قومی اسمبلی اجلاس:حکومت اور اپوزیشن ارکان نعروں کا مقابلہ کرتے رہے

کبھی “اووو” کبھی نعرے کبھی اراکین کو بات کرنے کا موقع ہی نہ دینا، پاکستان کی قومی اسمبلی روزانہ ایسے واقعات دیکھتی ہے۔ کہنے کو تو ایوان کو مقدس کہا جاتا ہے مگر ایوانوں میں بیٹھے عوام کے نمائندے قانون سازی کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے لفظی جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔آج کی ہی مثال لے لیجیے قومی اسمبلی میں پیکا ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا گیا مگر ایجنڈے پر بحث کی بجائے حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے ارکینِ اسمبلی لفظی گولہ باری کرتے ہی دیکھائی دیے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن لیڈر کو بولنے تک کی اجازت نہ دی گئی جس پر پی ٹی آئی اراکین نے احتجاج کیا اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ” میں طے شدہ معاملات  پر یو ٹرن نہیں لوں گا” ۔ اس پر پی ٹی آئی اراکین نےایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں ۔ اسی طرح کل جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تووزیر اعظم شہباز شریف بھی اسمبلی میں آئے۔ ان کی آمدپراپوزیشن اراکین نے شوروغل اڑایا اورمذاق اڑانے کے لیے “اووو” اور “دیکھو دیکھو کون آیا چور آیا چور آیا” کے نعرے لگاتے رہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی اراکین نے پلے کارڈ اٹھائے ہوئےتھے جن پہ “گولی کیوں چلائی” لکھا ہوا تھا۔ اسمبلی کے اجلاسوں میں اپوزیشن کے علاوہ حکومتی اراکین بھی غیر سنجیدہ دیکھائی دیتے ہیں ۔  آج پیش کیے جانے والا بل وزیرِ داخلہ کی جانب سے پیش کیا جانا تھا مگروزیرِ داخلہ نے اجلاس میں شرکت  نہیں کی۔ اسمبلی میں وزارتِ داخلہ کے 4 سوالات کے جوابات دینے کے لیے کوئی افسر موجود نہیں تھا۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے جواب نہ آنے پر اسپیکر قومی اسمبلی برہم ہو گئے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے گیلری میں موجود وزارتِ داخلہ کے افسر کو جھاڑ پلا ئی اور اجلاس ختم ہونے تک ایوان میں ہی رہنے کا کہا۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس میں وزیر قانون نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 میں پیش کیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ” مقررہ مدت میں ٹرائل مکمل نہ ہونے پر نتائج ہوں گے، ٹرائل کورٹ کو مقدمات کا فیصلہ 6 ماہ سے ایک سال میں کرنا ہو گا، ماڈرن ڈیوائسز کو قانون شہادت میں شامل کرنے کی ترامیم بھی شامل ہیں، عوام کو نظام انصاف سے متعلق دشواریاں درپیش ہیں، عوام اس ایوان سے ان کے حل کی توقع رکھتی ہے، نظام میں اتنی خرابیاں ہیں کہ کسی پر کچھ ثابت ہی نہیں ہوتا”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “مجرموں کو سزا دینے کی شرح بہت کم ہے، دیگر ممالک میں سزا دینے کی شرح 80 فیصد ہے، اس نظام کی بہتری کے لیے ترامیم لا رہے ہیں۔ اپویشن کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ صرف یہاں آ کر لابی میں کھانے کھاتے ہیں، ایک شخص کی رہائی کے نعرے لگاتے ہیں اور بار بار صرف کورم کی نشاندہی کرتے ہیں”۔ وفاقی پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے ذریعے حکومت سوشل میڈیا اور فیک نیوز سے متعلق اہم قانون سازی کر رہی ہے، ترمیمی بل میں فیک نیوز سے متعلق ترامیم میں سزاؤں اور جرمانے کا تعین بھی شامل ہو گا، فیک نیوز سے متعلق ترامیم میں سزا 5 سال تک دینے کی تجویز شامل ہو گی۔

‘اسرائیل ناکام ہوا، پورا فلسطین فلسطینیوں کا ہے’ امیر جماعت اسلامی کی قطر میں حماس سربراہ سے ملاقات

جماعت اسلامی پاکستان کے امیرحافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ اسرائیل  جنگی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا،فلسطین کی سرزمین مکمل طور سے فلسطینیوں کا وطن ہے،اہل پاکستان اہل غزہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے دوحہ میں حماس کے سربراہ حسن درویش، سابق سربراہ خالد مشعل، مرکزی رہنما ڈاکٹر خلیل الحیہ، اور دیگر مرکزی قائدین سے ملاقات کی۔جماعت اسلامی کے ڈائریکٹر امور خارجہ آصف لقمان قاضی بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ حافظ نعیم الرحمان نے غزہ میں جنگ بندی معاہدے اور 15 ماہ تک مکمل ثابت قدمی کے ساتھ مزاحمت کرنے پر اہل غزہ اور حماس کی قیادت کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے لاکھوں کارکنان اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے موجود رہے ہیں۔ انہوں نے مزاحمتی قیادت کو یقین دلایا کہ الخدمت فاونڈیشن کل بھی اہل غزہ کے شانہ بشانہ تھی اور آئندہ بھی رہے گی۔ پاکستان کے عوام غزہ کی تعمیر نو میں اپنا فرض ادا کریں گے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہم اس اہم موڑ پر اہل پاکستان کی جانب سے اظہار یکجہتی کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ ہم اسماعیل ہنیئہ، یحیی سنوار اور غزہ کے 60 ہزار شہدا کو سلام پیش کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سربراہ نے کہا کہ حماس اور اہل غزہ نے طاغوت کی مزاحمت کر کے پوری امت کے لیے ایک قابل تقلید مثال پیش کی ہے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اسرائیل اپنے جنگی اہداف کے حصول میں ناکام رہا ہے۔   انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ فلسطین کی سرزمین مکمل طور پر فلسطینیوں کا وطن ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر صرف ایک ریاست کا جائز وجود ہے اور وہ فلسطین ہے۔ اس سرزمین کے ایک انچ پر بھی اسرائیل کا وجود ناقابل قبول ہے۔ پاکستانی موقف دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین اور القدس کی مکمل آزادی تک اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ حماس کے سربراہ حسن درویش نے اہل فلسطین کی جانب سے جماعت اسلامی پاکستان اور پاکستان کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستان نے ماضی میں بھی امت کے مسائل کے حل کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا ہے، اور آئندہ بھی ہم ان سے کلیدی کردار کی توقع رکھتے ھیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کے عوام لاکھوں کی تعداد میں اپنے تباہ حال گھروں کو واپس لوٹیں گے۔ بحالی اور تعمیر نو کے کام میں ہم پاکستان کی حکومت اور عوام سے تعاون کی امید رکھتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمان نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ہر فورم پر فلسطین کی آزادی کی آواز اٹھا تے رہیں گے۔ بین الاقوامی شہرت رکھنے والی ممتاز شخصیات کا ایک وفد تشکیل دیا جائے گا جو اہم ممالک کا دورہ کرے گا۔ امیر جماعت اسلامی نے بتایا کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر اعظم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی رابطہ کریں گے۔ ملاقات کے فورا بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان نے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کو غزہ کے متاثرین کے لیے فوری طور پر 10 ہزار خیمے بھیجنے کی ہدایت کی۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے ری بلڈ غزہ کے نام سے امدادی مہم کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس مہم میں 15 ارب روپے کی لاگت سے غزہ میں تعمیر نو کے پراجیکٹس پر کام کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے،معاہدے کے بعد جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا جارہا ہے،پوری دنیا میں جنگ بندی کو سراہا جارہا ہے۔

وزیر خزانہ کا ’باہر‘ بیٹھ کر ’اپنا گھر‘ ٹھیک کرنے پر زور

پاکستانی وزیر خزانہ کا ’باہر‘بیٹھ کر اپنا گھر ٹھیک کرنے پر زور،محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ’اپنا گھر ٹھیک کیے بغیر قرضوں سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں‘۔اپنا ٹھیک کرنے سے ان کی کیا مراد ہے؟ سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں مذاکرے سے بطورپینلسٹ گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ اور فسکل اکاؤنٹ کا جڑواں خسارہ رہا ہے، فسکل خسارےکی سب سے بڑی وجہ 9 سے10فیصد غیرپائیدار ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات سے ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح کو13فیصد تک لے جانےکی کوشش ہے۔حکومت اپنے اخراجات میں کمی،قرضوں کی ادائیگی کاحجم کم کرنےکےلیےکوشاں ہے،قرضوں سےخرچے چلانے یاسبسڈیز دینےکی بجائے پیداواری صلاحیت بڑھا کر برآمدات کو فروغ دیناچاہیے۔  وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ’جی ڈی پی کی شرح نمو 4 فیصد ہوتے ہی معیشت کےدرآمدات پر انحصار کے باعث ادائیگیوں کا توازن بگڑ جاتا ہے‘۔ ادائیگیوں کے توازن کے بگڑنے سے ہر دفعہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔  انہوں نے مزید کہا کہ عالمی بینک کے ساتھ 10سالہ رفاقتی پروگرام سے بڑھتی آبادی، غربت، ماحولیاتی مسائل پرقابو پاکرپائیدار معاشی ترقی کی جانب بڑھیں گے، سی پیک فیز 2 میں حکومت ٹو حکومت کی بجائے بزنس ٹوبزنس پر توجہ مرکوز رہے گی اور  چینی کمپنیوں کو پیداواری یونٹس پاکستان منتقل کرنے پر قائل کیاجائےگا۔  محمد اورنگزیب نے کہا کہ چینی کمپنیاں پاکستان کو اپنی برآمدات کا مرکزبناسکتی ہیں، پاکستان پانڈا بانڈزکے ذریعےچینی کیپٹل مارکیٹ تک رسائی چاہتا ہے، پاکستان مصر کے تجربات سے سیکھ کرکیپٹل مارکیٹ کی رسائی میں تنوع اورکریڈٹ ریٹنگ میں بہتری کا خواہاں ہے۔ وزیرخزانہ کا مزید کہنا تھا کہ نجی شعبے کو معاشی ترقی میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہو گا، پاکستان کے آئی ٹی شعبے میں نوجوانوں کےلیے بے پناہ مواقع موجود ہیں، پاکستانی نوجوانوں کودنیا بھرمیں اچھی ملازمتیں ملنا مثبت امر ہے۔   

آن لائن جنسی استحصال: اپنے بچوں کو کیسے محفوظ بنائیں؟

بچوں کا آن لائن جنسی استحصال باقاعدگی سے ہو رہا ہے، اور یہ مسئلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کے سدباب کے لیے چند اہم تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق 12 میں سے ایک بچے کو آن لائن جنسی استحصال اوربدسلوکی کا سامنا کرنے کے بعد محققین عالمی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس مطالعے میں عوام اور پالیسی سازوں کی جانب سے آگاہی اور اقدامات میں اضافے کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔  جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ میں ہیلتھ پالیسی اور بیہیورل سائنسز کے ریسرچ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ژیانگ منگ فینگ نے کہا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی اور انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون تک رسائی میں اضافہ ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ، ہر روز زیادہ سے زیادہ بچوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔  رسالہ دی لانسیٹ چائلڈ اینڈ ایڈولسٹنٹ ہیلتھ میں منگل کو شائع ہونے والی اس رپورٹ میں 2010 سے 2023 کے درمیان 123 مطالعات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا۔ اس کے بعد محققین نے 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد کا تجزیہ کیا جو جنسی استحصال کی کسی بھی ذیلی قسم کے سامنے آئے تھے۔   ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے Know2 Project مہم کی ڈائریکٹر کیٹ کینیڈی نے کہا کہ ’گزشتہ برس نیشنل سینٹر فار مسنگ اینڈ ایکسپلوٹڈ چلڈرن اینڈ ہوم لینڈ سیکیورٹی انویسٹی گیشنز کو بچوں کے جنسی استحصال کی 3 کروڑ 60 لاکھ سے زائد رپورٹس موصول ہوئیں۔ “انٹرنیٹ ایک کرائم سین بن گیا ہے، جہاں بچوں کو ہر سیکنڈ میں تقریبا دس بار جنسی استحصال اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے. فینگ نے ایک ای میل میں کہا کہ یہ ایک عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال ہے جس کا تعلق خراب ذہنی اور جسمانی صحت، روزگار کے امکانات میں کمی اور کم متوقع عمر سے ہے۔ “لیکن یہ روک تھام کے قابل ہے، ناگزیر نہیں۔ (آن لائن بچوں کا جنسی استحصال) بچپن کے صحت عامہ کے دیگر بڑے مسائل جیسے دمہ، موٹاپا اور اے ڈی ایچ ڈی کے مقابلے میں زیادہ عام ہے اور اگر ہم ان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کریں جیسا کہ روک تھام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے صحت عامہ کے مسئلے کے طور پرتو ہم بچوں کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ یہ جاننا کہ آن لائن جنسی زیادتی اور استحصال کیسا نظر آتا ہے اس کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔ محققین نے آن لائن جنسی استحصال کی تعریف اس طرح کی ہے کہ پیسے یا وسائل کے لئے جنسی عمل کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ فینگ نے کہا کہ یہ “کھانا، کپڑے،رہائش، پیار، تحفظ، تعلق، تحفے، یا نوجوان شخص یا بچے کے لئے قابل قدر کوئی اور چیز ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن درخواست جنسی پوچھ گچھ اور طویل مدتی جنسی گفتگو ہے ، جس سے جنسی تصاویر یا ویڈیوز کا تبادلہ ہوسکتا ہے۔ ’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ مختلف قسم کی آن لائن درخواستیں اکثر ساتھیوں کے ساتھ ساتھ بالغ مجرموں کی طرف سے بھی آتی ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ جنسی تصاویر کو غیر رضامندی سے لینا، شیئر کرنا اور ان کے سامنے آنا اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی بچہ نشے کی حالت میں ہو،بھٹکا ہوا ہو، بے ہوش ہو یا رضامندی دینے سے قاصر ہو۔ استحصال اور بدسلوکی اس وقت بھی ہوسکتی ہے جب کسی بچے کا چہرہ کسی اور کی جنسی تصویر پرلگایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر، ڈیپ فیکس اور دیگر تکنیکی ترقی کے استعمال نے جنسی بھتہ خوری، استحصال اور بدسلوکی میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ فینگ کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بے ضرر تصاویر نہیں ہیں، یہ انتہائی نقصان دہ ہیں‘۔ فیئرلی ڈکنسن یونیورسٹی میں کمیونیکیشن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کارا الیمو نے کہا کہ بچوں سے ان کی حفاظت کے بارے میں آن لائن بات کرنا انہیں آن لائن جنسی استحصال سے بچانے میں ایک اہم پہلا قدم ہے۔ “اوور دی انفلوئنس” کے مصنف ایلیمو نے کہا کہ جب نگرانی کی بات آتی ہے تو ، آپ کے بچے کی حفاظت پر نظر رکھنے کے طریقے موجود ہیں جبکہ انہیں کچھ رازداری کی اجازت بھی دی جاتی ہے ،جس میں انسٹاگرام پرایک نیا فیچر بھی شامل ہے جو والدین کو یہ رسائی دیتا ہے کہ ان کا بچہ کس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے جبکہ پیغامات کا مواد بھی شیئر نہیں کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا خواتین اور لڑکیوں کے لئے زہریلا کیوں ہے اور ہم اسے واپس کیسے لے سکتے ہیں۔ ایلیمو نے کہا کہ اپنے بچوں کے ساتھ آن لائن کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں بات چیت کو کھلا رکھیں اور ان کے اسکرین ٹائم کو محدود کریں تاکہ ان کے پاس دیگر صحت مند چیزیں ہوں،جیسے باہر جانا اوراپنے دوستوں کے ساتھ آمنے سامنے وقت گزارنا۔  ایڈنبرا یونیورسٹی میں چائلڈ پروٹیکشن ریسرچ کی پروفیسراورگلوبل چائلڈ سیفٹی انسٹی ٹیوٹ میں چائلڈ لائٹ کے لیے ڈیٹا کی عالمی ڈائریکٹر ڈاکٹرڈیبورافرائی نے کہا کہ والدین اپنے بچوں پر توجہ دیں،ان کی بات سنیں۔ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بچے اپنے والدین سے رجوع کرتے ہیں۔ الیمو نے مزید کہا کہ جان لیں کہ آپ کے لئے بھی وسائل موجود ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بچہ آن لائن جنسی استحصال کا شکار ہوا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر بچے آن لائن زیادتی کا شکار ہوتے ہیں تو والدین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کریں۔   

مجھے نہیں لگتا کہ بائیکاٹ کوئی راستہ ہے’ انگلش کپتان میچ کھیلنے کے لیے راضی’

انگلینڈ ٹیم کے کپتان  جوس بٹلر  نے افغانستان سے چیمپئنز ٹرافی میچ کے بائیکاٹ کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ برطانیہ کے ایک سو ساٹھ سیاست دانوں نے انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ گولڈ  کو خط لکھا تھا کہ کیوں کہ افغانستان حقوقِ نسواں کا خیال نہیں رکھ رہا اس لیے انگلینڈ کو افغانستان کے ساتھ میچ نہیں کھیلنا چاہیے۔ جب سے طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے  خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس سے افغانستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔ یاد رہے جب سے  افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے خواتین پر پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ پہلے تعلیمی نظام میں خواتین کو محدود تعلیم دینے کے متعلق بات ہوئی اور اب خواتین کا کھیلوں میں حصہ لینے کے بارے میں بھی افغان حکومت قدامت پسندی کا مظاہرہ کر رہی  ہے۔ افغانستا ن اور انگلینڈ کے درمیان میچ 26 فروری کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کھیلا جانا ہے۔ یوں اگلے ماہ لاہور میں انگلینڈ اور افغانستان کھیلیں گے۔ افغانستان، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا پول بی میں شامل ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اور ان کے کھلاڑی ای سی بی کے ساتھ بات چیت میں شامل تھے، انگلینڈ کے کپتان بٹلر نے کہا “اس طرح کے سیاسی حالات میں  ایک کھلاڑی کے طور پر آپ اتنا ہی باخبر رہنے کی کوشش کر رہے ہیں جتنا آپ ہو سکتے ہیں۔ ماہرین اس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، اس لیے میں روب کی ای سی بی کے مردوں کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور اوپر والے لوگوں کے ساتھ بات چیت میں رہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ اسے کیسے دیکھتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ بائیکاٹ کوئی راستہ ہے”۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چیمپئنز ٹرافی میں شامل انگلینڈ بمقابلہ افغانستان ضرور کھیلیں گے۔ اس معاملے پر انگلش ٹیم کے فاسٹ باؤلراسٹیو ہارمیسن نے کہا کہ” چیمپئنز ٹرافی میں افغانستان سے میچ کے بائیکاٹ کے معاملے پر کپتان جوس بٹلر پر سارا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے”۔ گلوبل پلیئرز اسپورٹس ایجنٹس پوڈ کاسٹ’ میں گفتگو کرتے ہوئے اسٹیو ہارمیسن کا کہنا تھا کہ “براہِ کرم کپتان جوس بٹلر پر سارا دباؤ نہ ڈالیں جس طرح ناصر حسین پر 2003 کے ورلڈ کپ کے دوران ڈالا گیا تھا۔ 2003 میں سارا ملبہ کپتان ناصر حسین پر گرایا گیا تھا، وہ کئی روز تک اس معاملے میں پریشان رہے تھے۔ ہماری زندگیوں کو خطرات لاحق تھے۔ کھلاڑیوں اور خواتین کو سیاسی معاملات میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے”۔

چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو میں گواہی نہیں دوں گا،ملک ریاض

بحریہ ٹاؤن کے مالک اور 190 ملین پاؤنڈ کیس میں پاکستانی عدالت کی جانب سے ’مفررو‘ قرار دی گئی کاروباری شخصیت ملک ریاض کا کہنا ہے کہ نیب کی پریس ریلیز بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے مگر وہ نہ تو کسی کے خلاف گواہی دیں گے اور نہ ہی کسی کے خلاف استعمال ہوں گے۔ یاد رہے کہ 17 جنوری کو سابق وزیر اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی جب کہ بشری بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔  القادر یونی ورسٹی  کیس اس وقت سامنے آیا جب  برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے یہ الزام لگایا کہ یونی ورسٹی کی زمین غیر قانونی طور پر دی گئی ہے۔ غیر ملکی ایجنسی نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض  کے ضبط شدہ 190 ملین پاونڈ پاکستانی حکومت کو دے دیے،  مگر دوسری جانب حکومت کے مطابق وہ رقم  ملک ریاض کو واپس کی گئی، جس کے بدلے میں یونی ورسٹی کی زمین القادر ٹرسٹ کے حوالے کی گئی۔ ملک ریاض نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سےجاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا آج بھی یہ فیصلہ ہے چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ گواہی کی ضد‘ کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔‘ یاد رہے کہ منگل کے روز قومی احتساب بیورو (نیب) نے عوام الناس کو ’تنبیہ‘ کی تھی کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے دبئی میں شروع ہونے والے نئے پراجیکٹ میں سرمایہ کاری نہ کریں کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام کو ’منی لانڈرنگ‘ تصور کیا جائے گا۔ نیب کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ملک ریاض اس وقت ’عدالتی مفرور‘ کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ہیں اور انھوں نے وہاں ایک نیا پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ اپنے بیان میں ملک ریاض نے الزام عائد کیا کہ ’نیب کے پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں ضبط کررہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جاے گا۔ یہ مت بھولنا کہ بچھلے 25، 30 سالوں کے سب راز ثبوتوں کے ساتھ محفوظ ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی کے خلاف استعمال ہوں گے اور نہ ہی کسی سے بلیک میل ہوں گے۔ خیال رہے کہ عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں ملک ریاض کو مفرور قرار دے رکھا ہے۔ :ان کا مکمل ٹویٹ یہ تھا میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا آج بھی یہ فیصلہ ہے چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا! پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں، قدم قدم پر رکاوٹوں کے باوجود 40 سال خون پسینہ ایک کرکے اللہ کے فضل سے بحریہ ٹاؤن بنایا اور عالمی سطح کی پہلی ہاوسنگ کا پاکستان میں آغاز ہوا، مجھے الله نے استقامت دی اور اپنے ممبرز سے کیے وعدے وفا کیے۔ انگنت رکاوٹوں سرکاری بیلک میلنگ نے بعض اوقات وعدوں کی تکمیل میں تعطل پیدا کیا، لیکن میرے رب نے ہمیشہ مجھے سرخرو کیا۔ سالوں کی بلیک میلنگ، جعلی مقدمے اور افسران کی لالچ کو عبور کیا، مگر ایک گواہی کی ضد کیوجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا۔  مدتوں سے لوگوں کی خواہش تھی کہ پاکستان برانڈ کو ورلڈ کلاس برانڈ بنایا جائے الله تعالی نے مجھے اسکا سبب بھی بنایا اور دبئی میں BT Properties کا آغاز ہو گیا ہے دبئی کی ترقی کا راز ہز ہائی نس شيخ محمد بن راشد المکتوم کا وژن اور نیب جیسے ادارے کا نا ہوتا ہے۔ نیب کا آج کا بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ میں ضبط کرہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفاں لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ یہ مت بھولنا کہ پچھلے ۲۵/۲۳۰ سالوں کے سب راز ثبوتوں کیساتھ محفوظ ہیں۔ اللہ کے فضل سے بحریہ ٹاؤن پاکستان کامیاب ترین پراجیکٹ بنا اور اب اللہ کے کرم سے بیٹی پراپرٹیز دینی بھی خوب کامیاب ہو گا، ماشالله ماشالله اب تک درجنوں ملکوں سے سرمایہ کار دبئی میں آنے والے BT Properties کے منصوبوں مثالی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں پچیس کروڑ پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے کہ کہ ان کی کمپنی دنیا کے سب سے شفاف سب سے ایماندار نظام نے عالمی سطح کے مقابلے کے لیے ایک عالیشان منصوبے کے لئیے چنا گیا ہے۔  اس عزم کے ساتھ کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے لئیے تھا اور ہمیشہ رہے گا اپنے پاکستانی بھائیوں بہنوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے پاکستان سمیت دنیا کہ ہر ملک کے قانون کی پاسداری کی ہے اور ہمشہ کرتے رہیں گے ملک ریاض نہ تو کسی کے خلاف استعمال ہو گا اور نہ ہی کسی سے بلیک میل نہیں ہو گا انشاالله دبئی پراجیکٹ کامیاب بھی ہو گا اور دبئی سمیت پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بنے گا۔

جرسیوں پر’پاکستان‘لکھیں نہیں تو جرمانہ ہوگا،آئی سی سی کا انڈیا کو پیغام 

چیمپئنز ٹرافی کے لیے اپنی ٹیم کی جرسی پرانڈیا’پاکستان‘کا نام کیوں نہیں پرنٹ کرنا چاہتا؟بی سی سی آئی روایتی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے وضاحتیں دینے لگا۔عالمی کرکٹ کونسل کا ردعمل بھی سامنے آگیا۔ اطلاعات کے مطابق انڈیاجرسیوں پرمیزبان پاکستان کا نام لکھنے سے انکار کررہاہے۔آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 19 فروری 2025 سے پاکستان میں شیڈول ہے۔انڈین میچز دبئی میں ہیں لیکن میزبان پاکستان ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے بی سی سی آئی اور پی سی بی کے درمیان کافی تناؤ رہا ہے، خاص طور پرانڈین بورڈ کی جانب سے چیمپئنز ٹرافی کے لیے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کے بعد۔ آخر میں اس معاملے پر ایک سمجھوتہ طے پا گیا تھا۔  بی سی سی آئی کو مستقبل قریب میں اس کے لیے بھاری فیس بھی ادا کرنی پڑ سکتی ہے ،جب  بھارت  آئی سی سی کے دو ایونٹس کی میزبانی کرے گا۔پاکستان جواب دے گا۔  بھارتی  کپتان روہت شرما کے افتتاحی تقریب  کے لیے پاکستان کے سفر پر بھی کافی تجسس پایا جاتا ہے، افتتاحی تقریب میں تمام ٹیموں کے کپتانوں نے شریک ہونا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی لوگو کے حصے کے طور پر ٹیم کی چیمپئنز ٹرافی کٹس پرپاکستان کا نام  پرنٹ کرنے سے  انڈیا کے مبینہ انکار پرانڈین بورڈ کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی طرف سے ایک مضبوط پیغام بھیجا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ بی سی سی آئی میزبان ملک ریگولیشن کے حصے کے طور پر ٹیم کی کٹ پر پاکستان  لکھنے کا خواہاں نہیں ہے۔ آئی سی سی نے مبینہ طور پر بی سی سی آئی سے کہا ہے کہ انڈین ٹیم کٹ پر پاکستان لکھنے کی پابند ہے کیونکہ پاکستان ٹورنامنٹ کا اصل میزبان ہے۔ آئی سی سی کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ یہ ہرٹیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹورنامنٹ کا لوگو اپنی جرسیوں میں شامل کرے۔ تمام ٹیمیں اس اصول کی تعمیل کرنے کی پابند ہیں۔ یہ بھی کہا ہے کہ اگر کھلاڑیوں کی کٹ پر میزبان ملک پاکستان کے نام کے ساتھ چیمپئنزٹرافی کا ’لوگو‘نہیں ملا توبھارتی ٹیم کے خلاف سخت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ آئی سی سی کے اصولوں کے مطابق، ٹیموں کو جرسیوں پر میزبان کا نام لکھا جانا چاہیے، قطع نظر اس حقیقت سے کہ میچ کہاں ہو رہے ہیں۔

حادثہ نہیں، قتلِ عام ہوا!

سنہرے مستقبل کے لیے غیر قانونی طریقے سے ڈنکی لگانے کا انجام بہت برا ہوتا ہے ۔ایجنٹ مافیا کے جھانسے اپنی مجبوریوں سے ہارے ہوئے لوگ اپنی جان اور اپنا مال بھی داؤ پر لگانے کو تیار ہوجاتے ہیں ۔سنہرے خوبوں کی تعبیرپانے میں اپنا سب کچھ ہار بیٹھتے ہیں جیسا کہ مراکش کشتی حادثے میں 44 پاکستانی سمیت 50 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اب اِس حادثے کے بعدانکشاف ہوا ہے کہ کشتی کو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تھا بلکہ جاں بحق ہونے والوں کا قتل عام کیا گیا، مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی جو واقعے کے چشم دید گواہ بھی ہیں اُن کے بقول ڈوبنے والی کشتی کے مسافروں سے کھلے سمندر میں تاوان مانگا گیا، تاوان دینے والے 21 پاکستانیوں کو چھوڑدیا گیا جبکہ تاوان نہ دینے والوں کو پانی میں دھکیل دیا گیا ۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ کشتی میں سوار زیادہ تر لوگ سخت سردی اور تشدد کے باعث ہلاک ہوئے۔ کشتی میں موجود افراد کو کھانے پینے کی قلت کا بھی سامنا تھا۔ جبکہ خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق زندہ بچ جانے والے مسافروں نے بتایا کہ اسمگلرز کی جانب سے ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور بعض مسافروں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔ مراکش کی بندرگاہ کے قریب کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک متاثرین نے بتایا کہ ہمارا سفر 2 جنوری کو شروع ہوا مگر 5 جنوری کو رات کی تاریکی میں کشتی کو ایسے ویران مقام پر روک دیا گیا تھا جہاں سے کوئی دوسری کشتی نہیں گزر رہی تھی۔  اسمگلروں نے کشتی پر موجود سردی گرمی سے بچانے والا ترپال، ہمارے کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، موبائل سب کچھ چھین لیا تھا اور کشتی کو اسی مقام پر بند کر کے خود دوسری کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے، اب اِس خبر کو دیکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کشتی کو بنیادی طور پر یرغمال بنا لیا گیا اور صرف وہ لوگ اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے جنہوں نے تاوان دیا۔ اب بے روزگاری، مہنگائی اور غربت سے ستائے لوگ ہی ایسے مشکل راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بےروزگاری کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کے لیے بیرون ملک کارخ کررہی ہے، اِسی طرح پروٹیکٹر اینڈ امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں پاکستان میں خراب معاشی حالات اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث لاکھوں پاکستانی بیرون ملک چلے گئے، بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی پروفیشنل اور ٹیچرز سمیت پیرا میڈیکل اسٹاف اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ سینکڑوں کی تعداد میں آرٹسٹ پاکستان کو خیر آباد کہہ گئے۔ پروٹیکٹر امیگرینٹس کے ڈیٹا کے مطابق دو سالوں میں 16 لاکھ کے قریب پاکستانی یورپ، امریکہ، کینیڈا ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، کویت، ترکیہ، ملیشیا، آسٹریلیا، سنگاپور، چین اور دیگر ممالک میں چلے گئے۔ پروٹیکٹر کی فیس 7200 سے 9200 روپے تک ہے جو بھی بیرون ملک ملازمت کے لیے جائے گا اسے پروٹیکٹرز کی اسٹیمپ لازمی کروانا پڑے گی، اس کے بغیر وہ پاکستان سے ٹریول نہیں کر سکتے، بیرون ملک جانے والے ان پاکستانیوں میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک گئے جبکہ سیلف ویزا لے کر بھی جانے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، یہ تو وہ تعداد تھی جو جائز طریقے سے گئی۔  ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جو ناجائز طریقے سے ڈنکی لگا کر یورپ، سعودی عرب ، دبئی اور دیگر ممالک میں جانے میں کامیاب ہو گئے، اور کئی تو اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے۔ بہرحال پاکستان سے جانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد سول، الیکٹرک اور مکینیکل انجینیئرز کی ہے جو 8 ہزار 145 ہے، ان کے علاوہ 5700 چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، 3642 ڈاکٹر، 5 ہزار 315 آئی ٹی پروفیشنل، 3 ہزار نرسز اور 432 فنکار جس میں اینیمیشن، گرافک ڈیزائنر اور آرٹسٹ بھی شامل ہیں جو مختلف اسٹیج ڈراموں فلموں میں کام بھی کر چکے تھے، ان کی بھی بڑی تعداد پاکستان کو خیر آباد کہہ کر چلی گئی ہے۔

بلڈی سنڈے: جب روسی انقلاب کی ایک چنگاری نے شاہی اقتدارکا خاتمہ کیا

1905میں مزدوروں نےروسی بادشاہ سے ‘سینٹ پیٹرز برگ’ شہر میں انصاف اور تحفظ کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں سیاسی سرگرمیوں کی شروعات ہوئی، 22 جنوری 1905 کے روز پُرامن مظاہرہ کرنے والے مزدوروں پر شاہی گارڈز نے فائرنگ کی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور یوں اس دن کو ‘بلڈی سنڈے’ قرار دیا گیا۔ جب روس جنگوں اور داخلی انتشار کے باعث زوال کا شکار تھا، ملک میں افسر شاہی کا غلبہ تھا جو زراعت، تجارت سمیت دیگروسائل پرغالب تھی، 1900 میں روس میں صنعتی ورکرز کی کمی تھی اور بیشتر آبادی زراعت سے وابستہ تھی، حالانکہ تب تک روس میں فیکٹریاں قائم ہو چکی تھیں لیکن صنعتی مزدوروں کا استحصال بھی کسانوں کی طرح ہی تھا۔روس میں زرعی بیگاڑ یا ‘سرفڈم’ کے ذریعے قانونی تحفظ کے باوجود بھی کسان کی حالت زار تھی۔ انسوی صدی کے نصف میں وسطی ایشیا کی کپاس نے ماسکو کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مزکز تو بنا دیا لیکن روسی بادشاہ کے خلاف عوامی نفرت کو جنم بھی دیا، بعد ازاں عالمی جنگ نے روسی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا جس سے شدید معاشی بحران نے سر اٹھایا، جنگی اخراجات بھی عوامی فلاحی منصوبوں میں کمی اور فوجی زوال کا سبب بنے۔ 1917 کے آغاز سے ہی مزدوروں نے ہڑتالیں شروع کیں جو جلد ہی سیاسی مظاہروں میں تبدیل ہو گئیں، ڈیڑھ لاکھ مزدورں کی جانب سے خونی سالگرہ پر ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور حکومت کی جانب سے ‘روٹی کارڈ’ متعارف کرایا گیا جس نے عوام بھڑک اٹھے، خواتین بھی روٹی کارڈ کے لئے باہر نکل آئیں جس نے انقلاب کی چنگاری کو ہوا دی۔ فروری 1917 میں خواتین کے عالمی دن پر ‘سینٹ پیٹرز برگ’ میں خوراک کی قلت پرخواتین نے تاریخی ہڑتال کی جسے ‘فروری انقلاب’ کہا جاتا ہے، اس ہڑتال میں تقریباً 50 ہزار مزدور شامل تھے اور صرف 2 دن میں تمام صنعتی مراکز بند ہو گئے، مزدوروں کے ساتھ طلبہ، سفید پوش کارکن اوراساتذہ بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے، 27 فروری تک دارالحکومت کا بیشتر حصہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا، مارچ تک روسی شہنشاہ ‘زار نکولس دوم’ تخت چھوڑ چکے تھے اور شاہی خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا، اس انقلاب کی سربراہی پرنس جورجی لفوف نے کی جو عبوری حکومت کی باگ دوڑ سنبھال رہا تھا۔ روسی انقلاب کے نتیجے میں سوویت یونین (USSR) کا قیام ہوا جس نے مختصر عرصے میں شاندار ترقی کی، 1922 میں اس وفاقی ریاست کا قیام ہوا جس کا مختلف ممالک اور قومی ریاستیں (سوویت جمہوریتیں) حصہ تھیں، ان ممالک میں روس، یوکرین، بیلاروس، قازقستان، آرمینیا، آذربائیجان، جارجیا، تاجکستان، ازبکستان، کِرغزستان، ترکمانستان، مولدوا، لٹویا، لیتھوانیا، استونیا، قزاقستان اور گورکی شامل تھے۔ 1945 تک سوویت یونین نے اپنی معیشت کو بحال کیا اور دنیا کی دوسری عظیم طاقت بن گئی، 1917 میں ایک پسماندہ ملک ہونے کے باوجود سوویت یونین نے سائنس، صحت اور تعلیم میں عظیم کامیابیاں حاصل کیں یہاں تک کہ پہلا خلائی سیارہ بھی تیار کیا۔ 1924 میں اسٹالن اقتدار میں آئے اور اپنی آہنی حکمت عملی سے پارٹی کو مضبوط کیا لیکن ان کو بہت سی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، اسٹالن نے دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر کو شکست دی اور روس میں صنعتی انقلاب برپا کیا، بعد ازاں 1991 میں سوویت یونین کا بھی خاتمہ ہو گیا۔