قذافی اسٹیڈیم کی نئی لک: کرکٹ کے روشن مستقبل کے لیے اہم سنگ میل

یہ کہانی ہے ایک میدان کی، جو دہائیوں سے کرکٹ کے تاریخی لمحات کا گواہ رہا اور اب ایک نئی روح، نئے عزم اور شاندار انداز میں دنیا کے سامنے آنے کو تیار ہے۔ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم، جہاں خواب سجتے ہیں اور تاریخ رقم ہوتی ہے، اب عالمی کرکٹ کے جدید ترین میدانوں کی صف میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کی میزبانی کے لیے اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کو صرف پانچ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ نئے فلڈ لائٹس ٹاورز، روشن بلبوں کے ساتھ جگمگانے کو تیار ہیں، اسٹینڈز میں جدید کرسیوں کی تنصیب آخری مراحل میں ہے، اور ڈیجیٹل اسکرینز کھیل کے ہر لمحے کو مزید دلکش انداز میں پیش کریں گی۔ چیمپئنز ٹرافی سے قبل قذافی اسٹیڈیم سہ فریقی سیریز کے میچوں کی میزبانی کرے گا، جس میں پاکستان، نیوزی لینڈ، اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔ اور پھر وہ لمحہ! 22 فروری کو کرکٹ کی دنیا کے دو روایتی حریف، انگلینڈ اور آسٹریلیا، قذافی اسٹیڈیم کے اس نئے انداز میں چیمپئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ کھیلیں گے۔ یہ دن شائقین کے لیے یادگار ہوگا، جہاں ہر لمحہ ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ قذافی اسٹیڈیم کی یہ تبدیلی محض تعمیراتی نہیں، یہ پاکستان کے عزم، ہنر اور کرکٹ کے مستقبل کا روشن استعارہ ہے۔ ایک ایسا میدان، جو شائقین کے لیے خوابوں کا گھر اور کرکٹ کے لیے تاریخ ساز سرزمین ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلی : گلوبل وارمنگ کا خطره،کیازمین کو بچانے کا وقت ختم ہو رہا ہے؟

ماحولیاتی تبدیلی، جسے گلوبل وارمنگ بھی کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافہ اور قدرتی ماحول کی خرابی کا باعث بن رہی ہے، جس کے سنگین اثرات پاکستان جیسے ممالک پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق، انسانی سرگرمیوں جیسے فوسل فیولز کا استعمال اور جنگلات کی کٹائی اس تبدیلی کے اہم عوامل ہیں۔ اس کی وجہ سے موسموں میں بے ترتیبی، گرمیوں میں شدت، سردیوں کا طویل ہونا، اور سموگ جیسے مسائل جنم لے چکے ہیں۔ امریکا جیسے ممالک کی جانب سے ماحولیاتی معاہدوں سے انکار، جیسے کہ پیرس معاہدہ، عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔ اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف قدرتی وسائل کو بچایا جا سکے بلکہ انسانوں کی صحت اور معیشت کو بھی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات: فصلوں کی پیداوار میں کمی۔ پانی کی کمی اور پینے کے صاف پانی تک رسائی کا فقدان۔ صحت کے مسائل، جیسے اسموگ اور ہیٹ اسٹروک۔ سیلاب اور طوفانوں کے باعث بنیادی ڈھانچے کی تباہی۔ عالمی سطح پر غیر سنجیدگی: امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک کا ماحولیاتی معاہدوں سے پیچھے ہٹنا عالمی کوششوں کو کمزور کر رہا ہے۔ پیرس معاہدہ جیسے اقدامات کو عالمی سطح پر پذیرائی اور عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
واٹس ایپ صارفین کے لیے ’میٹا‘ نیا فیچر لے آیا،یہ کیسی تبدیلی ہے؟

میٹا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے سب سے مقبول میسجنگ ایپ واٹس ایپ میں ایک نیا فیچر متعارف کرانے جا رہا ہے جو یقیناً آپ کی آن لائن دنیا کو بدل کر رکھ دے گا۔ میٹا کا کہنا ہے کہ بہت جلد آپ اپنے واٹس ایپ اکاؤنٹ کو ‘اکاؤنٹس سینٹر’ میں شامل کر سکیں گے اور یہ تبدیلی صارفین کی سوشل میڈیا زندگی کو اتنا آسان بنا دے گی کہ صآرفین حیران رہ جائیں گے۔ اکاؤنٹس سینٹر وہ جدید پلیٹ فارم ہے جو میٹا کی تمام ایپس کو ایک جگہ جوڑتا ہے یعنی اب فیس بک، انسٹاگرام اور میٹا کوئیسٹ کو ایک ہی ہب سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اب صارفین اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس کو بآسانی انسٹاگرام اور فیس بک پر کراس پوسٹ کر سکیں گے یعنی واٹس ایپ اسٹیٹس اپ لوڈ کرنے کے لیے الگ سے ایپس کھولنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ ایک ہی کلک میں آپ کا اسٹیٹس انسٹاگرام اور فیس بک پر آپ کی موجودگی ظاہر کرے گا۔ اس کے علاوہ میٹا کا سنگل سائن آن فیچر بھی متعارف کرایا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ آپ ایک ہی اکاؤنٹ سے تمام میٹا ایپس میں لاگ ان کر سکیں گے۔ فیس بک سے انسٹاگرام تک رسائی حاصل کرنا اب اتنا آسان ہو جائے گا کہ آپ کو پاسورڈ یاد رکھنے کی پریشانی نہیں ہوگی۔ یہ فیچر مکمل طور پر آپشنل ہوگا یعنی صارفین کو یہ خود ان ایبل کرنا پڑے گا اور بائی ڈیفالٹ یہ فیچر ڈس ایبل رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ واٹس ایپ کی اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کی سیکیورٹی بدستور برقرار رہے گی، یعنی آپ کے پیغامات اور کالز کسی بھی غیر متعلقہ شخص کی دسترس سے محفوظ رہیں گے۔ اگرچہ یہ فیچر ابھی پوری دنیا میں دستیاب نہیں ہوگا مگر اس کا آغاز ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔جب یہ فیچر فعال ہوگا تو آپ کو یہ آپشن واٹس ایپ کی سیٹنگز میں ملے گا۔
شام کی پولیس کو اسلامی تعلیمات سکھائی جائیں گی: لیکن کیوں؟

شام کی نئی حکومت ایک نئی پولیس فورس کو تربیت دینے کے لیے اسلامی تعلیمات کا استعمال کر رہے ہیں، اس اقدام کا مقصد اخلاقیات کا احساس پیدا کرنا ہے کیونکہ وہ سابق صدر بشار الاسد کی بدنام زمانہ بدعنوان اور سفاک سکیورٹی فورسز کو ختم کرنے کے بعد سکیورٹی کے خلا کو پر کرنا چاہتے ہیں۔ روئٹرز کی طرف سے دیکھے گئے پانچ سینئر افسران اور درخواست فارم کے مطابق، ادلب کے شمال مغربی علاقے میں اپنے سابق باغی انکلیو سے دمشق میں لائی گئی پولیس درخواست گزار سے ان کے نظریات کے بارے میں پوچھ رہی ہے اور اسلامی قانون پر توجہ مرکوز کر رہی ہے جس میں وہ بھرتیوں کو مختصر تربیت دیتے ہیں۔ استحکام کو یقینی بنانا اور پورے شام میں لوگوں کا اعتماد جیتنا اسلام پسندوں کے لیے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے اہم ہوگا۔ لیکن علاقائی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مذہب کو پولیسنگ کے مرکز میں رکھنے کے اقدام سے 13 سال کی خانہ جنگی کے بعد بندوقوں سے بھرے متنوع ملک میں نئی دراڑیں پیدا ہونے کا خطرہ ہے اور وہ غیر ملکی حکومتوں کو الگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جنہیں وہ آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان مسائل پر نظر رکھنے والے آرون لینڈ نے کہا، “بہت سے شامی ایسے ہیں جو اس بارے میں خلل ڈالیں گے۔” “صرف اقلیتیں ہی نہیں – عیسائی، علوی، دروز – بلکہ دمشق اور حلب جیسی جگہوں پر کافی تعداد میں سنی مسلمان بھی ہیں، جہاں آپ کی کافی بڑی سیکولر، کاسموپولیٹن آبادی ہے جو مذہبی قانون میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ پولیس کی تربیت کی مذہبی بنیادیں مغربی حکومتوں کو بھی حیران کر رہی ہیں کہ شام کے آئین میں اسلام کتنا بڑا کردار ادا کر سکتا ہے، جس پر سابق باغی دھڑا اب نظر ثانی کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، “یہ اچھی علامت نہیں ہے، لیکن یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ اس پر کتنی سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔” شام کے ڈی فیکٹو لیڈر احمد الشارع نے مغربی حکام اور مشرق وسطیٰ کی حکومتوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے جو ان کی اپنی اسلام پسند تحریکوں سے پریشان ہیں کہ ان کے دھڑے نے القاعدہ سے اپنے سابقہ تعلقات ترک کر دیے ہیں اور اقلیتوں کے تحفظ سمیت اعتدال کے ساتھ حکومت کریں گے۔ شام کی وزارت داخلہ، جو پولیس کی نگرانی کرتی ہے، اور وزارت اطلاعات نے پولیس کی بھرتی اور تربیت میں مذہب پر توجہ دینے، یا قانونی ضابطہ میں اسلامی قانون کو شامل کرنے کے بارے میں سوالات کا جواب نہیں دیا۔ روئٹرز کی طرف سے انٹرویو کیے گئے سینئر پولیس افسران نے کہا کہ اس کا مقصد اسے عام آبادی پر مسلط کرنا نہیں تھا بلکہ بھرتی کرنے والوں کو اخلاقی سلوک سکھانا تھا۔ حمزہ ابو عبدالرحمن، جنہوں نے دمشق منتقلی سے قبل ادلب میں گروپ کی پولیس اکیڈمی قائم کرنے میں مدد کی تھی، نے کہا کہ مذہبی معاملات کی سمجھ، “کیا جائز ہے اور کیا نہیں”، بھرتی کرنے والوں کے لیے “انصاف سے کام لینے” کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسد کی بے شمار سیکورٹی فورسز کو ظالمانہ اور شکاری رویے کے لیے بڑے پیمانے پر خوف لاحق تھا، جس میں اختلاف کرنے والوں کی گرفتاری سے لے کر تشدد یا مارے جانے سے لے کر معمولی خلاف ورزیوں کو حل کرنے کے لیے رشوت طلب کرنے تک کا خدشہ تھا۔ ان کے خلاف عوامی غصے کی حد 8 دسمبر کو اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد کے دنوں میں واضح تھی۔ دارالحکومت کے بیشتر پولیس اسٹیشنوں کو لٹیروں نے توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا، ساز و سامان اور ریکارڈ کو لوٹا یا تباہ کر دیا گیا۔ پولیس نے کہا کہ تقریباً 20 اسٹیشنوں میں سے نصف اس کے بعد سے دوبارہ کھل چکے ہیں، لیکن ان میں سے ہر ایک پر 10 کے قریب اہلکار تعینات ہیں، جن میں سے زیادہ تر ادلب سے لائے گئے ہیں، بجائے اس کے کہ ان کے سابقہ 100-150 افسران کی تکمیل ہو۔ دسمبر کے آخر میں روئٹرز کے ذریعے تین اسٹیشنوں کا دورہ کیا گیا، تھکے ہوئے افسروں کی ایک مٹھی بھر بڑی تعداد میں جرائم کی شکایات سے لے کر کچرا اٹھانے والے تک کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہے تھے جو سڑک پر ملنے والے ہینڈ گرنیڈ کے دو تھیلے لے کر آئے۔ جب باغیوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اسد کی وزارت داخلہ اور پولیس سمیت سیکیورٹی فورسز کو ختم کر رہے ہیں۔ 200,000 سے زیادہ لوگوں نے اس نئی پولیس سروس میں شامل ہونے کے لیے اندراج کیا ہے۔ سینئر افسران نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ پولیس جو اسد کے زوال سے پہلے باغیوں کی طرف چلی گئی تھی، ان کا نئی فورس کے لیے درخواست دینا خوش آئیند ہے۔
سیف علی خان کی 150 ارب کی جائیداد ضبط، آخر معاملہ کیا ہے؟

سیف علی خان کچھ وقت سے خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ ہسپتال سے گھر چلے گئے ہوں اور خنجر کے حملے کے بعد صحت مند ہونے جا رہے ہوں مگر مشکلات اور پریشانیاں ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق تقریباً 15کروڑ مالیت کی جائیداد جس کے مالک پٹودی فیملی ہے اور جس کا حصہ سیف علی خان بھی ہیں، اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968کے تحت حکومت ضبط کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے 2019 میں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ان جائیدادوں پر لگائی گئی پابندی کو ہٹا دیا تھا۔ فیصلے میں ان میں سے کچھ جائیدادوں میں سیف کا بچپن کا گھر فلیگ اسٹاف ہاؤس، نور الصباح پیلس، دارالسلام، حبیبی کا بنگلہ، احمد آباد پیلس، کوہیفزہ پراپرٹی، اور دیگر شامل ہیں۔ اب، حکومت ان املاک کو اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت ضبط کر سکتی ہے، حکومت کو ان لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتا ہے جو تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968 کیا ہے؟ اینیمی پراپرٹی ایکٹ حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ لوگ جو تقسیم ہند کے بعد انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے ہیں ان کی جائیداد ضبط کی جا سکتی ہیں۔ 1965 اور 1971 کی پاک انڈیا جنگ کے بعد بہت سے لوگوں نے اپنی جائیداد چھوڑتے ہوئے انڈیا سے پاکستان ہجرت کی۔ انڈیا کے دفاعی ایکٹ کے مطابق وہ لوگ جو پاکستان کی شہریت حاصل کر لیتے ہیں انڈین حکومت ان کی جائیداد ضبط کر سکتی ہے۔ مرکزی حکومت ان جائیدادوں کو “دشمن کی جائیداد” کے نام سے اپنے قانون میں لکھتی ہے۔ ایسا تب بھی ہوا تھا جب کچھ لوگ 1962 کی سائنو انڈین جنگ کے بعد چین ہجرت کر گئے تھے۔ اینیمی پراپرٹی ایکٹ میں 2017 میں ترمیم ہوئی اور یہ طے پایا کہ جو بھی شخص اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جائے گا چاہے وہ ملک انڈیا کا کسی بھی طرح سے دشمن ہو یا نہ ہو، اس کی جائیداد ضبط کی جا سکتی ہے۔ پٹودی خاندان کی جائیداد اینیمی پراپرٹی ایکٹ سےکیسے تعلق رکھتی ہے؟ تقسیمِ ہند کے وقت ریاست بھوپال کے نواب حمیداللہ تھے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں جن میں سب سے بڑی عابدہ سلطان تھیں جو پاکستان ہجرت کر گئیں۔ دوسری بیٹی جو انڈیا میں ہی رہیں ان کا نام ساجدہ سلطان تھا اور ان کی شادی نواب افتخار علی خان پٹودی سے ہوئی جنہیں نواب آف پٹودی بھی کہا جاتا ہے۔ ساجدہ اپنے والد کی وفات کے بعد وراثت کی مالکن گئیں۔ساجدہ کا بیٹا منصور علی خان تھا جو کہ ایک کرکٹر تھے۔ ان کا بیٹاسیف علی خان ہے جو ساجدہ سلطان کا پوتا ہے اور جنہیں وراثت میں جائیداد ملی ہے۔ 2014 میں اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت بھوپال میں پٹودی خاندان کی جائیداد کو اینیمی پراپرٹی کہا گیا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ عابدہ سلطان جو کہ ساجدہ کی بڑی بہن ہیں پاکستان ہجرت کر گئی تھیں اس لیے اس جائیداد کو اینیمی پراپرٹی کہا جا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ تب پیداہوا جب 2016 میں پٹودی خاندان کی جائیداد کے متعلق آرڈیننس دیا جس کے مطابق انڈین حکومت نے کہا کہ ورثاء جائیداد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ پٹودی کاندان کی جائیداد کو اینیمی پراپرٹی قرار دینے کے خلاف پٹودی خاندان نے 2015 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں گئی۔ ہائی کورٹ نے اس وقت جائیداد کو پٹودی خاندان کی ہی رہنے دیا جب کہ بعد میں 2019 میں ساجدہ سلطان کو قانونی وارث تسلیم کر لیا۔ جب کہ پچھلے مہینے ہائی کورٹ نے سیف علی خان کی پٹیشن کو برطرف کر دیا۔ سیف اب تک پٹودی محل کےبھی قانونی وارث بھی ہیں۔ اس سے قبل یہ محل ایک ہوٹل چین کو لیز پر دیا گیا تھا۔ ” سیف نے پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ “میرے والد نے اسے لیز پر دیا اور فرانسس (واکزیرگ) اور امان (ناتھ)، جو وہاں ایک ہوٹل چلاتے تھے، جائیداد کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔ میری والدہ (شرمیلا ٹیگور) کیا ایک چھوٹا سا گھر ہے اور وہ ہمیشہ بہت سکون سے رہتی ہیں”۔ سیف نے 2021 میں بالی ووڈ ہنگامہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، “یہ ایک منصفانہ مالیاتی انتظام تھا اور رپورٹس کے برعکس، مجھے اسے واپس خریدنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ میں پہلے ہی اس کا مالک تھا”۔ سیف اب محل کو گرمیوں میں استعمال کرتے ہیں اور اکثر اسے فلم کی شوٹنگ کے مقصد کے لیے فلم پروڈکشنز کو لیز پر دیتے ہیں۔ ہاؤسنگ ڈاٹ کام کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں، ان کی بہن سوہا نے محل کی تاریخ کے بارے میں کچھ اور یادیں شیئر کیں، اور کہا کہ سیف ہی اس کا مالک ہے۔ سوہا نے انکشاف کیا کہ ان کی دادی ساجدہ سلطان بھوپال کی بیگم تھیں اور ان کے دادا پٹودی کے نواب تھے۔ وہ کئی سالوں سے اس سے محبت کرتا تھا لیکن اس کے والد نے اسے اس سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ پٹودی محل ان کے سسر کو متاثر کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ سوہا نے مزید کہا، “انہوں نے اسے 1935 میں بنایا تھا تاکہ وہ شادی کر سکیں۔ وہ اپنے سسر کو متاثر کرنا چاہتا تھا لیکن اسے بنانے کے آدھے راستے میں اس کے پاس پیسے ختم ہو گئے! اس لیے جب آپ وہاں جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں بہت سارے قالین ہیں اور ان میں سے کچھ کے نیچے سنگ مرمر کے فرش ہیں، لیکن ان میں سے اکثر میں عام سیمنٹ ہے، کیونکہ اس کے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں”۔ سیف علی خان نے ابھی تک عدالت کے اس نئے فیصلے پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی کچھ جائیداد ضبط کی جا سکتی ہے۔ سیف علی خان 16 جنوری کو ممبئی میں ان کی رہائش گاہ پر ہونے والے چاقو کے حملے کے بعد صحت یاب ہو رہے ہیں جب ایک حملہ آور نے چوری کی ناکام کوشش کے بعد فرار ہونے کی کوشش کی۔ اس عمل میں سیف کی ہاتھا پائی ہو گئی اور چور نے
چیمپئنز ٹرافی سے قبل بھارتی ٹیم کی مشکلات میں اضافہ

بھارتی کرکٹ ٹیم کے اسٹار اوپنر روہت شرما کی ناکامی کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، اور یہ بات بھارتی شائقین کرکٹ کے لیے ایک شدید تشویش کا باعث بن چکی ہے۔ حال ہی میں آسٹریلیا کے دورے پر ٹیسٹ سیریز میں مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بھارتی ٹیم کے کپتان روہت شرما نے رنجی ٹرافی میں بھی اپنی کارکردگی سے مداحوں کو مایوس کر دیا۔ ‘دی ہٹ مین’ کے نام سے مشہور ہونے والے بھارتی کپتان روہت شرما کی مسلسل ناکامیوں کے باعث انہوں نے 10 سال بعد واپس ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی کا فیصلہ کیا مگر وہاں بھی ان کا بلا خاموش ہی رہا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنے پہلے ہی میچ میں انہوں نے 19 گیندوں پرصرف 3 رنز بنا کر اپنے بلے کے زنگ کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا۔ یہ 2015ء کے بعد یہ ان کا پہلا ڈومیسٹک میچ تھا اور ان کی ناکامی نے بھارتی کرکٹ حلقوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ دوسری جانب چیمپئنز ٹرافی 2025 کے آغاز میں صرف چند دن رہ گئے ہیں اور اس ایونٹ سے قبل روہت کی خراب فارم نے بھارتی ٹیم کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی شائقین کرکٹ نے بھی اس صورتحال پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے کچھ نے روہت کے ساتھ ہمدردی دکھائی، جبکہ کچھ نے بھارتی ٹیم کی مشکلات پر خوشی کا اظہار کیا۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کا آغاز 19 فروری سے کراچی میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ سے ہوگا، اور بھارت کے میچز نیوٹرل وینیو پر کھیلے جائیں گے۔ اگر روہت شرما اور بھارتی ٹیم کا حال یہی رہا، تو یہ ایونٹ بھارت کے لیے ایک بھاری دھچکا ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر وہ فائنل تک پہنچنے میں ناکام رہے، جس کے بعد لاہور کا قذافی اسٹیڈیم فائنل میچ کی میزبانی کرے گا۔ !یہ تمام صورتحال بھارتی کرکٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن چکا ہے
امریکی صدر نے خاتون پادری کو’بدتمیز‘ کیوں کہا؟

حلف برداری کی رسم کے دوران ریورنڈ ماریان ایڈگر بڈے نے صدر ٹرمپ سے اقلیتی گروپوں اور تارکین وطن کے حقوق کے بارے میں مطالبات کیے جس پر ٹرمپ نے سرد ردعمل ظاہر کیا۔ یہ لمحہ امریکہ کی سیاست میں تقسیم اور تنقید کا عکاس بن گیا۔ واشنگٹن نیشنل کیتھیڈرل میں ہونے والی اس دعا کے موقع پر جہاں ہزاروں افراد نے خدا سے ملک کی خوشحالی اور اتحاد کے لیے دعائیں کیں اور وہاں ریورنڈ ماریان ایڈگر بڈے نے نہ صرف ملک کے اندر جاری تقسیم اور تشویش کا ذکر کیا بلکہ صدر سے ایک ایسا مطالبہ کیا جس نے پورے ہال میں سنسنی پھیلادی۔ ماریان ایڈگر بڈے نے کہا کہ”جناب صدر میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ خدا کے واسطے ان لوگوں پر رحم کریں جو خوف کا شکار ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں۔” ان کی یہ باتیں خاص طور پر ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی، تارکین وطن اور دیگر اقلیتی گروپوں کے حوالے سے تھیں جنہیں ان کے مطابق صدر کی پالیسیوں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ بیشتر افراد کے لیے یہ ایک غیر متوقع لمحہ تھا جب بڈے نے ان حساس موضوعات پر بات کرنا شروع کی تو تقریب میں شریک ٹرمپ کے ساتھی اور وائٹ ہاؤس کے دیگر افسران کی حالت دیکھنے لائق تھی۔ جب بڈے نے سیاسی نوعیت کی یہ باتیں شروع کیں تو اس موقع پر نائب صدر جے ڈی وینس اور ان کی اہلیہ اوشا بظاہر ناراض دکھائی دیے۔ وینس بار بار اپنی بیوی کی طرف جھک کر کچھ کہنے کی کوشش کر رہے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ یہ لمحات تقریب کے عمومی ماحول سے ہٹ کر تھے۔ بڈے کے یہ الفاظ ایسے تھے جیسے پورے ہال میں ایک سنسنی کی لہر دوڑ گئی ہو، ان کے بعد بڈے نے خاص طور پر تارکین وطن کے بارے میں بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ “تارکین وطن کی اکثریت مجرم نہیں ہے وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اچھے پڑوسی ہیں، اور وہ اس ملک کا حصہ ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ “جناب صدر کیا آپ ان لوگوں پر رحم کر سکتے ہیں جو اپنے خاندان کے ساتھ امریکا میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں؟ وہ لوگ جو ہمارے کھیتوں میں کام کرتے ہیں ،ہمارے ریستورانوں میں، اسپتالوں میں، وہ سب اچھے لوگ ہیں جو اس ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔” یہ دعائیہ تقریب اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب بڈے نے عالمی سطح پر انسانی بحرانوں کا ذکر کیا، انہوں نے صدر سے درخواست کی کہ وہ جنگ زدہ علاقوں اور ظلم و ستم سے بھاگ کر امریکا پناہ لینے والے افراد کے بارے میں بھی سوچیں۔ لیکن ٹرمپ کے ردعمل نے اس پورے منظر کو اور بھی دلچسپ بنا دیا، جب سروس کے بعد صدر وائٹ ہاؤس واپس آئےتو صحافیوں نے ان سے اس ہنگامہ خیز دعا کے بارے میں سوالات کیے۔ اس پر صدر ٹرمپ نے بغیر کسی جواز کے جواب دیا، “بہت دلچسپ نہیں ہے۔ ہے نا؟ میں نے نہیں سوچا کہ یہ ایک اچھی خدمت ہے۔” اس کے بعد انہوں نے کہا کہ “وہ کر سکتے ہیں، وہ بہت بہتر کر سکتے ہیں۔” اس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کی بشپ ماریان ایڈگر بڈے کوایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بدتمیز کہا اور ان سے معافی کا مطالبہ کیا، کیونکہ بشپ نے کہا تھا کہ ٹرمپ ملک میں تارکین وطن اور ایل جی بی ٹی کیو افراد میں خوف پھیلا رہے ہیں۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ بشپ ایک انتہاپسند بائیں بازو کی شخصیت ہیں اور ان کا لہجہ غیرمہذب تھا۔ ٹرمپ کے یہ جواب ان کی بے بسی اور بے نیازی کو ظاہر کر رہے تھے جو ان کی پالیسیوں پر تنقید کے بعد سامنے آئی۔ دراصل یہ لمحہ ایک پیچیدہ سیاسی منظرنامہ پیش کرتا ہے۔ جہاں ایک طرف ملک میں اقلیتی گروپوں کے حقوق کی بات کی جا رہی تھی وہیں دوسری طرف صدر کے بیانات اور پالیسیوں نے اسے ایک طاقتور سیاسی تنازعہ میں تبدیل کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت کا نیا دور شروع ہو رہاہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ امریکا میں احترام اور انصاف کا حامل ہوگا یا ملک مزید تقسیم ہو جائے گا؟ اس کا جواب وقت کے ساتھ ہی سامنے آئے گا۔
روس یوکرین جنگ بندی کے لیےکوشاں ٹرمپ: پیوٹن کو معیشت کی پریشانی

روسی صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین جنگ کے وقت معیشت میں بگاڑ کے بارے میں تشویش میں اضافہ کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کے تنازعے کو ختم کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔ روس کی معیشت، تیل، گیس اور معدنیات کی برآمدات سے چلتی ہے، 2022 میں یوکرین پر اس کے حملے کے بعد عائد مغربی پابندیوں کے باوجود گزشتہ دو سالوں میں مضبوطی سے ترقی کر رہی ہے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں مزدوروں کی قلت اور مہنگائی سے نمٹنے کے لیے متعارف کرائی گئی بلند شرح سود کی وجہ سے گھریلو سرگرمیاں مشکل کا شکار ہو گئی ہیں، جس میں ریکارڈ فوجی اخراجات میں تیزی آئی ہے۔ کریملن میں ذرائع کے مطابق، پیوٹن نے روسی اشرافیہ کے ایک حصے کے اندر اس نظریے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ جنگ کا مذاکراتی فیصلہ ضروری ہے۔ پیر کے روز صدارت کا حلف اٹھانے والے ٹرمپ نے یوکرین کے تنازع کو تیزی سے حل کرنے کا عزم کیا ہے، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا سب سے بڑا تنازع ہے۔ اس ہفتے انہوں نے کہا ہے کہ” جب تک کہ پوٹن مذاکرات نہیں کرتے روس پر مزید پابندیوں کے ساتھ ساتھ مزید ٹیکس کا امکان ہے “، انہوں نے مزید کہا کہ روس معیشت میں بڑی مصیبت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کریملن کے ایک سینئر معاون نے منگل کو کہا کہ روس کو ابھی تک مذاکرات کے لیے کوئی خاص تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔ روس کے مرکزی بینک کے سابق ڈپٹی چیئرمین اولیگ ویوگین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ روس، یقینی طور پر اقتصادی طور پر تنازعات کے سفارتی خاتمے پر بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، روس کی جانب سے فوجی اور ٹربو چارجز کے بڑھتے ہوئے معاشی مسئلے کے خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ کچھ ذرائع نے روس کی صورتحال کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔ روئٹرز نے پہلے اطلاع دی ہے کہ پوٹن ٹرمپ کے ساتھ جنگ بندی کے اختیارات پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن یوکرین میں روس کے علاقائی فوائد کو قبول کرنا چاہیے اور یوکرین کو امریکی قیادت والے نیٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اپنی بولی چھوڑ دینی چاہیے۔ کریملن نے معیشت اور یوکرین کے مذاکرات کے بارے میں پوٹن کے نقطہ نظر کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوز نے روئٹرز کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ٹرمپ اس وحشیانہ جنگ کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں”۔ حالیہ ہفتوں میں ٹرمپ کے مشیروں نے متعدد مرتبہ ایسا تاثر دیا کہ تین سال پرانی جنگ ایک دن میں حل ہو سکتی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کونسل کے سربراہ برائن ہیوجز نے کہا کہ ٹرمپ مختلف عالمی لوگوں کو اس مسئلے کے حل میں شامل کر کے ہر حال میں روس اور یوکرین کی جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔
سعودی ولی عہد کی ٹرمپ سے گفتگو: اربوں ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کردی

سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان نے امریکی صدر کو 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس سے دونوں ممالک کے اقتصادی، تجارتی اور دفاعی تعلقات مزید مستحکم ہونے کی توقع ہے۔ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا ہےجب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر رابطہ کر کے نہ صرف امریکا میں سعودی سرمایہ کاری کو مزید وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کیا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کے مستقبل کی راہیں بھی ہموار کیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی ولی عہد نے امریکی صدر کو بتایا کہ سعودی عرب اگلے چار سالوں میں امریکا میں اپنی سرمایہ کاری اور تجارت کو 600 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جس سے دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی کے امکانات میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنی گفتگو میں واضح کیا کہ سعودی عرب امریکا میں اپنے تجارتی اور سرمایہ کاری کے مواقع کو مزید فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا یہ قدم نہ صرف سعودی معیشت کے لیے مفید ہوگا بلکہ امریکی معیشت کو بھی مستحکم کرے گا۔ دوسری جانب سعودی پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد نے امریکی صدر کو حلف اٹھانے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کی قیادت میں امریکی عوام کے لیے خوشحالی کی دعائیں دیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سعودی ولی عہد نے اس بات پر زور دیا کہ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تعاون دہشت گردی کے خلاف مزید مؤثر ثابت ہو سکتا ہے اور دونوں ممالک کے مفادات کو فائدہ پہنچانے کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی کابینہ نے توقع ظاہر کی کہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا معاہدہ اسرائیلی جنگ کے وحشیانہ حملوں کا خاتمہ کرے گا اور فلسطینی عوام کو ان کے حقوق حاصل کرنے میں مدد دے گا، جن میں سب سے اہم مشرقی یروشلم کے ساتھ 1967 کی سرحدوں پر ان کی آزاد ریاست کا قیام ہے۔ یہ ساری باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں ایک نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے جس میں سرمایہ کاری، تجارت اور دفاعی تعاون کے مزید مواقع ملیں گے۔ سعودی عرب کا یہ 600 ارب ڈالر کا منصوبہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی حکومت نے حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی منظوری دی تھی جس میں 33 اسرائیلیوں کی رہائی اور 95 فلسطینیوں کا تبادلہ شامل ہے جبکہ حماس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ کی بدولت ممکن ہوا تھا۔
لاس اینجلس میں نئی آگ بھڑک اٹھی:23 ہزار افراد کو انخلاء کی وارننگ جاری

لاس اینجلس کے شمال میں ‘ہیوز فائر’ کی آگ نے 9,400 ایکڑ سے زائد رقبہ جلایا دیا اور 31,000 افراد کو انخلاء پر مجبور کیا۔ اس آگ کے ساتھ ساتھ مزیدچنگاریاں بھی بھڑک اٹھی ہیں جس کے نتیجے میں 28 افراد کی جان ضائع ہو چکی ہے اور کرڑوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ بدھ کے روز بھڑکنے والی آگ نے تیز ہواؤں اور خشک جھاڑیوں کے ساتھ 9,400 ایکڑ (38 مربع کلومیٹر) سے زیادہ رقبہ جلادیا، اور اس کے ساتھ ہی 31,000 سے زیادہ افراد کے لیے ہنگامی انخلاء کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ یہ آگ کو ‘ہیوِز فائر’ کا نام دیا جارہا ہے، جو لاس اینجلس سے 80 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ صرف چند گھنٹوں میں ہی اس آگ نے ‘ایٹن فائر’ کی دو تہائی زمین کو جلا دیا جو لاس اینجلس کے دو بڑی آتشزدگیوں میں سے ایک ہے جس نے علاقے میں بہت تباہی مچائی،جبکہ حکام نے کاسٹیک جھیل کے علاقے کے باشندوں کو فوری طور پر زندگی کے لیے خطرے کی وارننگ دی۔ اس علاقے میں تیز ہواؤں اور خشک موسم کے باعث آگ کی شدت مزید بڑھ گئی اور جنوبی کیلیفورنیا میں پورے علاقے کو ‘ریڈ فلیگ وارننگ’ کے تحت رکھا گیا۔ لاس اینجلس کاؤنٹی کے شیرف، رابرٹ لونا نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس آگ کی وجہ سے 31,000 افراد کو انخلاء کے احکامات دے دیے گئے ہیں جبکہ مزید 23,000 افراد کو انخلاء کی وارننگ دی گئی ہے۔ اسی دوران، لاس اینجلس نیشنل فاریسٹ نے اپنے 700,000 ایکڑ پر محیط پارک کو مکمل طور پر بند کر دیا۔ کیلیفورنیا کی فائر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ (کال فائر) کے مطابق جنوبی کیلیفورنیا کے مختلف علاقوں میں تقریباً 1,100 فائر فائٹرز کو اضافی طور پر تعینات کیا گیا تھا تاکہ آگ کے پھیلاؤ کو روک سکیں۔ اس وقت ‘ہیوِز فائر’ کو قابو میں کرنے کے لیے 4,000 سے زیادہ فائر فائٹرز کام کر رہے ہیں۔ مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ہیلی کاپٹروں نے جھیل سے پانی اُٹھا کر آگ پر ڈالا جبکہ طیاروں نے آگ کو روکنے کے لیے کیمیکل ریٹارڈنٹ کی بارش کی۔ دھوئیں کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ انٹر اسٹیٹ 5، جو ایک اہم شمال و جنوب ہائی وے عارضی طور پر بند کرنی پڑیں۔ تاہم اس ہائی وے کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ اس دوران اس سے قبل شروع ہونے والی ‘ایٹن فائر’ اور ‘پالیسڈیز فائر’ کی آگ کو جزوی طور پر قابو میں کر لیا گیا ہے۔ ایٹن فائر جو 14,021 ایکڑ (57 مربع کلومیٹر) تک پھیل چکی تھی،یہ آگ اب 91 فیصد قابو میں ہے جبکہ پالیسڈیز فائر 23,448 ایکڑ (95 مربع کلومیٹر) تک پھیل چکی تھی،اور اب اس پر بھی 68 فیصد قابو میں ہے۔ یہ دونوں آگ جنوری 7 سے اب تک لاس اینجلس کو سخت متاثر کر چکی ہیں اور ان کی وجہ سے 28 افراد کی جانیں جا چکی ہیں اور تقریباً 16,000 عمارتیں یا تو تباہ ہو چکی ہیں یا نقصان پہنچا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان آگوں کی مجموعی طور پر 250 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس دوران جنوبی کیلیفورنیا میں گزشتہ نو ماہ سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک حالات نے آگ کی شدت میں مزید اضافہ کیا لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ہفتے سے پیر تک بارش کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جو فائر فائٹرز کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہے۔