بلوچستان کے دہشت گرد کمانڈرز نے ہتھیار ڈال دیے، قومی دھارے میں شمولیت کا اعلان

بلوچستان کی تاریخ میں ایک نیا باب اس وقت رقم ہوا جب مختلف دہشت گرد تنظیموں کے اہم کمانڈرز نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ یہ وہ کمانڈرز ہیں جنہوں نے ریاست پاکستان کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا، لیکن اب وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے امن کے راستے پر گامزن ہونے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کمانڈرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے دشمن ممالک کے چکر میں آ کر نوجوانوں کو دہشت گردی کی راہ پر ڈالا اور اب وہ اس گمراہی سے نکل چکے ہیں۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران دہشت گرد کمانڈرز نے انکشاف کیا کہ دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کو استعمال کر کے انہیں ریاست پاکستان کے خلاف کھڑا کر رہی ہیں۔اس پریر کانفرنس میں صوبائی وزرا اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان بھی موجود تھے۔ کمانڈ کے مطابق یہ تنظیمیں بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے کے لئے کام کر رہی ہیں تاکہ دشمن ممالک پاکستان کو کمزور کر سکیں۔اس موقعہ پر صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ گھناؤنا کھیل ایک مدت سے جاری ہے جس میں دشمن ممالک نے بلوچستان کے نوجوانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔   ان کا کہنا تھا کہ “ہم ان نوجوانوں کا خیرمقدم کرتے ہیں جو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں واپس آ رہے ہیں۔” صوبائی وزیر نے اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ حکومت بلوچستان میں امن کے قیام کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔ ‘بلوچستان میں آزادی کی تحریکوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا’ اس نیوز کانفرنس میں اہم ترین دہشت گرد کمانڈرز نے اپنے انکشافات سے شرکاء کو چونکا دیا۔کمانڈر نجیب اللہ عرف درویش نے بتایا کہ دہشت گرد تنظیموں کے سرغنہ اپنے بچوں کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم دلوا کر خود عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن بلوچستان کے نوجوانوں کو دہشت گردی کے راستے پر دھکیل دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ “دہشت گرد کمانڈرز اپنے چھوٹے دہشت گردوں کو صرف استعمال کرتے ہیں اور انہیں خونریزی کی راہ پر ڈالتے ہیں جبکہ خود بھی بیرون ملک زندگی گزار رہے ہیں۔”دہشت گرد کمانڈروں نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن ممالک کا مقصد صرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے اور بلوچستان کے امن کو نقصان پہنچانا ہے۔ نجیب اللہ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں آزادی کی تحریکوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا ہے لیکن دراصل یہ سب ایک گینگ وار کی صورت اختیار کر چکا ہے”،لاپتہ افراد کا ڈرامہ سب کے سامنے ہے دراصل یہ افراد پہاڑوں میں روپوش ہیں اور دہشت گرد تنظیمیں اپنے ہی کارکنوں اور کمانڈروں کو قتل کر رہی ہیں۔” اس موقع پر دہشت گرد عبدالرشید عرف خدائیداد نے بھی اپنی کہانی سنائی جس میں انہوں نے کہا کہ کس طرح انہوں نے 2000 میں بلیدہ زعمران سے ہجرت کی اور پھر 2009 میں بی ایل ایف کے کمانڈر عابد زعمرانی سے ملاقات کے بعد دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کی۔ عبدالرشید نے بتایا کہ کیسے انہیں دہشت گردی کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی گئی لیکن اب وہ قومی دھارے میں شامل ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔دہشت گرد جنگیز خان نے بھی اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک لاکھ روپے اور موٹرسائیکل کا لالچ دے کر فوج کے خلاف لڑنے کے لئے کہا گیا تھا۔جنگیز نے بتایا کہ کمانڈر معراج نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ لڑائی کے عوض اسے پیسے اور ہتھیار دئے جائیں گے لیکن اب اسے پچھتاوا ہے کہ وہ غلط راستے پر چل رہا تھا۔ یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جدوجہد میں حکومتی اداروں کا کردار کلیدی ہے اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دہشت گردوں کی بیرون ملک سے فنڈنگ ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت بلوچستان کی کوشش ہے کہ گمراہ شدہ افراد کو قومی دھارے میں واپس لایا جائے تاکہ امن کا قیام ممکن ہو سکے۔ صوبائی مشیر کھیل مینا بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ دشمن ممالک بلوچستان کے نوجوانوں کو گمراہ کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیموں کے جال سے بچ کر اپنے ملک اور قوم کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ “دشمنوں کا ایجنڈا بلوچستان کو نقصان پہنچانا ہے جبکہ نوجوانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے راستے پر چل کر وہ صرف اپنے مستقبل کو تباہ کریں گے۔” بلوچستان میں حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات اور دہشت گرد کمانڈروں کے اعترافات یہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کے دشمنوں کے تمام منصوبے ناکام ہو چکے ہیں، اور بلوچستان میں امن کی ایک نئی امید کی کرن روشن ہو چکی ہے۔

ابھی مینیجر سے بات کرتا ہوں، ایلون مسک اپنے ہی پلیٹ فارم ایکس پر برہم کیوں؟

ایکس (سابقہ ٹویٹر)کے مالک ایلون مسک نے ایکس پر برہمی کا اظہار کرتےہوئےلکھا کہ “ایکس کا ریکمنڈیشن الگوریتھم غصہ دلاتا ہے۔ میں ابھی اس کے مینیجر سے بات کرنا چاہتا ہوں”۔ ایلون مسک آئے روز خبروں کی زینت بنتے دیکھائی دیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے دوران یا چیٹ جی پی ٹی کی خریدوفروخت کے معاملے پر مسک اکثر خبروں میں نظر آتے ہیں۔ 24 جنوری کو انہوں نے ایکس کے ایلگوریتھم کے بارے میں برہمی کا اظہار ایکس پر ہی اپنے اکاونٹ کے ذریعے کیا۔ یاد رہے کہ سماجی رابطے کی ایپلیکیشن ایکس کےمالک خود ایلون مسک ہی ہیں۔ ان کے ٹویٹ کے ریپلائیز میں صارفین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن میں سےبہت سے لوگوں نے اس مسئلے کی نشاندہی کی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ایکس پر ہمیں اپنے مزاج کی چیزیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں۔ ہر وقت سیاست اور ملکی حالات ہی نظر آتے ہیں۔ ڈونیکا ٹیبیٹ نامی ایک صارف نے لکھا کہ میں ویسے اکاونٹس کو خوشی سے دیکھوں گی جو میرے شوق کے مطابق ہوں گے۔ ابھی تک تو مجھے یہاں سیاسی چیزیں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مجھے کبھی بھی یہاں پیارے جانور ، باغ بانی یا ا س کےمتعلق چیزیں دیکھنے کو نہیں ملی ہیں۔ I would be interested to see more accounts that align with my interests in my feed. So far I only ever see politics stuff. I never see anything related to cute animals, or gardening or crafts or any of the other interests I put in when I signed up. — Donica Tibbetts (@DonicaTibbetts) January 24, 2025 ایک اور صارف نے لکھا کہ ایکس کے متعلق میں سب سے زیادہ جو ناپسند(چلیں نفرت کرنا کہہ لیں)کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس کی کسٹمر سروس  ٹیلی کام انڈسٹری سے بھی زیادہ خراب ہے ۔ میں نے ہیلپ لینے کے تمام طریقے آزما لیے ہیں لیکن یہ کبھی مدد نہیں کرتا۔ ایک اندین صارف چندن شرما نے لکھا کہ ایکس کا ایلگوریتھم صرف ہم لوگوں کی پوسٹس کوکم ریچ دے رہا ہے۔ یہ صرف دو لوگوں کی پوسٹس کو دیکھاتا ہے جن کے نام ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟   ریان میرل نامی ایک صارف نے لکھا کہ میرا خیال ہے کہ یہ ایک ٹیسٹ ہے جس سے یہ پتا لگایا جا رہا ہے کہ ایک منفی پوسٹ پہ لوگوں کا ردِعمل کیا آتا ہے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کی ایلون کو آج کوئی خطرناک کھانے کی تجویز آئی ہے جس میں گروک نے کہا ہے کہ مرغی کے انڈوں کی بجائے شطر مرغ کے انڈے زیادہ بہتر رہیں گے۔ ایک اور صارف نے ریپلائی میں لکھا کہ مجھے اپنی ہی کی گئیں گزشتہ پوسٹس نظر نہیں آتی ہیں اور نہ ہی مجھے اپنے ریپلائیز نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ میں میڈیا میں کام کرتا ہوں اور مجھے بار بار اپنے پوسٹس کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کو اٹھانے کےلیے شکریہ۔   ایک صارف نے مزاحیہ انداز میں میں مصنوعی ذہانت سے ایک تصویر بنوا کر پوسٹ کی جس میں ایلون مسک اپنے سامنے ایلون مسک کو ہی دیکھ رہے ہیں۔ Saw you talking to the manager earlier pic.twitter.com/7y9EevScFE — wassam (@badboydopes) January 24, 2025

خبردار! امتحان میں نقل کرنے پر تین سال قید، 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا

پاکستان کے تعلیمی نظام میں نقل اور امتحانی بے ضابطگیوں کے خلاف سخت اقدامات کا آغاز،لاہور تعلیمی بورڈ نے نئے ضوابط کا اعلان کر دیا۔ اب امتحانات میں نقل یا کسی بھی قسم کی بے ضابطگی پر تین سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ نجی سکول کے پرنسپل مدثر چیمہ نے بتایا کہ  کمرہ امتحان میں چیٹنگ کس طرح ہوتی ہے اور عملہ اس میں کیسے ملوث ہوتا ہے۔ “اکثر طلبہ نقل کے لیے چھوٹے نوٹس، یا ایک دوسرے سے سوالات پوچھنے کے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات عملہ بھی اس میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایک طالب علم نے کہا،”کمرہ امتحان میں نقل کے لیے عام طور پر عملے کو کچھ پیسے دیتے ہیں تو وہ ہمیں پرچہ کروا دیتے ہیں۔لیکن کیا سخت قوانین ہی اس مسئلے کا حل ہیں؟ہم نے ایک ماہرِ تعلیم سے اس پر بات کی، “نقل کو روکنے کے لیے سخت سزا سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ تعلیمی نظام میں شفافیت لائی جائے اور امتحانات کا طریقہ کار بہتر بنایا جائے۔”نقل کے خاتمے کے لیے کیا صرف سزا کافی ہے؟ یا ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی؟ “یہ صرف قوانین کا نہیں، سوچ اور رویوں کا مسئلہ ہے۔ آئیں، تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔”

چین میں ‘نسان’ اور ‘ہونڈا’ کے معاہدے کو سنگین مسائل کا سامنا

ہونڈا اور نسان کی ممکنہ شراکت داری چین میں کاروباری چیلنجز، الیکٹرک گاڑیوں کی ترقی اور عالمی آٹوموٹو صنعت پر سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اگر ہونڈا موٹر (7267.T) اور نسان موٹر (7201.T) کے ایگزیکٹوز کو کسی ایک مسئلے کو سب سے پہلے حل کرنا ہے تو وہ چین کے کاروبار میں پیش آنے والے چیلنجز ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کار مارکیٹ میں ان دونوں کمپنیوں کی فروخت سالوں سے کم ہو رہی ہے۔ اگر یہ دونوں کمپنیاں مل کر ایک مشترکہ قوت بناتی ہیں تو انہیں اخراجات میں کمی لانے کا موقع ملے گا۔ خاص طور پر نئی الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے جن کا انہیں بائیڈ (BYD) جیسے طاقتور حریفوں سے مقابلہ کرنا ہے۔ تاہم، یہ معاہدہ سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے اور ان کی مشترکہ شراکت دار ایک بڑی پہیلی ہیں۔ پچھلے مالی سال (مارچ 2024 تک) میں دونوں کمپنیوں نے چین میں مل کر تقریباً دو ملین گاڑیاں فروخت کیں، جو ان کے امریکا میں فروخت کے بعد دوسرا سب سے بڑا مارکیٹ تھا۔ مگر یہ تعداد پانچ سال پہلے کی فروخت سے ایک تہائی کم ہے۔ چین کی مارکیٹ میں طلب ڈیمانڈ کے باوجود ان کا مشترکہ مارکیٹ شیئر نصف ہو کر صرف 8 فیصد رہ گیا ہے۔ اسی دوران نسان کے جے وی (جو ڈونگفینگ موٹر کے ساتھ ہے) کی جامع آمدنی 2023 میں 95 فیصد تک کم ہو کر 447 ملین یوآن (61 ملین ڈالر) رہ گئی۔ ہونڈا کے جے وی کی کمائی میں بھی 90 فیصد کمی آئی ہے۔ چین میں موجود ان دونوں کے شراکت دار کمپنیوں کا کردار کلیدی بن سکتا ہے۔ ڈونگفینگ موٹر دونوں کے ان ساتھ شراکت داری میں ہے اور اس کے ساتھ مل کر پیداوار کی لائنوں اور سپلائی چینز کو مختصر کرنے کی نظریاتی طور پر آسانی ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب  ہونڈا کی جی اے سی (GAC) کے ساتھ بھی ایک شراکت داری ہے جس سے یہ امکان بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی شراکت داری ختم کرنے کے بارے میں سوچے گا جیسا کہ اس نے مٹسو بوشی موٹرز (7211.T) کے ساتھ کیا تھا اور اپنی فیکٹریوں کو اپنے تیز رفتار الیکٹرک گاڑیوں کے برانڈ کے لیے استعمال کیا تھا۔ چین میں ہنڈا اور نسان دونوں کمپنیاں مل کر تقریباً دس الیکٹرک گاڑیوں کے ماڈلز تیار کر رہی ہیں جنہیں چین میں فروخت کیا جائے گا، چونکہ ان دونوں کی کسٹمر بیس میں مماثلت ہے۔ اگر یہ دونوں مل کر کام کریں تو وہ کم لیکن زیادہ موثر ماڈلز پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں اور ہر ماڈل کی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔ تاہم مشترکہ شراکت داروں کی موجودگی ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ شراکت داری کے شرائط گمنام ہیں جس کی وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا ان کی تنظیم نو کرنا حقیقت پسندانہ ہے۔ اضافی طور پر فاضل فیکٹریوں جیسے اثاثوں کے خریدار تلاش کرنا بھی مشکل ہو سکتا ہے، کیونکہ صنعت میں گنجائش سے زیادہ پیداوار ہو رہی ہے۔ اور سب سے بڑی بات ہونڈا اور نسان کی ترجیحات میں رفتار اہم نہیں ہے۔ دونوں کمپنیاں اگلے سال اگست سے پہلے کسی قسم کے معاہدے پر نظر نہیں ڈال رہی ہیں۔ اور ان کے چینی شراکت داروں سے اس موضوع پر بات چیت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ چین میں BYD اور دیگر کمپنیوں کی تیزی سے ترقی کے ساتھ سرمایہ کاروں کو امید ہے کہ یہ عمل جلد شروع ہو گا۔ ہونڈا اور نسان نے 23 دسمبر 2023 کو اعلان کیا تھا کہ انہوں نے چھ ماہ تک ایک ممکنہ کاروباری انضمام پر بات چیت کرنے کے لیے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔ اگر یہ دونوں کمپنیاں جون 2025 تک اس پر متفق ہو جاتی ہیں تو وہ سب سے پہلے ایک ہولڈنگ کمپنی قائم کریں گے جسے اگست 2026 تک ٹوکیو اسٹاک ایکسچینج پر لسٹ کیا جائے گا اور اس وقت دونوں کمپنیوں کے شئیرز کو ڈی لسٹ کر دیا جائے گا۔ 34 ٖفیصد شیئرز کی مالک کمپنی ‘مٹسو بوشی موٹرز’ 31 جنوری 2025 تک اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا وہ اس فیصلے میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ہونڈا اور نسان کے اس معاہدے کے ممکنہ نتائج صرف چین کے لیے نہیں، بلکہ عالمی آٹوموٹو صنعت کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایک ’بے وقوفی‘ نے ہنستے بستے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنادیا

جنوری کے ابتدائی دنوں میں زندگی پرسکون معمول کے مطابق چل رہی تھی کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اگلے چند دنوں میں ایک ایسا سانحہ وقوع پذیر ہونے والا ہے جس کا اثر نہ صرف مقامی افراد بلکہ دنیا بھر پر پڑے گا۔ ایک معمولی سی آگ، جو ابتدا میں جنگل کے ایک چھوٹے سے حصے میں لگی تھی وہ اب ایک آتش فشاں کی طرح پھیل چکی ہے۔ اس آگ نے 40 ہزار ایکڑ زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب تک 27 افراد کی جانیں لے چکی ہے۔ آگ کے شعلے اتنے تیز ہیں کہ ان کی لپیٹ میں آکر ہر چیز راکھ میں تبدیل ہو رہی ہے،تیز ہوائیں اس آگ کی شدت میں مزید اضافہ کر رہی ہیں، اور اس پر قابو پانا امریکی حکام کے لیے ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔اس آگ کی تباہ کاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 25ہزار افراد کو انخلا کا حکم دے دیا گیا ہے اور 500 قیدیوں کو جیلوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے۔ وہ تمام کوششیں،جو آگ کو روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں، تیز ہواؤں کے سامنے بے بس ہو گئی ہیں۔لاس اینجلس کاؤنٹی فائر ڈپارٹمنٹ اور اینجلس نیشنل فارسٹ کے فائر فائٹرز نے اس آگ کو بجھانے کے لیے دن رات ایک کر دیا، لیکن یہ آگ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اس آگ کے باعث 2 گھنٹوں کے دوران 5 ہزار ایکڑ زمین جل چکی ہے، اور تیزی سے پہاڑوں میں پھیل رہی ہے، جہاں سے اس کی لپیٹ میں آنا مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ماہرین کا کہنا تھا کہ آندھی اور طوفانی ہوائیں مزید آگ کو بڑھا سکتی ہیں، اور اب یہی ہو رہا ہے۔ امریکی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ آگ محض قدرتی آفات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ انسانوں کی بے وقوفی اور آتشزنی کا نتیجہ بھی ہے۔امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آتشزنی کے متعدد واقعات میں کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جنہوں نے عمداً جنگلوں کو آگ لگائی تھی۔ ایسی ہی ایک خاتون کو 14 جنوری کی شام گرفتار کیا گیا جس نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ آگ لگانے سے خوش ہوتی ہے۔ اس خاتون کا کہنا تھا کہ”مجھے اس بات کا مزہ آتا ہے کہ جب آگ لگاتی ہوں، تو سب کچھ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔” یہ الفاظ اس خاتون کے تھے جس نے کچرے کے ڈھیر کو آگ لگا کر نہ صرف خود کو بلکہ پورے علاقے کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور شخص کو بھی اسی روز گرفتار کیا گیا، جس نے درختوں میں آگ لگا کر پورے علاقے کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ” وہ جلتے ہوئے پتوں کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتا تھا۔” امریکی حکام کے مطابق کیلیفورنیا میں جنگلات میں لگنے والی بیشتر آگ انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ 2020 میں بھی ایک بڑی آتشزنی نے 44 ہزار ایکڑ زمین کو راکھ میں بدل دیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ سال آتشزنی کے الزام میں 109 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس آگ کے اثرات صرف مقامی آبادی تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے کہ کیسے ایک سپر پاور ملک ہونے کے باوجود امریکی حکام اس آگ پر قابو پانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ تیز ہواؤں اور آتشزنی کے ان واقعات سے واضح ہو رہا ہے کہ جنگلات کی حفاظت اور آگ کی روک تھام کے حوالے سے عالمی سطح پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

؟ایک غلط خبر پر 3 سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ: پیکا ایکٹ کیا کہتا ہے

وہ بھی زمانہ تھا جب گنے چنے لوگوں کو کتاب پڑھنے اور اس سے بھی کم لوگوں کو اپنی بات دوسروں تک پہنچانےکی سہولت میسر آتی تھی۔کتابوں کی اشاعت تیز ہوئی اور زیادہ سے زیادہ لوگ لکھنے لگے۔ جہاں معلومات کا انبار لگنا شروع ہوا وہیں پرمعلومات کے معیار میں کمی آنا شروع ہوئی۔ سوشل میڈیا کے اس جدید اور تیز دور میں ہر شخص ہر لمحہ پوری دنیا سے وابستہ ہے اس کی کہی گئی بات وزن رکھتی ہے۔ اسی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف حکومت کاروائی کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کے آگے بند باندھنے کیلئے حکومت متحرک نظر آرہی ہے ۔حکومت پر یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ وہ کسی مخصوص جماعت کے سوشل میڈیا پر بیانیہ بنانے کے آگے بند باندھنا چاہتی ہے ۔اِس لئے وہ سوشل میڈیا پر پیکا ایکٹ کے ذریعے پابندی لگانا چاہتی ہے ۔جبکہ حکومت کا یہ خیال ہے کہ سوشل میڈیا بے لگام گھوڑا بن چکا ہے ۔جس پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا ضروری ہوگیا ہےاور یہی وجہ ہے کہ اب قومی اسمبلی نےپیکا ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کثرتِ رائے سے منظور کرلیا ہے۔ پیکا ایکٹ کے تحت غیر قانونی مواد یا فیک نیوز پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکے گا۔پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ ایسا مواد جو اسلام مخالف، قومی سلامتی یا ملکی دفاع کے خلاف، توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہو، غیر اخلاقی مواد، مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سمیت 16 اقسام کے مواد کو غیر قانونی مواد قرار دیا گیا ہے۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی جس میں  سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔ حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجنیئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ بل کے مطابق چیئرمین اتھارٹی سوشل میڈیا پر کسی بھی غیر قانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے جبکہ چیئرمین اور اراکین کسی دوسرے کاروبار میں ملوث نہیں ہوں گے۔ نئی ترمیم کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے، اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گیا۔اتھارٹی مسلح افواج ، پارلیمنٹ یا اصوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔اب حکومت اِس بل کا دفاع کر رہی ہے۔ اب حکومت سوشل میڈیا میں اصلاحات لانے کیلئے پیکا ایکٹ ا ور ڈیجیٹ نیشن بل لے کر آئی ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ اِن بلز کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مناسب چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے یا پھر ان بلز کی آڑ میں حکومت آزادی اظہار رائے کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

امریکی صدر ’معاف ‘کرنے میں ایک قدم اور بڑھ گئے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 23 ’انسداداسقاط حمل‘ کے مظاہرین کو معافی کے احکامات پر دستخط کر دیے ۔ ان 23 مظاہرین میں وہ لوگ شامل ہیں  جنہوں نے ایک طبی مرکز کے دروازے کو بند کر کے وہاں کی مریضوں اور عملے کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ افراد 2020 میں واشنگٹن کے ایک ری پروڈکٹیو ہیلتھ کلینک کو ختم کرنے اور وہاں کے عملے کو دھمکیاں دینے کی سازش میں ملوث تھے۔ ان میں سے ایک مظاہرہ کرنے والی ‘لارین ہینڈی’ کے گھر سے پانچ جنین بھی برآمد ہوئے تھے جنہیں عدالت نے ان کے مقدمے کے دوران دریافت کیا جبکہ اس خبر نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی تھی۔ صدر ٹرمپ نے ان افراد کی معافی کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ “انہیں کبھی مقدمے کا سامنا نہیں کرنا چاہیے تھا خاص طور پر ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے۔ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔”صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق یہ اقدام ان مظاہرین کے لیے خوشی کا باعث بنے گا جو اپنے عقائد کی حمایت میں لڑتے ہیں۔ یہ معافیاں ایسے وقت پر آئی ہیں جب امریکا بھر سے اینٹی ایبورشن مظاہرین 24 جنوری کو ہونے والی “مارچ فار لائف” میں شرکت کے لیے واشنگٹن پہنچنے والے تھے۔ اس سے ایک دن پہلے اس معافی کا اعلان امریکا کے اسقاط حمل  کے حقوق کے تنازعہ میں مزید تلخی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ اعلان خاص طور پر اُس وقت آیا جب 2022 میں سپریم کورٹ نے رو وی ویڈ کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں اس مسئلے پر دوبارہ بحث شروع ہو گئی۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے  ’ انسداد اسقاط حمل‘ کے مظاہرین کی معافی نے امریکہ میں اسقاط حمل  کے حقوق کے تنازعے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، خاص طور پر سپریم کورٹ کے 2022 کے فیصلے کے بعد۔ یہ اقدام ملک میں اس حساس مسئلے پر نئی بحث کو جنم دے سکتا ہے۔

دنیا بھر میں’پیدائش کا انقلاب‘ کیسے آرہا ہے؟

دنیا بھر میں ‘جڑواں بچوں کی پیدائش’ کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ رجحان موجودہ دور میں اس قدر تیز ہوا ہے کہ اسے تاریخ کا سب سے بڑا ’پیدائش کا انقلاب‘ کہا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب جڑواں بچوں کا پیدا ہونا ایک نادر بات سمجھی جاتی تھی مگر اب وہ دور گزر چکا ہے۔ ماہرین کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح گزشتہ چند برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے اور اب یہ رجحان تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر 60 میں سے ایک حمل جڑواں بچوں کا ہوتا ہے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ شرح مزید بڑھ سکتی ہے۔ جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ کی سب سے بڑی وجہ ’عمر‘ ہے۔ جی ہاں! وہ خواتین جو 35 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہوتی ہیں ان میں جڑواں بچوں کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ سائنسی جوہات اس سب کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کے ہارمونز میں تبدیلیاں آتی ہیں جس کے نتیجے میں ایک سے زیادہ انڈے بیضہ دانی سے خارج ہوتے ہیں اور اس طرح جڑواں بچوں کی پیدائش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔دنیا بھر میں آئی وری ایف کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جو جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے یہ رجحان ایک جزو ہےلیکن سماجی اور معاشی عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین کا بچہ پیدا کرنے کا رجحان دیر سے ہو رہا ہے خواتین اب پہلے کی نسبت زیادہ عمر میں بچے پیدا کر رہی ہیں اور یہ عمل جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 2050 سے 2100 تک تمام ممالک میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو گا۔ اس سب کا بڑا سبب وہ سماجی تبدیلیاں ہیں جن کے تحت خواتین کا اپنے کیریئر اور ذاتی زندگی پر زیادہ توجہ دینے کا رجحان بڑھا ہے جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ایک قدرتی تبدیلی ہے، مگر اس کے ساتھ پیچیدگیاں اور ماؤں کی صحت پر اضافی بوجھ بھی آ سکتا ہے۔ اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ محض خوش آئند نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں صحت کی سہولتوں اور طبی طریقہ کار ضرورت ہوگی۔

‘پاکستانی ٹیسلا’گوجرانوالہ کے انجینئر کی تخلیقی مہارت

“یہ کہانی ہے خواب، تخلیق اور عزم کی—جہاں ایک خیال حقیقت کا روپ دھارتا ہے۔ گوجرانوالہ کے انجینئر ولی محمد نے اپنی ہنر مندی اور محنت سے وہ کر دکھایا جو شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو۔ ٹیسلا کے مشہور سائبر ٹرک، جسے دنیا نے ایک شاندار تخیل کے طور پر دیکھا، اس کی نقل اب پاکستان کی سرزمین پر تیار ہو چکی ہے۔ اس گاڑی کو نہایت باریک بینی اور مہارت سے بنایا گیا۔ کمپنی کے مطابق، یہ گاڑی کلائنٹ کی خواہش پر محض 30 لاکھ روپے کی لاگت سے تیار کی گئی۔ ولی محمد اور ان کی ٹیم نے نہ صرف ٹیسلا کے سائبر ٹرک کے ڈیزائن کو کامیابی سے نقل کیا، بلکہ ہر تفصیل میں اپنے فن کی چھاپ چھوڑی۔ یہ ’پاکستانی سائبر ٹرک‘ نہ صرف ظاہری طور پر اصلی ٹیسلا کی جھلک پیش کرتا ہے بلکہ پاکستانی انجینئرنگ کے تخلیقی ذہن کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ گاڑی دھوم مچا رہی ہے، اور انٹرنیٹ صارفین نے اسے ’پاکستانی ٹیسلا‘ کا خطاب دے دیا ہے۔ تصاویر اور ویڈیوز نے لاکھوں دلوں کو جیت لیا ہے، اور لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کارنامہ پاکستان کے ہنر مند کاریگروں کی صلاحیتوں کا روشن مظہر ہے۔ یہ شاہکار نہ صرف ایک گاڑی ہے بلکہ ایک پیغام ہے—کہ جب خوابوں کو محنت اور تخلیق کے رنگ دیے جائیں، تو کچھ بھی ممکن ہے۔ یہ ہے پاکستان کے ہنر، جذبے، اور صلاحیتوں کی کہانی، جو ثابت کرتی ہے کہ ہم دنیا کے کسی کونے میں بھی کسی سے کم نہیں۔

یورپی یونین میں سولر انرجی کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی سے زیادہ

توانائی کے تھنک ٹینک ایمبر کے ڈیٹا نے جمعرات کو بتایا کہ شمسی توانائی نے گزشتہ سال پہلی بار یورپی یونین کے بجلی کے معاملے میں کوئلے کو پیچھے چھوڑ دیا، جبکہ ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی بھی ایک مستحکم مقام پر ہے۔ یورپی یونین یہ کوشش کر رہا ہے کہ اپنی قابل تجدید بجلی کی پیداوار کو بڑھایا جائے اور موسمیاتی تبدیلی کے ٹارگٹس کو پورا کرنے کے لیے فوسل فیولز پر انحصار کم کیا جائے۔ 2011 سے ایمبر نے بجلی کے متعلق ڈیٹا اکھٹا کرنا شروع کیا ہے اور پہلی مرتبہ کوئلے سے پیدا ہونھے والی بجلی 10 فیصد رہ گئی ہے۔ 2024 میں شمسی توانائی نے 11 فیصد بجلی پیدا کو کے کوئلے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 2023 میں یہ 9۔3 فیصد تھی۔ کرس روسلو، سینئر تجزیہ کار اور رپورٹ کے مرکزی مصنف نے ایک انٹرویو میں کہا کہ “پچھلے دو سالوں سے ہم نے یورپی یونین کے پاور سسٹم میں کوئلے اور گیس دونوں میں تیزی سے کمی دیکھی ہے اور فوسل فیول اب تاریخی کم ترین سطح پر ہے،” گیس سے چلنے والی بجلی کی پیداوار 2023 میں 16.9 فیصد سے کم ہوکر 15.7 فیصد رہ گئی جبکہ ہوا سے بجلی کی پیداوار تقریباً 17.4 فیصد پر تھی۔ اگرچہ 2024 میں ہوا سے چلنے والی بجلی میں 13 گیگا واٹ اضافہ ہوا ہے لیکن اس سال ہوا کی صورتحال زیادہ اچھی نہیں رہی۔ روسلو نے کہا کہ “اس سال جو نئی بجلی شامل کی گئی ہے وہ ہوا کے خراب حالات سے تھوڑی سی کم ہوئی ہے”۔ روسلو نے کہا کہ یورپی یونین چاہتی ہے کہ 2030 تک ونڈ پاور بجلی کا تقریباً 34 فیصد حصہ بنائے اور ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے، خاص طور پر نئے منصوبوں کو چلانے کے لیے۔ نیوکلیئر یورپی یونین میں بجلی فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ رہا، جو 2023 میں 23 فیصد سے بڑھ کر 23.7 فیصد ہو گیا۔