ٹرمپ نے اپنے نام سے کرپٹو کرنسی کا آغاز کر دیا؟

نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ سے منسلک ایک کریپٹو کرنسی نے اپنے آغاز کے تین گھنٹوں کے اندر 8 بلین ڈالر مارکیٹ ویلیو کو بڑھا دیا، جس نے کرپٹو کمیونٹی میں جوش و خروش اور شکوک و شبہات کے ملاپ کو جنم دیا۔ ٹوکن، جس کا نام آفیشل ٹرمپ ہے، جمعہ کو ٹرمپ کے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر اعلان کیا گیا، جہاں صارفین کو اسے حاصل کرنے کے لیے گیٹ ٹرمپ میمز نامی ویب سائٹ پر ہدایت جاری کی۔ اسی طرح کا ایک اعلان بعد میں ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر کیا گیا، جس میں ٹوکن کو سرکاری سکے کے طور پرظاہر کیا گیا۔ گیکو ٹرمینل کے اعدادوشمارکے مطابق، بلاک چین سرگرمی نے ٹریڈنگ کے پہلے تین منٹوں میں ٹرمپ سکے کی قدر میں 3سوفیصد سے زیادہ اضافہ دکھایا، جس کا حجم 1 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ پریس ٹائم تک، ٹوکن 8.5 ڈالرپر ٹریڈ کر رہا تھا۔ تاہم، سکے کے اصل ہونے پر تشویش تیزی سے پیدا ہوئی۔ سائگار، ایک بلاک چین انجینئر، نے نشاندہی کی کہ ٹوکن کا بنیادی ڈھانچہ ٹرمپ کے پہلے کے این ایف ٹی پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ایک ہی کلوؤڈ فیئر سیٹ اپ، ہیروکو کے ساتھ ایک ہی تعیناتی، ویسے ہی ایس ایس ایل سرٹیفکیٹ جاری کرنے والا،” انہوں نے تجویز کیا کہ” دونوں منصوبوں کے پیچھے ایک ہی ٹیم ہوسکتی ہے”۔ ٹرمپ کے ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ نے اس راز میں اضافہ کرتے ہوئے کچھ ہی دیر بعد سکے کے معاملے سےایک غیر متعلقہ اعلان پوسٹ کیا، جس میں پیگی شوِن کو امریکی نائب وزیرِ تعلیم کے طور پر مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد اکاونٹ کے ممکنہ ہیک کی قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا، سائبر سیکیورٹی کے ماہرین نے احتیاط کی تاکید کی۔ سوالات کے باوجود، پلیٹ فارم کے کور ورکنگ گروپ کے رکن سلورگ کے مطابق، ٹوکن کی تصدیق ہو چکی ہے اور اسے جیوپیٹر ایکسچینج پر درج کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے صارف کی آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، “ہم نے اسے جیوپیٹر کی خاص فہرست میں منظور کر لیا ہے۔” 2024 کی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے “فائٹ، فائٹ، فائٹ” کے نعرے سے متاثر ہو کر، ٹرمپ ٹوکن کو 1 بلین یونٹس کی فراہمی کے ساتھ لانچ کیا گیا، جس میں سے 200 ملین فوری طور پر دستیاب کرائے گئے۔ باقی سپلائی تا حال بند ہے، جو تین سالوں میں جاری کی جائے گی۔ $TRUMP کے ارد گرد ہونے والی بحث سیاست اور کرپٹو کرنسی کے غیر متوازن رابطے کو نمایاں کرتی ہے، جس میں ٹرمپ کا نام بلاک چین مارکیٹوں میں مسلسل توجہ حاصل کر رہا ہے۔ تاحال نا تو ٹرمپ کی مہم اور نہ ہی ان کے نمائندوں نے ٹوکن کی قانونی حیثیت پر بات کرنے کی درخواستوں کا جواب دیا ہے۔ اس پروجیکٹ کا موازنہ پہلے ہی ٹرمپ کے این ایف ٹی سے کیا جا رہا ہے ، جس نے گزشتہ سال کافی ترقی حاصل کی تھی۔ تجزیہ کار سرمایہ کاروں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ ٹوکن کی اصل کے ارد گرد جاری غیر یقینی صورتحال کے درمیان چوکس رہیں۔
نئے امریکی صدر کے آتے ہی ٹک ٹاک بحال

چین کی ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک نے ایک دن کی بندش کے بعد دوبارہ اپنی خدمات شروع کر دیں۔ اس کی وجہ وہ متنازعہ قانونی آرڈر تھا جس کے تحت امریکا میں اس ایپ کو بند کر دیا جانا تھا لیکن نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک غیر متوقع قدم نے اس پر لگائی گئی پابندی کو مؤخر کر دیا جس کے بعد ٹک ٹاک نے فوری طور پر اپنی خدمات بحال کر دیں۔ یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب ٹک ٹاک نے اپنے صارفین کو ایک پاپ اپ پیغام کے ذریعے بتایا کہ ایپ دوبارہ فعال ہو چکی ہے اور اس میں ٹرمپ کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا۔ اس پیغام میں کہا گیا کہ “ہم نومنتخب ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ضروری وضاحت فراہم کی اور اس بات کا یقین دلایا کہ ہم امریکا میں ٹک ٹاک کا مستقبل محفوظ رکھیں گے۔” صدر ٹرمپ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہاتھا کہ”میں تمام کمپنیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ٹک ٹاک کو بند نہ ہونے دیں! میں پیر کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے جا رہا ہوں تاکہ اس قانون کو مزید وقت مل سکے اور ہم قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایک معاہدہ کر سکیں۔” اتوار کو واشنگٹن میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ٹک ٹاک کو بچانے کی ضرورت ہے۔ امریکا کوٹک ٹاک کی نصف ملکیت حاصل کرنی چاہیے۔ٹک ٹاک کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کھربوں ڈالرتک پہنچ سکتی ہے۔ بڑے AI پلانٹس کی اجازت کے ایمرجنسی اختیارات استعمال کریں گے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ٹرمپ نے خود ٹک ٹاک کے بند ہونے کی حمایت کی تھی مگر حالیہ دنوں میں انہوں نے اس ایپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر اس وقت جب ان کے انتخابی مہم کے دوران ٹک ٹاک پر ان کی ویڈیوز نے اربوں ویوزحاصل کیے۔ ٹرمپ کا یہ اقدام ایک غیر متوقع موڑ تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے پر اپنا موقف تبدیل کر چکے ہیں۔ دوسری طرف امریکی سپریم کورٹ نے بھی اس قانون کو حمایت فراہم کی تھی جس کے بعد ٹک ٹاک کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ وہ کس طرح اس قانون کو نظر انداز کر کے اپنی خدمات جاری رکھ سکے گا۔ تاہم اس کے بعد ٹرمپ نے کمپنیوں کو اس بات کی ضمانت دی ہے کہ وہ ٹک ٹاک کی خدمات کو دوبارہ فعال کرنے میں کوئی قانونی مشکلات کا سامنا نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود یہ سوالات بھی موجود ہیں کہ آیا ایگزیکٹو آرڈر اس قانون کو مکمل طور پر غیر مؤثر بنا سکتا ہے یا نہیں۔ یونیورسٹی آف رچمنڈ میں قانون کے پروفیسر کارل ٹوبیاس نے’بی بی سی‘سے بات کرتے ہوئے کہا ہےکہ’اس بارے میں ابھی تک واضح صورتحال نہیں ہےاور یہ کہ یہ معاملہ عدالتوں میں بھی جا سکتا ہے،۔ ان کے مطابق ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے قانون کی رکاوٹوں کو مؤخر کرنا ممکن ہے مگر اس بات کا تعین ابھی باقی ہے کہ آیا اس کے قانونی نتائج کیا ہوں گے۔ ٹک ٹاک کے لیے ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کی کئی ریاستوں نے ایپ کے خلاف مقدمات دائر کر رکھے ہیں، اس کے علاوہ گوگل اور ایپل جیسے پلیٹ فارمز پر ٹک ٹاک کی موجودگی ابھی تک غیر یقینی ہے کیونکہ یہ دونوں کمپنیاں اس قانون کے تحت اپنی ایپ اسٹورز سے ٹک ٹاک کو ہٹانے کی تیاری کر چکی تھیں۔ امریکا میں ٹک ٹاک کے صارفین اورسیاسی حلقوں میں اس تبدیلی کے اثرات پر بحث جاری ہے۔ ٹک ٹاک کے ذریعے امریکی سیاست میں نوجوانوں تک پہنچنے کے نئے راستے کھلے ہیں اور ایپ کی بندش سے اس نئے سیاسی ذریعہ کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ لیکن ٹرمپ کے اقدامات نے فی الحال اس خطرے کو ٹال دیا ہے۔