اسرائیل کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا: حافظ نعیم الرحمان

غزہ میں جنگ بندی معاہد ے پر عمل درآمداور قیدیوں کی رہا ئی پرکل 20 جنوری کو یومِ عزم تشکر منایا گیا۔جماعتِ اسلامی پاکستان نے ملک بھر میں یومِ عزم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ اظہار یکجہتی میں  کراچی کے شہریوں نے  فلسطین کے جھنڈوں کو لہراتے  ہوئے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ کراچی میں یومِ عزم تشکر کے موقع پر امیر جماعتِ اسلامی نے عوام سے خطاب کیا۔غزہ کے ساتھ یکجہتی کے دوران امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان ،حماس کے رہنما خالد مخدومی،  امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان  اور دیگر شرکاء موجود تھے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان  حافظ نعیم الرحمن نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ 471 دن کا یہ معرکہ اہل غزہ نے جیت لیا،  شہداء  کی مائیں اللہ سے دعائیں  مانگتی تھیں۔ امیر جماعتِ اسلامی نے اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے طاقت ور  ممالک  اور امریکا کو دہشتگرد ریاست قرار دےدیا۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور یورپی ممالک اسرائیل کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں۔   امریکا نے ناحق اسرائیل کا ساتھ دے کر دنیا کے سامنے یہ  ثابت کردیا ہےکہ وہ ایک دہشتگرد ریاست ہے۔امریکا نے حماس کی جمہوری کامیابی کو قبول نہیں کیا۔ اسرائیل کو وحشیانہ بمباری کرنے کے لیے امریکہ نے ہی ہتھیار فراہم کیے تھے  ، اگرچہ  امریکا کی معیشت کو اس جنگ سے نقصان پہنچا ہے مگر اس نے پھر بھی جارحیت پسند اسرائیل کا ساتھ دیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ اسرئیل کی شکست نہیں بلکہ امریکا کی شکست ہے ۔  دوسری طرف حماس کے پاس   ہتھیار، جذبہ اورسب سے بڑھ کر جہاد کا شوق موجود ہے۔دوسری طرف مسلم دنیا کے حکمران اس پورے عرصے میں خاموش تماشائی بنے رہےہیں۔ اشیاء کے بائیکاٹ کے حوالے سے امیر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ  پاکستانی عوام چاہتی ہے کہ ہم ان کی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔اگر کسی نے اسرائیل کے لئے سوفٹ کارنر دیکھانے کی کوشش کی تو اس کا حال عبرت ناک ہو گا۔ امریکا کے کہنے پر اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج ناقابل قبول ہوں گے۔ دوسری جانب امیر جماعت اسلامی  کراچی منعم ظفر خان نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا  کہ 7 اکتوبر 2023سے جاری جنگ میں  حماس کے مجاہدین نے دنیا کو بتا دیا کہ اسرائیل کی ساری جاسوسی فیل ہو گئی ہے۔آج حماس نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔مغربی ممالک بھی اسرائیل کی پشت پر کھڑے تھے،  وہ سمجھتے تھے کہ جدید ہتھیاروں سے وہ جذبہ ایمانی کو شکست دے سکتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کراچی نے غزہ کے مسلمانوں کی ہمت کو داد دیتے ہوئے کہا کہ  400دن سے زائد جنگ جاری رہی اور 16 مہنوں تک بمبوں کی بارش  ہوتی رہی۔ایک صدی قبل ہم نے دیکھا پوری دنیا سے لاکر یہودیوں کو فلسطین کے ساتھ بسایا گیا  ،لیکن الحمدللہ غزہ کے مسلمانوں کو شکست نہیں دی جا سکی ۔یحییٰ سنوار اپنے مجاہدین کے ساتھ میدان جنگ میں موجود تھا، الحمدللہ شہادت کے جذبہ کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کے حکمران امریکہ سے خوف زدہ ہیں۔ مسلمان حکمرانوں پر موت کا سکتہ طاری ہے، یہ فلسطین اور عرب کا مسلہ نہیں یہ ہمارے ایمان کا معاملہ ہے۔   یونائیٹڈ نیشن کے حوالے سے منعم ظفر خان کا کہنا تھا کہ یونائیٹڈ نیشن کی صرف قراردادیں ہی پیش ہوتی رہیں  ،امریکا ان قرادادوں کو وٹو کرتا رہا۔ حماس نے پورے وقار کے ساتھ معاہدہ کیا اور   رہا کئے گئے اسرائیلی قیدیوں کو فلسطین کا نقشہ تحفہ میں دیا۔  دو ریاستی حل کوئی حل نہیں ہم اس کو مسترد کرتے ہیں،  جہاد کا راستہ اپنانا ہو گا۔ یہی ایک واحد حل ہے، جدوجہد کا یہ سفر آگے بڑھے گا،اسلام کا مستقبل تابناک ہو گا۔

‘طلبایونین کا مطالبہ سیاست نہیں، اسٹوڈنٹس کی فلاح و بہبود ہے’

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی  میں آج  سپریم کورٹ کےآئینی بنچ نےطلبہ  یونین کی  بحالی کے معاملے پر سماعت کی۔ اس سماعت میں طلبہ یونین پر لگائی گئی پابندی  سے طلبا کودرپیش مسائل پر بحث کی گئی۔ مؤقف اپنایا گیا کہ طلبہ یونین کا مطلب سیاست نہیں بلکہ طلبا کی فلاح و بہبود ہے۔ نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق آج سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سےطلبہ یونین کی بحالی کے معاملے پر سماعت کی گئی، جس کی سربراہی  جسٹس امین الدین خان نے کی۔ سماعت کے دوران    جسٹس محمد علی مظہر کی جانب سے استفسار کیا گیا  کہ طلبا یونین پر پابندی کب اور کس مقصد کی بنا پر لگائی گئی۔ دوسری جانب سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل کا کہناتھا کہ سیاست اب بار کے الیکشن میں بھی آگئی ہے،سیاسی پارٹیوں کی جانب سےتعلیمی اداروں میں سیاسی ونگز بنا لیے گئےہیں۔ جسٹس حسن اظہر کاکہناتھاکہ حالیہ کراچی یونیورسٹی میں ہوئے تشدد کی بڑی وجہ طلبا یونین ہے۔طلبہ یونین کا مقصد طلبہ کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے نہ کہ ان سے  سیاست کو چمکایا جائے۔عدالت کی جانب سے طلبا یونین کی بحالی کے معاملےپر وفاق و متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری  کر دیے ہیں۔ خیال رہے کہ طلبا یونین پرلگی پابندی کو 32 برس بیت گئے ہیں، متعدد بار طلبا اور سیاست دانوں کی جانب سے کوششیں کی گئیں کہ طلبا یونین پر لگی پابندی کو ختم کیا جاسکے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں طلبا یونین کا وجود قیامِ پاکستان سے قبل کا ہے، قیامِ پاکستان کے لیے آل انڈیا مسلم اسٹودنٹس فیڈریشن نے طلباء کو متحرک کیا اور آزادی کے  لیے اپنا حقیقی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے قیام  کے بعد طلباء یونین کافی متحرک رہی،  1960 میں ایوب خان کے آمرانہ دور کے خلاف طلباء یونین کی طرف سے احتجاج کیے گئے ، جنھوں نے ایوب خان کی نااہلی میں اہم کردار اداکیا۔ طلبا یونین کی جانب سے ہر دور میں مزاحمت ہوئی، یہی وجہ تھی کہ 1984 میں طلبا کی حقوق کے خلاف تحریک سے تنگ آکر جنرل ضیاءالحق نے پابندی لگا دی۔ اس کے بعد   1989 میں محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ وزیرِاعظم بنیں تو طلبا یونین پر عائد پابندی  ختم کر دی گئی  ، لیکن سپریم کورٹ نے 1993 میں اس پر دوبارہ پابندی عائد کر دی ۔ طلبا سیاست نے ہمیشہ سیاسی رہنماؤں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان کی کئی معروف شخصیات نے اپنی زندگی کا آغاز طلبا یونین اور ان سرگرمیوں کے ذریعے کیا، جن میں احسن اقبال (پاکستان مسلم لیگ ن) ، لیاقت بلوچ ( جماعت اسلامی) جاوید ہاشمی (پاکستان مسلم لیگ ن)   فیصل میر ( پاکستان پیپلز پارٹی ) اور خوشحال خان کاکڑ (چیئرمین، پی کے این اے پی) شامل ہیں۔ جامعہ پنجاب لاہورطلبہ یونین کے سابق صدر لیاقت بلوچ    کا پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھاکہ طلبایونین طالب علموں  کا جمہوری حق ہے ۔ اگر مریم نواز تعلیمی درسگاہوں میں طلبہ کے ساتھ سیاسی خطاب کر سکتی ہیں   تو  ملک کے مستقبل  کا حق بنتا ہے کہ ان کے جمہوری حقوق فعال کیے جائیں۔ طلبا یونین کے فوائد بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر نوجوان نسل کو طالب علمی میں  سیاست میں موقع دیا جائے توان کی تربیت ہو گی اور مستقبل  میں وہ قابل سیاست دان بنیں گے جو ملک کی رہنمائی کریں گے۔ طلبا یونین کے سابق صدرکا کہنا تھا کہ طلبہ یونین کسی بھی سیاسی پارٹی کی پابند نہیں ہوتی ۔ اس کے علاوہ یونین کی جہاں ضرورت ہو اصلاح کی جائے۔یہ طلبا کا جمہوری حق ہے کہ وہ  ایک نظریےکی روشنی میں اپنے حق کےلیے کھڑے ہوں۔ دوسری جانب طلبا یونین پر پابندی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے حق میں آواز اٹھانے والے عمار جان کاپاکستان میٹرز  سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ طلبہ  یونینز کسی بھی ملک میں طالب علموں کا بنیادی حق ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں آمر جنرل ضیاء الحق نے اس حق کو ہمیشہ کے لیے نوجوان نسل سے چھین لیا ۔ جامعہ پنجاب لاہورکے ایک اورطالب علم محمد شعیب   کا پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ   طالب علموں کوسیاست میں  شامل ہونا چاہیے تاکہ  روایتی اور نسل در نسل  حکمرانوں سے ملک کو نجات ملے۔ یاد رہے کہ طلباء یونین پر پابندی سے قبل  جامعات اور کالجوں میں یونین کی صدارت کے لیےالیکشن کرائے جاتے تھے، مگر 1889 میں جنرل ضیاء الحق نے  طلبا یونین پر  پابندی عائد کر دی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب طلبا یونین پر عائد پابندی ہٹائی جائے گی اور اس کا مثبت یا کہ منفی اثر پڑتا ہے، اس کا فیصلہ وقت کرے گا

عمران خان اور القادر ٹرسٹ کیس: حقیقت کیا ہے؟

انسداد بدعنوانی  عدالت نے 17 جنوری  کو ملک کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے سابق وزیرِاعظم کو چودہ برس قید بامشقت جب کہ ان کی اہلیہ کو سات برس کی قید کی سزا سنائی۔کیس کا فیصلہ انسداد بدعنوانی کی عدالت کے اڈیالہ جیل میں عارضی کمرہ عدالت میں کیس کا فیصلہ کیا گیا اور  سابق وزیرِاعظم اور ان کی اہلیہ پربالترتیب 10 لاکھ اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں چھ ماہ مزید قید کی سزا کا بھی کہا گیا۔مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہوئی۔ واضح رہے کہ واض وایہ مقدمہ ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم القادر ٹرسٹ سے متعلق تھا، جو 2018 میں سابق وزیرِاعظم اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی زیرِسرپرستی میں قائم کیا گیا تھا۔ دوسری طرف القادر یونی ورسٹی پنجاب کے ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوا میں واقع ہے جس کا رقبہ 458 کنال ہے۔ اس کے بانیوں میں عمران خان اور ان کی اہلیہ شامل ہیں۔ 2019 میں  قائم ہونے والی ا س یونی ورسٹی کو عمران خان نےملک کو ریاستِ مدینہ  بنانے کی جانب پہلا قدم قرار دیاتھا۔  روحانی تعلیمات اور جدید علوم کے ملاپ کو فروغ دینے کےلیے اس یونیورسٹی کو قائم کیا گیا تھا۔  القادر یونیورسٹی اسلام آباد سے تقریبا 85 کلومیٹر دور جی ٹی روڈ پر ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں تعمیر کی گئی ہے اور یہ یونیورسٹی پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے جس کے ارگرد کوئی باقاعدہ آبادی نہیں ۔ خیال رہے کہ یہ یونیورسٹی القادر ٹرسٹ کے زیر انتظام چلتی ہے جس کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان ہیں جبکہ اُن کی بیوی بشری بی بی بورڈ آف ٹرسٹیز کی رُکن ہیں۔ دوسری جانب چند دنوں قبل وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کی جانب سے  دعویٰ کیا گیاکہ اس یونیورسٹی میں کوئی بھی طالبعلم زیر تعلیم نہیں ہے۔ غیر ملکی نیوز چینل بی بی سی کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ  یونیورسٹی میں 200 سے زائد طلبا زیرِتعلیم ہیں، جن کی اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے اور وہ ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے آئے ہیں۔  ان طلبا میں سے 90 فیصد طلبا اور طالبات اسکالر شپ پر یعنی مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ القادر یونیورسٹی میں  اسلامک سٹدیز اور مینیجمنٹ سٹدیز کے کورسز پڑھائے جاتےہیں۔ اس کے علاوہ یونی ورسٹی میں ایک ہاسٹل اور طلباء کی سہولت کے لیے کینٹین بھی موجود ہے۔ یاد رہے کہ القادر یونی ورسٹی  کیس اس وقت سامنے آیا جب  برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے یہ الزام لگایا کہ یونی ورسٹی کی زمین غیر قانونی طور پر دی گئی ہے۔ غیر ملکی ایجنسی نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض  کے ضبط شدہ 190 ملین پاونڈ پاکستانی حکومت کو دے دیے،   مگر دوسری جانب حکومت کے مطابق وہ روم ملک ریاض کو واپس کی گئی، جس کے بدلے میں یونی ورسٹی کی زمین القادر ٹرسٹ کے حوالے کی گئی۔   حکومتی عہدیداران کی جانب سے مؤقف اٹھایا گیا کہ یہ رقم پاکستانی خزانے میں جمع ہونی چاہیےتھی، جسے غیر قانونی طور پر  بحریہ ٹاؤن کے جرمانے کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا گیا۔ دوسری جانب عمران خان اور ان کی پارٹی ممبران ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں ۔  ان کے مطابق القادر یونی ورسٹی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کا مقصد طلباء کو جدید تعلیم سے روشناس کروانا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ کیس جھوٹے الزامات پر مبنی ہیں اور ان کو وجہ بناتے ہوئے میرے کردار کو بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ  القادر یونی ورسٹی کی موجودہ دستاویزات میں کئی خامیاں موجو ہیں جو کرپشن ہونے کا عندیہ دیتی ہیں۔ عدالتی حکم کے مطابق یہ معاملہ نہ صرف کرپشن بلکہ اعتماد کی خلاف ورزی کا بھی ہے، جہاں عوامی پیسے کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیاہے۔ معزز عدالت نے ثبوتوں اور گواہوں کو سامنے رکھتے ہوئےسابق وزیرِاعظم کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جب کہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ جرمانے کی سزا  سنائی۔  اس کے ساتھ ساتھ القادر یونی ورسٹی کو بھی حکومتی تحویل میں لینے کے آرڈر بھی جاری کیے۔ اس عدالتی فیصلے کے آنے کے بعد ملک میں پہلے کی طرح ایک بار پھرعوامی رائے دو حصوں میں تقسیم  ہوگئی۔ عمران خان کے حامیوں کی جانب سے عدالت کے اس فیصلے کو جمہوریت پر حملے کا نام دیا گیا، جب کہ  مخالفین کی جانب سے اسے احتساب کا عمل کہا گیا۔ القادریونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم طلباء کا پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگوکرتےہوئے کہناتھا کہ ایسے فیصلے سن کر وہ اپنی تعلیم اور مستقبل کے بارے میں افسردہ ہو جاتے ہیں۔  محمد سعد نامی ایک طالب علم نے بات چیت کرتے ہوئےکہا کہ اسے  اس یونی ورسٹی میں پڑھتے ہوئے تیسرا سال ہے اور اگر اب اس فیصلے کی وجہ سے اس کی  تعلیم پر کوئی اثر پڑتا ہے تو یہ اس کے لیے بہت برا ثابت ہوگا۔یونیورسٹی کے طلبا عدالتی فیصلے پر کہ یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے پر بے یقینی کا اظہار کررہے ہیں۔

انڈین کرکٹ ٹیم میں مایوسی؛ کینگروز سے شکست نے نامور کھلاڑیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھا دیا

حالیہ دنوں میں انڈین کرکٹ ٹیم  اپنے زوال میں نظر آئی، دورہ آسٹریلیامیں انڈین کرکٹ ٹیم کی کاردکردگی کافی متاثر کن رہی۔ کپتان روہت شرما سمیت بلےبازوں پر اس سیریز نے سوال اٹھا دیا۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے معروف بلےباز ویراٹ کوہلی بھی اپنا لوہا نہ منوا سکے اور ناکام لوٹ آئے، جس کے بعد شائقین کی جانب سے سوال اٹھایا گیا کہ کیا انڈین بلےبازوں کا اختتام ہوچکا ہے؟ اگلے مہینے آئی سی سی چیمپئن ٹرافی کھیلی جانی ہے اور اس وقت انڈین کرکٹ ٹیم کافی مایوس دکھائی دے رہی ہے۔انڈین کرکٹ میں گزشتہ کچھ مہینوں سے  عجیب سی خاموشی دیکھی گئی ہے،جو ٹیم ایک وقت میں کرکٹ کی دنیا میں حکمرانی کرتی تھی آج وہ اپنی حتمی جگہ تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔ دسمبر 2024 میں آسٹریلیا کے خلاف پانچ میچوں کی کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز  نے انڈین کرکٹ شائقین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔انڈیا کو سیریز میں ناقابلِ یقین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔آسٹریلین بالروں کے سامنے انڈین بیٹرز لڑکھڑاتے نظر آئے۔ ماضی میں  بارڈرگواسکر ٹرافی میں بھارت کا راج رہاہے، لیکن  اس بار انڈیا کی نہ صرف روایت ٹوٹی ہے بلکہ غرور بھی خاک میں مل گیا ہے۔اس سیریز میں نہ صرف بلے بازوں کی کارکردگی مایوس کن رہی،بلکہ بالر  بھی ناکام ثابت ہوئے۔پوری انڈین ٹیم میں واحدجسپریت بمرا  وہ کھلاڑی تھے جو کینگرووز کو پریشان کرنے میں کامیاب رہے۔ واضح رہے کہ اس سیریزمیں  ناکامی سے انڈیا نہ صرف بارڈرگواسکر ٹرافی ہاری ہے، بلکہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں بھی جگہ بنانے میں ناکام رہی ہے اور مسلسل تیسرا فائنل کھیلنے کا موقع گنوا بیٹھی ہے۔ کینگروز کے خلاف یہ تاریخی شکست انڈیا کے لیےڈراؤنا خواب ہے، اس سے قبل 2021 اور 2023 میں بھی انڈیا فائنل میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے ہار چکا ہے۔  موجودہ وقت میں انڈین کرکٹ میں مایوسی چھائی ہوئی ہے،جس کے اثرات صرف ٹیم کی کارکردگی پر نہیں بلکہ بڑے اور نامور کھلاڑیوں کے مستقبل پر بھی پڑ رہے ہیں۔ روہت شرما اور ویراٹ کوہلی کی کارکردگی ان دنوں سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے۔ روہت شرما نے آسٹریلیا کے خلاف تین ٹیسٹ میچز میں صرف 31 رنز بنائے، لگاتار خراب پرفارمنس کی وجہ سے وہ آخری میچ میں ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ دوسری جانب  ویراٹ کوہلی کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی اور وہ ایک روایتی اننگز کھیلتے نظر آئے۔انھوں نے 9اننگز میں 190 رنز بنائے مگر ان میں سے ایک اننگ میں  100 رنز آئےجبکہ باقی میچز میں ان کے آؤٹ ہونے کےپیٹرن نے ان کی تکنیکی خامیوں اورذہنی تھکاوٹ پر سوال کھڑا کیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی کرکٹ کے اسٹار کنگ کوہلی نے 2020 کے بعد سے اب تک صرف دو سنچریاں بنائی ہیں جبکہ ان رنز اوسط  32 تک گر چکی ہے۔کبھی  وہ انڈین کرکٹ کی سب سے بڑی امید سمجھے جاتے تھے،لیکن ان کی کارکردگی میں اتنی تیزی سے کمی آئی ہے کہ اب ان کے لیے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ اس وقت انڈین کرکٹ کے بیٹنگ لائن اپ میں ایک بڑا خلا نظر آ رہا ہے۔ شبھمن گل، جنہیں انڈیا کا اگلا بڑا بلے باز سمجھا جا تا ہے وہ بھی بیرون ممالک میں جدوجہد کرتے نظر آئے ہیں۔ دوسری جانب انڈین بلے بازکے ایل راہول میں مہارت تو ہےمگر وہ مسلسل بڑی اننگز کھیلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، جب کہ  رشبھ پنت ایک سنسنی خیز بلے باز ہیں جو میچ جتوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بعض اوقات میچ پریشر کی وجہ سے انکی پرفارمنس بھی خراب نظر آنے لگتی ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب کے نوجوان بائیں ہاتھ کے بلے باز ابھیشیک شرما کواب  ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ہی نتیش کمار ریڈی نے آسٹریلیا میں اپنے ڈیبیو پر بے خوف کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم ان سب کے باوجود انڈیا کو ایک نئے کوہلی یا شرما کی ضرورت ہے جو کرکٹ کے میدان میں ثابت قدمی اور تسلسل کے ساتھ اس ٹیم کو کامیابی کی راہ پر لے جائے۔ بیٹنگ کے بعد اگر باؤلنگ کودیکھا جائے تو انڈین ٹیم کا سب سے بڑا اثاثہ جسپریت بمرا ہیں جو ایک نسل میں ایک بار پیدا ہونے والے بولر ہیں۔ مگر ان پر مسلسل اضافی دباؤ ڈالنا ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے یہ صاف ظاہر  ہوا ہے کہ اگر بمرا پر زیادہ بوجھ ڈالا گیا تو ان کے لیے انجریز کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے جو انڈیا کے فاسٹ بولنگ اٹیک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ دوسری جانب محمد شامی کے سلسلے میں بھی احتیاط برتنی ضروری ہےکیونکہ یہ دونوں فاسٹ بولرز جدید کرکٹ کی سب سے مضبوط جوڑیوں میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف حالیہ شکستوں کے بعد انڈین کرکٹ بورڈ بھی اس صورتحال کا فوری حل تلاش کر رہا ہے۔ سلیکٹرز کو ہدایت دی گئی ہیں کہ وہ 23 جنوری سے شروع ہونے والے ڈومیسٹک رانجی ٹرافی کے دوسرے راؤنڈ میں ممکنہ ٹیسٹ کھلاڑیوں کو شارٹ لسٹ کریں۔ ممکن ہے کہ روہت شرما اور وراٹ کوہلی سمیت تمام کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کے لیے کہا جا ئے تاکہ وہ اپنی فارم بحال کر سکیں۔انڈین کرکٹ میں اب روہت شرما اور وراٹ کوہلی کا مستقبل ان کی موجودہ فارم پر منحصر ہے۔ دوسری جانب دونوں کھلاڑیوں کو اگلے ماہ میں ہونے والی آئی سی سی  چیمپئن ٹرافی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ایونٹ میں ان کی کاردکردگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ ان کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ تو ان کی کاردکردگی ہی بتائے گی کہ وہ آگے انڈیا کےلیے کھیل سکتے ہیں یا پھر انڈیا کو ایک نئے کوہلی اور روہت کو ڈھونڈھنا ہوگا۔

میرا برینڈ پاکستان“ شاندار نمائش پاکستانی کی خدمات پاکستانی کے لیے

#pakistanbrands, #pakistanmatters #localbrands

آجکل کی نسل میں برینڈ کا بہت زیادہ تعصب پایا جات ہے ، جسے سنو وہ ایک نئے برینڈ کا تذکرہ کرے گا ۔ اگر غیر ملکی برینڈ کا پاکستان میں بائیکاٹ کیا جائے تو مقامی مصنوعات کی قدر میں اضافہ ہو جائے گا۔ اسی مقصد کے لیے کراچی میں” میرا برینڈ پاکستان ” کے نام سے پاکستان بیزنس فورم کے تعاون سے 2 روزہ نمائش ایکسپو سنٹر کراچی میں جا رہی ہے۔ ہفتہ کے روز جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے اس 2 روزہ نمائش کا ایکسپوسنٹر کراچی میں افتتاح کیا۔ نمائش کے افتتاح کے موقع پرامیر جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جاوید بلوانی ،جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم، امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفرخان،،صدر پاکستان بزنس فورم کراچی چیپٹر سہیل عزیز،جنرل سیکرٹری عامر رفیع،سینئر نائب صدرفیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ثاقب فیاض مگوں و دیگر بھی موجود تھے۔ اس دفعہ نمائش میں پاکستان کے 500 برینڈز نے حصہ لیا ہے ، جن کے 400 اسٹالز لگائے گئے ہیں، جبکہ گزشتہ سال یعنی کہ 2024 میں میرا برینڈ پاکستان میں 200 اسٹالز لگائے گئے تھے۔ میرا برینڈ پاکستان کا مقصد پاکستانی صنعتوں کی مہارت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی اشیاء کو عالمی سطح پر فروغ دینا ہے۔ ملک کی اقتصادی ترقی کو نئی جہت نیا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تا کہ پاکستانی کاروباری، سرمایہ کار اور جدت پسندوں کو اپنی مصنوعات اور خدمات کو فروغ دینے کے لیے ایک موقع ملے وہ اپنے آپس کے تعاون کو فروغ دیں۔ نمائش”میرا برینڈ پاکستان ” میں چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کے لیے شاندار موقع ہے جس میں وہ اپنے برینڈ کو ایک بڑے پلیٹ فارم کے ذریعے لوگوں تک متعارف کروا سکتے ہیں۔ یہ چھوٹے کاروبار سے منسلک افراد کے لیے مارکیٹنگ کا اہم موقع ہے۔ کراچی ایکسپو سنٹر میں جاری نمائش میں ہزاروں شہریوں نے شرکت کی ۔ شہریوں نے غیر ملکی برینڈ کو خریدنے کی بجائے پاکستانی برینڈز کو ترجیع دی اور اس نمائش کے حوالے سے شہریوں نے پاکستان میٹرز کے ساتھ اپنے مثبت تجربات شئیر کیے ہیں

‘امریکا سب سے پہلے ہو گا’ وائٹ ہاؤس پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے

ڈونلڈ ٹرمپ پیر کو لیے گئے حلف کے بعد مجموعی طور پر امریکا کے 47ویں صدر بنے ہیں۔ وہ دوسرے ایسے صدر ہیں جو پہلی مدت کے بعد صدارتی انتخابات ہار گئے مگر پھرجیت کروائٹ ہاؤس واپس آئے ہیں۔ حلف برداری کے بعد اپنی گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ہر فیصلہ کے وقت امریکا کو پہلے رکھیں گے۔ ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں فار گرانٹڈ لے۔ آج ہم مختلف مسائل کی وجہ سے بحران کا شکار ہیں، گھر پر مسائل کا شکار اور باہر بھی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ ہم نے غیرمعمولی فنڈز بیرونی بارڈرز کے لیے دیے مگر اپنی سرحدوں اور لوگوں ک دفاع نہیں کر سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ طوفانوں اور آگ کا شکار امریکی ریاستیں پریشانی کا شکار ہیں۔ آج بہت سے مالدار لوگوں گھروں تک سے محروم ہیں۔ ہم ایسے نظام تعلیم میں رہ رہے ہیں جو ہمارے بچوں کو خود پر شرمندہ ہونا سکھا رہا ہے لیکن یہ آج سے ہی تبدیل ہونا شروع ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ میرے انتخابی نتائج نے ایک دھوکے کو ختم کرکے لوگوں کو ان کی آزادیاں واپس لوٹائی ہیں۔ اس لمحے سے امریکا کی تنزلی کا سفر ختم ہو گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اب امریکا کے عروج کو کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ میں گزشتہ آٹھ برسوں میں جتنا آزمایا گیا اتنا امریکی جمہوریت کے 250 برسوں میں کوئی نہیں آزمایا گیا۔ شدید سردی اور برفباری کے باعث صدارتی حلف برداری کی تقریب کیپیٹل ہل کے روٹنڈا ہال میں منعقد کی گئی جب کہ کیپیٹل ون ایرینا کے باہر ٹرمپ کے حامی بڑی تعداد میں موجود رہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جاہن رابرٹس نے ڈونلڈ ٹرمپ سے حلف لیا۔ امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں سابق صدر باراک اوباما، بل کلنٹن، ان کی اہلیہ ہیلری کلنٹن، سابق صدر جارج بش اور اہلیہ لارا بش سمیت ماضی کی متعدد حکومتی شخصیات موجود رہیں۔ البتہ باراک اوباما کی اہلیہ مشال اوباما تقریب میں شریک نہیں ہوئیں۔ سوشل پلیٹ فارم ایکس اور سیٹلائٹ کمپنی اسٹارلنک کے مالک ایلن مسک، ارب پتی جیف بیزوس، گوگل کے چیف ایگزیکٹو افسر، ایپل کے چیف ایگزیکٹو افسر سمیت کارپوریٹ امریکا کی نمائندگی کرنے والے متعدد افراد سمیت سینیٹرز، قانون سازوں سمیت تقریبا 700 افراد تقریب میں شریک رہے۔ حلف برداری سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کی رخصت ہونے والے صدر جوبائیڈن سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد انہوں نے ایک دعائیہ تقریب میں بھی شرکت کی۔ آج سے ٹھیک چار برس قبل جب ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت جوبائیڈن کی انتخابی جیت کی وجہ سے ختم ہوئی تو ٹرمپ نے روایت کے برخلاف اس وقت منتخب ہونے والے بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی تھی۔

حماس کا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ: اسرائیلی خواتین کو رہائی کے وقت تحائف سے نوازا

غزہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے،جنگ بندی معاہدے کےپہلے مرحلے میں قیدیوں کی رہائی اور ان کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے مطابق حماس انتظامیہ کی جانب سےتین اسرائیلی خواتین قیدیوں کو باعزت طریقے سے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیاگیا ہے۔ حماس کی جانب سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی خواتین قیدیوں کو تحائف دیے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرتے وقت حماس کی جانب سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا گیا۔ حماس کی جانب سے رہا کی گئی خواتین قیدیوں کو تحائف  دئیے گئے،جنھیں اسرائیلی خواتین نے مسکراتے ہوئے قبول کر لیے۔تحائف میں گریجویشن کی سند، عربی زبان کا سرٹیفیکیٹ، فلسطین کا نقشہ، قید کےدوران کی تصاویر شامل ہیں۔ حماس کی قید میں موجود تین خواتین میں سے دو اسرائیلی شہریت رکھتی تھیں، جب کہ ایک دوہری شہریت رکھنے والی برطانوی واسرائیلی شہری تھی۔ حماس کی قید میں 23 سالہ رقاصہ رومی جونین، 30 سالہ دورون شطنبرخر اور 28 سالہ برطانوی نژاد ایمیلی دماری تھیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کوان کی مکمل جسمانی اور نفسیاتی حالت میں دکھایا گیا ہے، جب کہ فلسطینی قیدیوں پر تھکن کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ مزاحمت کی اقدار اور اخلاقیات اور قبضے کی بربریت اور فاشزم کے درمیان گہرے تضاد کو واضح طور پر اجاگر کرتا ہے۔ حماس کی قید میں رہنے والی 23 سالہ اسرائیلی قیدی رقاصہ رومی جونین کو تنظیم نے نووا میوزک فیسٹیول پر حملے کے دوران حراست میں لیا تھا۔حملے کے بعد وہ کئی گھنٹے تک چھپی رہی تھیں جبکہ کئی اسرائیلی اس کے سامنے ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کے دوران اپنے خاندان والوں سے فون پربات کرتے ہوئے رومی جونین کا کہنا  تھا کہ وہ آج ماری جائے گی۔  آخری بات جو اس کے اہلِ خانہ نے سنی  وہ عربی زبان میں حملہ آوروں کی تھی جو کہہ رہے تھے کہ لڑکی زندہ ہےاور اسے  ساتھ لے جانا چاہیے۔ کچھ دن بعد میں اس کا فون غزہ میں ایک جگہ سے ملاتھا۔ حماس کی قید میں رہنے والی دوسری اسرائیلی قیدی 30  سالہ دورون شطنبرخر تھی ، جوجانوروں کے صحت کے شعبے میں نرس کے طور پر کام کرتی تھی۔ اسے غزہ سے متصل کبوتز کفرازا نامی علاقے سے حراست میں لیا گیا۔ واضح رہے کہ  یہ وہی علاقہ ہے جو حماس کے القسام بریگیڈ کے حملے کا سب سے زیادہ نشانہ بنا تھا۔ اسرائیلی خاتون قیدی  نے  حراست میں لیے جانے سے قبل  فون پر گھر والوں  کو بتایا تھا کہ وہ خوفزدہ ہے اور مسلح حملہ آور بلڈنگ کے قریب پہنچ گئے ہیں اور وہ کسی بھی وقت گرفتار ہوسکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس  نے اپنی دوستوں کو ایک وائس میسج بھیجا  اور اپنے گرفتار ہونے کی خبر دی۔ تیسری اسرائیلی قیدی 28  سالہ برطانوی نژاد ایمیلی دماری تھی، اسےبھی کبوتز کفرازا کے علاقے سے  گرفتار کیا گیا تھا۔ایمیلی کی پرورش لندن میں ہوئی اور وہ فٹبال ٹیم کے کھلاڑیوں کی فین ہے۔  ایمیلی کی والدہ کا کہنا تھا  کہ ایمیلی کے ہاتھ پر گولی لگی جس سے وہ زخمی ہوگئی، پھر اس کی ٹانگ کو چھری سے زخمی کیا گیا اور آنکھوں پر پٹی ڈال کر کار کی ڈگی میں غزہ لے جایا گیا۔ دوسری جانب حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے کے تحت  اسرائیلی جیلوں سے گزشتہ شب 90 فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کیا گیا، جن میں فلسطینی صحافی رولا  حسنین بھی شامل ہیں۔فلسطینی صحافی  جب قیدیوں کی بس سے اتریں تو ان کی ڈیڑھ سالہ بیٹی ایلیا ماں سے ملاقات کی منتظر تھی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر  ماں اور بیٹی کی ملاقات کے جذباتی مناظرتیزی سے وائرل ہورہے ہیں۔ واضح رہے کہ رولا حسنین کو مارچ 2024 کو اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر بیت لحم سے گرفتار کیا تھا، قید کے وقت اس کی بیٹی صرف 9 ماہ کی تھی۔ فلسطینی صحافی پر سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے اشتعال پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور اسرائیلی عدالت نے ان کی درخواست ضمانت بھی خارج کردی تھی۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کے غزہ سےانخلا کے بعد حماس  پولیس نےغزہ سمیت مقبوضہ علاقوں کا کنٹرول ہاتھوں میں لےلیا ہے ۔ حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  اسرائیل پر بھی معاہدے کی پاسداری کے لیے زور دیا جائے۔ یہ بات ذہن نشین کر لی جائے کہ اسرائیل کی جانب سے خلاف ورزی پورے عمل کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ غزہ پر جب بھی قبضے کی کوشش کی جائے گی ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ معاہدے کو اپنی تاریخی کامیابی قرار دے دیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ  جوبائیڈن انتظامیہ جو کام چار سال میں نہیں کرپائی، وہ انہوں نے تین ماہ میں کر دکھایا ہے۔ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس کے ساتھ ہی کیتھولک مسیحیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم کیا ۔ فریقین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین سیاسی حکام جلد دوریاستی حل تک بھی پہنچیں گے۔انھوں  نے زور دیتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین غزہ معاہدے کا احترام کریں۔ واضح رہے کہ حماس نےغزہ پر کنٹرول برقرار رکھنے کی حکمتِ عملی پرپیرا عمل ہونا شروع کردیا ہے۔حماس پولیس سرنگوں سے نکل کر غزہ کا کنٹرول سنبھال رہی ہے۔عرب میڈیا کے مطابق حماس کی پولیس دوبارہ منظم ہوتی اور غزہ کا انتظام سنبھالتی نظر آرہی ہے۔ دوسری جانب حماس کا کہناہے کہ جنگ بندی معاہدے کے احترام کے لیے پُرعزم ہیں۔  ثالث کاروں پر زور دیتے ہوئے حماس نے کہا ہےکہ اسرائیل کو معاہدے کی پاسداری کا پابند کریں۔ یاد رہے کہ 16 جنوری کو حماس اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا کہ جنگ بندی کا نفاذ 19 جنوری سے ہوگا۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اکتوبر 2023 سےشروع ہونے  والی اس جنگ میں 46707 سے زائد افراد جاں بحق جب کہ 1 لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں کثیر تعداد

گوادرایئرپورٹ کاافتتاح: پاکستان کی ترقی کی پرواز کا آغاز

نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاح،پہلی کمرشل پرواز نے پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے میں نیا سنگ میل عبور کیا ہے جو گوادر کو عالمی تجارتی اور سیاحتی مرکز بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ جب20جنوری 2025 کو پہلی کمرشل پرواز کامیابی کے ساتھ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈ کر گئی۔ اس پرواز نے نہ صرف پاکستان کی فضائی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل کیا بلکہ گوادر کو عالمی، تجارتی اور سیاحتی مرکز بنانے کی راہ بھی ہموار کر دی ہے۔ پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی (پی اے اے) نے اس کامیاب پرواز کی خبروں کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ پی آئی اے کی پرواز PK-503،جو کراچی سے صبح 9:50 بجے روانہ ہوئی،اس پرواز نے 46 مسافروں کو لے کر گوادر کے جدید ایئرپورٹ پر 11:15 بجے کامیابی سے لینڈ کیا۔ اس کامیاب لینڈنگ سے پاکستان کا ہوا بازی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہوا ہے کیونکہ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی مکمل آپریشنلائزیشن کے ساتھ پاکستان کی فضائی صنعت نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔ وزیر دفاع و ہوا بازی خواجہ محمد آصف جو اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے،انہوں نے گوادر ایئرپورٹ پہنچ کر اس تاریخی پرواز کا آغاز کیا۔ ان کے ہمراہ گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی بھی موجود تھے۔ خواجہ آصف نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پاکستان کی اقتصادی ترقی، علاقائی سیاحت، اور عالمی  رابطوں کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم قدم ہے”۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس بات پر زور دیا کہ گوادر ایئرپورٹ کی کامیابی سے گوادر عالمی تجارتی، سیاحتی اور اقتصادی مرکز بننے کی سمت میں ایک بڑا قدم اٹھا رہا ہے۔اس ایئرپورٹ میں موجودہ جدید انفراسٹرکچر اور سہولتیں گوادر کو ایک اہم عالمی شہر بنانے میں معاون ثابت ہوں گی۔ ایئرپورٹ کے افتتاح میں شرکت کرنے والے دیگر معزز مہمانوں میں ڈائریکٹر جنرل ایئرپورٹس سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) میجر جنرل عدنان، ڈائریکٹر جنرل پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی (پی اے اے) ایئر وائس مارشل ذیشان سعید، جی او سی 44 ڈویژن میجر جنرل عدنان سرور ملک، پاک بحریہ کے ریئر ایڈمرل عدنان، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایئرپورٹس صادق الرحمٰن، اور ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمٰن شامل تھے۔ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا  منصوبہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے جس کی تکمیل پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو رہی ہے۔ اس ایئرپورٹ کی منفرد خصوصیات میں 3.6 کلومیٹر طویل رن وے شامل ہے جو بوئنگ 747 اور ایئربس  (A380) جیسے بڑے طیاروں کو سہولت فراہم کرتا ہےجبکہ جدید ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم اور نیویگیشنل ایڈز کی سہولت موجود ہے ۔ اس کے علاوہ مسافروں کی سہولت اور سیکیورٹی کے لیے جدید ترین انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی خصوصیات فراہم کی گئی ہیں۔ یہ ایئرپورٹ تقریباً 4,300 ایکڑ کے رقبے پر قائم ہے اور اس کی سالانہ گنجائش 4 لاکھ مسافروں کی ہے۔ اس کی مکمل لاگت تقریباً 246 ملین امریکی ڈالر ہے جو حکومتِ پاکستان، پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹیPIA))، سلطنتِ عمان کی گرانٹ اور حکومتِ چین کی گرانٹ سے فراہم کی گئی ہے۔ یہ ایئرپورٹ سی پیک کی کامیابی کی علامت ہے جو نہ صرف پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے بلکہ پورے خطے میں تجارت اور ترقی کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ” یہ منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دوستی اور تعاون کا ثبوت ہے۔” پہلی کمرشل پرواز کی کامیاب لینڈنگ کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کامیابی میں حصہ لینے والے معزز مہمانوں کو اعزازات پیش کیے۔ ان میں وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی، گورنر جعفر خان مندوخیل، سیکریٹری ایوی ایشن منگی، سی ای او پی آئی اے ایئر وائس مارشل عامر حیات، اور متعدد دیگر حکومتی اور فوجی اہلکار شامل تھے۔ یہ کامیابی پاکستان کے ہوا بازی کے شعبے کے لیے ایک شاندار قدم ہے جو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا مقام مضبوط کرے گا۔

امن معاہدہ بھی کرم اورپارا چنار میں سکون نہ لاسکا،ایک بار پھر حالات خراب

پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا ایک عرصے سے بدامنی کا شکارہے،کرم اورپاراچنارتو’امن معاہدوں‘کے باجود بدامنی میں گھرا ہے،نومبر 2024 میں شروع ہونے والی قتل وغارت کی لہر ابھی تک نہیں تھم سکی،تاریخی طور پر یہ علاقے ایسے کئی واقعات سہہ چکے ہیں جن میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں،مگر 21 نومبر2024 کو ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ جھڑپ ہوئی۔ اس جھڑپ میں کم از کم 76 لوگ جاں بحق ہوئے باقی علاقوں  کو کرم سےملانے والی پارا چنار کے مقام پر اکلوتی سڑک آج ایک سو گیارویں دن بھی ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے جس کی وجہ سے  کرم کے مختلف علاقوں میں ضرورت کی چیزوں کی قلت ہے اور لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ راستوں کی بندش کی وجہ سے ادویات کی کمی پیدا ہوئی ہے۔ خبر رسانںادارے ڈیلی پاکستان کے مطابق اب تک 157 بچے جان سے جا چکے ہیں۔ 31 دسمبر کودونوں فریقین کے قبائلی رہنماؤں کاکے  حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں  امن معاہدہ طے پایا۔ کوہاٹ میں منعقدہ اس گرینڈ جرگے میں دونوں فریقین کے 45، 45 نمائندیں شامل تھے جنہوں نے معاہدے پر دستخط کیے۔ معاہدے کے نکات میں اسلحہ جمع کرانا، شاہراہوں کی حفاظت، فرقہ وارانہ جھڑپوں  کا خاتمہ، امن کمیٹیوں کا قیام، اور کالعدم تنظیموں کی حوصلہ شکنی شامل ہیں۔ لیکن اب تک اس معاہدے کی کئی مرتبہ خلاف ورزی کی جا چکی ہے جس میں دونوں فریقین کے درمیان کئی مرتبہ جھڑپیں ہوئی ہیں اور  کئی لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ ضلع کرم میں دفعہ 144 نافذہے جس کے مطابق اسلحے کی نمائش اور 5 سے زائد افراد کا اکٹھے جمع ہونا منع ہے۔ 4 جنوری کو کرم کے علاقے بگن میں ڈپٹی کمشنر کی گاڑی پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود سمیت 7 افراد زخمی ہوئے۔ اسی طرح16 جنوری کو ٹل سے پاراچنار کی طرف جانے والے قافلے پر راکٹ سے حملہ کیا گیا۔ اس قافلےے میں 35 گاڑیاں شامل تھیں جو اشیائے خوردنوش لے کر جا رہی تھیں۔ کرم اور پاراچنار کے علاقوں میں ایسی جھڑپیں معمول بن چکی ہیں۔ در حقیقت ان علاقوں میں اہل سنت اور اہل تشیع دونوں طرح کے گروہ رہتے ہیں۔ اہل تشیع افراد افغانستان کی سرحد کے ساتھ جب کہ اہل سنت پاکستان کی جانب اس سے پہلے آتے ہیں۔ اہل تشیع افرادکو پاکستان کے باقی علاقوں سے ملانے والی سڑک صرف ایک ہے لیکن پارا چنار کے مقام  پر اس سڑک پر  اہل سنت افراد رہتے ہیں۔ جب بھی دونوں فریقین کے مابین کوئی جھڑپ ہوتی ہے تو اس سٹک کو بند کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے باقی علاقوں تک کھانا، پیٹرول، ادویات اور باقی اشیا پہنچ نہیں پاتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے اشیائے خوردنوش کی ترسیل کے لیے پولیس اور رینجرز کی حفاظت میں کئی مرتبہ ٹرک بھیجے جا چکے ہیں۔ لیکن مندری کے مقام پر جاری دھرنے کی وجہ سے کچھ ٹرک  ابھی تک کرم میں نہیں پہنچ پائے۔ خبر رساں ادارے ڈاون نیوز کے مطابق لوگوں کی مشکلات کم کرنے کے لیے کم از کم 500 ٹرک  مزید چاہیے ہیں۔ مقامی آبادی کو تحفظ اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ علاقے میں امن و امان کی بحالی  جلدممکن ہو سکے۔

انڈر19 ورلڈ کپ:اپ سیٹ شکست نے نیوزی لینڈ کی خواتین کو رلا دیا

خواتین کا عالمی کپ شائقین کرکٹ کے لیے اس وقت دلچسپ ہوگیا جب نائیجیریاکی ٹیم نے نیوزی لینڈ کو صرف دو رنز سے اپ سیٹ شکست دے دی ۔ ویمنز انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ میں نائیجیریا نے نیوزی لینڈ کو بارش سے متاثرہ میچ میں شکست دی،میدان گیلا ہونے کے باعث کھیل صرف 13 اوورز تک محدود کر دیا گیا تھا، اور اس مختصر وقت میں جو کچھ ہوا، وہ کرکٹ کی دنیا کے لیے ایک جھٹکا تھا۔ نائیجیریا کی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کپتان پیٹی لکی اور لیلین اُدے کی ذمہ دارانہ بلے بازی کی بدولت 6 وکٹوں پر 65 رنز کا مجموعہ بنایا۔ ان کی اس پوزیشن نے نیوزی لینڈ کو ایک مشکل ہدف دے دیا، اور جب کیویز کا آغاز ہوا تو وہ انتہائی دباؤ کا شکار نظر آئیں۔ پہلا دھچکا نیوزی لینڈ کو کیٹ ارون کی پہلی گیند پر رن آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی لگا۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم کی بلے بازوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور11 اوورز کے اختتام پر ان کے صرف 49 رنز بنے۔ نیوزی لینڈ کو جیتنے کے لیے آخری 6 گیندوں پر 9 رنز درکار تھے، لیکن اس کے باوجود کیوی خواتین اپنی ہمت یکجا نہ کرسیکں اور صرف 6 رنز ہی بنا سکیں۔ یوں نائیجیریا نے تاریخی  فتح حاصل کی اور کیویز کو دو رنز سے شکست دے کر اپنی پہلی جیت کا جشن منایا۔ یہ میچ نہ صرف نائیجریا کی فتح کے طور پریاد رکھا جائے گا بلکہ اس میں نیوزی لینڈ کی کھلاڑیوں کے آنسو بھی دنیا یاد رکھے گی ۔