“پولیس کے خلاف کوئی رپورٹ نہیں ہوئی” آئی جی سندھ کا چینی باشندوں کی عدالتی درخواست پر بیان

IG Sindh Ghulam Nabi Memon

چینی باشندوں کی جانب سے پولیس کے ناروا سلوک کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا مؤقف بھی آ گیا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن نے کہا کہ سندھ میں اب تک چینی شہریوں کی جانب سے پولیس کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں ہوئی، چینی شہریوں کی سیکورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے، سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ہی چینی شہریوں کی آمد و رفت محدود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی شہریوں کی عدالتی چارہ جوئی کے حوالے سے ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔ غیر ملکیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے ایس او پیز پر عملدرآمد پولیس پر لازم ہے، مقامی اسپانسرز کو بھی سکیورٹی کی وجہ سے پہلے جیسا رسپانس نہیں مل رہا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز چینی باشندوں کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں پولیس کے نارواں سلوک کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔ چینی باشندوں کے وکیل پیر محمد ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ کراچی اور سندھ میں چینی باشندوں نے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، ان کے یہاں کاروبار موجود ہیں کراچی ایئرپورٹ پر انہیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور حکام سیکورٹی وسائل نہ ہونا اس کی وجہ بتاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شہر میں ان کی آمد و رفت بھی آسانی سے نہیں ہوتی سیکورٹی خدشات کو وجہ بنا کر اس میں تاخیر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہورہی ہیں۔ پولیس چینی باشندوں کی رہائش گاہ اور کمروں میں آزادانہ داخل ہو جاتی ہے جس سے ان کے نجی معاملات متاثر ہورہے ہیں۔ ایڈوکیٹ پیر محمد نے مزید بتایا کہ چینی باشندوں کے ساتھ انتظامیہ کا ناروا سلوک بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کے سبب ملک کا تاثر بھی خراب ہوا ہے، عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرکے ان سے جواب طلب کرلیا ہے۔ چینی باشندوں کی سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ سندھ پولیس ان کے ساتھ غیر قانونی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ درخواستوں گزاروں نے مؤقف اپنایا کہ ہم قانون کی پاسداری کرنے والے چینی شہری ہیں اور ہم اپنے درج شدہ پتوں پر ہی مقیم ہیں۔ پاکستان اور چین کے تاریخی و مضبوط دوطرفہ تعلقات اور معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ہماری گذارش ہے کہ اس درخواست پر سماعت ان کیمرا کی جائے۔ درخواست گزاروں کا مزید کہنا تھا کہ ہم پاکستانی حکومت کی دعوت اور یقین دہانی پر ہی یہاں آئے ہیں، چیف آف آرمی سٹاف اور سابق وزیراعظم نے مکمل تحفظ اور معاون ماحول مہیا کرنے کے وعدے بھی کیے تھے، وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ دورے کے دوران بھی ان تمام چیزوں کا ذکر کیا تھا۔ ہم نے اور ہزاروں دیگر چینی باشندے ان یقین دہانیوں پر ہی پاکستان آئے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے مختلف منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ غیر قانونی اقدامات کو فوری طور پر روکا جائے، ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی جائے، اور چینی شہریوں کو محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔

پی ٹی اے سے موبائل رجسٹر کروانے پر ٹیکس کتنا دینا ہوگا؟

پاکستان میں بیرون ملک سے لائے گئے موبائل فونز کی رجسٹریشن کے لیے ڈیوائس آئیڈینٹیفیکیشن رجسٹریشن اینڈ بلاکنگ سسٹم (DIRBS) کے تحت ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی ادائیگی ضروری ہے، جس سے اسمگلنگ کی روک تھام اور قومی خزانے کی حفاظت کی جاتی ہے. بیرون ملک مقیم پاکستانیوں یا غیر ملکیوں کے ذریعے لائے گئے موبائل فونز کی رجسٹریشن کا عمل ڈیوائس آئیڈینٹیفیکیشن رجسٹریشن اینڈ بلاکنگ سسٹم (DIRBS) کے ذریعے مکمل کیا جاتا ہے۔ فون کی رجسٹریشن کے لیے ضروری ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی جانب سے عائد کردہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی ادائیگی کی جائے،یہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز مختلف عوامل پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس سسٹم کے ذریعے حکومت نہ صرف ملک میں موبائل فونز کی اسمگلنگ کو روکنے میں کامیاب ہو رہی ہے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی مستحکم بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ڈیوائس آئیڈینٹیفیکیشن رجسٹریشن اینڈ بلاکنگ سسٹم (DIRBS) موبائل فونز کی رجسٹریشن کا عمل دراصل ایک جدید نظام کے ذریعے کیا جاتا ہے جس کا نام “ڈیوائس آئیڈینٹیفیکیشن رجسٹریشن اینڈ بلاکنگ سسٹم” (DIRBS) ہے۔ یہ سسٹم پاکستان کے موبائل نیٹ ورک پر غیر قانونی موبائل ڈیوائسز کی شناخت اور ان کی بلاکنگ کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔ اس نظام کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خود بخود قانونی موبائل ڈیوائسز کو رجسٹر کرتا ہے جبکہ غیر قانونی ڈیوائسز کو بلاک کر دیتا ہے تاکہ انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن کے وسائل کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ اگرچہ یہ سسٹم قانون کے نفاذ میں معاون ہے لیکن حالیہ برسوں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کے لیے موبائل فونز کی رجسٹریشن ایک معمہ بن چکا ہے۔ اس سسٹم کے تحت موبائل فونز کی رجسٹریشن کے لیے مختلف قسم کے ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہر سال بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے موبائل فونز کی رجسٹریشن پر مختلف ٹیکسز اور ڈیوٹیز عائد کی ہیں جو صارفین کے لیے تشویش کا باعث بن چکے ہیں۔ ان ٹیکسز کی ادائیگی کرنا ضروری ہے ورنہ موبائل فون کو ملک میں غیر قانونی قرار دے دیا جائے گا اور اسے بلاک کر دیا جائے گا۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) اور ایف بی آر کی ویب سائٹس پر فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق اس عمل میں شامل ہونے والے ہر فرد کو اضافی اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں جو کہ موبائل فون کی قیمت کے علاوہ ایک الگ بوجھ ہے۔ اگر آپ نے کسی غیر ملکی سے موبائل فون خریدا ہے یا بیرون ملک سے خود لایا گیا ہے تو آپ کو اس فون کی رجسٹریشن کے لیے ایف بی آر کی جانب سے مقرر کردہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز ادا کرنا ہوں گے۔ ان ٹیکسز کی مقدار کا تعین موبائل کی قیمت، ماڈل، اور دیگر فیکٹرز پر منحصر ہوتا ہے۔ اس لیے ہر موبائل فون پر ٹیکسز کی مقدار مختلف ہو سکتی ہے۔ ایف بی آر کی ویب سائٹ پر موجود “موبائل ڈیوائس ڈیوٹی انفارمیشن” آپشن کے ذریعے صارفین اپنے موبائل فون کا IMEI نمبر درج کرکے اپنے ڈیوائس پر عائد ہونے والے ٹیکسز کی تفصیلات معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ پورٹل دراصل صارفین کو ایک سہولت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنے فون کی رجسٹریشن سے پہلے ٹیکس کی مقدار کا حساب لگا سکیں اور پھر فیصلہ کر سکیں کہ ان کے لیے موبائل فون کی رجسٹریشن ممکن ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ یہ پورٹل بھی ایک معمہ بن چکا ہے کیونکہ اس کی پیچیدگی اور اکثر ٹیکنیکل مسائل کی وجہ سے بہت سے لوگ اس تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ پاکستان میں غیر قانونی موبائل ڈیوائسز کا مسئلہ پاکستان میں غیر قانونی موبائل فونز کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ دراصل بیرون ملک سے غیر قانونی طور پر لائے گئے موبائل فونز پاکستانی مارکیٹ میں آتے ہیں جو بغیر کسی قانونی رجسٹریشن کے موبائل نیٹ ورکس پر چلتے ہیں۔ یہ غیر قانونی موبائل فونز نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ سیکیورٹی کے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ فونز چوری شدہ بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر حالیہ برسوں میں حکومت پاکستان نے اس مسئلے کا سدباب کرنے کے لیے اس رجسٹریشن سسٹم کو مزید سخت بنا دیا ہے۔ موبائل فونز کی شناخت کے لیے “IMEI نمبر” کا استعمال کرتے ہوئے یہ سسٹم غیر قانونی فونز کی شناخت کرتا ہے اور انہیں بلاک کر دیتا ہے۔ اس طرح حکومت نہ صرف سیکیورٹی کو بہتر بناتی ہے بلکہ مقامی مارکیٹ میں قانونی فونز کی قیمت کو بھی مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ موبائل فونز کی رجسٹریشن پر عائد ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا بوجھ ان افراد کے لیے مزید پریشانی کا سبب بن سکتا ہے جو بیرون ملک مقیم ہیں اور اپنے عزیزوں کے لیے پاکساتن میں موبائل فونز لاتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے اس نظام کے ذریعے سیکیورٹی اور قومی خزانے کی حفاظت کا عہد کیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا اس سے عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے یا ان پر اضافی بوجھ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ہو رہا۔

علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی صدارت سے برطرف، نیا صدر کون ہوگا؟

بانی پی ٹی آئی عمران خان نے علی امین گنڈاپورکو خیبرپختونخوا میں پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹا دیا۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سےپارٹی کی صوبائی صدارت کا عہدہ واپس لے لیا۔ جب کہ ان کی جگہ پر نئے صوبائی صدر جنید اکبر کو مقرر کر دیا گیا ہے۔ عمران خان نے پی ٹی آئی کے سیکریٹری سلمان اکرم راجہ کو نئے صوبائی صدر جنید اکبر کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا کہا ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان نے یہ بھی  ہدایت کی ہے کہ پنجاب میں پارٹی کی تشکیلِ نو کے لیےمشاورت کی جائے۔ سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور خود بھی چاہتے تھے کہ وہ پارٹی کے صدر نہ رہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے علی امین کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان معاملات کی بجائے صوبے میں گورننس اور دہشت گردی کے معاملات پر فوکس رکھیں۔ دوسری جانب عمران کان کی جانب سےکے پی کے میں کرپشن پر تحفظات ظاہر کیے گئے ہیں، انہوں نے علی امین کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سیاست سے باہر آئیں۔

50 کلومیٹر بغیر ایندھن کے سفر کریں: سولر سائیکل کے ساتھ

صوبہ سندھ کے شہر خیر پور کے ایک  نوجوان نے بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔ انہوں نےایک ایسی سائیکل بنائی ہے جو بجلی اور شمسی توانائی دونوں سے چلتی ہے۔ سیف اللہ دھاریجو قائداعظم یونی ورسٹی نواب شاہ میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سائیکل کو ہم واپڈا اور سولر انرجی دونوں کی مدد سے چلا سکتے ہیں اور اگر یہ بھی دستیاب نہ ہوں تو ہم چارجنگ کر کے چلا سکتے ہیں۔ انہوں نے سائیکل چلانے کے لیے ایک ایپ بھی بنائی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں سائیکل کی چارجنگ وغیرہ کا پتا چلتا ہے۔ سیف اللہ مزید کہتے ہیں کہ یہ سائیکل ایک مرتبہ چارج ہونے پر 50 کلومیٹر سفر کرے گی اور اگر سورج کی روشنی کی شدت زیادہ ہوگی تو یہ 70 کلومیٹر تک جا سکتی ہے۔  ابتدائی طور پر اس کی قیمت 80 ہزار ہوگی۔  

چیف الکشن کمشنر کی مدت ختم: پھر بھی خدمات جاری رکھیں گے

وفاقی وزیر برائےقانون اعظم نظیر تارڑ نے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ آئین کے مطابق نئے کمشنر کے آنے تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔ اعظم نظیر تارڑ نے جمعے کے روز کہا کہ” جب تک نئے چیف الیکشن کمشنر نہیں آتے ، آئینی طور پر موجودہ کمشنر ہی عہدے پر فائز رہیں گے”۔ قانونی طور پر موجودہ چیف الیکشن کمشنرکی مدت 26 جنوری کو ختم ہو رہی ہے اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور شبلی فراز نے پہلے ہی حکومت کو خط لکھ دیا ہے جس میں ایک پارلیمنٹری کمیٹی بنانے کا مطالبا کیا گیا ہے جو اس عہدے کو پُر کرنے کے لیے موجود ناموں پر غور کرے گی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو لکھے گئے خط میں عمر ایوب نے الیکشن کمیشن آف پاکستان  سے سندھ اور بلوچستان کے اراکین کی تقرری کے لیے کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیوں کہ ان کی معیاد بھی 26 جنوری کو ختم ہو رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 213 کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے چیف الیکشن کمشنرکی تقرری کے عمل کو شروع کرنے کے لیے جلد از جلد پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر زور دیا، اور کہا کہ کسی بھی صورت میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ شبلی فراز نے سینیٹ کے چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کے نام اپنے خط میں پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے اور سندھ اور بلوچستان سے دو ارکان کی نشستیں پُر کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ آرٹیکل 2013 کہتا ہے کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مل کر تین ناموں کو پارلیمنٹری کمیٹی کے پاس بھیجتے ہیں جن میں سے وہ ایک نام منتحب کریں گے۔ اگر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر میں 3 ناموں پر اتفاق نہیں ہوتا تو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر الگ الگ تین نام بھیجیں گے۔

ویتنام میں 1.2 بلین ڈالر کے منی لانڈرنگ نیٹ ورک کا پردہ فاش

ویتنام کے شہر دا نانگ میں پولیس نے ایک ایسی منی لانڈرنگ کی کارروائی کو بے نقاب کر دیا ہے جو اس علاقے کی تاریخ کا سب سے بڑا کیس قرار دی جا رہی ہے۔ پولیس نے پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کی کارروائیوں کے دوران تقریباً 1.2 بلین ڈالر کا مجرمانہ پیسہ غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل کیا گیا۔ 2022سے 2024 تک یہ گروہ جعل سازی کے ذریعے شناختی کارڈز اور بینک کی مہریں تیار کرتا رہا تاھ اور اس گروہ میں بینک کے ملازمین بھی شامل تھے جبکہ ان جعل سازیوں کے ذریعے اس گروہ نے 187 کاروبار قائم کیے اور 600 سے زائد کارپوریٹ بینک اکاؤنٹس کھولے۔ ان اکاؤنٹس کا استعمال غیر قانونی طریقے سے باہر سے پیسہ منتقل کرنے اور اس پیسے کو قانونی بنانے کے لیے کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ان اکاؤنٹس کے ذریعے مجموعی طور پر 1.2 بلین ڈالر کی رقم منتقل کی گئی۔ اس گروہ کی گرفتاری دا نانگ میں کی گئی اور پولیس نے اسے شہر میں اب تک کا سب سے بڑا منی لانڈرنگ کیس قرار دیا ہے۔ اس کارروائی کے دوران پولیس نے 122 جعلی مہریں اور 40 کاروباری رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کی اصلی نقول ضبط کیں۔ یہ کیس اس وقت سامنے آیا ہے جب چند ماہ قبل ہی ویتنام کی مشہور پراپرٹی ٹائیکون، ترونگ می لان کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تنگ می لانگ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر رہی ہے جبکہ انہیں ایک علیحدہ کیس میں 27 بلین ڈالر کی دھوکہ دہی کے الزام میں موت کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ یہ کیس نہ صرف ویتنام بلکہ دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کے پیچیدہ نیٹ ورک کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح بینک کے ملازمین اور کاروباری لوگ مل کر غیر قانونی سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان افراد کی گرفتاری اس بات کا اشارہ ہے کہ ملک میں ایسے نیٹ ورک کی سرکوبی کی کوششیں جاری ہیں اور مستقبل میں اس قسم کے جرائم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس منی لانڈرنگ کیس نے نہ صرف ویتنام بلکہ عالمی سطح پر بھی مالیاتی نظام میں موجود خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔

ٹرمپ حکومت کا پاکستان سمیت دنیا بھر کے لیے امریکی امدادی فنڈز روکنے کا فیصلہ، صرف اسرائیل اور مصر کو ہی استشنیٰ کیوں؟

دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کے لئے امریکا کی امدادی پروگراموں کی شہرت ہمیشہ سے مضبوط رہی ہے لیکن 25 جنوری 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی ہے۔ امریکی حکومت نے سوائے اسرائیل اور مصر کے تقریباً تمام نئے غیر ملکی امدادی پروگراموں کے لئے فنڈز کی فراہمی کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام کو عالمی تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر انسانی بحرانوں میں مزید شدت آنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق یہ فیصلہ تین ماہ کے لئے کیا گیا ہے جس میں ابتدائی 85 دنوں کے دوران وزیر خارجہ مارکو روبیو سے کہا گیا ہے کہ وہ امدادی پروگراموں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ جبکہPEPFAR کی فنڈنگ مارچ 2025 میں ختم ہونے والی تھی اور اس کی تجدید کے لئے کانگریس نے ایک سال کی توسیع فراہم کی تھی لیکن اب اس پر بھی سوالات اٹھنے شروع ہوگئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ PEPFAR نے اب تک 25 ملین سے زائد زندگیوں کو بچایا ہے اور اس معطلی سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب اوکسفام امریکا کی سربراہ ایبی میکس مین نے اس اقدام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ “اس فیصلے کے ذریعے امریکا دنیا بھر میں بحران زدہ کمیونٹیز کی زندگیوں اور ان کے مستقبل سے کھیل رہا ہے اور یہ ایک ایسا قدم ہے جس سے عالمی سطح پر عدم استحکام اور ہلاکتوں میں اضافہ ہوگا۔” جہاں ایک طرف غیر ملکی ترقیاتی امداد کے پروگراموں کو معطل کیا جا رہا ہے وہیں اسرائیل اور مصر جیسے امریکہ کے قریبی اتحادیوں کو اس معطلی سے استثنا حاصل ہے۔ ان دونوں ممالک کو امریکی فوجی امداد فراہم کی جاتی ہے اور اس پر سختی سے نظر رکھی جاتی ہے۔ اسرائیل اور مصر کو ان پروگراموں میں مدد جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے خاص طور پر فوجی امداد کے لئے۔ اس فیصلے کے بعد یوکرین کی صورتحال پر سوالات اٹھنے لگے ہیں جسے روس کے خلاف جنگ میں امریکی ہتھیاروں کی مدد حاصل ہے۔ اس بار امریکا نے یوکرین کو امداد دینے کے حوالے سے کوئی استثنا نہیں دیا ہے جس سے یوکرین کے مستقبل پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ دیکھا جائے تومجموعی طور پر امریکا نے 2023 میں 60 ارب ڈالر سے زائد کی غیر ملکی امداد فراہم کی تھی جو اس کے کل حکومتی خرچ کا صرف ایک فیصد ہے۔ اس فیصلے نے دنیا بھر میں ہنگامی امدادی منصوبوں کے روکنے کا عندیہ دیا ہے جس کے باعث عالمی سطح پر بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ امریکا کی اس معطلی سے عالمی امدادی ادارے اور بحران زدہ ممالک میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ امریکی ادارے USAID کے سابق افسر جیرمی کوننڈائیک نے کہا “یہ پاگل پن ہے اس سے بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا سکتے ہیں۔” امریکا کا امدادی پروگراموں کی معطلی کا فیصلہ عالمی سطح پر سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں انسانی بحران اور بیماریوں کے خلاف لڑائی جاری ہے۔ یہ اقدام نہ صرف انسانیت کی خدمت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے بلکہ عالمی عدم استحکام اور بحرانوں کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی مذاکرات کرنے کو دوبارہ تیار: شرائط رکھ دیں، حکومتی مؤقف بھی آگیا

پاکستان تحریکِ انصاف نے ایک مرتبہ حکومت سےجاری مذاکرات میں نیا پیغام جاری کیا ہے۔ جس کے مطابق پی ٹی آئی پہلے منع کرنے کے بعد دوبارہ سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کر سکتی ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔ جمعے کے روز سابق حکومتی پارٹی نے یہ پیغام جاری کیا کہ وہ پہلے سے جاری مذاکرات صرف اسی صورت شامل ہوں گے اگر حکومت ان کی شرائط پوری کرے گی۔ ان کی شرائط میں جوڈیشل کمیشن بنانا اور عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ مشروط پیشکش 23 جنوری کو پی ٹی آئی کے پہلے کے موقف کے بعد سامنے آئی، جب اس نے عدالتی کمیشنوں کی تشکیل کے لیے ایک سخت ڈیڈ لائن دی تھی، مگر حکومت اس ڈیڈ لائن تک کمیشن نہیں بنا سکی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے پہلے کہا تھا کہ پارٹی کے سپریمو نے پارٹی کے مطالبات پورے کرنے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے مذاکرات کو روک دیا۔ تنازعہ کا شکار پارٹی کا متزلزل مؤقف کھل کر سامنے آ گیا کیونکہ اس نے نہ صرف 28 جنوری کو ہونے والے مذاکرات کے آئندہ چوتھے دور میں شرکت سے انکار کر دیا بلکہ اس بات پر بھی اصرار کیا کہ بات چیت صرف اسی صورت میں دوبارہ شروع ہو سکتی ہے جب حکومت اس کے مطالبات تسلیم کر لے۔ پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے گوہر نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا کہ حکومت کی جانب سے سات دن کی مدت میں عدالتی کمیشن بنانے کے پی ٹی آئی کے مطالبے کو پورا کرنے سے انکار کے بعد مذاکرات منسوخ کر دیے گئے۔ تاہم، حکومت نے پی ٹی آئی کی ڈیڈ لائن کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ ابتدائی معاہدے میں سات کام کے دنوں کا حوالہ دیا گیا تھا ۔ یعنی جواب کی آخری تاریخ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اپنے پہلے بیان کے  جواب میں، گوہر نے واضح کیا کہ عمران خان نے مذاکرات کو روکاہے، انہیں مکمل طور پر ختم نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر نظر ثانی کر سکتی ہے اگر ان  کی شرائط پوری کی جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے حکومت کی مذاکرات میں دلچسبی کا پتا چلے گا ۔ گوہر نے مزید نشاندہی کی کہ پیش رفت نہ ہونے نے حکوت کے اصل ارادے سامنےآئے ہیں۔ انہوں کے ساتھ یہ سوال بھی کیا کہ کمیشن بنانے کا اعلان کرنے میں کون انہیں روک رہا ہے۔ مسلم لیگ ن اور اپوزیشن پی ٹی آئی کے درمیان ضرورت کے حامل مذاکرات 23 جنوری کو اس وقت رک گئے تھے جب عمران خان  نے بیرسٹرگوہر کو حکومتی  اتحاد کے ساتھ طے شدہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن نہ بنانے پر مذاکرات ختم کرنے کی ہدایت کی۔ پی ٹی آئی کے فیصلے کے بعد، حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا  کہ” ڈیڈ لائن ابھی ختم نہیں ہوئی ہے کیونکہ پچھلی میٹنگ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ حکومتی کمیٹی پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا جواب سیون ورکنگ ڈیز میں ” دے گا نہ کہ صرف سات دن میں”۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان نے کہا تھا کہ “دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کے تیسرے دور میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ حکومتی کمیٹی سیون ورکنگ ڈیز  میں اپنا جواب جمع کرائے گی، جو ان کے بقول 28 جنوری کو ختم ہو جائے گا یعنی اس دن جب اسپیکر اسمبلی نے کمیٹیوں کا اجلاس 11 بجکر 45 منٹ پر طلب کیا ہے”۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پی ٹی آئی کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے، صدیقی نے کہا کہ” پی ٹی آئی نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کرنے کے لیے 42 دن کا وقت لیا تھا لیکن وہ ایک ہفتے کے اندر حکومتی کمیٹی کے جواب کا مطالبہ کر رہی ہے، حیرت ہے کہ وہ صرف پانچ دن مزید انتظار کیوں نہیں کر سکتی”۔ انہوں نے کہا کہ “حکومتی کمیٹی اپنا ردعمل تیار کرنے کے لیے محنت سے کام کر رہی تھی لیکن پی ٹی آئی اسی لا پرواہی  کے ساتھ واپس چلی گئی جس کے ساتھ وہ حکمران اتحاد کے ساتھ مذاکرات کے لیے آئی تھی”، ان کا مزید کہنا تھا کہ “ہم انہیں کچھ دیر انتظار کرنے اور فیصلے پر نظرثانی کرنے کا کہتے ہیں”۔ فی الحال، مذاکرات کی تقدیر نا ہموار دکھائی دیتی ہے، کیونکہ پی ٹی آئی نے واضح کر دیا ہے کہ مذاکرات کے  رکنے کو  ختم کرنے کا واحد راستہ ان کی خواہش کے مطابق کمیشن بنانا  ہے۔ تاہم، حکومتی کمیٹی کہتی ہے کہ “اپوزیشن جماعت کو جلد بازی میں مذاکرات ختم کرنے سے پہلے حکومت کے جواب کا انتظار کرنا چاہیے تھا”۔ ان افواہوں پر بات کرتے ہوئے کہ حکومت کمیشن بنانے پر آمادہ نہیں، صدیقی نے کہا کہ “پی ٹی آئی کمیٹی کو کم از کم اگلے اجلاس میں حکومت کا تحریری جواب سننا چاہیے تھا کیونکہ حکومتی کمیٹی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنائے گی”۔ مزید برآں، انہوں نے کہا” بہتر ہوتا کہ پی ٹی آئی میڈیا کے ذریعے حکومت تک پہنچانے کی بجائے مذاکرات ختم کرنے کا تحریری بیان دیتی”۔ پی ٹی آئی کے انکار کے بعد صدیقی نے کہا تھا کہ “حکومتی کمیٹی 28 جنوری کو بیٹھ کر مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں فیصلہ کرے گی”۔ دونوں فریقین 23 دسمبر 2024 کو مذاکرات کے لیے بیٹھے تھے  تاکہ لمبے عرصے سے رکے ہوئے مسائل پر بات چیت کی جا سکے اور آگے کی راہ تلاش کی جا سکے۔ تب سے اب تک ان  کے درمیان  تین بار اجلاس ہو چکے ہیں۔ حکومت کے مطالبے کے مطابق پی ٹی آئی نے 16 جنوری کو تیسرے اجلاس میں اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ جمع کرایا تھا اور اس کے جواب کا انتظار کر رہی تھی۔ مذاکرات کا مقصد فریقین کے درمیان چلتے ہوئے مسائل کو حل کرکے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانا تھا۔ تاہم، دونوں فریقین نے اب ڈیڈ لائن پر اختلاف کیا

کیا خیبر پختونخوا حکومت ہزاروں ملازمین کی برطرفی کی تیاری کر رہی ہے؟

خیبر پختونخوا حکومت نے حیران کن فیصلہ کرتے ہوئے نگران دورِ حکومت میں بھرتی ہونے والے 16 ہزار سرکاری ملازمین کو ملازمت سے برطرف کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ‘خیبر پختونخوا ملازمین برطرفی از خدمت بل 2025’ کے نام سے ایک بل تیار کیا گیا ہے جس کے تحت نگران دور حکومت میں غیر قانونی بھرتی ہونے والے ملازمین کو فوراً نوکریوں سے فارغ کر دیا جائے گا۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ قانون کے مطابق اور عوامی مفاد میں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف محکموں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق تقریباً 8 ہزار ملازمین کی نشاندہی کی گئی ہےجن میں پولیس اور صحت کے محکمے کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ اس بل کے تحت سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کے لئے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کے سربراہ ایسٹبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری ہوں گے۔ ان کے ساتھ ایڈووکیٹ جنرل، قانون، خزانہ اور انتظامیہ کے محکموں کے افسران بھی شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی برطرفیوں کے عمل کو آسان بنانے کے لئے ممکنہ پیچیدگیوں کا جائزہ لے گی اور اس فیصلے کے عملی نفاذ کی نگرانی کرے گی۔ اس بل کے تحت اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ متعلقہ ادارے اور محکمے فوراً ان ملازمین کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری کریں گے تاکہ ان کی برطرفی کا عمل شروع کیا جا سکے۔ اس طرح کے اقدام سے صوبے کے سرکاری اداروں میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور غیر قانونی بھرتیوں کا خاتمہ ہوگا۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی میں “خیبر پختونخوا ریگولیٹری فورس بل 2025” بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت صوبے میں ایک ایسی فورس قائم کی جائے گی جو مختلف شعبوں میں ریگولیٹری قوانین کو نافذ کرے گی اور ان کے خلاف ہونے والی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے کام کرے گی۔ اس فورس کو پولیس افسران کی طرح وسیع اختیارات دیے جائیں گے اور اس کا ہیڈ آفس صوبائی دارالحکومت پشاور میں قائم ہوگا۔ اس فورس کے مقاصد میں ماحولیاتی تحفظ، فوڈ سیفٹی، قیمتوں کی نگرانی اور دیگر اہم شعبوں میں قوانین کی پیروی کو یقینی بنانا شامل ہوگا۔ ریگولیٹری فورس کے زیر انتظام ہر ضلع میں ایک یونٹ قائم کیا جائے گا جس کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ہوگا۔ اس کی مدت تین سال ہوگی۔ تاہم وزیراعلیٰ کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ ڈی جی کو اس سے کم یا زیادہ مدت کے لئے تعینات کریں۔ خیال رہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی پنشن میں اصطلاحات کرنے پر صوبائی دارالحکومت پشاور میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا، حکومت کی جانب سے اصطلاحات لانے پر سرکاری ملازمین صوبائی اسمبلی کے باہر احتجاجی دھرنا دیے ہوئے تھے، حکومت اور آل گورنمنٹ ایمپلائز کوارڈینیشن کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ کر دی تھی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پینشن اصلاحات کے نام پر ہمارے بچوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے، ہمارے ساتھیوں کو رات گئے گرفتار کیا گیا جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس ( سابقہ ٹویٹر) پر صارفین نے دھرنے کی تصاویر اور ویڈیو شئیر کرتے ہوئے احتجاج کے حوالے سے خوب تبصرے کیے۔ صارفین کی جانب مظاہرین پر شیلنگ کو ظلم قرار دیا گیا اور حکومت پر کڑی تنقید کی گئی۔ صارفین کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنا حلال ہے جبکہ اپنے حق کے لیے باہر نکلنا حرام ہے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں بل حکومت کے سخت اقدامات کا غماز ہیں جن کا مقصد صوبے میں شفافیت اور نظم و ضبط کو بڑھانا ہے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں نہ صرف سرکاری محکموں میں اصلاحات کی راہ ہموار ہو گی بلکہ عوام کے اندر بھی حکومت کے بارے میں اعتماد بڑھے گا۔

نوجوانوں کو انسانی اسمگلنگ کے شکنجے سے بچانے کے لیے حکومتی اقدامات

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے خلاف حکام نے ایک نیا اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے نوجوانوں کی زندگیوں کو بچانے کی کوشش کی جائے گی۔ یورپ میں بہتر زندگی کی آرزو میں پاکستانی نوجوان سمندری اور زمینی راستوں پر خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہیں اور اس کا خمیازہ کئی زندگیاں ضائع ہونے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ اب پاکستان کے امیگریشن حکام نے کم از کم 15 ممالک کے لیے سفر کرنے والے نوجوانوں کی سخت نگرانی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان کو انسانی اسمگلنگ کے خطرات سے بچایا جا سکے۔ ڈی پی اے کے مطابق نوجوانوں کو جو ان مخصوص 15 ممالک کے لیے سفر کر رہے ہیں ان کے سفر سے پہلے سخت تفتیش کریں گے۔ ان ممالک کو عام طور پر انسانی اسمگلرز یورپ پہنچنے کے لیے ٹرانزٹ روٹس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ بحیرہ روم اور بحرالکاہل میں ہونے والے متعدد کشتی حادثات کے بعد لیا گیا جن میں پاکستانی نوجوانوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان نوجوانوں کو یورپ پہنچانے کے لیے اسمگلر انہیں خطرناک راستوں پر سفر کراتے ہیں جس کی وجہ سے سرحدی محافظوں کی گولیوں کا سامنا اور سمندر میں ڈوبنے کا خطرہ شامل ہے۔ ڈی دبلیو کی ویب سائٹ  کے مطابق یہ ایڈوائزری اس وقت جاری کی گئی جب بحرالکاہل اور بحیرہ روم میں لیبیا اور مراکش سے غیر قانونی تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی کشتیوں کے حادثات میں کئی پاکستانی نوجوانوں کی اموات ہوئیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلرز ان نوجوانوں کو اپنی خواہشات کے مطابق یورپ کے مختلف ممالک میں پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن ان راستوں پر سفر کرنا ایک سنسان موت کے مترادف ثابت ہو رہا ہے۔ حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ نوجوانوں کی حفاظت کے لیے ان کے سفر پر سوالات کیے جائیں گے۔ دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایئرپورٹس پر اپنے گراؤنڈ افسران کو ایک ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان مخصوص ممالک کے لیے سفر کرنے والے مسافروں سے تفتیش کی جائے تاکہ انسانی اسمگلنگ کے ممکنہ شکار افراد کو بروقت بچایا جا سکے۔ یہ ایڈوائزری پاکستان کے لیے ایک سنگین الرٹ ہے ان ممالک میں آذربائیجان، ایتھوپیا، کینیا، مصر، سینیگال، سعودی عرب، ایران، روس، لیبیا، موریطانیہ، عراق، ترکی اور کرغزستان شامل ہیں۔ ان راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے حالانکہ اس بارے میں کوئی درست تخمینہ نہیں ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اےکے مطابق ان مخصوص ممالک کے لیے سفر کرنے والے پاکستانی نوجوانوں سے سخت تفتیش کی جائے گی تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ آیا کہ وہ کسی اسمگلر کے ہاتھوں میں کھیلنے تو نہیں جا رہے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد انسانی اسمگلنگ کی لعنت کو روکنا اور ان نوجوانوں کی زندگیوں کو بچانا ہے جو اپنے بہتر مستقبل کی امید میں خطرناک سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کی طرف سے یورپ جانے کی خواہش کا محرک زیادہ تر بہتر روزگار، زندگی کے بہتر مواقع اور بہتر مستقبل کے خواب ہیں۔ تاہم ان کی یہ خواہش انسانی اسمگلرز کے لیے ایک سنہری موقع بن جاتی ہے جو انہیں دھوکہ دے کر انتہائی خطرناک راستوں پر روانہ کرتے ہیں جبکہ ان نوجوانوں کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ سفر نہ صرف ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ ان کے خاندانوں کے لیے بھی ایک المیہ بن سکتا ہے۔ حکام کی یہ کوشش ہے کہ وہ ان نوجوانوں کو آگاہ کریں کہ یورپ پہنچنے کے لیے انسانی اسمگلنگ ایک خطرناک اور مضر راستہ ہے اور اس کے نتیجے میں بے شمار نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔