ملتان ٹیسٹ: نعمان علی کی ہیٹرک، بڑا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا

پاکستانی اسپنر نعمان علی نے ویسٹ انڈیز کے خلاف جاری ٹیسٹ سیریز کے دوسرے میچ میں ہیٹرک کر لی اور ٹیسٹ کرکٹ میں ہیٹرک کرنے والے پہلے پاکستانی سپنر بن گئے۔ ملتان میں جاری 2 میچوں کی سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان ٹیم نے بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے پہلے روز کے پہلے سیشن میں ہی ویسٹ انڈیز کو چاروں شانے چِت کر دیا۔ پاکستانی باؤلرز نے عمدہ گیند بازی کرتے ہوئے کالی آندھی کے نام سے جانے والی ویسٹ انڈیز ٹیم کو پہلی اننگز میں 163رنز پر آل آؤٹ کر دیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سینئر گیند باز نعمان علی نے ہیٹرک کرتے ہوئے پہلے ٹیسٹ ہیٹرک کرنے والے پہلے پاکستانی سپنر کا اعزاز اپنے نام کیا۔   View this post on Instagram   A post shared by Pakistan Cricket (@therealpcb) پاکستان کی جانب سے نعمان علی نے 6 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی جن میں کریگ بریتھ ویٹ، جسٹن گریویز، ٹیون ایمالاچ، کیون سنکلیئر، گداکیش موتی اور کیمار روچ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ساجد خان نے 2 جبکہ ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے فاسٹ باؤلر کاشف علی نے ایک اور مسٹری سپنر ابرار احمد نے ایک ایک وکٹ حاصل کی ہے۔ ویسٹ انڈیز کی جانب سے کوئی بھی بلے باز کریز پر جم کر کھیل نہ سکا، ایک کے بعد ایک پویلین لوٹتا رہا، ویسٹ انڈیز کی جانب سے گداکیش موتی 55 رنز کے ساتھ نمایاں بلے باز رہے۔ جومل واریکن نے ناقابلِ شکست 36 جبکہ سینئر فاسٹ باؤلر کیمار روچ نے 25 اور کیوام ہوج نے 21 رنز کی اننگز کھیلی۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بلے باز ڈبل فیگر میں نہ پہنچ سکا جبکہ 4 بلے باز بغیر کھاتہ کھولے پویلین لوٹ گئے۔   View this post on Instagram   A post shared by Pakistan Cricket (@therealpcb) یار رہے یہ ٹیسٹ میچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین ہونے والی 2 میچوں کی ٹیسٹ سیریز کا دوسرا میچ ہے۔ پہلا ٹیسٹ بھی ملتان میں ہی کھیلا گیا تھا جس میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو یک طرفہ مقابلے کے بعد 127 رنز سے شکست دی تھی۔ اس میچ میں بھی پاکستانی سپنرز نے ویسٹ انڈیز بلے بازوں کی ایک نہ چلنے دی تھی۔ میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پانے والے ساجد خان نے مجموعی طور پر 9 وکٹیں حاصل کی تھیں جبکہ نعمان علی نے بھی میچ میں مجموعی طور پر 6 کھلاڑیوں کو پویلین واپس بھیجا تھا۔

جناح انٹارکٹک اسٹیشن: مفادات کے تحفظ کا انوکھا پلیٹ فارم، کیا پاکستان اسے دوبارہ فعال کر پائے گا؟

روزِ اؤل سے انسان قدرت کے کرشموں کو اپنی عقل سے کھوجتا آیا ہے۔ انسان کی سوچنے اور نئے طریقے دریافت کرنے کی صلاحیت اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تہوں میں چھپے قدرت کے رازوں کو دریافت کر سکے۔ کائنات کے پوشیدہ پہلوؤں سے روشنائی کا سفر آج بھی جاری ہے جس کی ایک مثال پاکستان کا جناح انٹارکٹک اسٹیشن ہے۔ جناع انٹارکٹک اسٹیشن براعظم انٹارکٹیکا پہ واقع ایک تحقیقی سٹیشن ہے۔ یہ سٹیشن پاکستان کے انٹارکٹیکا پروگرام کے تحت کام کرتا ہے۔ جس کے تحت پاکستان باقی ممالک کی شراکت داری کے ساتھ اس علاقے میں تحقیق کرتا ہے کہ اس علاقے کو ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ اسٹیشن مشرقی انٹارکٹیکا کے علاقے جنوبی رونڈین کے پہاڑوں کی ملکہ مود لینڈ میں واقع ہے۔ دوسری جنگ عظیم کےبعد براعظم انٹارکٹکا پہ مختلف ممالک نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں عالمی اداروں کی مدد سے 1958 میں سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق قائم کیا گیا۔ یہ اس براعظم میں سائنسی تحقیق سرانجام دے رہا ہے۔ 1959 میں واشنگٹن میں “انٹارکٹک معاہدہ” ہوا جس میں 12 ممالک کےدستخط ہوئے۔ اب تک کُل ممالک کی تعداد 58 ہو چکی ہے۔ سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق کے قائم ہونے کے بعد وہاں مختلف ممالک نے اپنے اپنے سائنسی سٹیشنز قائم کیے۔ مزید براں کمیٹی وہاں موجود باقی ممالک کے سائنسی پروگرامز کے ساتھ شراکت داری بھی کرتی ہے۔ پاکستان نے ‘سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق’ کے ساتھ انٹارکٹیکا میں تحقیق کے لیے 1991 میں ایک معاہدہ کیا جسے پاکستان آرکیٹک پروگرام کہا جاتا ہے۔ یہ پروگرام پاکستان کی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعاون سے ‘نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے محیطیات’ نے پاک بحریہ کے زیر انتظام شروع کیا۔ پاکستان نے اس پروگرام کے تحت وہاں جناح انٹارکٹک اسٹیشن قائم کیا۔ 2001 میں اسٹیشن کے ڈیٹا آپریشنل سسٹم کو ‘بدر بی’ سیٹلائٹ کے ساتھ منسلک کیا گیا جس سے کراچی میں واقع این آئی او کے ہیڈکوارٹرز میں اس علاقے کے ڈیجیٹل مناظر کی ٹرانسمیشن شروع ہو گئی۔ 2002 میں سپارکو کے سائنسدانوں نے اسٹیشن کا دورہ کیا اور وہاں جدید ترین سپر کمپیوٹر نصب کیا۔ 2005 میں پاکستان ائیر فورس کے انجینئرز نے وہاں چھوٹی سی فضائی پٹی اور ایک کنٹرول روم قائم کیا۔ جہاں سے اب پاکستان سے آنے جانے والی پروازوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا مقصد براعظم انٹارکٹیکا کے متعلق مختلف شعبوں میں تحقیق کرنا ہے۔ جس میں ماحولیاتی معائنہ، سمندری حیاتیات اور برف کی ساخت شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اورموسموں کے پیٹرنز کو سمجھنا شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے براعظم انٹارکٹکا بھی محفوظ نہیں اور برف پگھلنا اور پئنگوئنز کی نقل و حرکت کا تبدیل ہونا جیسے عوامل کا سامنا کر رہا ہے۔ اسٹیشن پر موجود سائنسدان انٹارکٹیکا پہ موسمیاتی تبدیلی سے نبٹنے کے لیے بھی تحقیق کررہے ہیں۔ اس اسٹیشن میں تحقیق کے لیے تجربہ گاہیں، بنیادی سازوسامان اور لیبارٹریز موجود ہیں۔ سائنسدانوں کے رہنے کے لیے کوارٹرز بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا ہوائی اڈا بھی ہے جہاں سے جہازوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن عالمی سطح پہ پاکستانی شراکت داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ایک اہم سہولت ہے جس کے ذریعے ہم ساتویں براعظم سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کل کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان وہاں مستقل رہائش اختیار کرنے کے قابل بھی ہوجائے۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ سپیس سائنسس کے پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا قیام 1991 میں پاکستان کے انٹارکٹک پروگرام کے تحت عمل میں آیا۔ اس کا بنیادی مقصد انٹارکٹیکا کے ماحولیاتی، موسمیاتی اور جغرافیائی پہلوؤں پر تحقیق کرنا ہے۔ یہ پاکستان کو عالمی سائنسی کمیونٹی میں ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پیش کرتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی اور زمین کی قدرتی حالت کو سمجھنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس کا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی تحقیقاتی پروجیکٹس میں شامل ہو کر اپنی سائنسی صلاحیت کو بہتر کر سکتا ہے اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے”۔ دوسری جانب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سپیس سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر خان کا کہنا ہے کہ “جناح انٹارکٹک اسٹیشن پاکستان کی سائنسی برتری کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ اسٹیشن موسمیاتی تبدیلیوں اور قطبی تحقیق میں عالمی تعاون کو فروغ دے رہا ہے، یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے”۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن میں جاری تحقیقاتی شعبوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ پاکستان انٹارکٹیکا میں مختلف سائنسی شعبوں پر توجہ دے رہا ہے، جن میں موسمیاتی، سمندری حیات، جغرافیائی، ماحولیاتی اور بائیولوجیکل تحقیق شامل ہیں۔ موسمیاتی تحقیق میں گلوبل وارمنگ اور اوزون لیئر کے نقصان کے اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے، سمندری حیات کی تحقیق میں سمندری ایکوسسٹمز اور ان میں رہنے والے جانداروں کا جائزہ لیا جاتا ہے، جغرافیائی علوم میں گلیشیئرز کی حرکت اور زمین کے اندرونی نظام پر تحقیق کی جاتی ہے، بائیولوجیکل تحقیق میں انٹارکٹک خطے میں مائیکرو آرگینزمز اور ان کے ارتقائی عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اور ماحولیاتی تحقیق میں برفانی تہوں میں گیسوں کے اثرات اور قدیم ماحولیاتی حالات کا پتہ لگایا جاتا ہے”۔ دوسری جانب ڈاکٹر زبیر خان کا ماننا ہے کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے پاکستان سمندری حیاتیات، ماحولیاتی تبدیلی، برفانی تشکیل اور موسمی پیٹرنز جیسے سائنس کے اہم شعبوں پر توجہ دے رہا ہے”۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نتائج اور معلومات پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کئی اہم نتائج سامنے آئے ہیں، ادھر سے اوزون لیئر کے حوالے سے ڈیٹا حاصل ہوا ہے، جس نے پاکستان اور دیگر ممالک کو اوزون کی کمی کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دی ہے، گلیشیئرز کی پگھلنے کی رفتار اور اس کے سمندر کی سطح پر اثرات کا جائزہ بھی