پاکستان سٹاک ایکسچینج: مارکیٹ کی ترقی کے پیچھے چھپا راز

پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نے گزشتہ کچھ سالوں میں ایسی غیر معمولی ترقی کی ہے کہ پوری دنیا دنگ رہ گئی۔ جہاں پاکستان کی معیشت مختلف مشکلات جیسے مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، وہاں اسٹاک مارکیٹ نے اپنی کارکردگی سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ 2024 پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی جگہ مضبوط کی۔ اس میں 60 فیصد تک اضافہ دیکھنے کو ملا، اور انڈیکس 118,000 تک پہنچ گیا۔ کچھ عرصے میں منافع کی وجہ سے میں مارکیٹ میں کمی آئی، مگر مجموعی طور پر یہ مارکیٹ اب بھی مثبت سمت میں بڑھ رہی ہے اور اس میں مزید ترقی کے امکانات ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مقامی سرمایہ کاروں کا بڑھتا ہوا اعتماد اور عالمی سطح پر پاکستان کی اقتصادی پوزیشن کے بارے میں مثبت سوچ ہے۔ گزشتہ برسوں میں جب دوسرے شعبے مشکلات کا شکار تھے، سٹاک مارکیٹ نے 7 بلین ڈالر کے آئی ایم ایف پیکیج سے اپنی قوت میں اضافہ کیا۔ اس کے علاوہ، مقامی ادارے اور سرمایہ کار بھی مارکیٹ کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی سٹاک مارکیٹ نے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو بھی متوجہ کیا ہے۔ یہاں کا سرمایہ کاری ماحول بہتر ہوا ہے اور کمپنیوں کے منافع میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کچھ بہتری، تیل کی قیمتوں میں کمی، اور بینکوں کی شرح سود میں کمی نے مارکیٹ کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نہ صرف مقامی سرمایہ کاروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے بلکہ یہ ملک کی معیشت کی ترقی کا بھی ایک مضبوط اشارہ ہے۔ لیکن یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سٹاک مارکیٹ کی ترقی کا تعلق صرف معاشی عوامل سے نہیں، بلکہ سیاسی صورتحال سے بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ حالات بہتر رہیں، تو پاکستان کی سٹاک مارکیٹ مزید کامیاب ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، اگر سٹاک مارکیٹ میں یہ ترقی جاری رہی، تو یہ نہ صرف سرمایہ کاروں کے لیے، بلکہ پورے پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بڑی کامیابی بن سکتی ہے۔
وکٹورین کراؤن پجن”: دنیا کا سب سے بڑا اور نایاب کبوتر”

دنیا کا سب سے بڑا کبوتر سمجھا جانے والا “وکٹورین کراؤن پجن” ایک انتہائی نایاب اور ایکسوٹک پرندہ ہے۔ اس کی قیمت عالمی سطح پر 3000 سے 4000 ڈالر تک ہے۔ پاکستان میں اس کی تعداد بہت کم ہے، اور یہاں صرف چند جوڑے ہی موجود ہیں، یہ پرندہ انسانوں سے مانوس ہے اور اس سے رابطہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کا نام “وکٹورین کراؤن پجن” رکھا گیا ہے کیونکہ ملکہ وکٹوریا کو اپنے تاج میں نیلے پرندوں کے پر بہت پسند تھے اور یہ کبوتر ان کے تاج کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ پرندہ اس قدر نایاب ہے کہ دنیا میں اس کی تعداد بہت کم ہے اور یہ ایک انتہائی قیمتی پرندہ مانا جاتا ہے۔ اس کا مالک، ملک نبیل صاحب، اس کی دیکھ بھال میں انتہائی محنت کرتے ہیں۔ وہ اس پرندے کو بچپن سے اپنے ساتھ رکھ کر اسے تربیت دیتے ہیں تاکہ یہ انسانوں کے ساتھ مانوس ہو سکے۔ صبح اس کو اُبالے ہوئے انڈے اور سیب کھلائے جاتے ہیں، جبکہ دوپہر میں اس کی مخصوص غذا تیار کی جاتی ہے، جس میں ڈاگ فوڈ اور دیگر دانے شامل ہیں۔ یہ کبوتّر اس قدر خاص ہے کہ اس کو کتے کے کھانے کی خوراک بھی دی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس پرندے کی تعداد انتہائی محدود ہے، اور اگر کوئی ایسا کبوتّر مل جائے تو اس کی قیمت لاکھوں روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم، ملک نبیل صاحب کا کہنا ہے کہ وہ اس کبوتّر کو صرف نمائش کے لیے لائے ہیں تاکہ لوگوں کو اس نایاب پرندے کے بارے میں آگاہی ہو سکے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ابھی تک اس کبوتّر کو بیچنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، چاہے ان کے پاس اس کے لئے بڑی قیمت کی پیشکشیں بھی آئیں۔ یہ پرندہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی نایاب نوعیت کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
سندھ میں وائس چانسلرز کی تقرری، جامعات کی خود مختاری پرحملہ؟

سندھ حکومت کی جانب سے یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کی جارہی ہے جس کے تحت اب 20 یا 21 گریڈ کے افسران کو وائس چانسلر مقرر کرنے کی اجازت دی جائے گی، یہ فیصلہ ایک تنازعہ بن چکا ہے کیونکہ اس سے یونیورسٹیوں کی خود مختاری پر اثر پڑ سکتا ہے اور تعلیمی معیار متاثر ہو سکتا ہے۔ اس ترمیم کے تحت اگر یونیورسٹیوں میں انتظامی مسائل ہیں تو حکومت کو ان کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، مگر بیوروکریٹس کے ذریعے وائس چانسلر کی تقرری سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ تعلیمی ادارے کے انتظام اور معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ اور ماہرین تعلیم نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ہے اور اس پر ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیوروکریٹس کو وائس چانسلر بنانا تعلیمی اداروں کی خود مختاری پر حملہ ہے اور یہ فیصلہ قابل قبول نہیں۔ ماہرین کا مطالبہ ہے کہ وائس چانسلر کا انتخاب صرف تعلیمی شعبے کے ماہرین میں سے کیا جائے تاکہ تعلیمی معیار اور اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ یونیورسٹی ایکٹ میں اس ترمیم کے اثرات یونیورسٹیوں کے انتظام پر پڑ سکتے ہیں، خاص طور پر اگر بیوروکریٹس کو تعلیمی شعبے کا تجربہ نہ ہو تو اس سے تعلیمی اداروں کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد طلبہ اور اساتذہ کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے جو کہ تعلیمی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ یونیورسٹیوں کی خود مختاری اور تعلیمی معیار کا تحفظ سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ سوالات اب بھی موجود ہیں کہ کیا حکومت اس احتجاج کو سن کر اپنا فیصلہ واپس لے گی اور کیا پاکستانی جامعات اپنی خود مختاری کھو رہی ہیں۔
دودھ، مکھن اور نازونعم سے پلے قربانی کے جانور : اس سال قیمتیں کیا ہوں گی؟

پاکستان میں بچھڑوں کی پرورش کا عمل نہ صرف ایک فن ہے، بلکہ اس میں ہر قدم پر خصوصی توجہ اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مویشی منڈی میں گلہ بانی کرنے والوں کاکہنا ہے کہ الحمدللہ، ہم اپنے بچھڑوں کی پرورش کا آغاز دو سال کی عمر سے کرتے ہیں، جب ان کے دانت نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ اس دوران، ان کی خوراک اور نگہداشت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ وہ نہ صرف صحت مند رہیں بلکہ ان کا گوشت بھی اعلی معیار کا ہو۔ خوبصورت گوشت کے لیے خصوصی خوراک ان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے بچھڑوں کو خوش ذائقہ خوراک دیتے ہیں، جس میں خشک میوہ جات، گھی، مکھن، دودھ اور تیل شامل ہیں۔ ان اجزاء کا استعمال ان کے کوٹ کو چمکدار اور ان کے گوشت کو مزید نرم بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پروٹین کی مقدار پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ ان کے جسم میں اضافی چربی کے بجائے پروٹین بڑھے اور گوشت کا معیار مزید بہتر ہو۔ صحت اور ویکسی نیشن پر زور ویکسینیشن کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ اپنے بچھڑوں کی صحت کا مکمل خیال رکھتے ہیں اور کسی بھی بیماری سے بچاؤ کے لیے انہیں مناسب ویکسی نیشن دیتے ہیں۔ ان کے خون کے ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی بیماری کا پتہ چل سکے اور فوری علاج فراہم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، ان کی نیوٹریشنل ضروریات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق پورا کیا جاتا ہے، تاکہ وہ بہترین معیار کے گوشت کے لیے تیار ہوں۔ قیمتوں پر اثرات ان کا مزید کہنا تھا کہ مہنگائی اور محنت کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بچھڑوں کی پرورش کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، عالمی منڈی میں پاکستانی گوشت کی بڑھتی ہوئی طلب نے ہمارے جانوروں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے باوجود، ہم اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کے عمل کو مکمل طور پر مستحکم رکھتے ہیں تاکہ ان کی قیمتوں میں توازن برقرار رہے۔ جانوروں کی قیمتیں اور پرورش کا بجٹ انہوں نے کہا کہ آج کل، ہمارے فارم پر ایک بچھڑے کی اوسط قیمت تقریباً ایک ملین روپے ہے۔ اگر کسی خاص شوق کے جانور کی بات کی جائے تو اس کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے فارم میں، جانوروں کی پرورش کاا بجٹ خاص طور پر مینیج کیا جاتا ہے تاکہ ان کی صحت، خوراک اور معیار کو بہتر بنایا جا سکے اور ہمارے گاہکوں کو بہترین گوشت فراہم کیا جا سکے۔
کراچی میں وال چاکنگ کے خلاف کریک ڈاؤن، پولیس نے گرفتاریوں کا آغاز کر دیا

شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں وال چاکنگ کرنے والوں کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق شہر کی دیواروں پر غیر قانونی طور پر تحریریں اور تصاویر بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے اور اس مہم میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی۔ شہریوں نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر کی خوبصورتی اور صفائی کے حوالے سے یہ قدم ضروری تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹریٹ کرمنلز اور ان افراد کو بھی پکڑنا ضروری ہے جو شہر میں بد امنی کا سبب بن رہے ہیں۔ پولیس حکام نے بتایا کہ کریک ڈاؤن کے دوران مشتبہ افراد کی شناخت کی جا رہی ہے اور شہر بھر میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ وال چاکنگ کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرمنلز کی بھی گرفتاری کی جائے تاکہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکے۔ کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہم کامیاب ہو تو شہر کی سڑکوں پر منفی سرگرمیوں کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ کراچی میں وال چاکنگ کے خلاف کریک ڈاؤن ایک اہم قدم ہے جو شہر کی صفائی اور خوبصورتی کے لیے ضروری ہے۔ شہریوں کی حمایت سے یہ مہم شہر میں امن قائم کرنے اور منفی سرگرمیوں کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، اگر یہ کامیاب ہو تو کراچی کا ماحول بہتر ہو گا۔
رجب بٹ کو شیر کے بچے کو غیر قانونی طور پر رکھنے پر سزا

معروف ٹک ٹاکر رجب بٹ کو شیر کے بچے کو غیر قانونی طور پر رکھنے کے الزام میں عدالت نے سزا سنادی۔ اس کیس میں جیوڈیشل مجسٹریٹ نے رجب بٹ کو ایک سال کی کمیونٹی سروس کرنے کا حکم دیا، لیکن اس سزا کی نوعیت اور رجب بٹ کا اعتراف جرم اس کیس کو ایک منفرد اور دلچسپ موڑ دیتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب وائلڈ لائف آفیسر نے رجب بٹ کے خلاف ایک درخواست جمع کروائی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ رجب بٹ نے شیر کا بچہ اپنے پاس رکھا تھا۔ رجب بٹ نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتے بوجھتے نہیں تھے کہ جنگلی جانوروں کو غیر قانونی طور پر رکھنا جرم ہے۔ رجب بٹ نے عدالت میں بیان دیا، کہ”میں نے اس عمل سے ایک غلط مثال قائم کی اور اب مجھے احساس ہو گیا ہے کہ جنگلی جانوروں کو اس طرح رکھنا غیر مناسب ہے۔” اس کے بعد انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ “مجھے یہ علم نہیں تھا کہ جنگلی جانور تحفے کے طور پر وصول نہیں کیے جا سکتے تھے۔” اس بیان کے بعد عدالت نے رجب بٹ کو ایک سال کی کمیونٹی سروس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں وہ پروبیشن آفیسر کے ماتحت کام کرے گا۔ اس کمیونٹی سروس کا حصہ یہ تھا کہ رجب بٹ ہر ماہ اپنے سوشل میڈیا پر وی لاگ کے ذریعے جانوروں کے حقوق اور تحفظ کے بارے میں آگاہی فراہم کرے گا۔ ان وی لاگ میں وہ اس بارے میں گفتگو کرے گا کہ جنگلی جانوروں کے تحفظ اور ان کے حقوق کو کس طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ رجب بٹ کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ یہ وی لاگ اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپلوڈ کرے گا۔ یہ فیصلہ نہ صرف رجب بٹ کے لیے ایک سبق ہے بلکہ ایک بڑا پیغام بھی دیتا ہے کہ سوشل میڈیا پر مشہور شخصیات کو اپنے اثر و رسوخ کا درست استعمال کرنا چاہیے۔ عدالت نے وائلڈ لائف محکمہ کو ہدایت کی کہ وہ رجب بٹ کو جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے تمام ضروری مواد فراہم کرے تاکہ وہ آگاہی مہم میں بھرپور حصہ لے سکے۔ رجب بٹ نے اپنے عمل پر پچھتاوا ظاہر کیا اور کہا کہ اب وہ جنگلی جانوروں کے حقوق کے بارے میں مثبت پیغام رسانی کرے گا۔ اس فیصلے کے بعد رجب بٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ اسے اپنی غلطی کو سدھارنے کا موقع دیا جائے۔ عدالت نے اس درخواست پر غور کرتے ہوئے اسے ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ رجب بٹ کے اس معاملے نے نہ صرف لاہور بلکہ پورے ملک میں جنگلی جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹک ٹکر اس ایک سال کی کمیونٹی سروس کے دوران کس حد تک لوگوں کو آگاہی دے پاتا ہے اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔
فائر فائٹرز نے آخر کار آگ پہ قابو پا لیا: یہ کیسے ممکن ہوا؟

کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے آگ سے تباہ ہونے والے علاقے کے لیے 2.5 ارب ڈالر کے امدادی پیکج پر دستخط کیے ہے۔ جس کے بعد فائر فائٹرز نے لاس اینجلس کے شمال میں جنگل کی آگ کی توسیع روک دی ہے۔ لاس اینجلس سے تقریبا 50 میل( 80 کلومیٹر)شمال میں واقع ہیوز فائر بدھ کے روز اس وقت بھڑک اٹھا جب ایمرجنسی سروسز شہر کے مشرقی اور مغربی حصوں میں دو آگ پر قابو پانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں جو دو ہفتوں سے زیادہ عرصے سے جل رہی ہیں۔ ہیوز فائر نے فوری طور پر تقریبا 10،176 ایکڑ( 41 مربع کلومیٹر)کو جلا دیا ، لیکن یہ اعداد و شمار دن بھر برقرار رہے کیونکہ 4،000 فائر فائٹرز نے ہوا سے پانی اور روک تھام کو گرایا اور زمین پر ہاتھ کے اوزار اور نلیوں کا استعمال کیا۔ کیلیفورنیا کے محکمہ جنگلات اور فائر پروٹیکشن (کیل فائر)نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ کنٹرول کے دائرے کا ایک پیمانہ کنٹینمنٹ بڑھ کر 24 فیصد ہو گیا ہے جو اس سے پہلے 14 فیصد تھا۔ ہیوز فائر کے نتیجے میں 31,000 رہائشیوں کو انخلاء کے احکامات جاری کیے گئے تھے اور مزید 16،000 افراد کو انخلا کی وارننگ دی گئی تھی کیونکہ اس نے سانتا کلیریٹا کے قریب کاسٹائک جھیل کے علاقے میں پہاڑی علاقوں میں دھواں پھیلایا تھا۔ فائر فائٹرز کو تیز ہواؤں اور کم نمی کا سامنا کرنا پڑا جو جمعہ کے روز بھی برقرار رہنے کی توقع تھی۔ ہفتے سے پیر تک لاس اینجلس کے علاقے میں بارش اور پہاڑوں پر برفباری کی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے کچھ راحت تو مل سکتی ہے لیکن دیگر خطرات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ نیشنل ویدر سروس نے خبردار کیا ہے کہ اس کے اثرات کم سے کم ہوں گے، سوائے اس کے کہ جلنے والے علاقے میں گرج چمک کے ساتھ بارش کا خطرہ کم سے کم ہو گا۔ لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے بدھ کے روز ایک نیوز کانفرنس کے دوران متنبہ کیا کہ بارش مٹی کے تودے گرنے کا سبب بن سکتی ہے اور شہر رکاوٹیں لگا کر، آگ کا ملبہ ہٹا کر اور طوفانی پانی کا رخ موڑ کر “جارحانہ کارروائی” کر رہا ہے۔ میٹروپولیٹن علاقے میں ایٹن اور پالیساڈس میں آگ مسلسل 17 ویں روز بھی جل رہی ہے جس کے نتیجے میں 28 افراد ہلاک اور تقریبا 16 ہزار عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ کیل فائر نے کہا کہ ایٹن فائر پر 95 فیصد اور پالیسیڈس فائر پر 72 فیصد قابو پا لیا گیا تھا۔ اس علاقے میں لگنے والی چھوٹی چھوٹی آگ وں نے بھی علاقے کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جس میں سیپلویڈا آگ بھی شامل ہے، جو جمعرات کی صبح شروع ہوئی اور گیٹی سینٹر میوزیم کے قریب 405 فری وے پر جل گئی ۔ برش فائر، جو 45 ایکڑ رقبے پر پھیل چکا ہے اور 60 فیصد پر قابو پا لیا گیا ہے، کی وجہ سے شدید سفر کرنے والی شاہراہ کا کچھ حصہ تھوڑی دیر کے لیے بند ہو گیا اور کچھ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ کیلیفورنیا کی جانب سے ریاستی امداد کے دو طرفہ پیکیج کا اعلان نیوسم نے اس وقت کیا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعے کے روز آگ سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ریاست کا دورہ کرنے والے تھے۔ ریاستی امداد جاری آپریشنز، آفات کی بازیابی، ملبے کو ہٹانے اور دیگر کاموں کے لئے ادا کرے گی۔ اس آفت کے لیے مزید اربوں ڈالر کی وفاقی امداد درکار ہو گی جس کے بارے میں نجی پیش گوئی کرنے والے ایکو ویدر نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس سے 250 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اور معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ نے بدھ کے روز فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دھمکی دی تھی کہ اگر کیلیفورنیا نے پانی کے انتظام میں تبدیلی نہیں کی تو وہ وفاقی فنڈنگ بند کر دیں گے۔ وائٹ ہاؤس میں انٹرویو کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ ‘مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں کیلیفورنیا کو اس وقت تک کچھ بھی دینا چاہیے جب تک وہ پانی بہنے نہیں دیتے۔’ نیوسم نے کہا کہ کیلی فورنیا کے پانی کے انتظام پر ٹرمپ کی تنقید کا آگ لگنے کی ممکنہ وجوہات اور ردعمل سے متعلق مسائل سے مکمل طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، ٹرمپ نے کہا کہ ریاست کے شمالی حصے میں کیلیفورنیا کے تحفظ کی کوششیں لاس اینجلس کے آس پاس فائر ہائیڈرنٹس کے خشک ہونے کی ذمہ دار ہیں – یہ غلط بیانی یا غلط فہمی ہے کہ جب پیلساڈس کے علاقے میں تین مقامی آبی ذخائر میں پانی ختم ہو گیا تھا جب فائر فائٹرز نے آگ پر قابو پایا۔ نیوسم نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، “اسٹیٹ واٹر پروجیکٹ کا پانی کی فراہمی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق میونسپل سسٹم کے لئے آگ کو دبانے سے ہے۔ “یہ بہت نقصان دہ ہے جب لوگ اس طرح کی غلط معلومات پر یقین کرتے ہیں.”
‘پاکستان میں میڈیا اسٹوڈیو چیزیں مانگ کر بنائے جاتے ہیں’

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب وفاقی حکومت قومی اسمبلی میں ’پیکا ایکٹ‘ میں ترامیم کا بل پیش کرچکی ہے، خواجہ محمد آصف کہا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا اسٹودیوز آگے پیچھے سے چیزیں مانگ کر بنائے جاتے ہیں۔ یاد رہے یہ بیان تب دیا گیا جب ایک طرف پاکستان میں پیکا ایکٹ میں ترمیم ہوئی ہے اور ماہرین سمیت سوشل میڈیا صارفین بھی اس ایکٹ پر سوالات اٹھارہے ہیں۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ پاکستان میں شعبہِ صحافت پہلے ہی لاتعداد پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ مگر شاید حکومت اس شعبے کو سانسیں لیتا دیکھنا نہیں چاہتی۔ ہیومن رائیٹس کمیشن نے 2022 سے 2024 تک آزادیِ اظہارِ رائے کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ان سالوں میں پاکستان میں صحافت پر بہت سی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ہیومن رائیٹس کمیشن کے مطابق گزشتہ سال ایک صحافی کا قتل ہوا جب کہ متعدد صحافی لا پتہ ہوئے جن میں سے کچھ ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ ریاست نے مین اسٹریم میڈیا پر پابندیاں لگا کر تقریباً خاموش کروا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام اور میڈیا مالکان تیزی سے ڈیجیٹل میڈیا کی جانب آرہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ حکومتی اراکین اسمبلیوں میں کالے قانون بنا رہے ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کہا ہے کہ “میڈیا مالکان کو آزادی صحافت کا خیال رکھنا چاہیئے، سیاستدان تو میڈیا کا آسان ہدف ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا “صحافت کی آزادی بہت ضروری ہے، ہم سب کے لیے ایمانداری بہت ضروری ہے، صحافتی آزادی کی جنگ میں آپ کے ساتھ ہوں”۔ وزیردفاع نے مزید کہا کہ “سیاست کے ساتھ صحافت میں دوغلا پن چلتا رہا تو یہ سب نہیں چلے گا، صحافتی اداروں کے مالکان کو دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا۔ میں ان سب سے کہوں گا کہ اپنے گریبان مین بھی جھانکیں ۔ اداروں میں دوغلا پن کسی صورت نہیں ہونا چاہیئے”۔ نیوزکانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ” آزادی صحافت کا مطلب ایک ستون کو مضبوط کرنا ہے، پی ٹی آئی دور میں ہم سب جیل میں تھے۔ پی ٹی آئی دورمیں لوگ ٹی وی پر بیٹھ کرجھوٹے الزامات لگاتے تھے”۔ رہنما ن لیگ کا مزید کہنا تھا کہ “القادریونیورسٹی، یونیورسٹی نہیں، القادرٹرسٹ کے نام 438 ایکڑ زمین ہے، القادر ٹرسٹ پربھی مکمل تحقیقات درکار ہیں، میڈیا کو کہہ رہا ہوں کہ دوہرا معیارختم کرے”۔
آئی سی سی کا ون ڈے ٹیم آف دی ائیر کا اعلان، کون سے تین پاکستانی کرکٹرز شامل؟

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی) کی جانب 24 جنوری بروز جمعہ کو سال 2024 کی ون ڈے ٹیم آف دی ائیر کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان کے لیے یہ خبر بہت خوشگوار اس لیے بھی ہے کیوں کہ اس میں پاکستانی ٹیم کے 3 کھلاڑی شامل ہیں۔ جب کہ ہمسایہ ملک انڈیا کا ایک بھی کھلاڑی شامل نہیں ہے۔ جمعے کے روز آئی سی سی کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ اعلان کیا گیا جس میں 2024 کی ون ڈے کی ٹیم کا اعلان کیا گیا۔ پاکستانی کرکٹرز میں سے نوجوان بلے باز صائم ایوب، شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف ون ڈے ٹیم آف دی ائیر میں شامل ہیں۔ Presenting the ICC Men’s ODI Team of the Year 2024 featuring the finest players from around the world 👏 pic.twitter.com/ic4BSXlXCc — ICC (@ICC) January 24, 2025 اس ٹیم میں کپتانی سری لنکا کے چارتھ اسالنکاکو ملی جب کہ سری لنکا کےکُل 4 کھلاڑی اس ٹیم میں شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں پاتھم نسانکا، کونسل مینڈس اور وینندو ہاسرنگا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان سے رحمان اللہ گُرباز، عظمت اللہ عمرزئی اور اے ایم غضنفر شامل ہیں۔ویسٹ انڈیز سے شیرفین ردرفورڈ کو بھی ون ڈے ٹیم آف دی ائیر میں شامل کیا گیا ہے۔ حیران کن طور پر آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں سوائے پاکستان کے ٹاپ 5 ٹیموں میں سے کوئی بھی کھلاڑی اس ٹیم میں جگہ نہیں بنا پایا ہے۔
کلثوم نواز اور مریم نواز کی نصاب میں شمولیت: ’تعلیمی نظام کو مذاق بنایا جارہا ہے‘

جارج آرویل نے کہا تھا ” جو ماضی کو اپنے قابو میں رکھتا ہے، حال اسی کا ہوتا ہے اور جو حال کو اپنے قابو میں رکھتا ہے ، مستقبل اسی کا ہوتا ہے”۔ دنیا بھر میں جہاں بھی طاقت کا راج چلتا ہے، طاقتور نہ صرف اپنا آج بلکہ آنے والے کل کو بھی محفوظ بنانے کے جتن کرتا ہے۔ بادشاہ جب بھی تحت پہ بیٹھتا ، سب سے پہلے اپنے بھائیوں کو قتل کروا دیا کرتا کہ کل کو یہ میرے مقابلے میں کھڑے نہ ہو جائیں۔ بادشاہوں کا زمانہ گیا اور جمہوریت آئی، مگر انسانی فطرت آج بھی اسی جگہ پر موجود ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی صورتحال انتہائی نازک اور سہولیات نہ ہو نے کے برابر ہیں۔ پاکستان بنے 78 سال ہو چکے ہیں مگر بہتر تعلیم حاصل کرنے کے لیےہمیں لاکھوں روپے کے عوض بیرون ملک جانا پڑتا ہے۔ جس قدر باقاعدگی سے پاکستان کی حکومت تبدیل ہوتی ہے اتنی ہی باقاعدگی سے طلبا کے پڑھنے والی کتابوں کو تبدیل کیا جاتا ہے لیکن شاید ان کو طلبا کے بہتر مستقبل سے زیادہ اپنے بہتر مستقل کی فکر ہے۔ نئے تعلیمی سال کے لیے چھپنے والی کتابوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے نویں اور دسویں کی کتاب میں نواز شریف کی بیگم کلثوم نوازاور بیٹی مریم نواز کے کردار کے بارے میں تحریر شامل کی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے حکومت میں بیٹھے لوگ بچوں کے ذہنوں میں اثر اندار ہو کر مستقبل میں بھی اسی طرح پاکستان کی سربراہی کرنا چاہتے ہیں۔ طلباء کے نصاب میں کلثوم نواز اور مریم نواز کے بارے میں مواد شامل کرنے پر نہ صرف ماہرینِ تعلیم بلکہ سوشل میڈیا صارفین بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ماہر تعلیم رسول بخش رئیس نے خبر رساں ادارے ’انڈیپنڈٹ اردو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “پہلے تو یہ وضاحت کی جائے کہ سابق وزرائے اعظم کی بیویوں اور بیٹی کی ذاتی خدمات کیا ہیں؟ نئی نسل کو اس طرح کے نصاب کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے”۔ ترجمان محکمہ تعلیم پنجاب نور الہدیٰ نے ’پاکستان میٹرز‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “مطالعہ پاکستان میں بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز کے حوالے سے الگ باب نہیں بلکہ خواتین کے کردار پر مشتمل باب میں ان کی خدمات شامل کی گئی ہیں”۔ جس باب میں کلثوم نواز اور مریم نواز کو شامل کیا گیا ہے اس کا عنوان ہے “قیامِ پاکستان 1947سے عہدِ حاضر تک قومی ترقی میں خواتین کی خدمات”۔ رسول بخش رئیس نے مزید کہا کہ “مطالعہ پاکستان میں شامل فاطمہ جناح کے علاوہ دیگر تمام خواتین کا قومی ترقی میں کوئی نمایاں کردار نہیں ہے۔ یہ خواتین دو سابق وزرائے اعظم کی بیویوں کے طور پر جانی جاتی ہیں جبکہ مریم نواز کی پہچان نواز شریف کی بیٹی ہونے کے علاوہ کچھ نہیں۔ نصرت بھٹو اور فہمیدہ مرزا کے کردار بھی ان کے خاوندوں کے مرہون منت ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا” افسوس کی بات یہ ہے کہ اقتدار میں موجود افراد تعلیمی نصاب میں اپنی تشہیر کے لیے اپنی خدمات کو نمایاں کر کے نہ صرف نظامِ تعلیم کو مذاق بنا رہے ہیں بلکہ نئی نسل کو گمراہ بھی کر رہے ہیں۔ ان خواتین میں سے کچھ کے خلاف کرپشن کے مقدمات بھی درج ہیں، تو کیا بچے ان کے کرپشن کے معاملات کو دیکھ کر انہیں اپنا آئیڈیل بنائیں گے؟”۔ پوری دنیا میں ہمیشہ طاقتور اپنے آپ کو ایک انسان سے بڑھ کر چابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔تاریخ میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں بادشاہ یا سلطان اپنے آپ کو زمین پر خدا کا اوتار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ہمسایہ ملک انڈیا میں بھی ایسے پہ نریندر مودی نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی اپنا تاثر مزید سے مزید تر گہرا کرتے جارہے ہیں۔