جنوبی لبنان اور غزہ میں اسرائیلی حملوں کی تباہی،مزید 11افراد ہلاک، لاکھوں بے گھر

جنوبی لبنان کے خطے میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 11 مزید افراد جاں بحق اور 83 زخمی ہو گئے ہیں، جن میں متعدد عام شہری بھی شامل ہیں۔ ان حملوں کی شدت نے نہ صرف لبنان میں ایک اور انسانی المیے کو جنم دیا بلکہ اس نے خطے کے سیاسی اور فوجی محاذ پر ایک نیا تنازعہ بھی کھڑا کر دیا ہے۔ لبنانی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں سب سے زیادہ تباہی ایترون، بلاہ، حولا، مارکابہ اور کفار کیلا میں ہوئی۔ ان علاقوں میں تین تین افراد ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی فورسز نے ان علاقوں میں مسلسل گولہ باری کی ہے جس کے نتیجے میں کئی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایک لبنانی فوجی بھی ان حملوں میں ہلاک ہوا جو اس بات کی علامت تھا کہ اسرائیلی فورسز کے ساتھ تصادم اب محض سرحدوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ ایک نئی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس صورتحال میں ایک اور خطرناک پہلو جنوبی لبنان کے شہریوں کی اپنے گھروں کی طرف واپسی کا تھا۔ ہزاروں لبنانی شہری جنہیں جنگ کی وجہ سے اپنی جگہوں سے نقل مکانی کرنی پڑی تھی، اسرائیلی فوجی بندشوں کے باوجود اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے تھے۔ ان شہریوں میں خواتین، بچے، بزرگ اور نوجوان سبھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک خاتون فاطمہ نے کہا کہ “ہمیں اپنے گھروں میں واپس جانا ہے، چاہے اس کے لیے ہمیں اپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑے۔” اسرائیلی فورسز نے ان شہریوں کو روکنے کے لیے سخت طاقت کا استعمال کیا، اور مسلسل فائرنگ کی۔ اس دوران کئی لوگ اسرائیلی فوج کے ساتھ تصادم میں مارے گئے۔ ایک محمد نامی شخص نے کہا کہ “ہم یہاں صرف اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے آئے ہیں، ہم مسلح نہیں ہیں، ہم صرف اپنے علاقے کے لوگ ہیں۔” ان کی یہ بات ایک بڑے سوال کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کیا اسرائیل جنوبی لبنان میں مستقل قبضہ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ اسی دوران اسرائیل نے غزہ کی شمالی حدود پر بھی اپنا کنٹرول مضبوط کیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی باشندے واپس اپنے گھروں کی طرف جانے میں ناکام رہے۔ غزہ کی سویلین دفاعی ایجنسی نے کہا ہے کہ ہزاروں فلسطینی شمالی غزہ کی طرف جانے کے لیے ایک اہم راستے پر روک دیے گئے ہیں۔ ان افراد میں بوڑھے، بیمار، اور بے گھر لوگ شامل ہیں جو اپنے گھروں کی طرف واپس جانے کے لیے بے چین ہیں۔ غزہ کی صورت حال بھی مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے جہاں ہزاروں فلسطینی ابھی تک اپنے گھروں کے ملبے میں دفن ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک بزرگ فلسطینی شہری جس کا نام جمیل یاسین ہے وہ کہتے ہیں کہ”میرا دل اپنے گھر میں واپس جانے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ میرا گھر اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے مگر پھر بھی میں وہاں واپس جانا چاہتا ہوں جہاں میں نے اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے تھے۔” دوسری جانب اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سائر نے حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اسرائیل کو 2,000 پاؤنڈ بموں کی ایک بڑی کھیپ فراہم کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس بموں کا استعمال جنوبی غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کیا گیا جس سے مزید تباہی ہوئی ہے۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ دفاعی ضروریات ہیں لیکن اس اسلحے کا استعمال نہ صرف فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے، بلکہ پورے خطے میں امن کے لیے ایک بڑی دھچکہ بھی ہے۔ ایک طرف اسرائیل اپنے جنگی عزائم کو بڑھا رہا ہے، تو دوسری طرف لبنان کے شہری اپنے گھروں کی طرف واپس جانے کے لیے اپنے خون کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں افراد اب بھی اس تنازعے کی قیمت ادا کر رہے ہیں اور ہ صورتحال اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ اس جنگ کا کوئی فوری خاتمہ نظر نہیں آتا۔ یونائیٹڈ نیشنز نے جنوبی لبنان میں شہریوں کی واپسی کو خطرے میں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت حالات اس قدر سنگین ہیں کہ شہریوں کے لیے وہاں واپس جانا محفوظ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر حالات بہتر نہ ہوئے تو اس انسانی بحران کا مزید بگڑنا ممکن ہے۔ اس منظر نامے میں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا عالمی برادری اس خونریزی کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گی؟ یا جنوبی لبنان اور غزہ میں پھنسے لاکھوں بے گناہ لوگ ہمیشہ کے لیے اس ظلم کی قیمت چکاتے رہیں گے؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جو اس وقت پورے مشرق وسطیٰ کے امن اور استحکام کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

ویسٹ انڈیز نے 35 سال بعد ’قبرستان‘ میں پاکستان کا بدلہ چکادیا

ملتان میں ہونے والے ویسٹ انڈیز بمقابلہ پاکستان کے دوسرے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو 120 رنز سے ہرا دیا ۔ 254 رنز کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم صرف 133 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئی۔ویسٹ انڈیز نے 35 سال بعد پاکستانی سرزمین پر ٹیسٹ جیت کر تاریخی کامیابی حاصل کر لی ہے۔اس طرح دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک ایک سے برابر ہو گئی ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگ میں ویسٹ انڈیز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 163 رنز بنائے۔ گوڈاکیش موتی 55 اور جومیل واریکن نا قابلِ شکست 36 رنز بنا کر نمایا ں رہے۔ جب کہ پاکستان کے جانب سے نعمان علی نے کمال کارکردگی دکھاتے ہوئے  6 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ پاکستانی ٹیم بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 154 رنز بنا سکی جس میں محمد رضوان 49 رنز اور سعود شکیل 32 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ جب کہ ویسٹ انڈیز کی جانب سے جومل واریکن نے 4 اور گوڈاکیش موتی نے 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ دوسری اننگ میں ویسٹ انڈیز نے بیٹنگ کرتے ہوئے 244 رنز بناتے ہوئے 254 رنز کا ہدف دیا جس میں کریگ براتھویٹ نے نصف سینچری بنائی ۔ پاکستانی باؤلرز میں سے ساجد خان اور نعمان علی نے چار چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ہدف کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم  133 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔  بابر اعظم سب سے زیادہ 31 رنز بنا سکے۔ ویسٹ انڈیز کی جانب سے جومل واریکن نے 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ یوں 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک ایک سے برابر ہوگئی ہے۔ یادرہے کہ ملتان کو غیرملکی ٹیموں کا قبرستان کہا جاتا ہے، گزشتہ ٹیسٹ میں پاکستانی کرکٹر محمد رضوان نے ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کو ’قبرستان میں خوش آمدید‘ کہا تھا ۔

سپریم کورٹ: پروسیجر اور ججز کمیٹی کے اختیارات کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا گیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کے کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے انہیں توہین عدالت کے شوکاز نوٹس سے ڈسچارج کر دیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے اس فیصلے کی تشریح کی۔ عدالت نے کہا کہ نذر عباس نے جان بوجھ کر توہین عدالت نہیں کی اور ان کے خلاف جاری شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا گیا۔ فیصلے میں واضح کیا گیا کہ نذر عباس نے غیر ارادی طور پر ایک دوسرے بنچ اور کمیٹی کو کیس بھیجا، جس سے کسی فریق کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ عدالت نے اس عمل کو غیر دانستہ اور بے ضرر قرار دیتے ہوئے توہین عدالت کا الزام ختم کر دیا۔ تاہم، عدالت نے یہ بھی کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی کی اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ انتظامی کمیٹی کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی جوڈیشل آرڈر کو واپس لے سکے۔ جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی کی صورت میں صرف فل کورٹ ہی اس پر فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ آئینی اور ججز کمیٹیوں کے اقدامات کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کے تحت آئے گا۔ اس فیصلے کے بعد، سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کے شوکاز نوٹس کو واپس لے لیا، اور اس معاملے کو مزید غور و خوض کے لیے چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا۔ اس کے علاوہ، سپریم کورٹ نے دائرہ اختیار سے متعلق مرکزی کیس کے بارے میں فیصلہ کرنے کی تاریخ بھی متعین کی، جو فروری کے پہلے ہفتے میں مقرر کیا جائے گا۔ اس فیصلے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ انتظامی کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، اور اس معاملے میں چیف جسٹس کے پاس فل کورٹ تشکیل دینے کا اختیار ہے۔

امریکی حکومت کا غیر ملکی امداد روکنے کا حکم، ہزاروں افغانوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے “امریکہ فرسٹ” کے نعرے کے تحت غیر ملکی ترقیاتی امداد کو 90 دن کے لیے روکنے کا حکم دے دیا، جس کا مقصد امداد کے استعمال میں بہتری لانا اور اس کے معیار کو اپنی پالیسیوں کے مطابق ڈھالنا تھا۔ جس کے نتیجے میں صحت، غذائی مدد، ویکسینیشن اور دیگر اہم منصوبوں کی فراہمی میں خلل پڑ گیا ہے۔ ماہرین اور امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ روک تھام خاص طور پر افغانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں اسپیشل امیگرنٹ ویزا (SIV) پر امریکا منتقل ہونے والے افغانوں کی مدد کرنے والی تنظیموں کے فنڈز بھی روک دیے گئے ہیں۔ ان افغانوں نے امریکی حکومت کے ساتھ مل کر جنگ لڑی تھی اور اب وہ امریکہ میں پناہ لینے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ وی این ڈیور نے کہا کہ انہیں یقین نہیں آتا کہ یہ پروازوں کی معطلی جان بوجھ کر کی گئی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ایک غلطی ہے، اور وہ امید کرتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ افغانوں کے لیے استثنٰی  منظور کرے گی، خاص طور پر ان افغانوں کے لیے جنہوں نے امریکا کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا۔ سی این دیور کا کہنا ہے کہ”وہ ہمارے ساتھ لڑے، ہمارے ساتھ خون بہایا”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لاکھوں افغان اب بھی ایس آئی وی درخواستوں کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس وقت تقریباً 40,000 افغان شہریوں کی تقدیر ڈانواں ڈول ہے جن میں ایس آئی وی ہولڈرز بھی شامل ہیں جو قطر اور البانیا میں ویزا پروسیسنگ سینٹرز میں امریکہ آنے کے لیے تیار ہیں۔ ان سب میں وہ افغان بھی شامل ہیں جو افغانستان اور پاکستان میں امریکا کی پروازوں کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ انہیں ان پروسیسنگ سینٹرز میں بھیجا جا سکے۔ اس کے علاوہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ 2021 کی امریکی فوجی واپسی کے بعد سے تقریباً 2 لاکھ افغانوں کو امریکہ میں پناہ دی گئی ہے۔ان میں سے بیشتر ایس آئی وی کے ذریعے آئے ہیں یا پناہ گزینوں کے طور پر امریکہ میں بس گئے ہیں، لیکن اب ٹرمپ کے نئے حکم کے بعد ان کی حالت انتہائی نازک ہو گئی ہے۔ امریکی حکومت نے پناہ گزینوں کی تنظیموں کی مدد بھی روک دی ہے جس کے باعث افغان پناہ گزینوں کو امریکہ جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے مطابق تمام پناہ گزینوں کی ریسٹلمنٹ پروگرامز بھی معطل کر دیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں افغان خاندانوں کی امیدیں چکنا چور ہو گئی ہیں اور جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو افغان امریکی فوجی اہلکاروں کے اہل خانہ ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کی رپورٹیں بھی شدت اختیار کر چکی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے سابق افغان فوجیوں اور حکومت کے عہدے داروں کو گرفتار، تشدد اور قتل کیا ہے۔  اس سب کے باوجود طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں اور اپنے عمومی معافی کے اعلان کو برقرار رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا امریکی حکومت ان افغانوں کے لیے کوئی مثبت فیصلہ کرے گی یا ان کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو گی۔

“ہم نے گوما پر قبضہ کر لیا ہے” کانگو کے باغیوں کا دعوی

کانگو کے باغیوں نے اتوار کے روز کہا کہ انہوں نے معدنیات سے مالا مال ملک کے مشرق میں واقع سب سے بڑے شہر گوما پر بجلی گرنے کی پیش قدمی کے بعد قبضہ کر لیا ہے جس نے ہزاروں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے اور علاقائی جنگ کے خدشات کو ہوا دی ہے۔ ۔””ہم نے گوما کوقبضے  لے لیا ہے اور فوجیوں کو مقامی وقت کے مطابق صبح 3 بجے تک ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا ہے  کانگو ریور الائنس کے رہنما کارنیلی نانگا نےکہا اس بات کا تعین کرنا ابھی مشکل ہے کہ کیا شہر مکمل طور پر باغیوں کے کنٹرول میں تھا۔ کنشاسا حکومت اور فوج کے ترجمانوں نے فوری طور پر ہمارے سوالوں کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ باغیوں نے اس ماہ ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کے تنازعات سے متاثرہ مشرقی سرحدی علاقوں میں ایم  23 باغیوں نے تیزی سے زمین حاصل کر لی ہے اور اس ہفتے کے شروع میں شمالی کیوو صوبے کے دارالحکومت گوما پر حملہ شروع کر دیا ہے۔ اتوار کی شالم تک شہر کے مرکز سے تقریباً 9 کلومیٹر (5 میل) دور ملحقہ علاقے مونیگی تک ایم 23 فائٹرز پہنچ چکے تھے۔ نانگا نے کہا “گوما ہمارے ہاتھ میں ہے” باغیوں نے اس سے قبل اتوار کو دفاع کرنے والی سرکاری افواج کو غیر مسلح ہونے اور ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ داخل ہونے اور کنٹرول حاصل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مذاکرات میں نانگا نے کہا  کہ باغیوں نے فوجی افسران کو گوما چھوڑ کر بوکاؤ  جانے کی اجازت دی ہے۔ ایم 23 کے ترجمان ولی نگوما نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ہم نے (کانگو فورسز) کو ہتھیار ڈالنے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا۔ الٹی میٹم گزر چکا ہے، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ وہ اپنا فوجی سازوسامان (یو این مشن)  جمع کروا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہتھیار ڈالنے والے سرکاری فوجیوں کو صبح 3بجے کی مقررہ تاریخ سے پہلے شہر کے ایک اسٹیڈیم میں جمع ہونا تھا۔ ایک اور باغی نے ایکس پر لکھا کہ کیوو جھیل پر تمام کشتیوں کی آمدورفت معطل کر دی گئی ہے۔ شہر کے رہائشیوں نے اطلاع دی کہ رات کے بعد مختلف علاقوں میں گولیوں کی آوازیں سنائی دیں، لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کوئی گولی چلا رہا ہے یا لڑائی جاری ہے۔ اس دوران گوما کا بیشتر حصہ بجلی منقطع ہونے کی وجہ سے تاریکی میں ڈوب گیا۔ باغیوں کے گوما پر قبضہ کرنے کے لیے تیار دکھائی دینے کے ساتھ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اتوار کو اس صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے میٹنگ کی، اس خدشے سے کہ لڑائی ایک وسیع علاقائی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کو بڑھا سکتی ہے۔  

کراچی کے نوجوان کی جدید ایجاد! اب اے آئی ویڈیوز کی حقیقت معلوم ہو سکے گی، مگر کیسے؟

آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ اب اے آئی کی مدد سے تصاویر کے ساتھ ساتھ ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ کراچی کے نوجوان نے ایک ایسا سوفٹ ویئر بنا دیا ہے جس کی مدد سےاے آئی سے بنائی گئی ویڈیوز کی حقیقت معلوم ہوسکے گی۔ میمن انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں مینیجمنٹ سائنس کے طالب علم جہانذیب خان نے یہ کارنامہ کراچی میں ہونے والے سائنس ایکسپو میں انجام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ” ہم نے ایف آئی اے کا پروجیکٹ بنایا ہے جو کہ ڈیپ فیک ویڈیو ڈیٹیکٹ کرتا ہے۔ آج کل اے آئی سے بہت سی ڈیپ فیک ویڈیوز بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کو ڈیٹیکٹ نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک پروٹوٹائپ بنایا ہے ۔ اس کو کوئی بھی وڈیو دکھائیں گے تو یہ بتائے گا کہ یہ ویڈیو اے آئی سے بنی ہے یا اصلی ویڈیو ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ “ابھی یہ صرف پروٹوٹائپ ہے لیکن ہم جلد ہی اسے ویب سائٹ اور ایپلیکیشن کے طرف لا رہے ہیں”۔

’ہم سڑکوں پر سورہے ہیں‘ جنگ بندی معاہدے کے بعد بھی فلسطینیوں کی مشکلات کم نہ ہوسکیں

دنیا بھر کی نظریں اس وقت غزہ پر مرکوز ہیں جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان 19 جنوری کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد قیدیوں کے تبادلے کا سلسلہ جاری ہے،حماس سے کی قید سے رہائی پانے والے مسکراتے ہوئے اپنے وطن لوٹ رہے ہیں جبکہ اسرائیلی قید سے نکلنے والے قابل ترس حالت میں باہر آرہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اس ہفتے حماس چھ یرغمالیوں کو آزاد کرے گا اور اسرائیل غزہ کے شمالی علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کو واپس جانے کی اجازت دے گا۔ اس معاہدے کے تحت حماس نے اتوار کو چار اسرائیلی فوجیوں کو رہا کیا تھا مگر شہری اربیل یهود کا معاملہ اب تک حل نہیں ہو سکا تھا، جس نے اسرائیل کو یہ الزام عائد کرنے پر مجبور کر دیا کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل کے مطابق حماس کو سب سے پہلے اسرائیلی شہریوں کو رہا کرنا تھا اور پھر فلسطینی قیدیوں کو چھوڑنا تھا۔ لیکن اربیل یهود کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا جس کے باعث غزہ کے شمالی حصے میں فلسطینیوں کی واپسی میں تاخیر ہوئی۔ اس کے بعد یہ تنازعہ ختم ہوا اور حماس نے 31 جنوری کو اربیل یهود سمیت تین دیگر یرغمالیوں کو آزاد کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ معاہدہ قطر اور مصر کی ثالثی میں ہوا تھا اور اس میں بڑی عالمی طاقتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل اتوار کے روز سے فلسطینیوں کو شمالی غزہ واپس جانے کی اجازت دینے پر رضامند ہو گیا۔ وہ لوگ جو طویل عرصے سے شمال کی طرف جانا چاہتے تھے، اب بالآخر اپنے گھروں تک پہنچنے کی امید کر رہے ہیں۔ تاہم، اس راستے پر اب بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے اور وہاں موجود لوگ جنہوں نے اپنے گھروں کو چھوڑا تھا جبکہ اب بھی غزہ کے جنوبی علاقے میں کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ غزہ کے شمال میں جانے کی کوشش کرنے والے ہزاروں فلسطینی جو ہفتوں سے فوجی رکاوٹوں کا سامنا کر رہے تھے وہ سب ایک نئی امید کے ساتھ بارڈر پر جمع ہو گئے ہیں۔ تاہم ان میں سے بیشتر سردی اور خوف کا شکار ہیں بی بی سی کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ”ہم سڑکوں پر سو رہے ہیں، ہم اپنے گھروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہر بار ہمیں گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔” ان کے مطابق غزہ کے جنوبی علاقے میں ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے اور وہ کئی دنوں سے بارڈر کے علاقے میں موجود ہیں۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز پیش کی کہ مصر ، اردن اور فلسطینیوں کو اپنے ملکوں میں پناہ دینا چاہیے، لیکن اس تجویز کو حماس اور فلسطینی اتھارٹی نے سختی سے مسترد کر دیا اور مصر و اردن نے بھی اس کو رد کر دیا۔ یہ سچ ہے کہ اس جنگ بندی معاہدے نے 7 اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے اختتام کی امید پیدا کی ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل کے 1,200 شہری مارے گئے جبکہ 251 اسرائیلی یرغمالی بنائے گئے۔ دوسری طرف، غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 47,200 فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جن میں بیشتر عام شہری شامل ہیں۔ اب جب کہ یہ معاہدہ مرحلہ وار مکمل ہو رہا ہےپوری دنیا نظریں جمائے ہوئے ہے کہ آیا یہ جنگ بندی طویل المدت امن کا پیش خیمہ ثابت ہو گی یا پھر یہ محض ایک عارضی عہد ہے جس کے بعد دوبارہ خونریز تصادم شروع ہو جائے گا؟ غزہ کے لوگ اس سوال کا جواب چاہتے ہیں۔

پوری دنیا سے اجڑنے کے بعد نسل کشی کرنے لگے، تاریخ گواہ ہے!

یہودیوں کا نسل کشی سے تعلق آج سے نہیں ،بلکہ 2 ہزار سال پہلے سے ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں یہودیوں کے ساتھ بد ترین سلوک روا رکھا گیا ۔ 2ہزار سال پہلے روم کے باشندوں نے یہودیوں کو موجودہ اسرائیل سے نکال دیا تھا۔ اس علاقے سے نکلنے کے بعد یہودی پوری دنیا میں پھیلنے لگے مگر زیادہ تر اقوام نے انہیں قبول نہیں کیا۔ آج وہی قوم موجودہ اسرائیل اور فلسطین میں موجود ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ جرمنی میں ہونے والی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی ،جسے ہالوکاسٹ کہا جاتا ہے،کے بعد بچ جانے والے یہودیوں نے یہ ضرورت انتہائی زیادہ محسوس کی کہ ان کا ایک الگ وطن ہونا چاہیے۔ ان کی یہ ضرورت14 مئی 1948 کو پوری ہوئی جب فلسطین میں یہودیوں نے اسرائیل کے نام سے اپنی ریاست کا اعلان کیا۔ اس زمین سے یہودیوں ، مسلمانوں  اور عیسائیوں  کی عقیدت کی بنیادی وجہ یہاں موجود مذہبی مقامات ہیں جو تینوں مذاہب کے لوگوں کے لیے مقدس ہیں۔ اسی وجہ سے تینوں مذاہب کے لوگ اس زمین کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو یہاں ہونے والی نسل کشی کی وجوہات میں سب سے اہم ہے۔ جب سے یہودیوں نے یورپ چھوڑکر فلسطین میں آباد کاری شروع کی ہے، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ 1947 میں اقوامِ متحدہ نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم  کر دیا جائے جبکہ یروشلم کو بین الاقوامی شہر  بنایا جائے۔ تاہم جب 1948 میں اسرائیلی ریاست کا اعلان ہوا تو اگلے ہی روز مصر، اردن، شام اور عراق نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ یہ پہلی عرب اسرائیل جنگ تھی،جس کے بعد جہاں عرب ریاست بننا تھی وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آگیا۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے عرب اتحاد کو شکست دے کر ان کے مختلف علاقوں پہ قبضہ کر لیا۔ جن میں مصر سے غزہ کی پٹی اور سینائی، شام سے گولان اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت غرب اردن شامل ہیں۔ 1973 کو مصر اور شام نے اپنے علاقے چھڑانے کے لیے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔  تاہم کچھ برس بعد دونوں ممالک نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا اور اپنے علاقے واپس لے لیے۔ فلسطین میں حماس نامی ایک عسکری گروہ برسرِاقتدار ہے اور اسرائیل کے ساتھ مسلسل جنگی حالت میں ہے۔ حماس نے 2007 میں فلسطین میں اقتدار سنبھالا۔ تب سے اب تک اسرائیل اور حماس کے بیچ متعدد جنگیں ہو چکی ہیں۔ خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق، 2جنوری 2025  تک فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جنگ میں صرف غزہ میں 45،581 لوگ مارے گئے ہیں جن میں 17،492 بچے شامل ہیں اور 11،160 لوگ لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ 108،438لوگ زخمی ہیں۔ حماس کے حملوں سے اسرائیل میں 1،139لوگ مارے گئے ہیں۔ 4 جنوری کو اسرائیل کی جانب سے غزہ پہ دوبارہ بمزگرائے گئےجس میں 150 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ غزہ میں آدھے سے زیادہ لوگوں کے گھرتباہ ہوچکے ہیں۔ 88 فیصد سکول اور 68 فیصدسڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 200 سے زائد  فلسطینی شہریوں اور صحافیوں کو مارا جا چکا ہے۔ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کے 65 احکامات جاری کیے ہیں جب کہ فلسطینی غزہ کو اپنا وطن مانتے ہیں اور اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ نے انسانیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ جنگ بندی ہوچکی مگر اسرائیل ابھی بھی بمباری سے باز نہیں آرہا۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان علی فانی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہالوکاسٹ کے اسرائیلی عوامی پر نفسیاتی اثرات سے متعلق کھل کر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ” دنیا بھر میں رومن سلطنت سے لے کر پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک مغربی عیسائی ریاستوں اور اقوام نے یہودیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، وہ انتہائی تکلیف دہ اور دل شکن تھا۔ اس عرصے میں صرف مسلم دنیا نے ہی یہودیوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ جینے کے مساوی حقوق دیے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “تاریخی طور پر جب 1492 میں سپین سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو عیسائی حکام نے وہاں کے تمام یہودیوں کو عیسائیت قبول کرنے کی شرط رکھی، یا پھر سپین سے نکل جانے کو کہا۔ اس کے بعد جو یہودی سپین سے نکلے انہیں سلطنت عثمانیہ نے خوش آمدید کہا اور اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی۔ مغربی عیسائی ریاستوں کی تاریخ یہودیوں کے ساتھ بدسلوکی کی داستان ہے جس کے نتیجے میں یہودی صدیوں تک دربدر رہے۔ عیسائی ریاستوں نے ان یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کی تجویز اس لیے پیش کی کہ وہ اپنے ملکوں سے انہیں نکال سکیں”۔ دوسری جانب گورنمنٹ گرونانک گریجوایٹ کالج ننکانہ صاحب کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر محمد بلال نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہالوکاسٹ کے اسرائیلی عوام پر اثرات کے حوالے سے کہا کہ ” ہولوکاسٹ نے اسرائیل کی قومی اور خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ ہولوکاسٹ کے بعد اسرائیل کی تشکیل ایک محفوظ وطن فراہم کرنے کے مقصد کے تحت ہوئی جہاں یہودیوں کو کسی بھی ممکنہ مظالم سے تحفظ مل سکے۔ یہ نظریہ اسرائیل کی قومی شناخت کا مرکزی عنصر ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہولوکاسٹ کا ذکر اسرائیل کے عالمی تعلقات اور سلامتی کے معاملات میں ایک اہم دلیل کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت اور خودمختاری کے تحفظ کو یقینی بنانے کی پالیسی اسی تجربے سے متاثر ہے۔ ہولوکاسٹ کے اثرات کی وجہ سے اسرائیل نے عالمی برادری سے ہمدردی اور مالی امداد حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی”۔ فلسطینی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ ” تاریخ میں یہودیوں کے ساتھ ہونے والی ہولوکاسٹ یا نسل کشی کی طرح آج فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے وہ اسی ظلم کی دہائی ہے۔1917 میں بالفور ڈیکلیریشن کے تحت