قذافی اسٹیڈیم کی نئی لُک: کرکٹ کے روشن مستقبل کے لیے اہم سنگِ میل

Qaddafi stadium

“یہ کہانی ہے ایک میدان کی، جو دہائیوں سے کرکٹ کے تاریخی لمحات کا گواہ رہا اور اب ایک نئی روح، نئے عزم اور شاندار انداز میں دنیا کے سامنے آنے کو تیار ہے۔ لاہور کا قذافی اسٹیڈیم، جہاں خواب سجتے ہیں اور تاریخ رقم ہوتی ہے، اب عالمی کرکٹ کے جدید ترین میدانوں کی صف میں شامل ہونے جا رہا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی 2025 کی میزبانی کے لیے اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کو صرف پانچ ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ نئے فلڈ لائٹس ٹاورز، روشن بلبوں کے ساتھ جگمگانے کو تیار ہیں، اسٹینڈز میں جدید کرسیوں کی تنصیب آخری مراحل میں ہے، اور ڈیجیٹل اسکرینز کھیل کے ہر لمحے کو مزید دلکش انداز میں پیش کریں گی۔ چیمپئنز ٹرافی سے قبل قذافی اسٹیڈیم سہ فریقی سیریز کے میچوں کی میزبانی کرے گا، جس میں پاکستان، نیوزی لینڈ، اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔ اور پھر وہ لمحہ! 22 فروری کو کرکٹ کی دنیا کے دو روایتی حریف، انگلینڈ اور آسٹریلیا، قذافی اسٹیڈیم کے اس نئے انداز میں چیمپئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ کھیلیں گے۔ یہ دن شائقین کے لیے یادگار ہوگا، جہاں ہر لمحہ ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ قذافی اسٹیڈیم کی یہ تبدیلی محض تعمیراتی نہیں، یہ پاکستان کے عزم، ہنر اور کرکٹ کے مستقبل کا روشن استعارہ ہے۔ ایک ایسا میدان، جو شائقین کے لیے خوابوں کا گھر اور کرکٹ کے لیے تاریخ ساز سرزمین ہوگا۔”

پاکستان 78 سال بعد بھی تعیلم میں اپنے ہمسایوں سے پیچھے

Education day

پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے کم شرح خواندگی رکھنے والا دوسرا ملک ہے جو خطے میں تعلیم پر سب سے کم جی ڈی پی خرچ کر رہا ہے، آزادی کے 78 سال گزرنے کے باوجود شرح خواندگی تشویشناک ہے۔ وزارت برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے مطابق پاکستان کی موجودہ شرح خواندگی 62.3 ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں 60 ملین لوگ ناخواندہ ہیں، تیزی سے ترقی کرتے اس دور میں بھی پاکستان کے بعض شہروں کی شرح خواندگی 50 فیصد سے کم ہے، افغانستان کے بعد پاکستان خطے میں سب سے کم شرح خواندگی رکھنے والا ملک ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق راولپنڈی 82.45 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ ملک بھر میں سرفہرست ہے، وسطی کراچی 82 فیصد شرح کے ساتھ دوسرے اور دارالحکومت اسلام آباد  تیسرے نمبر پر موجود ہے، لاہور، سیالکوٹ، گجرات، جہلم جیسے شہروں میں شرح خواندگی 80 فیصد سے بھی کم ہے، کوہلو، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، واشک، جھل مگسی، نصیر آباد، بارکھان، ڈیرہ بگٹی، اواران اور ٹھٹھہ میں یہ شرح 25 فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستانی ماہر معیشت اور سابق وفاقی وزیر خرانہ ڈاکٹر محبوب الحق کے مطابق پاکستان کی کارکردگی نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ سمیت 150ممالک سے بھی نیچے ہے، تعلیم پائیدار ترقی اور عالمی امن کے حصول میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ غربت اور عدم مساوات کو کم کرنے، اقتصادی ترقی، جدت، ماحولیاتی پائیداری، سماجی ہم آہنگی، رواداری کو فروغ دینے، عالمی شہریت اور انسانی حقوق کو بااختیار بنانے میں تعلیم کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ 24 جنوری 2018 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے تعلیم کا عالمی دن مختص کیا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد تعلیم کو انسانی حق کے طور پر تسلیم کراوانا تھا، جامع، مساوی، اور معیاری تعلیم کا فروغ، تعلیمی چیلنجز کے بارے میں بیداری پیدا کرنا بھی ان مقاصد میں شامل تھے۔ موجودہ دور میں پاکستانی شعبہ تعلیمی بہت سی مشکلات کا شکار ہے، پاکستان میں ناخواندگی کی بڑی وجہ تعلیم تک رسائی نہ ہونا بھی ہے، غریب طبقہ تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں، بچے اب گھر کا چولہا جلانے کی خاطر والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور علم کی روشنی سے محروم رہ جاتے ہیں، ناقص معیار تعلیم اور اساتذہ کی کم تعداد بھی شرح خواندگی میں سست اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دوسری جانب حکومتِ پاکستان شرح خواندگی میں اضافے کے لئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے جن میں آرٹیکل 25 خاصی اہمیت کا حاصل ہے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، شرح خواندگی میں اضافے کے لئے بنیادی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اصلاحاتی پروگرام تشکیل دیا گیا ہے، ہائیر ایجوکیشن کے قیام کا مقصد اعلیٰ تعلیم کی نگرانی کرنا، تحقیق کو فروغ دینا اور اسکالر شپ فراہم کرنا ہے۔ علاوہ ازیں روزگار اور ہنر کے فروغ کے لئے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن جیسے ادارے بھی تشکیل دیے گئے ہیں۔ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج آف سائنس کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی نظام تعلیم پر کھل کر اظہار خیال کیا، پاکستانی نظام تعلیم کی بہتری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں نظام تعلیم کا زیادہ زور صرف کتابیں یاد کرنے پر ہے۔ طلبہ میں تخلیق صلاحیتیں نکھارنے کے حوالے سے زور نہیں دیا جاتا۔ بچے اور والدین صرف زیادہ نمبرز لینے کے چکر میں حرف بہ حرف، سطر بہ سطر معلومات کو رٹنے پر زور دیتے ہیں۔ حاصل کردہ علم کی عملی صورت نظر نہیں آتی۔ موجودہ دور جس میں جدت کی رفتار گزشتہ ادوار سے بہت زیادہ ہے اور ٹیکنالوجی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہی ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کا وہ سفر جو دہائیوں میں طے کیا جاتا تھا وہ اب سالوں اور مہینوں میں طے ہو رہا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “پاکستان میں نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی شدید ضرورت ہے اور اس کو رٹے سے نکال کر عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ان ممالک کے نظام تعلیم کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جو ترقی یافتہ ہیں اور اس کے بعد پاکستان کی ضروریات کے مطابق اس میں مناسب تبدیلیوں سے اس کو لاگوکیا جائے تواس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ دوسری ضروری چیز میڈیم آف ایجوکیشن ( ذریعہ تعلیم) اردو زبان کو قرارد یا جائے تو اس کے بہت زیادہ مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں مگر اس میں وہ طبقہ رکاوٹ ہے جو صرف حکمرانی کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ حق عام پاکستان کو دینے کے لئے تیار نہیں”۔ ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ” تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے تیسری چیز اساتذہ کی تربیت ہے۔ اس حوالے سے جدید تقاضوں کے مطابق علم کی ترویج ضروری ہے۔ اساتذہ کی بہتر تعلیم، بہتر تربیت، مسلسل ریفریشر کورس کے ساتھ ساتھ ان کی تنخواہوں پر نظر ثانی بہت ضروری ہے۔ اساتذہ معاشی اور دیگر مسائل سے نکلنے کے بعد ہی بہتر تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے قابل ہو سکتے ہیں”۔ اس حوالے سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر آصف بخاری نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “نظامِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے نصاب میں یکسانیت، اساتذہ کی تربیت، اسکول کی بنیادی سہولیات، اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ضروری ہے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں توازن پیدا کر کے سب کو مساوی تعلیمی مواقع دیے جائیں”۔ شرح خواندگی میں اضافے کے لیے اقدامات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شفاعت علی ملک نے کہا کہ “تعلیم سب کےلئے ضروری قرار دی جائے۔ تعلیم مفت کی جائے۔ موجودہ حالات میں عام آدمی پرائمری سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک بچوں کو تعلیم دلانے کی صلاحیت کھو رہا ہے جس کی وجہ سے لوگو بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے کسی کام یا ورکشاپ بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “لڑکیوں کی تعلیم کے