈیا کو بتایا کہ پاکستان نیوی کی قوت میں اضافے کا عمل طے شدہ شیڈول کے مطابق جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چار چینی ہنگور کلاس آبدوزوں کی تعمیر جاری ہے اور ان آبدوزوں کی شمولیت کے بعد پاکستان نیوی کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایڈمرل نوید اشرف نے مزید کہاکہ “یہ آبدوزیں پاکستان کی بحری صلاحیتوں میں اہم اضافہ کریں گی جس سے ہماری نیوی کو جدید ہتھیاروں کے ساتھ مختلف آپریشنز انجام دینے کی طاقت ملے گی۔” پاکستان نیوی کا یہ عزم نہ صرف بھارت کے لیے ایک وارننگ ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ ایک پیغام ہے کہ پاکستان نے اپنی بحری طاقت کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر کے ایک نئی بلندیاں چھو لیں ہیں۔ بھارت جس علاقے میں اپنی برتری کی امیدیں لگا رہا تھا پاکستان نے اس میدان میں قدم جمانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کی بحریہ اس وقت ایک نئی جنگی حکمت عملی اور طاقت کے ساتھ تیار ہو رہی ہے۔اے آئی پی ٹیکنالوجی سے لیس آبدوزیں کسی بھی بحریہ کے لیے ایک اہم اثاثہ تصور کی جاتی ہیں اور پاکستان کی اس ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کرنا انڈیاکے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ اب انڈیا کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنی بحری صلاحیتوں میں تیز ترین ترقی کرے تاکہ وہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے سمندری اثرات کے سامنے اپنا دفاع مضبوط کر سکے۔ فی الحال پاکستان نیوی کے پاس ایئر انڈیپنڈنٹ پروپلشن (AIP) ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارت کو پیچھے چھوڑنے کا واضح اور ثابت قدم فائدہ ہے۔
جاپان کی جیل بزرگ خواتین کی’پناہ گاہ‘بن گئی

جاپان کے بزرگ شہریوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے زندگی کا درد اور تنہائی کا سامنا ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ بعض معمر خواتین اپنی زندگی کو جیل کی کال کوٹھریوں میں گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ تنہائی کے بجائے کمیونٹی اور تحفظ کا احساس پاتی ہیں۔ یہ کہانی جاپان کی سب سے بڑی خواتین کی جیل ‘توچیگی ویمنز پرزن’ کی ہے جہاں معمر قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد جیل کے اندرونی ماحول کو ایک نرسنگ ہوم کی طرح بنا چکی ہے۔ ‘توچیگی ویمنز پرزن’جو ٹوکیو کے شمال میں واقع ہے،اس جیل میں بوڑھی خواتین کی بڑی تعداد قید ہےاور جیل کے افسران کے مطابق یہ خواتین زیادہ تر اپنی زندگی میں تنہائی اورغربت کا شکار ہوتی ہیں اور جیل کی دیواروں کے اندر جہاں معمر قیدی آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور واکر کا سہارا لیتے ہیں،وہیں وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سکون اور تحفظ کی تلاش میں ہیں،کچھ خواتین تو یہاں ہمیشہ رہنے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ توچیگی ویمنز پرزن کی ایک 81 سالہ قیدی ‘آکیو’ نے ’سی این این‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”یہ جیل شاید میری زندگی کا سب سے مستحکم حصّہ ہے،یہاں اچھے لوگ ہیں اور زندگی گزارنے کا ماحول بھی بہتر ہے۔آکیو ضرورت کی بنا پر کھانے پینے کی اشیاء چوری کرنے کے جرم میں جیل کاٹ رہی ہیں۔ان کی یہ واردات اس وقت ہوئی جب وہ اپنی چھوٹی سی پنشن پر زندگی گزار رہی تھیں اور ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ یہ صورتحال جاپان کے بڑھتے ہوئے معاشی اور سماجی بحران کی عکاسی کرتی ہے جہاں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد میں اضافے ہورہا ہے جبکہ بزرگ افراد غربت اور تنہائی کا بھی شکار ہیں۔ 1 2022 میں جاپان کی جیلوں میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین قیدیوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور ان میں سے زیادہ تر خواتین کھانے پینے کی چیزیں چوری کرنے کے جرم میں قید ہیں۔ جاپان میں 65 سال سے زائد عمر کے 20فیصد افراد غربت کا شکار ہیں اور یہ شرح او ای سی ڈی کے 38 رکن ممالک کے اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔اکثر بزرگ قیدی جیل میں اس لیے آتے ہیں کیونکہ یہاں ان کو کھانا،مفت علاج،اورعمر رسیدہ نگہداشت ملتی ہے جو کہ باہر کی دنیا میں انہیں دستیاب نہیں ہوتی۔ توچیگی ویمنزپرزن کے ایک افسر تکیوشی شیرا ناگا نے سی این این کو بتایا کہ “کچھ لوگ یہاں آکر بس اس لیے رہنا چاہتے ہیں کہ وہ سردی اور بھوک سے بچ سکیں”۔ پہلی بار قید ہونے والی آکیو کی کہانی ایک سنگین حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ آکیو نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں جب غربت اور تنہائی کا سامنا کیا،تو انہوں نے کھانا چوری کرنے کا فیصلہ کیا۔ آکیو کا کہنا ہے کہ”اگر میری زندگی میں مالی سکونت ہوتی تو میں ایسا کبھی نہ کرتی۔” ان کے بیٹے نے اکثر ان سے کہا کہ وہ بس “چلی جائیں” اور یہی رویہ آکیو کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتا رہا۔ توچیگی ویمنز پرزن میں معمر خواتین قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے جیل کی انتظامیہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان کے لیے خصوصی نگہداشت اور مدد فراہم کریں۔ جیل میں اب انہیں نہ صرف قید کی حالت میں رکھا جاتا ہے بلکہ ان کی جسمانی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔ وہاں موجود خواتین کو ان کے جسمانی مسائل جیسے کہ بیڈ سورز،کمزوری اور دیگر بیماریوں کا علاج فراہم کیا جاتا ہے۔جیل کی نگہداشت کی سہولتیں اب نرسنگ ہوم کی طرح کام کر رہی ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف جیل کے اندر کے حالات تک محدود نہیں ہے۔ جب ان خواتین کو جیل سے رہا کیا جاتا ہے تو انہیں دوبارہ معاشرتی زندگی میں قدم رکھنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ توچیگی کے ایک افسرمیگومی نے بتایا کہ جب یہ قیدی رہا ہو کر باہر آتی ہیں تو ان کے پاس نہ کوئی خاندان ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مدد فراہم کرنے والا،ان کے لیے دوبارہ سے زندگی شروع کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ جاپانی حکومت نے اس مسئلے کی سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے،اور تسلیم کیا ہے2021 میں اعلان کیا تھا کہ جو بزرگ قیدی رہا ہو کر واپس معاشرے میں جاتے ہیں انہیں مدد دینے والے پروگرامز میں شامل کیا جائے گا تاکہ وہ دوبارہ جرائم کا ارتکاب نہ کریں۔ تاہم جاپان کی بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی اور کم پیدائش کی شرح حکومت کےلیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے جس پر حکومت کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا عوام کی آواز یا سیاسی پروپیگنڈے کا ذریعہ؟

آج کے تیز رفتار ڈیجیٹل دور میں جہاں ہر خبر اور بیان صرف ایک کلک کی دوری پر ہے، سوشل میڈیا نے سیاسی جماعتوں کو عوام تک اپنے پیغامات پہنچانے کا ایک طاقتور اور مؤثر طریقہ فراہم کیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم نہ صرف عوام سے براہ راست جڑنے کا ذریعہ بن چکا ہے، بلکہ سیاسی نظریات کو پھیلانے اور عوامی شعور کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا واقعی عوام کی آواز بن رہا ہے؟ یا یہ محض سیاسی پروپیگنڈے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے؟ سیاسی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مہمات اور سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی ایک اہم پہلو ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا سائنسز کی پروفیسر ڈاکٹر یاسمین فاروقی کے مطابق، سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے دوران اخلاقی حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انہیں اپنے کارکنوں کو تربیت دینی چاہیے تاکہ وہ درست اور ذمہ دارانہ طریقے سے معلومات پھیلائیں اور سماج میں سیاسی شعور کو بہتر انداز میں فروغ دیں۔ تاہم، سوشل میڈیا کی مہمات بعض اوقات معاشرتی نفرت اور سیاسی اختلافات کو بڑھا دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا استعمال مثبت، تعمیری اور تعلیمی انداز میں کریں تاکہ ایک صحت مند جمہوری معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ تو سوال یہ ہے: کیا سوشل میڈیا کی طاقت عوام کے فائدے میں استعمال ہو گی؟ یا اس کا غلط استعمال معاشرتی تفرقے اور نفرت کو بڑھا دے گا؟
غزہ جنگ بندی مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے پہلا قدم،ڈونلڈٹرمپ نے’تبدیلی‘کا نعرہ بلند کردیا

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی ہماری تاریخی کامیابی کا نتیجہ ہے، یہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے پہلا قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سرحد سے دراندازی کو روکیں گے، افتتاحی خطاب میں سرحدی حفاظتی اقدامات کا خاکہ پیش کریں گے،غزہ جنگ بندی ہماری تاریخی کامیابی کا نتیجہ ہے، یہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے پہلا قدم ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہاکہ فوج کوآئرن ڈوم میزائل ڈیفنس شیلڈ تعمیرکر نے کا حکم دیں گے،فوج میں موجود کمزوریوں کا ختم کریں گے۔ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کیس کا ریکارڈجاری کرنے کا بھی وعدہ کرتے ہوئے کہا’رابرٹ ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھرکنگ جونیئر قتل سے متعلق ریکارڈ جاری کریں گے‘جبکہ ٹرمپ نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ عوامی دلچسپی کےحامل دیگر دستاویزات بھی جاری کیے جائیں گے انہوں نے کہا کہ وہ مردوں کو خواتین کے اسپورٹس سے باہر کریں گے، یہ کام کل ہی کریں گے، ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں کو خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے سے روکیں گے۔تاریخی رفتار اور طاقت کےساتھ کام کریں گے۔امریکا کو درپیش ہربحران کو حل کریں گے۔بائیڈن کے تمام ایگزیکٹو آرڈرز کو منسوخ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ٹک ٹاک کو بچانے کی ضرورت ہے۔ امریکا کوٹک ٹاک کی نصف ملکیت حاصل کرنی چاہیے۔ٹک ٹاک کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کھربوں ڈالرتک پہنچ سکتی ہے۔ بڑے AI پلانٹس کی اجازت کے ایمر جنسی اختیارات استعمال کریں گے۔ دوسری جانب ایلون مسک بھی اسٹیج پر موجود تھے، انہوں نے شرکاء سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کامیابی درحقیقت شروعات ہے، آگے بڑھنا اہم ہے کیونکہ اہم تبدیلیاں کرنی ہیں، ان تبدیلیوں کو مضبوط کرنا ہے تا کہ امریکا کے لیے صدیوں تک مضبوط رہنے کی بنیاد ڈالیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری حلف برداری واشنگٹن میں تاریخی لمحہ بنے گی،اس دن دعائیہ تقریب، پریڈ، افتتاحی خطاب اور موسیقی کے پروگرام ہوں گے،اس تقریب کے دوران حامیوں اورمخالفین کے درمیان ’کشمکش‘بھی متوقع ہے۔ 19جنوری 2025 کا دن واشنگٹن ڈی سی کے لیے ایک تاریخی لمحہ بننے جا رہا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر کے عہدے کا دوبارہ حلف اٹھائیں گے۔ صدر ٹرمپ کی دوسری حلف برداری کی تقریب نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں سیاست اور طاقت کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے۔ اس دن دنیا بھر کی نظریں ایک مرتبہ پھر واشنگٹن پر مرکوز ہوں گی،جہاں قیادت کی تبدیلی،جشن اوراحتجاج کا ایک سنگم ہوگا۔ تقریب کا آغاز واشنگٹن ڈی سی کے لافائیٹ سکوائر میں واقع سینٹ جان چرچ میں ایک دعائیہ تقریب سے ہوگا۔یہاں ملک کی سلامتی و ترقی کے لیےدعائیں کی جائیں گی۔ اس تقریب کے بعد وائٹ ہاؤس میں چائے کی محفل ہوگی،جہاں سیاستدانوں، حکومتی اہلکاروں اور دیگر اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا ہے۔ مگر سب سے اہم لمحہ وہ ہوگا جب ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ کیپیٹل کی عمارت کے ویسٹ لان میں مرکزی تقریب شروع ہوگی جس کی رنگین پریڈ اور افتتاحی کلمات اس دن کااہم لمحہ ہوں گے،ڈونلد ٹرمپ اور ان کے نائب صدر جے ڈی وینس اس موقع پر باضابطہ حلف اٹھائیں گے اور پھر ٹرمپ کا افتتاحی خطاب شروع ہوگاجس میں وہ اپنے اگلے چار سالوں کے ایجنڈے کا اعلان کریں گے اور امریکا کے لیے اپنے ویژن کو واضح کریں گے۔ واشنگٹن ڈی سی میں جنوری کی سردی اپنا اثر دکھا رہی ہے جہاں درجہ حرارت منفی 11 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے اس کے باوجود امریکی کیپیٹل میں ہونے والی تقریب کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ دونلڈ ٹرمپ کی اس حلف برداری کی تقریب میں تقریباً دو لاکھ افراد کے جمع ہونے کی توقع ہے جن میں ان کے حامیوں کے ساتھ ساتھ مخالفین اور مظاہرین بھی شامل ہوں گے۔ حلف برداری کے اس اہم موقع پرجہاں ٹرمپ کے حامیوں کا جوش و خروش ہوگا،وہیں ماضی کی اہم سیاسی شخصیات بھی موجود ہوں گی۔ سابق صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس اپنے شریک حیات کے ساتھ اس تقریب میں موجود ہوں گے،اس کے علاوہ جارج بش اور باراک اوباما بھی اس تقریب میں شرکت کریں گے جبکہ ان کے درمیان گزشتہ ادوار میں ٹرمپ کے ساتھ سیاسی کشیدگی اوراختلافات بھی رہے ہیں۔ ٹرمپ کی افتتاحی تقریب میں گلوکارہ کیری انڈرووڈاپنے فن کا مظاہرہ کریں گی۔جو کہ سابق امریکن آئیڈل فاتح ہیں وہ اس تقریب میں اپنے مشہور گانے ‘امریکا دی بیوٹیفل’ کی پرفارمنس دیں گی،جو کہ ملک کی محبت اور یکجہتی کو اجاگر کرے گا۔ اس کے علاوہ امریکی ڈسکو گروپ دی ویلیج پیپل بھی اس تقریب میں اپنے مشہور گانے ‘وائی ایم سی اے’ اور ‘ماچو مین’ کے ذریعے جشن کا حصہ بنیں گے۔ ان گانوں کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ موسیقی کا کوئی رنگ یا کوئی رخ نہیں ہوتا یہ ہمیشہ عوام کو متحد کرنے کا ذریعہ بنتی ہے چاہے سیاسی اختلافات جتنے بھی کیوں نہ ہوں۔ اگرچہ حلف برداری کی تقریب میں ٹرمپ کے حامیوں کا جوش عروج پر ہوگا لیکن واشنگٹن کی سڑکوں پر مظاہروں اوراحتجاج کا امکان بھی ہے۔ آج کا دن امریکیوں کیلئے ایک یادگار دن ہوگا۔ جب ایک نیا صدر،ایک نیا آغاز،اور ایک ایسا لمحہ جو تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔