امریکی فوج کا مزید ہزاروں اہلکاروں کومیکسیکو کے ساتھ جنوبی سرحد پر بھیجنے کا حکم

میکسیکو کے ساتھ جنوبی امریکہ کی سرحد پر ہزاروں اضافی فعال امریکی فوجیوں کو تعینات کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے، جس سے صرف دو دن قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوج کو میکسیکو میں اپنی موجودگی بڑھانے کا حکم دیا تھا۔ امریکی شمالی کمان کے سرحدی مشن جوائنٹ ٹاسک فورس نارتھ کے حصے کے طور پر سرحد پر پہلے ہی تقریبا 2200 فعال ڈیوٹی فورسز موجود ہیں جو ٹیکساس کے شہر ایل پاسو میں واقع ہیں۔ وہ وہاں امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن کے کام کی حمایت کرتے ہیں ، زیادہ تر لاجسٹک اور بیوروکریٹک کاموں جیسے ڈیٹا انٹری ، سراغ لگانے اور نگرانی ، اور گاڑیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کون سے مخصوص یونٹس کو سرحد پر بھیجنے کا حکم دیا جا رہا ہے ، لیکن ابتدائی لہر میں تقریبا 1،500 فوجی شامل ہوں گے۔ ایک سینئر فوجی عہدیدار نے بدھ کے روز نامہ نگاروں کو بتایا، “ان کے لیے پہلا آپریشن اگلے 24-48 گھنٹوں میں شروع ہونا چاہیے، وہ ابھی آگے بڑھ رہے ہیں، جیسا کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ قائم مقام وزیر دفاع رابرٹ سیلزس نے کہا کہ انہوں نے محکمہ دفاع کو ہدایت کی ہے کہ وہ “جنوب مغربی سرحد پر اپنی افواج میں اضافہ شروع کرے” جس میں 1500 زمینی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ہیلی کاپٹروں اور انٹیلی جنس تجزیہ کاروں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ سراغ لگانے اور نگرانی کی کوششوں میں مدد مل سکے۔ سیلزس نے سی این این کی اس رپورٹ کی بھی تصدیق کی کہ امریکی ٹرانسپورٹیشن کمانڈ کو تارکین وطن کی واپسی کی پروازوں کے لیے فوجی طیاروں سمیت امریکی فوجی اثاثوں کو استعمال کرنے کی تیاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سینئر فوجی عہدیدار نے بتایا کہ مجموعی طور پر چار طیارے جن میں دو سی 17 اور دو سی 130 طیارے شامل ہیں، سان ڈیاگو اور ایل پاسو بھیجے جا رہے ہیں تاکہ وطن واپسی کی پروازوں میں مدد مل سکے۔ ان طیاروں کے فضائی عملے کو بھیجے جانے والے 1500 زمینی فوجیوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ سیلزس نے ایک بیان میں کہا کہ محکمہ کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن کے زیر حراست علاقوں سان ڈیاگو، کیلیفورنیا اور ایل پاسو، ٹیکساس سے پانچ ہزار سے زائد غیر قانونی غیر ملکیوں کی ڈی ایچ ایس ملک بدری پروازوں میں مدد کے لیے فوجی ہوائی جہاز فراہم کرے گا۔ ڈی ایچ ایس انفلائٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فراہم کرے گا، اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ مطلوبہ سفارتی کلیئرنس حاصل کرے گا اور میزبان ملک کو اطلاع فراہم کرے گا۔ سیلز نے مزید کہا، “یہ صرف آغاز ہے. وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کارولین لیویٹ نے بھی بدھ کے روز وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو اس تعداد کی تصدیق کی۔ صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت امریکہ کی جنوبی سرحد پر 1500 اضافی فوجی تعینات کیے جائیں گے۔ یہ ان کے پہلے دن کے عمل سے نکلتا ہے۔ لیوٹ نے کہا کہ محکمہ دفاع کو ہوم لینڈ سیکیورٹی کو ایجنسی کا بنیادی مشن بنانے کی ہدایت کی جائے۔ ایک عہدیدار اور اس معاملے سے واقف ایک اور شخص نے سی این این کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس ہفتے کے اوائل میں فوج سے کہا تھا کہ وہ فوری طور پر 10,000 فعال فوجیوں کو تعینات کرنے کے لئے تیار رہے۔ پہلے عہدیدار نے کہا کہ فوجی حکام نے اس سے پیچھے ہٹ دیا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ایک ہی وقت میں سرحد پر اتنی بڑی تعداد میں فوجی بھیجنے سے وہ دنیا کے دیگر ممالک میں مشن کی دیگر ضروریات سے دور ہو سکتے ہیں اور وسائل پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ عہدیداروں میں سے ایک نے کہا کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں سرحد پر مزید فعال ڈیوٹی فوجیوں کی تعیناتی کی توقع ہے ، جس کی پہلی لہر نے بڑے پیمانے پر فوجی قدم جمانے کی بنیاد رکھی ہے۔ بدھ کے روز ایک سینئر دفاعی عہدیدار نے اس بات کی تردید کی کہ 10,000 کی تعداد جاری کی گئی ہے، حالانکہ سینئر فوجی عہدیدار نے کہا کہ 10،000 تعداد ہوسکتی ہے۔ لیکن ہم نہیں جانتے، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ ہم اپنے انٹر ایجنسی شراکت داروں کے ساتھ منصوبہ بندی کے عمل میں ہیں۔ سینئر فوجی عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ ابتدائی 1500 فوجیوں کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ اس کا کسی دوسرے مشن یا تعینات کی ضروریات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور چونکہ محکمہ ممکنہ طور پر مزید فوجیوں کی تعیناتی پر غور کر رہا ہے تو ‘ہم یہ فیصلہ کریں گے’۔ فوجی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘یہ ہمارے کام کا ایک بہت بڑا حصہ ہے، یہ دیکھنا ہے کہ عالمی ترجیحات کے تعین کے علاوہ مشن کے لیے خطرہ، طاقت کے لیے خطرہ کیا ہے۔ ایک اور دفاعی عہدیدار کے مطابق 1500 فوجیوں کی ابتدائی لہر میں کیمپ پینڈلٹن اور سان ڈیاگو میں فرسٹ میرین ڈویژن کے 500 میرین شامل ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ میرین جلد ہی سرحد پر پہنچ جائیں گے اور تمام ہنگامی کارروائیوں کے لئے تیار رہیں گے ، جو تیز ردعمل فورس اور طویل مدتی حل دونوں کے طور پر کام کریں گے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم اسے قومی ایمرجنسی کی طرح دیکھیں کیونکہ اسے قومی ایمرجنسی قرار دیا گیا ہے’ ۔اگر آپ میرینز کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اتارتے ہوئے دیکھیں تو حیران نہ ہوں۔ عہدیدار نے بتایا کہ سرحدی مشن کے حصے کے طور پر تعینات میرینز کی تعداد بالآخر 2500 تک پہنچ سکتی ہے۔ سینیئر فوجی عہدیدار نے کہا کہ میرینز کیلیفورنیا کے جنگلات میں لگی آگ سے نمٹنے میں مدد کے لیے کال پر تھے لیکن اب ان کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اس مشن سے رہا کر دیا گیا تھا۔ سینئر فوجی عہدیدار نے کہا کہ 1500 میں تقریبا 1000 فوجی اہلکار بھی شامل ہیں جن میں ایک بٹالین ہیڈکوارٹر بھی شامل ہے۔ پینٹاگون کے ایک اور اہلکار نے سی این این کو بتایا کہ یہ اہلکار زیادہ تر
آن لائن تعلیم: ٹیکنالوجی نے سیکھنے کو کیسے بدلا؟

اگر آپ اپنے گھر میں بیٹھے پوری دنیا کی خبروں کو سن سکتے ہیں، دنیا کے کسی بھی ملک میں بیٹھے اپنے دوست سے بات کر رہے ہیں تو آپ ڈیجیٹل دنیا میں جی رہے ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں جب ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کا حصہ نہیں بنی تھی لیکن جب سے ٹیکنالوجی آئی ہے اس نے ہماری زندگیوں میں حقیقی معنوں مین انقلاب برپا کیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہمیشہ سے انسان کو ترقی کی نئی راہیں نکالنے میں مدد فراہم کی ہے۔ چاہے وہ شعبہِ صحت ہو یا شعبہِ تعلیم، یا کوئی بھی اور میدان، ٹیکنالوجی نے ہمیشہ انسان کا ہاتھ پکڑا اور نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ حالیہ برسوں میں تعلیم کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی مدد سے کافی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ جہاں پہلے زمانے میں صرف کچھ طالب علموں اور ایک استاد کے ہونے سے کلاس روم بنتا تھا۔ استاد کا کام صرف لیکچر دینا اور طالب علموں کے سوالوں کا جواب دینا ہوتا تھا۔ طالب علموں کے لیےصرف کلاس روم ہی پڑھنے کا ذریعہ ہوتا تھا۔ اس وقت کتب خانے اتنے عام اور معیاری نہیں ہوتے تھے۔ صرف کچھ ہی لوگوں کو کتب خانے تک جانے کی اجازت ہوتی تھی۔ اس وقت چھاپا خانہ کی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ جوہن گٹن برگ نے 1440 میں چھاپا خانہ ایجاد کیا۔ چھاپا خانے کی ایجاد نے تعلیم میں انقلاب برپا کر دیا۔ کتابیں تیزی سے چھپنے لگی اور لوگوں تک رسائی آسان ہوگئی۔ اسی وجہ سے یورپ میں نشاتہِ ثانیہ کا دور شروع ہوا۔ حالیہ دور میں آن لاین تعلیمی نظام طالب علموں کی بہت سی مشکلات حل کرتا دیکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آن لائن تعلیمی نظام طالب علموں کو مزید سہولیات دیتا ہے۔ کتابوں، خبروں، اور انسائیکلوپیڈیا ویب سائیٹس کی آسان دستیابی تعلیمی نظام کو پراثر بناتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کی تعلیمی ایپس جیسا کہ دولینگو ، یودیمی، کوئزلٹ، اور خان اکیڈمی طالب علموں کو پڑھنے کے لیے بہترین مواد مہیا کرتی ہیں۔ طالب علم گھر بیٹھے ان تمام ایپس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ زوم اور گوگل میٹ جیسی ایپس استعمال کر کے تمام طالب علم آن لائن کلاس سے جڑ سکتے ہیں۔ سکول کے سخت اور تھکا دینے والے اوقات کار سے اب طالب علموں کو آزادی مل سکتی ہے، جوس کی وجہ سے طالب علموں کو تفصیل سے پڑھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا تھا۔ ہر طالب علم ایک جیسی صلاحیت کا مالک نہیں ہوتا ہے۔ کچھ طالب علم پڑھ کر زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں جب کے کچھ طالب علم ویڈیوز دیکھ کر بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ آن لائن تعلیمی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر طالب علم کو اس کی صلاحیتوں اور دلچسبی کے مطابق تعلیم ملے۔ تعلیمی ایپس اور ویب سائیٹس پڑھنے کے لیے اور ویڈیوز دونوں اقسام کا مواد مہیا کرتی ہیں۔ یہ طالب علموں کی ذاتی نوعیت کو مدِظر رکھتے ہوئے ان کو پڑھنے کا تجربہ فراہم کرتی ہیں جس سے انہیں سمجھنے اور بیان کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے آنے سے جہاں پر طالب علموں کی معلومات تک رسائی آسان ہوئی ہے وہی پہ کلاس روم کا ماحول بھی اس بات پہ زور دیتا ہے کہ طالب علموں کے لیے پڑھنے کا ماحول سازگار رہے۔ اب طالب علم بغیر کسی مسلے کے آرام سے بہترین تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ کچھ طالب علم پڑھنے کے دوران دلچسبی کھو دیتے ہیں۔ آن لائن تعلیمی گیمز ایسے مسائل کو حل کرتی ہیں۔ آن لائن تعلیمی گیمز کو کھیل کر طالب علم مصروف اور لطف اندوز محسوس کرتے ہیں۔ یہ گیمز طالب علموں کو پڑھنے کی مزید تحریک بھی دیتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے آنے سے نہ صرف تعلیمی آسانی کے لیے تعلیمی ایپس اور ویب سائیٹس ایجاد ہوئی ہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے آنے سے پڑھائی کے عمل میں بھی انقلاب برپا ہوا ہے۔ مختلف اقسام کے آلات ایجاد ہوئے جن میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں ڈیسک ٹاپس اور لیپ ٹاپ دور سے تعلیم حاصل کرنا پروجیکٹر الیکٹرانک وائٹ بورڈز ورچوئل فیلڈ ٹرپس فلپڈ لرننگ مزیدبراں، اگر ٹیچرز طالب علموں کی کارکردگی دیکھنا چاہیں تو آن لائن طریقوں سے کار کردگی جانچ سکتے ہیں۔ آن لائن طریقے طالب علموں کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کا حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ حالیہ دور میں سب سے بڑا انقلاب مصنوئی ذہانت کی آمد سے آیا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی اور جیمینی جیسی ایپس طالب علموں کو تفصیل سے ان کے سوالات کے جوابات دیتی ہیں۔ یہ ایپس تمام اقسام کی ریاضی کی مشکلات حل کرتی ہیں، دستاویزات بنانا اور نئی چیزیں بنانا بھی آسانی سے ممکن بناتی ہیں۔ یہ ایپس تصاویر، ویڈوز، اور انفوگرافکس بھی بنا سکتی ہیں۔ طالب علم ان تمام ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے آن لائن تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں
ایلون مسک ٹرمپ کے ’مصنوعی ذہانت پروگرام‘ کے خلاف کھڑے ہوگئے،ماجرا کیا ہے؟

جیسے ہی امریکی نو منتحب صدر نےوائٹ ہاوس سے مصنوئی ذہانت کے متعلق ایک بڑا منصوبے کا اعلان کیا، ٹرمپ کے بہترین دوست ایلون مسک نے اسے متنازع بنانے کی کوشش کی۔ ایلون مسک نے اپنےایکس پہ لکھاکہ”اصل میں ان لوگوں کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے۔ سافٹ بینک کے پاس 10 بلین ڈالر محفوظ ہے۔ میرے پاس اس قدر اچھی اتھارٹی ہے۔” ٹرمپ نے کہا کہ “اس سرمایہ کاری سے ایک نئی کمپنی بنے گی جس کا ناام سٹارگیٹ ہوگا۔ اس سے امریکہ میں مصنوئی ذہانت مزید ترقی کرے گی”۔ سافٹ بینک، اوپن اے آئی اور اریکل کمنیوں کے رہنما اس اعلان کے دوران ٹرمپ کے ساتھ کھڑے تھے۔ ان سب کی کمپنیز اس منصوبے میں 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ شروع کریں گی۔ جب کہ آنے والے سالوں میں 500 بلین ڈالرز تک سرمایہ کاری کریں گے۔ یہ تبصرے کسی ایسے شخص کی طرف سے وائٹ ہاؤس کے ایک بڑے پروجیکٹ کو ہٹانے کا قابل ذکر ہیں جو ٹرمپ کے انتہائی اندرونی حلقے میں ہے۔ اس بات کی علامت کے طور پر کہ کس طرح ایلون مسک انتظامیہ کے پہلے دنوں میں شامل ہے، مسک نے کہا کہ وہ منگل کو اوول آفس میں تھے جب ٹرمپ نے ڈارک ویب مارکیٹ پلیس سلک روڈ کے بانی راس ولیم البرچٹ کے لیے معافی پر دستخط کیے تھے۔ مسک نے اپنی اسپیس ایکس اور ایکس کمپنیوں کے ایک اعلیٰ عملے کو مدد کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن شاید یہ بات حیران کرنے والی نہیں ہے کہ ایلون مسک اوپن اے آئی کو خریدنے جا رہا ہے۔ مسک اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین سے اوپن اے آئی خریدنے کے بارے میں رابطے کر رہا ہے۔ مسک نے کہا ہے کہ وہ آلٹمین پر اعتماد نہیں کرتا۔ مقدمہ میں دعویٰ کرتا ہے کہ چیٹ گی پی ٹی نے اپنی کچھ جدید ترین اے آئی ٹیکنالوجی کو نجی صارفین کے لیے محفوظ کر کے اپنا اصل غیر منافع بخش مشن ترک کر دیا ہے۔ جو کمپنیز سٹارگیٹ میں حصہ لے رہی ہیں انہوں نے ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ اس منصوبے میں کس طرح سے سرمایہ کاری کریں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کاروں کے زریعے مزید سرمایہ کاری کروا لیں۔ وائٹ ہاوس کے پریس سیکریٹری کیرولائن لیوٹ نے بدھ کے روز مسک کے الفاظ پر کہا کہ امریکی عوام کو صدر ٹرمپ اور کمپنیز کے سی ای اوزکے بیانات پہ یقین کرنا چاہیے۔ لیوٹ نے مزید کہا کہ “صدر ٹرمپ اے آئی کے میدان میں اس بنیادی ڈھانچے کے اعلان کے بارے میں بہت پرجوش ہیں، جو ظاہر ہے کہ بڑھ رہا ہے اور جس چیز کا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے مخالفین، جیسا کہ چین، اس میدان میں بہت ترقی یافتہ ہیں۔ لہذا، امریکی عوام کو صدر ٹرمپ اور ان سی ای اوز کے الفاظ کو اس کے لیے لینا چاہیے کیوں کہ یہ سرمایہ کاری ہمارے عظیم ملک میں آ رہی ہے، اور ان کے ساتھ امریکی ملازمتیں بھی آ رہی ہیں۔” مائیکروسافٹ کے سی ای او سٹیا ناڈالا کا کہنا ہے کہ “میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں اپنے 80 بلین ڈالر کے لیےبہترین ہوں۔”
ٹرمپ نے یورپی یونین کے لیے پُزڈر کو امریکی سفیر نامزد کر دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین کے لیے امریکہ کے سفیر کے طور پر اینڈریو پُزڈر کو نامزد کر دیا ہے، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پُزڈر اس خطے میں امریکی مفادات کو نمایاں طور پر پیش کریں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز سابق سی ای او سی کے ای ریستورانٹس اینڈریو پُزڈر کو یورپی یونین کے لیے امریکاکا سفیر نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب ٹرمپ نے یورپی یونین پر امریکی تجارت میں خسارے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ وہ یورپی یونین کے خلاف ٹیرف عائد کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ ٹرمپ نے ایک دن پہلے ہی کہا تھا کہ وہ یورپی یونین پر تجارتی خسارے کے ردعمل میں ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ ان کا ایک نیا تجارتی قدم ہو گا۔” ٹرمپ نے منگل کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “یورپی یونین ہمارے لیے بہت، بہت بری ہے اور وہ صرف ٹیرف ہی کے ذریعے انصاف حاصل کریں گے۔” پُزڈر، جو ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ میں محنت و مزدوری کے وزیر بننے کے لیے نامزد کیے گئے تھے لیکن سینٹ میں منظوری کے لیے ضروری ووٹ حاصل نہ کر پائے تھے، اس بار یورپی یونین کے ساتھ امریکی تعلقات کو نئی سمت دینے کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ “اینڈی ہمارے ملک کے مفادات کو اس اہم خطے میں نمایاں طور پر پیش کریں گے۔” تاہم پُزڈر کی پچھلی پیشہ ورانہ زندگی تنازعات سے بھری ہوئی رہی ہے۔ 2017 میں انہوں نے خود اعتراف کیا تھا کہ ان کی بیوی نے ایک غیر قانونی ملازمہ کو گھریلو ملازمت فراہم کی تھی اور ان کی کمپنی کے خلاف کئی قانونی شکایات بھی سامنے آئی تھیں۔ یہ تنازعات پُزڈر کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتے ہیں مگر ٹرمپ ان کے انتخاب پر پُر اعتماد ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا پُزڈر اپنی نئی ذمہ داریوں میں کامیاب ہوتے ہیں اور یورپی یونین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے سخت تجارتی موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ نئے سفیر کے لیے ایک بڑا امتحان ہوگا۔
“ٹرمپ کی مسلمان دشمن پالیسی انتہائی خطرناک ” انسانی حقوق کی تنظیمات نے خبردار کر دیا

امریکی انسانی حقوق کے گروہوں نے خبر دار کیا ہے کہ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر زمیں ایک ایسا آرڈر بھی ہے جو مستقبل میں مسلمان ممالک سے امریکہ آنے والے لوگوں پر پابندی لگا نے کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکن عرب اینٹی ڈسکریمینیشن مخالف کا کہنا تھا کہ موجوودہ حکم نامہ بھی اسی طرح تاثر دیتا ہے جس طرح 2017 میں ٹرمپ نے سفر کرنے پر پابندی لگائی تھی اور حتی کہ جو لوگ پہلے سے ملک میں آ چکے ہیں ان کو ان کے نظریات کی وجہ سے امریکہ سے نکالنے کا بھی کہا۔ انہوں نے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ہیلپ لائن بھی متعارف کروائی جو 24 گھنٹے کام کرتی ہے۔ قومی ایرانی و امریکن کونسل نے کہا کہ امریکہ کا بیرونی دہشت گردوں اور دوسرے قومی سلامتی اور لوگوں کی حفاظت کے متعلق ملنے والی دھمکیوں کو دیکھتے ہوئےٹرمپ کا یہ قدم امریکی خاندانوں کو ان کے پیاروں سے جدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ جس کی وجہ سے امریکہ یونی ورسٹیز میں عالمی طلباء مزید کم ہو جائیں گے۔ انہوں نے اس اقدام کے متعلق اپنی ویب سائٹ پر بھی ایک نیا سیکشن بنا دیا ہے۔ یہ حکم نامہ 2017 کے حکم ناموں سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے کیوں کہ اس میں لوگوں کو ان کی زبان کی بنا پر بھی ویزا نہیں دیا جا سکے گا۔اگر وہ شہریوں، ثقافت، حکومت، اداروں، یا نظریات کے ساتھ سخت رویہ اپناتے ہیں تو ایسا اقدام بھی اٹھایا جا سکتا ہے جو جنوری 2021 سے دیے گئے ویزوں کو ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے اس حکم نامے کے متعلق کیے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیاگیا ہے۔ محکمہِ خارجہ کے سابق اہلکار اور ویزا افسر نے قومی ایرانی و امریکن کونسل سے کانفرنس کال کی اور بتایا کہ یہ آرڈر امریکہ حکومت کو بے شمار طاقت دے سکتا ہے۔ وہ پوری دنیا سے طلباء اور کام کرنے والوں کو ویزا دینے سے انکار کر سکتے ہیں۔ امریکن عرب اینٹی ڈسکریمینیشن مخالف کی جانب سے ان سے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ابید ایوب نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس حکم نامے کے خلاف عدالت میں جانا چایئے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے بہت خطر ناک ہے کیوں کہ اگر مستقبل میں جمہوری انتظامیہ آتی ہے تو اس کو دائیں ہاتھ کے گروہوں کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، “یہ حکم امریکہ میں ان افراد کوصرف اس لیے ہٹانے کی اجازت دے گا جو وہ کہتے ہیں یا انہوں نے اظہار کیا ہے، اور وہ کن عہدوں پر فائز ہیں۔ اگر وہ کسی ایسے احتجاج میں شرکت کرتے ہیں جسے انتظامیہ دشمنی سمجھ سکتی ہے، تو ان کے ویزے منسوخ کر دیے جائیں گے اور انہیں ہٹانے کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔” ٹرمپ نے بارہا کہا ہے کہ وہ 2018 میں سپریم کورٹ کی طرف سے برقرار رکھی گئی پالیسی پر توسیع کرتے ہوئے بعض ممالک یا بعض نظریات کے حامل لوگوں پر سفری پابندیاں نافذ کریں گے۔ صدارتی الیکشن کمپین کے دوران ٹرمپ نے بارہا یہ کہا ہے کہ وہ غزہ، لیبیا، سومالیہ، شام اور یمن جیسے ممالک سے بھی لوگوں کو آنے سے روکین گے کیوں کہ یہ امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ بائیں ہاتھ کی سیاست سے منسلک لوگوں کو بھی امریکہ آنے سے روکیں گے۔
وہ مہرے جو پاکستان کی انتخابی سیاست کا رخ بدلتے ہیں

ماہرین آج تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ پاکستان کی کرکٹ یا سیاست میں کون زیادہ ‘غیریقینی’ نتائج والا کھیل مانا جائے۔ رائے عامہ کے جائزوں اور عام رجحانات کے برعکس انتخابی نتائج کی وجہ بننے والے ‘الیکٹیبلز’ بھی اس ابہام کی اہم وجہ ہیں۔ انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ پاکستانی سیاست اب تک الیکٹیبلز کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کچھ ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ‘الیکٹیبلز’ کا جادو قیام پاکستان سے پہلے بھی سر چڑھ کر بولا کرتا تھا۔ ایک ایسا امیدوار جو اپنی ذاتی حیثیت میں الیکشن جیت سکتا ہو، الیکٹیبل کہلاتا ہے۔ ایسے امیدوار اپنے حلقے میں مختلف وجوہات سے اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ برادری، دھڑا، شخصی تاثر، تھانہ کچہری پر رسوخ، معاشی حیثیت، سماجی خدمت، عقیدت یا پھر خوف وہ عناصر ہیں جو ‘الیکٹیبلز’ کی گاڑی کا ایندھن بنتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق الیکٹیبلز کی دو اقسام ہیں کچھ ایسے ہیں جو روایتی طورپر ہی کسی ایک پارٹی سے وابستہ ہیں اور اسی پارٹی سے الیکشن لڑتے ہوئے ہمیشہ جیت جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے اور پھر بھی جیت جاتے ہیں۔ کامیابی ملنے کے بعد وہ ہوا کا رخ یا کوئی مخصوص اشارہ پا کر ‘جیتنے والی’ پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو چھوڑ کر باقی ہر حصے باالخصوص دیہی پاکستان میں الیکٹیبلز موجود رہے ہیں۔ کچھ خاندان تو ایسے ہیں جو بیک وقت مختلف پارٹیز سے جڑے رہتے ہیں۔ کئی گھرانے ایسے بھی ہیں جن کا ایک فرد مسلم لیگ ن میں، دوسرا پیپلز پارٹی اور تیسرا تحریک انصاف میں شامل ہے۔ ‘اینٹی اسٹیٹس کو’ ہونے کی دعویدار تحریک انصاف ہو یا روایتی سیاسی جماعتیں کہلانے والی ن لیگ اور پیپلزپارٹی، تینوں اپنی کامیابی کے لیے الیکٹیبلز پر انحصار کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ انتخابی میدان میں الیکٹیبلز پر انحصار نہیں کرتیں۔ سیاست میں الیکٹیبلز کا کردار آج سے نہیں بلکہ آج سے 100 برس پہلے بھی موجود تھا۔ 1937 میں جب پنجاب کے الیکشن ہوئے تو جاگیرداروں اور گدی نشینوں نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعدآل انڈیا مسلم لیگ کو شدت سے یہ احساس ہوا کہ اگر ہم نےالیکشن جیتنا ہے تو ہمیں اپنی پارٹی میں جاگیرداروں اور سیاسی رسوخ رکھنے والے امیداروں کو جگہ دینی ہوگی۔ 1946 میں مسلم لیگ نے الیکٹیبلز کو پارٹی میں جگہ دی اور کامیاب ٹھہری۔ ایک روایت میں مانا جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ 1970 کے انتخابات میں نئے لوگ ایوانوں میں آئے۔ بلامقابلہ جیتنے کی خواہش میں ذوالفقار علی بھٹو کو مخالف امیدوار کے اغوا جیسے سنگین الزام کا سامنا رہا، اس کے باوجود یہ پہلا موقع مانا جاتا ہے جب الیکٹیبلز کا مکمل زور قدرے ٹوٹا اور متوسط طبقے کے امیدواروں نے کامیابی سمیٹی۔ پروفیسر محمد صدیق قریشی اپنی کتاب ‘پولیٹیکل کلچر ان پاکستان’ میں لکھتے ہیں کہ “سنہ 1970 کے الیکشن میں پہلی بار 55 سیٹیں متوسط طبقے کے حصہ میں آئیں”۔ تاہم اُس الیکشن میں بھی قومی اسمبلی کی 52 سیٹوں پر جاگیردار طبقے کا قبضہ رہا۔ پانچ سیٹوں پر سرمایه داروں کی اِجارہ داری قائم ہوئی۔ اس کے بعد 1977 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کو الیکٹیبلز پہ انحصار کرنا پڑا۔ دوسری مرتبہ 2013 کے الیکشن میں پاکستان تحریکِ انصاف سے نئے لوگوں کو موقع ملا لیکن پی ٹی آئی الیکشن نہ جیت سکی۔ 2018 میں اپنے دعوے کے برعکس الیکیبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا اور الیکشن جیتا گیا۔ شعبہ سیاست اور عمرانیات کے ماہرین کو توقع ہے کہ نئے لوگوں کے آنے سے نوجوانوں پہ مثبت اثر پڑے گا اور وہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ 2024 میں ہونے والے الیکشن میں مخصوص حالات کی بنیاد پر تحریک انصاف کو اکثر نئے لوگوں پر انحصار کرنا پڑا۔ پارٹی کے مطابق اس الیکشن میں عوام کی طرف سے انہیں زبردست حمایت ملی مگر نتائج تبدیل کر دیے گئے، جس کی وجہ سے وہ حکومت نہ بنا سکے۔ الیکٹیبلز پر ایک تنقید یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگ بغیر کسی منشور کے صرف خاندانی پسِ منظر یا جاگیردارانہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر سیاست کر کے عوام کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ ان کے حامی کہتے ہیں کہ ایک ایسا انسان جو بچپن سے سیاست اور عوام کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ کسی نئے انسان سے بہتر عوام کے مسائل کو سمجھ کر اسمبلی میں پیش کر سکتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 157 لاہور سے کامیاب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار حافظ فرحت عباس نے کہا کہ “الیکٹیبلز پاکستان کی سیاست میں ایک پیچیدہ کردار ہیں۔ ایک طرف، یہ وہ شخصیات ہیں جو اپنی عوامی حمایت اور مقامی سطح پر اثر و رسوخ کی بدولت انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف ان کا انحصار اکثر ذاتی مفادات اور روایتی خاندانی اثر و رسوخ پر ہوتا ہے، جو سیاسی عمل کو غیر جمہوری اور محدود کر دیتا ہے۔ یہ عمل جمہوریت کے اصولوں کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ نظریاتی سیاست کو پس پشت ڈال کر شخصیات پر مبنی سیاست کو فروغ دیتا ہے”۔ الیکٹیبلز کے بغیر سیاسی جماعتوں کی انتخابات میں کامیابی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “الیکٹیبلز کے بغیر کامیابی ممکن تو ہے، لیکن یہ ایک مشکل اور طویل المدتی عمل ہوگا۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو مضبوط تنظیمی ڈھانچہ بنانا ہوگا اور عوام کے مسائل کے حل پر مبنی پالیسیاں پیش کرنی ہوں گی۔ اگر کوئی جماعت نوجوانوں، متوسط طبقے، اور خواتین کو اپنی طرف متوجہ کر سکے، تو الیکٹیبلز پر انحصار کم ہو سکتا ہے۔ عوامی بیداری اور نظریاتی سیاست اس تبدیلی کے لیے کلیدی کردار ادا کریں گے”۔ “نوجوانوں کو سیاست میں شامل کرنے سے الیکٹیبلز کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ جب نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لیے خود سیاسی عمل کا حصہ بنیں گے، تو وہ روایتی سیاست سے ہٹ کر نظریاتی سیاست کو فروغ دیں گے۔ اس کے لیے