عالمی معیشت میں ٹرمپ کی نئی پالیسیاں:کیا امریکی صدر25 فیصد ٹیرف میں مزید اضافہ کرے گا؟

عالمی اقتصادی پالیسی سازوں کو نئی امریکی حکومت کی طرف سے تجارت کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن امریکی حکومت کی طرف سے تجارت کے لیے مزید نئے اصولوں پر عمل کرنے کے لیے پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں جو امریکہ میں مہنگائی میں تو اضافہ کر سکتا ہے لہکن امریکن معشت مزید مستعکم ہو گی۔ ٹرمپ نے اپنی مدت کے آغاز سے ہی تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ لیکن اس کے بجائے دفتر میں اس کے پہلے ہفتے نے اپنے گھریلو ایجنڈے پر توجہ مرکوز کی اور عالمی تجارتی منظر نامے کو تھوڑا سا تبدیل کر دیا۔ امریکی صدر نے حلف اٹھانے کے بعد ٹیرف میں مزید اضافہ کی دھمکی دی تھی، جس سے امریکہ میں مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ٹرمپ نے متنبہ کیا ہے کہ وہ یکم فروری سے کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25% محصول عائد کر سکتے ہیں ، لیکن اب تک کی پابندی نے عالمی نقطہ نظر پر محتاط اعتماد کی اجازت دی ہے۔ یورپی مرکزی بینک، بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ نے آنے والے دنوں اور ہفتوں میں شرح سود میں کمی کر سکتے ہیں کیونکہ پالیسی ساز شرط لگاتے ہیں کہ افراط زر سست رہے گا۔ اس دوران یو ایس فیڈرل ریزرو کی جانب سے بدھ کو مزید نرمی کو روکنے کی توقع کی جا رہی ہے، یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ مہنگائی صرف گرم معیشت اور ٹیرف کے مسلسل خطرے کے پیش نظر آہستہ آہستہ نیچے آ سکتی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر ٹرمپ کو ناراض کرے گا، جو پہلے ہی قرض لینے کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے بینک پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ عالمی خبر ارساں ادارہ رائٹرز کے مطابق چین کو 60 فیصد تک ٹیرف لگانے کی دھمکی دینے کے بعد، ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ بات چیت کے بعد بیجنگ کے ساتھ معاہدہ ختم کر سکتے ہیں، جس کو انہوں نے چمکدار لہجے میں بیان کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ چین کے خلاف ٹیرف استعمال نہیں کریں گے۔ چینی وزارت تجارت کے ایک اہلکار نے کہا کہ بیجنگ مستحکم تجارتی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ بازاروں کو سکون ملا۔ اسٹاک میں تیزی آئی، تیل کی قیمتیں کم ہوئیں، شرح میں کمی کی توقعات کو تقویت ملی۔ نومبر کے انتخابات کے بعد ڈالر کے کچھ غیر معمولی فوائد کو الٹ دیا گیا۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امداد عارضی ثابت ہوسکتی ہے، کچھ رہنماؤں نے چین کے بارے میں ٹرمپ کے لہجے میں تبدیلی کی طرف اشارہ کیا۔ سنگاپور کے صدر تھرمن شانموگراتنم نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کو بتایا، “اس نے ایک نئی تفہیم کی خواہش اور ایک ایسے رشتے کے مسلسل حل سے بچنے کی خواہش کی جوعالمی معیشت کے لیے اب بھی بہت اہم ہے۔ تاہم، یہ غیر یقینی صورتحال ہے کہ پالیسی ساز احتیاط سے چل رہے ہوں گے۔ کچھ تجزیہ کار توقع کر رہے تھے کہ پیپلز بینک آف چائنا اس ماہ شرح سود میں کمی کرے گا یا لیکویڈیٹی لگائے گا۔ لیکن اب تک اس نے آگ پکڑی ہے، جو یوآن کی حالیہ گراوٹ پر تشویش کے آثار دکھا رہی ہے، جو تجارتی تناؤ بڑھنے کی صورت میں تیز ہو سکتی ہے۔ جب کہ دیگر ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے مرکزی بینکوں سے یہ توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ عاقبت نااندیش ہو جائیں – سوائے برازیل کے جس نے شرح میں اضافے کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے – ٹرمپ کی حوصلہ افزائی میں اتار چڑھاؤ اور مہنگائی کے ہمیشہ موجود خطرات ان کے لیے شرح میں کمی کی گنجائش کو محدود کر دیتے ہیں۔
ٹیکس فائلرز پر جائیداد کی خریداری پر پابندی: سٹیک ہولڈرز کی طرف سے سخت مخالفت

ایف بی آر کا ٹیکس فائلرز پر جائیداد کی خریداری پر پابندی کے حوالے سے غور کیا گیا ہے،جس پر سٹیک ہولڈرز کی طرف سے سخت مخالفت کا اظہار کیا گیا ہے۔پراپرٹی کی نئی ویلیو ایشن جاری کردی ہے،نئی ویلیو ایشن کے مطابق پراپرٹی کی قیمت بڑھ چکی ہے،ٹیکس قوانین ترمیمی بل سے 60 فیصد لوگ متاثر ہوں گے۔ چئیرمین قومی پارلیمانی ٹاسک فورس برائے ترقیاتی اہداف بلال اظہر کیانی نے قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی خزانہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی ہے،اجلاس میں ٹیکس فائلرز پر جائیداد کی خریداری پر پابندی کے معاملے پر غور کیا گیا ۔بلال اظہر کیانی نے کہا ہے کہ جائیداد کی خریداری کے لیے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اہلیت کی شق کیوں شامل کی گئی ؟ٹیکس قوانین ترمیمی بل میں ٹیکس فائلرز کی اہلیت کی تعریف کو ٹھیک کیا جائے۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کمیٹی کو بتایا کہ گذشتہ برس 1.695 ملین ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں،93 فیصد کی ویلیو 50 لاکھ روپے سے کم تھی ،ان میں سے 3.8 فیصد ٹرانزیکشنز ایک کروڑ روپے سے کم مالیت کی ہیں،ٹیکس قوانین ترمیمی بل سے صرف 2.5 فیصد افراد متاثر ہوں گے ،ٹیکس قوانین ترمیمی بل کے تحت آن لائن ڈیکلریشن جمع کرائی جا سکتی ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ ایف بی آر آن لائن ڈیکلریشن کے لیے ایپ تیار کر رہا ہے،جائیداد کی خریداری سے ایک گھنٹہ قبل ڈیکلریشن جمع کرایا جا سکتا ہے ،ٹرانزیکشنز ٹیکسز کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،غیر ٹیکس شدہ انکم کو پراپرٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ ان ڈیکلیئرڈ سرمائے سے پراپرٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری ہورہی ہے ،بینکنگ چینلز سے ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں،جو ان ڈیکلیئرڈ سرمایہ ہوتا ہے ۔ عارف حبیب گروپ کے بانی محمد عارف حبیب کا کہنا ہے کہ ریٹ کے ذریعے 180 ارب روپے کے فنڈز اکٹھے کیے گئے ہیں ،ریٹ میں سرمایہ کاری کےکے چیک اور ڈرافٹس موجود ہیں،ریٹ نے ایک ٹریلین روپے کے پراجیکٹس رجسٹرڈ کیے گئے ہیں ،جس طرح ٹیکس قوانین ترمیمی بل کا مسودہ بنایا گیا ہے یہ بہت خطرناک ہے ۔ عارف حبیب کا کہنا ہے کہ ایف بی آر جس کے ہاتھوں میں ہمیں بھیج رہا ہے وہ ہمیں مار دے گا،جس افسر نے رجسٹر کرنا ہے وہ ہمیں مار دے گا ،اس قانون کے تحت گذشتہ برس کے مقابلے میں 130 فیصد لیکوئڈ سرمایہ ہونا چاہیئے ،آپ کو پتہ ہے کہ بغیر پیسوں کے وہاں کوئی کام نہیں ہو رہا ہوتا ،رئیل اسٹیٹ سیکٹر ڈویلپمنٹ کا معیشت میں سب سے زیادہ حصہ ہے،رئیل اسٹیٹ سیکٹر 115 فیصد ٹیکسز ادا کر رہا ہے۔ عارف حبیب کے بانی کا کہنا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری رک جائے گی ،پاکستان سے سرمایہ دبئی نکل گیا ہے،حکومت نے ان کا کیا کر لیا ہے،جب پراپرٹی رجسٹرڈ ہو اسی وقت ٹیکس فائلر کی انفارمیشن لی جائے ،بہت سارے کارپوریٹ ڈویلپرز مارکیٹ میں آنا چاہتے ہیں،دنیا میں ریئیل اسٹیٹ سیکٹر کا معیشت میں بڑا حصہ ہے ۔ چیئرمین آباد حسن بخشی نے اجلاس میں موقف اختیار کیا کہ ایف بی آر کا ڈیٹا پرانا ہوچکا ہے،ایف بی آر نے پراپرٹی کی نئی ویلیو ایشن جاری کردی ہے،نئی ویلیو ایشن کے مطابق پراپرٹی کی قیمت بڑھ چکی ہے،ٹیکس قوانین ترمیمی بل سے ڈھائی فیصد نہیں 60 فیصد لوگ متاثر ہوں گے۔ پراپرٹی سیکٹر میں بلیک منی نہیں چلتی ،پراپرٹی سیکٹر میں بینکنگ ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں،عارف حبیب بولے کہ پراپرٹی سیکٹر میں 5 کروڑ روپے تک کی سرمایہ کاری بارے پوچھ گچھ نہ کی جائے،ایک سال تک اس کی اجازت دی جائے ،اس سے پراپرٹی سیکٹر میں بے تحاشہ رجسٹریشن ہوگی ،پراپرٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری بڑھ جائے گی ۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ پاکستان میں 10 ارب روپے سے زائد اثاثے ظاہر کرنے والوں کی تعداد صرف 12 ہے ،پاکستان میں بہت زیادہ انڈر ویلیوایشن ہوتی ہے
چینی اے آئی کمپنی ڈیپ سیک دنیا بھرمیں مقبول:کیا یہ امریکی ٹیک اسٹاک کے لیے خطرہ ہے؟

ایک چینی مصنوعی ذہانت کی کمپنی ڈیپ سیک کی طرف سے حیرت انگیز پیشرفت کے بعد پیر کی صبح امریکی اسٹاک میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ، جس نے امریکہ کی ٹیکنالوجی کی صنعت کے آس پاس ناقابل تسخیر ہونے کی چمک کو خطرے میں ڈال دیا۔ عالمی خبر ارساں ادارہ سی این این کے مطابق چینی کمپنی ڈیپ سیک نے گزشتہ سال کے شروع میں ایک شاندار صلاحیت کا انکشاف کیا،اس نے آر ون چیٹ جی پی ٹی نما اے آئی ماڈل پیش کیا، جس میں تمام مانوس صلاحیتیں ہیں، جو میٹاکے مقبول اے آئی ماڈلز کی قیمت کے ایک حصے پر کام کرتی ہے ۔ چینی مصنوعی ذہانت کی کمپنی نے کہا کہ اس نے اپنے جدید ترین اے آئی ماڈل کی تربیت پر صرف 5.6 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں، اس کے مقابلے میں امریکی کمپنیاں اپنی اے آئی ٹیکنالوجیز پر کروڑوں یا اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ وال سٹریٹ جنرل نے سب سے پہلے ٹیکنالوجی کی انتہائی کم قیمت کی اطلاع دی۔ امریکن کمپنی ایس اینڈ پی میں 500 انڈیکس یعنی 1.4% کی کمی واقع ہوئی اور ٹیک ہیوی میں 2.3% کی کمی ہوئی۔ ڈاؤ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ سیشن کے شروع میں مارکیٹیں کافی حد تک کم تھیں، لیکن سرمایہ کاروں نے ہو سکتا ہے کہ کسی حد تک سیل آف کا اندازہ لگایا ہو۔ واضح رہے کہ میٹا نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ وہ اس سال اے آئی کی ترقی پر 65 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرے گا۔ اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین نے پچھلے سال کہا تھا کہ اے آئی انڈسٹری کو کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی تاکہ اس شعبے کے پیچیدہ ماڈلز کو چلانے والے بجلی کے بھوکے ڈیٹا سینٹرز کو طاقت دینے کے لیے درکار ان ڈیمانڈ چپس کی ترقی میں مدد ملے۔ سی این این کے مطابق مارک اینڈریسن، صدر ڈاؤنلڈ ٹرمپ کے حامی اور دنیا کے معروف ٹیک سرمایہ کاروں میں سے ایک نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ڈیپ سیک کو میں نے اب تک کی سب سے حیرت انگیز اور متاثر کن پیش رفتوں میں سے دیکھا ہے ۔ نسبتاً نامعلوم اے آئی سٹارٹ اپ کی شاندار کامیابی اس وقت اور بھی چونکا دینے والی ہو جاتی ہے جب اس بات پر غور کیا جائے کہ امریکہ نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے چین کو آئی پاور اے آئی چپس کی فراہمی کو محدود کرنے کے لیے برسوں سے کام کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈیپ سیک اپنے کم لاگت والے ماڈل کو کم طاقت والے اے آئی چپس پر حاصل کرنے کے قابل تھا۔ عالمی خبر ارساں ادارہ سی این این کے مطابق پیر کی صبح امریکی ٹیک اسٹاکس کو نقصان پہنچا،نویڈا اے آئی چپس کا سب سے بڑا سپلائرہے، جس کا اسٹاک پچھلے دو سالوں میں ہر ایک میں دوگنا سے زیادہ ہونے کے باوجود 12فیصدگر گیا۔ گوگل کی پیرنٹ کمپنی میٹا اور الفابیٹ میں بھی تیزی سے کمی ہوئی۔ ڈیپ سیک نے وسیع تر اسٹاک مارکیٹ کو نیچے گھسیٹا، کیونکہ ٹیک اسٹاک مارکیٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ امریکی سکالر دانیل لرنر کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی بہتر کارکردگی ٹیکنالوجی اور برتری کے ذریعے چلائی گئی ہے جو امریکی کمپنیوں کو اے آئی میں حاصل ہے۔دیپ سیک ماڈل رول آؤٹ سرمایہ کاروں کو امریکی کمپنیوں کے لیڈ پر سوال کرنے کی طرف لے جا رہا ہے اور کتنا خرچ کیا جا رہا ہے اور آیا یہ خرچ منافع (یا زیادہ خرچ) کا باعث بنے گا۔ اس ہفتے کمائی کی اطلاع دینے والی ٹیک کمپنیوں کی ایک سیریز کا آغاز ہورہا ہے، اس سریز سےڈیپ سیک کے حیران کن ردعمل سے آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مارکیٹ کی ہنگامہ خیز حرکت ہو سکتی ہے۔ اس دوران، سرمایہ کار چینی اے آئی کمپنیوں کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ سیکسو کے چیف انویسٹمنٹ سٹریٹیجسٹ چارو چنانا کا کہنا ہے کہ چینی ٹیک کمپنیاں بشمول ڈیپ سیک جیسے نئے آنے والے جغرافیائی سیاسی خدشات اور کمزور عالمی مانگ کی وجہ سے نمایاں رعایت پر تجارت کر رہی ہے،دیپ سیک کا عروج کم قیمت والی چینیاے آئی کمپنیوں میں سرمایہ کاروں کی نئی دلچسپی کو جنم دے سکتا ہے، جو ایک متبادل ترقی کی کہانی فراہم کرتا ہے
ٹیم ناکام یا کپتانی میں داغ؟ شان مسعود کی قیادت میں پاکستان کو نویں شکست

شان مسعود کی قیادت میں پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ میں نویں شکست کاسامناکرنا پڑا ۔ملتان سٹیڈیم میں گزشتہ برس جیت کر جانےوالے شان مسعود کے نئے سال کاآغازبہترنہیں ہوا ۔ ملتان میں ہونے والے ویسٹ انڈیز بمقابلہ پاکستان کے دوسرے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو 120 رنز سے ہرا دیا ۔ 254 رنز کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم صرف 133 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئی۔ویسٹ انڈیز نے 35 سال بعد پاکستانی سرزمین پر ٹیسٹ جیت کر تاریخ رقم کر دی۔ شان مسعود اب تک 12 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی قیادت کر چکے ہیں جس میں 9 ٹیسٹ میچز میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ، تین ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کو کلین سویپ کی رسوائی برداشت کرنا پڑی۔ ستمبر 2024ء کو شان مسعود کی کپتانی میں پاکستانی کو تاریخ میں پہلی بار بنگلہ دیش سے ہوم سیریز میں 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں وائٹ واش کی خفت برداشت کرنا پڑی، اس سیریز میں بنگلہ دیش نے ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی بار پاکستان کو 2 میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کرکے تاریخ رقم کی۔ آسٹریلیا کے خلاف جون 2024ء میں پاکستان کو شان مسعود کی کپتانی میں بری طرح سے شکست کھانا پڑی۔اس سیریز میں 3 ٹیسٹ میچز کو آسٹریلیا نے جیت کر کلین سویپ کیا تھا اور پاکستان کو 2023ء کے بعد ایک بار پھر کلین سویپ کا سامنہ کرنا پڑا ۔ نئے سال کے پہلے ہی ہفتے میں پاکستان کو جنوبی افریقہ سے شان مسعود کی کپتانی میں بری طرح سے شکست کا سامناکرنا پڑا۔جنوبی افریقہ نے کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں پاکستان کو 10 وکٹوں سے شکست دے کر 2 میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کیا تھا۔ انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں پاکستان کو 2-1 سے کامیابی ملی ۔شان مسعود کی قیادت میں پاکستان نے 3 ٹیسٹ میچز جیتے وہ بھی ہوم کنڈشنز میں تینوں ٹیسٹ میچز میں اسپین ٹریک بنایا ۔جس میں ساجد خان اور نعمان علی نے جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق ویسٹ انڈیز سے دوسرے ٹیسٹ میں 120 رنز سے شکست کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں صحافی نے پاکستان ٹیسٹ کرکٹ کے کپتان شان مسعود سے سوال کیا کہ آپ اپنا فیصلہ خود کریں گے یا پاکستان کرکٹ بورڈ کرے گا؟ شان مسعود نے پہلے کہا کہ نیکسٹ کوئسچن (اگلا سوال)، پھر جواب دیا کہ ماضی میں جو ہوا اس کا میں جواب نہیں دو ں گا، اب جو ہو رہا ہے اس کا جواب دے رہا ہوں، آپ حقائق پر بات کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں لیکن آپ کی معلومات بالکل غلط ہیں۔ کپتان قومی ٹیم نے کہا کہ آپ بھی اپنے کھلاڑیوں کو عزت دیں، فیصلے کرنا پی سی بی کا کام ہے، جو فیصلے ہوئے مجھ سمیت سب کرکٹرز قبول کرتے ہیں، ہم لوگ اس ملک اور اس ادارے کے ہیں ، ہم لوگ آپ کے بھی لوگ ہیں۔ شان مسعود نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے بے عزت کرنا یہ کوئی بھی برداشت نہیں کرے گا ، آپ کے سوال میں بہت زیادہ تضحیک تھی، آپ نے ایک سوال کے چکر میں دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ، ہم پاکستان کے لئے کھیلتے ہیں جو کوشش کرتے ہیں نتیجہ لانے کے لئے کرتے ہیں۔
شرح سود میں مزید ایک فیصد کمی، اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اعلان

سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے پالیسی ریٹ میں 100 بیس پوائنٹس کی کمی کر کے 12 فیصد کر دی، جو کہ 28 جنوری 2025 سے لاگو ہو گی، مالی سال 25 کے لیے افراط زر اوسطاً 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 100 بیسس پوائنٹس کمی کے بعد شرح سود 12 فیصد ہوگئی ہے. مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں ملک کی معاشی کارکردگی اور مختلف عوامل کا جائزہ لیا اور مہنگائی میں کمی کے بعد 100 بیس پوائنٹس کو کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا کہ شہ سرخی میں افراط زر نیچے کی طرف بڑھ رہا ہے، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ممکنہ توانائی کے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ جیسے خطرات بدستور موجود ہیں، تاہم، بنیادی افراط زر بلند رہتا ہے، جس کی وجہ سے مرکزی بینک محتاط رویہ اپناتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ استحکام سے پہلے مختصر مدت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مالی سال 25 کے لیے افراط زر اوسطاً 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہے گا،کمزور زرعی کارکردگی کی وجہ سے اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.9 فیصد رہی، جو توقعات سے قدرے کم ہے۔ بہتر مالیاتی نظم و ضبط کے باوجود، بنیادی توازن کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہونے کی امید ہے۔ گورنر نے کہاکہ اسٹیٹ بینک نے نجی شعبے کے قرضوں میں اضافے کے ساتھ آٹوموبائلز، کھادوں اور پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ فروخت کا حوالہ دیتے ہوئے معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بہتری کو بھی نوٹ کیا،بیرونی محاذ پرپاکستان نے دسمبر 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ میں 600 ملین ڈالر کا سرپلس پوسٹ کیا، جو کہ مضبوط ترسیلات زر اور برآمدی آمدنی، خاص طور پر ہائی ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے باعث ہے۔ جمیل احمد نے کہا کہ مالی سال 25 کی پہلی ششماہی کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس $1.2 بلین تک پہنچ گیا ہے، مرکزی بینک اس سال کے لیے جی ڈی پی کے 0.5 فیصد کے سرپلس اور خسارے کے درمیان کرنٹ اکاؤنٹ کے متوازن رہنے کی پیش گوئی کرتا ہے،تاہم چیلنجز باقی ہیں۔ اس سال کی پہلی ششماہی میں ٹیکس محصولات میں 26 فیصد اضافہ ہوا لیکن حکومت کے ہدف سے کم رہا، جس سے مالیاتی کارکردگی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے عالمی غیر یقینی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی، بشمول تیل کی غیر مستحکم قیمتوں اور بڑی معیشتوں کے محتاط مانیٹری موقف، اس کے مثبت حقیقی پالیسی شرح کو برقرار رکھنے کے اس کے فیصلے کو متاثر کرنے والے عوامل۔اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر، جو اس وقت قرضوں کی ادائیگی کے دباؤ میں ہیں، جون 2025 تک 13 بلین ڈالر سے تجاوز کر جائیں گے۔ سٹیٹ بنک کے گورنرجمیل احمد کا مزید کہنا ہے کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک پہنچ رہے ہیں. پہلے جس شرح سے مہنگائی بڑھ رہی تھی. روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ جاتی تھیں، جب کہ اب ایسا نہیں ہے، بالخصوص غذائی اشیا کی قیمتیں مستحکم ہیں. تاہم بعض آئٹمز ایسے ہوتے ہیں، جن کی قیمتیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں. ہماری کوشش ہے کہ قیمتوں کو مستحکم رکھا جائے۔ واضح رہے کہ مرکزی بینک نے اپنے آخری اجلاس میں کلیدی پالیسی کی شرح کو 200 پوائنٹس تک کم کر کے اسے 13 فیصد تک کردیا تھا۔اس کے بعد، کمیٹی نے اندازہ لگایا کہ ’جون 2024 سے پالیسی کی شرح میں مجموعی کمی کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور آئندہ چند سہ ماہیوں میں ظاہر ہوتے رہیں گے۔
سینیٹ کمیٹی نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی : کیا اس بل سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہوگی؟

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کو شدید بحث و مباحثے کے بعد منظور کر لیا، تاہم اس بل پر صحافتی تنظیموں کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ بل صحافتی آزادی اور عوامی مفاد کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین فیصل سلیم کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں مختلف ارکان اور صحافتی تنظیموں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اجلاس کے دوران صحافتی تنظیموں نے فیک نیوز کی وضاحت نہ ہونے کو اس بل کی سب سے بڑی خامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں فیک نیوز کے بارے میں کسی معیار کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، جس سے یہ امکان پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ بل غیرضروری طور پر صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہےکہ فیک نیوز کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے معیار اور طریقہ کار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، اور اس کے بارے میں کوئی ٹھوس رہنمائی نہیں فراہم کی گئی۔ ان تنظیموں نے اس بل میں فیک نیوز کی تعریف کو بھی مبہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیاد پر کسی بھی خبر یا مواد کو فیک نیوز کے طور پر قرار دینا ممکن ہو سکتا ہے، جس سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہو گی۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی اس بل کی جلدی منظوری پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ کم وقت میں اس قانون کا بغور مطالعہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کی تفصیل کو سمجھنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہے تاکہ اس کی تمام پہلوؤں کو گہرائی سے جانچا جا سکے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قانون سازی میں جلدبازی سے گریز کیا جانا چاہیے تاکہ اس کے اثرات کو درست طور پر سمجھا جا سکے۔ چیئرمین کمیٹی فیصل سلیم رحمان نے صحافتی تنظیموں سے سوال کیا کہ وہ اپنے تحریری تحفظات کیوں پیش نہیں کر رہے اور ان سے درخواست کی کہ وہ کمیٹی کے سامنے اپنے اعتراضات پیش کریں۔ اس موقع پر صحافیوں کی تنظیموں نے اپنے تحفظات کو واضح کرتے ہوئے اس بل کی بعض شقوں پر سوالات اٹھائے۔ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس بل کے نفاذ سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہو سکتی ہے، جس کے نتائج نہ صرف صحافت بلکہ عوامی مفاد کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس بل کے جواز کو مضبوط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون عوام کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیکا بل میں ترامیم کی گئی ہیں تاکہ اس کا اطلاق بہتر طریقے سے ہو سکے اور فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کی مدد سے حکومت فیک نیوز کے خطرات کو کم کر سکے گی اور عوام کو درست معلومات فراہم کرنے کا عمل مزید موثر بنے گا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی فیک نیوز کے مسئلے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اس حوالے سے قانون سازی ضروری ہے تاکہ عوام کو گمراہ کن معلومات سے بچایا جا سکے۔ تاہم، انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس بل کی تیاری کے دوران صحافیوں اور میڈیا تنظیموں سے مشاورت کی کمی محسوس ہوئی ہے، جو کہ قانون سازی کے عمل کو مزید شفاف اور موثر بنانے کے لئے ضروری تھی۔ کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ یہ بل اگر صحافیوں کی آزادی پر اثر انداز ہو گا تو اس کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔ مختلف ارکان نے کہا کہ اگر اس بل کے ذریعے صحافیوں کے حقوق پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی تو وہ اس کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے۔ آخرکار، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی، تاہم کمیٹی کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ اس بل پر مزید مشاورت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ صحافتی تنظیموں اور دیگر متعلقہ فریقین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بل میں مزید بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے پیکا ترمیمی بل کی منظوری کے باوجود اس بل کے مستقبل پر اب بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، اور اس کی حتمی شکل میں صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
ملک میں امن و امان کے لیے وفاق،صوبوں اور سیکیورٹی فورسز کو ایک پیج پر ہونا ہو گا: لیاقت بلوچ

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا ہاؤس میں آل پارٹیز کانفرنس قوم اتحادکےعنوان سے منعقد کی گئی جس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ملی یکجہتی کونسل کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا ۔پاکستان تحریک انصاف کا اس کانفرنس کا مقصد اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لیے سب کو اکٹھا کرنا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں اتفاق کیا گیا کہ ملک میں امن و امان ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے سب کی باتیں سنی،ہم سب نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وفاق، صوبوں اور سیکیورٹی فورسز کو ایک پیج پر ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ جو معائدے طے پاجاتے ہیں ان پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا؟ جو معاہدے طے پائیں ان پر عملدرآمد بھی ہونا چاہیے ۔ نائب امیر لیاقت بلوچ نے بلوچستان میں مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کہ بلوچستان کے حالات بہت خراب ہیں،وفاق اور سیکورٹی فورسز سمیت تمام جماعتوں کی قیادت کو بلوچستان پر بھی خاص توجہ دینی چاہیے، بلوچستان کے لوگوں کے مسائل اور دکھ درد دور کرنے کے لیے وہاں بھی کانفرنس ہونی چاہیے۔ انھوں نے کانفرنس کا اگلا لائحہ عمل بتاتے ہوئے کہا کہ ملک میں امن و امان کے پیش نظر یہی طے پایا ہے کہ اسی طرض کی وسیع کانفرنس پشاور میں ہوگی اور پھر بلوچستان میں بھی ہوگی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں کمی کردی

اسٹیٹ بینک نے نئے سال کی پہلی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا۔ نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں ایک فیصد کمی کی گئی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ “اسٹیٹ بنک نے شرح سود میں ایک فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ” تمام اعدادوشمار کا جائزہ لینے کے بعد شرح سود میں ایک فیصد کی کمی کی۔ اب شرح سود 13سے کم ہو کر 12 پر آگئی۔ معیشت بہتر رہی ہے لیکن چیلنجز موجود ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ مسلسل 6 ماہ سے سرپلس میں رہا ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ”گزشتہ چند ماہ میں مہنگائی کم ہوئی ہے۔ ملک میں مجموعی زر مبادلہ ذخائر 16 ایشاریہ 19 ارب ڈالر ہیں۔ مرکزی بینک کے زرمبادلہ ذخائر 11 ایشاریہ 44 ارب ڈالر ہوگئے۔دسمبر 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 58 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے سرپلس رہا۔ امید ہے اس ماہ مہنگائی کی شرح میں مزید کمی ہو جائے گی”۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” مال سال 2025 میں جی ڈی پی نمودو ایشاریہ 5 سے 3ایشاریہ فیصد رہے گی”۔ جمیل احمد نے کہا ہے کہ پاکستان کے معاشی اعشاریے مثبت ہیں، مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ خاطر خواہ کم ہوئے، مہنگائی مئی 2023 میں 38 فیصد تھی جو کم ہوکر 4.1 فیصد رہی، جبکہ جنوری میں مہنگائی مزید کم ہوگی۔ اب شرح سود میں کمی ہونے سے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور کاروبار میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا جس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ نوجوانوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے اور کاروبار کے لیے ان کی حوصلہ افزائی میں یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی ۔لیکن شرحِ سود میں مسلسل کمی کے ساتھ امید کی جاسکتی ہے کہ نوجوان کاروباری افراد بھی قسمت آزمائی کے لیے متحرک ہوں گے۔ اگر علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت بھی خطے کے تمام ممالک میں شرح سود کے لحاذ سے اوپر ہے۔ بھارت اور نیپال میں شرح سود 6.5 فیصد ہے۔ سری لنکا میں 8.25 فیصد اور بنگلہ دیش میں 10 فیصد ملک میں افراطِ زر کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آنے کے بعد شرح سود کو بھی سنگل ڈیجٹ میں آنا چاہیے اس طرح پاکستان علاقائی ممالک کے قریب آ جائے گا ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جمیل احمد کا کہنا ہے کہ 2025 میں پاکستان کا پہلا نیا نوٹ جاری ہو جائے گا۔جمیل احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ رواں سال نئے کرنسی نوٹوں کا اجرا شروع ہو جائے گا، اس سال کرنسی نوٹ کے نئے ڈیزائن والے نوٹ مارکیٹ کر دیں گےگورنر سٹیٹ بینک نے بتایا کہ نئے ڈیزائن مرحلہ وار پرنٹ کیے جائیں گے، سٹیٹ بینک نئے نوٹ کی تکنیکی ویلیوایشن کر رہا ہے، نئے نوٹ کو جلد منظوری کیلیے کابینہ کے سامنے پیش کریں گے۔
منشیات کی شناخت پر جج کا حیران کن ردعمل: چرس،کھجور یا کرسٹل؟

کراچی شہر کے دل، لیاری کے علاقے کلاکوٹ میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا، جس نے عدالت کو بھی حیران کن صورتحال میں مبتلا کر دیا۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساؤتھ کی عدالت میں منشیات کے مقدمے کی سماعت ہوئی جہاں ایک ملزم کے قبضے سے برآمد ہونے والی منشیات کی حقیقت کو لے کر نئی بحث چھڑ گئی۔ مئی 2023 میں کلاکوٹ پولیس نے ملزم غلام مصطفیٰ کے قبضے سے 3 کلو چرس اور 300 گرام کرسٹل برآمد کیا تھا، لیکن جب کیس پراپرٹی کو عدالت میں پیش کیا گیا تو وکیل صفائی نے دعویٰ کیا کہ یہ چرس نہیں، بلکہ کھجور ہے۔ اس پر عدالت نے فوری طور پر کیس پراپرٹی کا معائنہ کیا، اور جج بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ “یہ اشیا چرس کی بجائے کھجور جیسی خوشبو دے رہی ہیں”۔ جج کی یہ آبزرویشن بھی کیس کے ریکارڈ کا حصہ بن گئی، اور تفتیشی افسر سے اس کی وضاحت طلب کی گئی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کیونکہ یہ واقعہ منشیات کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے ایک نیا سوالیہ نشان بن گیا۔ کیا یہ ایک نیا طریقہ ہے جس کے تحت منشیات کو عام اشیاء کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے؟ یہ سوال اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ منشیات کی تجارت میں ملوث افراد کس حد تک جرات مندانہ حربے استعمال کر رہے ہیں۔ منشیات کی دنیا ایک سیاہ حقیقت ہے جس میں چرس، ہیروئن، کوکین اور کرسٹل جیسے مہلک مواد شامل ہیں۔ چرس ایک معروف نشہ آور مادہ ہے، جو گانجے کے پودے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے نشے کا اثر انسان کی ذہنی اور جسمانی حالت پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، اور یہ کئی سالوں سے دنیا بھر میں منشیات کے عادی افراد میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کرسٹل میتھ جو کہ ایک قسم کی ہیروئن یا آئس ہے اس کا استعمال بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ ذہنی امراض کا بھی باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں منشیات کے خاتمے کے لیے کئی ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں پاکستان نارکوٹکس کنٹرول بورڈ، اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) اور مختلف نجی تنظیمیں شامل ہیں۔ یہ ادارے مختلف سطحوں پر منشیات کے خلاف آگاہی پھیلانے، قیدیوں کی بحالی کے پروگرامز، اور منشیات کے خلاف قوانین کے نفاذ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں کا مقصد نوجوانوں کو منشیات سے بچانا اور اس غیر قانونی تجارت کو جڑ سے ختم کرنا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ معاشرتی سطح پر آگاہی اور تعلیم ہی منشیات کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار ہیں۔ لیاری کے علاقے میں ایک اور منشیات کا کیس سامنے آیا، جس میں انسداد منشیات کورٹ نے ملزم طارق عزیز کو 20 سال قید کی سزا سنا دی۔ یہ فیصلہ 108 کلو چرس برآمدگی کیس میں سنایا گیا، جہاں ملزم کے قبضے سے 90 پیکٹ چرس برآمد ہوئی تھی۔ عدالت نے ملزم پر 8 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ طارق عزیز نے اپنے دفاع میں کہا کہ چرس برآمد ہونے کے وقت وہ اس جگہ سے دور تھا، مگر عدالت نے اس کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے سزا کا فیصلہ سنایا۔ یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان میں منشیات کے خلاف جنگ روز بروز شدت اختیار کر رہی ہے، اور اسے جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہمیں اداروں کی مدد اور عوامی سطح پر آگاہی کی ضرورت ہے۔ اگر یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے تو وہ تب جب ہم منشیات کی اس لعنت کا سدباب کر سکیں اور ان مافیا گروپوں کو شکست دے سکیں جو ہماری نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
لاہور ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی ائیرہوسٹس کی اسمگلنگ کوشش پکڑی گئی

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی فضائی میزبان کی ایک اور موبائل فون اسمگلنگ کی کوشش پکڑی گئی ہے جس کے بعد ایئر لائن کی انتظامیہ میں شدید ہلچل مچ گئی ہے۔ یہ واردات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پی آئی اے کے اندر اس قسم کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے کڑی نگرانی کی جا رہی تھی۔ یہ واقعہ 25 جنوری کو پیش آیا جب پی آئی اے کی فضائی میزبان نے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اپنی معمول کی پرواز “پی کے 264” سے واپسی کے بعد کسٹم حکام کی جانب سے روکا گیا۔ ایئرپورٹ پر معمول کی تلاشی کے دوران فضائی میزبان کے سامان سے متعدد مہنگے موبائل فونز برآمد ہوئے، جنہوں نے کسٹم حکام کے ہوش اُڑا دیے۔ یہ اسمگلنگ کی کوشش پی آئی اے کے لیے ایک اور شرمندگی کا باعث بنی، کیونکہ یہ واردات حالیہ ہفتوں میں پی آئی اے کے عملے کی جانب سے اسمگلنگ کی تیسری بڑی کارروائی ہے۔ ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کا نظام انتہائی مضبوط ہےجہاں نہ صرف جدید ترین اسکننگ مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے بلکہ کسٹم حکام بھی مسلسل فضائی عملے پر نظر رکھتے ہیں۔ پھر بھی اس طرح کی اسمگلنگ کی کوششیں کس طرح کامیاب ہو جاتی ہیں؟ یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں ابھر رہا ہے۔ موبائل فونز کی اسمگلنگ کا یہ سلسلہ ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ رواں مہینوں میں متعدد فضائی میزبان اور دیگر عملے کے ارکان اس گھناؤنے کام میں ملوث پائے گئے ہیں، جنہوں نے دبئی اور ابوظبی جیسے اہم ایئرپورٹس سے واپسی پر موبائل فونز اسمگل کرنے کی کوشش کی۔ ان افراد نے نہ صرف ایئرپورٹ سیکیورٹی کو دھوکہ دینے کی کوشش کی بلکہ پی آئی اے کے اچھے نام کو بھی نقصان پہنچایا۔ پی آئی اے انتظامیہ نے فوری طور پر متاثرہ فضائی میزبان کو معطل کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ تحقیقات جاری ہیں اور اگر فضائی میزبان کو قصوروار پایا گیا تو اسے سخت ترین سزا دی جائے گی۔ پی آئی اے کے ترجمان نے مزید بتایا کہ اس معاملے میں کوئی بھی رتی برابر رعایت نہیں برتی جائے گی کیونکہ کمپنی کی پالیسی کے تحت اس قسم کی سرگرمیوں کو بالکل بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایئرلائن کے اس بدنام عملے کے ساتھ ساتھ کسٹم حکام کی سخت نگرانی بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے، کیونکہ حالیہ وارداتوں نے ظاہر کیا کہ اس میں ملوث افراد انتہائی چالاک اور تجربہ کار ہیں۔ ان کے لیے ایئرپورٹ سیکیورٹی کا چیکنگ عمل معمولی سی رکاوٹ بن جاتا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ غیر قانونی سامان اسمگل کرتے ہیں۔ اس سے قبل ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 78 موبائل فونز کی اسمگلنگ کی کوشش کے دوران 2 اسٹیورڈز سمیت 5 ملازمین کو معطل کیا گیا تھا۔ ان کارروائیوں کے پیچھے جو بھی سازش ہو اس میں ایک بات واضح ہےکہہ پی آئی اے اور ایئرپورٹ سیکیورٹی کے لیے یہ سنگین چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ یہ وارداتیں نہ صرف پی آئی اے کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی کی عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ حکام نے اعلان کیا ہے کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور اس میں ملوث تمام افراد کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کی جائے گی۔ یہ گھناؤنی اسمگلنگ کی واردات نہ صرف فضائی میزبانوں کی بے ایمانی کی مثال ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ سیکیورٹی سسٹم کے باوجود اس طرح کی سرگرمیاں روکنا ایک مسلسل جنگ کی طرح ہے۔